کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(3)

از: مفتی جعفر حسین

51. وقال (عليه السلام): عَيْبُكَ مَسْتُورٌ مَا أَسْعَدَكَ جَدُّكَ .

51. جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں.

52. وقال (عليه السلام): أَوْلَى النَّاسِ بِالْعَفْوِ أَقْدَرُهُمْ عَلَى الْعُقُوبَةِ .

52. معاف کر نا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو سزادینے پر قادر ہو.

53. وقال (عليه السلام): السَّخَاءُ مَا كَانَ ابْتِدَاءً، فَأَمَّا مَا كَانَ عَنْ مَسْأَلَة فَحَيَاءٌ وَتَذَمُّمٌ .

53. وہ ہے جو بن مانگے ہو، اور مانگے سے دینا یا شرم ہے یا بدگوئی سے بچنا .

54. وقال (عليه السلام): لاَ غِنَى كَالْعَقْلِ، وَلاَ فَقْرَ كَالْجَهْلِ، وَلاَ مِيرَاثَ كَالاْدَبِ، وَلاَ ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ .

54 عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں .ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں .

55. وقال (عليه السلام): الصَّبْرُ صَبْرَانِ: صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَهُ، وَصَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ.

55. صبر دو طرح کا ہوتاہے ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر.

56. وقال (عليه السلام): الْغِنَى فِي الْغُرْبَةِ وَطَنٌ، وَالْفَقْرُ فِي الْوَطَنِ غُرْبَةٌ.

56. دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس میں بھی پردیس

اگر انسان صاحب دولت و ثروت ھو تو وہ جہاں کہیں ھوگا، اسے دوست و آشنا مل جائیں گے جس کی وجہ سے اسے پردیس میں مسافرت کا احساس نہ ھوگا۔ اور اگر فقیر و نادار ھو تو اسے وطن میں بھی دوست و آشنا میر نہ ھوں گے کیونکہ لوگ غریب و نادار سے دوستی قائم کرنے کے خواھشمند نہیں ھوتے اور نہ اس سے تعلقات بڑھانا پسند کرتے ھیں اس لیے وہ وطن میں بھی بے وطن ھوتا ھے اور کوئی اس کا شناسا و پرسان حال نہیں ھوتا.

آنرا کہ بر مردار جہاں نیست دسترس      در زاد بودم خویش غریب است و ناشناخت

57. وقال (عليه السلام): الْقَنَاعَةُ مَالٌ لاَ يَنْفَدُ.

57. قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا.

و قال الرضی: وقد دوی ھٰذا الکلام عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علامہ رضی فرماتے ہیں کہ یہ کلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مروی ہے .

قناعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو جو میسر ہو اس پر خوش و خرم رہے اور کم ملنے پر کبیدہ خاطر و شاکی نہ ہو اور اگر تھوڑے پر مطمئن نہیں ہو گا تو رشوت، خیانت اور مکر و فریب ایسے محرمات اخلاقی کے ذریعہ اپنے دامن حرص کو بھرنے کی کوشش کرے گا .کیونکہ حرص کا تقاضا ہی یہ ہے جس طرح بن پڑے خواہشات کو پورا کیا جائے اور ان خواہشات کا سلسلہ کہیں پر رکنے نہیں پاتا، کیونکہ ایک خواہش کا پورا ہونا دوسری خواہش کی تمہید بن جایا کرتا ہے اور جوں جوں انسان کی خواہش کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے اس کی احتیاج بڑھتی ہی جاتی ہے .اس لیے کبھی بھی محتاجی و بے اطمینانی سے نجات حاصل نہیں کر سکتا اگر اس بڑھتی ہوئی خواہش کو روکا جاسکتا ہے تو وہ صرف قناعت سے کہ جو ناگزیر ضرورتوں کے علاوہ ہر ضرورت سے مستغنی بنا دیتی ہے اور وہ لازوال سرمایہ ہے جو ہمیشہ کے لیے فارغ البال کردیتا ہے .

58. وقال (عليه السلام): الْمَالُ مَادَّةُ الشَّهَوَاتِ.

58. مال نفسانی خواہشوں کا سر چشمہ ہے .

59. وقال (عليه السلام): مَنْ حَذَّرَكَ كَمَنْ بَشَّرَكَ.

59. جو (برائیوں سے )خوف دلائے وہ تمہارے لیے مژدہ سنانے والے کے مانند ہے .

60. وقال (عليه السلام): الِّلسَانُ سَبُعٌ، إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ.

60. زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے .

61. وقال (عليه السلام): الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ.

61. عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے .

62. وقال (عليه السلام): إِذَا حُيِّيْتَ بِتَحِيَّة فَحَيِّ بِأَحْسَنَ مِنْهَا، وإِذَا أُسْدِيَتْ إِلَيْكَ يَدٌ فَكَافِئْهَا بِمَا يُرْبِي عَلَيْهَا، وَالْفَضْلُ مَعَ ذلِكَ لِلْبَادِى.

62. جب تم پرسلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقہ سے جواب دو .اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو، اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کی ہوگی .

63. وقال (عليه السلام): الشَّفِيعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

63. سفارش کرنے والا امیدوار کے لیے بمنزلہ پر و بال ہوتا ہے .

64. وقال (عليه السلام): أَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْب يُسَارُ بِهِمْ وَهُمْ نِيَامٌ.

64. دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے .

65. وقال (عليه السلام): فَقْدُ الاَْحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

65. دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے .

66. وقال (عليه السلام): فَوْتُ الْحَاجَةِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا.

66. مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے .

نااہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے . اس لیے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جاسکتا ہے .مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے .چنانچہ ہر باحمیت انسان نا اہل کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصیبی کو ترجیح دے گا، اور کسی پست و دنی کے آگے دستِ سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا .

67. وقال (عليه السلام): لاَ تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ، فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْهُ.

67. تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے .

68. وقال (عليه السلام): الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ، [والشُّكْرُ زِينَةُ الغِنَىٰ ].

68. عفت فقر کا زیور ہے، اور شکر دولت مندی کی زینت ہے .

69. وقال (عليه السلام): إِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيدُ فَلاَ تُبَلْ مَا كُنْتَ.

69. اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو .

70. وقال (عليه السلام): لاَتَرَى الْجَاهِلَ إِلاَّ مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً.

70. جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے آگے بڑھا ہوا، اور یا اس سے بہت پیچھے .

71. وقال (عليه السلام): إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلاَمُ.

71. جب عقل بڑھتی ہے، تو باتیں کم ہو جاتی ہیں .

بسیار گوئی پریشان خیالی کا اور پریشان خیالی عقل کی خامی کا نتیجہ ہوتی ہے .اور جب انسان کی عقل کامل اور فہم پختہ ہوتا ہے تو اس کے ذہن اور خیالات میں توازن پیدا ہوجاتا ہے .اور عقل دوسرے قوائے بدنیہ کی طرح زبان پر بھی تسلط و اقتدار حاصل کر لیتی ہے جس کے نتیجہ میں زبان عقل کے تقاضوں سے ہٹ کر اور بے سوچے سمجھے کھلنا گوارا نہیں کرتی اور ظاہر ہے کہ سوچ بچار کے بعد جو کلام ہوگا، وہ مختصر اور زوائد سے پاک ہوگا .

مرد چوں عقلش بیفزاید بکاہد در سخن       تا نیابد فرصتِ گفتار نگشاید دہن

72. وقال (عليه السلام): الدَّهرُ يُخْلِقُ الاَْبْدَانَ، وَيُجَدِّدُ الاْمَالَ، وَيُقَرِّبُ الْمَنِيَّةَ، ويُبَاعِدُ الاُْمْنِيَّةَ، مَنْ ظَفِرَ بِهِ نَصِبَ، ومَنْ فَاتَهُ تَعِبَ.

72. زمانہ جسموں کو کہنہ و اور آرزوؤں کو تر و تازہ کرتا ھے۔ موت کو قریب اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے .جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے .وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے .

73. وقال (عليه السلام): مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلیَبدَأ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ، وَلْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ، وَمُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَمُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالاِْجْلاَلِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَمُؤَدِّبِهِمْ.

73. جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے .اورجو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کرلے، وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے .

74. وقال (عليه السلام): نَفْسُ الْمَرْءِ خُطَاهُ إِلَى أَجَلِهِ.

74. انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جارہا ہے.

یعنی جس طرح ایک قدم مٹ کر دوسرے قدم کے لیے جگہ خالی کرتا ہے اور یہ قدم فرسائی منزل کے قرب کا باعث ہوتی ہے،  یونہی زندگی کی ہر سانس پہلی سانس کے لیے پیغام فنا بن کر کاروان زندگی کو موت کی طرف بڑھائے لیے جاتی ہے .گویا جس سانس کی آمد کو پیغام حیات سمجھا جاتا ہے، وہی سانس زندگی کے ایک لمحے کے فنا ہو نے کی علامت اورمنزل موت سے قرب کا باعث ہوتی ہے کیونکہ ایک سانس کی حیات دوسری سانس کے لیے موت ہے اور انہی فنا بردوش سانسوں کے مجموعے کا نام زندگی ہے

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی

زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا

75. وقال (عليه السلام): كُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ، وَكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ.

75. جوچیز شمار میں آئے اسے ختم ہونا چاہیے اور جسے آنا چاہیے، وہ آکر رہے گا .