جس دن ھم نے نھج البلاغہ کا ادراک کر لیا اور تمام تعصبات و جانبداریوں سے مبرا ھوتے ھوئے اسکی کنہ حقیقت تک پھنچ گئے اس دن ھم تمام سماجی، اخلاقی، معاشی اور فلسفیانہ مکاتب فکر سے بے نیاز ھوجائیں گے۔
حقیقت تو یہ ھے کہ ان چند جملو ں کے ذریعہ نھج البلاغہ کی شناخت حاصل نھیں کی جا سکتی کیو نکہ اگر ارباب علم و فلسفہ گز شتہ تا ریخی حقائق کے سلسلے میں نھج البلاغہ سے استفادہ کر لیں تب بھی ان کیلئے مستقبل تو مجھول ھی ھے جبکہ نھج البلاغہ فقط ماضی وحال ھی سے مربو ط نھیں ھے بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ھے جو آئند ہ سے بھی مر بوط ھے کیو نکہ نھج البلاغہ میں انسان و کا ئنات کے بارے میں جا و دانہ طور پر مبسوط بحث کی گئی ھے۔ بشر وکا ئنات کے حوا لے سے جن اصو ل وقو انین کا تذکرہ کیا گیا ھے وہ کسی ایک زبان ومکان کو پیش نظر رکہ کرو ضع نھیں کئے گئے ھیں کہ کسی ایک محدود زمانے میں مقید ھو کر رہ جا ئیں۔ زمانے تبدیل ھو تے رھتے ھیں اورھر زمانے کے افراد اپنے فھم و ادراک کے مطا بق اس آفاقی کتاب سے استفادہ وبھرہ بر داری کرتے رھتے ھیں ۔
ایسی کو نسی کتاب ھے جس میں نھج البلاغہ کی طرح حیات ور موز حیات کے متعلق اسقدر عمیق اور جامع بحث کی گئی ھو اور زندگی کے دونو ں پھلو ؤ ں اور اسکی حقیقت کو با لتفصیل وا ضح کیا گیا ھو ؟
آیا ممکن ھے کہ نھج البلاغہ کے علاوہ کسی اور کتاب میں مفھو م اورر موز موت وحیات تک دستر سی پیدا کی جا سکے ؟
کیا ممکن ھے کہ بشر کے محدو د ذھن کے ذریعہ سا ختہ شدہ ، نا قص مکا تب فکر سے اقتصادیات کے ان تمام نکا ت اور پھلو ؤ ں کا استخر اج کر لیا جا ئے جو نھج البلاغہ میں مو جو د ھیں ؟ ھر اقتصا دی مکتب فکر جھاں کچہ امتیازات و محا سن کا حا مل ھو تا ھے و ھیں اسمیں کچہ نقا ئص بھی پا ئے جا تے ھیں۔ ایک مکتب فکر انسا ن کو اقتصادیات پر قربان کر دیتا ھے جبکہ دوسر ے مکتب کی نگا ہ میں انسان کیلئے معا شیات کی کو ئی حیثیت نھیں ھے ، تیسرا مکتب ، بشر کو اس حدتک آزادی کا اختیار دے دیتا ھے کہ معاشرے کی تمام اھمیت وا رزش ھی ختم ھو کر رہ جاتی ھے ، چو تھا مکتب آتا ھے اور اسکی ساری تو جھات معاشرے پر مر کو زھو جاتی ھیںلیکن نھج البلاغہ نے اسلام کی معتد ل روش کا اتبا ع کرتے ھو ئے سماج کے ھر طبقے کے حقو ق کی محا فظت کی ھے اس طرح کہ فر د ومعا شرہ ،دونو ں کا یکسا ں خیال رکھا ھے یعنی فرد ی آزادی اور اختیار ات فقط اس حد تک قا بل قبو ل ھیں جھا ں تک سما جی زند گی میں خلل پیدا نہ ھو ورنہ معا شر تی زندگی مذکورہ صورت میں بھر حال بر تری کی حامل ھے یعنی سماجی زندگی ، فردی زندگی پر فو قیت رکھتی ھے ۔ نھج البلاغہ نے زندگی کے معاشی شعبے میں اسلام کے اصول وقوا نین اسقدر واضح طور پر بیان کئے ھیںکہ خو د بخو د ھر حقدا ر تک اسکا حق پھو نچ جا تا ھے ۔سما جی نظا م حیات کو اس طرح مر تب کیا ھے کہ معا شرے کے تمام افراد ایک انسانی بدن کے اعضا ء کی مانند نظر آتے ھیں ۔ اگر پیر میں تکلیف ھو تی ھے تو آنکہ بھی اس درد کا احسا س کرتی ھے لیکن جو کام آنکہ کر سکتی ھے ، ایک پیر نھیں کر سکتا اور پیر سے ایسی تو قع رکھی بھی نھیں جا سکتی لھذا اسی وجہ سے معا شرہ کو فردی زندگی پر مقدم رکھا گیاھے ۔
