حضرت امام علی علیه السلام  کی چند احادیث (2)

6- اَلدُّنْيا تَغُرُّ و تَضُرُّ و تَمُرُّ

دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان دیتی هے اور گزر جاتی هے۔

 حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام سے خود کو متصل کرنا آپ کے جهان بینی اور نظریه کو حاصل کئے بغیر ناممکن هے٬ اُس ولی خدا کی عمیق اور الهی معرفت کی بلندی تک پهنچنے همارے لئے (جبکه هم امام علیه السلام سے میلوں فاصله رکھتے هیں) ظاهری طور پر ایک محال چیز دکھائی دیتی هے لیکن اُس مکتب الهی تک پهنچنے کی راه میں قدم بڑھانا مکمل طور پر ممکن اور میسّر هے۔ یقینی طور پر ایک اهم موضوع مولائے متقیان کے نظریات میں عالم کائنات اور اُس کے حقائق کے سلسله میں حضرت امیر کا نظریه هے٬  دنیا اور اُس کی اهمیت و منزلت و واقعیت کے بارے میں حضرت علی علیه السلام کے نظریه کو صحیح طور پر سمجھے بغیر فکری٬ قلبی اور رفتاری لحاظ سے آپ کے نزدیک نهیں هوا جاسکتا٬ شاید نهج البلاغه میں کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں «دنیا» کے برابر مذمت نه هوئی هو٬ حضرت علی علیه السلام سے دنیا کے سلسله میں متعدد خطبے اور مختصر حکمتیں هم تک پهنچی هیں که جن میں سے ایک یه هے: « دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان پهچاتی هے اور گزر جاتی هے۔» کس قدر مختصر سا جمله لیکن کتنے عظیم معنی! ایسے کام کو جس کو دھوکه دینے والی دنیا کی زرق و برق اپنے عاشقوں اور مریدوں کے ساتھ انجام دیتی هے اِسی مختصر سے جمله میں بیان هوا هے۔

1- دنیا دھوکه دیتی هے: جی هاں!  دنیوی آرزوئیں٬ شهوات تک پهنچنے کے لئے لمبی لمبی خیال پردازیاں٬ مال و دولت اور مقام و منصب تک پهچنا٬ یه تمام چیزیں خوشی٬ آسانی اور لذت  وغیره انسان کو دھوکه دیتی هیں۔ کیونکه یه دیکھنے میں خوبصورت هیں اور آرام بخش٬ لیکن جو لوگ ان تک پهنچتے هیں تو انھیں معلوم هوتا هے که خیال باطل اور غلط توهمات میں گرفتار هوگئے تھے اور جو چیز سوچ رهے تھے اُس تک نهیں پهنچ سکے هیں!

 البته جو لوگ طبیعی نعمتوں کو «دنیا طلبی» کے محصور اور تنگ نظریه سے نهیں دیکھتے اور انهیں حیات آخرت کا پیش خیمه مانتے هیں وه هرگز ایسے فریب اور دھوکه میں گرفتار نهیں هوتے۔ وه لوگ دنیا کے دھوکه میں آتے هیں که جنھوں نے دنیا کی حقیقت کو نه پهچانا هو اور جو «مقدمه» هو اُسے «نتیجه» سمجھ بیٹھے هوں اور«ظاهر» کو «باطن» تصور کربیٹھے هوں! دنیا کا فریب٬ دنیا پرستوں اور طالبان دنیا کا حصه هے نه که اُن لوگوں کا جو دنیا کو اول سے هی وقتی اور گزرجانے والی مانتے هیں اور اُسے صرف رضائے الهی حاصل کرنے اور کمال حقیقی تک پهنچنے کا موقع سمجھتے هیں٬ لیکن کیا کیا جائے که لوگوں کی اکثریت نے دنیوی زندگی کو «سب چیز» تصور کرلیا هے اور اُسے حاصل کرنے کےلئے اپنی پوری همت صرف کردی هے٬ اِسی بنا پر وه دنیا کے فریب میں مبتلا هوگئے هیں۔

 انهیں یه معلوم نهیں هے که یه دنیا امتحان اورآزمائش کی جگه هے٬ خودسازی اور جدّ و جهد کی جگه هے٬ سختیوں اور دشواریوں کا مقام هے٬ نه تو یه زندگی کا آخری مقصد هے٬ نه ایسا مرحله هے که جو انسان کی سعی و کوشش اور جدّ وجهد کا پھل دے سکے٬ نه ایسا میدان هے که جس میں تمام آرزوں اور خواهشوں کو پورا کیا جاسکے! جن لوگوں نے «دنیا» کی محدود زندگی کو محدود کرلیا هے اور اُس کی غلامی کو اپنا کاروبار سمجھ لیا هے انھیں فریب اور دھوکه کے علاوه کچه حاصل نهیں هوگا۔ جی هاں! «الدنيا تغرّ٬ یعنی دنیا دھوکه دینے والی هے۔»

 2- دنیا دھوکه دینے کے بعد انسان کو نقصان اور خساره میں مبتلا کردیتی هے٬ جو انسان خسارے اور کھاٹے میں هیں یهی لوگ هیں که جنھیں دنیا کی چال بازیاں اِس بات پر مجبور کرتی هیں که وه اپنی زندگی کا سرمایه اِس دنیا کو حاصل کرنے میں صرف کردیں اور اپنی آخرت و آئنده سے غافل هوجائیں۔ یه لوگ اپنی تمام طاقت وهمت اور عمر کو «دنیا» کے حاصل کرنے میں خرچ کردیتے هیں جو دنیا «گزرجانے والی» هے لیکن انھوں نے غلط فهمی کی بنا پر اُسے آخری حد اور بنیادی مقصد تصور کرلیا هے!

