کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(2)

از: مفتی جعفر حسین

26. وقال (عليه السلام): امْشِ بِدَائِكَ مَا مَشَى بِكَ.

26. مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو.

مقصد یہ ہے کہ جب تک مرض شدت اختیار نہ کر ے اسے اہمیت نہ دینا چاہیے کیونکہ اہمیت دینے سے طبیعت احساسِ مرض سے متاثر ہوکر اس کے اضافہ کا باعث ہوجایاکر تی ہے .اس لیے چلتے پھرتے رہنا اور اپنے کو صحت مند تصور کرنا تحلیل مرض کے علاوہ طبیعت کی قوت مدافعت کو مضمحل ہونے نہیں دیتا اور اس کی قوت معنوی کو برقرار رکھتا ہے اور قوت معنوی چھوٹے موٹے مرض کو خود ہی دبا دیا کرتی ہے بشرطیکہ مرض کے وہم میں مبتلا ہوکر اسے سپر انداختہ ہونے پر مجبور نہ کردیا جائے .

27. وقال (عليه السلام): أَفْضَلُ الزُّهْدِ إِخْفَاءُ الزُّهْدِ.

27. بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے .

28. وقال (عليه السلام): إِذَا كُنْتَ فِي إِدْبَارٍ وَالْمَوْتُ فِي إِقْبَال فَمَا أسْرَعَ الْمُلْتَقَىٰ ۔

28. جب تم (دنیا کو ) پیٹھ دکھا رہے ہو اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے بڑھ رہی ہے تو پھر ملاقات میں دیر کیسی ؟

29. وقال (عليه السلام): الْحَذَرَ الْحَذَرَ! فَوَاللهِ لَقَدْ سَتَرَ، حتَّى كَأَنَّهُ قَدْ غَفَرَ.

29. ڈرو !ڈرو !اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے، کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے .

30. وسُئلَ عَنِ الاِْيمَانِ، فَقَالَ: الاِْيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ: عَلَى الصَّبْرِ، والْيَقِينِ، وَالْعَدْلِ، وَالْجَهَادِ ، فَالصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَربَعِ شُعَبٍ: عَلَى الشَّوْقِ، وَالشَّفَقِ، وَالزُّهْدِ، وَالتَّرَقُّبِ: فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلاَ عَنِ الشَّهَوَاتِ، وَمَنْ أشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْـمُحَرَّمَاتِ، وَمَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ، وَمَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ فِي الْخَيْرَاتِ. وَالْيَقِينُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَب: عَلَى تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ، وَتَأَوُّلِ الْحِكْمَةِ، وَمَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ، وَسُنَّةِ الاَْوَّلِينَ: فَمَنْ تَبَصَّرَ فِي الْفِطْنَةِ تَبَيَّنَتْ لَهُ الْحِكْمَةُ، وَمَنْ تَبَيَّنَتْ لَهُ الْحِكْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ، وَمَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَكَأَنَّمَا كَانَ فِي الاَْوَّلِينَ. وَالْعَدْلُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَب: عَلَى غائِصِ الْفَهْمِ، وَغَوْرِ الْعِلْمِ، وَزُهْرَةِ الْحُكْمِ، وَرَسَاخَةِ الْحِلْمِ: فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ، وَمَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُكْمِ، وَمَنْ حَلُمَ لَمْ يُفَرِّطْ فِي أَمْرِهِ وَعَاشَ فِي النَّاسِ حَمِيداً. وَالْجِهَادُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَب: عَلَى الاَْمْرِ بالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْي عَنِ الْمُنكَرِ، وَالصِّدْقِ فِي الْمَوَاطِنِ، وَشَنَآنِ الْفَاسِقيِنَ: فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤمِنِينَ، وَمَنْ نَهَىٰ عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الکافِرینَ و،مَنْ صَدَقَ فِي الْمَوَاطِنِ قَضَىٰ مَا عَلَيْهِ، وَمَنْ شَنِىءَ الْفَاسِقِينَ وَغَضِبَ لله غَضِبَ اللهُ لَهُ وَأَرْضَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

30. حضرت (ع) سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا .ایمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر، یقین، عدل اور جہاد . پھر عدل کی چار شاخیں ہیں .اشتیاق، خوف، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا، وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا، وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا، وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا .اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں .روشن نگاہی، حقیقت رسی، عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی اور جس کے لیے علم وعمل آشکارا ہو جائے گا، وہ عبرت سے آشنا ہوگا اور جو عبرت سے آشنا ھوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں، تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی، اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کیا، وہ علم کی گہرائیوں سے آشنا ھوا۔ اور جو علم کی گہرائیوں میں اترا، وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی .اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی۔ اورجہاد کی بھی چار شاخیں ہیں .امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تمام موقعوں پر راست گفتاری، اور بدکرداروں سے نفرت . چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا، اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی، اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا، اس نے اپنا فرض اداکردیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا.

