کلمات قصار نهج البلاغه کا ترجمه و تشریح(9)

261. وقال (عليه السلام) لما بلغه إغارةُ أصحاب معاويةَ علٰى الانبار، فخرج بنفسه ماشياً حتى أتى النُّخَيْلَةَ، فأدركه الناسُ وقالوا: يا أميرالمؤمنين نحن نكفيكَهُمْ.

فقال (عليه السلام): مَا تَكْفُونَنِي أَنْفُسَكُمْ، فَكَيْفَ تَكْفُونَنِي غَيْرَكُمْ؟ إِنْ كَانَتِ الرَّعَايَا قَبْلِي لَتَشْكُوا حَيْفَ رُعَاتِهَا، وَإِنَّنِي الْيَوْمَ لاََشْكُو حَيْفَ رَعِيَّتِي، كَأَنَّنِيَ الْمَقُودُ وَهُمُ الْقَادَةُ، أَوِ ألْمَوْزُوعُ وَهُمُ الْوَزَعَةُ ۔

فلما قال (عليه السلام) هذا القول، في كلام طويل قد ذكرنا مختارَه في جملةِ الخُطَب، تقدّم إليه رجلان من أصحابه فقال أحدهما: إنّي لا أملك إلاّ نفسي وأخي، فَمُرْنا بأمرك يا أميرالمؤمنين نُنْفِد له. فقال (عليه السلام): وأَيْنَ تَقَعَانِ مِمَّا أُريدُ؟

261. جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر) انبار پر دھاوا کیا ھے تو آپ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے، اتنے میں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین (ع)! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے۔ آپ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا کرتا ہوں، گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ )جب امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک طویل کلام کے ذیل میں کہ جس کا منتخب حصہ ہم خطب میں درج کر چکے ہیں یہ کلمات ارشاد فرمائے تو آپ کے اصحاب میں سے دو شخص اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ یا امیر المومنین (ع)! مجھے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر اختیار نہیں تو آپ ہمیں حکم دیں ہم اسے بجالائیں گے جس پر حضر ت نے فرمایا کہ میں جو چاہتا ہوں وہ تم دوآدمیوں سے کہاں سرانجا م پاسکتا ہے؟

262. وقيل: إنّ الحارث بن حَوْط أتاه فقال: أتُراني أظنّ أصحابَ الجمل كانوا علىٰ ضلالة؟

فقال (عليه السلام): يَا حَارِث، إِنَّكَ نَظَرْتَ تَحْتَكَ وَلَمْ تَنْظُرْ فَوْقَكَ فَحِرْتَ! إِنَّكَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَبَاهُ، وَلَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاهُ. فقال الحارث: فإنّي أَعتزل مع سعد بن مالك وعبد الله بن عمر؟    

فقال (عليه السلام): إِنَّ سَعِداً وَعَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ لَمْ يَنْصُرَا الْحَقَّ، وَلَمْ يَخْذُلاَ الْبَاطِلَ.

262. بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ کے خیال میں مجھے اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟

حضرت نے فرمایا کہ اے حارث !تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طرف نگاہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔

حارث نے کہا کہ میں سعد ابن مالک اور عبداللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہوجاؤں گا۔

حضرت نے فرمایا کہ !

سعد اور عبداللہ ابن عمر نے حق کی مدد کی اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا۔

سعد ابن مالک (سعد بن ابی وقاص) اورعبداللہ ابن عمر ان لوگوں میں سے تھے جو امیر المومنین (ع) کی رفاقت وہمنوائی سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ سعد ابن ابی وقاص تو حضر ت عثمان کے قتل کے بعد ایک صحرا کی طرف منتقل ہوگئے اور وہیں زندگی گزار دی، اور حضرت کی بیعت نہ کرنا تھی نہ کی اور عبداللہ ابن عمر نے اگرچہ بیعت کر لی تھی۔ مگر جنگوں میں حضرت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا اور عذر یہ پیش کیا تھا کہ میں عبادت کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرچکاہوں اب حرب و پیکار سے کوئی سروکار رکھنا نہیں چاہتا۔

عزر ھائے این چنیس نزد خرد      بیشکے عذرے است برتر از گناہ

263. وقال (عليه السلام): صَاحِبُ السُّلْطَانِ كَرَاكِبِ الاَْسَدِ: يُغْبَطُ بِمَوْقِعِهِ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَوْضِعِهِ.

263. بادشاہ کا ندیم و مصاحب ایسا ہے جیسے شیر پر سوار ہونے والا کہ اس کے مرتبہ پر رشک کیا جاتا ہے وہ اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔

مقصد یہ ہے کہ جسے بارگاہ سلطانی میں تقرب حاصل ہوتا ہے لوگ اس کے جاہ و منصب اور عزت و اقبال کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، مگر خود اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بادشاہ کی نظریں اس سے پھر نہ جائیں، اور وہ ذلت و رسوائی یا موت و تباہی کے گڑھے میں نہ جاپڑے جیسے شیر سوار کہ لوگ اس سے مرعوب ہوتے ہیں اور وہ اس خطرہ میں گھرا ہوتا ہے کہ کہیں یہ شیر اسے پھاڑنہ کھائے یا کسی مہلک گڑھے میں نہ جاگرائے.

 

 

264. وقال (عليه السلام): أَحْسِنُوا فِي عَقِبِ غَيْرِكُمْ تُحْفَظُوا فِي عَقِبِكُمْ .

264. دوسروں کے پسماندگان سے بھلائی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماندگان پر بھی نظرشفقت پڑے۔

265. وقال (عليه السلام): إِنَّ كَلاَمَ الْحُكَمَاءِ إنَّ كَانَ صَوَاباً كَانَ دَوَاءً، وَإِذَا كَانَ خَطَأً كَانَ دَاءً.

265. جب حکماء کا کلام صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض ہے.

علمائے مصلحین کا طبقہ اصلاح کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، اور فساد کا بھی کیونکہ عوام ان کے زیر اثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو صحیح و معیاری سمجھتے ہوئے اس سے استناد کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر ان کی تعلیم اصلاح کی حامل ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ہزارو ں افراد صلاح و رشد سے آراستہ ہوجائیں گے اور اگر اس میں خرابی ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد گمراہی و بے راہروی میں مبتلا ہوجائیں گے.اسی لیے کہا جاتا ہے کہ "اذا فسد العالِم فسدا العالَم" جب عالم میں فساد رونما ہوتا ہے تو اس فساد کا اثر ایک دنیا پر پڑتا ہے۔

 

266. وسأَله (عليه السلام) رجل أَن يعرّفه الايمان.               

فقال: إِذَا كَانَ غَدٌ فَأْتِنِي حَتَّىٰ أُخْبِرَكَ عَلَى أَسْمَاعِ النَّاسِ، فإِنْ نَسِيتَ مَقَالَتِي حَفِظَهَا عَلَيْكَ غَيْرُكَ، فَإِنَّ الْكَلاَمَ كَالشَّارِدَةِ، يَنْقُفُهَا هذَا وَيُخْطِئُهَا هذَا.

وقد ذكرنا ما أجابه به فيما تقدم من هذا الباب، وهو قوله الايمان علىٰ أربع شعب.

266. حضرت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کل میرے پاس آنا تاکہ میں تمہیں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لیے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ ایک کی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ)حضرت نے اس کے بعد جو جواب دیا وہ ھم اسی باب میں پہلے درج کرچکے ھیں اور وہ آپ کا یہ ارشا د تھا کہ «الایمان علی اربع شعب»( ایمان کی چار قسمیں ہیں )

267. وقال (عليه السلام): يَا ابْنَ آدَمَ، لاَ تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَأْتِكَ عَلَىٰ يَوْمِكَ الَّذِي قَدْ أَتَاكَ، فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللهُ فِيهِ بِرِزْقِكَ.

267. اے فرزند آدم (ع)! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آیا نہیں، آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس لیے کہ اگرایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہوگا، تواللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا۔

268. وقال (عليه السلام): أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْناً مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْماً مَا، وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْناً مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْماً مَا.

268. اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو کیونکہ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد میں رکھو ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہار ا دوست ہوجائے۔

269. وقال (عليه السلام): النَّاسُ فِي الدُّنْيَا عَامِلاَنِ: عَامِلٌ عَمِلَ (فِي الدُّنْيَا) لِلدُّنْيَا، قَدْ شَغَلَتْهُ دُنْيَاهُ عَنْ آخِرَتِهِ، يَخْشَى عَلَى مَنْ يَخْلُفُهُ الْفَقْرَ، وَيأْمَنُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ، فَيُفْنِي عُمُرَهُ فِي مَنْفَعَةِ غَيْرِهِ. وَعَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا، فَجَاءَهُ الَّذِي لَهُ مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ عَمَل، فَأَحْرَزَ الْحَظَّيْنِ مَعاً، وَمَلَكَ الدَّارَيْنِ جَمِيعاً، فَأَصْبَحَ وَجِيهاً عِنْدَاللهِ، لاَ يَسْأَلُ اللهَ حَاجَةً فَيَمْنَعَهُ.

269. دنیا میں کام کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دنیا کے لیے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنیا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وہ اپنے پسماندگان کے لیے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وہ دوسروں کے فائدہ ہی میں پوری عمر بسر کردیتاہے اور ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اس کے بعد کی منزل کے لئے لیے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغیر دنیا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ دونوں حصوں کو سمیٹ لیتا ہے اور دونوں گھروں کا مالک بن جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک باوقار ہوتا ہے اور اللہ سے کوئی حاجت نہیں مانگتا جو اللہ پوری نہ کرے۔

270. وروي أنه ذكر عند عمر بن الخطاب في أيامه حَلْي الكعبةِ وكثرتُهُ، فقال قوم: لو أخذته فجهزتَ به جيوش المسلمين كان أَعظم للاجر، وما تصنع الكعبةُ بالْحَلْي؟ فهمّ عمر بذلك، وسأل عنه أميرالمؤمنين(عليه السلام).

فقال: إِنَّ القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ(صلى الله عليه وآله) وَالاَْمْوَالُ أَرْبَعَةٌ: أَمْوَالُ الْمُسْلِمِينَ فَقَسَّمَهَا بَيْنَ الْوَرَثَةِ فِي الْفَرَائِضِ، وَالْفَيْءُ فَقَسَّمَهُ عَلَىٰ مُسْتَحِقِّيهِ، وَالْخُمُسُ فَوَضَعَهُ اللهُ حَيْثُ وَضَعَهُ، وَالصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللهُ حَيْثُ جَعَلَهَا. وَكَانَ حَلْيُ الْكَعْبَةِ فِيهَا يَوْمَئِذ، فَتَرَكَهُ اللهُ عَلَىٰ حَالِهِ، وَلَمْ يَتْرُكْهُ نِسْيَاناً، وَلَمْ يَخْفَ عَلَيْهِ مَكَاناً، فَأَقِرَّهُ حَيْثُ أَقَرَّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ. فقال له عمر: لولاك لافتضحنا. وترك الحَلْي بحاله.

270. بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانۂ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہوگا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اس کے بار ے میں مسئلہ پوچھا۔

آپ نے فرمایا کہ جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے، ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا، اسے آپ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مال غنیمت تھا، اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا، اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کردیئے۔ چوتھے زکوٰة و صدقات تھے، انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کاحکم دیا جو ان کامصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول (ص) نے انہیں رکھاہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زیورات کو ان کی حالت پر رہنے دیا۔

271. وروي أنه (عليه السلام) رُفع إليه رجلان سرقا من مال الله، أحدهما عبد من مال الله، والآخر من عُرُضِ الناس.

فقال (عليه السلام): أَمَّا هذَا فَهُوَ مِنْ مَالِ اللهِ وَلاَ حَدَّ عَلَيْهِ، مَالُ اللهِ أَكَلَ بَعْضُهُ بَعْضاً، وَأَمَّا الاْخَرُ فَعَلَيْهِ الْحَدُّ، (الشَّدیدُ) فقطع يده.

271. روایت کی گئی ہے کہ حضرت کے سامنے دو آدمیوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال میں چوری کی تھی ایک تو ان میں غلام اور خود بیت المال کی ملکیت تھا، اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ »یہ غلام جو بیت المال کا ہے اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ کا مال اللہ کے مال ہی نے کھایا ہے لیکن دوسرے پر حد جاری ہوگی"۔ چنانچہ اس کا ہاتھ قطع کردیا۔

272. وقال (عليه السلام): لَوْ قَدِ اسْتَوَتْ قَدَمَايَ مِنْ هذِهِ الْمَدَاحِضِ لَغَيَّرْتُ أَشْيَاءَ.

272. اگران پھسلنوں سے بچ کر میرے پیر جم گئے تومیں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کر دوں گا۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیغمبر اسلام کے بعد دین میں تغیرات رونما ہونا شروع ہوگئے اور کچھ افراد نے قیاس و رائے سے کام لے کر احکام شریعت میں ترمیم و تنسیخ کی بنیاد ڈال دی۔ حالانکہ حکم شرعی میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا، کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام کو ٹھکرا کر اپنے قیاسی احکام کا نفاذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم میں طلاق کی یہ واضح صورت بیان ہوئی ہے کہ “الطلاق مرّتٰن” طلاق ( رجعی کہ جس میں بغیر محلل کے رجوع ہوسکتی ہے )دو مرتبہ ہے مگر حضرت عمر نے بعض مصالح کے پیش نظر ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کے واقع ہونے کا حکم دے دیا۔ اسی طرح میراث میں عول کا طریقہ رائج کیا گیا اورنماز جنازہ میں چار تکبیروں کو رواج دیا یونہی حضرت عثمان نے نماز جمعہ میں ایک اذان بڑھا دی اور قصر کے موقع پر پوری نماز کے پڑھنے کا حکم دیا اور نماز عید میں خطبہ کو نماز پر مقدم کر دیا.اور اسی طرح کے بے شمار احکام وضع کرلیے گئے جس سے صحیح احکام بھی غلط احکام کے ساتھ مخلوط ہوکر بے اعتماد بن گئے۔

امیرالمومنین علیہ السلام جو شریعت کے سب سے زیادہ واقف کار تھے وہ ان احکام کے خلاف احتجاج کرتے اور صحابہ کے خلاف اپنی رائے رکھتے تھے چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ :

 

و لسنا نشک انہ کان یذھب فی الاحکام الشرعیة والقضایا الیٰ اشیاء یخالف فیھا اقوال الصحابة۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص ۳۷۳)

ہمارے لیے اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ امیرالمومنین (ع) شرعی احکام و قضایا میں صحابہ کے خلاف رائے رکھتے تھے.

 

جب حضرت ظاہری خلافت پر متمکن ہوئے تو ابھی آپ کے قدم پوری طرح سے جمنے نہ پائے تھے کہ چاروں طر ف سے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان الجھنوں سے آخر وقت تک چھٹکارا حاصل نہ کرسکے جس کی وجہ سے تبدیل شدہ احکام میں پوری طرح ترمیم نہ ہوسکی، اور مرکز سے دور علاقوں میں بہت غلط سلط احکام رواج پاگئے۔ البتہ وہ طبقہ جو آپ سے وابستہ تھا، وہ آپ سے احکام شریعت کو دریافت کرتا تھا، اور انہیں محفوظ رکھتا تھا جس کی وجہ سے صحیح احکام نابود اور غلط مسائل ہمہ گیر نہ ہوسکے۔

 

 

273. وقال (عليه السلام): اعْلَمُوا عِلْماً يَقِيناً أَنَّ اللهَ لَمْ يَجْعَلْ لِلْعَبْدِ ـ وَإِنْ عَظُمَتْ حِيلَتُهُ، وَاشْتَدَّتْ طِلْبَتُهُ، وَقَوِيَتْ مَكِيْدَتُهُ ـ أَكْثَرَ مِمَّا سُمِّيَ لَهُ فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ، وَلَمْ يَحُلْ بَيْنَ الْعَبْدِ فِي ضَعْفِهِ وَقِلَّةِ حِيلَتِهِ وَبَيْنَ أَنْ يَبْلُغَ مَا سُّمِّيَ لَهُ فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ، وَالْعَارِفُ لِهذَا الْعَامِلُ بِهِ أَعْظَمُ النَّاسِ رَاحَةً فِي مَنْفَعَة، وَالتَّارِكُ لَهُ الشَّاكُّ فِيهِ أَعْظَمُ النَّاسِ شُغُلاً فِي مَضَرَّة. وَرُبَّ مُنْعَم عَلَيْهِ مُسْتَدْرَجٌ بِالنُّعْمَى، وَرُبَّ مُبْتَلىً مَصْنُوعٌ لَهُ بِالْبَلْوَى فَزِدْ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ فِي شُكْرِكَ، وَقَصِّرْ مِنْ عَجَلَتِكَ، وَقِفْ عِنْدَ مُنتَهَى رِزْقِكَ.

273. پورے یقین کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ اللہ سبحانہ نے کسی بندے کے لیے چاہے اس کی تدبیریں بہت زبردست، اس کی جستجو شدید اور اس کی ترکیبیں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہیں دیا جتنا کہ تقدیر الٰہی میں اس کے لیے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے لیے اس کی کمزوری و بے چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ میں اس کے مقررہ رزق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کو سمجھنے والا اور اس پر عمل کر نے والا سود و منفعت کی راحتوں میں سب لوگوں سے بڑھ چڑھ کر ہے اور اسے نظر انداز کرنے اوراس میں شک و شبہ کرنے والا سب لوگوں سے زیادہ زیاں کاری میں مبتلاہے بہت سے وہ جنہیں نعمتیں ملی ہیں، نعمتوں کی بدولت کم کم عذاب کے نزدیک کئے جارہے ہیں، اور بہت سوں کے ساتھ فقر و فاقہ کے پردہ میں اللہ کا لطف وکرم شامل حال ہے لہٰذا اے سننے والے شکر زیادہ اور جلد بازی کم کر اور جو تیری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا رہ.

274. وقال (عليه السلام): لاَ تَجْعَلُوا عِلْمَكُمْ جَهْلاً، وَيَقِينَكُمْ شَكّاً، إِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا، وَإِذَا تَيَقَّنْتُمْ فَأَقْدِمُوا.

274. اپنے علم کو اور اپنے یقین کو شک نہ بناؤ جب جان لیا تو عمل کرو، اور جب یقین پیدا ہوگیا تو آگے بڑھو۔

علم و یقین کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مطابق عمل کیا جائے اور اگراس کے مطابق عمل ظہور میں نہ آئے تواسے علم ویقین سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے یقین ہے کہ فلاں راستہ میں خطرات ہیں اور وہ بے خطر راستہ کو چھوڑ کر اسی پُر خطر راستہ میں راہ پیمائی کرے، تو کون کہہ سکتاہے کہ وہ اس راہ کے خطرات پر یقین رکھتا ہے۔ جبکہ اس یقین کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس راستہ ہر چلنے سے احتراز کرتا۔ اسی طرح جو شخص حشرونشراور عذاب و ثواب پر یقین رکھتا ہو وہ دنیا کی غفلتوں سے مغلوب ہو کر آخرت کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ عذاب و عقاب کے خوف سے عمل میں کوتاہی کا مرتکب ہوسکتاہے۔

 

 

275. وقال (عليه السلام): إِنَّ الطَّمَعَ مُورِدٌ غَيْرُ مُصْدِر، وَضَامِنٌ غَيْرُ وَفِيّ. وَرُبَّمَا شَرِقَ شَارِبُ الْمَاءِ قَبْلَ رِيِّهِ،كُلَّمَا عَظُمَ قَدْرُ الشَّيْءِ الْمُتَنَافَسِ فِيهِ عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ لِفَقْدِهِ، وَالاَْمَانِيُّ تُعْمِي أَعْيُنَ الْبَصَائِرِ، وَالْحَظُّ يَأتِي مَنْ لاَ يَأْتِيهِ.

275. طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سیراب کئے بغیر پلٹا دیتی ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہیں کرتی۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پانی پینے والے کو پینے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و پسندیدہ چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودینے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔ آرزوئیں دیدۂ بصیرت کو اندھا کردیتی ہیں اور جو نصیب میں ہوتا ہے پہنچنے کی کوشش کئے بغیر مل جاتا ہے۔

276. وقال (عليه السلام): اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ تُحَسِّنَ فِي لاَمِعَةِ الْعُيُونِ عَلاَنِيّتِي، وَتُقَبِّحَ فِيَما أُبْطِنُ لَكَ سَرِيرَتيِ، مُحَافِظاً عَلَىٰ رِيَاءِ النَّاسِ مِنْ نَفْسِي بِجَمِيعِ مَا أَنْتَ مُطَّلِعٌ عَلَيْهِ مِنِّي، فَأُبْدِيَ لِلنَّاسِ حُسْنَ ظَاهِرِي، وَأُفْضِيَ إِلَيْكَ بِسُوءِ عَمَلِي، تَقَرُّباً إلَىٰ عِبَادِكَ، وَتَبَاعُداً مِنْ مَرْضَاتِكَ.

276. اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا ظاہر لوگوں کی چشمِ ظاہر ہیں میں بہتر ہو اور جو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں بُرا ہو۔ درآں حالیکہ میں لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے نفس سے ان چیزوں سے کروں۔ جن سب سے تو آگاہ ہے۔ اس طرح لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تیرے سامنے اپنی بداعمالیوں کو پیش کرتا رہوں جس کے نتیجہ میں تیرے بندوں سے تقرب حاصل کروں، اور تیری خوشنودیوں سے دور ہی ہوتا چلاجاؤں۔

277. وقال (عليه السلام): لاَ وَالَّذِي أَمْسَيْنَا مِنْهُ فِي غُبَّرِ لَيْلَةٍ دَهْمَاءَ، تَكْشِرُ عَنْ يَوْم أَغَرَّ، مَا كَان كَذَا و كَذا.

277. (کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا)اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے ایسی شبِ تار کے باقی ماندہ حصہ کو بسر کردیا۔ جس کے چھٹتے ہی روزِ درخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہوا.

278. وقال (عليه السلام): قَلِيلٌ تَدُومُ عَلَيْهِ أَرْجَىٰ مِنْ كَثِير مَمْلُول (مِنہُ).

278. وہ تھوڑا عمل جو پابندی سے بجالایا جاتا ہے زیادہ فائدہ مند ہے اس کثیر عمل سے کہ جس سے دل اکتا جائے۔

279. وقال (عليه السلام): إذَا أَضَرَّتِ النَّوَافِلُ بالْفَرَائِضِ فَارْفُضُوهَا.

279. جب مستحبات فرائض میں سدِ راہ ہوں تو انہیں چھوڑ دو.

280. وقال (عليه السلام): مَنْ تَذَكَّرَ بُعْدَ السَّفَرِ اسْتَعَدَّ.

280. جو سفرکی دوری کو پیش نظر رکھتا ہے وہ کمر بستہ رہتاہے۔

281. وقال (عليه السلام): لَيْسَتِ الرَّوِيَّةُ كَالْـمُعَايَنَةِ مَعَ الاِْبْصَارِ، فَقَدْ تَكْذِبُ الْعُيُونُ أَهْلَهَا، وَلاَ يَغُشُّ الْعَقْلُ مَنِ اسْتَنْصَحَهُ.

281. آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا نہیں کیونکہ آنکھیں کبھی اپنے اشخاص سے غلط بیانی بھی کرجاتی ہیں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے نصیحت چاہے کبھی فریب نہیں دیتی۔

282. وقال (عليه السلام): بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الْمَوْعِظَةِ حِجَابٌ مِنَ الْغِرَّةِ.

282. تمہارے اور پند و نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک بڑا پردہ حائل ہے۔

283. وقال (عليه السلام): جَاهِلُكُمْ مُزْدَادٌ، وَعَالِمُكُمْ مُسَوِّفٌ.

283. تمہارے جاہل دولت زیادہ پاجاتے ہیں اور عالم آئندہ کے توقعات میں مبتلا رکھے جاتے ہیں۔

284. وقال (عليه السلام): قَطَعَ الْعِلْمُ عُذْرَ الْمُتَعَلِّلِينَ.

284. علم کا حاصل ہوجانا، بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔

285. وقال (عليه السلام): كُلُّ مُعَاجَلٍ يَسْأَلُ الاِْنْظَارَ، وَكُلُّ مُؤَجَّلٍ يَتَعَلَّلُ بالتَّسْويفِ.

285. جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وہ مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے مہلت زندگی دی گئی ہے وہ ٹال مٹول کرتارہتا ہے۔

286. وقال (عليه السلام): مَا قَالَ النَّاسُ لِشَيْء (طُوبَى لَهُ) إِلاَّ وَقَدْ خَبَأَ لَهُ الدَّهْرُ يَوْمَ سَوْء.

286. لوگ کسی شے پر «واہ واہ» نہیں کرتے مگر یہ کہ زمانہ اس کے لیے ایک برا دن چھپائے ہوئے ہے۔

287. وسئل عن القدر، فقال: طَرِيقٌ مُظْلِمٌ فَلاَ تَسْلُكُوهُ، وَبَحْرٌعَمِيقٌ فَلاَ تَلِجُوهُ، وَسِرُّ اللهِ فَلاَ تَتَكَلَّفُوهُ.

287. آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا ! یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ.ایک گہرا سمندر ہے۔ اس میں نہ اترو اللہ کا ایک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ.

288. وقال (عليه السلام): إِذَا أَرْذَلَ اللهُ عَبْداً حَظَرَ عَلَيْهِ الْعِلْمَ.

288. اللہ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کردیتاہے۔

289. وقال (عليه السلام): كَانَ لِي فيَِما مَضَى أَخٌ فِي اللهِ، وَكَانَ يُعْظِمُهُ فِي عَيْنِي صِغَرُ الدُّنْيَا فِي عَيْنِهِ، وَكَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِهِ فَلاَ يَشْتَهِي مَا لاَ يَجِدُ وَلاَ يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ، وَكَانَ أَكْثَرَ دَهْرِهِ صَامِتاً فإِنْ قَالَ بَدََّ الْقَائِلِينَ وَنَقَعَ غَلِيلَ السَّائِلِينَ، وَكَانَ ضَعِيفاً مُسْتَضْعَفاً! فَإِنْ جَاءَ الْجِدُّ فَهُوَ لَيْثُ غَاب وَصِلُّ وَاد لاَ يُدْلِي بِحُجَّة حَتَّى يَأْتِيَ قَاضِياً، وَكَانَ لاَ يَلُومُ أَحَداً عَلَىٰ مَا يَجِدُ الْعُذْرَ فِي مِثْلِهِ حَتَّىٰ يَسْمَعَ اعْتِذَارَهُ، وَكَانَ لاَ يَشْكُو وَجَعاً إِلاَّ عِنْدَ بُرْئِهِ، وَكَانَ يقُولُ مَا يَفْعَلُ وَلاَ يَقُولُ مَا لاَ يَفْعَلُ، وَكَانَ إذَا غُلِبَ عَلَى الْكَلاَمِ لَمْ يُغْلَبْ عَلَىٰ السُّكُوتِ، وَكَانَ عَلَىٰ مَا يَسْمَعُ أَحْرَصَ مِنْهُ عَلَىٰ أَنْ يَتَكَلَّمَ، وَكَان إذَا بَدَهَهُ أَمْرَانِ یَنَظُرُ أَيُّهُمَا أَقْرَبُ إِلَى الْهَوَى فَخَالَفَهُ. فَعَلَيْكُمْ بِهذِهِ الْخَلاَئِقِ فَالْزَمُوهَا وَتَنَافَسُوا فِيهَا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيعُوهَا فَاعْلَمُوا أَنَّ أَخْذَ الْقلِيلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِيرِ.

289. عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیااس کی نظروں میں پست و حقیر تھی۔ اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جوچیز اُسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتا تھا۔ وہ اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرادیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔ یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا، مگر جہاد کا موقع آجائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔ وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا، وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی، کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وہ کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا، مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا لیتا تھا، وہ جو کرتا تھا، وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا.اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا.وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچیزیں آجاتی تھیں تو وہ دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔ لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے اگر ان تمام کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

حضرت نے اس کلام میں جس شخص کو بھائی کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے اس کے عادات و شمائل کا تذکرہ کیا ہے اس سے بعض نے حضرت ابو ذر غفار ی، بعض نے عثمان ابن مظعون اور بعض نے مقداد ابن اسود کو مراد لیا ہے مگر بعید نہیں کہ اس سے کوئی فرد خاص مراد نہ ہو کیونکہ عرب کا یہ عام طریقۂ کلام ہے کہ وہ اپنے کلام میں اپنے بھائی یا ساتھی کا ذکر کرجاتے ھیں، اور کوئی معین شخص ان کے پیش نظر نہیں ہوتا ۔

290. وقال (عليه السلام): لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللهُ عَلَى مَعْصِيَة لَكَانَ يَجِبُ أَنْ لاَ يُعْصَى شُكْراً لِنِعَمِهِ.

290. اگر خداوند عالم نے اپنی معصیت کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا، جب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے۔

291. وقال (عليه السلام)، وقد عزّى الاشعثَ بن قيس عن ابن له:

يَا أَشْعَثُ، إِنْ تَحْزَنْ عَلَى ابْنِكَ فَقَدِ اسْتَحَقَّتْ مِنْكَ ذالِکَ الرَّحِمُ، وَإِنْ تَصْبِرْ فَفِي اللهِ مِنْ كُلِّ مُصِيبَة خَلَفٌ.

يَا أَشْعَثُ، إِنْ صَبَرْتَ جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وَأَنْتَ مَأْجُورٌ، وَإِنْ جَزِعْتَ جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وَأَنْتَ مَأْزُورٌ. (یا اَشعَثُ) ابْنُكَ سَرَّكَ وَهُوَ بَلاَءٌ وَفِتْنَةٌ، وَحَزَنَكَ وَهُوَ ثَوَابٌ وَرَحْمَةٌ .   

291. اشعث ابن قیس کو اس کے بیٹے کا پرسا دیتے ہوئے فرمایا:

اے اشعث !اگرتم اپنے بیٹے پر رنج وملال کرو تو یہ خون کا رشتہ اس کا سزا وار ہے، اور اگرصبر کرو تو اللہ کے نزدیک ہر مصیبت کا عوض ہے۔ اے اشعث !اگرتم نے صبر کیا تو تقدیر الہی نافذ ہوگی اس حال میں کہ تم اجر و ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چیخے چلائے، جب بھی حکم قضا جاری ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال میں کہ تم پر گناہ کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے لیے بیٹا مسرت کا سبب ہوا حالانکہ وہ ایک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے لیے رنج واندوہ کا سبب ہوا حالانکہ وہ (مرنے سے )تمہارے لیے اجر و رحمت کا باعث ہوا ہے۔

292. وقال (عليه السلام) على قبر رسول الله(صلى الله عليه وآله) ساعة دُفِنَ: إِنَّ الصَّبْرَ لَجَمِيلٌ إِلاَّ عَنْكَ، وَإِنَّ الْجَزَعَ لَقَبِيحٌ إِلاَّ عَلَيْكَ، وَإِنَّ الْمُصَابَ بِكَ لَجَلِيلٌ، وَإِنَّهُ قَبْلَكَ وَبَعْدَكَ لَجَلَلٌ .

292. رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر یہ الفاظ کہے:

صبر عموماًاچھی چیز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بیتابی و بے قراری عموما ًبری چیز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بلاشبہ آپ کی موت کا صدمہ عظیم ہے، اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی ھر مصیبت سبک ہے.

293. وقال (عليه السلام): لاَ تَصْحَبِ الْمَائِقَ فَإِنَّهُ يُزَيِّنُ لَكَ فِعْلَهُ، وَيَوَدُّ أَنْ تَكُونَ مِثْلَهُ.

293. بے وقوف کی ہم نشینی اختیار نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی کے ایسے ہوجاؤ.

بے وقوف انسان اپنے طریق کار کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے دوست سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اس کا سا طور طریقہ اختیار کرے، اور جیسا وہ خود ہے ویسا ہی وہ ہوجائے.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ یہ چاہتاہے کہ اس کا دوست بھی اس جیسا بے وقوف ہوجائے۔ کیونکہ وہ اپنے کو بے وقوف ہی کب سمجھتا ہے جو یہ چاہے اوراگر سمجھتا ہوتا تو بے وقوف ہی کیوں ہوتا۔ بلکہ اپنے کو عقلمند اور اپنے طریقہ کار کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے دوست کو بھی اپنے ہی ایسا »عقلمند«دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی رائے کو سجا کر اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا اس سے خواہش مند ہوتاہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کا دوست اس کی باتوں سے متاثر ہوکر اس کی راہ پرچل پڑے۔ اس لیے اس سے الگ تھلگ رہنا ہی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

 

294. وقال (عليه السلام) وقد سئل عن مسافة ما بين المشرق والمغرب فقال علیہ السلام: مَسِيرَةُ يَوْم لِلشَّمْسِ.

294. آپ سے دریافت کیا گیا کہ مشرق و مغرب کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟آپ نے فرمایا «سورج کا ایک دن کا راستہ».

295. وقال (عليه السلام): أَصْدِقَاؤُكَ ثَلاَثَةٌ، وَأَعْدَاؤُكَ ثَلاَثَةٌ: فَأَصْدِقَاؤُكَ: صَدِيقُكَ، وَصَدِيقُ صَدِيقِكَ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكَ. وَأَعْدَاؤكَ عَدُوُّكَ، وَعَدُوُّ صَدِيقِكَ، وَصَدِيقُ عَدُوِّكَ.       

295. تین قسم کے تمہارے دوست ہیں اور تین قسم کے دشمن۔ دوست یہ ہیں: تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست، اور تمہارے دشمن کا دشمن۔ اور دشمن یہ ہیں: تمہارا دشمن، تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا دوست۔

296. وقال (عليه السلام) لرجل رآه يسعىٰ على عدوّ له بما فيه إِضرار بنفسه: إنَّمَا أَنْتَ كَالطَّاعِنِ نَفْسَهُ لِيَقْتُلَ رِدْفَهُ.

296. حضرت نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو ایسی چیز کے ذریعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس میں خود اس کو بھی نقصان پہنچے گا، تو آپ نے فرمایا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے پیچھے والے سوار کو قتل کرنے کے لیے اپنے سینہ میں نیزہ مارے۔

297. وقال (عليه السلام): مَا أَكْثَرَ الْعِبَرَ وأَقَلَّ الاِْعْتِبَارَ!

297. نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔

اگر زمانہ کے حوادث و انقلابات پر نظر کی جائے اور گزشتہ لوگوں کے احوال و واردات کو دیکھا اور ان کی سرگزشتوں کو سناجائے تو ہر گوشہ سے عبرت کی ایک ایسی داستان سنی جاسکتی ہے جو روح کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنے پند و موعظت کرنے اور عبر ت و بصیرت دلانے کا پورا سرو سامان رکھتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہرچیز کا بننا اور بگڑنا اور پھولوں کا کھلنا اور مرجھانا، سبزے کا لہلہانا اور پامال ہونا اور ہر ذرہ کا تغیر وتبدل کی آماجگاہ بننا ایسا درس عبرت ہے جو سرابِ زندگی سے جامِ بقا کے حاصل کرنے کے توقعات ختم کردیتا ہے۔ بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان ان عبرت افزا چیزوں سے بند نہ ہوں۔

 

 کاخ جہاں پراست اذکر گرشتگان        لیکن کسیکہ گوش دھد، این نداکم است؟

298. وقال (عليه السلام): مَن بَالَغَ فِي الْخُصوُمَةِ أَثِمَ، وَمَنْ قَصَّرَ فِيهَا ظُلِمَ، وَلاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَّقِيَ اللهَ مَنْ خَاصَمَ.

298. جو لڑائی جھگڑے میں حد سے بڑھ جائے وہ گنہگار ہوتا ہے اور جو اس میں کمی کرے، اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور جو لڑتا جھگڑتا ہے اس کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا قائم رکھے۔

299. وقال (عليه السلام): مَا أَهَمَّنِي ذَنْبٌ أُمْهِلْتُ بَعْدَهُ حَتَّى أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ [وَأسْأَلَ اللهَ الْعَافِيَة].

299. وہ گناہ مجھے اندوہناک نہیں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے کہ میں دو رکعت نماز پڑھوں اور اللہ سے امن و عافیت کاسوال کروں۔

300. وسئل (عليه السلام): كيف يحاسب الله الخلق على كَثْرتهم؟

فقال (عليه السلام): كَمَا يَرْزُقُهُمْ عَلَىٰ كَثْرَتِهِمْ. فَقيل: كيف يُحاسِبُهُم ولا يَرَوْنَهُ؟ 

قال (عليه السلام): كَمَا يَرْزُقُهُمْ وَلاَ يَرَوْنَهُ.

300. امیرالمومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ خداوند عالم اس کثیر التعداد مخلوق کا حساب کیونکر لے گا؟ فرمایا جس طرح اس کی کثرت کے باوجود انھیں روزی پہنچاتا ہے۔ پوچھا وہ کیونکر حساب لے گا جب کہ مخلوق اسے دیکھے گی نہیں؟ فرمایا جس طرح انہیں روزی دیتا ہے اور وہ اسے دیکھتے نہیں۔

301. وقال (عليه السلام): رَسُولُكَ تَرْجُمَانُ عَقْلِكَ، وَكِتَابُكَ أَبْلَغُ مَا يَنْطِقُ عَنْكَ!

301. تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہے اور تمہاری طرف سے کامیاب ترین ترجمانی کرنے والا تمہارا خط ہے۔

302. وقال (عليه السلام): مَا الْمُبْتَلَى الَّذِي قَدِ اشْتَدَّ بِهِ الْبَلاَءُ، بِأَحْوَجَ إِلَى الدُّعَاءِ مِنَ المُعَافَى الَّذِي لاَ يَأمَنُ البَلاَءَ!

302. ایسا شخص جو سختی و مصیبت میں مبتلا ہو۔ جتنا محتاج دعا ہے، اس سے کم وہ محتاج نہیں ھے کہ جو اس وقت خیر وعافیت سے ہے۔ مگر اندیشہ ہے کہ نہ جانے کب مصیبت آجائے۔

303. وقال (عليه السلام): النَّاسُ أَبْنَاءُ الدُّنْيَا، وَلاَ يُلاَمُ الرَّجُلُ عَلَىٰ حُبِّ أُمِّهِ.

303. لوگ اسی دنیا کی اولاد ہیں اور کسی شخص کو اپنی ماں کی محبت پر لعنت ملامت نہیں کی جاسکتی۔

304. وقال (عليه السلام): إِنَّ الْمِسْكِينَ رَسُولُ اللهِ، فَمَنْ مَنَعَهُ فَقَدْ مَنَعَ اللهَ، وَمَنْ أَعْطَاهُ فَقَدْ أَعْطَى اللهَ.

304.  غریب و مسکین اللہ کا فرستادہ ہوتا ہے تو جس نے اس سے اپنا ہاتھ روکا اس نے خدا سے ہاتھ روکا اور جس نے اسے کچھ دیا اس نے خدا کو دیا۔

305. وقال (عليه السلام): مَا زَنَى غَيُورٌ قَطُّ.

305. غیر ت مند کبھی زنا نہیں کرتا۔

306. وقال (عليه السلام): كَفَىٰ بِالاَجَلِ حَارِساً ۔

306. مدت حیات نگہبانی کے لیے کافی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ لاکھ آسمان کی بجلیا ں کڑکیں، حوادث کے طوفان امڈیں، زمین میں زلزلے آئیں اور پہاڑ آپس میں ٹکرائیں، اگر زندگی باقی ہے تو کوئی حادثہ گزند نہیں پہنچا سکتا اور نہ صرصر موت شمع زندگی کو بجھا سکتی ہے کیونکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور اس مقررہ وقت تک کوئی چیز سلسلۂ حیات کو قطع نہیں کر سکتی، اس لحاظ سے بلا شبہ موت خود زندگی کی محافظ و نگہبان ہے۔

 

«موت کہتے ہیں جسے ہے پاسبان زندگی »

307. وقال (عليه السلام): يَنَامُ الرَّجُلُ عَلَى الثُّكْلِ، وَلاَ يَنَامُ عَلَى الْحَرَبِ.

قال الرضی: ومعنىٰ ذلك أنه يصبر علىٰ قتل الاولاد، ولا يصبر على سلب الاموال.

307. اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آجاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی.

سید رضی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اولاد کے مرنے پر صبر کر لیتا ہے مگر مال کے جانے پر صبر نہیں کرتا۔

308. وقال (عليه السلام): مَوَدَّةُ الاْبَاءِ قَرَابَةٌ بَيْنَ الاَْبْنَاءِ، وَالْقَرَابَةُ إِلَى الْمَوَدَّةِ أَحْوَجُ مِنَ الْمَوَدَّةِ إِلَى الْقَرَابَةِ.

308. باپوں کی باہمی محبت اولاد کے درمیان ایک قرابت ہواکرتی ہے اور محبت کوقرابت کی اتنی ضرورت نہیں ھے جتنی قرابت کو محبت کی۔

309. وقال (عليه السلام): اتَّقُوا ظُنُونَ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَىٰ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ.

309. اہل ایمان کے گمان سے ڈرتے رہو، کیونکہ خداوند عالم نے حق کو ان کی زبانوں پر قرار دیا ہے.

310. وقال (عليه السلام): لاَ يَصْدُقُ إِيمَانُ عَبْد، حَتّى يَكُونَ بِمَا فِي يَدِ اللهِ أَوْثَقَ مِنهُ بِمَا فِي يَدِهِ.

310. کسی بندے کا ایمان اس وقت تک سچا نہیں ہوتا جب تک اپنے ہاتھ میں موجود ہونے والے مال سے اس پر زیادہ اطمینان نہ ہو جو قدرت کے ہاتھ میں ہے۔

311. وقال (عليه السلام) لأنس بن مالك، وقد كان بعثه إلى طلحةَ والزبيرِ لما جاء إلى البصرة يذكر هما شيئاً ممّا سمعه من رسول الله(صلى الله عليه وآله وسلم)في معناهما، فلوى عن ذلك، فرجع إليه، فقال: إِنِّي أُنسيتُ ذلك الامرَ. فَقال (عليه السلام): إِنْ كُنْتَ كَاذِباً فَضَرَبَكَ اللهُ بِهَا بَيْضَاءَ لاَمِعَةً لاَ تُوَارِيهَا الْعِمَامَةُ.

قال الرضی: يعني البرص، فأصاب أَنَساً هذا الداء فيما بعدُ في وجهه، فكان لا يُرىٰ إلاّ مُبَرقعاً.

311. جب حضرت (ع) بصرہ میں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا تھا کہ ان دونوں کو کچھ وہ اقوال یاد دلائیں جو آپ علیہ السّلام کے بارے میں انہوں نے خود پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے ہیں۔ مگر انہوں نے اس سے پہلوتہی کی، اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ وہ بات مجھے یاد نہیں رہی اس پر حضرت (ع) نے فرمایا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو اس کی پاداش میں خداوند عالم ایسے چمکدار داغ میں تمہیں مبتلا کرے، کہ جسے دستار بھی نہ چھپا سکے۔

(سید رضی فرماتے ہیں کہ) سفید داغ سے مراد برص ہے چنانچہ انس اس مرض میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیشہ نقاب پوش دکھائی دیتے تھے.

علامہ رضی نے اس کلام کے جس مورد و عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت نے جنگ جمل کے موقع پر انس ابن مالک کو طلحہ وزبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں پیغمبر کا قول "انکما ستقاتلان علیا و انتمالہ ظالمان" (تم عنقریب علی علیہ السّلام سے جنگ کر و گے اور تم ان کے حق میں ظلم و زیادتی کرنے والے ہوگے )یاد دلائیں، تو انہوں نے پلٹ کر یہ ظاہر کیا کہ وہ اس کا تذکرہ کرنا بھول گئے تو حضرت نے ان کے لیے یہ کلمات کہے۔ مگر مشہور یہ ہے کہ حضرت نے یہ جملہ اس موقع پر فرمایا جب آپ پیغمبر صلعم کے اس ارشاد کی تصدیق چاہی کہ:

 

من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللّھم وال من والاہ و عاد من عاداہ

 

جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ اے اللہ جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ ۔

 

چنانچہ متعدد لوگوں نے اس کی صحت کی گواہی دی۔ مگر انس ابن مالک خاموش رہے جس پر حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم بھی تو غدیر خم کے موقع پر موجود تھے پھر اس خاموشی کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا یا امیرالمومنین (ع) میں بوڑھا ہوچکا ہوں اب میری یاد داشت کام نہیں کرتی جس پر حضرت نے ان کے لیے بددعا فرمائی۔ چنانچہ ابن قیتبہ تحریر کرتے ہیں کہ:

 

ذکر قوم ان علیا رضی اللہ عنہ سالہ عن قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللّٰہم وال من والاہ وعاد من عاداہ فقال کبرت سنی ونسیت فقال علی ان کنت کاذباً فضربک اللہ ببیضاء لامعة لا تواریھا العمامہ (المعارف ص۲۵۱

 

“لوگوں نے بیان کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے انس ابن مالک سے رسول اللہ کے ارشاد "اے اللہ جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ" کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور اسے بھول چکا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہیں ایسے برص میں مبتلا کرے جسے عمامہ بھی نہ چھپا سکے۔”

 

ابن ابی الحدید نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے اور سید رضی کے تحریر کردہ واقعہ کی تردید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:

 

سید رضی نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے حضرت نے انس کو طلحہ و زبیر کی طرف روانہ کیا تھا ایک غیر معروف واقعہ ہے اگر حضرت نے اس کلام کی یاد دہانی کے لیے انہیں بھیجا ہوتا کہ جو پیغمبر (ص) نے ان دونوں کے بارے میں فرمایا تھا تو یہ بعید ہے کہ وہ پلٹ کر یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا۔ کیونکہ جب وہ حضرت سے الگ ہوکر روانہ ہوئے تھے تو اس وقت یہ اقرار کیا تھا کہ پیغمبر کا یہ ارشاد میرے علم میں ہے اور مجھے یاد ہے پھر کس طرح یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک گھڑی یا ایک دن کے بعد یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا، اور اقرار کے بعد انکار کریں۔ یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔

312. وقال (عليه السلام): إِنَّ لِلْقُلُوبِ إقْبَالاً وَإِدْبَاراً، فَإِذَا أَقْبَلَتْ فَاحْمِلُوهَا عَلَى النَّوَافِلِ، وَإذَا أَدْبَرَتْ فَاقْتَصِرُوا بِهَا عَلَى الْفَرَائِضِ.

312. دل کبھی مائل ہوتے ہیں اور کبھی اچاٹ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جب مائل ہوں، اس وقت انہیں مستحبات کی بجا آوری پرآمادہ کرو۔ اور جب اچاٹ ہوں تو واجبات پر اکتفا کرو۔

313. وقال (عليه السلام): وَفِي الْقرْآنِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ.

313. قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے درمیانی حالات کے لیے احکام ہیں۔

314. وقال (عليه السلام): رُدُّوا الْحَجَرَ مِنْ حَيْثُ جَاءَ، فَإِنَّ الشَّرَّ لاَ يَدْفَعُهُ إِلاَّ الشَّرُّ.

314. جدھر سے پتھر آئے اسے ادھر ہی پلٹا دو کیونکہ سختی کا دفیعہ سختی ہی سے ہوسکتا ہے۔

                                                                                                                  

315. وقال (عليه السلام) لكاتبه عبيدالله بن أَبي رافع: أَلِقْ دَوَاتَكَ، وَأَطِلْ جِلْفَةَ قَلَمِكَ، وَفَرِّجْ بَيْنَ السُّطُورِ، وقَرْمِطْ بَيْنَ الْحُرُوفِ، فَإِنَّ ذلِكَ أَجْدَرُ بِصَباحَةِ الْخَطِّ.

315. اپنے منشی عبیداللہ ابن ابی رافع سے فرمایا : دوات میں صُوف ڈالا کرو، اور قلم کی زبان لمبی رکھا کرو۔ سطروں کے درمیان فاصلہ زیادہ چھوڑا کرو اور حروف کو ساتھ ملا کر لکھا کرو کہ یہ خط کی دیدہ زیبی کے لیے مناسب ہے۔

316. وقال (عليه السلام): أَنا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ، وَالْمَالُ يَعْسُوبُ الْفُجَّارِ.

قال الرضی: ومعنى ذلك أن المؤمنين يتبعونني، والفجار يتبعون المال، كما تتبع النحل يعسوبها، وهو رئيسها.

316. میں اہل ایمان کا یعسوب ہوں اور بدکرداروں کا یعسوب مال ہے۔

(سید رضی فرماتے ہیں کہ )اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان والے میری پیروی کرتے ہیں اور بدکردار مال و دولت کا اسی طرح اتباع کرتے ہیں جس طرح شہد کی مکھیاں یعسوب کی اقتدا کرتی ہیں اور یعسوب اس مکھی کو کہتے ہیں جو ان کی سردار ہوتی ہے۔

317. وقال له بعض اليهود: ما دَفَنْتُم نَبِيَّكُم حتّى اختلفتم فيه؟

فقال (عليه السلام) له: إِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْهُ لاَ فِيهِ، وَلكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ أَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ حَتَّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ: (اجْعَلْ لَنَا إلهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ)

317. ایک یہودی نے آپ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کودفن نہیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں اختلاف شروع کردیا۔ حضرت نے فرمایا ہم نے ان کے بارے میں اختلاف نہیں کیا۔ بلکہ ان کے بعد جانشینی کے سلسلہ میں اختلاف ہوا مگر تم تو وہ ہوکہ ابھی دریائے نیل سے نکل کر تمہارے پیر خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسا خدا بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے خدا ہیں۔ توموسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ "بیشک تم ایک جاہل قوم ہو" ۔

اس یہودی کی نکتہ چینی کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو پیش کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو ایک اختلافی امر ثابت کرلے، مگر حضرت نے لفظ فیہ کے بجائے لفظ عنہ فرماکر اختلاف کا مورد واضح کر دیا کہ وہ اختلاف رسول (ص) کی نبوت کے بارے میں نہ تھا بلکہ ان کی نیابت و جانشینی کے سلسلہ میں تھا۔ اور پھر یہودیوں کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو آج پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختلاف پر نقدکر رہے ہیں خود ان کی حالت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں عقیدۂ توحید میں متزلزل ہوگئے تھے چنانچہ جب وہ اہل مصر کی غلامی سے چھٹکارا پاکر دریا کے پار اتر ے تو سینا کے بت خانہ میں بچھڑے کی ایک مورتی دیکھ کر حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسی مورتی بنا دیجئے۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ تم اب بھی ویسے ہی جاہل ہو, جیسے مصر میں تھے تو جس قوم میں توحید کی تعلیم پانے کے بعد بھی بت پرستی کا جذبہ اتنا ہو کہ وہ ایک بت کو دیکھ کر تڑپنے لگے اور یہ چاہے کہ اس کے لیے بھی ایک بت خانہ بنا دیا جائے اس کو مسلمانوں کے کسی اختلاف پر تبصرہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔

318. وقيل له: بأيّ شيء غلبتَ الاَقران؟ فقال (عليه السلام): مَا لَقِيتُ رَجُلاً إِلاَّ أَعَانَنِي عَلَىٰ نَفْسِهِ.

قال الرضی: يومىء (عليه السلام) بذلك إلىٰ تمكّن هيبته في القلوب.    

318. حضرت سے کہا گیا کہ آپ کس وجہ سے اپنے حریفوں پرغالب آتے رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں جس شخص کا بھی مقابلہ کرتا تھا وہ اپنے خلاف میری مدد کرتا تھا۔

(سید رضی فرماتے ہیں کہ )حضرت نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ کی ہیبت دلوں پر چھا جاتی تھی۔

جو شخص اپنے حریفوں سے مرعوب ہو جائے، اس کا پسپا ہونا ضروری سا ہوجاتا ہے کیونکہ مقابلہ میں صرف جسمانی طاقت کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ دل کا ٹھہراؤ اورحوصلہ کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔ اور جب وہ ہمت ہار دے گا اور یہ خیال دل میں جما لے گا کہ مجھے مغلوب ہی ہونا ہے تو مغلوب ہو کر رہے گا۔ یہی صورت امیر المومنین (ع) کے حریف کی ہوتی تھی کہ و ہ ان کی مسلمہ شجاعت سے اس طرح متاثر ہوتا تھا کہ اسے موت کا یقین ہو جاتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی قوت معنوی و خود اعتمادی ختم ہوجاتی تھی اورآخر یہ ذہنی تاثر اسے موت کی راہ پر لا کھڑا کرتا تھا۔

319. وقال (عليه السلام) لابنه محمد بن الحنفية: يَا بُنَيَّ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ، فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْه، فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدَّينِ، مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ، دَاعِيَةٌ لِلْمَقْت ۔

319. اپنے فرزند محمد ابن حنفیہ سے فرمایا: "اے فرزند! میں تمہارے لیے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو۔ کیونکہ یہ دین کے نقص، عقل کی پریشانی اور لوگوں کی نفرت کا باعث ہے۔

320. وقال (عليه السلام) لِسائل سأَله عن معضلة: سَل تَفَقُّهاً وَلاَ تَسْأَلْ تَعَنُّتاً، فَإِنَّ الْجَاهِلَ الْمُتَعَلِّمَ شَبِيهٌ بِالْعَالِمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ الْمُتَعَسِّفَ شَبِيهٌ بِالْجَاهِلِ الْمُتَعَنِّتِ.

320. ایک شخص نے ایک مشکل مسئلہ آپ سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا۔ سمجھنے کے لیے پوچھو، الجھنے کے لیے نہ پوچھو۔ کیونکہ وہ جاہل جو سیکھنا چاہتا ہے مثل عالم کے ہے اور وہ عالم جو الجھنا چاہتا ہے وہ مثل جاہل کے ہے۔

321. وقال (عليه السلام) لعبدالله بن العباس، وقد أشار عليه في شيء لم يوافق رأيه: لَكَ أَنْ تُشِيرَ عَلَيَّ وأَرَى، فَإِنْ عَصَيْتُكَ فَأَطِعْنِي.

321. عبد اللہ ابن عباس نے ایک امر میں آپ کو مشورہ دیا جو آپ کے نظر یہ کے خلاف تھا۔ تو آپ نے ان سے فرمایا۔ تمہارا یہ کام ہے کہ مجھے رائے دو۔ اس کے بعد مجھے مصلحت دیکھنا ہے۔ اور اگر میں تمہاری رائے کو نہ مانوں، تو تمہیں میری اطاعت لازم ہے۔

عبداللہ ابن عباس نے امیر المومنین علیہ السّلام کو یہ مشورہ دیا تھا کہ طلحہ و زبیر کو کوفہ کی حکومت کا پروانہ لکھ دیجئے اور معاویہ کو شام کی ولایت پر برقرار رہنے دیجئے، یہاں تک کہ آپ کے قدم مضبوطی سے جم جائیں اور حکومت کو استحکام حاصل ہوجائے جس کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ میں دوسروں کی دنیا کی خاطر اپنے دین کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا لہٰذا تم اپنی بات منوانے کے بجائے میری بات کو سنو اور میری اطاعت کرو۔

 

 

322. وروي أنه(عليه السلام)لما ورد الكوفة قادماً من صفين مرّ بالشّباميين، فسمع بكاء النساء على قتلى صفين، وخرج إليه حرب بن شُرَحْبِيل الشّبامي، وكان من وجوه قومه.

فقال (عليه السلام): أَتَغْلِبُكُمْ نِسَاؤُكُمْ عَلَى مَا أسْمَعُ؟ أَلاَ تَنْهَوْنَهُنَّ عَنْ هذَا الرَّنِينِ؟ و أقبل يمشي معه، وهو(عليه السلام) راكب. فقال (عليه السلام) له: ارْجِعْ، فَإِنَّ مَشْيَ مِثْلِكَ مَعَ مِثْلِي فِتْنَةٌ لِلْوَالِي، وَمَذَلَّةٌ لِلْمُؤْمِنِ.

