حضرت امام علی علیه السلام  کی چند احادیث (1)

1- لا يُحِبُّنی الاّ مومن وَ لا يُبْغِضُنی الاّ مُنافِق‌ٌ

مجه سے مومن کے علاوه کوئی محبت نهیں کرے گا اور منافق کے علاوه کوئی بغض و دشمنی نهیں کرے گا.

بلاشک که حقیقی ایمان کا ایک معیار جهت معین کرنا اور محبت و دوستی هے. هم کسی شخص  یا کسی چیز کو کیوں چاهتے هیں؟ اور کسی شخص سے یا کس چیز سے کیوں نفرت کرتے هیں؟ یه چیزیں همارے ایمان معین اور اس کی گهرائی کو معین کرنے والی هے، محبت اور نفرت، باطنی اور نا دکھائی دینے والی چیزیں هیں لیکن ان کی نشانی انسان کی رفتار و گفتار میں دکھائی دیتی هے، هرگز کسی شخص کو اس بات پر مجبور نهیں کیا جاسکتا که وه فلاں شخص سے محبت کرے، یا اس سے نفرت کرے، کیونکه محبت یا نفرت اس معرفت اور شناخت کی بنیاد پر هوتی هیں که جو کسی شخص یا کسی چیز کے سلسله میں هوتی هےاور اس کی قربت دل میں پیدا هوتی هے.

اور ان میں زیادتی یا کمی هونا بھی انهیں اسباب پر موقوف هے، محب اور محبوب کے درمیان جو کشش اور رابطه هوتا هے یا اس سے نفرت کرنے والے اور جس سے نفرت کی جارهی هے ان دونوں میں دوری هوتی هے وه بهی شناخت کی وجه کی بنیاد پر هوتا هے، البته وه تمام چیزیں که جن کو ایک «محبوب» چاهتا هے ایک سطح میں نهیں هیں بلکه محب اور محبوب کے مرتبوں، محبوب کا فائده مند هونا اور محبت کرنے والے کی آرزوئیں اور محبت کی سطح اور اس کی میزان بهی مختلف هوتی هے:

کبھی کبھی کوئی چیز یا کوئی شخص ذاتی اور اصلی طور پر محبوب هوتی هے اور کبھی کبھی عرضی اور واسطه کے طور پر محبوب هوتی هے، چنانچه اگر کچھ لوگ مال و دولت کو چاهتے هیں تو اس کی وجه یه هے که اس کے ذریعه لذت و اور چین و سکون حاصل کیا جاسکتا هے اور چین و سکون اور مزه کو خوشبختی کا سبب تصور کرتے هیں، اور اگر کچھ لوگ علم و دانش کے عاشق هوتے هیں تو اس کی وجه یه هوتی هے که وه اس کے ساتھ قربت محسوس کرتے هیں اور اسے اپنی آرزووں اور اپنے اهداف کو پورا کرنے والا مانتے هیں، لیکن تمام محبتیں اور دوستی«حب كمال اور حبّ سعادت» کی طرف جاتی هیں اور تمام نفرتیں «تنزلی اور بدبختی سے نفرت» کے ذریعه جنم لیتی هیں.

انسان ذاتی طور پر کمال کا طالب اور ترقی کا خواهاں هے اگرچه هوسکتا هے که وه مصداق اور مورد میں غلط انتخاب کرے، اسی وجه سے مکتب وحی میں تمام اولیائے الهی کی بهرپور کوشش رهی هے که انسان کو محبوب لائق اور  معشوق حقیقی تک پهنچا دے اورانسان کو کمال اور بلندی کے صحیح مصداق کو پهچنوائے.

جی هاں! انسان کا حقیقی محبوب اور معشوق، کمال مطلق، جمال مطلق، اور رشد و ترقی هے که جب انسان کسی شخص کو یا کسی شی کو چاهتا هے تو اپنے کمال و جمال کو اس میں دیکھتا هے یا اس کو رشد و ترقی کا سبب شمار کرتا هے۔ اور چونکه خداوندعالم هر زیبائی اور کمال کا مرکز و خزانه هے، لهٰذا وهی ذاتی اور اصلی طور پر محبوب هے اور ایک حقیقی مومن اور عارف کے لئے (که جو هستی کی صحیح و حقیقی شناخت اور دینی جهان شناسی کے ذریعه ایمان تک پهنچا هے) «خدا» کے علاوه کوئی مستقل محبوب نهیں هے، تمام صفات اور خوبصورتی کے تمام جلوے خدا کی طرف سے هیں، لهٰذا تمام تعریفیں اور شکرگزاری خداوندعالم سے مخصوص هیں، اسی طرح تمام محبت اور عشق بھی اسی سے متعلق هے، هدایت یافته انسان اسی حقیقت کو پهچانتا هے اور وه خدا سے یهی چاهتا اور طلب کرتا هے که: «خداوندا! میں تجھ سے تیری دوستی اور محبت چاهتا هوں اور ان لوگوں کی دوستی که جن کو تو دوست رکھتا هے اور هر اس عمل سے محبت چاهتا هوں که جو تیرے قرب کا سبب بنے!»