31. و قال علیہ السلام: وَالْكُفْرُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ: عَلَى التَّعَمُّقِ، وَالتَّنَازُعِ، وَالزَّيْغِ، وَالشِّقَاقِ: فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ يُنِبْ إِلَى الْحَقِّ، وَمَنْ كَثُرَ نِزَاعُهُ بِالْجَهْلِ دَامَ عَمَاهُ عَنِ الْحَقِّ، وَمَنْ زَاغَ سَاءَتْ عِنْدَهُ الْحَسَنَةُ وَحَسُنَتْ عِنْدَهُ السَّيِّئَةُ وَسَكِرَ سُكْرَ الضَّلاَلَةِ، وَمَنْ شَاقَّ وَعُرَتْ عَلَيْهِ طُرُقُهُ وَأَعْضَلَ عَلَيْهِ أَمْرُهُ وَضَاقَ مَخْرَجُهُ. وَالشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَب عَلَى الَّتمارِي، وَالهَوْلِ، وَالتَّرَدُّدِ والاْسْتِسْلاَمِ: فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَاءَ دَيْناً لَمْ يُصْبِحْ لَيْلُهُ، وَمَنْ هَالَهُ مَا بَيْنَ يَدَيْهِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ، وَمَن تَرَدَّدَ فِي الرَّيْبِ وَطِئَتْهُ سَنَابِكُ الشَّيَاطِينِ، وَمَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةِ هَلَكَ فِيهِمَا .

و بعد هذا كلام تركنا ذكره خوف الاطالة والخروج عن الغرض المقصود في هذا الكتاب .

31۔ کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے .حد سے بڑھی ہوئی کاوش، جھگڑا لُو پن، کج روی اور اختلاف تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے،  وہ حق کی طرف رجوع نہیں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑے کرتا ہے،  وہ حق سے ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ لیتا ہے .وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑا رہتا ہے اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے،  اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بچ نکلنے کی راہ اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے، شک کی بھی چار شاخیں ہیں، کٹھ حجتی، خوف، سرگردانی اور باطل کے آگے جبیں سائی .چنانچہ جس نے لڑائی جھگڑ ے کو اپنا شیوہ بنالیا، اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی اور جس کو سامنے کی چیزوں نے ہول میں ڈال دیا، وہ الٹے پیر پلٹ جاتا ہے اور جو شک و شبہہ میں سر گرداں رہتا ہے .اسے شیاطین اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہیں اور جس نے دنیا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسلیم خم کردیا.وہ دوجہاں میں تباہ ہوا .

قال الرضی: و بعد ھٰذا کلام  ترکنا ذکرہ خوف الاطاعة والخروج عن الغرض المقصود فی ھٰذا الباب۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ ہم نے طوالت کے خوف اور اس خیال سے کہ اصل مقصد جو اس بات کا ہے فوت نہ ہو، بقیہ کلام کو چھوڑ دیا ہے .

32. وقال (عليه السلام): فَاعِلُ الْخَيْرِ خَيْرٌ مِنْهُ، وَفَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْهُ .

32. نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر، اور برائی کا مرتکب ہونے والا خود اس برائی سے بدتر ہے .

33. وقال (عليه السلام): كُنْ سَمَحاً وَلاَ تَكُنْ مُبَذِّراً، وَكُنْ مُقَدِّراً وَلاَ تَكُنْ مُقَتِّراً .

33. کرو، لیکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو، مگر بخل نہیں .

34. وقال (عليه السلام): أَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنى .

34. بہتر ین دولت مندی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے.

35. وقال (عليه السلام): مَنْ أَسْرَعَ إِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُونَ، قَالُوا فِيهِ ما لاَ يَعْلَمُونَ.

35. جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں، تو پھر وہ اس کے لیے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں .

36. وقال (عليه السلام): مَنْ أَطَالَ الاَْمَلَ أَسَاءَ الْعَمَلَ.

36. جس نے طول طویل امیدیں باندھیں، اس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے .

37. وقال (عليه السلام) وقد لقيه عند مسيره إلى الشام دهاقين الانبار، فترجلوا له واشتدّوا بين يديه، فقال: مَا هذَا الَّذِي صَنَعْتُمُوهُ؟ فقال: خُلُقٌ مِنَّا نُعَظِّمُ بِهِ أُمَرَاءَنَا، فقال: وَاللهِ مَا يَنْتَفِعُ بِهذَا أُمَرَاؤُكُمْ وَإِنَّكُمْ لَتَشُقُّونَ بِهِ عَلَى أَنْفُسِكْمْ فِي دُنْيَاكُمْ، وَتَشْقَوْنَ بِهِ فِي آخِرَتِكُمْ، وَمَا أخْسرَ الْمَشَقَّةَ وَرَاءَهَا الْعِقَابُ، وَأَرْبَحَ الدَّعَةَ مَعَهَا الاَْمَانُ مِنَ النَّارِ .

37. امیرالمومنین (ع) سے شام کی جانب روانہ ہوتے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا، تو وہ آپ کو دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں .آپ نے فرمایا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو، اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو، وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو،  اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو .

38. وقال (عليه السلام): لابنه الحسن: يَا بُنَيَّ، احْفَظْ عَنِّي أَرْبَعاً وَأَرْبَعاً، لاَ يَضُرَّكَ مَا عَمِلْتَ مَعَهُنَّ: إِنَّ أَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ، وَأَكْبَرُ الْفَقْرِ الْحُمْقُ، وَأَوحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ، وَأَكْرَمَ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلُقِ.

يَا بُنَيَّ، إِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الاَْحْمَقِ فَإِنَّهُ يُريِدُ أَنْ يَنْفَعَكَ فَيَضُرَُّكَ ، وَإِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْبَخِيلِ فَإِنَّهُ يَقْعُدُ عَنْكَ أَحْوَجَ مَا تَكُونُ إِلَيْهِ ، وَإِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْفَاجِرِ فَإِنَّهُ يَبِيعُكَ بِالتَّافِهِ ، وَإِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْكَذَّابِ فَإِنَّهُ كَالسَّرَابِ: يُقَرِّبُ عَلَيْكَ الْبَعِيدَ، وَيُبَعِّدُ عَلَيْكَ الْقَرِيبَ.

38. اپنے فرزند حضرت حسن علیہ السلام سے فرمایا! مجھ سے چار, اور پھر چار باتیں یاد رکھو .ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے، وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا۔ سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے .

اے فرزند !بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا، تو نقصان پہنچائے گا .اور بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہوگی، وہ تم سے دور بھاگے گا .اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا، ورنہ وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا .

39. وقال (عليه السلام): لاَ قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ.

39. مستحبات سے قرب الہی نہیں حاصل ہوسکتا، جب کہ وہ واجبات میں سدراہ ہوں .

40. وقال (عليه السلام): لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَاءَ قَلْبِهِ، وَقَلْبُ الاَْحْمَقِ وَرَاءَ لِسَانِهِ. قال الرضی

و هذا من المعاني العجيبة الشريفة، والمراد به أنّ العاقل لا يطلق لسانه إلاّ بعد مشاورة الرَّوِيّةِ ومؤامرة الفكرة، والاحمق تسبق حذفاتُ لسانه وفلتاتُ كلامه مراجعةَ فكره ومماخضة رأيه، فكأن لسان العاقل تابع لقلبه، وكأن قلب الاحمق تابع للسانه.

40. عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے .

سید رضی کہتے ہیں کہ یہ جملہ عجیب و پاکیزہ معنی کا حامل ہے.مقصد یہ ہے کہ عقلمند اس وقت زبان کھولتا ہے جب دل میں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے .لیکن بے وقو ف بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے .اس طرح گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے .

41. وقد روي عنه (عليه السلام) هذا المعنى بلفظ آخر، وهو قوله: قَلبُ الاَْحْمَقِ فِي فِيهِ، وَلِسَانُ الْعَاقِلِ فِي قَلْبِهِ. ومعناهما واحد.

41. یہی مطلب دوسرے لفظوں میں بھی حضرت سے مروی ہے اور وہ یہ کہ «بے وقوف کا دل اس کے منہ میں ہے اور عقلمند کی زبان اس کے دل میں ہے » .بہر حال ان دونوں جملوں کا مقصد ایک ہے .

42. وقال لبعض أَصحابه في علّة اعتلها: جَعَلَ اللهُ مَا كَانَ مِنْ شَكْوَاكَ حطّاً لِسَيِّئَاتِكَ، فَإِنَّ الْمَرَضَ لاَ أَجْرَ فِيهِ، وَلكِنَّهُ يَحُطُّ السَّيِّئَاتِ، وَيَحُتُّهَا حَتَّ الاَْوْرَاقِ، وَإِنَّمَا الاَْجْرُ فِي الْقَوْلِ بِالّلسَانِ، وَالْعَمَلِ بِالاَْيْدِي وَالاَْقْدَامِ، وَإِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ يُدْخِلُ بِصِدْقِ النِّيَّةِ وَالسَّرِيرَةِ الصَّالِحَةِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عَبَادِهِ الْجَنَّةَ.

قال الرضی: و أقول: صدق(عليه السلام)، إنّ المرض لا أجر فيه:، لانه من قبيل ما يُستحَقّ عليه العوض، لان العوض يستحق على ما كان في مقابلة فعل الله تعالى بالعبد، من الالام والامراض، وما يجري مجرى ذلك،الاجر والثواب يستحقان علٰى ما كان في مقابلة فعل العبد، فبينهما فرق قد بينه(عليه السلام)، كما يقتضيه علمه الثاقب رأيه الصائب.

42. اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا .اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے .کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے .مگر وہ گناہوں کو مٹاتا، اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں. ہاں ! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے، اورخدا وند عالم اپنے بندوں میں سے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت میں داخل کرتا ہے .

سیدرضی فرماتے ہیں کہ حضرت نے سچ فرمایا کہ مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے کیونکہ مرض تو اس قسم کی چیزوں میں سے ہے جن میں عوض کا استحقاق ہوتا ہے .اس لیے کہ عوض اللہ کی طرف سے بندے کے ساتھ جو امر عمل میں آئے .جیسے دکھ، درد، بیماری وغیر ہ . اس کے مقابلہ میں اسے ملتا ہے .اور اجر و ثواب وہ ہے کہ کسی عمل پر اسے کچھ حاصل ہو .لہٰذا عوض اور ہے، اور اجر اور ہے اس فرق کو امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے علم روشن اور رائے صائب کے مطابق بیان فرما دیا ہے .

43. وقال (عليه السلام) في ذكر خباب بن الارتّ: يَرْحَمُ اللهُ خَبَّاباً، فَلَقَدْ أَسْلَمَ رَاغِباً، وَهَاجَرَ طَائِعاً، وَقَنِعَ بالْكَفَافِ، وَرَضِيَ عَنِ اللهِ وَعَاشَ مُجَاهِداً.

43 خباب ابن ارت کے بارے میں فرمایا .خدا خباب ابن ارت پر اپنی رحمت شامل حال فرمائے وہ اپنی رضا مندی سے اسلام لائے اور بخوشی ہجرت کی اور ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہے اور مجاہدانہ شان سے زندگی بسر کی .

حضرت خباب ابن ارت پیغمبر کے جلیل القدر صحابی اور مہاجرین اولین میں سے تھے .انہوں نے قریش کے ہاتھوں طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں .چلچلاتی دھوپ میں کھڑے کئے گئے آگ پر لٹائے گئے .مگر کسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کا دامن چھوڑنا گوارا نہ کیا .بدر اور دوسرے معرکوں میں رسالت مآب (ص) کے ہمرکاب رہے .صفین و نہروان میں امیرالمومنین علیہ السّلام کا ساتھ دیا.مدینہ چھوڑ کر  کوفہ میں سکو نت اختیار کر لی تھی .چنانچہ یہیں پر 73 برس کی عمر میں 39 ہجری میں انتقال فرمایا .نماز جنازہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے پڑھائی اور بیرون کوفہ دفن ہوئے اور حضرت نے یہ کلماتِ ترحم ان کی قبر پر کھڑے ہو کر فرمائے .

