کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(4)

از: مفتی جعفر حسین

76. وقال (عليه السلام): إِنَّ الاُْمُورَ إذا اشْتَبَهَتْ اُعْتُبِرَ آخِرُهَا بِأَوَّلِهَا.

76. جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے .

ایک بیج کو دیکھ کر کاشتکار یہ حکم لگا سکتا ہے کہ اس سے کو ن سا درخت پیدا ہوگا .اس کے پھل پھول اور پتے کیسے ہوں گے، اس کا پھیلاؤ اور بڑھاؤ کتنا ہو گا .اسی طرح ایک طالب علم سعی و کوشش کو دیکھ کر اس کی کامیابی پر، اور دوسرے کی آرام طلبی و غفلت کو دیکھ کر اس کی ناکامی پر حکم لگایا جاسکتا ہے، کیونکہ اوائل اواخر کے اور مقدمات، نتائج کے آئینہ دار ہوتے ہیں .لہٰذا کسی چیز کا انجام سجھائی نہ دیتا ہو تو اس کی ابتداء کو دیکھا جائے .اگر ابتداء بری ہوگی تو انتہا بھی بری ہو گی اور اگر ابتداء اچھی ہوگی تو انتہا بھی اچھی ہوگی .

سالے کہ نکوست از بہارش پیداست

77. ومن خبر ضرار بن ضَمُرَةَ الضُّبابِيِّ عند دخوله علىٰ معاوية ومسألته له عن أمير المؤمنين . قال: فأشهَدُ لقَدْ رَأَيْتُهُ في بعض مواقِفِهِ وقَد أرخى اللّيلُ سُدُولَهُ، وهو قائمٌ في محرابِهِ قابِضٌ علىٰ لِحْيتِهِ يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّليمِ ويبكي بُكاءَ الحَزينِ، ويقولُ:

يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا، إِلَيْكِ عَنِّي، أَبِي تَعَرَّضْتِ؟ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ؟ لاَ حَانَ حِينُكِ! هيْهَات! غُرِّي غَيْرِي، لاَ حاجَةَ لِي فيِكِ، قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلاَثاً لاَ رَجْعَةَ فِيهَا! فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ، وَخَطَرُكِ يَسِيرٌ، وَأَمَلُكِ حَقِيرٌ. آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ، وَطُولِ الطَّرِيقِ، وَبُعْدِ السَّفَرِ، وَعَظِيمِ الْمَوْرِدِ !

77 جب ضرار ابن ضمرة ضبایی معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے امیرالمومنین (ع) کے متعلق ان سے سوال کیا، تو انہوں نے کہاکہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بعض موقعوں پر آپ کو دیکھا جب کہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھیلا چکی تھی .تو آپ محراب عبادت میں ایستادہ ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مار گزیدہ کی طرح تڑپ رہے تھے اورغم رسیدہ کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے .

اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے .کیامیرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے .تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے، جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے .میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں .تیری زندگی تھوڑی،  تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا، راستہ طویل سفر دور و دراز اور منزل سخت ہے .

اس روایت کا تتمہ یہ ہے کہ جب معاویہ نے ضرار کی زبان سے یہ واقعہ سنا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور کہنے لگا کہ خدا ابو الحسن پر رحم کرے وہ واقعا ًایسے ہی تھے، پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ضرار ان کی مفارقت میں تمہارے رنج و اندوہ کی کیا حالت ہے ضرار نے کہا کہ بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کاہوتا ہے کہ جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر دیا جائے .

78. ومن كلام له (عليه السلام): (للسائل الشامی) لما سأله: أَكان مسيرنا إِلى الشام بقضاء من الله وقدر؟ بعد كلام طويل هذا مختاره:

وَيْحَكَ! لَعَلَّكَ ظَنَنْتُ قَضَاءً لاَزِماً، وَقَدَراً حَاتِماً ! وَلَوْ كَانَ (ذلِكَ) كَذلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ والْعِقَابُ، وَسَقَطَ الْوَعْدُ وَالْوَعِيدُ. إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ أَمَرَ عِبَادَهُ تَخْيِيراً، وَنَهَاهُمْ تَحْذِيراً، وَكَلَّفَ يَسِيراً، وَلَمْ يُكَلِّفَ عَسِيراً، وَأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً، وَلَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً، وَلَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً، وَلَمْ يُرْسِلِ الاَْنْبِيَاءَ لَعِباً، وَلَمْ يُنْزِلِ الكِتابَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً، وَلاَ خَلَقَ السَّماوَاتِ وَالاَْرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلاً، و (ذالِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ)

78. ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ہمارا اہل شام سے لڑنے کے لیے جانا قضا و قدر سے تھا؟ تو آپ نے ایک طویل جواب دیا .جس کا ایک منتخب حصہ یہ ہے .

خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں )اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامور کیا ہے اور (عذاب سے )ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے .اس  کی نافرمانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دَب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کے لیے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے .یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا تو افسوس ھے ان پر جنھوں نے کفر اختیار کیا آتش جہنم کے عذاب سے ۔

اس روایت کا تتمہ یہ ہے کہ پھر اس شخص نے کہا کہ وہ کون سی قضاء و قدر تھی جس کی وجہ سے ہمیں جانا پڑا آپ نے کہا کہ قضاکے معنی حکم باری کے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے .وقضی ربّک الا تعبدوا الا ایاہ "اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا". یہاں پر قضی بمعنی امر ہے .

79. وقال (عليه السلام): خُذِ الْحِكْمَةَ أَنَّىٰ كَانَتْ، فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَكُونُ في صَدْرِ الْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِي صَدْرِهِ حَتَّىٰ تَخْرُجَ فَتَسْكُنَ إِلَى صَوَاحِبِهَا فِي صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

79. حکمت کی بات جہاں کہیں ہو، اسے حاصل کرو، کیونکہ حکمت منافق کے سینہ میں بھی ہوتی ہے .لیکن جب تک اس (کی زبان)سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی تڑپتی رہتی ہے .

80. وقال (عليه السلام): الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَلَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.

80. حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے .

81. وقال (عليه السلام): قِيمَةُ كُلِّ امْرِىءٍ مَا يُحْسِنُهُ.                       

قال الرضی: وھی الكلمة التي لاتُصابُ لها قيمةٌ، ولا توزن بها حكمةٌ، ولا تُقرنُ إِليها كلمةٌ.

81. ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے، جو اس شخص میں ہے .

سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے، اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہوسکتا ہے .

انسان کی حقیقی قیمت اس کا جوہر علم و کمال ہے .وہ علم و کمال کی جس بلندی پر فائز ہوگا، اسی کے مطابق اس کی قدر و منزلت ہوگی چنانچہ جوہر شناس نگاہیں شکل و صورت، بلندی قدو قامت اور ظاہری جاہ و حشمت کو نہیں دیکھتیں بلکہ انسان کے ہنر کو دیکھتی ہیں اور اسی ہنر کے لحاظ سے اس کی قیمت ٹھہراتی ہیں .مقصد یہ ہے کہ انسان کو اکتساب فضائل و تحصیل علم و دانش میں جدوجہد کرنا چاہیے.

ز آنکہ ھر کس را بقدرِ دانش او قیمت است

82. وقال (عليه السلام): أُوصِيكُمْ بِخَمْس لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الاِْبِلِ لَكَانَتْ لِذلِكَ أَهْلاً: لاَ يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلاَّ رَبَّهُ، وَلاَ يَخَافَنَّ إِلاَّ ذَنْبَهُ، وَلاَ يَسْتَحِْيَنَّ أَحَدٌ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لاَ يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لاَ أَعْلَمُ، وَلاَ يَسْتَحْيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعَلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ وَعَلَیکُم بِالصَّبْرِ، فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الاِْيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَلاَ خَيْرَ فِي جَسَدٍ لاَ رأْسَ مَعَهُ، وَلاَ في إِيمَانٍ لاَ صَبْرَ مَعَهُ.

82. تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکاؤ, تو وہ اسی قابل ہوں گی .تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں، اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے. اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے، یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں .

ھر کرا صبر نیست ایمان نیست

83. وقال (عليه السلام) لرجل أفرط في الثناء عليه، وكان له مُتَّهماً: أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ، وَفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ.

83. ایک شخص نے آپ کی بہت زیادہ تعریف کی حالانکہ وہ آپ سے عقیدت و ارادت نہ رکھتا تھا، تو آپ نے فرمایا جو تمہاری زبان پر ہے میں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل میں ہے اس سے زیادہ ہوں.