 3- آخر کار یه دنیا اپنے عاشق کو نقصان پهنچانے کے بعد گزرجاتی هے اور نقصان پهنچنے والوں کو جواب دینے یا ان سے عذر خواهی کے لئے تھوڑی دیر کے لئے بھی نهیں رُکتی! جن لوگوں نے اپنی عمر کو دنیا کے دھوکه دینے والی چیزوں میں گذار دیا اور آخر  کار فریب خورده اور حسرت و یاس سے هاتھ ملتے هوئے اِس حال میں آخرت میں وارد هوتے هیں که اُن کا اصلی سرمایه هاتھ سے چلا گیا لیکن کیا وه «دنیا» کو اپنے نقصان کی تلافی کرنے کے لئے عدالت میں لاکر کھڑا کرسکتے هیں؟! هرگز نهیں! کیونکه دنیا فریب اور نقصان دینے کے بعد گذر جاتی هے۔

 البته دنیا سے دھوکه کهانے والے اور دنیا سے نقصان اٹھانے والے خود هی قصوروار هیں۔ انهیں اپنےعلاوه کسی دوسری کی ملامت و مذمت نهیں کرنا چاهئے! انھوں نے اپنی آنکھوں سے زمانه کو دیکھا تھا٬ اپنے رشته داروں اور دوستوں کی موت کو دیکھا تھا ان کے دفن میں بهی شرکت کی تهی٬ اُن کی عقل اور وحی و قرآن کی دعوت ان کے سامنے موجود تھی که یه دنیا فانی اور گزرجانے والی هے اور انسان کو فانی دنیا سے دل بستگی نهیں رکھنی جاهئے اور اُسے حیات ابدی کی فکر کرنی چاهئے اور اِس فانی دنیا میں اُس کے لئے زاد راه جمع کرنا چاهئے!

حضرت امام علی علیه السلام کے نقطه نظر سے اس دنیا میں کام اور جدّ و جهد کرنا چاهئے اور اِس کے علاوه کوئی چاره نهیں هے که ابدی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے اِسی عمر کے سرمایه اور دیگر امکانات سے فائده اٹھانا چاهئے٬ اِس عالم طبیعت میں زندگی کرتے هوئے آخرت کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاهئے٬ لیکن «دنیا کے لئے» نهیں٬ بلکه حیات اُخروی میں کمال حاصل کرنے کے لئے۔ جو کچھ کسی کی دنیا هوتی هے اُس سے وابستگی اور اس کے ظاهر سے فریب کھانا هے٬ نه صرف سعی و کوشش اور کام٬ علم حاصل کرنا اور زندگی بسرکرنا! حضرت علی علیه السلام کی سیرت همارے لئے اِس بات کو واضح کردیتی هے که «دھوکه دینے والی٬ نقصان پهنچانے والی اورگزرجانےوالی دنیا» نه تو اُس کی طیبعی نعمتوں سے فائده اٹھانا هے اور نه زندگی کو بهتر بنانے کےلئے سعی و کوشش کرنا هے اور نه معاش زندگی کے لئے کسی کام میں مشغول هونا هے٬ بلکه اگر یه تمام کام خدا کو نظر میں رکھ کر انجام دئے جائیں تو یهی حقیقت میں آخرت کو سنوارنا هے۔

 جس چیز کے سلسله میں حضرت علی علیه السلام مذمت و ملامت کرتے هیں وه «دنیا کے لئے کام کرنا»هے لیکن «دنیا میں» کام کرنا «آخرت کے لئے» درحقیقت درست اور موجب ثواب هے اور اس کے علاوه انسان کی روحی ترقی اور سعادت کا کوئی راسته نهیں هے۔

جی هاں! حضرت امام علی علیه السلام کی زندگی سے ایک قدم نزدیک هونے کے لئے دنیا کے سلسله میں اِس نظریه پر پهنچ جائیں که «دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان دیتی هے اور گزر جاتی هے۔» تاکه هم اپنی سعی و کوشش اور جدّ و جهد دنیوی تنگ حدود سے بالاتر هوکر منظم کریں اور با هدف اور معنی دار زندگی تک پهنچ جائیں٬ انشاء الله تعالی۔ 

7- اَيُّهَاالنّاس! اِنَّما الدُّنْيا دارُ مَجازٍ وَالاخِرَة دارُ قَرارٍ، فُخُذُوا مِن مَمَرِّكُم لِمَقَرِّكُم...

اے لوگو! بے شک که دنیا گزرجانے والی هے اور آخرت٬ دار قرار هے٬ پس اپنے گزرنے کی جگه کے ذریعه باقی رهنے والی جگه کو آباد کرلو۔۔۔

دنیا و آخرت کے سلسله میں انسان کا نظریه٬ اُس کی طرز زندگی کے انتخاب اور ایک مقصد تک پهنچنے کے لئے بنیاد هے۔ دنیا و آخرت انسان کی همیشگی زندگی کے دو مرحلوں کا نام هے که جو مکمل طور پر ایک دوسرے سے مربوط هیں۔ اسلام کی نگاه میں یه انسان کی زندگی کی روش اور انداز زندگی هے که جو اُس کی آخرت کو سنوارتا هے۔ هر وه انسان که جو ایمان اور عمل صالح سے بهره مند هو تو اُس نے اپنی همیشگی سعادت کو حاصل کرلیا هے اور جو شخص ایمان یا عمل صالح (یا دونوں) سے محروم هو اُس نے اپنی آخرت کے لئے زاد راه جمع نهیں کیا هے اور وه خساره اور حسرت میں مبتلا هوگا۔ اِس لحاظ سے هدایت الهی اورانسان کو دینی رهبروں کی رهنمائی کی بنیاد پر ایسے مسلک وسلوک تک رسائی هے که جو انسان کو مطمئن کردیتی هے که اس کی حیات جاویدانه٬ سعادت مند طریقه پر رقم هوچکی هے اور وه کمال حقیقی تک پهنچ گیا هے۔ اگر یه حقیقی پر مستقبل بینی مدّ نظر نه هوتی تو پھر آسمانی شریعتوں اور الهی هدایت کی کوئی خاص ضرورت نه هوتی۔