322. وارد ہوا ہے کہ جب حضرت صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ پہنچے تو قبیلہ شبام کی آبادی سے ہوکر گزرے۔ جہاں صفین کے کشتوں پر رونے کی آواز آپ کے کانوں میں پڑی اتنے میں حرب ابن شرحبیل شبامی جو اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے، حضرت کے پاس آئے تو آپ نے اس سے فرمایا ! کیاتمہارا ان عورتوں پر بس نہیں چلتا جو میں رونے کی آوازیں سن رہا ہوں اس رونے چلانے سے تم انہیں منع نہیں کرتے؟ حرب آگے بڑھ کر حضرت کے ہمرکاب ہو لیے درآں حالیکہ حضرت سوار تھے تو آپ نے فرمایا ! پلٹ جاؤ تم۔ ایسے آدمی کا مجھ ایسے کے ساتھ پیادہ چلنا والی کے لیے فتنہ اور مومن کے لیے ذلت ہے۔

323. وقال (عليه السلام) وقد مرّ بقتلى الخوارج يوم النَّهْرَوَان: بُؤْساً لَكُمْ، لَقَدْ ضَرَّكُمْ مَنْ غَرَّكُمْ. فقيل له: مَن غرّهم يا أميرالمؤمنين؟ فقال: الشَّيْطَانُ الْمُضِلُّ، وَالاَْنْفُسُ الاَْمَّارَةُ بِالسُّوءِ، غَرَّتْهُمْ بالاَْمَانِيِّ، وَفَسَحَتْ لَهُمْ بالمَعَاصِيِ، وَوَعَدَتْهُمُ الاِْظْهَارَ، فَاقْتَحَمَتْ بِهِمُ النَّارَ.

323. نہروان کے دن خوارج کے کشتوں کی طرف ہو کر گزرے تو فرمایا ! تمہارے لیے ہلاکت و تباہی ہو جس نے تمہیں ورغلایا، اس نے تمہیں فریب دیا۔ کہاگیاکہ "یا امیر المومنین (ع) کس نے انہیں ورغلایا تھا؟ فرمایا کہ گمراہ کرنے والے شیطان اور برائی پر ابھارنے والے نفس نے کہ جس نے انہیں امیدوں کے فریب میں ڈالا اور گناہوں کا راستہ ان کے لیے کھول دیا۔ فتح و کامرانی کے ان سے وعدے کئے اور اس طرح انہیں دوزخ میں جھونک دیا۔

324. وقال (عليه السلام): اتَّقُوا مَعَاصِيَ اللهِ فِي الْخَلَوَاتِ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاكِمُ.

324. تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے سے ڈرو۔ کیونکہ جو گواہ ہے وہی حاکم ہے.

325. وقال (عليه السلام)، لمّا بلغه قتل محمد بن أبي بكر: إِنَّ حُزْنَنَا عَلَيْهِ عَلَى قَدْرِ سُرُورِهِمْ بِهِ، إِلاَّ أَنَّهُمْ نَقَصُوا بَغِيضاً، وَنَقَصْنَا حَبِيباً.

325. جب آپ کو محمد ابن ابی بکر (رحمتہ اللہ علیہ) کے شہید ہونے کی خبر پہنچی توآپ نے فرمایا ہمیں ان کے مرنے کا اتنا ہی رنج و قلق ہے جتنی دشمنوں کو اس کی خوشی ہے۔ بلاشبہ ان کا ایک دشمن کم ہوا۔ اور ہم نے ایک دوست کو کھو دیا۔

326. وقال (عليه السلام): الْعُمْرُ الَّذِي أَعْذَرَ اللهُ فِيهِ إِلَى ابْنِ آدَمَ سِتُّونَ سَنَةً.

326. وہ عمر کہ جس کے بعد اللہ تعالیٰ آدمی کے عذر کو قبول نہیں کرتا، ساٹھ برس کی ہے۔

327. وقال (عليه السلام): مَا ظَفِرَ مَنْ ظَفِرَ الاِْثْمُ بِهِ، وَالْغَالِبُ بِالشَّرِّ مَغْلُوبٌ.

327. جس پر گناہ قابو پالے، وہ کامران نہیں اور شرکے ذریعہ غلبہ پانے والا حقیقتاً مغلوب ہے۔

328. وقال (عليه السلام): إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ فَرَضَ فِي أَمْوَالِ الاَْغْنِيَاءِ أَقْوَاتَ الْفُقَرَاءِ، فَمَا جَاعَ فَقِيرٌ إِلاَّ بِمَا مُتِّعَ بِهِ غَنِي، وَاللهُ تَعَالَىٰ سَائِلُهُمْ عَنْ ذلِكَ.

328. خدا وند عالم نے دولتمندوں کے مال میں فقیروں کا رزق مقرر کیا ہے لہٰذا اگر کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے تو اس لیے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور خدائے بزرگ و برتر ان سے اس کا مواخذہ کرنے والا ہے۔

329. وقال (عليه السلام): الاْسْتِغْنَاءُ عَنِ الْعُذْرِ أَعَزُّ مِنَ الصِّدْقِ بِهِ.

329. سچاعذر پیش کرنے سے یہ زیادہ وقیع ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض پر اس طرح کار بند ہونا چاہیے کہ اسے معذرت پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ معذرت میں ایک گونہ کوتاہی کی جھلک اور ذلت کی نمود ہوتی ہے، اگرچہ وہ صحیح و درست ہی کیوں نہ ہو۔

330. وقال (عليه السلام): أَقَلُّ مَا يَلْزَمُكُمْ لله اَن لا تَسْتَعيِنُوا بِنِعَمِهِ عَلَى مَعَاصِيهِ.

330. اللہ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کی نعمتوں سے گناہوں میں مدد نہ لو.

 

کفران نعمت وناسپاسی کے چنددرجے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان نعمت ہی کی تشخیص نہ کرسکے، جیسے آنکھوں کی روشنی، زبان کی گویائی، کانوں کی شنوائی اور ہاتھ پیروں کی حرکت یہ سب اللہ کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں۔ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے نعمت ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو. دوسرا درجہ یہ ہے کہ نعمت کو دیکھے اور سمجھے۔ مگر اس کے مقابلہ میں شکر بجا نہ لائے. تیسرادرجہ یہ ہے کہ نعمت بخشنے والے کی مخالفت و نافرمانی کرے۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو اطاعت و بندگی میں صرف کرنے کے بجائے اس کی معصیت و نافرمانی میں صرف کرے یہ کفران نعمت کا سب سے بڑا درجہ ہے۔

331. وقال (عليه السلام): إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ جَعَلَ الطَّاعَةَ غَنِيمَةَ الاَْكْيَاسِ عِنْدَ تَفْرِيطِ الْعَجَزَةِ ۔

331. جب کاہل اور ناکارہ افراد عمل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ عقلمندوں کے لیے ادائے فرض کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔

332. وقال (عليه السلام): السُّلْطَانُ وَزَعَةُاللهِ فِي أَرْضِهِ.

332. حکام اللہ کی سر زمین میں اس کے پاسبان ہیں۔

333. وقال (عليه السلام) في صفة المؤمن: الْمُؤْمِنُ بِشْرُهُ فِي وَجْهِهِ، وَحُزْنُهُ فِي قَلْبِهِ، أَوْسَعُ شَيْء صَدْراً، وَأَذَلُّ شَيْء نَفْساً، يَكْرَهُ الرِّفْعَةَ، وَيَشْنَأُ السُّمْعَةَ، طَوِيلٌ غَمُّهُ، بَعِيدٌ هَمُّهُ، كَثِيرٌ صَمْتُهُ، مشْغولٌ وَقْتُهُ، شَكُورٌ صَبُورٌ، مغْمُورٌ بِفِكْرَتِهِ، ضَنِينٌ بِخَلَّتِهِ، سَهْلُ الْخَلِيقَةِ، لَيِّنُ الْعَرِيكَةِ! نَفْسُهُ أَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ، وَهُوَ أَذَلُّ مِنَ الْعَبْدِ.

333. مومن کے متعلق فرمایا!

مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل میں غم و اندوہ ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل میں وہ اپنے کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے اس کا غم بے پایاں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش ہمہ وقت مشغو ل، شاکر، صابر، فکر میں غرق, دست طلب بڑھانے میں بخیل، خوش خلق اور نرم طبیعت ہوتا ہے اور اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت اور وہ خود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔

334. وقال (عليه السلام): لَوْرَأَى الْعَبْدُ الاَْجَلَ وَمَسِيرَهُ لأبۡغَضَ الأَمَلَ وَغُرُورَهُ.

334.  اگر کوئی بندہ مدت حیات اور اس کے انجام کو دیکھے تو امیدوں اور ان کے فریب سے نفرت کرنے لگے۔

335. وقال (عليه السلام): لِكُلّ امْرِىء فِي مَالِهِ شَريِكَانِ: الْوَارِثُ، وَالْحَوَادِثُ.

335. ہر شخص کے مال میں دو حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایک وارث اور دوسرے حوادث.

336. وقال (عليه السلام): الْمَسْؤُولُ حُرُّ حَتَّى يَعِدَ.

336. جس سے مانگا جائے وہ اس وقت تک آزاد ہے، جب تک وعدہ نہ کرلے۔

337. وقال (عليه السلام): الدَّاعِي بِلاَ عَمَل كَالرَّامِي بِلاَ وَتَر.

337. جو عمل نہیں کرتا اور دعا مانگتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بغیر چلّۂ کمان کے تیر چلانے والا.

338. وقال (عليه السلام): الْعِلْمُ عِلْمَانِ: مَطْبُوعٌ وَمَسْمُوعٌ، وَلاَ يَنْفَعُ الْمَسْمُوعُ إِذَا لَمْ يَكُنِ الْمَطْبُوعُ.

338. علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو نفس میں رَچ بس جائے اور ایک وہ جو صرف سن لیا گیاہو اور سناسنایا فائدہ نہیں دیتا جب تک وہ دل میں راسخ نہ ہو۔

339. وقال (عليه السلام): صَوَابُ الرَّأْيِ بِالدُّوَلِ: يُقْبِلُ بِإِقْبَالِهَا، وَيَذْهَبُ بِذَهَابِهَا.

