کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(8)

201. وقال (عليه السلام): إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَان مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِهِ، فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ، وَإِنَّ الاَْجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ.

201. ہر انسان کے ساتھ دو ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے اور موت کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور بے شک انسان کی مقررہ عمر اس کے لیے ایک مضبوط سپر ہے.

202. وقال (عليه السلام)، وقد قال له طلحة والزبير: نبايعك على أَنّا شركاؤُكَ في هذا الاَمر. لاَ، وَلكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُّوَّةَ وَالاِْسْتَعَانَةِ، وَعَوْنَانِ عَلَى الْعَجْزِ وَالاَْوَدِ.

202.طلحہ وزبیر نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں آپ کے ساتھ شریک رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مددگار ہو گے.

203. وقال (عليه السلام): أَيُّهَا النَّاسُ، اتّقُوا اللهَ الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سمِعَ، وَإِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ، وَبَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ (مِنہُ) أَدْرَكَكُمْ، وَإِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ، وَإِنْ نَسِيتُمُوهُ ذَكَرَكُمْ.

203.اے لوگو! اللہ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وہ سنتا ہے اور دل میں چھپاکر رکھو تو وہ جان لیتا ہے اس موت کی طر ف بڑھنے کا سرو سامان کرو کہ جس سے بھاگے تو وہ تمہیں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وہ تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

204. وقال (عليه السلام): لاَ يُزَهِّدَنَّكَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لاَ يَشْكُرُهُ لَكَ، فَقَدْ يَشْكُرُكَ عَلَيْهِ مَنْ لاَ يَسْتَمْتِعُ بِشَيْء مِنْهُ، وَقَدْ تُدْرِكُ مِنْ شُكْرِ الشَّاكِرِ أَكْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْكَافِرُ، وَاللهُ يُحِبُّ الْـمُحْسِنِينَ ۔

204.کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزار نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بددل نہ بنا دے اس لیے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھلائی کی وہ قدر کرے گا، جس نے اس سے کچھ فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ تم ایک قدردان کی قدر دانی حاصل کرلو گے اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

205. وقال (عليه السلام): كُلُّ وِعَاء يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيهِ إِلاَّ وِعَاءَ الْعِلْمِ، فَإِنَّهُ يَتَّسِعُ.

205. ہر ظرف اس سے کہ جو اس میں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے، مگر علم کا ظرف وسیع ہوتا جاتا ہے۔

206. وقال (عليه السلام): أَوَّلُ عِوَضِ الْحَلِيمِ مِنْ حِلْمِهِ أَنَّ النَّاسَ أَنْصَارُهُ عَلَى الْجَاهِلِ.

206. بردبار کو اپنی بردباری کا پہلا عوض یہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت دکھانے والے کے خلاف اس کے طرفدار ہوجاتے ہیں۔

207. وقال (عليه السلام): إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ، فَإِنَّهُ قَلَّ مَنْ تَشَبَّهَ بَقَوْم إِلاَّ أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ.

207. اگر تم بردبار نہیں ہو تو بظاہر بردبار بننے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے۔

مطلب یہ ہے کہ اگر انسان طبعاً  و برد بار ہو تو اسے برد بار بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس طرح کہ اپنی افتادِ طبیعت کے خلاف حلم و بردباری کا مظاہرہ کرے اگرچہ طبیعت کا رخ موڑنے میں کچھ زحمت محسوس ہوگی مگر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ حلم طبعی خصلت کی صورت اختیار کر لے گا اور پھر تکلف کی حاجت نہ رہے گی کیونکہ عادت رفتہ رفتہ طبیعتِ ثانیہ بن جایا کرتی ہے۔

208. وقال (عليه السلام): مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ رَبِحَ، وَمَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ، وَمَنْ خَافَ أَمِنَ، وَمَنِ اعْتَبَرَ أَبْصَرَ، ومَنْ أَبْصَرَ فَهِمَ، وَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ.

208. جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وہ (عذاب سے )محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وہ بینا ہوجاتا ہے اور جو بینا ہوتا ہے وہ بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوجاتا ہے۔

209. وقال (عليه السلام): لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَىٰ وَلَدِهَا .

و تلا عقيبَ ذلك: (وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَىٰ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الاَْرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ) .

209. یہ دنیا منہ زوری دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کردیئے گئے ہیں، ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہی کو (اس زمین کا) مالک بنائیں۔

یہ ارشاد امام منتظر کے متعلق ہے جو سلسلہ امامت کے آخری فرد ہیں۔ ان کے ظہور کے بعد تمام سلطنتیں اور حکومتیں ختم ہوجائیں گی اور »لیظھرہ علی الدین کلہ «کا مکمل نمونہ نگاہوں کے سامنے آجائے گا

 

ہر کسے را دو لتے از آسمان آید پدید           دولتِ آلِ علی آخر زمان آید پدید

210. وقال (عليه السلام): اتَّقُوا اللهَ تَقِيَّةَ مَنْ شَمَّرَ تَجْرِيداً، وَجَدَّ تَشْمِيراً، وَكَمَّشَ فِي مَهَل، وَبَادَرَ عَنْ وَجَل،نَظَرَ فِي كَرَّةِ الْمَوْئِلِ، وَعَاقِبَةِ الْمَصْدَرِ، وَمَغَبَّةِ الْمَرْجِعِ.

210. اللہ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنیا کی وابستگیوں کو چھوڑ کر دامن گردان لیا اور دامن گردان کر کوشش میں لگ گیا اور اچھائیوں کے لیے اس وقفۂ حیات میں تیز گامی کے ساتھ چلا اور خطروں کے پیش نظر اس نے نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا اور اپنی قرار گاہ اور اپنے اعمال کے نتیجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔

211. وقال (عليه السلام): الْجُودُ حَارِسُ الاَْعْرَاضِ، وَالْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيهِ، وَالْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ، وَالسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ، وَالاْسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ وَقَد خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنَى بِرَأْيِهِ، وَالصَّبْرُ يُنَاضِلُ الْحِدْثَانَ، والْجَزَعُ مِنْ أَعْوَانِ الزَّمَانِ، وَأَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى، وَكَمْ مِنْ عَقْل أَسيِر تَحْتَ هَوَى أَمِير، وَمِنَ التَّوْفِيقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ، وَالْموَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ، وَلاَ تَأْمَنَنَّ مَلُولاً.

211. سخاوت عزت آبرو کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کامیابی کی زکوٰةہے، جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پا جانا ہے جو شخص اپنی رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بیتابی و بیقرار ی زمانہ کے مدد گاروں میں سے ہے۔ بہتر ین دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بارے میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی حسن توفیق کا نتیجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو اس پر اطمینا ن و اعتماد نہ کرو۔

212. وقال (عليه السلام): عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِهِ.

212. انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حریفوں میں سے ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس طرح حاسد محسود کی کسی خوبی و حسن کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح خود پسندی عقل کے جوہر کا ابھرنا اور اس کے خصائص کا نمایاں ہونا گوارا نہیں کرتی۔ جس سے مغرور و خود بین انسان ان عادات و خصائل سے محروم رہتا ہے، جو عقل کے نزدیک پسندیدہ ہوتے ہیں۔

213. وقال (عليه السلام): أَغْضِ عَلَى الْقَذَى وَاِلَّالَم تَرْضَ أَبَداً.     

213. تکلیف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔

ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں سے متاثر ہوکر ان سے علیحدگی اختیار کرتا جائے، تو رفتہ رفتہ وہ اپنے دوستوں کو کھودے گا، اور دنیا میں تنہا اور بے یارو مددگار ہوکر رہ جائے گا، جس سے اس کی زندگی تلخ اور الجھنیں بڑھ جائیں گی۔ ایسے موقع پر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس معاشرہ میں اسے فرشتے نہیں مل سکتے کہ جن سے اسے کبھی کوئی شکایت پیدا نہ ہو اسے انہی لوگو ں میں رہنا سہنا اور انہی لوگوں میں زندگی گزارنا ہے۔ لہٰذا جہاں تک ہوسکے ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرے اور ان کی ایذا رسانیوں سے چشم پوشی کر تا رہے۔

214. وقال (عليه السلام): مَنْ لاَنَ عُودُهُ كَثُفَتْ أَغْصَانُهُ.

214. جس (درخت) کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔

جو شخص تند خو اور بدمزاج ہو, وہ کبھی اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی اس کے ہاتھوں نالاں اور اس سے بیزار رہیں گے اور جو خوش خلق اور شیریں زبان ہولوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پڑنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے جس سے وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنا لے جاسکتا ہے۔

 

215. وقال (عليه السلام): الْخِلاَفُ يَهْدِمُ الرَّأْيَ.

