کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(8)

از: مفتی جعفر حسین

176. وقال (عليه السلام): آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.        

176. سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔

177. وقال (عليه السلام): ازْجُرِ الْمُسِيءَ بِثوَابِ الْـمُحْسِنِ.

177. بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔

مقصد یہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دینا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راہ پر لگاتا ہے۔ اور یہ چیز اخلاقی مواعظ اور تنبیہ و سرزنش سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ انسان طبعاً ان چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتیجہ میں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں میں مدح و تحسین کے ترانے گونجیں۔

178. وقال (عليه السلام): احْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِهِ مِنْ صَدْرِكَ.

178. دوسرے کے سینہ سے کینہ و شرکی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو.

اس جملہ کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم کسی کی طرف سے دل میں کینہ رکھو گے تو وہ بھی تمہاری طرف سے کینہ رکھے گا۔ لہٰذا اپنے دل کی کدورتوں کو مٹا کر اس کے دل سے بھی کدورت کو مٹا دو۔ کیونکہ دل دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ جب تمہارے آئینہ دل میں کدورت کا زنگ باقی نہ رہے گا، تو اس کے دل سے بھی کدورت جاتی رہے گی اور اسی لیے انسان دوسرے کے دل کی صفائی کااندازہ اپنے دل کی صفائی سے بآسانی کرلیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا چاہتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا سَل قَلبَکَ "اپنے دل سے پوچھو". یعنی جتنا تم مجھے دوست رکھتے ہو اتنا ہی میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ دوسرے کو برائی سے روکو تو پہلے خود اس برائی سے باز آؤ. اس طرح تمہاری نصیحت دوسرے پر اثر انداز ہوسکتی ہے ورنہ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔

179. وقال (عليه السلام): اللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّأْيَ.

179. ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کردیتی ہے۔

180. وقال (عليه السلام): الطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ.                       

180. لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

 

181. وقال (عليه السلام): ثَمَرَةُ التَّفْرِيطِ النَّدَامَةُ، وَثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلاَمَةُ.

181. کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اوراحتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے.

182. وقال (عليه السلام): لاَ خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ، كَمَا أَنَّهُ لاَ خَيْرَ فِي الْقوْلِ بِالْجَهْلِ .

182. حکیمانہ بات سے خاموشی اختیار کرنے میں کوئی بھلائی نہیں جس طرح جہالت کی بات میں کوئی اچھائی نہیں۔

183. وقال (عليه السلام): مَا اخْتَلَفَتْ دَعْوَتَانِ إِلاَّ كَانَتْ إِحْدَاهُمَا ضَلاَلَةً.

183. جب دو مختلف دعوتیں ہوں گی, تو ان میں سے ایک ضرور گمراہی کی دعوت ہوگی۔

184. وقال (عليه السلام): مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ.

184. جب سے مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے اس میں کبھی شک نہیں کیا۔

185. وقال (عليه السلام): مَا كَذَبْتُ وَلاَ كُذِّبْتُ، وَلاَ ضَلَلْتُ وَلاَ ضُلَّ بِي.

185. نہ میں نے جھوٹ کہا ہے نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی ہے نہ میں خود گمراہ ہوا، نہ مجھے گمراہ کیا گیا۔

186. وقال (عليه السلام): لِلظَّالِمِ الْبَادِي غَداً بِكَفِّهِ عَضَّةٌ.

186. ظلم میں پہل کرنے والا کل (ندامت سے) اپنا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹتا ہوگا۔

187. وقال (عليه السلام): الرَّحِيلُ وَشِيكٌ.

187. چل چلاؤقریب ہے۔

188. وقال (عليه السلام): مَنْ أَبْدى صَفْحَتَهُ لِلْحَقِّ هَلَكَ.

188. جو حق سے منہ موڑتا ہے، تباہ ہوجاتا ہے۔

189. وقال (عليه السلام): مَنْ لَمْ يُنْجِهِ الصَّبْرُ أَهْلَكَهُ الْجَزَعُ.

189. جسے صبر رہائی نہیں دلاتا، اسے بے تابی و بے قرار ی ہلاک کر دیتی ہے۔

190. وقال (عليه السلام): وَاعَجَبَاهُ! أَتَكُونُ الْخِلاَفَةَ بِالصَّحَابَةِ وَالْقَرَابَةِ؟

قال الرضی: و روي له شعر في هذا المعنى، وهو:

فَإِنْ كُنْتَ بِالشُّورَى مَلَكْتَ أُمُورَهُمْ * فَكَيْفَ بِهذَا وَالْمُشِيرُونَ غُيَّبُ؟ وَإِنْ كنْتَ بِالْقُرْبَى حَجَجْتَ خَصِيمَهُمْ * فَغَيْرُكَ أَوْلَى بِالنَّبِيِّ وَأَقْرَبُ ۔

190. العجب کیا خلافت کا معیار بس صحابیت اور قرابت ہی ہے؟

(سید رضی کہتے ہیں) کہ اس مضمون کے اشعار بھی حضرت سے مروی ہیں جو یہ ہیں۔ اگر تم شوری کے ذریعہ لوگوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے ہو تو یہ کیسے جب کہ مشورہ دینے کے حقدار افراد غیر حاضر تھے اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے حریف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے علاوہ دوسرا نبی (ص) کا زیادہ حقدار اور ان سے زیادہ قریبی ہے۔

191. وقال (عليه السلام): إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيهِ الْمَنَايَا، وَنَهْبٌ تُبَادِرُهُ الْمَصَائِبُ، وَمَعَ كُلِّ جُرْعَة شَرَقٌ، وَفِي كُلِّ أَكْلَة غَصَصٌ، وَلاَ يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلاَّ بِفِرَاقِ أُخْرَى، وَلاَ يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِهِ. فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ، وَأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ، فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُوا الْبَقَاءَ وَهذَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْء شَرَفاً إِلاَّ أَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا، وَتَفْرِيقِ مَا جَمَعا؟!

191. دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلاء کی غارت گری کی جولانگاہ ہے جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے اور جہاں بندہ ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور اس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اس کی عمر کا کم نہ ہوجائے ہم موت کے مددگار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی امید کر سکتے ہیں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ حملہ آور ہو کر جو بنایا ہے اسے گراتے اور جو یکجا کیا ہے اسے بکھیر تے ہوتے ہیں۔

192. وقال (عليه السلام): يَا ابْنَ آدَمَ مَا كَسَبْتَ فَوْقَ قُوتِكَ، فَأَنْتَ فِيهِ خَازِنٌ لِغَيْرِكَ.

192. اے فرزند آدم(ع)! تو نے اپنی غذا سے جو زیادہ کمایا ہے اس میں دوسرے کا خزانچی ہے۔

193. وقال (عليه السلام): إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وَإِقْبَالاً وَإِدْبَاراً، فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَھوتِھا واقبالِھَا فانَّ القلبَ اذا اُکرِہَ عَمِیَ۔

193. دلوں کے لیے رغبت و میلان، آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان سے اس وقت کام لو جب ان میں خواہش و میلان ہو، کیونکہ دل کو مجبور کرکے کسی کام پر لگایا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

194. وكان(عليه السلام) يقول: مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الاْنْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ؟ أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْهِ فَيُقَالُ لي لَوْ عَفَوْتَ.

194. جب غصہ مجھے آئے تو کب اپنے غصہ کو اتاروں کیا اس وقت کہ جب انتقام نہ لے سکوں اور یہ کہا جائے کہ صبر کیجئے۔ یا اس وقت کہ جب انتقام پر قدرت ہو اور کہا جائے کہ بہتر ہے درگزر کیجئے۔

195. وقال (عليه السلام) وقد مرّ بقذر على مزبلة: هذا مَا بَخِلَ بِهِ الْبَاخِلُونَ. و روي في خبر آخر أَنه قال: هذَا مَا كُنْتُمْ تَتَنَافَسُونَ فِيهِ بِالاَْمْسِ ۔

195. آپ کا گزر ہوا ایک گھورے کی طرف سے جس پر غلاظتیں تھیں۔ فرمایا۔ "یہ وہ ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا". ایک اور روایت میں ہے کہ اس موقع پر آپ نے فرمایا: یہ وہ ہے جس پر تم لوگ کل ایک دوسرے پر رشک کرتے تھے۔

196. وقال (عليه السلام): لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ.

196. تمہار ا وہ مال اکارت نہیں گیا جو تمہارے لیے عبرت و نصیحت کا باعث بن جائے۔

جو شخص مال و دولت کھو کر تجربہ و نصیحت حاصل کرے اسے ضیاع مال کی فکر نہ کر نا چاہیے اور مال کے مقابلہ میں تجربہ کو گراں قدر سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ مال تو یوں بھی ضائع ہوجاتا ہے مگر تجربہ آئندہ کے خطرات سے بچالے جاتا ہے۔ چنانچہ ایک عالم سے جو مالدار ہونے کے بعد فقیر و نادار ہوچکا تھا، پوچھا گیا کہ تمہارا مال کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ میں نے اس سے تجربات خرید لیے ہیں جو میرے لیے مال سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی میں نقصان میں نہیں رہا ۔

197. وقال (عليه السلام): إِنَّ هذِهِ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الاَْبْدَانُ، فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ .

197. یہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہیں جس طرح بدن تھکتے ہیں۔ لہٰذا (جب ایسا ہو تو )ان کے لیے لطیف حکیمانہ جملے تلاش کرو

198. وقال (عليه السلام) لما سمع قول الخوارج (لا حكم إِلاَّ للهِ) كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ.

198. جب خوارج کا قول « لاَ حُکمَ اِلاَّ اللّٰہُ » (حکم اللہ سے مخصوص ہے )سنا تو فرمایا :یہ جملہ صحیح ہے مگرجو اس سے مراد لیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔

199. وقال (عليه السلام) في صفة الْغوغاء: هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا غَلَبُوا، وَإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ يُعْرَفُوا. وقيل: بل قال علیہ السلام: هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا ضَرُّوا، وَإِذَا تَفَرَّقُوا نَفَعُوا. فقيل: قد علمنا مضرة اجتماعهم، فما منفعة افتراقهم؟ فقال: يَرْجِعُ أَصْحَابُ الْمِهَنِ إِلَى مِهَنِهِمْ، فَيَنْتَفِعُ النَّاسُ بِهِمْ، كَرُجُوعِ الْبَنَّاءِ إِلَى بِنَائِهِ، وَالنَّسَّاجِ إِلَى مَنْسَجِهِ، وَالْخَبَّازِ إِلَى مَخْبَزِهِ.

199. بازاری آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہیں۔ جب منتشر ہوں تو پہچانے نہیں جاتے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے فرمایا :کہ جب اکٹھا ہوتے ہیں تو باعث ضرر ہوتے ہیں اور جب منتشر ہوجاتے ہیں تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ پیشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو لوگ ان کے ذریعہ فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے معمار اپنی (زیر تعمیر )عمار ت کی طرف جولاہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے تنور کی طرف.

200. وقال (عليه السلام) و أتي بجان ومعه غوغاءُ فقال لاَ مَرْحَباً بِوُجُوه لاَ تُرى إِلاَّ عِنْدَ كُلِّ سَوْأَة.

200. آپ کے سامنے ایک مجرم لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا توآ پ نے فرمایا :ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی نظر آتے ہیں۔