امام علي کا مرتبہ شہيدمطہري کي نظرميں

غلام حسين متو

علي، تاريخ کي وہ بے مثال ذات ہے جس نے صديوں سے صاحبان فکر کو اپني طرف متوجہ کر رکھا ہے تاريخ کے تسلسل ميں دنيا کي عظيم ہستياں آپ کے گرد طواف کرتي ہيں اور آپکو اپني فکر و دانش کا کعبہ قرار ديا ہے ۔دنيا کے نامور اديب آپکي فصاحت وبلاغت کے سامنے ہتھيار ڈالے ہو ئے نظر آتے ہيں اور مردان علم و دانش آپکے مقام علمي کو درک کر نے سے اظہار عجز کرتے ہو ئے دکھا ئي ديتے ہيں، مصلحين عالم آپ کے کمال کي عدالت خواہي و انصاف پسندي کو ديکھکر  دنگ رہ جاتے ہيں، خدمت خلق کرنے والے انسان ،آپکي يتيم پروري و غريب نوازي سے سبق حاصل کرتے ہيں دنيا کے معروف حکمران و سياستمدار کو فہ کے گورنر مالک اشتر کے نام آپ کے لکھے ہو ئے خط کو عادلانہ اور منصفانہ سياسي نظام کا منشور سمجھتے ہيں دنيا ئے قضاوت آج بھي آپکے مخصوص طريقہٴ کا ر کي قضاوت اور مسائل کو حل و فصل کے انداز سے انگشت بدندان ہے انساني سماج کے کسي بھي طبقہ سے وابستہ جو بھي فرد آپکے در پر آيا فضل و کمالا ت کے ايک عميق دريا سے روبرو ہو ا اور زبان حال سے سب نے يہ شعر پڑھا : 

رن ميں غازي کھيت ميں مزدور منبر پرخطيب    اللہ اللہ کتنے رخ ہيں ايک ہي تصوير ميں 

يہ جارج جر داق ہے ايک مسيحي صاحب قلم اور اديب، علي  کي ذات سے اس قدر متاٴثر ہے کہ زمانے سے ايک اور علي  پيدا کرنے کي يو ں فرياد کرتا ہے :

”        اے زمانے ! تيرا کيا بگڑتا اگر تو اپني پوري توانائي کو بروي کار لاتا اور ہر عصر و زمانے ميں علي  جيسا وہ عظيم انسان عالم بشريت کو عطا کرتا جو علي کے جيسي عقل، علي جيسا دل، علي کے جيسي زبان اور علي  کے جيسي شمشير رکھنے والا ہوتا“[1]

اور يہ شکيب ارسلان ہے عصر حاضر ميں دنيائے عرب کا ايک معروف مصنف و صاحب قلم لقب بھي ”امير البيان “ ہے مصر ميں ان کے اعزاز ميں ايک سمينار بلا يا گيا اسٹيج پر ايک صاحب نے يہ کہا کہ تا ريخ اسلام ميں دوشخص اس بات کے لائق ہيں کہ ان کو ”امير سخن “کہا جا ئے ايک علي بن ابيطالب اور دوسرے شکيب ارسلان ،شکيب ارسلان يہ سنکر غصہ ہو تے ہيں اور فوراً کھڑے ہو کر اسٹيج پر آتے ہيں اور اس شخص پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہيں:

”ميں کہاں ! اور علي بن ابيطالب  کي ذات والا کہاں! ميں تو علي  کا بند کفش بھي شمار نہيں ہو سکتا ہوں۔ “[2]

شہيد مطہري جو کہ عصر حاضر ميں عالم اسلام کے فکري، علمي اور اصلاحي مفاخر ميں سے ايک قيمتي سرمايہ شمار ہو تے ہيں آپ نے اپنے تمام آثار و کتب ميں ايک منفرد اور نئے انداز ميں علي  کي شخصيت کے بارے ميں بہت کچھ لکھا ہے آپ نے تمام مباحث اور مو ضوعات ميں چاہے وہ فلسفي ہوں يا عرفاني اخلاقي ہوں يا اجتماعي، سياسي ہوں يا ثقافتي، تربيت سے متعلق ہوں ہو يا تعليم سے، کلام ہو يا فقہ، جامعہ شناسي ہو يا علم نفسيات، ہر موضوع کے سلسلے ميں علي  کي ذات، شخصيت گفتار و کردار کو بطور مثال پيش کيا اور علي  کي زندگي کے ان پہلووٴں کو اجاگر کيا ہے کہ جن کے بارے ميں کسي نے آج تک نہ کچھ لکھا ہے اور نہ کچھ کہا ہے ۔

تلخ اعتراف :

آپ نے اپنے آثار و کتب ميں جا بجا اس بات کا افسوس کيا ہے کہ وہ قوم جو کہ علي  کي پيروي کا دم بھرتي ہے نہ وہ خود علي  کي شخصيت سے آشنا ہے اور نہ وہ دوسروں کو علي  سے آشنا کرا سکي آپ فر ما تے ہيں ”ہم شيعوں کو اعتراف کر نا چاہيئے کہ ہم جس شخصيت کي پيروي پر افتخار کرتے ہيں اس کے بارے ميں ہم نے دوسروں سے زيادہ ظلم يا لا اقل کو تا ہي کي ہے حقيقت يہ ہے کہ ہماري کو تا ہي بھي ايک ظلم ہے ہم نے علي  کي معرفت اور پہچان يا نہيں کرنا چاہي يا ہم پہچان نہيں کر سکے، ہمارا سب سے بڑا کا رنامہ يہ ہے کہ ان احاديث و نصوص کو دہراتے ہيں جو پيغمبر  نے آپ کے بارے ميں ارشاد فرما ئے ہيں اور ان لو گوں کو سب و شتم کرتے ہيں جو ان احاديث کا انکار کرتے ہيں ہم نے علي  کي حقيقي شخصيت پہچاننے کے بارے ميں کو ئي کوشش نہيں کي[3]

اس مضمون ميں ہم علي  کي زندگي کے بعض اہمترين پہلووٴں اور گو شوں کا ذکر کريں گے جن پر شہيد مطہري نے ايک خا ص اور جديد انداز ميں بحث کي ہے، کہا جا سکتا ہے کہ ان گو شوں پر بحث کرنا آپ کي فکر کا ابتکار ہے۔

علي  انسان کامل :

دنياکے تقريباً تمام مکاتب فکر ميں انسان کامل کا تصور پا يا جا تا ہے اور سب نے زمانہ قديم سے ليکر آج تک اس موضوع کے بارے ميں بحث کي ہے فلسفي مکاتب ہو ں يا عرفاني، اجتماعي ہوں يا سياسي، اقتصادي ہوں يا دوسرے ديگر مکاتب سب نے انسان کا مل کا اپنا اپنا ايک خاص تصور پيش کيا ہے انسان کامل يعني مثالي انسان، نمونہ اور آئيڈيل انسان۔ اس بحث کي ضرورت اس لئے ہے کہ انسان ايک آئيڈيل کا محتاج ہے اور انسان کا مل اس کے لئے ايک بہترين نمونہ اور مثال ہے جس  کو سامنے رکھکر زندگي گذاري جا سکتي ہے ۔يہ انسان کا مل کو ن ہے ؟ اس کي خصوصيا ت اور صفات کيا ہيں ؟ اس کي تعريف کيا ہے ؟ان سوالا ت کا جواب مختلف مکاتب فکر نے ديا :

فلاسفہ کہتے ہيں انسان کامل يعني وہ انسان ہے جسکي عقل کمال تک پہونچي ہو ۔

 مکتب عرفان کہتا ہے انسان کا مل وہ انسان ہے جو عاشق محض ہو (عاشق ذات حق )

سو فسطائي کہتے ہيں کہ جسکے پاس زيادہ طاقت ہو وہي انسان کامل ہے ۔

 سوشليزم ميں اس انسان کو انسان کا مل کہا گيا ہے جو کسي طبقہ سے وابستہ نہ ہو خاص کر اونچے طبقہ سے وابستہ نہ ہو

 ايک اور مکتب بنام مکتب ضعف يہ لوگ کہتے ہيں انسان کامل يعني وہ انسان جسکے پاس قدرت و طاقت نہ ہو، اس لئے کہ قدرت تجاوز گري کا موجب بنتي ہے ۔

شہيد مطہري فرماتے ہيں ان مکاتب ميں انسان کے صرف ايک پہلو کو مد نظر رکھا گيا ہے اور اسي پہلو ميں کمال اور رشد حاصل کرنے کو انسا ن نام اور کا کمال سمجھا گيا جبکہ انسان مختلف ابعاد و پہلو کا نا م ہے۔ انسان ميں بہت سي خصوصيات پائي جا تي ہيں جن تمام پہلووٴں اور خصوصيات کا نام انسان ہے لہذا صرف ايک پہلو کو نظر ميں رکھنا ان سب مکاتب کا مشترکہ عيب اور نقص ہے ۔

شہيد مطہري کي نظر ميں انسان کامل :