جو لوگ دنیا کی زرق و برق کے عاشق بن گئے هیں اور اپنے مطلق عشق کو مادی اور حیوانی مطلوب اور محبوب میں تلاش کرتے هیں تو اس کی وجه یه هے که انهوں نے صرف دنیا کے ظاهر اور اس میں موجود چیزوں کو دیکها هے اوروه کائنات کی حقیقی معرفت سے محروم هیں اور چونکه انسان ایک ایسا موجود هے که جو مطلق اور بے انتها رجحان رکھتا هے اور دوسری طرف سے دنیوی چیزیں اور انسان کی حاصل کرده چیزیں محدود اور پست هیں اس وجه سے انسان کی فطری اور با عظمت ضرورتوں کو پورا نهیں کرسکتی اور اسے سکون و اطمینان تک نهیں پهنچا سکتی، جو چیز انسان کو سکون و اطمینان اور ایمان تک پهنچاتی هیں وه خدا اور اس کے نیک بندوں کی یاد اور ان کی محبت هے۔

حضرت امیرالمومنین علی علیه السلام کے کلام میں اس حقیقت کا بیان هرگز خودپرستی اور خودخواهی کی بنیاد پر نهیں هے کیونکه آپ کی ذات ان چیزوں سے پاک و پاکیزه هے، بلکه ایک ایسی حقیقت هے که جس کو پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے عهد و پیمان کے عنوان سے  یاد کیا اور حضرت علی علیه السلام کی دوستی کو ایمان و نفاق کا معیار قرار دیا۔

 جی هاں! الله سے محبت اور دوستی کا دعوی کرنے والے بهت سے هوتے هیں لیکن خدا سے حقیقی محبت اوردوستی کا سچا معیار اور نشانی یه  هے که جس سے خود غرض (جھوٹا) دعوی کرنے والے حقیقی اور سچے محبت کرنے والوں سے جدا هوجاتے هیں۔ اور وه حضرت علی علیه السلام کی دوستی هے۔ کیونکه حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام خداوندعالم کے جمال و جلال کا مکمل آئینه دار هیں، آپ هی کی ذات امام عاشقین اور رهبر عارفین هے، آپ هی کی ذات کو پیغمبر اکرم (ص) نے صدیق اکبر اور فاروق اعظم قرار دیا هے، خداوندعالم اور پیغمبر اکرم (ص) کی ذات سے سب سے زیاده محبت کرنے والی ذات حضرت علی علیه السلام هے جیسا که آپ نے عقیده و عمل میں اس بات کو ثابت کر دکھایا، حضرت علی علیه السلام حق و باطل کو معین کرنے کا سب سے بڑا معیار تھے که جو خود کو رسول الله (ص) کے غلاموں میں سے ایک غلام تصور کرتے تھے اور جو نفس پیغمبر(ص)  تھے۔

کیا یه ممکن هے که کوئی حقیقی مومن هو لیکن اُس کے دل میں حضرت علی علیه السلام کی محبت و عشق نه هو؟ اور کیا یه ممکن هے که کوئی شخص اپنے دل میں حضرت علی علیه السلام کا بغض اور آپ سے نفرت رکھتا هو اور وه خداوندعالم سے دوستی اور اس پر ایمان میں سچا هو؟ حضرت علی علیه السلام که جن کی رفتار و گفتار، میزان حق اور صراط مستقیم هو، اور اپنی زندگی کے مختلف پهلووں اور مختلف نشیب و فراز میں حق و عدالت سے ذره برابر بھی نه هٹے هوں اور انسان کامل کے جامع نمونه اور قرآن ناطق کا اعلیٰ مصداق هو، مومن و منافق کو جدا کرنے کی بهترین میزان اور معیار هیں اور آپ هی کی ذات هے که عالم محشر میں حوض کوثر کے پاس مومن اور منافق کو جدا کرے گی اور آپ هی جنت و دوزخ کو عدالت کے ساتھ تقسیم کریں گے۔

جی هاں! حضرت علی علیه السلام کو مومن کے علاوه کوئی دوست نهیں رکهے گا اور منافق کے علاوه کوئی دشمن نهیں رکھے گا، کیونکه حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام کی محبت ایک ایسا کیمیا هے که جو انسانی وجود کے جوهر کو «علوی» بنا دیتا هے اور اسے رشد و ترقی کی منزلوں تک پهنچا دیتا هے، انسان کے دل و جان میں راسخ هونے والی محبت اور دوستی اور کائنات کے اس دُریگانه کی معرفت پر قائم هے، ایسی دوستی که جو حضرت علی علیه السلام اور خدائے علی سے رابطه کے بغیر ممکن نهیں هے، ایسی دوستی که جس کو خداوندعالم نے اپنے کلام حکیم میں هر مسلمان پر واجب کی هے اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کا اجر قرار دیا، ایسی دوستی که جو حضرت علی علیه السلام کی پیروی کرتے هوئے بلند و بالا محبت عشق اور ترقی پر پهنچا دیتی هے یا ایسا بنده بنادیتی هے که جو رشد و ترقی تک پهنچا دیتا هے اور انسان کی راه نجات اور راه سعادت کی باعث بنتی هے۔ اور یهی دوستی اور عشق هے که جو انسان کو عصمت کی سرحد تک پهنچادیتا هے اور اسے اس طرح بلند کردیتا هےکه جس سے انسان کسی گناه اور برائی میں مبتلا نه هو، اور اس کے معنری و روحانی سیروسلوک کو نقصان نهیں پهنچاتی۔۔۔ خدا کرے اس عشق و محبت کا ایک جام همیں بھی نصیب هو۔ (ان شاء الله)

2-  اَعيُنونی بِوَرَع و اجتهادٍ و عِفَّة و سَدادٍ.

تقوی اور پرهیزگاری، سعی و کوشش، عفت اور استواری کے ذریعه میری مدد کرو۔

انسان کا اپنے رهبر و پیشوا سے معنوی رابطه، اس امامت و پیشوائی کی وه اصل هے که جس کے بغیربنیادی طور پر پیشوائی اور امامت کا معنی و مصداق نهیں ملے گا، امام اور ماموم (یعنی پیشوا اور پیروی کرنے والے) کے درمیان رابطه میں جو فرق هے وه دوسری قسموں کے روابط میں (جیسے استاد اور شاگرد، والدین اور اولاد، میاں بیوی، یا دو دوستوں کے درمیان) اسی "فکری اور عملی تعلق" میں فرق هے کیونکه ماموم اور پیروی کرنے کا امام اور پیشوا سے معنوی رابطه هے، جتنا بهی یه رابطه عمیق اور گهرا هوگا ، امام کی پیروی، مزید بهترین نتائج اور مزید کامل فوائد مرتب هوں گے اور امام و ماموم کے درمیان قربت میں اضافه هوتا چلا جائے گا اور مطلوبه کمال اور سعادت ابدی (که جو انسان کامل، امام اور خلیفة الله سے معنوی رابطه کے بغیر نهیں حاصل هوسکتی) حاصل هوگی.