84. وقال (عليه السلام): بَقِيَّةُ السَّيْفِ أَبْقَى عَدَداً، وَأَكْثَرُ وَلَداً.

84. تلوار سے بچے کھچے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی نسل زیادہ ہوتی ہے .

85. وقال (عليه السلام): مَنْ تَرَكَ قَوْلَ: لاَ أَدْري، أُصِيبَتْ مَقَاتِلُهُ.

85. جس کی زبان پر کبھی یہ جملہ نہ آئے کہ « میں نہیں جانتا » تو وہ چوٹ کھانے کی جگہو ں پر چوٹ کھا کر رہتا ہے .

86. وقال (عليه السلام): رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلاَمِ وَروي "مِنْ مَشْهَدِ الْغُلاَمِ".

86. بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے (ایک روایت میں یوں ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسند ہے )

87. وقال (عليه السلام): عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ وَمَعَهُ الاسْتِغْفَارُ.

87. اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے

88. وحكى عنه أبو جعفر محمد بن علي الباقر (عليهما السلام) أَنّه قال: كَانَ فِي الاَْرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللهِ سُبْحَانَهُ، وَقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا، فَدُونَكُمُ الاْخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ: أَمَّا الاَْمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللهُ صلى الله عليه وآله وسلم . وَأَمَّا الاَْمَانُ الْبَاقِي فَالاْسْتِغْفَارْ، قَالَ اللهُ عزّوجلّ: (وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ)

قال الرضی: وهذا من محاسن الاستخراج ولطائف الاستنباط.

88. ابو جعفر محمد ابن علی الباقر علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ امیرالمومنین (ع) نے فرمایا .

دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے .لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو .وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا.»اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرے گا جب تک تم ان میں موجود ہو «.اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں اتارے گا، جب کہ یہ لوگ توبہ و استغفار کررہے ہوں گے .

سید رضی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ یہ بہترین استخراج اور عمد ہ نکتہ آفرینی ہے .

89. وقال (عليه السلام): مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ أَصْلَحَ اللهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، وَمَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِهِ أَصْلَحُ اللهُ لَهُ أَمْرَ دُنْيَاهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَاعِظٌ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ حَافِظٌ .

89. جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو ٹھیک رکھا، تو اللہ اس کے اور لوگوں کے معاملات سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا .تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے آپ کو وعظ و پند کرلے، تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی.

90. وقال (عليه السلام): الْفَقِيهُ كُلُّ الْفَقِيهِ مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ، وَلَمْ يُؤْيِسْهُمْ مِنْ رَوْحِ اللهِ، وَلَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ مَكْرِاللهِ .

90. پورا عالم و دانا وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایو س اور اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا امید نہ کرے، اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے .

91۔ وقال علیہ السلام: ان ھٰذہ القُلُوبَ تَمَلُّ کَما تمل الاَبَرانُ۔ فابتغوا لَھَا طَرَائِفَ الحِکمہ

91۔ یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ھین جس طرح بدن اکتا جاتے ھیں لھٰذا (جب ایسا ھو تو) ان کے لئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو

92. وقال (عليه السلام): أَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ، وَأَرْفَعُهُ مَا ظَهَرَ فِي الْجَوَارِحِ وَالاَْرْكَانِ .

92. وہ علم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو.

93. وقال (عليه السلام): لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بكَ مِنَ الْفِتْنَةِ، لاَِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ إِلاَّ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَة، وَلكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلاَّتِ الْفِتَنِ، فَإِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ يَقُولُ: (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ)، وَمَعْنَى ذلِكَ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ يَخْتَبِرُهُمْ بِالاَْمْوَالِ وَالاَْوْلاَدِ لِيَتَبَيَّنَ السَّاخِط لِرِزْقِهِ وَالرَّاضِي بِقِسْمِهِ، وإِنْ كَانَ سُبْحَانَهُ أَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَلكِن لِتَظْهَرَ الاَْفْعَالُ الَّتي بِهَا يُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ وَالْعِقَابُ، لاَِنَّ بَعْضَهُمْ يُحِبُّ الذُّكُورَ وَيَكْرَهُ الانَاثَ، وَبَعْضَهُمْ يُحِبُّ تَثْمِيرَ الْمَالِ وَيَكْرَهُ انْثِلاَمَ الحَالِ .