اگر اسلام (سب سے جامع اور کامل دین حق کے عنوان سے) انسان کی انفرادی٬ گھریلو اور اجتماعی زندگی میں اور اخلاقی٬ تربیتی٬ اقتصادی٬ سیاسی٬ قضایی٬ عبادی اور حقوقی جیسے مختلف پهلوئوں کے لئے عملی منصوبه اور کرداری نظام پیش کرتا هے تو اِس کی وجه یه هے که یه تمام پهلو انسان کی همیشگی زندگی میں موثر هیں اور اِس لئے هیں که انسان اپنی جاویدانه سعادت کو حاصل کرنے کے لئے ان سے فائده اٹھائے٬ انسانی زندگی کے مختلف پهلووں پر توجه کئے بغیر آباد اور مطمئن آخرت سنوارنا ممکن نهیں هے۔ جو شخص اِس دنیا میں دل کا اندها اور حیران هے وه آخرت میں بھی دل کا اندھا اور حیران هے٬ لهذا انسان کوآخرت کی گمراهی اور حیرانی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اِسی دنیا میں هوشیاری اور بصیرت پر مبنی زندگی گزارنی هوگی اور بصیرت و معرفت کے ساته اپنی زندگی میں جدّ و جهد کرنا هوگی اوریه کام دین کا بنیادی کام اور انبیائے الهی کی رسالت هے۔

ایسی رسالت که صرف بشری تفکر و تجربه اور علم اُس کی جگه نهیں لے سکتے۔ جی هاں! انسان اور تمام کائنات پر اسلام کی نظارت اور دخالت اس نظریه سے قابل فهم هے٬ هر وه چیز که جو انسانی سعادت میں موثر هے اسلام نے اُسے بیان کئے بغیر نهیں چھوڑا هے: جو چیز انسان کی سعادت کے لئے نقصان ده هے وه حرام هے اور جو چیز ضروری اور لازمی هے اُسے واجب قرار دیا هے٬ اِسی وجه سے حلال محمد(ص) قیامت کے لئے حلال اور آنحضرت (ص) کی حرام کرده چیز٬ قیامت تک حرام هے٬ احکام ثانوی یا احکام حکومتی (که جو امت کی مصلحت کی بنیاد پر مخصوص دائره میں جامع شرائط مجتهدین کے ذریعه استنباط هوتے هیں) بھی دنیوی زندگی کو منظم کرنے کے لئے هیں لیکن ابدی سعادت کو حاصل کرنے کی راه میں۔

حضرت امیر المومنین علیه السلام نے اِس مختصر سے کلام میں دنیا و آخرت کے سلسله میں صحیح نظریه پیش کیا هے اور اِس دنیوی زندگی کے فانی اور گزرجانے والی اور آخرت کی زندگی کا جاویدانه هونے کے پیش نظر همیں اِس دنیا سے آخرت کے لبے زاده راه جمع کرنے کی دعوت دی هے۔ انسانی عقل بهی یهی فیصله کرتی هے که فانی چیز کو باقی رهنے والی چیز پر قربان کردیا جاتا هے٬ وقتی امور کو اصلی اور باقی رهنے والے امور پر فدا کیا جاتا هے٬ گزرجانے والے مرحله کو اصلی شمار نهیں کیا جاتا اور اپنے پورے سرمایه کو اُن کاموں میں صرف نهیں کیا جاتا اور جهاں تک ممکن هوسکے اپنی زندگی کی رفتار و گفتار اور فیصلوں کو ایسے منظم کیا جائے که جو آخرت میں ثمر بخش اور مفید واقعه هو۔ جی هاں! حقیقت میں جو چیز آخرت کے لئے خرچ کی جائے وه «ابدی سرمایه گزاری» هے لیکن جو دنیا کے لئے خرچ کی جائے وه «اخراجات» هیں اور وه دوباره واپس نهیں آسکتے٬ لهذا انسان کی عقل اِس بات کا حکم کرتی هے که «سرمایه گزاری»٬ «اخراجات» پر ترجیح رکھتی هے!

وه لوگ سعادت مند هیں که جو اپنے اخراجات میں کمی کریں اور سرمایه گذاری میں اضافه کریں٬ قبل اس کے که ان کا بدن (طبیعی موت یا غیر ارادی سے) دنیا سے جائے اُس سے پهلے اپنے دل کو دنیاداری سے الگ کرلیں اور دنیوی امور سے دل نه لگائیں٬ آخرت میں جانے سے پهلے اپنے لئے زاد راه پهلے سے بھیج دیں٬ کیونکه لوگ انسان کی موت کے بعد سوال کرتے هیں که «مرنے والا کیا چیز چھوڑ کر مرا؟» لیکن ملائکه یه سوال کرتے هیں که «مرنے والے نے پهلے سے کیا چیز بھیجی؟»

دنیا کے سلسله میں یهی نگاه انسانی معاشره کو منظم کرتی هے اور عدالت و مساوات و انصاف٬ ظلم و ناانصافی کی جگه لے لیتے هیں٬ تعاون اور خدمت٬ دوسروں پر ناحق تسلط اور دوسروں کی زحمتوں سے فائده اٹھانے والوں کی جگه لے لیتے هیں٬ رقابت اور حسادت کی جگه دوستی اور محبت آجاتی هے٬ لالچ اور کنجوسی کی جگه زهد و سخاوت آجاتا هے اور آخر کار جنت الفردوس کا ایک جلوه اسی دنیا میں دکھائی دینے لگتا هے! اور اِس نظریه پر عقیده رکھنا همیں حضرت علی علیه السلام کے ایمان اور تفکر سے نزدیک کردے گا۔ ان شاء الله۔