215. مخالفت صحیح رائے کو برباد کردیتی ہے۔

216. وقال (عليه السلام): مَنْ نَالَ اسْتَطَالَ.    

216. جو منصب پالیتا ہے دست درازی کرنے لگتا ہے۔

217. وقال (عليه السلام): فِي تَقَلُّبِ الاَْحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ.

217. حالات کے پلٹوں ہی میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔

218. وقال (عليه السلام): حَسَدُ الصَّدِيقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ.

218. دوست کا حسد کرنا دوستی کی خامی ہے۔

219. وقال (عليه السلام): أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُولِ تَحْتَ بُرُوقِ الْمَطَامِعِ.

219. اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پرہوتا ہے۔

جب انسان طمع و حرص میں پڑ جاتا ہے تو رشوت، چوری، خیانت، سود خواری اور اس قبیل کے دوسرے اخلاقی عیوب اس میں پیدا ہوجاتے ہیں اور عقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خیرہ ہوجاتی ہے کہ اسے ان قبیح افعال کے عواقب و نتائج نظر ہی نہیں آتے کہ وہ اسے روکے ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے البتہ جب دنیا سے رخت سفر باندھنے پر تیار ہوتاہے اور دیکھتا ہے کہ جو کچھ سمیٹا تھا وہ یہیں کے لیے تھا ساتھ نہیں لے جاسکتا، تو اس وقت اس کی آنکھیں کھلتی ہیں۔

 

220۔ و قال علیہ السلام: لَیسَ مِنَ العَدلِ القَضَاءُ عَلَی الثِّقَة بالظّنِّ

220۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ ظن و گمان پر اعتماد کرتے ھوئے فیصلہ کیا جائے ۔

221. وقال (عليه السلام): بِئْسَ الزَّادُ إِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ.

221.آخرت کے لیے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔

222. وقال (عليه السلام): مِنْ أَشْرَفِ أَْعمَال الْكَرِيمِ غَفْلَتُهُ عَمَّا يَعْلَمُ.

222.بلند انسان کے بہتر ین افعال میں سے یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے چشم پوشی کرے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔

223. وقال (عليه السلام): مَنْ كَسَاهُ الْحَيَاءُ ثَوْبَهُ لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَهُ.

223.جس پر حیا نے اپنا لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتے۔

جو شخص حیا کے جو ہر سے آراستہ ہوتا ہے اس کے لیے حیا ایسے امور کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہے جو معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے اس میں عیب ہوتا ہی نہیں کہ دوسرے دیکھیں اور اگر کسی امر قبیح کا اس سے ارتکاب ہو بھی جاتا ہے تو حیا کی وجہ سے علانیہ مرتکب نہیں ہوتا کہ لوگوں کی نگاہیں اس کے عیب پر پڑسکیں۔

 

224. وقال (عليه السلام): بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُونُ الْهَيْبَةُ، وَبِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصلُونَ، وَبالاِْفْضَالِ تَعْظُمُ الاَْقْدَارُ، وَبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ، وَبِاحْتَِمالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدَدُ، وَبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِىءُ، بِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيهِ تَكْثُرُ الاَْنْصَارُ عَليْهِ.

224.زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کینہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور سر پھر ے آدمی کے مقابلہ میں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ میں اپنے طرفدار زیادہ ہوجاتے ہیں۔

225. وقال (عليه السلام): الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلاَمَةِ الاَْجْسَادِ ۔

225.تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کیوں غافل ہوگئے.

حاسد دوسروں کے مال و جاہ پر تو حسد کرتا ہے۔ مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہیں کرتا حالانکہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے زیادہ گرانقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دولت و ثروت کے اثرات ظاہری طمطراق اور آرام و آسائش کے اسباب سے نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور صحت ایک عمومی چیز قرار پاکر نا قدری کا شکار ہوجاتی ہے اور اسے اتنا بے قدر سمجھا جاتا ہے کہ حاسد بھی اسے حسد کے قابل نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ایک دولت مند کو دیکھتا ہے تو ا س کے مال ودولت پر اسے حسد ہوتا ہے اور ایک مزدور کو دیکھتا ھے کہ جو سر پر بوجھ اٹھائے دن بھر چلتا پھرتا ہے تو وہ اس کی نظروں میں قابل حسد نہیں ہوتا۔ گویا صحت و توانائی اس کے نزدیک حسد کے لائق چیز نہیں ہے کہ اس پر حسد کرے البتہ جب خود بیمار پڑتا ہے تواسے صحت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس موقع پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ قابل حسد یہی صحت ہے جو اب تک اس کی نظرو ں میں کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی.

مقصد یہ ہے کہ صحت کو ایک گرانقدر نعمت سمجھنا چاہیے اور اس کی حفاظت و کی طر ف متوجہ رہنا چاہیے

226. وقال (عليه السلام): الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

226. طمع کرنے والا ذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔

227. و سئل عن الاِيمان فَقَال الاِْيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وعَمَلٌ بِالاَْرْكَانِ.

227. آپ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ایمان دل سے پہچاننا، زبان سے اقرار کرنا اور اعضا سے عمل کرنا ہے.

228. وقال (عليه السلام): مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللهِ سَاخِطاً، وَمَنْ أَصْبَحَ يَشَكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِهِ فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّهُ، وَمَنْ أَتى غَنِيَّاً فَتَوَاضَعَ لِغِنَاهُ ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِهِ، وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللهِ هُزُواً، وَمَنْ لَهِجَ قَلْبُهُ بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُهُ مِنْهَا بِثَلاَث: هَمٍّ لاَ يُغِبُّهُ، وَحِرْصٌ لاَ يَتْرُكُه، وَأَمَل لاَ يُدْرِكُهُ.

228. جو دنیا کے لیے اندوہناک ہو وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہے اور جو اس مصیبت پر کہ جس میں مبتلا ہے شکوہ کرے تو وہ اپنے پروردگار کا شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ سے جھکے تو اس کا دو تہائی دین جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرے پھر مر کر دوزخ میں داخل ہو تو وہ ایسے ہی لوگوں میں سے ہوگا، جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنیا کی محبت میں وارفتہ ہوجائے تو اس کے دل میں دنیا کی یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ایسا غم کہ جو اس سے جدا نہیں ہوتا اور ایسی حرص کہ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ایسی امید کہ جو بر نہیں آتی۔

229. وقال (عليه السلام): كَفَىٰ بِالْقَنَاعَةِ مُلْكاً، وَبِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِيماً. وسئل (عليه السلام) عن قوله تعالى: (فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً)، فَقَالَ: هِيَ الْقَنَاعَةُ.

229. قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت اور خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی عیش و آرام نہیں ہے ۔ حضرت (ع) سے اس آیت کے متعلق دریافت کیاگیا کہ «ہم اس کو پاک و پاکیزہ زندگی دیں گے؟ »آپ نے فرمایا کہ وہ قناعت ہے۔

 

حسن خلق کو نعمت سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح نعمت باعث لذت ہوتی ہے اسی طرح انسان خوش اخلاقی و نرمی سے دوسروں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے ماحول کو خوش گوار بناسکتا ہے۔ اور اپنے لیے لذت و راحت کا سامان کر نے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور قناعت کو سرمایہ و جاگیر اس لیے قرار دیا ہے کہ جس طرح ملک و جاگیر احتیاج کو ختم کردیتی ہے اسی طرح جب انسان قناعت اختیار کرلیتا ہے اور اپنے رزق پر خوش رہتا ہے تو وہ خلق سے مستغنی اور احتیاج سے دور ہوتا ہے۔

ہرکہ قائع شد بخشک و ترشہ بحر و بر است

230. وقال (عليه السلام): شَارِكُوا الَّذِي قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْهِ الرِّزْقُ، فَإِنَّهُ أَخْلَقُ لِلْغِنَى، وَأَجْدَرُ بِإِقْبَالِ الْحَظِّ عَلَيْهِ.

230. جس کی طرف فراخِ روزی رُخ کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو، کیونکہ اس میں دولت حاصل کرنے کا زیادہ امکان اور خوش نصیبی کا زیادہ قرینہ ہے۔

231. وقال (عليه السلام) في قولہ تعالى (إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِْحْسَانِ): الْعَدْلُ الاِْنْصَافُ، وَالاِْحْسَانُ التَّفَضُّلُ.

231. خداوند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ "اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے"۔ فرمایا ! عدل انصاف ہے اور احسان لطف و کرم۔

232. وقال (عليه السلام): مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيلَةِ.