اسلامی نقطئہ نظر سے کسی شخصیت کا معیار فقط وفقط تقویٰ ھے ۔ اسلامی معا شرے میں وھی شخص مقام و مرتبہ کا حامل ھے جو اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو خاطر خواہ طور پر انجام دیتا ھے ۔
اسی طرح نھج البلاغہ میں ذکر شدہ حکومت و سیاست سے متعلق امور و اصول معاشرے میں ممکنہ طور پر موجو د مسا ئل کا راہ حل بھی پیش کر تے ھیں ۔ نھج البلاغہ میں حضرت علی (ع) کے ذریعے ما لک اشتر کے لئے صا در شدہ فر مان میں ھر اس قا نو ن کامشا ھدہ کیا جاسکتا ھے جو حکو مت وعو ام کے را بطے کے متعلق ایک انسانی ذھن وضع کر سکتا ھے خواہ یہ قا نون کسی ایک ملک و مملکت سے متعلق ھو یا عالمی برادری کو مد نظر رکھتے ھو ئے بنا یا گیا ھو ۔ ساتھ ھی ساتھ حضرت علی (ع) کے اس فرمان کا خاصہ یہ بھی ھے کہ اس فرمان میں مو جو د ہ نکات اور پھلو ؤں تک ایک عام انسان کا ذھن پھو نچ بھی نھیں سکتا ۔
نھج البلاغہ کا طرئہ امتیا ز یہ ھے کہ اس نے مختلف النوع مضا مین ومطا لب کو اتنے جاذب اسلو ب میں بیان کیا ھے کہ گو یا یہ کتا ب ایک مسلسل مضمون پر مشتمل ھے۔ جھا ں ما وراء الطبیعت مسا ئل کا تذکرہ کیاگیا ھے ،قطعاًً ایسا محسوس نھیں ھو تا کہ عقل وقلب ان مسا ئل کے ادراک میں ایک دوسرے کی مخا لف جھت میں جارھے ھوں جبکہ فلسفے کی کتابو ں میں جب ایک فلسفی کسی مسئلے کی تحلیل کرتا ھے تو فقط عقلی نقطھٴ نظر کو مد نظر رکھتے ھوئے ۔ ایک فلسفی کے لئے ممکن ھی نھیں ھے کہ ایک ھی مسئلے کی تحلیل عقل وقلب دونوںاعتبار سے کر سکے ۔ یھی وجہ ھے کہ عقل فطر ی اور عقل عملی (1صطلاحاً جسے ادراک قلبی و وجد انی بھی کھا جاتا ھے ) کو ایک دوسرے سے جدا رکھا جاتا ھے کیونکہ رو ح انسانی میںان دونوں حقیقتو ں کی روش مختلف ھے ۔
نھج البلاغہ کی ایک خا صیت یہ بھی بیان کی گئی ھے کہ جس حد تک انسان وکا ئنا ت کے متعلق حقائق و وا قعات اس کتاب میں ذکر کر دئے گئے ھیں، ان سے بالا تر حقا ئق کا تصو ر بھی نھیں کیا جا سکتا ۔ مثا ل کے طور پر جھا ں زھد وتقویٰ سے متعلق گفتگو کی گئی ھے وھا ں ایسا معلوم ھو تا ھے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ھو رھے ھیں جسکی ساری زندگی صرف اور صرف زھد وپا ر سا ئی کے در میان ھی گزری ھے ۔
اسی طرح جن مقا مات پر جنگ اور مقد مات جنگ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ھے وھا ں ایسا محسوس ھو تا ھے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ھو رھے ھیں جسکی ولا دت میدان جنگ میں ھو ئی ھے اور نہ فقط ولا دت بلکہ اس نے جنگ کے دوران ھی اس دنیا سے کوچ کیا ھے ۔
جھا ں حضرت علی (ع) نے دنیا کی بے ثبا تی اور متضا د صفات کا تذکرہ کیا ھے وھا ں محسوس ھو تا ھے کہ گو یا علی (ع) نے دنیا کی خلقت کے او لین مر حلے ھی سے بشر یت کے ساتھ زندگی گزاری ھے اور دنیا کے خاتمے تک تمام حوادث کا بذات خو د مشا ھدہ کیا ھے
مالک اشتر کو حکو مت و سیاست کے اصول تعلیم فر ماتے ھیں تو ایک عام انسانی ذھن خیا ل کر تا ھے کہ روز اول ھی سے امام (ع)نے اپنی زندگی انھیں امور کو انجا م دینے میں گزاری ھے ۔ آج جب کہ چا رو ں طرف زمانہ میں تمدن وتھذیب کا دور دورا ھے ،نھج البلاغہ میں مذکورہ دستور ات کے تحت معا شرے کو مکمل طور پر مھذب و متمدن بنا یا جاسکتا ھے ۔