8-  هَلَك‌َ امْرُوٌ لَم يَعْرِف‌ْ قَدْرَه

جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نه پهچانے وه هلاک هوجائے گا۔

انسان ایک ایسا موجود هے که جو اپنی سعادت اور کمال کی راه کو اپنی عقل و فهم کے ذریعه تلاش کرے اور عزم و بصیرت کے ساته اُس کو طے کرے٬ دین حق کو پهچانے اور اولیائے الهی کی رهنمائیوں پر عمل کرے اور مطلوبه مقصود کی طرف قدم بڑھائے۔ انسان کا کمال مطلق کی طرف پهنچنے کے لئے اِس کے علاوه کوئی دوسرا راسته نهیں هے که انسان خود «راه» کو پهچانے اور اُس پر قدم بڑھائے۔ بے شک اِس صورت میں الله کی مدد اور اس کی طرف سے هدایت بهی اس کی امداد کرے گی کیونکه اُس کے بغیر کوئی کسی جگه نهیں پهنچ سکتا٬ انبیائے الهی کی هدایت ان لوگوں کے لئے مفید اور مشکل کشا هوتی هے که جو دین حق کے احکام اور قوانین کو قبول کرتےهوئے الله کی طرف سے نسیم هدایت کی راه میں قرار پاتے هیں٬ اور اسی وجه سے هے که «دین» میں کوئی زور زبردستی نهیں هے اگرچه کمال و نجات کا راسته اِسی راه میں منحصر هے۔

 ایسا موجود که جو اپنے علم و آگاهی٬ اراده٬ سعی و کوشش اور جدّ وجهد کے ساتھ حیات ابدی اور همیشگی سعادت کی راه کو طے کرے٬ وه خود اپنے اور اپنی استعداد٬ اپنی منزلت کو پهچانے اور سمجهے بغیر اپنی خامیوں اور حدود کو پهنچانے بغیر اِس راه میں جیسا که شائسته هے قدم نهیں بڑھا سکتا۔ انسان راه کمال کا راهی هے اور هر راهی اگر اُس راه کے حالات٬ شرائط اور حدود سے آگاه نه هو تو اچھے طریقه سے اُس راه کو طے نهیں کرسکتا٬ جس قدر هدف کا پهچاننا مهم هے اور«مقصود» اور «مطلوب» کے بارے میں صحیح اور عمیق معرفت کے بغیر صحیح طور پر قدم نهیں بڑھایا جاسکتا٬ اُسی طرح خود شناسی بهی اهمیت رکهتی هے اور اُس کے بغیر اپنی راه کی سمت اور اُس پر چلنے کی کیفیت کو منظم نهیں کیا جاسکتا۔

انسان کو اپنے سلسله میں دو طریقه کی شناخت ضروری هے٬ اول: «نفس کی شناخت» که جو خداوندعالم کی معرفت اور خلقت اور هدف کی شناخت کا مقدمه هے٬ دوسرے: «معرفت قدر» که جو صحیح راه پر چلنے کے لئے لازمی شرط هے۔

نفس کی معرفت٬ نوع بشر اور نظام کائنات میں اس کی عظمت و اهمیت کی شناخت هے٬ سب سے زیاده مفید اور سب سے زیاده ضروری شناخت٬ نفس کی معرفت اور شناخت هے۔ جو شخص نوع بشر٬ اُس کی خلقت کا اصلی مقصد٬ انسان کی کرامت اور اُس کا اقدار٬ مخلوقات کے درمیان اُس کے امتیاز کو نه پهچانے٬ تو وه اپنے کو عالم طبیعت میں ایک محدود اور محصور موجود تصور کرے گا اور اپنی زندگی کا مقصد مادّی اور حیوانی لذتوں اور آرام و ترقی کی حد تک تصور کرے گا اور انسانی و الهی سیر و سلوک پر چلنے سے رُک جائے گا۔ جو لوگ اپنے کو دنیا کے هاتهوں فروخت کردیتے هیں اور مادّی فائدوں کو اپنا هدف اور مقصد تصور کرلیتے هیں٬ وه نفس کی معرفت اور شناخت سے محروم هوتے هیں اور وه انسان کو دوسرے حیوانات کی طرح تصور کرتے هیں۔ یه لوگ خدا کی شناخت اور اُس کی معرفت سے بهی محروم رهتے هیں اور سرانجام کمال تک پهنچنے میں جدّ و جهد نهیں کرپاتے۔

لیکن معرفت قدر ایسی شناخت هے که جو هر شخص اپنے بارے میں رکھتا هے۔ انسان اگرچه سب ایک هی قسم کے افراد هیں لیکن پهر بهی انسان میں بهت سی الگ الگ خصوصیات پائے جاتے هیں٬ اور هر انسان دوسرے شخص سے بهت زیاده فرق رکھتا هے که جو اُس کے ذاتی شخصیت کو تشکیل دیتے هیں۔ علمی اور هنری استعداد٬ نفاذی توانائیاں٬ انفرادی اور گھریلو سهولیات٬ اجتماعی اور صنف کے حالات٬ تربیتی و اخلاقی خامیاں٬ ذوق و سیلقه وغیره٬ یه سب چیزیں ایسی هیں که انسانوں کے یهاں  مختلف هوتی هے اور یهی فرق انسان میں فرائض اور ذمه داریوں اور امیدوں کے اختلاف کا سبب هوتی هیں۔ اگرچه کلّی تکالیف کے عنوان سے تمام انسان مشترک هیں٬ کیونکه تمام «انسان» هیں٬ لیکن مصداق اور اس کی مقدار اور کیفیت میں فرق هوتا هے٬ جو استعداد اور توانائیوں کے فرق کی وجه سے پیدا هوتا هے٬ علم و دانش کا حصول سب کے لئے واجب هے٬ لیکن تمام انسانوں کی استعداد مختلف موضوعات میں برابر نهیں هے۔ دوسروں پر خرچ کرنا اور ان کی مدد کرنا سب پر واجب هے لیکن لوگوں کی مالی طاقت برابر نهیں هے۔ خلق خدا اور غریبوں کی مدد کرنا سب پر واجب هے لیکن خدمت خلق میں اُس کی کیفیت اور مقدار مختلف هوتی هے۔۔۔ اِس بنا پر امکانات اور استعداد میں موجود فرق٬ فریضه اور ذمه داری کے فرق  کا باعث هوتا هے اور هر انسان پر اُس کی استطاعت اور طاقت کے لحاظ سے تکلیف عائد هوتی هے۔

 اپنی قدر کی معرفت یعنی اپنی تمام استعداد اور حدود کی شناخت٬ استطاعت اور تکالیف کی شناخت اور ان کو انجام دینے کا اهتمام۔ جو شخص اپنی «قدر»کو نه پهچانے تو وه شخص اپنی تکالیف اور ذمه داریوں کو اپنی استطاعت و توانائیوں کے لحاظ سے انجام نهیں دے سکتا جس کے نتیجه میں یا کم کام کرے گا اور سستی و کاهلی میں مبتلا هوجائے گا اور اپنی استعداد کے ایک حصه کو بروئے کار نهیں لائے گا یا حد سے زیاده کاموں میں مشغول هوگا که جس کے نتیجه میں بهت هی جلد خستگی کا شکار هوجائے گا اور اپنی جسم و جان کے سرمایه کی نابودی کا سبب بنے گا۔ اِسی دلیل کی وجه سے جو شخص اپنی قدر نه پهچانے تو وه هلاکت و نابودی کا شکار هوگا٬ معنوی هلاکت یهی هے که اپنی حدّ و حدود کو نه پهچانتے هوئے حد سے آگے بڑھ جائے اور لوگوں کے درمیان ذلیل وخوار هوجائے اور اپنی استعداد اور حالات کے ذریعه اپنی سعادت تک پهنچنے کے لئے بهترین طریقه کا انتخاب نه کرے۔

اپنے نفس اور اپنی قدر کی شناخت «اپنے سلسله میں» دو قسم کی شناخت هے که جو انسان کی قسم کے بارے میں اور دوسرے ذاتی خصوصیات اور استعداد کے بارے میں هے اور حقیقت و کمال تک پهنچنے کے لئے معرفت کی دونوں کی قسم کی کا هونا ضروری هے که جس سے انسان ابدی سعادت تک پهنچنتا هے اور هلاکت و نابودی سے نجات پیدا کرتا هے۔

جو شخص اپنی قدر کو پهنچانے اور اُسی کے لحاظ سے اپنی زندگی کا منصوبه بندی کرے اور تدبیر سے کام لے تو ایسا شخص بے جا مقابله بازی٬ نابود کردینے والی حسادت٬ بے جا امیدیں٬ زیاده خواهی اور سستی وغیره میں مبتلا نهیں هوگا اور اپنے سرمایه و دیگر سهولیات کو تباه نهیں کرے گا۔ ایسے شخص کو معلوم هے که خداوندعالم کے نزدیک هر شخص کے اعمال کا معیار اس کے امکانات اور استعداد هیں٬ اور کوئی شخص اپنی استعداد اور طاقت سے زیاده مسئول اور ذمه دار نهیں هے۔ اگر هر شخص هر وقت اور هر عالم میں اپنی استعداد کے لحاظ سے نیکی اور ذمه داری کو انجام دے تو معاشره بھی ترقی اور کامیابی کے راسته پر چلتا هوا نظر آئے گا اور اُس کی اصلاح هوجائے گی۔ انشاء الله۔

9- مَن اسْتَبدَّ بِرَايِه هَلَك‌َ وَمَن شاوَرَ الرِّجال شارَكَها فی عُقُولِها

جو شخص اپنی من مانی کرے وه هلاک هوجائے گا اور جو شخص دوسروں سے مشوره کرے وه اُن کی عقلوں میں شریک هوگا۔

   جب بهی همارے کانوں میں لفظ «استبداد» ٹکراتا هےتو فوراً ایک ظالم اور ڈکٹیٹر حکومت کا تصور همارے ذهن میں آتا هے که جو بلاقاعده اور قانون کے لوگوں پر حکومت کرتی هے! لیکن اِس لفظ کے معنی و مفهوم وسیع اور عام هیں۔ البته وه حاکم که جو ظالم هو اور بلاکسی قاعده و قانون کے ظلم و ستم کی بنا پر لوگوں پر حکومت کرے تو وه «ظلم و استمداد» کا ایک کامل مصداق هے لیکن اُس کا اکیلا مصداق نهیں هے۔

استبداد یعنی اپنی من مانی کرنا اور دوسروں سے مشوره نه لینا٬ اور یه خصوصیت هر شخص میں پائی جاسکتی هے۔ جو شخص اپنی ذاتی زندگی میں اپنی مرضی کے مطابق هر کام کرے اور انسان اپنے اطراف کے ماحول میں دوسروں کی نظریات پر توجه کئے بغیر خود هی میں فیصله کرے اور وه شخص که جو اپنے آئنده کے لئے دوسروں کے تجربات سے فائده نه اٹھائے اور جو کچھ اُس کی نظر میں دکھائی دے اُسے اپنے کاموں کی بنیاد قرار دے٬ وه مدیر مسئول که جو اپنے کارکنان سے مشوره لئے بغیر فیصله کرے٬ وه میاں بیوی که جو ایک دوسرے سے مشوره لئے بغیر یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے مشوره لئے بغیر اپنے کاموں کو انجام دیتے هیں٬ ایسے لوگ کم و بیش «استبداد یعنی من مانی» کی بیماری میں مبتلا هے۔

 یه حالت٬ خودخواهی٬ خودپسندی اور اپنے کو بڑا ماننے سے وجود میں آتی هے٬ اخلاقی برائیاں که جو بهت سی گمراهی٬ انحراف٬ کج روی کی باعث بنتی هیں اور ا نسان کو آخر کار هلاکت و نابودی کی طرف لے جاتی هیں۔ جی هاں! جو شخص اپنی هی من مانی کرتا هو٬ سرانجام وه هلاکت میں گرفتار هوجاتا هے٬ کیونکه هر انسان کا علم و دانش محدود هے اور جو شخص اپنی زندگی کی راه کو طے کرنے میں دوسروں کے تجربوں سے فائده نه اٹھائے تو وه خواه نخواه اپنے فیصلوں اور تشخیص میں غلط فهمی کا شکار هوگا اور بار بار اِس طرح کی غلطیوں کی تکرار کرنے سے انسان٬ بعض اوقات ایسی منزل پر پهنچ جاتا هے که جهاں سے پلٹنا ناممکن هوجاتا هے اور اُس کی تلافی کرنے کی کوئی راسته نهیں پچتا۔

 خصوصا ایسے فیصلے که جو انسان کی زندگی کے لئے سرنوشت ساز هوتے هیں اور مستقبل میں موثر واقع هوتے هیں اپنے علم و دانش پر اکتفا کرنا ایک بهت بڑی غلطی هے٬ اجتماعی امور میں بھی اگر عهده داران اور ذمه دار افراد اپنے اداره میں دوسروں کے نظریات (خصوصاً ماهر اور تجربه کار اور مورد اعتماد کارکنان سے) مشوره نه کریں تو وه بهت بڑی غلطی کے شکار هوجاتے هیں که بعض اوقات اُن کے نقصانات کی تلافی نهیں هوسکتی۔ اِس کے علاوه ایک نکته یه بهی هے که اجتماعی کاموں میں که جهاں افراد «ایک ساتھ» کام کرتے هیں٬ اپنے ساتهیوں کے نظریات سے فائده نه اٹھانا٬ اُن کے فرائض اور ذمه داریوں  میں بے رغبتی کا باعث هوتا هے اور وه پھر صحیح سے کام نهیں کرتے یا تو غلط کام کرتے هیں یا کاهلی سے کام لیتے هیں۔ اِس بنا پر «استبداد» نه صرف یه که انسان کو دوسروں کے تجربه و دانش سے محروم کرتا هے بلکه اُسے دوستوں اور ساتھیوں کی همراهی اور تعاون سے بهی بے بهره کردیتا هے۔

مشوره کرنا یعنی دوسروں کی عقل میں شریک هونا هے٬ چونکه جو شخص دوسروں سے مشورت کرتا هے جو کچھ دوسروں نے تجربوں سے نتیجه حاصل کیا هے یا اپنے علم سے اُس تک پهنچے هیں انسان آسانی کے ساتھ ایک دم اُس تک پهنچ جاتا هے اور بهت آسانی کے ساتھ دوسروں کی «عقل» میں شریک هوتا هے۔

اِس بنا پر حضرت علی علیه السلام کی نظر میں انسان کی تصمیم اور فیصلے ایک مستحکم پشت پناهی هے اور جو لوگ اپنی تصمیم اور فیصلوں میں دوسروں کے نظریات سے خود کو بے نیاز نه مانے تو وه بهترین نظریات کے مالک هوتے هیں اور بهترین فیصلے کرتے هیں۔ مشوره دینے والے کے نظریه میں معمولا هوا و هوس نهیں هوتی۔ البته مشوره کرنا٬ کسی چیز کے سلسله میں فیصله کرنے میں تاخیر کا باعث نه بنے٬ یا انسان اپنے کاموں میں شش و پنچ کا شکار نه هوجائے٬ بلکه انسان دوسروں سے مشوره کرکے اور اُن کے معلومات سے فائده اٹھاکر کوئی فیصله کرے تو خداوندعالم پر بهروسه کرتے هوئے کام کو انجام دے اور وسواس و تردید نیز شش و پنچ کا شکار نه هو۔ بعض اوقات فوری طور پر قدم اٹھانا لازم هوتا هے تو اُن مقامات میں اگر تاخیر نه هوتی هو تو مشوره کرے۔ لیکن بعض اوقات کام اتنا واضح و روشن هوتا هے که اُس میں کوئی شک و شبه نهیں هے اور مطب بالکل واضح هے تو اُس میں مشوره کرنے کی ضرورت نهیں هوتی۔

جو شخص مشوره کرتا هے٬ عام طور پر گمراهی میں مبتلا نهیں هوتا اور اگر وه غلطی بهی کر بیٹھے تو اُس کی خطا پر ملامت نهیں هوگی٬ برخلاف من مانی کرنے والے که جو که اهم کاموں کو بھی (که جس کے تمام پهلو واضح و روشن نهیں هے) انجام دیتا هے۔

سوال یه هے که کس سے مشوره کیا جائے؟ حضرت علی علیه السلام کا جواب یه هے که عقلمند اور باشعور٬ باتجربه انسان اور متقی و پرهیزگار اور خدا سے ڈرنے والے افراد اوردوراندیش اور صاحبان تدبیر افراد اور جو لوگ دلسوز هوں اور جو مشوره کرنے والے کی سرنوشت کے سلسله میں ذمه داری کا احساس کرتے هوں۔

اُن کے مقابله میں جو لوگ مشوره کئے جانے والے کے سلسله میں معلومات نه رکھتے هوں اور اخلاقی برائیوں جیسے جھوٹ٬ لالچ٬ زیاده خواهی٬ کنجوسی اور خوف وغیره میں مبتلا هوں اور شرعی قوانین کے سلسله میں لاابالی هوں اور جو شخص مشوره کرنے والے کے دشمن هوں یه لوگ بهترین مشوره دینے والے نهیں هوسکتے اور وه مشوره کرنے والے کے لئے اُس کے فیصله لینے میں مسئله کو واضح کرنے اور اس کی مدد کرنے نیز بهترین رائے اور فیصله تک پهنجنے میں اُسے گمراه کردیتے هیں اور اُس کے لئے مشکلات کھڑی کردیتے هیں۔

