101. وقال (عليه السلام): لاَ يَسْتَقِيمُ قَضَاءُ الْحَوَائِجِ إِلاَّ بِثَلاَث: بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ، وَبِاسْتِكْتَامِهَا لِتَظْهَرَ،بِتَعْجِيلِهَا لِتَهْنَؤ .
101. حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائدار نہیں ہوتی۔اسے چھوٹا سمجھاجائے تاکہ وہ بڑی قرار پائے اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو، اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوش گوار ہو۔
210. وقال (عليه السلام): يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لاَ يُقَرَّبُ فِيهِ إِلاَّ الْمَاحِلُ، وَلاَ يُظَرَّفُ فِيهِ إِلاَّ الْفَاجِرُ، وَلاَ يُضَعَّفُ فِيهِ إِلاَّ الْمُنْصِفُ: يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيهِ غُرْماً، وَصِلَةَ الرَّحِمُ مَنّاً، وَالْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاس فَعِنْدَ ذلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ الالنِّسََاءِ، وَإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ، وَتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ۔
210. لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو, اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا, جو فاسق و فاجر ہو اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا صدقہ کو لوگ خسارہ، اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کے لیے ہوگی۔ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہوگا.
310. ورُيَ عليه إزار خَلَقٌ مرقوع، فقيل له في ذلك، فقال:۔
يَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَتَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَيَقْتَدِي بِهِ الْمُؤْمِنُونَ. إِنَّ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَسَبِيلاَنِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وَتَوَلاَّهَا أَبْغَضَ الاْخِرَةَ وَعَادَاهَا، وَهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَمَاشٍ بَيْنَهُمَا: كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِد بَعُدَ مِنَ الاْخَرِ، وَهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ ۔
310. آپ (ع) کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپ سے اس کے بارے میں کہاگیا، آپ (ع) نے فرمایا! اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔
. دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا۔وہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کاہوتا ہے۔
104. وعن نوف البِكاليّ، قال: رأيت أميرالمؤمنين(عليه السلام) ذات ليلة، وقد خرج من فراشه، فنظر في النجوم فقال لی: يا نوف، أراقد أنت أم رامق؟
فقلت: بل رامق قال: یا نوف
طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا، الرَّاغِبِينَ فِي الاْخِرَةِ، أُولئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الاَْرْضَ بِسَاطاً، وَتُرَابَهَا فِرَاشاً، وَمَاءَهَا طِيباً، وَالْقُرْآنَ شِعَاراً، وَالدُّعَاءَ دِثَاراً، ثُمَّ قَرَضوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ .
يَا نَوْفُ! إِنَّ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَامَ فِى مِثْلِ هذِهِ السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ فَقَالَ: إِنَّهَا سَاعَةٌ لاَ يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلاَّ اسْتُجِيبَ لَهُ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ عَشَّاراً أَوْ عَرِيفاً أَوْ شُرْطِيّاً أَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَة (وهي الطنبور) أَوْ صَاحِبَ كَوْبَة (وهي الطبل، وقد قيل أيضاً: إنّ العَرْطَبَةَ: الطبلُ، والكوبةَ الطنبور).
104. نوف (ابن فضالہ) بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھاکہ وہ فرش خواب سے اٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا اے نوف !سوتے ہو یا جاگ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین (ع) جاگ رہا ہوں۔فرمایا ! اے نوف!
خوشانصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا، اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت خوش گوار قرار دیا۔قرآن کو سینے سے لگایا اور دعا کو سپر بنایا. پھر حضرت مسیح کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ ہوگئے.
اے نوف ! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا ( کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو.
سید رضی کہتے ہیں کہ عرطبہ کے معنی سارنگی اورکوبہ کے معنی ڈھول کے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ عرطبہ کے معنی ڈھول اور کوبہ کے معنی طنبور کے ہیں۔
105. وقال (عليه السلام): إِنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ لَكُمْ حُدُوداً فَلاَ تَعْتَدُوهَا، وَنَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ لَكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ وَلَمْ يَدَعْهَا نِسْيَاناً فَلاَ تَتَكَلَّفُوهَا .
105. اللہ نے چند فرائض تم پرعائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو۔اورتمہارے حدود کار مقرر کر دیئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو.اس نے چند چیزوں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو، اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا، انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا.لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو.
106. وقال (عليه السلام): لاَ يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لاِسْتِصْلاَحِ دُنْيَاهُمْ إلاَّ فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْهُ.
106. جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے دین سے ہاتھ اٹھالیتے ہیں تو خدا اس دنیوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کے لیے نقصان کی صورتیں پیدا کردیتا ہے۔
107. وقال (عليه السلام): رُبَّ عَالِم قَدْ قَتَلَهُ جَهْلُه، وَعِلْمُه مَعَه لاَ يَنْفَعُه.
107. بہت سے پڑھے لکھوں کو (دین سے) بے خبری تباہ کردیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
108. وقال (عليه السلام): لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هذَا الاِْنْسَانِ بَضْعَةٌ هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيهِ وَذلِكَ الْقَلْبُ، وَلَهُ مَوَادّ مِنَ الْحِكْمَةِ وَأَضْدَادٌ مِنْ خِلاَفِهَا، فَإِنْ سَنَحَ لَهُ الرَّجَاءُ أَذَلَّهُ الطَّمَعُ، وَإِنْ هَاجَ بِهِ الطَّمَعُ أَهْلَكَهُ الْحِرْصُ وإِنْ مَلَكَهُ الْيَأْسُ قَتَلَهُ الاَْسَفُ، وإِنْ عَرَضَ لَهُ الْغَضَبُ اشتَدَّ بِهِ الْغَيْظُ، وَإِنْ أَسْعَدَهُ الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ، وإِنْ غَالَهُ الْخَوْفُ شَغَلَهُ الْحَذَرُ، وَإِن اتَّسَعَ لَهُ الاَْمْنُ اسْتَلَبَتْهُ الْغِرَّةُ، وَإِن أَصَابَتهُ مُصِيبَةٌ فَضَحَهُ الْجَزَعُ، وَإِنْ عَضَّتْهُ الْفَاقَةُ شَغَلَهُ الْبَلاَءُ، وَإِنْ جَهَدَهُ الْجُوعُ قَعَدَ بِهِ الضَّعْفُ، وإِنْ أَفْرَطَ بِهِ الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ، فَكُلُّ تَقْصِير بِهِ مُضِرٌّ، وَكُلُّ إِفْرَاط لَهُ مُفْسِدٌ.
108. اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کردیاگیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کرتی ہے اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ وبرباد کردیتی ہے۔اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کے لیے جان لیوا بن جاتے ہیں اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کرلیتا ہے اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتاہے اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتاہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔اگر امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کرلیتی ہے اور اگر مال و دولت حاصل کرلیتا ھے تو دولتمندی اسے سرکش بنادیتی ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قراری اسے رسوا کر دیتی ہے۔اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو۔تو مصیبت و ابتلاء اسے جکڑلیتی ہے اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے۔ تو ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی اور اگر شکم پری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پری اس کے لیے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے ہر کوتاہی اس کے لیے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔
109. وقال (عليه السلام): نَحْنُ الُّنمْرُقَةُ الْوُسْطَى بِهَا يَلْحَقُ التَّالِي، وَإِلَيْهَا يَرْجِعُ الْغَالِي .
109. ہم (اہلبیت )ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آکر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
110. وقال (عليه السلام): لاَ يُقِيمُ أَمْرَ اللهِ سُبْحَانَهُ إلاَّ مَنْ لاَ يُصَانِعُ، وَلاَ يُضَارِعُ، وَلاَ يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ .
110. حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ بَرتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔
111. وقال (عليه السلام) وقد توفي سهل بن حُنَيْف الانصاري بالكوفة بعد مرجعه معه من صفين، وكان من أحبّ الناس إليه:
لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ . معنى ذلك: أنّ المحنة تغلظ عليه، فتسرع المصائب إليه، ولا يفعل ذلك إلاَّ بالاتقياء الابرار والمصطفين الاخيار . و ھذا مثل قولہ علیہ السلام ۔
111. سہل ابن حنیف انصار ی حضرت کو سب لوگو ں میں زیادہ عزیز تھے یہ جب آپ کے ہمراہ صفین سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرماگئے جس پر حضرت نے فرمایا:
"اگر پہاڑبھی مجھے دوست رکھے گا تووہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا "۔
سید رضی فرماتے ہیں کہ چونکہ اس کی آزمائش کڑی اور سخت ہوتی ہے۔اس لیے مصیبتیں اس کی طرف لپک کر بڑھتی ہیں اور ایسی آزمائش انہی کی ہوتی ہے جو پرہیز گار، نیکو کار، منتخب و برگزیدہ ہوتے ہیں اور ایسا ہی آپ کا دوسرا ارشاد ہے۔
112. مَنْ أَحَبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً.
وقد تُؤُوّل ذلك على معنى آخر ليس هذا موضع ذكره.
112. جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے لیے آمادہ رہناچاہیے۔
سید رضی کہتے ہیں کہ حضرت کے اس ارشاد کے ایک اور معنی بھی کئے گئے ہیں جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے۔
شاید اس روایت کے دوسرے معنی یہ ہوں کہ جو ہمیں دوست رکھتا ہے اسے دنیاطلبی کے لیے تگ و دو نہ کرنا چاہیے خواہ اس کے نتیجہ میں اسے فقر و افلاس سے دو چار ہونا پڑے بلکہ قناعت اختیار کرتے ہوئے دنیا طلبی سے الگ رہنا چاہیے۔
113. وقال (عليه السلام): لاَ مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ، وَلاَ وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ، وَلاَ عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ، وَلاَ كَرَمَ كَالتَّقْوَى، وَلاَ قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلْقِ، وَلاَ مِيرَاثَ كَالاْدَبِ، وَلاَ قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ، وَلاَ تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ، وَلاَ رِبْحَ كَالثَّوَابِ، وَلاَ وَرَعَ كالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، وَلاَ زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ، ولاَ عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ، وَلاَ عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرائِضِ، وَلاَ إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ وَالصَّبْرِ، وَلاَ حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ، وَلاَ شَرَفَ كَالْعِلْمِ (وَلا عِزّ کَالحِلمِ) وَلاَ مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِن مُشَاوَرَةِ.
113. عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشتناک نہیں اور تدبر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیاء و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی اور علم کے مانند کوئی بزرگی وشرافت نہیں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں
114. وقال (عليه السلام): إِذَا اسْتَوْلَى الصَّلاَحُ عَلَى الزَّمَانِ وَأَهْلِهِ ثُمَّ أَسَاءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُل لَمْ تَظْهَرْ مِنْهُ خزْيَة فَقَدْ ظَلَمَ! وَإِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِهِ فَأَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُل فَقَدْ غَرَّرَ!
114. جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو، اور پھر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سؤِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی اور جب دنیا واہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن رکھے تو اس نے (خود ہی اپنے کو ) خطرے میں ڈالا.
115. وقيل له (عليه السلام): كيف تجدك يا أميرالمؤمنين؟
فقال علیہ السلام: كَيْفَ يَكُونُ (حَالُ) مَنْ يَفْنَىٰ بِبِقَائِهِ، وَيَسْقَمُ بِصِحَّتِهِ، وَيُؤْتَى مِنْ مَأْمَنِهِ ۔
115. امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ آپ (ع) کا حال کیسا ہے ؟ تو آپ (ع) نے فرمایا کہ ا س کا حال کیا ہوگا جسے زندگی موت کی طرف لیے جارہی ہو، اور جس کی صحت بیماری کا پیش خیمہ ہو اور جسے اپنی پناہ گاہ سے گرفت میں لے لیا جائے۔
116. قال (عليه السلام): كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَج بِالاِْحْسَان إلَيْهِ، وَمَغْرور بِالسَّتْرِ عَلَيْهِ، وَمَفْتُون بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيهِ! وَمَا ابْتَلَى اللهُ أَحَداً بِمِثْلِ الاِْمْلاَءِ لَهُ.
116. کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
117. وقال (عليه السلام): هَلَكَ فِيَّ رَجُلاَنِ: مُحِبٌّ غَال وَمُبْغِضٌ قَال!
117. میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے۔ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔
118. وقال (عليه السلام): إضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.
118. موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔
119. وقال (عليه السلام): مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا، وَالسُّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا: يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ، وَيَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ!
119. دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے، فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھینچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔
120. سئل (عليه السلام) عن قريش:
فقال: أَمَّا بَنُو مَخْزُوم فَرَيْحَانَةُ قُرَيْش، نُحِبُّ حَدِيثَ رِجَالِهِمْ، وَالنِّكَاحَ فِي نِسَائِهِمْ. وَأَمَّا بَنُو عَبْدِ شَمس فَأَبْعَدُهَا رَأْياً، وَأَمْنَعُهَا لِمَا وَرَاءَ ظُهُورِهَا. وَأَمَّا نَحْنُ فَأَبْذَلُ لِمَا فِي أَيْدِينَا، وَأَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوسِنَا. وَهُمْ أَكْثَرُ وَأَمْكَرُ وَأَنْكَرُ، وَنَحْنُ أَفْصَحُ وَأَنْصَحُ وَأَصْبَحُ.
