کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(6)

از: مفتی جعفر حسین

126. وقال (عليه السلام): عَجِبْتُ لِلْبَخِيلِ يَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِي مِنْهُ هَرَبَ، وَيَفُوتُهُ الْغِنَى الَّذِى إِيَّاهُ طَلَبَ، فَيَعِيشُ فِي الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ، وَيُحَاسَبُ فِي الاْخِرَةِ حِسَابَ الاَْغْنِيَاءِ. وَعَجِبْتُ لِلْمُتَكَبِّرِ الَّذِي كَانَ بِالامْسِ نُطْفَةً، وَيَكُونُ غَداً جِيفَةً. وَعَجِبْتُ لِمَنْ شَكَّ فِي اللهِ، وَهُوَ يَرَى خَلْقَ اللهِ. وَعَجِبْتُ لِمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ، وهُوَ يَرَى الْمَوْتَى. وَعَجِبْتُ لِمَن أَنْكَرَ النَّشْأَةَ الاُْخْرَى، وَهُوَ يَرَى النَّشْأَةَ الاُْولَى. وَعَجِبْتُ لِعَامِر دَارَ الْفَنَاءِ، وَتَارِك دَارَ الْبَقَاءِ !!!

126. مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے، اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوش حالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا، اور مجھے تعجب ہوتا ہے .متکبر و مغرور پر کہ جو کل ایک نطفہ تھا، اور کل کو مردار ہوگا .اور مجھے تعجب ہے اس پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے اورپھر اس کے وجود میں شک کرتا ہے اور تعجب ہے اس پر کہ جو مرنے والوں کو دیکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے .اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پیدائش کو دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرتاہے اور تعجب ہے اس پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے اور منزل جاودانی کو چھوڑ دیتا ہے .

 

127. وقال (عليه السلام): مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ، وَلاَ حَاجَةَ فِيمَنْ لَيْسَ للهِ فِي مَالِہ وَنَفسِہ نَصِيبٌ.

127. جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے، وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اللہ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں .

 

128. وقال (عليه السلام): تَوَقَّوا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِهِ، وَتَلَقَّوْهُ فِي آخِرِهِ، فَإِنَّهُ يَفْعَلُ فِي الاَْبْدَانِ كَفِعْلِهِ فِي الاَْشْجَارِ، أَوَّلُهُ يُحْرِقُ وَآخِرُهُ يُورقُ.

128. شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کرو، کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے، جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائی میں درختوں کو جھلس دیتی ہے، اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.

موسم خزاں میں سردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے، اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایات پیدا ہوجاتی ھیں. وجہ یہ ہوتی ہے کہ بدن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگاہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں، اور مزاج میں برودت و یَبُوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی، بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے، حرارت غریری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .

اسی طرح عالم نباتات پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و یَبُوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہے، چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے اور بار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں .

 

129. وقال (عليه السلام): عِظَمُ الخالِقِ عِنْدَكَ يُصَغِّرُ الْـمَخْلُوقَ فِي عَيْنِكَ.

129. اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کردے.

 

130. وقال (عليه السلام) وقد رجع من صفين، فأَشرف على القبور بظاهر الكوفة:

يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ، وَالْـمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ، وَالْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ. يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ، يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ، يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ، يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ، وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لاَحِقٌ. أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ، وَأَمَّا الاَْزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ، وَأَمَّا الاَْمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ. هذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا، فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ؟     

ثم التفت إِلى أَصحابه فقال: أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلاَمِ لاََخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى ۔

130. صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:

اے وحشت افزا گھروں، اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملنا چاہتے ہیں .اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہوچکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے .اب تم کہو کہ تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے.

(پھر حضرت (ع) اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا) اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے .تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے .

 

131. وقال (عليه السلام) وقد سمع رجلاً يذم الدنيا: أَيُّهَا الذَّامُّ للدُّنْيَا، الْمُغْتَرُّ بِغُرُرِهَا، الْـمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا! أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا، أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ؟ مَتَى اسْتَهْوَتْكَ، أَمْ مَتى غَرَّتْكَ؟ أَبِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى، أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى؟ كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّيْكَ؟ وَكَمْ مَرَّضْتَ بِيَدَيْكَ؟ تَبْغِي لَهُمُ الشِّفَاءَ، وَتَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الاَْطِبَّاءَ، (عَدَاة لَا یُغنی عَنھُم دَواؤُکَ ولا یجدی علیھِم بُکاءُک) لَمْ يَنْفَعْ أَحَدَهُمْ إِشْفَاقُكَ، وَلَمْ تُسْعَفْ بِطِلْبَتِكَ، وَلَمْ تَدْفَعْ عَنْهُ بِقُوَّتِكَ! وقَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِهِ الدُّنْيَا نَفْسَكَ، وَبِمَصْرَعِهِ مَصْرَعَكَ. إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْق لِمَنْ صَدَقَهَا، وَدَارُ عَافِيَة لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا، وَدَارُ غِنىً لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا، وَدَارُ مَوْعِظَة لِمَنْ اتَّعَظَ بِهَا، مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللهِ، وَمُصَلَّى مَلاَئِكَةِ اللهِ، وَمَهْبِطُ وَحْيِ اللهِ، وَمَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللهِ، اكْتَسَبُوا فِيهَاالرَّحْمَةَ، وَرَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ. فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وَقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا، وَنَادَتْ بِفِراقِهَا، وَنَعَتْ نَفْسَهَا وَأَهْلَهَا، فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلاَئِهَا الْبَلاَءَ، وَشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ؟! رَاحَتْ بِعَافِيَة، وَابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَة، ترغِيباً وَتَرْهِيباً، وَتَخْوِيفاً وَتَحْذِيراً، فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ، وَحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَذَكَرُوا، وَحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا، وَوَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا.

131. ایک شخص کو دنیا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمایا !اے دنیا کی برائی کرنے والے! اس کے فریب میں مبتلا ہونے والے! اور غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے !تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو، اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو .کیا تم دنیا کو مجرم ٹھہرانے کا حق رکھتے ہو؟یا وہ تمہیں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے ؟دنیا نے کب تمہارے ہوش وحواس سلب کئے اور کس بات سے فریب دیا ؟کیا ہلاکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گر نے سے یا مٹی کے نیچے تمہاری ماؤں کی خواب گاہوں سے ؟کتنی تم نے بیماروں کی دیکھ بھال کی، اور کتنی دفعہ خود تیمار داری کی اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی، اور نہ تمہارا رونا دھونا ان کے لیے کچھ مفید تھا . تم ان کے لیے شفا کے خواہشمند تھے اور طبیبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی تمہارا اندیشہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا اصل مقصد حاصل نہ ہوا اوراپنی چارہ سازی سے تم موت کو اس بیمار سے نہ ہٹا سکے تو دنیا نے تو اس کے پردہ میں خود تمہارا انجام اور اس کے ہلاک ہونے سے خود تمہاری ہلاکت کا نقشہ تمہیں دکھایا دیا بلاشبہ دنیا اس شخص کے لیے جو باور کرے، سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور جو اس سے زادراہ حاصل کرلے، اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے، اس کے لیے وعظ ونصیحت کا محل ہے .وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا تو اب کون ہے جو دنیا کی برائی کرے، جب کہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطلاع دے دی ہے اور اپنی علٰحدگی کا اعلان کردیا ھے اور اپنے بسنے والوں کی موت کی خبر دے دی ھے۔ چنانچہ اس نے اپنی ابتلاء سے ابتلائی کا پتہ دیا ہے اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتوں کا شوق دلایا ہے، وہ رغبت دلانے اور ڈرانے خوفزدہ کرنے اور متنبہ کرنے کے لیے شام کو امن و عافیت کا اور صبح کو درد و اندوہ کا پیغام لے کر آتی ہے توجن لوگوں نے شرمسار ہوکر صبح کی وہ اس کی برائی کرنے لگے .اور دوسرے لوگ قیامت کے دن اس کی تعریف کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کی یاد دلائی تو انہو ں نے یاد رکھا اور اس نے انہیں خبر دی تو انہوں نے تصدیق کی اور اس نے انہیں پند و نصیحت کی تو انہوں نے نصیحت حاصل کی .

ہر متکلم و خطیب کی زبان منجے ہوئے موضوع ھی پر زور بیان دکھایاکرتی ہے اور اگر سے موضوع سخن بدلنا پڑے تو نہ ذہن کام کرے گا اور نہ زبان کی گویائی ساتھ دے گی، مگر جس کے ذہن میں صلاحیت تصرف اور دماغ میں قوتِ فکر ہو، وہ جس طرح چاہے کلام کو گردش دے سکتا ہے اور جس موضوع پر چاہے «قادر الکلامی» کے جو ہر دکھاسکتا ہے .چنانچہ وہ زبان جو ہمیشہ دنیا کی مذمت اور اس کی فریب کاریوں کو بے نقاب کرنے میں کھلتی تھی جب اس کی مدح میں کھلتی ہے تو وہی قدرت کلام و قوت استدلال نظر آتی ہے جو اس زبان کا طرہ امتیاز ہے اور پھر الفاظ کو توصیفی سانچہ میں ڈھالنے سے نظریہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور راہوں کے الگ الگ ہونے کے باوجود منزلۂ مقصود ایک ہی رہتی ہے .

 

132. وقال (عليه السلام): إِنَّ لله مَلَكاً يُنَادِي فِي كُلِّ يَوْم: لِدُوا لِلْمَوْتِ، وَاجْمَعُوا لِلْفَنَاءِ، وَابْنُوا لِلْخَرَابِ.

132. اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لیے اولاد پیدا کرو، برباد ہونے کے لیے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لیے عمارتیں کھڑی کرو .

 

133. وقال (عليه السلام): الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ إلى دَارُ مَقَرٍّ، وَالنَّاسُ فِيهَا رَجُلاَنِ: رَجُلٌ بَاعَ فیھَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا، وَرَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا.

133. «دنیا» اصل منزل قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے .اس میں دو قسم کے لوگ ہیں :ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خریدکرآزاد کردیا.

 

134. وقال (عليه السلام): لاَ يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاهُ فِي ثَلاَث: فِي نَكْبَتِهِ، وَغَيْبَتِهِ، وَوَفَاتِهِ.

134. دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نہ کرے،  مصیبت کے موقع پر اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد .

 

135. وقال (عليه السلام): مَنْ أُعْطِيَ أَرْبعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً: مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الاِْجَابَةَ، وَمَنْ أُعْطِيَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْقَبُولَ، وَمَنْ أُعْطِيَ الاِْسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ، وَمَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ … وتصديقُ ذَلكَ في كتَابِ اللهِ، قَالَ اللهُ عزوجل في الدّعَاء: (ادْعُونِي أسْتَجِبْ لَكُمْ)، وقال في الاستغفار: (وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمّ يَسْتَغْفِرِ اللهَ يَجِدِ اللهَ غَفُوراً رَحِيماً)، وقال في الشكر: (لَئِنْ شَكَرْتُمْ لاَزِيدَنّكُمْ)، وقال في التوبة: (إنّما التّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السّوءَ بِجَهَالَة ثُم يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيب فأُولَئِكَ يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ عَلِيماً حَكِيماً)

135. جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا، جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا . جسے توبہ کی توفیق ہو، وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا .اور جوشکرکرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے .چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا .اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے .جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا .اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں) اضافہ کروں گا .اور توبہ کے لیے فرمایا ہے .اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والاہے .

 

136. وقال (عليه السلام): الصَّلاَةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيّ، وَالْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيف، وَلِكُلِّ شَيْء زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْبَدَنِ الصِّيَامُ، وَجِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ.

136. نماز ہر پرہیز گار کے لیے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعیف و ناتواں کا جہاد ہے .ہر چیز کی زکوٰة ہوتی ہے، اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے اور عورت کا جہاد شوہر سے حسن معاشرت ہے .

 

137. وقال (عليه السلام): اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ،

137. صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو  

138۔  و قال علیہ السلام مَنْ أَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ.

138۔ جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے .

139. وقال (عليه السلام): تَنْزِلُ الْمَعُونَةُ عَلَىٰ قَدْرِ الْمَؤُونَةِ.

139. جتنا خرچ ہو .اتنی ہی امداد ملتی ہے .

 

140. وقال (عليه السلام): مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ.

140. جو میانہ روی اختیار کرتاہے وہ محتاج نہیں ہوتا .

 

141. وقال (عليه السلام): قِلَّةُ الْعِيَالِ أَحَدُ الْيَسَارَيْنِ.

141. متعلقین کی کمی دو قسموں میں سے ایک قسم کی آسودگی ہے  

142. وَالتَّوَدُّدُ نِصْفُ الْعَقْلِ،

142. میل محبت پیدا کر نا عقل کا نصف حصہ ہے

143. وَالْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ.

143. غم آدھا بڑھاپا ہے .

 

144. وقال (عليه السلام): يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ، وَمَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ مُصِيبَتِهِ حَبِطَ عَمَلُہ.

144. مصیبت کے اندازہ پر (اللہ کی طرف سے) صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے .جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت جاتا ہے .

 

145. وقال (عليه السلام): كَمْ مِنْ صَائِم لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلاَّ (الجوع وَ) الظَّمَأُ، وَكَمْ مِنْ قَائِم لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلاَّ السَّہرُ وَ الْعَنَاءُ، حَبَّذَا نَوْمُ الاَْكْيَاسِ وَإِفْطَارُهُمْ ۔

145. بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا .زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے.

 

146. وقال (عليه السلام): سُوسُوا إِيمَانَكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ، وَادْفَعُوا أَمْواجَ الْبَلاَءِ بِالدُّعَاءِ.

146. صدقہ سے اپنے ایمان کی اور زکوٰة سے اپنے مال کی حفاظت کرو، اور دعا سے مصیبت و ابتلاء کی لہروں کو دور کرو .

 

147. ومن كلام له (عليه السلام) لكُمَيْل بن زياد النخعي:

قال كُمَيْل بن زياد: أخذ بيدي أميرالمؤمنين علي بن أبي طالب(عليه السلام)، فأخرجني إلى الجبّان، فلمّا أصحر تنفّس الصّعَدَاء، ثمّ قال:

يَا كُمَيْل بْن زِيَاد، إِنَّ هذهِ الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ، فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا، فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ:

النَّاسُ ثَلاَثَةٌ: فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ، وَمُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاة، وَهَمَجٌ رَعَاعٌ، أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِق، يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيح، لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ، وَلَمْ يَلْجَؤُوا إِلَى رُكْن وَثِيق.

يَا كُمَيْلُ، الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وَأَنْتَ تَحْرُسُ المَالَ، وَالْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَالْعِلْمُ يَزْكُو عَلَى الاِْنْفَاقِ، وَصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِهِ.

يَا كُمَيْل بْن زِيَاد، مَعْرِفَةُ الَعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِهِ، بِهِ يَكْسِبُ الاِْنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِهِ، وَجَمِيلَ الاُْحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَالْعِلْمُ حَاكِمٌ، وَالْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْهِ.

يَا كُمَيْل ، هَلَكَ خُزَّانُ الاَْمْوَالِ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَالْعَُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ: أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ،و أَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ. هَا إِنَّ هاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً (وَأَشَارَ إِلى صَدره) لَوْ أَصَبْتُ لَهُ حَمَلَةً! بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُون عَلَيْهِ، مُسْتَعْمِلاً آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا، وَمُسْتَظْهِراً بِنِعَمَ اللهِ عَلَى عِبادِهِ، وَبِحُجَجِهِ عَلَى أَوْلِيَائِهِ، أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ، لاَ بَصِيرَةَ لَهُ فِي أَحْنَائِهِ، يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِهِ لاَِوَّلِ عَارِض مِنْ شُبْهَة. أَلاَ لاَ ذَا وَلاَ ذَاكَ! أَوْ مَنْهُوماً بِالَّلذَّةِ، سَلِسَ الْقِيَادِ للشَّهْوَةِ، أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ وَالاِْدِّخَارِ، لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْء، أَقْرَبُ شَيْء شَبَهاً بِهِمَا الاَْنَعَامُ السَّائِمَةُ! كَذلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيهِ.

اللَّهُمَّ بَلَى! لاَ تَخْلُو الاَْرْضُ مِنْ قَائِم لله بِحُجَّة، إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً، أوْ خَائِفاً مَغْمُوراً، لِئَلاَّ تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَبَيِّنَاتُهُ.

وَكَمْ ذَا وَأَيْنَ أُولئِكَ؟ أُولئِكَ ـ وَاللَّهِ ـ الاَْقَلُّونَ عَدَداً، وَالاَْعْظَمُونَ عند اللہ قَدْراً، يَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهُ وَبَيِّنَاتِهِ، حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ، وَيَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ، هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ، وَبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ، وَاسْتَلاَنُوا مَا اسْتَوْعَرَهُ الْمُتْرَفُونَ، وَأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْهُ الْجَاهِلُونَ، وَصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَان أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْـمَحَلِّ الاَْعْلَىٰ، أُولئِكَ خُلَفَاءُ اللهِ فِي أَرْضِهِ، وَالدُّعَاةُ إِلَى دِينِهِ، آهِ آهِ شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ! انْصِرِفْ (یَاکُمیلُ) إذَا شِئْتَ.

147. کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ :

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبر ستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی .پھر فرمایا:

اے کمیل! یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ کرنے والا ہو .لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا .

دیکھو!تین قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہولیتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مڑ جاتا ہے .نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیا کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی .

اے کمیل! یاد رکھو,کہ علم مال سے بہتر ہے (کیونکہ)علم تمہاری کرتا ہے اورمال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اورمال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہوجاتے ہیں .

اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے .یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم .

اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں، بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں .مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں (اس کے بعد حضرت نے اپنے سینہ اقدس کی طر ف اشارہ کیا اورفرمایا) دیکھو!یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے کا ش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے، ہاں ملا، کوئی تو,یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جودنیا کے لیے دین کو آلۂ کار بنا نے والاہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے .یا جو ارباب حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے، بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں .اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہوجاتا ہے

ہاں! مگر زمین ایسے فرد خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں، اور اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کے لحاظ سے بہت بلند .خدا وند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے .یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کردیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انہیں بودیں .علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے .وہ یقین و اعتماد کی روح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا، اپنے لیے سہل و آسان سمجھ لیا ہے اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں .وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیامیں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملائی اعلیٰ سے وابستہ ہیں یہی لوگ تو زمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں .ہائے ان کی دید کے لیے میرے شوق کی فراوانی (پھر حضرت نے کمیل سے فرمایا)اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا )اب جس وقت چاہو واپس جاؤ.

 کمیل ابن زیاد نخعی رحمتہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیرالمومنین کے خواص اصحاب میں سے تھے، علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زہد و ورع میں امتیاز خاص کے حامل تھے .حضرت کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیئت کے عامل رہے 83 ھجری میں 90 برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے .

 

148. وقال (عليه السلام): الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ.

148. انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہو ا ہے .

مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے . کیونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے .لہٰذا جب تک وہ خامو ش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب اس کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایاں ہوجاتا ہے .

مرد پنہاں است در زیر زبان خويشتن         قیمت و قدرش ندانی تا نیايد در سخن

 

149. وقال (عليه السلام): هَلَكَ امْرُؤُ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَهُ.

149. جو شخص اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے .

 

150. وقال (عليه السلام) لرجل سأَله أَن يعظه:

لاَ تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الاْخِرَةَ بِغَيْرِ الْعَمَلِ، وَيُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الاَْمَلِ، يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ، وَيَعْمَلُ فِيهَا بَعَمَلِ الرَّاغِبِينَ، إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ، وَإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ، يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ، وَيَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيَما بَقِيَ، يَنْهَى وَلاَ يَنْتَهِي، وَيَأْمُرُ بِمَا لاَ يَأْتِي، يُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلاَ يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ، وَيُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وَهُوَ أَحَدُهُمْ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِهِ، وَيُقِيمُ عَلَىٰ مَا يَكْرَهُ الْمَوْتَ لَهُ، إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً، وَإِنْ صَحَّ أَمِنَ لاَهِياً، يُعْجَبُ بِنَفْسِهِ إِذَا عوفِيَ، وَيَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ، إِنْ أَصَابَهُ بَلاَءٌ دَعَا مُضْطَرّاً، وإِنْ نَالَهُ رَخَاءُ أَعْرَضَ مُغْتَرّاً، تَغْلِبُهُ نَفْسُهُ عَلَى مَا يَظُنُّ، وَلاَ يَغْلِبُهَا عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ، يَخَافُ عَلَى غْيَرِهِ بِأَدْنىَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَيَرْجُو لِنَفْسِهِ بِأَكْثَرَ مِنْ عَمَلِهِ، إِنْ اسْتَغْنَى بَطِرَ وَفُتِنَ، وَإِنِ افْتقَرَ قَنَطَ وَوَهَنَ، يُقَصِّرُ إِذَا عَمِلَ، وَيُبَالِغُ إِذَا سَأَلَ، إِنْ عَرَضَتْ لَهُ شَهْوَةٌ أَسْلَفَ الْمَعْصِيَةَ وَسَوَّفَ التَّوْبَةَ، وَإِنْ عَرَتْهُ مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَائِطِ الْمِلَّةِ، يَصِفُ الْعِبْرَةَ وَلاَ يَعْتَبرُ، وَيُبَالِغُ فِي الْمَوْعِظَةِ وَلاَ يَتَّعِظُ، فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ، وَمِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ، يُنَافِسُ فِيَما يَفْنَى، وَيُسَامِحُ فِيَما يَبْقَى، يَرَى الْغُنْمَ مغْرَماً، وَالْغُرْمَ مَغْنَماً، يخشَى الْمَوْتَ وَلاَ يُبَادِرُ الْفوْتَ، يَسْتَعْظِمُ مِنْ مَعْصِيَةِ غَيْرِهِ مَا يَسْتَقِلُّ أَكْثَرَ مِنْهُ مِنْ نَفْسِهِ، وَيَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِهِ مَا يَحْقِرُهُ مِنْ طَاعَةِ غَيْرِهِ، فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ، وَلِنَفْسِهِ مُدَاهِنٌ، اللَّهْوُ مَعَ الاَْغْنِيَاءِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَاءِ، يَحْكُمُ عَلَى غَيْرِهِ لِنَفْسِهِ وَلاَ يَحْكُمُ عَلَيْهَا لِغَيْرِهِ، يُرْشِدُ غَيْرَهُ يُغْوِي نَفْسَهُ، فَهُوَ يُطَاعُ وَيَعْصِي، وَيَسْتَوْفِي وَلا يُوفِي، وَيَخْشَى الْخَلْقَ فِي غَيْرِ رَبِّهِ، وَلاَ يَخْشَى رَبَّهُ فِي خَلْقِهِ.

قال الرضی: ولو لم يكن في هذا الكتاب إلاّ هذا الكلام لكفى به موعظةً ناجعةً، وحكمةً بالغةً، وبصيرةً لمبصر و، عبرةً لناظر مفكّر.

150. ایک شخص نے آپ سے پندو موعظت کی درخواست کی، تو فرمایا:

تم کوان لوگوں میں سے نہ ہونا چاہیئے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجام کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں .اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملاہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجانہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں .اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں . اور تندرست ھوتے ھیں تو مطمئن ھوکر کھیل کود میں پڑ جاتے ھیں جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تواترانے لگتے ہیں .اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے .جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں .ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبالیتے .دوسروں کے لیے ان کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں .اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں .جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پرآتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں .اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں، اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں، اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں .عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں .مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں .فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں وہ نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خیال کرتے ہیں .موت سے ڈرتے ہیں .مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے .دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں .اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں .لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں .اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے .وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے .

سید رضی فرماتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ اور موثر حکمت اور چشم بینا رکھنے والے کے لیے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کے لیے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا .

-----------------