 لهذا امین اور دلسوز مشوره دینے والے کا فریضه هے که جو کچھ اُس کی نظر میں د کھائی دے غیر اصولی ملاحظات کے بغیر اور صداقت و امانت کے ساتھ مشوره کرنے والے کے سامنے اپنے نظریه پیش کردے اور مشوره کرنے والے کے اسرار کو بھی محفوظ رکھے۔

امام هدایت٬ پیشوای سعادتمندان حضرت امیرمومنان حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام همیں استبداد اور من مانی کرنے سے هوشیار کرتے هیں اور صاحب نظر افراد سے صلاح و مشوره کرنے کے سلسله میں تحریک کرتے هیں۔ اِس الهی رهنمائی کے ذریعه هم کس قدر اپنے کاموں میں خصوصا سماجی مسائل اور چھوٹے بڑے اداروں میں مشکل حل کرسکتے هیں اورفرصت کے ختم هونے اور امکانات و سرمایه کے ضائع و برباد هونے  سے روک سکتے هیں۔ کیا مشوره کرنے کی عادت کے بغیر اور خود رائے اور من مانی کرنے کی عادت کے ساتھ هم حضرت علیه السلام سے متمسک هونے کا دعوی کرسکتے هیں؟!

10- اِن الجَنَّة حُفَّت بِالْمَكارِه وَاِن النّارَ حُفَّت بِالشَّهَوات۔

بے شک بهشت سختیوں اور دشواریوں میں لپٹی هوئی هے اور جهنم خواهشات اور شهوات میں لپٹی هوئی هے۔

عالم آخرت میں انسان کی حیات جاویدان اور سعادت ابدی محقق هوگی٬ دنیوی زندگی انسان کی آخری اور اصلی منزل نهیں هوسکتی اور جو شخص دور اندیش هو تو اُسے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنا چاهئے اور اُس عالم آخرت کے لئے چاره جوئی کرنا چاهیئے۔

یهاں پر ایک سوال یه پیدا هوتا هے که کیا خلد بریں تک پهچنا اور سعادت ابدی حاصل کرنا لذات دنیوی اور شهوات نفس پر عمل کرتے هوئے اور مادی خواهشوں کے ساته جمع هوسکتا هے یا نهیں؟ حضرت علی علیه السلام ٬ پیغمبر اکرم (ص) کی زبانی اِس طرح جواب عنایت کرتے هیں که پیغمبر اکرم (ص)  نے فرمایا: بے شک بهشت سختیوں اور دشواریوں میں لپٹی هوئی هے اور جهنم خواهشات اور شهوات میں لپٹی هوئی هے۔

کبھی بهی بهشت کو حاصل نهیں کیا جاسکتا اِس حال میں که سختیوں اور دشواریوں سے اجتناب کیا جائے٬ اِسی طرح خواهشات اور شهوات تک نهیں پهچا جاسکتا مگر یه که اُس کے ساتھ آتش جهنم بھی انسان کے دامن گیر هو٬ حضرت علی علیه السلام صاف صاف فرماتے هیں که کوئی بھی اطاعت خدا نهیں هے مگر یه که انسان ناخوشی اور کراهت کے عالم میں انجام دیتا هے اور اُدھر سے کوئی معصیت و گناه نهیں هے که جو انسان هوا و هوس اور شهوت کے ساتھ انجام نه دے۔ جی هاں! مستحکم اراده رکھنا٬ کمر همت باندهنا اور مقصد تک پهنچنا راسته کو اپنانا٬ پیٹ پالنے اور لذت حاصل کرنے کے ساته ساتھ جمع نهیں هوسکتا۔

همیشگی سعادت کی راه میں صرف لذتوں اور هوس بازیوں سے پرهیز کرنا کامیابی کے لئے نه صرف شرط واقعی اور ضروری نهیں بلکه انسان ایسی محدود اور مادّی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس سے بلند مقاصد تک پهنچنے کے لئے بھی لذتوں اور آسانیوں سے چشم پوشی کرے اور مستحکم اراده کے ساتھ بلندتر مقاصد تک پهنچنے کے لئے قدم بڑھائے۔ کیا آپ کسی ایک شخص کو پهچانتے هیں که جنهوں نے بهت زیاده جدّ و جهد اور کوششوں کے ذریعه تاریخ بشریت میں بهترین اور مفید ترین اثر چهوڑا هو لیکن ساته ساته وه لذتوں میں غرق رهے هوں؟ اگر دنیوی مقاصد کے لئے سعی و کوشش اور جدّوجهد ضروری هے تو پهر معنویات تک پهنچنے اور آخرت کے بے انتها اورهمیشگی کمال تک رسائی کے لئے پریشانیوں اور سختیوں کا تحمل کرنا نهایت ضروری هے۔ مقاصد تک پهنچنے کے لئے کانٹوں پر چلنا هوتا هے اور جاهلوں کے طعنوں کو برداشت کرنا هوتا هے اور یه ایک ایسی حقیقت هے که جسے هم قبول کریں یا اُس کا انکار کریں لیکن هماری زندگی اور سرنوشت میں موثر هوتی هے۔

خداوندعالم کی اطاعت و عبادت کا نام «تکلیف» رکھا گیا هے کیونکه اُس میں سختیاں اور دشواریاں هوتی هیں٬ اِسی طرح هوس بازی اورهوا پرستی کا نام «شهوت» رکھا گیا هے؛ کیونکه یه انسان کی طبیعی اور حیوانی خواهشوں کو قبول کرنا هے۔ پس همیں یه امید نهیں رکھنا چاهئے که الهی فرائض کا انجام دینا٬ بهشت جاویداں اور سعادت اُخروی کی راه کو بغیر مشکلات اور سختیوں کے طے کیا جاسکتا هے٬ اِسی طرح یه بهی تصور نهیں کرنا چاهئے که شهوت پرستی کے ساتھ آتش جهنم نهیں هوگی! البته یه بات واضح و ورشن هے که جنت اور دوزخ کی راه کا تنها معیار راسته کا آسان یا سخت هونا نهیں هے اور ایسا نهیں هے که اگر کسی کا کوئی «اچھا کام» زحمت و دشواری کے بغیر انجام پا جائے تواُس میں  انسان کی سعادت و کمال کے لئے کوئی تاثیر نهیں هوگی٬ یا شهوت پرستی اور هوس بازی کسی کے لئے باعث زحمت هوجائے تو وه اُس کے جهنم میں جانے کی باعث نه هوگی! نهیں ایسا نهیں هے!