جھا ں لطیف تشبیھات وکنا یات کا ذکر فرمایا ھے وھا ں محسوس ھو تا ھے گو یا آپ کی تمام عمر ادب وفنون لطیفہ کے در میان گزری ھے ۔تو حید کے ارفع وا علی مبا حث کے متعلق خطبہ ارشاد فرماتے ھیں تو تمام فلسفی گنگ ھو کر رہ جاتے ھیں ۔
مختصراً یہ کہ جس طرح حضرت علی(ع) کی شخصیت ایسی مختلف اور متضا دصفا ت کی حا مل ھے کہ کسی ایک فرد میں اسکا اجتما ع ممکن نھیں ھے اسی طرح نھج البلاغہ بھی مختلف ومتضا د فردی واجتما عی مسا ئل وا مور کا سمندر اپنے اندر سمو ئے ھو ئے ھے ۔
نھج البلاغہ سے متعلق ایک غور طلب نکتہ یہ بھی ھے کہ بعض سا دہ لو ح حقیقت سے بے خبریا با خبر لیکن خود غرض افرا د یہ سمجھتے ھیں کہ نھج البلاغہ سید رضی (رح) کی تخلیق ھے۔ ھاں! اتنا ضرور ھے کہ حضرت علی (ع) کی زبان سے جاری شدہ بعض الفاظ یا جملے بھی اس میں شامل ھیں ۔اس طرح کے بے بنیا د دعوے ابن خلکان سے شروع ھو ئے اور دوسرے افراد نے اسکی پیر وی کی ھے۔
اولاًسید رضی (رح)کے ذریعے تخلیق کر دہ علم وحکمت ا ور ادب پا رے ھما ری دسترس میں ھیں۔ انکا شعر ی د یو ان بھی کافی مشھور ومعروف ھے ۔ اگر سید رضی(رح) کو درجھٴ اول کے شعراء اور ادباء میں فرض بھی کرلیا جائے تو سید رضی (رح)ماھر اقتصادیات و سماجیات یا حکیم وغیرہ نھیں ھیںیعنی حضرت علی(ع)کے سماجی زندگی اور حکمت سے متعلق عام خطبا ت تک بھی سید رضی (رح)کے ذھن کی رسائی نھیں ھے ۔
ثانیاً موجودہ نھج البلاغہ میں موجود آنحضرت(ع) کے خطب ومکتو بات ، سےد رضی(رح) کی ولا دت سے پھلے ھی سے دوسری کتا بو ں میں بیا ن کئے گئے ھیں ۔ ایسا قطعاًً نھیں ھے کہ نھج البلاغہ سید رضی (رح)کی تخلیق ھے بلکہ فقط تعصب ، خود غر ضی اور جھا لت اس بے بنیاد دعوے کا سبب ھیں۔
ثالثاًکون ھے جس نے حضرت علی(ع) کے زمانے سے لیکر سید رضی بلکہ آج تک اس بلند و بالا فصا حت و بلا غت اور مختلف حقا ئق ومسا ئل کو اس قدر سلیس انداز سے ایک ھی اسلوب میں بیان کیا ھو ؟ ما قبل و ما بعد اسلام عرب میں مو جو د اکثر خطب و مکتو بات تاریخ میں موجو د ھیں اور سینکڑ وں کتابیں اس مو ضو ع پر لکھی گئی ھیں لیکن ایسی ایک کتا ب بھی مشا ھدے میں نھیں آسکی ھے کہ جسکا اسلو ب اور انداز بیان نھج البلاغہ کے در جے تک پھونچ سکے ۔
کس قدر مضحکہ خیز ھے کہ نھج البلاغہ کے مشھور و معروف خطبے” ان الد نیا دار مجاز و الاخرة دار قرار “کو معا ویہ بن ابو سفیان سے منسوب کیا گیا ھے ۔ ”بیان اور تبیین “ میں جا حظ کے بقو ل معا ویہ کے پاس دنیا پر ستی اور حکو مت پرستی کی وجہ سے اتنی فر صت ھی کھا ں تھی کہ ان بلند و بالا مضامین و مطا لب میں اپنا سر کھپا سکتا ۔ اگر ” بیان اور تبیین “ کا مطا لعہ کیا جائے (سید رضی (رح)نے بھی عین عبارت کو نقل کیا ھے ) تو خود بخود وا ضح ھو جا ئیگا کہ معاویہ جیسے شخص کیلئے محال ھے کہ ان عالی مضا مین کے حا مل خطبے کو اپنی زبان سے جا ری کر سکے ۔
رابعاً سید رضی (رح) جیسی بلند شخصیت سے بعید ھے کہ کسی شخص کے کلام کو کسی دوسر ے شخص سے منسوب کرے ۔ بعض مخا لفین اپنے تقلید ی عقائد اور اعتقا دات کو ثابت کر نے کیلئے نہ فقط یہ کہ سید رضی (رح) جیسے عادل شخص کو فا سق اور دروغ گو ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٹھر اتے ھیں بلکہ حضرت علی (ع) کے وا لد بز ر گو ار جناب ابو طالب (ع) اور جناب ابوذر تک کو بھی کفار کی فھرست میں شامل کر دیتے ھیں ۔ ایسے افراد کیلئے سید رضی(رح) کو دروغ گو قرار دینا قطعاً اھمیت نھیں رکھتا کیونکہ تا ریخ میں بعض حضرات کے نزدیک کسی کو درو غ گو ثابت کر دینا بھی ایک فن ھے ۔
خامساً اگر نھج البلاغہ وا قعی سید رضی(رح) کی تخلیق اور ذھنی کا و شو ں کا نتیجہ ھے تو پھر کیو ں سید رضی (رح)نے اسقدر ان کلمات وجملا ت کو از حد اھمیت دی ھے۔ مثلاًایک خطبے کو نقل کر نے کے بعد سید رضی(رح) تحریر فر ماتے ھیں :” یہ خطبہ گز شتہ صفحات میں بھی نقل کیا جا چکا ھے لیکن روا یات کے اختلاف کی بنا پر یھاں اسکو دوبارہ نقل کیا گیا ھے ۔“ یا ” مذکورہ جملے ، گز شتہ خطبے میں دو سر ے انداز سے نقل کئے گئے تھے لیکن اختلاف کی وجہ سے یھاں دو بارہ نقل کیا جارھا ھے۔“
(1) ۔ طر فدا ران حضرت علی (ع) آپ کی بر تر ی ثابت کر نے کیلئے نھج البلاغہ کو بطور مثا ل پیش کر تے ھیں اورنتیجتاً کھتے ھیں :” اگر دوسرے افراد بھی حضرت علی (ع) ھی کی طرح بلند مقا مات و منا صب کے حامل تھے تو نھج البلاغہ کا کم از کم ایک تھائی یا چو تھا ئی حصہ ھی ان سے نقل کیا گیا ھو تا ۔ دوسرے الفاظ میں علی (ع) کے پا س نھج البلاغہ جیسا شا ھکا ر ھے، دوسرو ں کے پاس کیا ھے ؟“
(2) ۔ حضرت علی (ع) نے نھج البلاغہ میں اکثر مقا مات پر گز شتہ افرا د کے متعلق اپنی نا را ضگی اور عدم رضا یت وا ضح طور پر بیان کی ھے اور یھیں سے وا ضح ھو جا تا ھے کہ حضرت(ع) کے بارے میںرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فر ما ئشا ت کو ز مانے نے فرا موش کر دیا تھا ۔
نھج البلاغہ حضرت علی (ع) سے صا در ھو ئی ھے ، اس کے لئے عمدہ تر ین اور بھترین دلیل یھی ھے کہ تا حال نھیں سنا گیا ھے بلکہ غیر ممکن ھے کہ کو ئی دعو ی کر ے کہ نھج البلاغہ کا کوئی بھی خطبہ یا مکتو ب امیر المو منین (ع) سے صا در نھیں ھواھے کیو نکہ تمام شیعہ وسنی محدثین ومو رخین اس پر متفق ھیں کہ نھج البلاغہ کا کم از کم کچہ حصہ تو حتمی اور یقینی طور پر حضرت علی (ع) سے صا در ھو اھے اور اگر کو ئی شخص محد ثین و مور خین کے اس اتفاق کی تصدیق کردے ( اس بات سے انکار فقط اسی صورت میں کیا جاسکتا ھے جب اسلامی اصول وا حا دیث کو طا ق پر اٹھا کر رکہ دیاجا ئے ) تو اسکو لا محا لہ یہ اقرار کر نا پڑے گا کہ نھج البلاغہ از اول تا آخر حضرت علی (ع) سے صا در ھو ئی ھے کیو نکہ عربی ادبیا ت سے ذرہ برابر آشنا ئی اور واقفیت ر کھنے وا لا شخص بغیر کسی شک وتر دید کے کھہ دیگا کہ نھج البلاغہ فقط ایک اسلو ب اور سبک پر محیط ھے اور ایک ھی شخص سے صا در ھو ئی ھے۔
اگر خور شید کو بھی اپنی نور افشا نی کی تصدیق کیلئے دو سرے خود غرض افراد کی ضرورت ھو تی تو نہ جا نے کب کا اس کا ئنات کو الو داع کھہ چکا ھوتا اور کسی مجھو ل ومبھم گو شے میں پو شیدہ ھو کر رہ گیا ھو تا
نہج البلاغہ میں عبادت کی اقسام:
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ھیں۔
”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[1]
”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ھیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ھیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ھیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔
اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
پھلی قسم :تاجروں کی عبادت
فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“
یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ھیں۔ امام فرماتے ھیں یہ حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے تاجر حضرات کا ھم و غم فقط نفع اور انعام ھوتا ہے۔ کسی کی اھمیت اُس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نھیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رھا ھوتا ہے۔
دوسری قسم :غلاموں کی عبادت
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔
امام فرماتے ھیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ھیں یہ بھی حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نھیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رھا ہے۔
تیسری قسم :حقیقی عبادت :
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔
امام فرماتے ھیں کہ کچھ لوگ ایسے ھیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ھیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے۔ چونکہ یھاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ھیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ھیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔
عبادة کے آثار میں سے ایک اھم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ھیں :
”إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔(2)
امام علی(ع) فرماتے ھیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ھیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ھیں“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔
[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔
نہج البلاغہ میں رسول اکرم (ص) کی بعثت کے متعلق
یہاں تک کہ خداوند متعال نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور اپنے نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد (ص)کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب‘منتشر خواہشات اورمختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔کوئی اس کے ناموں کوبگاڑ رہا تھا۔اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اورجہالت سے باہر نکال لیا۔
اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔آپ کو مصائب سے نجات دلادی اور نہایت احترام سے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیا اور امت میں ویسا ہی انتظام کردیا جیسا کہ دیگر انبیاء نے کیا تھا کہ انہوں نے بھی قوم کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا جس کے لئے کوئی واضح راستہ اورمستحکم نشان نہ ہو۔
نہج البلاغہ میں قرآن اور احکام شرعیہ
انبیاء (ع) نے تمہارے درمیان تمہارے پروردگار کی کتاب کو چھوڑا ہے جس کے حلال و حرام۔ فرائض و فضائل ناسخ و منسوخ۔رخصت و عزیمت۔خاص و عام۔عبرت و امثال ۔مطلق و مقید۔محکم و متشابہ سب کو واضح کردیا تھا۔مجمل کی تفسیر کردی تھی ۔مجمل کی تفسیرکردی تھی گتھیوں کو سلجھا دیاتھا۔
اس میں بعض آیات ہیں جن کے علم کا عہد لیا گیا ہے اور بعض سے نا واقفیت کومعاف کردیا گیا ہے۔بعض احکام کے فرض کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے اور سنت سے ان کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوا ہے یا سنت میں ان کے وجوب کا ذکرہوا ہے جب کہ کتاب میں ترک کرنے کی آزادی کا ذکرتھا۔بعض احکام ایک وقت میں واجب ہوئے ہیں اور مستقبل میں ختم کردئیے گئے ہیں۔اس کے محرمات میں بعض پر جہنم کی سزا سنائیگئی ہے اور بعض گناہ صغیرہ ہیں جن کی بخشش کی امید دلائی گئی ہے۔بعض احکام ہیں جن کا مختصر بھی قابل قبول ہے اور زیادہ کی بھی گنجائش پائی جاتی ہے۔
نہج البلاغہ اورانبیاء کرام(ع) کا انتخاب
خدا وند متعال نے حضرت آدم (ع) کی اولاد میں سے ان انبیاء کا انتخاب کیا جن سے وحی کی حفاظت اور پیغام کی تبلیغ کی امانت کا عہد لیا اس لئے کہ آخری مخلوقات نے عہد الٰہی کو تبدیل کر دیا تھا۔اس کے حق سے نا واقف ہوگئے تھے۔اس کے ساتھ دوسرے خدا بنالئے تھے اور شیطان نے انہیں معرفت کی راہ سے ہٹا کر عبادت سے یکسر جدا کردیا تھا۔
پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے۔ انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کویاد دلائیں تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کوب اہرلائیں اور انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں۔یہ سروں پر بلند ترین چھت۔یہ زیر قدم گہوارہ۔یہ زندگی کے اسباب۔یہ فنا کرنے والی اجل۔یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض اور یہ پے پر دپے پیشآنے والے حادثات۔
اس نے کبھی اپنی مخلوقات کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ایسے رسول بھیجے ہیں جنہیں نہ عدد کی قلت کام سے روک سکتی تھی اورنہ جھٹلانے والوں کی کثرت۔ان میں جو پہلے تھا اس بعد والے کا حال معلوم تھا اور جو بعد میں آیا اسے پہلے والے نے پہنچوادیا تھا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں اور زمانے بیتتے رہے۔آباء و اجداد جاتے رہے اور اولاد و احفاد آتے رہے۔(۶)
بعثت (۷)رسول اکرم
یہاں تک کہ مالک نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور اپنے نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب‘منتشر خواہشات اورمختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔کوئی اس کے ناموں کوبگاڑ رہا تھا۔اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اورجہالت سے باہر نکال لیا۔
اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔آپ کو مصائب سے نجات دلادی اور نہایت احترام سے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیا اور امت میں ویسا ہی انتظام کردیا جیسا کہ دیگر انبیاء نے کیا تھا کہ انہوں نے بھی قوم کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا جس کے لئے کوئی واضح راستہ اورمستحکم نشان نہ ہو۔