و معنى ذلك: أنّ ما ينفقه المرء من ماله في سبيل الخير والبر  وإن كان يسيراً  فإن الله تعالى يجعل الجزاء عليه عظيماً كثيراً، واليدان هاهنا عبارتان عن النعمتين، ففرّق(عليه السلام) بين نعمة العبد ونعمة الرب (تعالیٰ ذکرہ)، فجعل تلك قصيرة وهذه طويلة، لان نعم الله أبداً تُضعف على نعم المخلوق أَضعافاً كثيرة، إذ كانت نعمه اللہ أصل النعم كلها، فكل نعمة إليها تَرجِعُ ومنها تنزع.

232. جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

سید رضی کہتے ہیں کہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے جو کچھ خیر و نیکی کی راہ میں خر چ کرتا ہے اگرچہ وہ کم ہو، مگر خداوند عالم اس کا اجر بہت زیادہ قراردیتا ہے اور اس مقام پر دو ہاتھوں سے مراد دو نعمتیں ہیں اور امیرالمومنین علیہ السلام نے بندہ کی نعمت اور پروردگار کی نعمت میں فرق بتایا ہے کہ وہ تو عجز و قصور کی حامل ہے اور وہ بااقتدار ہے۔ کیونکہ اللہ کی عطاکردہ نعمتیں مخلوق کی دی ہوئی نعمتوں سے ہمیشہ بدرجہا بڑھی چڑھی ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اللہ ہی کی نعمتیں تمام نعمتوں کا سر چشمہ ہیں۔ لہٰذا ہر نعمت انہی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہے، اور انہی سے وجود پاتی ہے۔

233. وقال لابنه الحسن(عليهما السلام): لاَ تَدعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَة، وَإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ، فَإِنَّ الدَّاعِيَ بَاغ، وَالبَاغِيَ مَصْرُوعٌ.

233. اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے فرمایا :

کسی کو مقابلہ کے لیے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب دو۔ اس لیے کہ جنگ کی خود سے دعوت دینے والا زیادتی کرنے والا ہے، اور زیادتی کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ اگر دشمن آمادہ پیکار ہو اور جنگ میں پہل کرے تو اس موقع پر اس کی روک تھام کے لیے قدم اٹھا نا چاہیے اور از خود حملہ نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ سرا سر ظلم و تعدی ہے اور جو ظلم وتعدی کا مرتکب ہوگا، وہ اس کی پاداش میں خاک مذلت پر پچھاڑ دیا جائے گا۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السّلام ہمیشہ دشمن کے للکارنے پر میدان میں آتے اور خود سے دعوت مقابلہ نہ دیتے تھے۔ چنانچہ ابن الحدید تحریر کرتے ہیں کہ:

 

ما سمعنا انہ علیہ السلام دعا الیٰ مبارزہ قطو انما کان یدعی ھو بعینہ او یدعی من یبارز فیخرج الیہ فیقتل ۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۴۴)

ہمارے سننے میں نہیں آیاکہ حضرت نے کبھی کسی کو مقابلہ کے لیے للکا ر ا ہو بلکہ جب مخصوص طور پر آپ کو دعوت مقابلہ دی جاتی تھی یا عمومی طور پر دشمن للکارتا تھا، تو اس کے مقابلہ میں نکلتے تھے اور اسے قتل کردیتے تھے۔

234. وقال (عليه السلام): خِيَارُ خِصَالِ النِّسَاءِ شِرَارُ خِصَالِ الرِّجَالِ: الزَّهْوُ وَالْجُبْنُ وَالْبُخْلُ، فَإذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ مَزْهُوَّةً لَمْ تُمَكِّنْ مِنْ نَفْسِهَا، وَإِذَا كَانَتْ بِخِيلَةً حَفِظَتْ مَالَهَا وَمَالَ بَعْلِهَا، وَإِذَا كَانَتْ جَبَانَةً فَرِقَتْ مِنْ كُلِّ شِيْء يَعْرِضُ لَهَا.

234. عورتوں کی بہترین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیں۔ غرور، بزدلی اور کنجوسی اس لیے کہ عورت جب مغرور ہوگی، تو وہ کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وہ ہر اس چیز سے ڈرے گی جو پیش آئے گی۔

235. وقيل له (عليه السلام): صف لنا العاقل. فقال (عليه السلام): هُوَ الِّذِي يَضَعُ الشَّيْءَ مَوَاضِعَهُ.

قيل: فصف لنا الجاهل.

قال: قَدْ فَعَلْتُ.

قال الرضی: يعني: أنّ الجاهل هو الذي لا يضع الشيء مواضعه، فكأن ترك صفته صفة له، إذ كان بخلاف وصف العاقل.

235. آپ علیہ السّلام سے عرض کیاگیا کہ عقلمند کے اوصاف بیان کیجئے۔ فرمایا! عقلمند وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ جاہل کا وصف بتایئے تو فرمایا کہ میں بیان کر چکا۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو کسی چیز کو اس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گویا حضرت کا اسے نہ بیان کر نا ہی بیان کرنا ہے۔ کیونکہ اس کے اوصاف عقلمند کے اوصاف کے برعکس ہیں۔

236. وقال (عليه السلام): وَاللهِ لَدُنْيَاكُمْ هذِهِ أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِير فِي يَدِ مَجْذُوم .

236. خدا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی ان انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔

237. وقال (عليه السلام): إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ وَإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ، وَإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَْحْرَارِ.

237. ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیشِ نظر کی یہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی، اور یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی، یہ آزادوں کی عبادت ہے۔

238. وقال (عليه السلام): الْمَرْأَةُ شَرٌّ كُلُّهَا، وَشَرُّ مَا فِيهَا أَنَّهُ لاَبُدَّ مِنْهَا ۔

238. عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

239. وقال (عليه السلام): مَنْ أَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوقَ، وَمَنْ أَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيقَ.

239. جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وہ اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کردیتا ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے، وہ دوست کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا ہے.

240. وقال (عليه السلام): الْحَجَرُ الْغَصِيبُ فِي الدَّارِ رَهْنٌ عَلَى خَرَابِهَا.

قال الرضی: و يروى هذا الكلام للنبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، ولا عجب أن يشتبه الكلامان، فإنّ مستقاهما من قليب، ومفرغهما من ذنوب.

240. گھر میں ایک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وہ تباہ و برباد ہوکر رہے گا۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ کلام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہوا ہے اور اس میں تعجب ہی کیا کہ دونوں کے کلام ایک دوسرے کے مثل ہوں کیونکہ دونوں کا سر چشمہ تو ایک ہی ہے.

241. وقال (عليه السلام): يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ أَشدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

241. مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔

دنیا میں ظلم سہہ لینا آسان ہے. مگر آخرت میں اس کی سزا بھگتنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ ظلم سہنے کا عرصہ زندگی بھر کیوں نہ ہو پھر بھی محدود ہے۔ اور ظلم کی پاداش جہنم ہے، جس کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو یہ ہے کہ وہا ں زندگی ختم نہ ہو گی کہ موت دوزخ کے عذاب سے بچا لے جائے چنانچہ ایک ظالم اگر کسی کو قتل کر دیتا ہے تو قتل کے ساتھ ظلم کی حد بھی ختم ہوجائے گی، اور اب اس کی گنجائش نہ ہو گی کہ اس پر مزید ظلم کیا جاسکے مگر اس کی سزا یہ ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے کہ جہاں وہ اپنے کئے کی سزا بھگتتا رہے۔

 

پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد      در گردنِ او بماند و برما بگذشت

 

242. وقال (عليه السلام): اتَّقِ اللهَ بَعْضَ التُّقَى وَإِنْ قَلَّ، وَاجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ اللهِ سِتْراً وَإِنْ رَقَّ.

242. اللہ سے کچھ تو ڈرو، چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو، چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔

243. وقال (عليه السلام): إِذَا ازْدَحَمَ الْجَوَابُ خَفِيَ الصَّوَابُ.

243. جب (ایک سوال کے لیے) جوابات کی بہتات ہوجائے توصحیح بات چھپ جایا کرتی ہے۔

اگر کسی سوال کے جواب میں ہر گوشہ سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ تو ہر جواب نئے سوال کا تقاضا بن کر بحث و جدل کا دروازہ کھول دے گا اور جوں جوں جوابات کی کثرت ہوگی، اصل حقیقت کی کھوج اور صحیح جواب کی سراغ رسائی مشکل ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص اپنے جواب کو صحیح تسلیم کرانے کے لیے ادھر اُدھر سے دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جس سے سارا معاملہ الجھاؤ میں پڑجائے گا۔ اور یہ خواب کثرت تعبیر سے خواب پریشان ہو کر رہ جائے گا۔

244. وقال (عليه السلام): إِنَّ لله فِي كُلِّ نِعْمَة حَقّاً، فَمَنْ أَدَّاهُ زَادَهُ مِنْهَا، وَمَنْ قَصَّرَ مِنْهُ خَاطَرَ بِزَوَالِ نِعْمَتِهِ.

244. بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر نعمت میں ایک حق ہے تو جو اس حق کو ادا کرتا ہے، اللہ اس کے لیے نعمت کو اوربڑھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔

245. وقال (عليه السلام): إِذَا كَثُرَتِ الْمَقْدُرَةُ قَلَّتِ الشَّهْوَةُ.

245. جب مقدرت زیادہ ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔

246. وقال (عليه السلام): احْذَرُوا نِفَارَ النِّعَمِ، فَمَا كُلُّ شَارِد بِمَرْدُودٍ.

246. نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔

247. وقال (عليه السلام): الْكَرَمُ أَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ.    

247. جذبۂ کرم رابطۂ قرابت سے زیادہ لطیف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔

248. وقال (عليه السلام): مَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّهُ.

248. جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔

249. وقال (عليه السلام): أَفْضَلُ الاَْعْمَالِ مَا أَكْرَهْتَ نَفْسَكَ عَلَيْهِ.

249. بہترین عمل وہ ہے جس کے بجالانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔

250. وقال (عليه السلام): عَرَفْتُ اللهَ سُبْحَانَهُ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ، وَحَلِّ الْعُقُودِ. (وَ نقضِ الھِمَمِ)

250. میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے, نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔

ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے پست ہونے سے خداوند عالم کی ہستی پر اس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک کام کے کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، مگر وہ ارادہ فعل سے ہمکنار ہونے سے پہلے ہی بدل جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور ارادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ارادوں کا ادلنا بدلنااور ان میں تغیر و انقلاب کا رونما ہونا اس کی دلیل ہے کہ ہمارے ارادوں پر ایک بالا دست قوت کار فرما ہے جو انہیں عدم سے وجود اور وجود سے عدم میں لانے کی قوت و طاقت رکھتی ہے، اور یہ امر انسان کے احاطۂ اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا اسے اپنے مافوق ایک طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جو ارادوں میں ردو بدل کرتی رہتی ہے۔

 

251. وقال (عليه السلام): مَرَارَةُ الدُّنْيَا حَلاَوَةُ الاْخِرَةِ، وَحَلاَوَةُ الدُّنْيَا مَرَارَةُ الاْخِرَةِ. 

251. دنیا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آخرت کی تلخی ہے۔

252. وقال (عليه السلام): فَرَضَ اللهُ الاِْيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ، وَالصَّلاَةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ، وَالزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ، وَالصِّيَامَ ابْتِلاَءً لاِِخْلاَصِ الْخَلْقِ، وَالْحَجَّ تقویَّہً لِلدِّينِ، وَالْجِهَادَ عِزّاً لِلاْسْلاَمِ، وَالاَْمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ، وَصِلَةَ الرَّحَمِ مَنْماةً لِلْعَدَدِ، وَالْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ، وَإِقَامَةَ الْحُدُودِ إِعْظَاماً لِلْمَحَارِمِ، وَتَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِيناً لِلْعَقْلِ، وَمُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ إِيجاباً لِلْعِفَّةِ، وَتَرْكَ الزِّنَى تَحْصِيناً لِلنَّسَبِ، وَتَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِيراً لِلنَّسْلِ، وَالشَّهَادَةَ اسْتِظهَاراً عَلَى الْـمُجَاحَدَاتِ، وَتَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِيفاً لِلصِّدْقِ، وَالسَّلاَمَ أَمَاناً مِنَ الْـمَخَاوِفِ، وَالاْمَامَةَ نِظَاماً لِلاُْمَّةِ، وَالطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلاِْمَامَةِ.

252. خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوة کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کے تقویت پہنچانے کے لیے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے، اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا کاری سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علحیدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے۔

احکامِ شرع کی بعض حکمتوں اور مصلحتوں کا تذکرہ کرنے سے قبل ایمان کی غرض و غایت کا ذکر فرمایا ھے۔ کیونکہ ایمان شرعی احکام کے لیے اساس و بُنیاد کی حیثیّت رکھتا ھے اور اس کے بغیر کسی شرع و آئین کی ضرورت کا احساس ھی پیدا نہیں ھوتا۔

ایمان: ھستی خالق کے اقرار اور اُس کی یگانگت کے اِعتراف کا نام ھے اور جب انسان کے قلب و ضمیر میں یہ عقیدہ رچ بس جاتا ھے تو وُہ کسی دُوسرے کے آگے جھکنا گوارا نہیں کرتا، اور نہ کسی طاقت سے مرعُوب و متاثّر ھوتا ھے۔ بلکہ ذھنی طور پر تمام بندھنوں سے آزاد ھوکر خود کو خُدائے واحد کا حلقہ بگوش تصّور کرتا ھے اور اس طرح توحید سے وابستگی کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اس کا دامن شرک کی آلودگیوں سے آلودہ ھونے نہیں پاتا۔

نماز: عبادات میں سب سے بڑی عبادت ھے جو قیام و قعود اور رکوع و سجود پر مشتمل ھوتی ھے اور یہ اعمال غرور و نخوت کے احساسات کو ختم کرنے، کبر و انانیّت کو مٹانے اور عجز و فروتنی کے پیدا کرنے کا کامیاب ذریعہ ھیں۔ کیونکہ مُتکبرانہ افعال و حرکات سے نفس میں تکبّر و رُعونت کا جذبہ اُبھرتا ھے، اور منکسرانہ اعمال سے نفس میں تذلّل و خشوع کی کیفیت پیدا ھوتی ھے اور رفتہ رفتہ ان اعمال کی بجا آوری سے انسان متواضع و منکسر المزاج ھوجاتا ھے۔ چنانچہ وہ عرب کہ جن کے کبر و غرور کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے ھاتھ سے کوڑا گِر پڑتا تھا تو اُسے اُٹھانے کے لیے جُھکنا گوارا نہ کرتے تھے اور چلتے ھوئے جُوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا تھا تو جُھک کر اُسے دُرست کرنا عار سمجھتے تھے۔ سجدوں میں اپنے چہرے خاکِ مذلّت پر بچھانے لگے اور نماز جماعت میں دوسروں کے قدموں کی جگہ پر اپنی پیشانیاں رکھنے لگے، اور غرور و عصبیّت جاھلیّت کو چھوڑ کر اسلام کی صحیح رُوح سے آشنا ھوگئے۔

زکٰواة: یعنی ھر با استطاعت اپنے مال میں سے ایک مقررہ مقدار سال بسال ان لوگوں کو دے کہ جو وسائل حیات سے بالکل محروم یا سال بھر کے آذوقہ کا کوئی ذریعہ نہ رکھتے ھوں یہ اسلام کا ایک اھم فریضہ ھے جس سے غرض یہ ھے کہ اسلامی معاشرہ کی کوئی فرد محتاج و مفلس نہ رھے اور احتیاج و افلاس سے جو برائیاں پیدا ھوتی ھیں ان سے محفوظ رھیں اور اس کے علاوہ یہ بھی مقصد ھے کہ دولت چلتی پھرتی اور ایک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ میں مُنتقل ھوتی رھے اور چند افراد کے لیے مخصُوص ھوکر نہ رہ جائے۔

روزہ: وہ عبادت ھے جس میں ریا کا شائبہ نہیں ھوتا اور نہ حسنِ نیّت کے علاوہ کوئی اور جذبہ کار فرما ھوتا ھے۔ چنانچہ تنہائی میں جبکہ بُھوک بے چین کئے ھوئے ھو، اور پیاس تڑپارھی ھو۔ نہ کھانے کی طرف ھاتھ بڑھتا ھے، نہ پانی کی خواھش بے قابو ھونے دیتی ھے۔ حالانکہ اگر کھاپی لیا جائے تو کوئی پیٹ میں جھانک کر دیکھنے والا نہیں ھوتا۔ مگر ضمیر کا حُسن اور خلوص کا جوھر نیّت کو ڈانوا ڈول نہیں ھونے دیتا اور یہی روزہ کا سب سے بڑا فائدہ ھے کہ اس سے عمل میں اخلاص پیدا ھوتا ھے۔

حج: کا مقصد یہ ھے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف و اکنافِ عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ھوں تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاھرہ ھو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ھو۔