قال الرضی: وهذا من غريب ما سمع منه في التفسير.                           

93. تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ "اے اللہ! میں تجھ سے فتنہ و آزمائش سے پناہ چاہتا ہوں" ۔ اس لیے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو فتنہ کی لپیٹ میں نہ ہو، بلکہ جو پناہ مانگے وہ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ مانگے کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے "اور اس بات کو جانے رہو کہ تمہارا مال اور اولاد فتنہ ہے"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ لوگوں کومال اور اولاد کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے، کہ کون اپنی قسمت پر شاکرہے اگرچہ اللہ سبحانہ ان کو اتنا جانتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے کو اتنا نہیں جانتے۔لیکن یہ آزمائش اس لیے ہے کہ وہ افعال سامنے آئیں جن سے ثواب و عذاب کا استحقاق پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض اولاد نرینہ کو چاہتے ہیں، اور لڑکیوں سے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں اور بعض مال بڑھانے کو پسند کرتے ہیں اور بعض شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ان عجیب و غریب باتوں میں سے ہے جو تفسیر کے سلسلہ میں آپ سے وارد ہوئی ہیں۔

94. وسئل وعن الخير ما هو؟ فقال: لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ وَوَلَدُكَ، وَلكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ، وَأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُكَ، وَأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ، فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتّ اللهَ، وَإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللهَ. وَلاَ خَيْرَ فِي الدُّنْيَا إِلاَّ لِرَجُلَيْنِ: رَجُل أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ، وَرَجُل يُسَارِعُ فِي الْخَيْرَاتِ

94. آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیا چیز ہے؟ توآپ (ع) نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو، تو اللہ کا شکر بجالاؤ، اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو، تو توبہ و استغفار کرو . اور دنیا میں صرف دو شخصوں کے لیے بھلائی ہے۔ایک وہ جو گناہ کرے تو توبہ سے سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کاموں میں تیز گام ہو۔

95۔ و قال علیہ السلام: وَلاَ يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى، وَكَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ؟   

95۔ جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے ؟

96. وقال (عليه السلام): إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالاَْنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاؤُوا بِهِ، ثُمَّ تَلاَ (إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ثم قال: انّ وَلیَّ محمد من اطاعَ اللہ وَاِن بَعُدَت لُحَمتُہ وَاِنَّ عَدُوَّ محمد مَن عَصَی اللہ وان قَرُبَت قرابَتُہ ۔

ثُمَّ قال (عليه السلام): إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّد مَنْ أَطَاعَ اللهَ وإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُهُ، وَإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّد مَنْ عَصَى اللهَ وَإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُهُ!

96. انبیاء سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کازیادہ علم رکھتے ہوں (پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی) ابراہیم سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو تھی جو ان کے فرمانبردار تھے۔اور اب اس نبی اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے۔(پھرفرمایا)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔

97. وقد سمع رجلاً من الحرورية يتهجّد ويقرأ، فقال: نَوْمٌ عَلَى يَقِين خَيْرٌ مِنْ صَلاَة فِي شَكّ.

97. ایک خارجی کے متعلق آپ (ع) نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو آپ (ع) نے فرمایا یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

98. اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوهُ عَقْلَ رِعَايَة لاَ عَقْلَ رِوَايَةٍ، فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ، وَرُعَاتَهُ قَلِيلٌ.

98. جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔

99. وقد سمع رجلاً يقول: (إنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)

فقال علیہ السلام: إِنَّ قَوْلَنا: (إِنَّا لله) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْمُلْكِ، وقولَنَا: (وإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْهُلْكِ .

99. ایک شخص کو انا للہ و انا الیہ راجعون (ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے ) کہتے سنا تو فرمایا کہ ہمارا یہ کہنا کہ «ہم اللہ کے ہیں» اس کے مالک ہونے کا اعتراف ہے اور یہ کہنا کہ ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے" ۔ یہ اپنے لیے فنا کا اقرار ہے.

 100۔ و مدحه توم في وجهه: اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي، وَأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْراً مِمَّا يَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لَنَا مَا لاَ يَعْلَمُونَ.

100. کچھ لوگوں نے آپ (ع) کے روبرو آپ (ع) کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں.