کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(7)

از: مفتی جعفر حسین

151. وقال (عليه السلام): لِكُلِّ امْرِىء عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ أَوْ مُرَّةٌ.

151. ہر شخص کا ایک انجام ہے۔ اب خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ۔

152. وقال (عليه السلام): لِكُلِّ مُقْبِل إِدْبَارٌ، وَمَا أَدْبَرَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ.

152. ہر آنے والے کے لیے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

153. وقال (عليه السلام): لاَ يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وَإِنْ طَالَ بِهِ الزَّمَانُ.

153. صبر کرنے والا ظفرو کامرانی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے.

154. وقال (عليه السلام): الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْم كَالدَّاخِلِ فِيهِ مَعَهُمْ، وَعَلَى كُلِّ دَاخِل فِي بَاطِل إِثْمَانِ: إِثْمُ الْعَمَلِ بِهِ، وَإِثْمُ الرِّضَىٰ بِهِ.

154. کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو۔ اور غلط کام میں شریک ہو نے والے پر دو گناہ ہیں۔ ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضا مند ہونے کا۔

155. وقال (عليه السلام): اعْتَصِمُوا بِالذِّمَمِ فِي أَوْتَادِهَا.

155. عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں کے ایسے (مضبوط) ہوں۔

156. وقال (عليه السلام): عَلَيْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لاَ تُعْذَرُونَ بِجَهَالَتِهِ.

156. تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔

خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیلی و تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام (ع) اپنے اپنے دور میں تعلیمات الہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب ھے اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قراردیا جاسکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کے لیے گنجائش انکار نہیں ہوسکتی چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة

جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔

ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسمو ع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:

من جھل امامة علی علیہ السلام و انکر صحتھا و لزومھا فھو عند اصحابنا مخلد فی النار لا ینفعہ صوم و لا صلواة لان المعرفة بذالک من الاصول الکلیة ھی ارکان الدین ولکنا لا نسمی منکر امامتہ کافرا بل نسمیہ فاسقا و خارجیا و مارقا و نحو ذالک والشیعة تسمیہ کافرا فھذا ھو الغرق بیننا و بینھم وھو فی اللفظ لا فی المعنی۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۱۳۱۹۔ )

جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے.نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اسے فاسق، خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فر ق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے.

157. وقال (عليه السلام): قَدْ بُصّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ، وَقَدْ هُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ، وأُسْمِعْتُمْ إِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

157. اگر تم دیکھو، تو تمہیں دکھایا جاچکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جاچکا ہے۔

158. وقال (عليه السلام): عَاتِبْ أَخَاكَ بِالاِْحْسَانِ إِلَيْهِ، وَارْدُدْ شَرَّهُ بِالاِْنْعَامِ عَلَيْهِ.

158. اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔

اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے، تواس سے دشمنی و نزاع کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی (علیہ السلام) ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپ کے قریب آکر انہیں برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوا توآپ (ع) نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ پھر تم میرے ساتھ چلو میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا، اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی، تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی کی قدر و منزلت اس کی نگاہ میں نہ تھی۔

اگر مردی احسن الی من اساء

159. وقال (عليه السلام): مَنْ وَضَعَ نَفْسَهُ مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ فَلاَ يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِهِ الظَّنَّ.

159. جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو.

160. وقال (عليه السلام): مَنْ مَلَكَ استأْثَرَ۔

160. جو اقتدار حاصل کرلیتا ہے

116۔ و قال علیہ السلام: مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِهِ هَلَكَ، وَمَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا۔ 116۔ جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔ جو خود رائی سے کام لے گا، وہ تباہ و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

216۔ و قال علیہ السلام: مَنْ كَتَمَ سِرَّهُ كَانَتِ الْخِيرَةُ بِيَدِهِ.

جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔

316. وقال (عليه السلام): الْفَقْرُ الْمَوْتُ الاَْكْبَرُ.

316. فقیری سب سے بڑی موت ہے۔

416. وقال (عليه السلام): مَنْ قَضَى حَقَّ مَنْ لاَ يَقْضِي حَقَّهُ فَقَدْ عَبَدَهُ.