حضرت علی علیه السلام کے نظریه کے مطابق هر ماموم کے لئے ایک امام هوتا هے که جس کی وه اقتدا اور پیروی کرتا هے اوراس کے علم کی روشنی سے فائده اٹھاتا هے اور امامت و ولایت کا جوهر اور حقیقت بھی یهی علمی اور عملی رابطه هے. لیکن حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام کی بلندی فکر اور عمل و کردار کی عظمت اتنی عظیم الشان هے که آپ کی پیروی کرنے والے عاشقوں کی رسائی نهیں هوسکتی. اور یه ایک ایسی حقیقت هے که خود حضرت امیر علیه السلام اس سے واقف هیں اور واضح طور پر یه اعلان فرماتے هیں که: "تم مجھ جیسا کردار پیش نهیں کرسکتے" تو ایسے موقع پر کیا کیا جائے؟ حضرت علی علیه السلام کا فرمان یه هے: " تقوی اور پرهیزگاری، سعی و کوشش، عفت اور استواری کے ذریعه میری مدد کرو"۔

 الفاظ کی وضاحت:

        ورع ، کے معنی خدا سے ڈرنے کے هیں، یعنی گناه سے دور رهنا اور تقوی و پرهیزگاری اپنانا، ورع، متقین کا شعار اور تقوی کی بنیاد اور اس کے ساته ساته هے. مومن کے لئے زینت و زیبائی اور ایک انسان کے لئے سب سے بهترین صفت ورع اور پرهیزگاری هے، جس کا مطلب یه هے که انسان هر طرح کی فکری یا گفتاری کجروی سے محفوظ هو، ورع انسان کی حیات کا سبب اور انسان کی معنوی جد و جهد، تزکیه نفس اور دل و جان کے پاک هونے کا باعث هے، یهی صفت انسان کو مادیت اور حیوانت کے درجه سے نکال کر افق انسانیت (که جو جاده الهی اور خلیفة اللهی کے راه میں چلنا هے) تک پهنچا دیتی هے، ورع اور تقوی کے بغیر کوئی دوسرا کردار انسان کو سعادت اور کامیابی تک نهیں پهنچا سکتا.

اجتهاد، یعنی مکمل طور پر سعی و کوشش کرنا،اپنی تمام کوششوں کو سعادت و کامیابی اور خودسازی تک پهنچنے کےلئے بروئے کار لانا، اورکج روی و خامیوں سے مقابله کرنے کے لئے تیار رهنا،لهذا اس طرح کی سعی و کوشش اور سخت محنت کے بغیر ماموم اور امام کے درمیان رابطه حاصل نهیں هوسکتا.

 جو شخص سعی و کوشش نه کرے اور خودسازی نیز تقوی و پرهیزگاری کے لئے همت نه کرے تو ایسا شخص کسی منزل پر نهیں پهنچ سکتا، جهاد میں سب سے پهلا اور سب سے مهم مرحله جهاد بالنفس هے(یعنی انسان شهوات اور نامحدود حیوانی خواهشوں پر غلبه پانے کے لئے کوشش کرے) البته ایسی تلاش و کوشش، تمرین، تکرار، حفاظت، پابندی، حساب و کتاب اور مستحکم اراده کے بغیر ممکن نهیں هے.

عفت یعنی پارسائی٬ پاکدامنی اور حیوانی خواهشات اور شهوات کے مقابله میں اپنے نفس کو کنٹرول کرنا اور نفس کی لگام کو اپنے هاتھوں میں رکھنے کا نام هے٬ عفت اور شهوات کے مقابله میں پاکدامنی کے بغیر انسانی اور الهی کمالات کی طرف  بڑهنے کا موقع نهیں مل پائے گا۔ خصوصا  جوانی اور خوبصورتی دو بڑی نعمتیں هیں که جن سے «عفّت» کے بغیر انسانی ترقی و تکامل کی طرف قدم نهیں بڑھایا جاسکتا٬ اسی وجه سے حضرت علی علیه السلام کی نظر میں خوبصورتی کی زکوة٬ عفت اور نامحرموں سے اپنے نفس کو بچانا هے۔ جو شخص اپنے اندر عفت کی عادت کی پرورش کرےاور اس کی جڑوں کو مستحکم کرے٬ اس کے گناهوں کا بار کم هوجائے گا٬ نیزخداوندعالم کی نگاه میں اس کا مرتبه بهی بلند هوجائے گا۔ حقیقت یه هے که عفاف اور پاکدامنی ایک ایسا وسیله هے که جس کے ذریعه انسان اپنے نفس کو برائیوں اور پستیوں سے پاک کرکے محفوظ رکھ سکتا هے۔

سداد یعنی ثابت قدم رهنا اور کردار و گفتار میں ثابت قدم رهنا٬ برائی اور پستی سے خود کو پاکیزه رکھنا٬ رفتار و سخن میں معقول طریقه اپنانا۔ قرآن کریم نے بھی اسی بات پر تاکید کی هے٬ نظر اور گفتار میں استواری اور درستی کو نظر میں رکھو٬ اور تمهاری بات«قول سديد» یعنی بهترین اور مستحکم هو٬ اس بات پر دهیان رکهنا که هماری هر بات رضائے الهی کے خلاف نه هو٬ اور کوئی بهی نظریه بے بنیاد اور سست نه هو٬ کیونکه یهی«قول سديد» کا تقاضا یهی هے۔