120. حضرت سے قریش کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ (قبیلۂ)بنی مخزوم قریش کا مہکتا ہوا پھول ہیں، ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسندیدہ ہے اور بنی عبد شمس دور اندیش اور پیٹھ پیچھے کی اوجھل چیزوں کی پوری روک تھام کرنے والے ہیں لیکن ہم (بنی ہاشم )توجو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہیں، اور موت آنے پر جان دیتے ہیں۔ بڑے جوانمرد ہوتے ہیں اور یہ بنی (عبد شمس) گنتی میں زیادہ حیلہ باز اور بدصورت ہوتے ہیں اور ہم خوش گفتار خیر خواہ اور خوب صورت ہوتے ہیں۔
121. وقال (عليه السلام): شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ: عَمَل تَذْهَبُ لَذَّتُهُ وَتَبْقَى تَبِعَتُهُ، وَعَمَلٌ تَذْهَبُ مَؤُونَتُهُ وَيَبْقَى أَجْرُهُ.
121. ان دونوں قسم کے عملوں میں کتنا فرق ہے ایک وہ عمل جس کی لذت مٹ جائے لیکن اس کا وبال رہ جائے اور ایک وہ جس کی سختی ختم ہوجائے لیکن اس کا اجر وثواب باقی رہے .
122. وتبع جنازة فسمع رجلاً يَضحك، فقال (عليه السلام): كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ، وَكَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ، وَكَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الاَْمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيل إِلَيْنَا رَاجِعُونَ! نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ، ونَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ، كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بعدھُم) ثم، قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظ وَوَاعِظَةٍ، وَرُمِينَا بِكُلِّ جَائِحَة!!
122. حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جارہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا:
گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے اور گویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لاز م ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں، وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے .ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں .پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عور ت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں .
123. [وقال (عليه السلام):] طُوبَىٰ لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِهِ، وَطَابَ كَسْبُهُ، وَصَلُحَتْ سَرِيرَتُهُ، وَحَسُنَتْ خَلِيقَتُهُ،و أَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ، وَأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِهِ، وَعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهُ، وَوَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَلَمْ يُنْسَبْ إِلَى الْبِدْعَةِ.
قال الرضی: ومن الناس من ينسب هذا الكلام إلى رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم و کذالک الذٰ قبلہ۔).
123. خوشا نصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی جس کی کمائی پاک و پاکیزہ نیت نیک اورخصلت و عادت پسندیدہ رہی جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں صرف کیا بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا، مردم آزادی سے کنارہ کش رہا، سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا .
سید رضی کہتے ہیں:
کہ کچھ لو گوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے .
124. وقال (عليه السلام): غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ، وَغْيْرَةُ الرَّجُلِ إيمَانٌ.
124. عورت کا غیرت کرنا کفر ہے، اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے .
مطلب یہ ہے کہ جب مر دکو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کر نا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہمپایہ ہے، اور چونکہ عورت کے لیے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے .
مردوعورت میں یہ تفریق اس لیے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجۂ اتم حاصل ہوسکتا ہے جب مرد کے لیے تعددازواج کی اجازت ہو، کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہوسکتی ہیں اور عور ت اس سے معذورو قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کرسکے .کیونکہ زمانۂ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے . چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگرمتعدد ازواج ہونگی تو سلسلۂ تولید جاری رہ سکتا ہے کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا . کیونکہ مرد کے لیے ایسے مواقع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلۂ تولید میں روک بن سکیں .اس لیے خدا وند عالم نے مردوں کے لیے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے، اور عورتوں کے لیے یہ صورت جائز نہیں رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں .کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہوسکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی .
حضرت نے فرمایا کہ مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کر ے گا تو اولاد بہرصورت اسی کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کو ن کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہوسکے گی .اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا .کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہوگا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہوکر رہ جائے گا .
125. وقال (عليه السلام): لاََنْسُبَنَّ الاِْسْلاَمَ نِسْبَةً لَمْ يَنسُبْهَا أَحَدٌ قَبْلِي: الاِْسْلاَمُ هُوَ التَّسْلِيمُ، وَالتَّسْلِيمُ هُوَ الْيَقِينُ، وَالْيَقِينُ هُوَ التَّصْدِيقُ، وَالتَّصْدِيقُ هُوَ الاِْقْرَارُ، وَالاِْقْرَارُ هُوَ الاَْدَاءُ، وَالاَْدَاءُ هَوَ الْعَمَلُ.
125. میں اسلام کی ایسی صحیح تعریف بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی .اسلام سر تسلیم خم کرنا ہے، اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے، اور یقین تصدیق ہے، اور تصدیق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے، اور فرض کی بجاآوری عمل ہے .