416. جو ایسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو، تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔

165. وقال (عليه السلام): لاَ طَاعَةَ لَِمخْلُوق فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.

165. خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

616. وقال (عليه السلام): لاَ يُعَابُ الْمَرْءُ بِتَأْخِيرِ حَقِّهِ، إِنَّمَا يُعَابُ مَنْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَهُ.

166. اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

167. وقال (عليه السلام): الاِْعْجَابُ يَمْنَعُ مِنَ الاْزْدِيَادَ.

167. خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے.

جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کے لیے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کرچکاہے اب اسے کوئی منزل نظرہی نہیں آتی کہ اس کے لیے تگ ودو کرے چنانچہ یہ خود پسند و برخود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسندی اس کے لیے ترقی کی راہیں مسدود کردے گی۔

168. وقال (عليه السلام): الاَْمْرُ قَرِيبٌ وَالاْصْطِحَابُ قَلِيلٌ.

168. آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔

169. وقال (عليه السلام): قَدْ أَضَاءَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ.

169. آنکھ والے کے لیے صبح روشن ہوچکی ہے۔

170. وقال (عليه السلام): تَرْكُ الذَّنْبِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ التَّوْبَةِ.

170. ترک گناہ کی منزل بعد میں توبہ مانگنے سے آسان ہے۔

اول مرتبہ میں گناہ سے باز رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا گناہ سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد کیونکہ انسان جس چیز کا خو گر ہوجاتا ہے اس کے بجا لانے میں طبیعت پر بار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اسے چھوڑنے میں لوہے لگ جاتے ہیں اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔ ضمیر کی آواز کمزور پڑجاتی ہے اور توبہ میں دشواریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر دل کو ڈھارس دیتے رہنا کہ »پھر توبہ کر لیں گے «.اکثر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ابتداء میں گناہ سے دستبردار ہونے میں دشواری محسوس ہورہی ہے تو گناہ کی مدت کو بڑھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔

171. وقال (عليه السلام): كَمْ مِنْ أَكْلَة مَنَعَتْ أَكَلاَت!

171. بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔

یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ایک فائدہ کے پیچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لینا پڑے جس طرح وہ شخص کہ جو ناموافق طبع یا ضرورت سے زیادہ کھالے تو اسے بہت سے کھانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

172. وقال (عليه السلام): النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.                                    

172. لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔

انسان جس علم وفن سے واقف ہوتا ہے اسے بڑی اہمیت دیتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتاہے اسے غیر اہم قرار دے کر اس کی تنقیص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس محفل میں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے۔ اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سے وہ ایک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور یہ سبکی اس کے لیے اذیت کا باعث ہوتی ہے اور انسان جس چیز سے بھی اذیت محسوس کر ے گا اس سے طبعا ًنفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افلاطون سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے سے بغض رکھتا ہے مگر جاننے والا نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہیں رکھتا ؟اس نے کہا کہ چونکہ نہ جاننے والا اپنے اندر ایک نقص محسوس کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ جاننے والا اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقیر و پست سمجھتا ہوگا جس سے متاثر ہوکر وہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے والا اس کی جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے اس لیے وہ یہ تصور نہیں کرتا کہ نہ جاننے والا اسے حقیر سمجھتا ہوگا۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اس سے بغض رکھے۔

173. وقال (عليه السلام): مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوهَ الاْرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَاَ.

173. جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

174. وقال (عليه السلام): مَن أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لله قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ.

174. جو شخص اللہ کی خاطر سنان غضب تیز کرتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔

جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کرسکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جاسکتاہے۔ چنانچہ سید نعمت جز ائری علیہ الرحمہ نے زہر الربیع میں تحریر کیا ہے کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبہ دینی سے متاثر ہوکر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹناچاہتا ہوں تاکہ لوگ اس مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب وہ جانیں اور ان کا کام، مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کرہی گزرے گا، تواس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا۔ جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہوا تو درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے۔ مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا۔ اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامند ی حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔

175. وقال (عليه السلام): إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيهِ، فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيهِ أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْهُ.

175. جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لیے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔

-----------------