حضرت امام علی علیه السلام اپنے ماننے والوں سے یه چاهتے هیں که اگر قول و عمل میں امام علیه السلام کے اعلیَ مقام تک نهیں پهنچ سکتے تو ان چار صفات میں آپ کی مدد کریں اور ورع٬ کوشش٬ عفت اور «قول سديد» کی رعایت کریں اور اس طرح امام المتقین اور امیر المومنین کو اس راه میں که جو امام علیه السلام کا آخری مقصد اور هدف هے (که جو وهی انسان کی معنوی ترقی اور ایمان و تقوی کے بلند درجات تک پهنچنا هے) مدد اور نصرت کریں٬ کیا هم نے اپنے ائمه علیه السلام کی مدد کے لئے کوئی قد م اٹھایا هے؟   

3- اَلحِكْمَة ضالَّة الْمُوْمِن فَخُذِ الحِكْمَة وَ لَو مِن اَهْل النِّفاق‌

حمکت اوردانش مومن کی گمشده شے هے٬ پس حکمت کو حاصل کرلو چاهے اهل نفاق سے هی کیوں نه ملے۔

حکمت٬ ایسے مستحکم کلام اور علم کا نام هے که جو شائسته اور معقول رفتار و کردار پیش کرتا هے اور حکیم وه شخص هے که نظر و عمل٬ اندیشه و فکر٬ مسلک اورسلوک میں اصول کی پابندی٬ استحکام٬ استواری٬ یقین اور علم سے بهره مند هو اور اپنی رفتار و کردار اور نظریات کو ایسا تنظیم کرے که جن میں تمام سهولیات اور استعداد سے بهره مند هو تے هوئے کمال اور همیشگی سعادت کی راه پر چلے اور مشتاقانه اور عاشقانه طورپر روشن اور تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھائے۔

جو شخص مقام حکمت تک پهنچ جاتا هے وه راه سعادت پر چلنے والوں کو سیراب کرتا هے٬ فضیلتوں اور اقدار کو دوسروں تک منتقل کرتا هے اور استقامت واستواری سے بهره مند هوتا هے٬ سعه صدر اور صبر و بردباری سے کام لیتا هے٬ بدی کا جواب نیکی سے دیتا هے٬ ان سب سے بڑه کر بات یه هے که وه کبهی بهی«حق‌» کا دامن نهیں چھوڑتا٬ وه همیشه گفتار و کردار میں جاده حق پر ثابت قدم رهتا هے اور الله جل جلاله کا اطاعت گذار بنده رهتا هے۔

 حکمت کی تعلیم دینا٬ انبیائے اِلهی کی ایک اصلی ذمه داری تھی٬ اولیائے الهی خود بھی حکیم تھے اور دوسروں کو حکمت کی تعلیم دیتے تھے٬ لیکن کبھی کبهی حکمت دوسروں کو یهاں بهی پائی جاتی هے۔ حضرت امیر المومنین علیه السلام نے حکمت کو مومن کی گمشده شے قرار دیا هے که وه همیشه اُس کو تلاش کرنے اور اس تک پهنچنے کے لئے جد و جهد کرتا هے٬ نه یه که اگر کسی جگه اور کسی صاحب حکمت کے ذریعه کهیں حکیمانه مطالب بیان هورهے هیں تو ان سےفائده اٹھآئے! بلکه مومن (همیشه) حکمت کی تلاش میں رهتا هے٬ جس طرح سے اگر کسی شخص کی کوئی قیمتی شئے گم هوجاتی هے تو وه همیشه اُس کی تلاش میں رهتا هے  اور هر آن اُس کو حاصل کرلینا چاهتا هے٬ مومن بھی حکمت حاصل کرنے میں اسی طرح جد و جهد کرتا هے اور جب حکمت دوسروں کے پاس دکھائی دیتی هےتو اُسے وهاں سے بھی حاصل کرلیتا هے۔

اگر ایک درّ بے بها کسی کوڑے دان میں پڑا هوا هو یا کسی گندے حیوان کے هاتھوں میں هو تو کیا انسان اُسے نهیں اٹھائے گا٬ تاکه اُسے دھونے اور پاک و صاف کرنے کے بعد اُس سے فائده اٹھائے؟! لهذا اگر حکمت کسی کافر یا فاسق کے پاس هے که جس سے اُس نے فائده نهیں اُٹھایا هے (که اگر وه اُس سے فائده اٹھاتا تو کفر و نقاق اور فسق سے نجات حاصل کرلیتا)٬ لیکن مومن موقع سے فائده اٹھاتا هے اور کبھی بهی یه سوچ کر که وه منافق و کافر یا فاسق هے اُس حکمت کو نهیں چھوڑتا بلکه اُس سے اُسے حاصل کرکے اُس سے فائده اٹھاتا هے۔ اِسی وجه سے کسی کے کلام کی ارزش کو تولنے کے لئے خود اُس کے کلام کے بارے میں غور و فکر کریں نه که اُس کے کهنے والے کے۔ بهت سی گرانقدر باتیں٬ حکمتیں اور مفید علوم ایسے هوتے هیں که جن کا حامل فاسق یا فاجر هے٬ لیکن کبھی بهی ان حقائق سے صرف نظر نهیں کرنا چاهئے۔  «گفتار» اور «کهنے والے» کے درمیان فرق کرنا چاهئے بسا اوقات ایسا هوتا هے که کهنے والا پاک فطرت اور شائسته اور ارزشمند هے لیکن اُس کا کلام غیر معقول هے٬ اسی طرح بسا اوقات کهنے والا خبیث اور غیرصالح هوتاهے لیکن اس کی زبان پر حکیمانه اور عالمانه بات جاری هوجاتی هے!