339. اصابتِ رائے اقبال و دولت سے وابستہ ہے اگر یہ ہے تو وہ بھی ہوتی ہے اگر یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ہوتی.

جب کسی کا بخت یاور اور اقبال اوج و عروج پر ہوتا ہے تو اس کے قدم خود بخود منزل مقصود کی طر ف بڑھنے لگتے ہیں۔ اور ذہن و فکر کو صحیح طریق کار کے طے کرنے میں کوئی الجھن نہیں ہوتی اور جس کا اقبال ختم ہونے پر آتا ہے وہ روشنی میں بھی ٹھوکریں کھاتا ہے اور ذہن وفکر کی قوتیں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ جب بنی برمک کا زوال شروع ہوا تو ان میں کے دس آدمی ایک امر میں مشورہ کرنے کے لیے جمع ہوئے مگر پوری رد و کد کے بعد بھی کسی صحیح نتیجہ تک نہ پہنچ سکے۔ یہ دیکھ کر یحییٰ نے کہا کہ خدا کی قسم یہ ہمارے زوال کا پیش خیمہ اور ہمارے ادبار کی علامت ہے کہ ہم دس آدمی بھی کوئی صحیح فیصلہ نہ کر سکیں۔ ورنہ جب ہمارا نیر و اقبال بام عروج پر تھا تو ہمارا ایک آدمی ایسی دس دس گتھیوں کو بڑی آسانی سے سلجھا لیتا تھا۔

340. وقال (عليه السلام): الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ، وَالشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

340. فقر کی زینت پاکدامنی، اور تونگری کی زینت شکر ہے۔

341. وقال (عليه السلام): يَوْمُ الْعَدْلِ عَلَى الظَّالِمِ أَشَدُّ مِنْ يَومِ الْجَوْرِ عَلَى الْمَظْلُومِ!

341. ظالم کے لیے انصاف کا دن اس سے زیادہ سخت ہوگا، جتنا مظلوم پر ظلم کا دن۔

342. وقال (عليه السلام): الْغِنَى الاَْكْبَرُ الْيَأْسُ عَمَّا فِي أَيْدِى النَّاسِ.

342. سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آس نہ رکھی جائے۔

343. وقال (عليه السلام): الاَْقَاوِيلُ مَحْفُوظَةٌ، وَالْسَّرَائِرُ مَبْلُوَّةٌ، وَ(كُلُّ نَفْس بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ)، وَالنَّاسُ مَنْقوُصُونَ مَدْخُولُونَ إِلاَّ مَنْ عَصَمَ الله، سَائِلُهُمْ مُتَعَنِّتٌ، وَمُجِيبُهُمْ مُتَكَلِّفٌ، يَكَادُ أَفْضَلُهُمْ رَأْياً يَرُدُّهُ عَنْ فَضْلِ رَأْيِهِ الرِّضَى وَالسُّخْطُ، وَيَكَادُ أَصْلَبُهُمْ عُوداً تَنْكَؤُهُ، وَتَسْتَحِيلُهُ الْكَلِمَةُ الْوَاحِدَةُ.

343. گفتگوئیں محفوظ ہیں اور دلوں کے بھید جانچے جانے والے ہیں۔ ہر شخص اپنے اعمال کے ہاتھوں میں گروی ہے اور لوگوں کے جسموں میں نقص اور عقلوں میں فتور آنے والا ہے مگر وہ کہ جسے اللہ بچائے رکھے۔ ان میں پوچھنے والا الجھانا چاہتا ہے اور جواب دینے والا (بے جانے بوجھے جواب کی)زحمت اٹھاتا ہے جو ان میں درست رائے رکھتا ہے۔ اکثر خوشنودی و ناراضگی کے تصورات اسے صحیح رائے سے موڑ دیتے ہیں اور جو ان میں عقل کے لحاظ سے پختہ ہوتا ہے بہت ممکن ہے کہ ایک نگا ہ اس کے دل پر اثر کردے اور ایک کلمہ اس میں انقلاب پیدا کردے۔

344۔ و قال علیہ السلام: مَعَاشِرَ النَّاسِ، اتَّقُوا اللهَ، فَكَمْ مِنْ مُؤَمِّل مَا لاَ يَبْلُغُهُ، وَبَان مَا لاَ يَسْكُنُهُ، وَجَامِع مَا سَوْفَ يَتْرُكُهُ، وَلَعَلَّهُ مِنْ بَاطِل جَمَعهُ، وَمِنْ حَقٍّ مَنَعَهُ، أَصَابَهُ حَرَاماً، وَاحْتَمَلَ بِهِ آثَاماً، فَبَاءَ بِوِزْرهِ، وَقَدِمَ عَلَى رَبِّهِ، آسِفاً لاَهِفاً، قَدْ (خَسِرَ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةَ ذلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ)

344۔ اے گروہ مردم! اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ کتنے ہی ایسی باتوں کی امید باندھنے والے ہیں جن تک پہنچتے نہیں اور ایسے گھر تعمیر کرنے والے ہیں جن میں رہنا نصیب نہیں ہوتا اور ایسا مال جمع کرنے والے ہیں جسے چھوڑجاتے ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے کہ اسے غلط طریقہ سے جمع کیا ہو یا کسی کا حق دبا کر حاصل کیا ہو۔ اس طرح اسے بطور حرام پایا ہو اور اس کی وجہ سے گناہ کا بوجھ اٹھایا ہو، تو اس کا وبال لے کر پلٹے اور اپنے پروردگار کے حضور رنج و افسوس کرتے ہوئے جا پہنچے دنیا و آخرت دونوں میں گھاٹا اٹھایا۔ یہی تو کھلم کھلا گھاٹا ہے۔

345. وقال (عليه السلام): مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

345. گناہ تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک صورت پاکدامنی کی ہے۔

346. وقال (عليه السلام): مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُهُ السُّؤَالُ، فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُهُ.

346. تمہاری آبرو قائم ہے جسے دست سوال دراز کرنا بہا دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال رہے کہ کس کے آگے اپنی آبرو ریزی کر رہے ہو۔

347. وقال (عليه السلام): الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الاْسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ، وَالتَّقْصِيرُ عَنِ الاِْسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

347. کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد.

348. وقال (عليه السلام): أَشدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِهِ صَاحِبُهُ.

348. سب سے بھاری گناہ وہ ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک سمجھے۔

چھوٹے گناہوں میں بے باکی و بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان گناہ کے معاملہ میں بے پرواہ سا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ عادات اسے بڑے بڑے گناہوں کی جرأت دلا دیتی ہے اور پھر وہ بغیر کسی جھجک کے ان کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا چھوٹے گناہوں کو بڑے گناہوں کا پیش خیمہ سمجھتے ہوئے ان سے احتراز کر نا چاہیے تاکہ بڑے گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔

349. وقال (عليه السلام): مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِهِ اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرهِ، وَمَنْ رَضِيَ برِزْقِ اللهِ لَمْ يَحْزَنْ عَلَىٰ مَا فَاتَهُ، وَمَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِهِ، وَمَنْ كَابَدَ الاَْمُورَ عَطِبَ، وَمَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ، وَمَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ، وَمَنْ كَثُرَ كَلاَمُهُ كَثُرَ خَطَؤُهُ، وَمَنْ كَثُرَ خَطَؤُهُ قَلَّ حَيَاؤُهُ، قَلَّ وَرَعُهُ،ومَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ، وَمَنْ مَاتَ قَلْبُهُ دَخَلَ النَّارَ، وَمَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِهِ فذَاك الاَْحْمَقُ بِعَيْنِهِ. وَالْقَنَاعَةُ مَالٌ لاَ يَنْفَدُ، وَمَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسيرِ، ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلاَمَهُ مِنْ عَمَلِهِ قَلَّ كَلاَمُهُ إِلاَّ فِيَما يَعْنيِهِ.

349. جو شخص اپنے عیوب پر نظر رکھے گا وہ دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہے گا۔ اور جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا، وہ نہ ملنے والی چیز پر رنجیدہ نہیں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھینچتا ہے وہ اسی سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دینا چاہتا ہے۔ وہ تباہ و برباد ہوتا ہے، جو اٹھتی ہوئی موجوں میں پھاندتا ہے، وہ ڈوبتا ہے، جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا، وہ بدنام ہوگا، جو زیادہ بولے گا، وہ زیادہ لغزشیں کرے گا اور جس کی لغزشیں زیادہ ھوں، اس کی حیا کم ھوجائے گی۔ اور جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہوگا اور جس میں تقویٰ کم ہوگا اس کا دل مردہ ہوجائے گا۔ اور جس کا دل مردہ ہوگیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔ جو شخص لوگوں کے عیوب کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھائے اور پھر انہیں اپنے لیے چاہے اور سرا سر احمق ہے قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر بھی خوش رہتا ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کاقول بھی عمل کا ایک جز ہے، وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔

350. وقال (عليه السلام): لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلاَثُ عَلاَمَات: يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَهُ بِالْمَعْصِيَةِ، وَ مَنْ دُونَهُ بِالْغَلَبَةِ،يُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَة.

350. لوگوں میں جو ظالم ہو اس کی تین علامتیں ہیں: وہ ظلم کرتا ہے اپنے سے بالا ہستی کی خلاف ورزی سے، اور اپنے سے پست لوگوں پر قہر و تسلط سے اور ظالموں کی کمک و امداد کرتا ہے۔