پروردگار متعال نے زمین کے سخت و نرم اور شورو شیریں حصوں سے خاک کو جمع کیا اور اسے پانی سے اس قدر بھگویا کہ بالکل خالص ہوگئی اور پھر تری میں اس قدر گوندھا کہ لسدار بن گئی اور اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ بھی تھے اور جوڑ بھی۔اعضاء بھی تھے اور جوڑ بند بھی۔پھر اسے اس قدر سکھایا کہ مضبوط ہوگئی اور اس قدر سخت کیا کہ کنکھنانے لگی اور یہ صورت حال ایک وقت معین اور مدت خاص تک برقرار رہی جس کے بعد اس میں مالک نے اپنی روح کمال پھونک دی اور اسے ایسا انسان بنادیا جس میں ذہن کی جولانیاں بھی تھیں اورف کر کے تصرفات بھی۔کام کرنے والے اعضاء و جوارح بھی تھے اور حرکت کرنے والے ادوات و آلات بھی حق و باطل میں فرق کرنے والی معرفت بھی تھی اورمختلف ذائقوں ‘ خوشبووں‘ رنگ و روغن میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔ اسے مختلف قسم کی مٹی سے بنایا گیا جس میں موافق اجزاء بھی پائے جاتے تھے اورمتضاد و عناصربھی اور گرمی ‘ سردی‘ تری خشکی جیسے کیفیات بھی۔
پھر پروردگار نے ملائکہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی امانت کو واپس کریں اور اس کی معہودہ وصیت پرعمل کریں یعنی اس مخلوق کے سامنے سر جھکادیں اور اس کی کرامت کا اقرار کرلیں۔چنانچہ اس نے صاف صاف اعلان کردیا کہ آدم کو سجدہ کرو اور سب نے سجدہ بھی کرلیا سوائے ابلیس کے کہ اسے تعصب نے گھیر(۳) لیااور بد بختی غالب آگئی اور اس نے آگ کی خلقت کو وجہ عزت اور خاک کی خلقت کو وجہ ذلت قراردے دیا۔مگر پروردگار نے اسے غضب الٰہی کے مکمل استحقاق ،آزمائش کی تکمیل اور اپے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے یہ کہہ کر مہلت دے دی کہ” تجھے روز وقت معلوم تک کے لئے مہلت دی جا رہی ہے“۔
اس کے بعد پروردگار نے آدم کو ایک ایسے گھر(۴)میں ساک کردیا جہاں کی زندگی خوش گوار اور مامون و محفوظ تھی اور پھر انہیں ابلیس اور اس کی عداوت سے بھی با خبر کردیا۔لیکن دشمن نے ان کے جنت کے قیام اورنیک بندوں کی رفاقت سے جل کر انہیں دھوکہدے دیا اور انہو ں نے بھی اپنے یقین محکم کو شک اور عزم مستحکم کو کمزوری کے ہاتھوں فروخت کردیا اور اس طرح مسرت کے بدلے خوف کو لے لیا اورابلیس کے کہنے میں آکر ندامت کا سامان فراہم کرلیا۔پھر پروردگار نے ان کے لئے توبہ کا سامان فراہم کردیا اور اپنے کلمات رحمت کی تلقن کردی اور ان سے جنت میں واپسی کاوعدہ کرکے انہیں آزمائش کی دنیامیں اتار دیا جہاں نسلوں کا سلسلہ قائم ہونے والا تھا۔
پروردگار نے تم لوگوں پر حج بیت الحرام کو واجب قرار دیا ہے جسے لوگوں کے لئے قبلہ بنایا ہے اور جہاں لوگ پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں اورویسا انس رکھتے ہیں جیسے کبوتر اپنے آشیانہ سے رکھتا ہے۔حج بیت اللہ کو مالک نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے ایقان کی نشانی قراردیا ہے۔اس نے مخلوقات میں سے ان بندوں کا انتخاب کیا ہے جواس کیآواز سن کرلبیک کہتے ہیں اوراس کے کلمات کی تصدیق کرتے ہیں۔انہوں نے انبایء کے مواقف ہیں وقوف کیا ہے اور طواف عرش کرنے والے فرشتوں کا انداز اختیار کیا ہے۔یہ لوگ اپنی عبادت کے معاملہ میں برابر فائدے حاصل کر رہے ہیں اورمغفرت کی وعدہ گاہ کی طف تیزی سے سبقت کر رہے ہیں۔
پروردگار نے کعبہ کو اسلام کی نشانی اور بے پناہ افراد کی پناہ گاہ قرار دیا ہے۔اس کے حج کو فرض کیا ہے اور اس کے حق کو واجب قرار دیا ہے۔تمہارے اوپر اس گھر کی حاضری کو لکھ دیا ہے اور صاف اعلان کردیا ہے کہ” اللہ کے لئے لوگوں کی ذمہ داری ہیکہ اس کے گھر کا حج کریں جس کے پاس بھی اس راہ کو طے کرنے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔
اسلام کي نظر ميں انسان جتنا خدا کے نزديک ھوجائے اُس کا مرتبہ و مقام بھي بلند ھوتا جائے گا اور جتنا اُس کا مرتبہ بلند ھوگا اسي حساب سے اُس کي روح کو تکامل حاصل ھوتا جائے گا۔ حتي کہ انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جو بلند ترين مقام ہے جھاں وہ اپنے اور خدا کے درميان کوئي حجاب و پردہ نھيں پاتا حتي کہ يھاں پہنچ کر انسان اپنے آپ کو بھي بھول جاتا ہے۔
يھاں پر امام سجاد عليہ السلام کا فرمان ہے۔ جو اسي مقام کو بيان کرتا ہے۔ امام سجاد عليہ السلام فرماتے ھيں:
”إلٰہي ہَبْ لي کمالُ الانْقِطَاعُ إليکَ وَ اٴَنرْ اٴبصارُ قلوبِنَا بُعينآء نَظَرَہَا إلَيْکَ حَتّٰي تَخْرَقُ اٴَبْصَارَ الْقُلُوْبِ حُجُبَ النُّوْرِ فَتَصِلَ إليٰ مَعْدَنِ الْعَظْمَةِ“۔[1]
”خدايا ميري (توجہ) کو غير سے بالکل منقطع کردے اور ھمارے دلوں کو اپني نظر کرم کي روشني سے منوّر کردے۔ حتي کہ بصيرت قلوب سے نور کے حجاب ٹوٹ جائيں اور تيري عظمت کے خزانوں تک پہنچ جائيں۔ اس فرمان معصوم سے معلوم ھوتا ہے کہ جب انسان خُدا سے متصل ھوجاتا ہے اس کي توجہ غير خُدا سے منقطع ھوجاتي ہے خدا کے علاوہ سب چيزيں اُس کي نظر ميں بے ارزش رہ جاتي ھيں۔ وہ خود کو خداوند کي مملوک سمجھتا ہے۔ اور اپنے آپ کو خدا کي بارگاہ ميں فقير بلکہ عين فقر سمجھتا ہے اور خدا کو غني بالذات سمجھتا ہے“۔
” انسان خدا کا زرخريد غلام ہے اور يہ خود کسي شئي پر قابو نھيں رکھتا ہے۔“
لہٰذا خداوندکريم کا قرب کيسے حاصل کيا جائے تاکہ يہ بندہ خدا کا محبوب بن جائے اور خدا اس کا محبوب بن جائے۔ معصومین علیھم السلام فرماتے ھیں: خدا سے نزدیک اور قرب الٰھی حاصل کرنے کا واحد راستہ اس کی عبادت اور بندگی ہے۔ یعنی انسان اپنی فردی و اجتماعی زندگی میں فقط خدا کو اپنا ملجاٴ و ماوا قرار دے۔ جب انسان اپنا محور خدا کو قرار دے گا تو اُس کا ھر کام عبادت شمار ھوگا۔ تعلیم و تعلم بھی عبادة، کسب و تجارت بھی عبادة۔ ضردی و اجتماعی مصروفیات بھی عبادة گویا ھر وہ کام جو پاک نیت سے اور خدا کے لئے ھوگا وہ عبادت کے زمرے میں آئے گا۔
ابھی عبادت کی پہچان اور تعریف کے بعد ھم عبادة کی اقسام اور آثار عبادت کو بیان کرتے ھیں۔ تاکہ عبادت کی حقیقت کو بیان کیا جاسکے۔ خداوند سے توضیقات خیر کی تمنّا کے ساتھ اصل موضوع کی طرف آتے ھیں۔
عبادت کی تعریف:
”اَلْعِبَادَةُ ہِيَ الْخُضُوْعُ مِمَّنْ یَریٰ نَفْسَہُ غَیْرَ مُسْتَقِلٍ فِي وُجُوْدِہِ وَ فِعْلِہِ اٴَمَامَ مَنْ یَکُونُ مُسْتَقِلاً فِیْہَا“۔
” عبادة یعنی جھک جانا اُس شخص کا جو اپنے وجود عمل میں مستقل نہ ھو اُس کی ذات کے سامنے جو اپنے وجود و عمل میں استقلال رکھتا ھو “
یہ تعریف بیان کرتی ہے کہ ھر کائنات میں خدا کے علاوہ کوئی شئی استقلال نھیں رکھتی فقط ذات خدا مستقل اور کامل ہے۔ اور عقل کا تقاضا ہے کہ ھر ناقص کو کامل کی تعظیم کرنا چاھی یٴے چونکہ خداوند متعال کامل اور اکمل ذات ہے بلکہ خالق کمال ہے لہذا اُس ذات کے سامنے جھکاوٴ و تعظیم و تکریم معیار عقل کے عین مطابق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مفاتیح الجنان، مناجات شعبانیہ، شیخ عباس قمی۔
[2] سورہ نحل آیت ۷۵۔