جہاد: کا مقصد یہ ھے کہ جو قوّتیں اسلام کی راہ میں مزاحم ھوں اُن کے خلاف امکانی طاقتوں کے ساتھ جنگ آزما ھوا جائے تاکہ اسلام کو فروغ و استحکام حاصل ھو۔ اگر چہ اس راہ میں جان کے لیے خطرات پیدا ھوتے ھیں اور قدم قدم پر مشکلیں حائل ھوتی ھیں مگر راحتِ ابدی و حیات دائمی کی نوید، ان تمام مصیبتوں کو جھیل لے جانے کی ھمّت بندھاتی رھتی ھے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: دوسروں کو صحیح راہ دکھانے اور غلط روی سے بار رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ھے۔ اگر کسی قوم میں اس فریضہ کے انجام دینے والے ناپید ھوجاتے ھیں تو پھر اس کو تباھی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ اور وہ اخلاقی و تمدّنی لحاظ سے انتہائی پستیوں میں جا گرتی ھے۔ اسی لیے اسلام نے اور فرائض کے مقابلہ میں اُسے بڑی اھمیت دی ھے اور اس سے پہلو بچالے جانے کو "ناقابلِ تلافی جُرم" قرار دیا ھے۔

صلۂ رحمی:یہ ھے کہ انسان اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے اور کم از کم باھمی سلام و کلام کا سلسلہ قطع نہ کرے تاکہ دلوں میں صفائی پیدا ھو، اور خاندان کی شیرازہ بندی ھوکر یہ بکھرے ھوئے افراد ایک دوسرے کے دست و بازو ثابت ھوں۔

قصاص: یہ ایک حق ھے جو مقتول کے وارثوں کو دیا گیا ھے کہ وہ قتل کے بدلہ میں قتل کا مُطالبہ کریں تاکہ پاداش جُرم کے خوف سے آئندہ کسی کو قتل کی جرأت نہ ھوسکے، اور وارثوں کے جوشِ انتقام میں ایک جان سے زیادہ جانوں کے ھلاک ھونے کی نوبت نہ پہنچے۔ بیشک عفو و درگذر اپنے مقام پر فضیلت رکھتا ھے۔ مگر جہاں حقوقِ بشر کی پامالی اور امن عالم کی تباھی کا سبب بن جائے، اُسے اصلاح نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس موقع پر قتل و خونریزی کے انسداد اور حیات انسانی کی بقا کا واحد ذریعہ قصاص ھی ھوگا۔ چنانچہ ارشادِ قدرت ھے۔

(ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب) "اے عقل والو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ھے"۔

اجرائے حدود: کا مقصد یہ ھے کہ محرمات الٰہیہ کے مرتکب ھونے والے کو جرم کی سنگینی کا احساس دلایا جائے تاکہ وہ سزا و عقوبت کے خوف سے منہیات سے اپنا دامن بچا کر رکھے۔

شراب: ذھنی انتشار، پراگندگیٔ حواس اور ذوالِ عقل کا باعث ھوتی ھے جس کے نتیجہ میں انسان وہ قبیح افعال کر گُزرتا ھے جن کی ھوش و حواس کی حالت میں اس سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ یہ صحت کو تباہ اور طبیعت کو وبائی امراض کی پذیرائی کے لیے مستعد کردیتی ھے اور بے خوابی، ضعفِ اعصاب اور نقرس وغیرہ امراض اس کا لازمی خاصہ ھیں، اور انہی مفاد و مفاسد کو دیکھتے ھوئے شریعت نے اسے حرام کیا ھے۔

سرقہ: یعنی دوسروں کے مال میں دست درازی کرنا وہ قبیح عادت ھے جو حرص اور ھوائے نفس کے غلبہ کی وجہ سے پیدا ھوتی ھے اور چونکہ مشتہیات نفس کو حدِ افراط سے ھٹاکر نقطۂ اعتدال پر لانا عفّت کہلاتا ھے اس لیے بڑھتی ھوئی خواھش اور طمع کو روک کر چوری سے اجتناب کرنا عفّت کا باعث ھوگا۔

زنا و لواطہ:کو اس لیے حرام کیا گیا ھے کہ نسب محفوظ رھے اور نسل انسانی پھلے پھُولے اور بڑھے،کیونکہ زنا سے پیدا ھونے والی اولاد، اولاد ھی نہیں قرار پاتی کہ اس سے نسب ثابت ھوتا۔ اسی لیے اُسے مستحق میراث نہیں قرار دیا جاتا اور خلافِ فطرت افعال سے نسل کے بڑھنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا۔ اس کے علاوہ ان قبیح افعال کے نتیجہ میں انسان ایسے امراض میں مبتلا ھوجاتا ھے۔ جو قطع نسل کے ساتھ زندگی کی بربادی کا سبب ھوتی ھیں۔

قانونِ شھادت:کی اس لیے ضرورت ھے کہ اگر ایک فریق دوسرے فریق کے کسی حق کا انکار کرے، تو شھادت کے ذریعہ اپنے حق کا اثبات کرکے اسے محفوظ کرسکے۔

کذب و دروغ:سے اجتناب کا حکم اس لیے ھے تاکہ اس کی ضد یعنی صداقت کی عظمت و اھمیّت نمایاں ھو اور سچائی کے مصالح و منافع کو دیکھ کر جھوٹ سے پیدا ھونے والی اخلاقی کمزوریوں سے بچا جائے۔

 سلام(۱): کے معنی امن و صلح پسندی کے ھیں اور ظاھر ھے کہ صلح پسندانہ روش خطرات سے تحفّظ اور جنگ و جدال کی روک تھام کا کامیاب ذریعہ ھے۔ عموماً شارحین نے سلام کو باھمی سلام و دعا کے معنی میں لیا ھے مگر سیاق کلام اور فرائض کے ذیل میں اس کا تذکرہ اس معنی کی تائید نہیں کرتا۔ بہر حال اس معنی کی رُو سے سلام خطرات سے تحفظ کا ذریعہ اس طرح ھے کہ اسے امن و سلامتی کا شعار سمجھا جاتا ھے اور جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر سلام کرتے ھیں تو اس کے معنی یہ ھوتے ھیں کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواھی و دوستی کا اعلان کرتے ھیں جس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے مطمئن ھوجاتے ھیں۔

(۱) نہج البلاغہ کے عام نُسخوں میں لفظ سلام ھی تحریر ھے مگر ابنِ میثم نے اسے لفظ "اسلام" قرار دیتے ھوئے اس کی شرح کی ھے: اور لفظ سلام بھی روایت کیا ھے۔ ھوسکتا ھے کہ کسی نُسخہ میں لفظ "اسلام" بھی ھو۔

امانت: کا تعلّق صرف مال ھی سے نہیں بلکہ اپنے متعلقہ امور کی بجا آوری میں کوتاھی کرنا بھی امانت کے منافی ھے تو جب مسلمان اپنے فرائض و متعلّقہ امُور کا لحاظ رکھیں گے، تو اس سے نظم و نسق ملّت کا مقصد حاصل ھوگا اور جماعت کی شیرازہ بندی پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔

امامت: کے اجراء کا مقصد یہ ھے کہ امّت کی شیرازہ بندی ھو اور اسلام کے احکام تبدیل و تحریف سے محفوظ رھیں کیونکہ اگر اُمّت کا کوئی سر براہ اور دین کا کوئی محافظ نہ ھو تو نہ اُمّت کا نظم و نسق باقی رہ سکتا ھے، اور نہ احکام دوسرے کی دستبرد سے محفوظ رہ سکتے ھیں اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ھوسکتا ھے جب اُمّت پر اس کی اطاعت بھی واجب ھو۔ اس لیے کہ اگر وہ مطاع اور واجب الاطاعت نہ ھوگا، تو وہ نہ عدل و انصاف قائم کرسکتا ھے نہ ظالم سے مظلوم کا حق دلا سکتا ھے نہ قوانین شریعت کا اجراو نفاذ کرسکتا ھے، اور نہ دُنیا سے فتنہ و فساد کے ختم ھونے کی توقع کی جاسکتی ھے۔

253. وكان(عليه السلام) يقول: أَحْلِفُوا الظَّالِمَ. إِذَا أَرَدْتُمْ يَمِينَهُ. بِأَنَّهُ بَرِىءٌ مِنْ حَوْلِ اللهِ وَقُوَّتِهِ، فَإِنَّهُ إِذَا حَلَفَ بِهَا كَاذِباً عُوجِلَ الْعُقُوبَةَ، وَإِذَا حَلَفَ بِاللهِ الَّذِي لاَ إِلهَ إِلاَّ هُوَ لَمْ يُعَاجَلْ، لاَِنَّهُ قَدْ وَحَّدَ اللہ تعَالیٰ ۔

253. آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وہ اللہ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کیونکہ جب وہ اس طرح جھوٹی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب یوں قسم کھائے کہ قسم اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی، کیونکہ اُس نے اللہ کو وحدت و یکتائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔

ابن میثم نے تحریر کیا ھے کہ ایک شخص نے منصُور عباسی کے پاس امام جعفر صادق علیہ السّلام پر کچھ الزامات عائد کیے جس پر منصور نے حضرت کو طلب کیا اور کہا کہ فلاں شخص نے آپ کے بارے میں مجھ سے یہ اور یہ کہا ھے، یہ کہاں تک صحیح ھے؟ حضرت (ع) نے فرمایا کہ یہ سب جُھوٹ ھے اور اس میں ذرا بھی صداقت نہیں، تم اس شخص کو میرے سامنے بُلاکر پُوچھو۔ چنانچہ اُسے بُلاکر پوچھا گیا تو اُس نے کہا، کہ میں نے جو کچھ کہا تھا صحیح اور دُرست تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم سچ کہتے ھو، تو جس طرح میں تمھیں قسم دلاؤں، تم قسم کھاؤ۔ چنانچہ حضرت (ع) نے اُسے یہی قسم دلائی کہ "میں خُدا کی قوّت و طاقت سے بری ھُوں۔" اس قسم کے کھاتے ھی اُس پر فالج گِرا اور وہ بے حس و حرکت ھوکر رہ گیا۔ اور امام علیہ السّلام عزّت و احترام کے ساتھ پلٹ آئے۔

254. وقال (عليه السلام): يَابْنَ آدَمَ، كُنْ وَصِيَّ نَفْسِكَ، فِي مَالِكَ وَاعمل فِیہِ مَا تُؤْثِرُ أَنْ يُعْمَلَ فِيهِ مِنْ بَعْدِكَ.

254. اے فرزندِ آدم! اپنے مال میں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تیرے بعد تیرے مال میں سے خیر خیرات کی جائے، وہ خود انجام دے دے۔

مطلب یہ ھے کہ جو شخص یہ چاھے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کا کچھ حصّہ اُمورِ خیر میں صرف کیا جائے تو اُسے موت کا اِنتظار نہ کرنا چاھیے۔ بلکہ جیتے جی جہاں صرف کرنا چاھتا ھے، صرف کرجائے۔ اس لیے کہ ھوسکتا ھے کہ اُس کے مرنے کے بعد اس کے وارث اس کی وصیّت پر عمل نہ کریں، یا اُسے وصیّت کرنے کا موقع ھی نہ ملے

زرو نعمت اکنوں بدہ کان تو است      کہ بعد از تو بیروں زفرمان تو است

255. وقال (عليه السلام): الْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ الْجُنُونِ، لاَِنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ، فَإِنْ لَمْ يَنْدَمُ فَجُنُونُهُ مُسْتَحْكِمٌ.

255. غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔

625. وقال (عليه السلام): صِحَّةُ الْجَسَدِ مِنْ قِلَّةِ الْحَسَدِ.

625. حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔

حسد سے دل میں ایک ایسا زھریلا مواد پیدا ھوتا ھے جو حرارت عزیزی کو ختم کردیتا ھے جس کے نتیجہ میں جسم نڈھال اور روح پژ مردہ ھوکر رہ جاتی ھے اس لئے حاسد کبھی پھلتا پھولتا نہیں، بلکہ حسد کی آنچ میں پگھل پگھل کر ختم ھوجاتا ھے ۔

725. وقال (عليه السلام) لِكُمَيْل بن زياد النخعي: يَا كُمَيْلُ، مُرْ أَهْلَكَ أَنْ يَرُوحُوا في كَسْبِ الْمَكَارِمِ، وَيُدْلِجُوا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نائِمٌ، فَوَالَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الاَْصْوَاتَ مَا مِنْ أَحَد أَوْدَعَ قَلْباً سُرُوراً إِلاَّ وَخَلَقَ اللهُ لَهُ مِنْ ذلِكَ السُّرُورِ لُطْفاً، فَإِذَا نَزَلَتْ بِهِ نَائِبَةٌ جَرَى إلَيْهَا كَالْمَاءِ فِي انْحِدَارِهِ حَتَّى يَطْرُدَهَا عَنْهُ كَمَا تُطْرَدُ غَرِيبَةُ الاِْبلِ.

725. کمیل ابن زیاد نخعی سے فرمایا: اے کمیل! اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ وہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کی قوتِ شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے، جِس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اُس کے لیے اُس سرور سے ایک لطفِ خاص خلق فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس مصیبت کو ہنکا کر دور کر دے۔

258. وقال (عليه السلام): إِذَا أَمْلَقْتُمْ فَتَاجرُِوا اللهَ بِالصَّدَقَةِ.

258. جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعہ اللہ سے تجارت کرو۔

259. وقال (عليه السلام): الْوَفَاءُ لاَِهْلِ الْغَدْرِ غَدْرٌ عِنْدَ اللهِ، وَالْغَدْرُ بَأَهْلِ الْغَدْرِ وَفَاءٌ عِنْدَ اللهِ.

259. غداروں سے وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفا ہے۔

260. وقال (عليه السلام): كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَج بِالاِْحْسَانِ إِلَيْهِ، وَمَغْرُور بِالسَّتْرِ عَلَيْهِ، وَمَفْتُون بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيهِ،مَا ابْتَلَى اللهُ سُبْحَانَهُ أَحَداً بِمِثْلِ الاِْمْلاَءِ لَهُ.

 قال الرضی: و قد مَضى هذا الكلام فيما تقدم، إلاّ أن فيه هاهنا زيادة جیدة مفيدة.       

260. کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں۔

سید رضی کہتے ہیں کہ یہ کلام پہلے بھی گذر چکا ہے مگر یہاں اس میں کچھ عمدہ اور مفید اضافہ ہے۔

۱۔ فی حدیثہ علیہ السّلام: فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ ضَرَبَ یَعۡسُوۡبُ الدِّیۡنِ بِذَنَبِہ، فَیَجۡتَمِعُوۡنَ الَیۡہِ کَمَا یَجۡتَمِعُ قَزَعُ الۡخَرِیۡفِ۔

قال الرضی: الیعسوب: السیّد الۡعَظِیۡمُ المالِک لامور الناس یومئِذ والقزعُ: قطع الغیم التی لامَاء فیھا۔

(۱) جب وہ وقت آئے گا، تو دین کا یعسوب۔ ۔ اپنی جگہ پر قرار پائے گا، اور لوگ اس طرح سمٹ کر اس طرف بڑھیں گے، جس طرح موسم خریف کے قزع جمع ھوجاتے ھیں۔

سید رضی کہتے ھیں کہ یعسوب سے وہ بلند مرتبہ سردار مراد ھے جو اس دن لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ھوگا اور قزع ابرکی ان ٹکڑیوں کو کہتے ھیں جن میں پانی نہ ھو۔

یعسوب شھد کی مکھیّوں کے سربراہ کو کہتے ھیں اور "یعسوبُ الدّین" (حاکمِ دین و شریعت) سے مراد حضرت حجّت ھیں۔ اس لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ھے کہ جس طرح امیر نحل کا ظاھر و باطن پاک ھوتا ھے اور وہ نجاست سے احتراز کرتے ھوئے پھولوں اور شگوفوں سے اپنی غذا حاصل کرتا ھے۔ اسی طرح حضرت حجت بھی تمام آلودگیوں سے پاک و صاف اور ھر طرح سے طیب و طاھر ھوں گے۔ اس جملہ کے چند معنی کئے گئے ھیں۔

پہلے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت حجت فضائے عالم میں سیر و گردش کے بعد اپنے مرکز پر مقیم ھوں گے۔ کیونکہ امیر نحل دن کا بیشتر حصّہ پرواز میں گزارتا ھے اور جب اپنے جسم کا آخری حصّہ کہیں پرٹکاتا ھے تو وہ اپنی حرکت و پرواز کو ختم کردیتا ھے۔

دوسرے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت (ع) اپنے رفقاء و انصار کے ساتھ زمین میں چلیں پھریں گے اس صورت میں ضرب کے معنی چلنے پھرنے کے اور ذنب سے مراد انصار و اتباع ھوں گے۔

تیسرے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت شمشیر بکف اُٹھ کھڑے ھوں گے اس صورت میں ضرب ذنب کے معنی شھد کی مکھّی کے ڈسنے کے ھوں گے۔

چوتھے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت "جوش و خروش کے ساتھ اعلائے کلمة اللہ کے لیے اُٹھ کھڑے ھوں گے، اس صورت میں یہ جملہ غضب و ھیجان کی کیفیت اور حملہ آوری کی ھیئت سے کنایہ ھوگا۔"

۲۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: ھٰذَا الۡخَطِیۡبُ الشَّحۡشَحُ ۔۔۔ یرید الماھر بالخطبة الماضی فیھا، وکل ماض فی کلام أو سیر فھو شحشح؛ والشحشح فی غیر ھذا الموضع البخیل الممسک۔

(۲) یہ خُطیب شحشح

سید رضی کہتے ھیں کہ شحشح کے بمعنی خطیب ماھر و شُعلہ بیان کے ھیں اور جو زبان آوری یا رفتار میں رواں ھو اسے شحشح کہا جاتا ھے اور دوسرے مقام پر اس کے معنی بخیل اور کنجوس کے ھوتے ھیں۔

خطیب ماھر سے مراد صعصعہ ابنِ صوحان عبدی ھیں جو حضرت کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ امیر المومنین کے اس ارشاد سے ان کی خطابت کی رفعت اور قوّت کلام کی بلندی کا اندازہ ھوسکتا ھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ھے۔

 

وکفیٰ صعصعة بھا فخراً ان یکون مثل علی علیہ السلام یثنی علیہ بالمھارة و فصاحة اللسان۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۵۵)

صعصعہ کے افتخار کے لیے یہ کافی ھے کہ امیر المومنین (ع) ایسے (افصح عالم) ان کی مہارتِ کلام و فصاحتِ بیان کو سراھتے ھیں۔"

۳۔ وفی حدیثہ علیہ السّلام: اِنَّ لِلۡخُصُوۡمَةِ قُحَمًا۔

یُرید بالقحم المھالک: لانھا تقحم أصحابھا فی المھالک و المتالف فی الأکثر، ومن ذٰلک "قحمة الاعراب" وھو أن تصیبھم السنة فتتعرق اموالھم فذٰلک تقحمھا فیھم۔ و قیل فیہ وَجہ آخر، وھو انھا تقحمھم بلاد الریف، أی: تحوجھم الیٰ دخول الحضر عند محول البدو۔

(۳) لڑائی جھگڑنے کا نتیجہ قُحَمۡ ھوتے ھیں۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) قحم سے تباھیاں مراد ھیں کیونکہ (اقحام کے معنی ڈھکیلنے کے ھیں اور) لڑائی جھگڑا عموماً لڑنے جھگڑنے والوں کو مہلکوں اور تباھیوں میں ڈھکیل دیتا ھے۔ اور اسی سے قحمة الاعراب (کی لفظ) ماخوذ ھے اور وہ یہ ھوتی ھے کہ باد یہ نشین عرب خشک سالیوں میں اس طرح مبتلا ھوجائیں، کہ ان کے چوپائے صرف ھڈّیوں کا ڈھانچہ ھوکر رہ جائیں۔ اور یہی اس بلا کا انھیں ڈھکیل دینا ھے۔ اور اس کی ایک اور بھی توجیہ کی گئی ھے اور وہ یہ کہ سختی و شدّت چونکہ انھیں شاداب حصّوں کی طرف ڈھکیل دیتی ھے۔ یعی صحرائی زندگی کی سختی و قحط سالی انھیں شھروں میں چلے جانے پر مجبور کردیتی ھے (اس لیے اسے قحمة کہا جاتا ھے)

۴۔ وفی حدیثہ علیہ السلام: اِذَا بَلَغَ النِّسَاءُ نَصَّ الۡحَقَآئِقِ فَالۡعَصَبَةُ اَوۡلٰی وَ یُرۡوی نَصُّ الۡحَقَاقِ ۔۔۔۔ والنص: منتھی الأشیاء ومبلغ أقصاھا کالنص فی السیر لأنہ أقصی ما تقدر علیہ الدابة و تقول نصصت الرجل عن الأمر؛ اذا استقصیت مسألتہ عنہ لتستخرج ما عندہ فیہ۔ فنص الحقاق یرید بہ الادراک لأنہ منتھی الصغر والوقت الذی یخرج منہ الصغیرُ الی حد الکبیر، وھو من أفصح الکنایات عن ھذا الأمر (و اغربھَا۔ یقول) فاذا بلغ النسآءُ ذلک فالعصبةُ اَولی بالمرأةِ من أمّھا اذا کانوا محرماً مثل الأخوة والاعمام ویتزویجُھا ان ارادوا ذٰلک وَالحقاق محاقةُ الأم للعُصبة فی المرأة وھو الجدالُ والمخصومةُ وقول کل واحد منھما للاٰخر أنا احق منک: بھذا یقال منہ: حاققتُہ حقاقا، مثل جادلتہ جدالا۔ وقد قیل: ان "نصّ الحقاق" بلوغُ العقل، وھو الادراکُ؛ لانہ علیہ السلام انما اراد منتھی الأمر الذی تجب فیہ الحقوق والأحکام، ومن رواہ نص الحقاق" فانما أراد جمع حقیقة۔

ھٰذا معنی ما ذکرہ ابو عبید (القاسم بن سلام) والذی عندی أن المرادَ بنصّ الحقاق ھھنا بلوغُ المرأةِ الی الحد الذی یجوز فیہ تزویجھا وتصرفھا فی حقوقھا تشبیھاً بالحقاق من الابل، وھی جمع حقة و حق وھو الذی استکمل ثلاث سنین و دخل فی الرابعة، و عند ذٰلک یبلغ الی الحد الذی یتمکن فیہ من رکوب ظھرہ و نصّہ فی السیر، والحقاق ایضا: جمع حقة۔ فالروایتان جمیعا ترجعان الی معنی واحد، وھٰذا اشبہ بطریقة العرب من المعنی المذکور۔

(۴) جب لڑکیاں "نص الحقائق" کو پہنچ جائیں تو اُن کے لیے دوھیالی رشتہ دار زیادہ حق رکھتے ھیں۔

سید رضی کہتے ھیں کہ نص الحقائق کی جگہ "نص الحقاق" بھی وارد ھوا ھے۔ "نص" چیزوں کی انتہا اور اُن کی آخری حد کو کہتے ھیں۔ جیسے چوپایہ کی وہ انتہائی رفتار کہ جو وہ دوڑ سکتا ھے "نص" کہلاتی ھے اور یونہی "نصصت الرجل عن الامر" اس موقع پر کہا جائے گا۔ جب کسی شخص سے پوری طرح پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے سب کچھ اُگلوا لیا ھو، تو حضرت نے "نص الحقاق" سے حدِ کمال تک پہنچنا مراد لیا ھے کہ جو بچپن کی حدِ آخر اور وہ زمانہ ھوتا ھے کہ کم سن کم سنی کے حدود سے نکل کر بڑوں کی صف میں داخل ھوتا ھے اور یہ بلوغ کے لیے نہایت فصیح اور بہت عجیب کنایہ ھے۔ حضرت یہ کہنا چاھتے ھیں کہ جب لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں تو دوھیالی رشتہ دار جب کہ وہ محرم بھی ھوں، جیسے بھائی اور چچا، وہ ان کا رشتہ کہیں کرنا چاھیں تو وہ ان کی ماں سے زیادہ رشتہ کے انتخاب کا حق رکھتے ھیں اور "حقاق" سے (لڑکی کی) ماں کا دوھیالی رشتہ داروں سے جھگڑنا مراد ھے اور ھر ایک کا اپنے کو دوسرے سے زیادہ حق دار ثابت کرنا ھے اور اسی سے "حاققتہ حقاقا" بروزن "جادلتہ جدالا" ھے۔ یعنی میں نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا، اور یہ بھی کہا گیا ھے کہ "نص الحقاق" سے مراد بلوغ، عقل اور حد رشد و کمال تک پہنچنا ھے۔ کیونکہ حضرت نے وہ زمانہ مراد لیا ھے کہ جس میں لڑکی پر حقوق و فرائض عائد ھوجاتے ھیں اور جس نے "نص الحقائق" کی روایت کی ھے اس نے حقائق کو حقیقت کی جمع لیا ھے

یہ مفاد ھے اس کا جو ابوعبیدہ قاسم ابن سلام نے کہا ھے۔ مگر میرے خیال میں اس مقام پر "نص الحقاق" سے مراد یہ ھے کہ لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں، کہ جس میں ان کے لیے عقد اور اپنے حقوق کا خود استعمال جائز ھوتا ھے۔

اس طرح سے اسے سہ سالہ اُونٹنیوں سے تشبیہ دی گئی ھے اور "حقاق" "حق" اور "حقّۃ" کی جمع ھے۔ یہ اس اُونٹنی اور اُونٹ کو کہتے ھیں جو تین سال ختم کرنے کے بعد چوتھے سال میں داخل ھو، اور اُونٹ اُس عمر میں سواری اور تیز دوڑانے کے قابل ھوجاتے ھیں اور "حقائق" بھی "حقّہ" کی جمع ھے۔ اس بنا پر دونوں روایتوں کے ایک ھی معنے ھوں گے، اور یہ معنی جو ھم نے بیان کئے ھیں، پہلے معنی سے زیادہ اسلُوب کلامِ عرب سے میل کھاتے ھیں۔

۵۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: اِنَّ الاِیۡمَانَ یَبۡدُوۡ لُمۡظَةً فی الۡقَلۡبِ کُلَّمَا ازدَادَ الاَیۡمَانُ ازۡدَادَتِ اللُّمۡظَةُ،

والّلمظةُ مثل النُکتة أو نحوھا من البیاض۔ ومنہ قیل: فرس ألمَظ اذا کان بححفلتہ شیٔ من البیأض۔