البته اگر حکمت منافق کی زبان سے بهی جاری هو٬ لیکن کبهی بهی اُس کی زبان سے آگے نهیں بڑھے گی اور اُس کے دل میں داخل نهیں هوگی٬ کیونکه اگر حکمت منافق کے دل و جان میں نفوذهوجاتی تو اُسے (اعتقادی اور اخلاقی بد ترین ذلت سے) نجات دلادیتی٬ اگر منافق کے پاس حکمت هو بھی تو اُس کی زبان پر جای هوتی هے اُس کے دل میں نهیں جاتی! کیونکه جس دل میں شهوت جڑیں مضبوط کرلیتی هے وهاں حکمت داخل نهیں هوسکتی۔

حقیقی ایمان٬ حکمت سے ایک گهرا تعلق رکھتا هے۔ مومن کو حکمت و دانش کی جد و جهد میں رهنا چاهئے کیونکه حکمت کے بغیر ایمان کے معرفتی ستون مستحکم نهیں هوسکتے۔ دوسری طرف سے ایمان کے راسخ هونے اور نیک و صالح عمل کے انجام دینے سے انسان کے دل میں حکمت کے دروازے کھل جاتے هیں۔ جو شخص خود کو خدا کے لئے خالص کرلے اور همیشه اپنے اعمال و کردار پر دھیان رکھے تو حکمت کے گرانبها سرچشمے اُس کے دل سے پھوٹنے لگتے هیں اور اُس کی زبان پر جاری هوتے هیں۔ البته حکمت کا یه درجه غیر مومن کے پاس نهیں مل سکتا٬ حکمت کا یه درجه خداوندعالم کا ایک عطیه هوتا هے که وه جسے چاهتا هے عطا کرتا هے اور جو شخص اُس تک پهنچ جاتا هےتواُسے «خير كثير» مل  جاتا هے۔ البته خداوندعالم نے یه اراده کیا هے که وارسته اور خالص انسان یعنی جنھوں نے دنیوی اور جلد ختم هوجانے والے لذتوں کو ترک کردیا هے اور فانی امور سے منھ موڑ لیا هے تو وه ایسے درجات پر پهنچ جاتے هیں۔

وه حکمت که جو مومن کی گم شده شے هے٬ صرف اُس کی معلومات حاصل کرنا یا حکیمانه کلام کو صرف زبان سے جاری کرنا نهیں هے٬ بلکه ایک ایسا گوهر هے که جو انسان کے دل میں هوتا هے که جو اُسے حکیمانه رفتار٬ پاک نیت اور نیک اخلاق کی طرف تحریک کرتے هوئے کمال مطلق کی طرف راسته کھول دیتا هے اور اُسے «حكيم علی الاطلاق‌» یعنی خداوندمنان کی طرف کھینچتا هے اور ایسی حکمت کی تلاش ایک ایسا  قدم هے که جو الله رب العزت جل جلاله کے مکمل آئینه امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام سے نزدیک هونے کے لئے لازم هے۔

4-  اللّه اللّه فِی القُرآن، لايَسْبِقُكُم بِالعَمَل بِه غَيرُكُم

قرآن کریم کے سلسله میں الله کو نظر میں رکھو! کهیں ایسا نه هو که دوسرے لوگ اُس پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔

جب امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام بستر شهادت پر اپنے گرانقدر بیٹوں امام حسن و امام حسین علیهما السلام کواهم اور آخری باتوں کی وصیت فرمارهے تھے تو آپ نے ایک مقام پر قرآن کریم کی عظیم منزلت کی طرف بهی اشاره کیا اور ایک مختصر جمله میں وه سب کچھ بیان کردیا که جو اپنی پوری عمر میں بیان کیا تھا۔ حضرت امام علی علیه السلام کی نظر میں قرآن کریم معرفت و حکمت کا ایک ایسا بحربے کراں هے که جو انسان کی هدایت کے لئے کافی هے۔ قرآن کریم ایک ایسا نور هے که اگر کوئی هدایت کا طالب هو تو اُس کے لئے ایسی هدایت هے که جو اپنی هدایت کو هوس رانی٬ شبهات اور باطل نظریات سے مخلوط نهیں کرتی٬انسان اور خدا کے درمیان رابطه کی مستحکم رسّی هے٬ دلوں کی بهار اور علم و دانش کا سرچشمه هے٬ خود راسته بھی هے اور دو هدایت کرنے والوں میں ایک بڑی هدایت کرنے والی بھی۔ قرآن کریم «ثقل اكبر»  هے که جو «اهل بيت علیهم السلام» سے کبهی جدا نهیں هوگی اگر کوئی شخص اهل بیت علیهم السلام سے متمسک هوجائے تو وه حضرات قرآن کریم کی طرف دعوت کرتے هیں اور اگر کوئی شخص قرآن کریم سے متمسک هوجائے تو قرآن کریم بھی اُسے اهل بیت علیهم السلام کی اطاعت و پیروی کا حکم دیتی هے٬ کوئی بهی انسان پل بهر کے لئے قرآن کریم کے ساتھ نهیں رهے گا مگر یه که اُس نے هدایت کی راه میں ایک اور قدم اٹھایا هے اور نقصان و کمی کی تلافی کرنے میں ایک قدم آگے بڑھایا هے۔

حضرت امام علی علیه السلام کی نگاه میں قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح نهیں هے٬ بلکه ا یک ایسی کتا ب هے که انسان اُس سے تمسک اور اُس کے ساتھ اُنس رکھتے هوئے کسی دوسری کی هدایت کا محتاج نهیں هے جبکه  دوسرا٬ قرآن کا محتاج هے٬ جو حضرات اهل قرآن هیں وه حقیقت میں «اهل اللّه» اور خدا کے خالص بندے هیں۔ قرآن کریم٬ خداوندعالم کا کلام هے٬ کوئی بھی کلام اُس جیسا نهیں هے: صرف وحی الهی کا واحد مجموعه هے که جو خداوندعالم کے کلام و سخن کو براه راست بیان کرتا هے اور انسان و خدا کے درمیان معرفت و هدایت کا براه راست رابطه هے۔