44. وقال علیہ السلام طُوبَى لِمَنْ ذَكَرَ الْمَعَادَ، وَعَمِلَ لِلْحِسَابِ، وَقَنِعَ بِالْكَفَافِ، وَرَضِيَ عَنِ اللهِ.

44. خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا، حساب و کتاب کے لیے عمل کیا .ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا .

45. وقال (عليه السلام): لَوْ ضَرَبْتُ خَيْشُومَ الْمُؤْمِنِ بِسَيْفِي هذَا عَلىٰ أَنْ يُبْغِضَنِي مَاأَبْغَضَنِي، وَلَوْ صَبَبْتُ الدُّنْيَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ عَلَى أَنْ يُحِبَّنِي مَا أَحَبَّنِي وَذلِكَ أَنَّهُ قُضِيَ فَانْقَضَى عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الاُْمِّيِّ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّهُ قَالَ: يَا عَلِيُّ، لاَ يُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُحِبُّكَ مُنَافِقٌ .

45. اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے، تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا .اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کردوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا اس لیے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا :

اے علی (ع)! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا، اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا.

46. وقال (عليه السلام): سَيِّئَةٌ تَسُوءُكَ خَيْرٌ عِنْدَاللهِ مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ .

46. وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے.

جو شخص ارتکاب گناہ کے بعد ندامت و پشیمانی محسوس کرے اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر ے وہ گناہ کی عقوبت سے محفوظ اور توبہ کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جو نیک عمل بجا لانے کے بعد دوسروں کے مقابلہ میں برتری محسوس کرتا ہے اور اپنی نیکی پر گھمنڈ کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اب اس کے لیے کوئی کھٹکا نہیں رہا وہ اپنی نیکی کو برباد کردیتا ہے اور حسن عمل کے ثواب سے محروم رہتا ہے .ظاہر ہے کہ جو توبہ سے معصیت کے داغ کو صاف کر چکا ہو وہ اس سے بہتر ہوگا جو اپنے غرور کی وجہ سے اپنے کئے کرائے کو ضائع کرچکا ہو اور توبہ کے ثواب سے بھی اس کا دامن خالی ہو .

47. وقال (عليه السلام): قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ هِمَّتِهِ، وَصِدْقُهُ عَلَى قَدْرِ مُرُوءَتِهِ، وشُجَاعَتُهُ عَلَى قَدْرِ أَنَفَتِهِ،عِفَّتُهُ عَلَى قَدْرِ غَيْرَتِهِ .

47. انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی .

48. وقال (عليه السلام): الظَّفَرُ بالْحَزْمِ، وَالْحَزْمُ بِإِجَالَةِ الرَّأْيِ، وَالرَّأْيُ بِتَحْصِينِ الاَسرَارِ .

48. کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے .

49. وقال (عليه السلام): احْذَرُوا صَوْلَةَ الْكَرِيمِ إذَا جَاعَ، واللَّئِيمِ إِذَا شَبعَ .

49. بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے رہو .

مطلب یہ ہے کہ باعزت و باوقار آدمی کبھی ذلت و توہین گوارا نہیں کرتا .اگر اس کی عزت و وقار پر حملہ ہوگا تو وہ بھو کے شیر کی طرح جھپٹے گا اور ذلت کی زنجیروں کو توڑ کر رکھ دے گا اور اگر ذلیل و کم ظرف کو اس کی حیثیت سے بڑھا دیا جائے گا تو اس کا ظرف چھلک اٹھے گا اور وہ اپنے کو بلند مرتبہ خیال کرتے ہوئے دوسروں کے وقار پر حملہ آور ہو گا .

50. وقال (عليه السلام): قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ، فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْهِ .

50. لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں، جو ان کو سدھائے گا، اس کی طرف جھکیں گے .

اس قول سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ انسانی قلوب اصل فطرت کے لحاظ سے وحشت پسند واقع ہوئے ہیں اور ان میں انس و محبت کا جذبہ ایک اکتسابی جذبہ ہے .چنانچہ جب انس و محبت کے دواعی اسباب پیدا ہوتے ہیں تو وہ مانوس ہو جاتے ہیں اور جب اس کے دواعی ختم ہوجاتے ہیں یا اس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو وحشت کی طرف عود کر جاتے ہیں اور پھر بڑی  مشکل سے محبت و ائتلاف کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں .

مرنجاں د لے راکہ ایں مرغ وحشی            زبامے کہ برخواست مشکل نشیند