(۵) ایمان ایک "لُمظہ" کی صورت سے دل میں ظاھر ھوتا ھے۔ جُوں جُوں ایمان بڑھتا ھے۔ وہ "لمظہ" بھی بڑھتا جاتا ھے۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) "لُمظہ" سفید نُقطہ یا اُس کے مانند سفید نشان کو کہتے ھیں، اور اسی سے "فرس المظ" اُس گھوڑے کو کہا جاتا ھے جس کے نیچے کے ھونٹ پر کچھ سفیدی ھو

۶۔ وفی حدیثہ علیہ السلام:

اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا کَانَ لَہُ الدَّیۡنُ الظَّنُوۡنَ یَجِبُ عَلَیۡہِ أَنۡ یُزَکِّیَہ لما مَضَے اذَا قَبَضَہُ فَالظنون (الذی لا یعلم صاحبُہ أیقبضہ من الذی ھو علیہ أم لا (فکانہ) الذی یظنّ بہ فمرة یرجوہ ومرة لایرجوہ۔ وھذا من أفصح الکلام؛ وکذلک کل أمر تطلبہ ولا تدری علی أیّ شیٔ انت منہ فھو ظنون وعلی ذٰلک قول الا عشی:

 مَا یُجۡعَلُ الۡجُدُّ الظُّنُوۡنُ الَّذِیۡ جُنِّبَ صَوۡبَ اللَّجِبِ الۡمَاطِرِ مِثۡلَ الۡفُرَاتِیِّ اِذَا مَا طَمَا یَقۡذِفُ بِالۡبُوۡصِیِّ وَالۡمَاھِرِ

والجد: البئر (العادیۃ فی الصحراء) والظنون: التی لا یعلم ھل فیھا ماء اَم لا۔

(۶) جو شخص کوئی "دین ظنون" وصول کرے تو جتنے سال اس پر گذرے ھوں گے ان کی زکٰواة دینا ضروری ھے۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) "دین ظنون" وہ قرضہ ھوتا ھے کہ قرض خواہ یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ وہ اسے وصول ھوگا۔ یا انھیں کبھی امید پیدا ھو، اور کبھی نا امیدی اور یہ بہت فصیح کلام ھے۔ یونہی ھر وہ چیز جس کی تمھیں طلب ھو اور یہ نہ جان سکو کہ تم اُسے حاصل کرو گے یا نہیں۔ وہ "ظنون" کہلاتی ھے۔ چنانچہ اعشی کا یہ قول اسی معنی کا حامل ھے جس کا مضمون یہ ھے۔

"وہ "جدظنون" جو گرج کر برسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ھو، دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جاسکتا جبکہ وہ ٹھاٹھیں مار رھا ھو۔ اور کشتی اور اچھّے تیراک کو ڈھکیل کر دُور پھینک رھا ھو۔"

"جد" اس پرانے کنوئیں کو کہتے ھیں جو کسی بیابان میں واقع ھو، اور "ظنون" وہ ھے کہ جس کے متعلق یہ خبر نہ ھو کہ اس میں پانی ھے یا نہیں۔

۷۔ وفی حدیثہ علیہ السلام: أنہ شیّع جیشاً یغزیہ فقال: اَعۡذِبُوۡا عَنِ النِّسَاءِ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ۔ ومعناہ اصدفوا عن ذکر النساء وَشغل القلب بھنّ، وامتنعوا من المقاربة لھن، لأن ذٰلک یفت فی عضدِ الحمیّة ویقدح فی معاقد العزیمة، ویکسر عن العدوّ، ویلفت عن الابعاد فی الغزو، وکلُ من امتنع من شیٔ فقد أعذب منہ۔ والعاذب والعذوب: الممتنع من الأکل والشرب۔

(۷) جب آپ نے لڑنے کے لیے لشکر روانہ کیا، تو اُسے رخصت کرتے وقت فرمایا:

جہاں تک بن پڑے عورتوں سے "عاذب" رھو۔ (سید رضی فرماتے ھیں کہ) اس کے معنی یہ ھیں کہ عورتوں کی یاد میں کھو نہ جاؤ، اور اُن سے دل لگانے اور ان سے مقاربت کرنے سے پرھیز کرو، کیونکہ یہ چیز بازوئے حمیّت میں کمزوری اور عزم کی پختگیوں میں سُستی پیدا کرنے والی ھے اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور اور جنگ میں سعی و کوشش سے روگرداں کرنے والی ھے اور جو شخص کسی چیز سے منہ پھیر لے، اس کے لیے کہا جاتا ھے کہ "اعذب عنہ" (وہ اس سے الگ ھوگیا) اور جو کھانا پینا چھوڑدے اسے "عاذب" اور "عذوب" کہا جاتا ھے۔

۸۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: کَالیَاسِرِالۡفَالِجِ یَنۡتَظِرُ اَوَّلَ فَوۡزَةٍ مِنۡ قِدَاحِہ

الیاسرون: ھم الذین یتضاربون بالقداح علی الجزور، والفالج: القاھرُ الغالب، یقال: فلج علیھم وفلجھم،

وقال الراجز:

لما رایت فالجا قد فلجا

(۸) وہ اس "یاسر فالج" کے مانند ھے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ھی داؤں میں کامیابی کا متوقع ھوتا ھے۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) "یاسرون" وہ لوگ ھوتے ھیں کہ جو نحر کی ھوئی اُونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ھیں اور "فالج" کے معنی جیتنے والے کے ھیں۔ یوں کہا جاتا ھے "قد فلج علیھم وفلجھم" (وہ ان پر غالب ھوا) چنانچہ مشھور رجز نظم کرنے والے شاعر کا قول ھے۔

"جب میں نے کسی "فالج" کو دیکھا کہ اس نے فلج حاصل کی۔

۹۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: کُنّا اِذَا احۡمَرَّ الۡبِأسُ اتَّقَیۡنَا برَسُوۡلِ اللہِ صَلّی اللہُ عَلَیۡہِ وَاٰلِہِ وَسَلّمَ فَلَمۡ یَکُنۡ أحَدٌ مِنَّا أَقۡرَبَ اِلَی الۡعَدُوِّ مِنۡہُ

ومعنی ذٰلک أنہ اِذا عظم الخوف من العدو واشتدّ عضاض الحرب من العدو واشتد عضاض الحرب فزع المسلمون الی قتال رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بنفسہ، فینزل اللہ علیہم النصر بہ، ویامنون ممّا کانوا یخافونہ بمکانہ۔

و قولہ "اِذَا احمرّ الباس، کنایة عن اشتداد الأمر، وقد قیل فی ذٰلک أقوال احسنھا: أنہ شبہ حمی الحرب بالنّار التی تجمع الحرارةَ والحمرةَ بفعلھا ولونھا، وممّا یقوی ذٰلک قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم و قد رأی مجتلد الناس یوم حنین وھی حرب ھوازن: "الآن حمی الوطیس" فالوطیس: مستوقد النار، فشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ما استحر من جلاد القوم باحتدام النار و شدة التھابھا۔

(۹) جب "احمرار" باس ھوتا تھا تو ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سپر میں جاتے تھے، اور ھم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے قریب تر نہ ھوتا تھا۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) اس کا مطلب یہ ھے کہ جب دشمن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ سختی سے کاٹنے لگتی تھی تو مسلمان یہ سہارا ڈھونڈنے لگتے تھے کہ رسول اللہ خود بنفس نفیس جنگ کریں تو اللہ تعالیٰ آنحضرت (ص) کی وجہ سے ان کی نصرت فرمائے اور آپ کی موجودگی کے باعث خوف و خطر کے موقع سے محفوظ رھیں۔

حضرت کا ارشاد جب "احمرار باس" ھوتا تھا (جس کے لفظی معنی یہ ھیں کہ جنگ سُرخ ھوجاتی تھی) یہ کنایہ ھے جنگ کی شدّت و سختی سے اور اس کی توجیہ میں چند اقوال ذکر کئے گئے ھیں۔ مگر ان مین سب سے بہتر قول یہ ھے کہ آپ نے جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگ سے تشبیہ دی ھے جو اپنے اثر اور رنگ دونوں کے اعتبار سے گرمی اور سُرخی لیے ھوتی ھے، اور اس معنی کی تائید اس سے بھی ھوتی ھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حنین کے دن قبیلۂ بنی ھوازن کی جنگ میں لوگوں کو جنگ کرت ے دیکھا، تو فرمایا! اب "وطیس" گرم ھوگیا۔ "وطیس" اُس جگہ کو کہتے ھیں جس میں آگ جلائی جائے۔ اس مقام پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے لوگوں کے میدانِ کارزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے لپکوں کی تیزی سے تشبیہ دی ھے۔