قرآن کریم کو پڑھنا چاهئے اور زیاده سے زیاده اور اچھے طریقه سے پڑھنا چاهئے٬ قرآن کریم کو سمجھنا چاهئے٬ اِسے غور و فکر کے بعد سمجھنا چاهئے لیکن ان سب سے بهتر اور پڑھنے و سمجھنے سے افضل قرآن کریم پر عمل کرنا هے٬ کیونکه قرآن کریم  انسان کے اندرونی ا ور بیرونی امراض کا شفابخش نسخه هے٬ لاعلاج انفرادی اور اجتماعی بیماریوں کا علاج هے٬ ثقافتی٬ اجتماعی٬ اقتصادی٬ تربیتی اور اخلاقی بن راستوں کے لئے راه گشا هے٬ کائنات میں سیر و سلوک کے لئے رهنما اور خالق کائنات کی طرف انسان کو لے جانے والی هے۔۔۔۔

جی هاں قرآن کریم کی عظمت یه هے اور اِن سب سے بڑی بات یه هے که وه انسان سے خدا کی گفتگو هے٬ کیا بهترین کلام هے کیا شیرین گفتگو هے که جو معشوق اپنے عاشق سے بیان کرے؟ محبوب کا کلام تو خود حبیب کے دردوں کی دوا هوتا هے! قرٔآن کریم «الله کی مضبوط رسی» هے٬ اُس سے تمسک کرنا چاهئے٬ تمسک کا معنی یه هے که مضبوط پکڑنا اور خود کو اُس سے متصل کرنا۔ اگر (کلام وحی کے ذریعه سے) انسان کا خدا سے رابطه مستحکم هوجائے تو ظاهر سی بات هے که اُسے مخالف هوائیں٬ شبهات و انحرافات کی گرد و خاک صراط مستقیم اور سیدهے راستے سے نهیں هٹا سکتی٬ قرآن کریم سے تمسک کئے بغیر انسان کیسے ثابت قدم ره سکتا هے؟ اور کس معرفت و کلام پر بھروسه کیا جاسکتا هے؟ سعادت و کامیابی کا راسته کیسے ڈھونڈا جاسکتا هے؟ جی هاں! قرآن کریم٬ انسان کے درمیان ایک عادل و انصاف ور قاضی هے٬ بشریت کی هدایت کے لئے رهنما هے اور سعادت کے لئے روشن چراغ هے۔

حضرت علی علیه السلام که جو خود اهل قرآن کے رهبر اور قرآن کریم کی مکمل تصویر هیں خاندان عصمت و طهارت کے دو گرانقدر موتیوں: حضرت امام حسن و امام حسین علیه السلام سے آخری وصیت میں  قرآن پر عمل کی وصیت  فرماتے هیں اور چونکه الهی نظر سے مسلمانوں کی بدبختی کو (که جو قرآن سے جدا هونے کی بنا پر) دیکھ رهے تھے تاکید کرتے هیں که «کهیں ایسا نه هو که قرآن پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم پر سبقت کرجائیں»٬ «دوسروں» سے مراد غیرمسلم لوگ هیں٬ کیونکه حضرت علی علیه السلام دیکھ رهے تھے که ایک ایسا زمانه آئے گا که قرآن کے صرف الفاظ٬ اسلام کا صرف نام٬ اور مساجد کی صرف خوبصورتی باقی ره جائے گی!!

قرآن کریم که جو زندگی کا برنامه هے اسلام که جسے اسلامی معاشره کی روح و روان هونا چاهئے٬ جن مسجدوں کو هدایت و تزکیه نفس کا مرکز هونا چاهئے٬ وه اپنے حقیقت سے دور هوں اور مسلمانوں کی ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کا راز اِسی نکته میں هے! تعجب کی بات هے که امام علی علیه السلام صدیوں سال پهلے بلکه چوده سو سال پهلے ایسے  زمانه کا مشاهده فرمارهے تھے اور بستر شهادت پر مسلمانوں کی هدایت و سعادت کی فکر اس بات پر تحریک کررهے تھے که قرآن کے سلسله میں الله عزّ و جل کو شاهد قرار دیں اور قرآن پر دھیان دینے کی تاکید کریں ۔

حضرت علی علیه السلام کی نگاه میں قرآن کریم «عمل» کے لئے هے اگرچه اُس کی تلاوت اور اُس میں تدبر اور غور وفکر کی باربار تاکید هوئی هے٬ لیکن معلوم هے که بغیر پڑھے هوئے٬ بلاسمجھے هوئے قرآن پر عمل نهیں کیا جاسکتا۔

اب سوال یه اٹھتا هے که کن لوگوں کو قرآن کریم پر عمل کرنا چاهئے٬ کیا فقط اسلامی معاشره کے رهبروں کو؟ یا فقط مسلمان علماء اور دانشمندوں کو؟ یا سخن امام کے مخاطب تمام هی مسلمان هیں؟ بعض لوگوں کا گمان هے که قرآن کریم کا علم اور قرآنی ثقافت صرف ایک خاص طبقه سے مخصوص هے؟ شاید اِس چیز کو بعض لوگ اپنے ذمه داریوں سے شانه خالی کرنے کے لئے بهانه قرار دیں! جبکه هر مسلمان کا فریضه هے که وه قرآن پڑھے٬ اُسے سمجھے اور اُس پر عمل کرے۔ قرآن کریم اِس وجه سے نازل هوا هے که هر انسان اپنی صلاحیت اور اپنی معرفت کے لحاظ سے اُس سے بهره مند هو٬ اِس سے نصحیت حاصل کرے اور اپنی زندگی کی راه میں کام لے۔ البته جن حضرات کے پاس قرآن کریم کا علم اور اُس کی معرفت زیاده هوگی اُس کی ذمه داری بهی اتنی هی سنگین اور خطرناک هوگی۔