 جو چیز پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیه السلام کے کلام میں مدّ نظر هے ایک عمومی اور کلی قاعده هے که جس کے بیان سے اپنے ماننے والوں کو سعادت و کمال تک پهنچنے کے لئے مشکلات و دشواریوں کو قبول کرنے اور شهوت پرستی سے پرهیز کرنے کی رغبت دلاتے هیں اور اِس امید کی اصلاح کرتے هیں که وه یه گمان نه کریں که بلند مقاصد  تک پهنچنا شهوت پرستی کرتے هوئے بھی ممکن هے٬البته چونکه ایمان و تقوی کے درجات مختلف هیں لهذا جو شخص راه خدا اور کمال مطلوب تک پهنچنے کے لئے جس مقدار میں بهی شهوت پرستی اور لذت پرستی سے پرهیز کرے گا اُسی مقدار میں کمال و سعادت سے نزدیک هوتا چلا جائے گا۔

یهاں پر ایک اهم نکته پر توجه کرنا ضروری هے اور وه یه هے که اِس راه میں سختیاں اور دشواریاں اُس شخص کے لئے هیں که جو اِس راه میں مبتدی اور طفل مکتب هو٬ لیکن جب وه اِس راه سعادت کی راه کا مزه چکه لیتا هے اور اُس پر دنیا کی لذتوں اور هوس بازیوں کی حقیقت واضح هوجاتی هے تو نه صرف اُس پر راستے کی دشواریاں آسان هوجاتی هیں بلکه اُس راه پر چلنا نهایت آسان اور بلکه شیرین هوجاتا (که جس کا دنیا کی لذتوں اور شیرینی سےموازنه نهیں کیا جاسکتا )٬ جنھوں نے اپنا کامیاب تجربه همارے سامنے پیش کیا هے اُس سے یه بات واضح هوتی هے که دنیوی لذتوں کا ترک کرنا٬ محبوب کی راه میں چلنے میں ایسی لذت هے که جس کو بیان نهیں کیا جاسکتا٬ انھوں نے جب بیان کرنا شروع کیا تو وه اهل دنیا اور ثروتمندوں اور طاقتوروں پر لعن و طعن کرتے هوئے کهتے هیں: «کهاں هیں دنیا والے! هماری لذتوں کا اندازه لگائیں!» اِس بنا پر راسته کی شروعات میں ان لوگوں کے لئے جو دنیا کے محدود اغراض و مقاصد سے آگے بڑھ کر همیشگی سعادت کی راه میں قدم بڑھائیں٬ جنت کی راه مشکلات اور پریشانیوں و سختیوں کے ساته ساتھ٬ جهنم کی راه خوشی اور خواهشوں کے ساتھ ساته هے لیکن چند مدت بعد راه سعادت کی حقیقت کو چکھنے اور حقیقت کی آنکھ کھلنے کے بعد که جو شهوات کی گهرائی اور هوا پرستی کے سب سے نچلے پرده کی حقیقت معلوم هونے کے بعد خدا کی اطاعت اور اُس کی عبادت میں سختیاں اور کراهت ختم هوتی نظر آتی هیں اور اُن کی جگه مٹھاس  اور لذت آجاتی هے۔ اور یه ایک ایسی حقیقت هے که  جسے حضرت پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیه السلام کی پیروی کرنے والے خالص افراد نے اُسے درک کیا هے٬ حضرت امیر المومنین علیه السلام کی بات تو دور هے که جو دنیا اور اُس کی لذتوں اور خوشیوں کو ایک مردار کی طرح مانتے هیں که جس کی طرف صرف وحشی کتے آتے هیں یهاں تک که بچے بهی اُس سے دوری اختیار کرتے هیں!

هم اگر راه بهشت کی دشواریوں کو قبول کریں اور جهنم پر ختم هونے والی شهوات و خوشی کی راه  سے دوری کریں تو پھر همیں راه سعادت کی لذت اور خوشی کا احساس هوگا اور هم حضرت علی علیه السلام سے نزدیک هونے میں ایک قدم اٹھاتے هوئے نظر آئیں گے۔ انشاء الله۔

● احاديث اور مآخذ  کی فهرست

1. اَلدُّنْيا تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ (غررالحكم ـ ص 135)

2. اَيُّهَا النّاس! اِنَّماالدُّنْيا دارُ مَجازٍ وَالاخِرَة دارُ قَرارٍ، فُخُذُوا مِن مَمَرِّكُم لِمَقَرِّكُم. (نهج البلاغه ـ خطبه 203)

3. هَلَك‌َ امْرُوٌ لَم يَعْرِف‌ْ قَدْرَه (نهج البلاغه ـ حكمت 149)

4. مَن اسْتَبدَّ بِرَايِه هَلَك‌َ وَمَن شاوَرَ الرِّجال شارَكَها فی عُقُولِها (نهج البلاغه ـحكمت 161)

5. اِن الجَنَّة حُفَّت بِالْمَكارِه وَ اِن النّارَ حُفَّت بِالشَّهَوات (نهج البلاغه ـ خطبه 176)