حضرت علی علیه السلام همارے معاشره (اور دیگر اسلامی معاشروں) کی مشکلات کا حل «قرآن پر عمل کرنا» قرار دیتے هیں اور اِس بات پر تاکید کرتے هیں که کهیں ایسا نه هو که دوسرے لوگ قرآن کریم کے مضمون پر عمل کرتے هوئے تم سے آگے نکل جائیں٬ کیا هم لوگ غیر مسلم لوگوں کا قرآن کریم کے اصول پر (کم سے کم قرآن کے اجتماعی موضوعات پر) عمل کو نهیں دیکھ رهے هیں؟ کیا هم اِس عقیده تک پهنچ گئے هیں که «قرآن پر عمل» کئے بغیر انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کامیابی تک نهیں پهنچ سکتا؟  کیا هم نے اِس بات کا مشاهده نهیں کیا که قرآن کریم کی نسیم سحر نے معاشره کی سعادت کا راسته کھول دیا اور اُس میں موجود بڑی بڑی رکاوٹوں کو هٹا دیا هے؟ تو پھر هم قرآن کریم اور اُس کی ثقافت پر عمل کرنے میں پیچھے کیوں هیں؟

قطعی طور پر حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام سے رابطه کی راه میں قدم رکھنے لئے ساتھ ساتھ قرآن کریم پر عمل کرنا اور روز مره کی زندگی میں اُس پر عمل کئے بغیر ممکن نهیں هے۔

خدا کرے که حضرت امام علی علیه السلام کی یه تاکید همیں هوش میں لے آئے۔ ان شاء الله۔

5- لاتكن مِمَّن يرجوا الاخرة بغيرالعمل و يُرَجِّی التَّوبة بطول الاَمَل ۔

ان لوگوں میں سے نه هوجائو که جو بلا عمل کے آخرت کی  امید رکھتے هیں اور اپنی طولانی تمنائوں کی وجه سے توبه کو ٹالتے رهتے هیں۔

آسمانی ادیان کے تمام ماننے والے٬ عالم آخرت پر بھی عقیده رکھتے هیں٬ نه صرف مسلمان بلکه دوسرے آسمانی مذهبوں کے ماننے والے بھی مرنے کے بعد روز قیامت کے عقیده کو اپنےسه گانه اعتقادی رکن کے عنوان سے بیان کرتے هیں٬ توحید٬ نبوت اور معاد پر عقیده تمام آسمانی ادیان میں مشترک عقیده هے اور همیشه انبیائے الهی کی تبلیغ میں اِن اصول پر تاکید هوئی هے۔

۔۔۔ لیکن یه عقیده رکھنے والوں کی زندگی میں قیامت اور روز آخرت پر عقیده رکھنے کا کیا فائده هے؟ اور کس حد تک اِس سلسله میں اهمیت دیتے هیں؟ یه لوگ اپنی آخرت کو سنوارنے اور اُسے آباد کرنے کے لئے کتنی جدّ و جهد کرتے هیں؟ اِس موقع پر هماری ایک بڑی مشکل ظاهر هوتی هے که هم آخرت تو چاهتے هیں لیکن بلاعمل! جنت میں جانا چاهتے هیں لیکن نه تو کوئی عمل انجام دینا چاهتے هیں اور نه تھوڑی سے تکلیف برداشت کرنا چاهتے هیں! اُخروی سعادت اور کامیابی کی امید تو رکھتے هیں لیکن وهاں پر لازمی چیزوں کو ساتھ لئے بغیر!

اِس بات میں کوئی شک نهیں هے که جنت کسی کو یونهی بلا جدّ و جهد اور کوشش کے بغیر نهیں دی جائے گی٬ جی هاں! فارسی مثال کی بنا پر«بهشت را به بها دهند نه به بهانه» یعنی جنت کو اُس کی قیمت پر دیا جائے گا نه که کسی بهانه کی بنا پر۔ اور جنت کی قیمت کو قرآنی آیات میں بیان کیا گیا هے که جو حقیقی ایمان رکھتے هیں٬ الله کی راه میں سعی و کوشش اور مجاهدت کرتے هیں اپنے مال اور هستی سے الله اور انبیائے الهی کی راه پر چلنے کے لئے خرچ کرتے هیں تو خداوندعالم انهیں بهشت و رضوان سے نوازتا هے اور یه حقیقت نه صرف قرآن کریم میں بلکه تمام هی گزشته آسمانی کتابوں میں بیان هوئی هے٬ البته بهشت تک پهنچنے اور اُخروی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے وه سعی و کوشش اور جد و جهد عالم طبیعت میں هماری استعداد اور امکانات کے حدود سے باهر نهیں هے اور هرگز معاش زندگی کو فراهم کرنے کے مخالف نهیں هے۔ همارے یهی روز مره کے کام٬ کاروبار٬ تعلیم حاصل کرنا٬ شادی بیاه کرنا اور دیگر امور زندگی کی دیکھ بھال کرنا وغیره دوسروں کے ساتھ نیکی و احسان کرنے٬ غریبوں کی مدد کرنے٬ دیگر انسانوں کی مشکلات کو برطرف کرنے کےلئے نیز عبادت کو اهمیت دینے اور عالم الوهیت سے اپنا رابطه مستحکم کرنے اور ولایت الهی حاصل کرنے کے لئے آخرت کا لازمی ذخیره فراهم کرنا هوگا٬ البته اگر یه کام الهی پهلو اختیار کرلیں اور تقوی و پرهیزگاری کے ساتھ ساتھ هوں تو یهی کام اوراعمال٬ آخرت کے لئے ذخیره بن جائیں گے٬«اپنی آخرت کے لئے کے زاد راه جمع کرو بے شک که آخرت کے لئے بهترین زاد راه تقوی الهی هے»۔

۔۔۔ افسوس تو یه هے که بهت سے لوگ آخرت کو بلا عمل کے حاصل کرنے کی آرزو رکھتے هیں انهیں خدا کی طرف پلٹنے اور اپنی اصلاح کی کوئی فکر نهیں هوتی٬ اپنے کو «طولانی آرزئوں» میں سرگرم کرتے هوئے اپنے آج کی اور مستقبل کی اهم واقعیت کو بھول جاتے هیں اور جب چاره جوئی کی فکر هوتی هے تو اُسے بھی «کل» کے اوپر ٹال دیتے هیں٬ ایسی کل که جس تک نه پهنچا جاسکے اور ایسی چاره جوئی که جو کبھی  نه هوسکے!! مستقبل کی فکر هونا لازم و ضروری هے لیکن ایسی مستقبل کی فکر که جو حقیقت پر مبنی هو نه که خیالی پلائو اور غیر حقیقی بنیاد پر هو!! «طول الامل» یعنی طولانی آرزوئیں٬ که جن تک رسائی ممکن نهیں که ممکن هے ان تک پهنچنے کےلئے عمر کا ایک حصه گزار دیا جائے لیکن پھر بھی اس تک نه پهنچا جائے اور اگر حقیقی آئنده کو بھلا دیا جابے اور اپنا سارا سرمایه اِنهیں حاصل نه هونے والی آرزئوں میں خرچ کردیا جائے!!(تو کتنا بڑا نقصان هے)

 جی هاں! همیشگی سعادت٬ جاویدانه نیک بختی٬ بهشت رضوان اور روشن مستقبل صرف «عمل» کے ذریعه هی حاصل هوتی هے نه که «آرزو» کرنے سے٬ دنیوی آرزوئیں همیں هماری طرف متوجه هونے والے آئنده کے لئے مفید چاره جوئی اور عمل سے روک دیتی هیں٬ آج سے بلکه اِسی وقت سے هی عمل انجام دینے کی فکر میں رهیں کیونکه ممکن هے که دوسرے وقت یا دوسرے دن میں دیر هوچکی هو!

نور و ایمان کا رهبر که جو آسمانی راستوں کو بھی جانتا هے اور ان پر عمیق نظر بهی رکھتا هے وه که جو بصیرت اور قلبی دیدار کے ساته خدا کی عبادت کرتا هے اور وه که جو راه نجات اور راه هدایت کا رهبر هے٬ اُس نے همیں اِس بات کی تاکید کی هے که:

«کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو اُخروی سعادت کی امید رکھتے هیں لیکن عمل اور جدّ وجهد نهیں کرتے! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جن کی دنیوی زندگی کی طولانی اور خیالی آرزوئیں انھیں اپنی اصلاح اور راه خدا کی طرف پلٹنے سے روکے رکھے! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو توبه میں تاخیر ڈالتے رهتے هیں٬ کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دنیا میں لوگوں کے سامنے تو «زاهدانه» گفتگو کرتے هیں لیکن مقام عمل میں دنیا سے دل لگائے هوئے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو صرف گفتگو کرتے هیں انھیں عمل کی کوئی پروا نهیں هوتی!  کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو اپنے گناهوں اور انحرفات کی وجه سے «موت» سے گھبراتے هیں!

کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جن پر مشکل وارد هوتی هے اور ان کے امتحان کا وقت هوتا هے تو خداوندعالم کو یاد کرتے هیں اُسے پکارتے هیں لیکن جب ان کی پریشانی دور هوکر انهیں چین و سکون مل جاتا هے تو پھر فریب اور فراموشی کے دلدل میں پھنس جاتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هونا که جن کے لئے اگر شهوت رانی کا راسته هموار هوجائے تو گناه میں مبتلا هوجاتے هیں اور توبه کو ٹالتے رهتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو «نابود هوجانے والی چیزوں» کے لئے تو جدّ و جهد کرتے هیں لیکن باقی رهنے والی چیزوں کے سلسله میں لاابالی اور بے توجهی کرتے هیں!  کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو «نقصان» کو «فائده» اور «فائده» کو «نقصان» تصور کرتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دوسروں کی مذمت کرتے هیں اور اپنی تعریفوں کو پُل باندھ دیتے هیں اور اپنے سے غافل هوجاتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که که جو مالداروں اور خوش حال لوگوں کے ساتھ بی خبر اور غفلت و سرگرمی میں اپنی عمر کو گزارنے کو غریبوں اور مفلسوں کے ساتھ یاد خدا اور ذکر خدا سے زیاده دوست رکھتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دوسروں کو تو راسته دکھاتے هیں لکین خود کو گمراه کرتے هیں٬ کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو غیر الهی اور غیر ضروری کاموں میں لوگوں کی طرف سے فکر مند هوتے هیں لیکن خلق خدا اور دوسرے کے ساتھ سلوک کرنے کے سلسله میں خدا سے کوئی خوف و هراس نهیں رکھتے٬ کهیں ایسا نه هو! ۔۔۔ کهیں ایسا نه هو!!»

جی هاں! یه حضرت امام علی علیه السلام  وصیت اور تاکید هے٬ خداوندعالم ان پر اپنا دورود سلام بھیجے اور ان کے فرمان کو هماری بیدار کا سبب قرار دے۔

● احاديث اور مآخذ  کی فهرست

1- لايُحِبُّنی الاّ مومن وَلا يُبْغِضُنی الاّ مُنافِق‌ٌ (صحيح مسلم ـ جلد 1 ـ ص 55)

2. اَعيُنونی بِوَرَع واجتهادٍ وعِفَّة و سَدادٍ. (نهج البلاغه ـ نامة 45)

3. اَلحِكْمَة ضالَّة الْمُوْمِن فَخُذِالحِكْمَة وَ لَو مِن اَهْل النّفاق‌ (نهج البلاغه ـ حكمت 80)

4. اللّه اللّه فِی القُرآن، لايَسْبِقُكُم بِالعَمَل بِه غَيرُكُم (نهج البلاغه ـ نامه 47)

5. لاتكن مِمَّن يرجو الا´خرة بغير العمل و يُرَجِّی التوبة بطول الاَمَل (نهج البلاغه ـحكمت 150)