آپ انسان کامل کي تعريف يو ں کرتے ہيں کہ ”انسان کامل يعني وہ انسان جسميں تمام انساني کمالات اور خصوصيات نے بحد اعلي اور تناسب و توازن کے ساتھ رشد پايا ہو ۔“[4]

”انسان کامل يعني وہ انسان جو تمام انساني قدروں کا ہيرو ہو ،وہ انسان جو انسانيت کے تمام ميدانوں ميں مر د ميداں اور ہيرو ہو۔“[5]

”انسان کامل يعني وہ انسان جس پر حالات و واقعات اثر انداز نہ ہوں “[6]

علي  کيوں انسان کامل ہيں ؟

شہيد مطري اس بات کي تاکيد کر تے ہيں کہ علي بن ابيطالب  پيغمبر اکرم  کے بعد انسان کامل ہيں آپ بيان کرتے ہيں کہ:

 ”علي انسان کامل ہيں اس لئے کہ آپ ميں انساني کمالات و خصوصيات نے بحد اعلي اور تناسب و توازن کے ساتھ رشد پا يا ہے “[7]

دوسري جگہ آپ نے فرمايا :

”علي  قبل اس کے کہ دوسرے کے  لئے امام عادل ہوں اور دوسروں کے ساتھ عدل سے کام ليں خودآپ شخصاً ايک متعادل و متوازن انسان تھے  آپ نے تمام انساني کمالات کو ايک ساتھ جمع کيا تھا آپ کے اند ر عميق اور گہرا فکر و انديشہ بھي تھا اور لطيف و نرم انساني جذبات بھي تھے کمال روح و کمال جسم دونوں آپ کے اندر پا ئے جا تے تھے رات کو عبادت پروردگار ميں يو ں مشغول ہو جا تے تھے کہ ماسوا اللہ سب سے کٹ جاتے تھے اور پھر دن ميں سماج کے اندر رہ کر محنت و مشقت کيا کيا کرتے تھے دن ميں لو گوں کي نگاہيں آپ کي خدمت خلق، ايثار و فداکاري ديکھتي تھيں اور ان کے کان آپ کے موعظہ، نصيحت اور حکيمانہ کلام کو سنتے تھے رات کو ستارے آپ کے عابدانہ آنسووٴں کا مشاہدہ کرتے تھے اور آسمان کے کان آپ کے عاشقانہ انداز کے مناجات سنا کرتے تھے ۔آپ مفتي بھي تھے اور حکيم بھي ،عارف بھي تھے اور سماج کے رہبر بھي، زاہد بھي تھے اور ايک بہترين سياستمدار بھي، قاضي بھي تھے اور مزدور بھي، خطيب بھي تھے اور مصنف بھي خلاصہ آپ ہر ايک جہت سے ايک انسان کامل تھے اپني تمام خوبصورتي اور حسن کے ساتھ۔“[8]

آپ نے علي  کے انسان کامل ہو نے پر بہت سي جگہوں پر بحث کي اور متعدد دليليں پيش کيں ہيں آپ ايک جگہ لکھتے ہيں کہ ”ہم لوگ علي  کو انسان کامل کيوں سمجھتے ہيں ؟ اس لئے کہ آپ کي ”ميں “”ہم “ميں بدل گئي تھي اس لئے کہ آپ اپني ذات ميں تمام انسانوں کو جذب کرتے تھے آپ ايک ايسي فردانسان نہ تھے جو دوسرے انسانوں سے جداہو ؛نہيں !بلکہ آپ اپنے کو ايک بدن کا ايک جزء، ايک انگلي، ايک عضو کي طرح محسوس کرتے تھے کہ جب بدن کے کسي عضو ميں درد يا کو ئي مشکل آتي ہے تو يہ عضو بھي درد کا احساس کرتا ہے ۔[9]

”جب آپ کو خبر دي گئي کہ آپ کے ايک گورنر نے ايک دعوت اور مہماني ميں شرکت کي تو آپ نے ايک تيز خط اس کے نام لکھا يہ گورنر کس قسم کي دعوت ميں گيا تھا ؟کيا ايسي مہماني ميں گيا تھا جہاں شراب تھي ؟يا جھاں ناچ گانا تھا ؟يا وہاں کوئي حرام کام ہو رہا تھا ؟نہيں، تو پھر آپ نے اس گورنر کو خط ميں کيوں اتني ملامت کي، آپ لکھتے ہيں :<وما ظنت انک تجيب الي طعام قوم عائلھم مجفّو و غنيّھم مد عو >۔

گورنر کا گناہ يہ تھا کہ اس نے ايسي دعوت ميں شرکت کي تھي جسميں صرف امير اور مالدار لو گوں کو بلايا گيا تھا اور فقر اء و غربا ء کو محروم رکھا گيا تھا[10]

شہيد مطہري مختلف انحرافي اور گمراہ فرقوں کے خلاف جنگ کو بھي آپ کے انسان کامل ہو نے کا ايک نمونہ سمجھتے ہيں آپ فرماتے ہيں :

”علي کي جامعيت اور انسان کامل ہو نے کے نمونوں ميں سے ايک آپ کا علمي ميدان ميں مختلف فرقوں اور انحرافات کے مقابلہ ميں کھڑا ہو نا اور ان کے خلاف بر سر پيکار  ہو نا بھي ہے ہم کبھي آپ کو مال پر ست ،دنيا پرست اور عياش انسانوں کے خلاف ميدان ميں ديکھتے ہيں اور کبھي ان سياستمدار وں کے خلاف نبرد آزما جنکے دسيوں بلکہ سيکڑوں چہرے تھے اور کبھي آپ جاہل ،منحرف اور مقدس مآب لو گوں سے جنگ کرتے ہو ئے نظر آتے ہيں ۔“[11]

علي  ميں قوت کشش بھي اور قوت دفع بھي :

شہيد مطہري ۻ انسانوں کو دوسرے انسانوں کو جذب يا دور کرنے کے اعتبار سے چارقسموں ميں تقسيم کرتے ہيں :

۱)وہ انسان جن ميں نہ قوت کشش ہے اور نہ قوت دفع، نہ ہي کسي کو اپنا دوست بنا سکتے ہيں اور نہ ہي دشمن، نہ لو گوں کے عشق و محبت کو ابھارتے ہيں اور نہ ہي کينہ و نفرت کو يہ لوگ انساني سماج ميں پتھر کي طرح ہيں کسي سے کو ئي مطلب نہيں ہے!

۲)وہ انسان جن ميں قوت کشش ہے ليکن قوت دفع نہيں ہے تمام لو گوں کو اپنا دوست و مريد بنا تے ہيں ظا لم کو بھي مظلوم کو بھي نيک انسان کو بھي اور بد انسان کو بھي اور کو ئي انکا دشمن نہيں ہے ․․․آپ فرماتے : ايسے لو گ منافق ہو تے ہيں جو ہر ايک سے اس کے ميل کے مطابق پيش ا ٓتے ہيں اورسبکو راضي کرتے ہيں ليکن ايک مذہبي انسان ايسا نہيں بن سکتا ہے وہ نيک و بد، ظالم و مظلوم دونوں کو راضي نہيں رکھ سکتا ہے ۔

۳)کچھ لو گ وہ ہيں جنميں لوگوں کو اپنے سے دفع اور دور کرنے کي صلاحيت ہے ليکن جذب کرنے کي صلاحيت نہيں ہے يہ لوگ ،لوگوں کو صرف اپنا مخالف اور دشمن بنانا جانتے ہيں اور بس شہيد مطہري ۻ فرماتے ہيں يہ گروہ بھي ناقص ہے اس قسم کے لوگ انساني اور اخلاقي کمالات سے خالي ہو تے ہيں اس لئے کہ اگر ان ميں انساني فضيلت ہو تي تو کو ئي نہ کو ئي ولو کتنے ہي کم تعداد ميں ان کا حامي اور دوست ہو تا اس لئے کہ سماج کتنا ہي برا کيوں نہ ہو بہر حال ہميشہ اس ميں کچھ اچھے لو گ ہو تے ہيں ۔

۴)وہ انسان جن ميں قوت کشش بھي ہے اور قوت دفع بھي  کچھ لوگوں کو اپنا دوست و حامي، محبوب و عاشق بناتے ہيں اور کچھ لو گوں کو اپنا مخالف اور دشمن بھي، مثلاًوہ لو گ جو مذہب اور عقيدہ کي راہ ميں جد و جہد کرتے ہيں وہ بعض لو گوں کو اپني طرف کھينچتے ہيں اور بعض کو اپنے سے دور کرتے ہيں۔[12]

آپ فرماتے ہيں کہ ان کي بھي چند قسميں ہيں کبھي قوت کشش و دفع دونوں قوي ہے اور کبھي دونوں ضعيف، کبھي مثبت عناصر کو اپني طرف کھينچتے ہيں اور کبھي منفي و باطل عناصر کو اپنے سے دور کرتے ہيں اور کبھي اس کے بر عکس اچھے لو گوں کو دور کرتے ہيں اور باطل لو گوں کو جذب کرتے ہيں۔ پھر آپ حضرت علي  کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ علي بن ابيطالب  کس قسم کے انسان تھے آيا وہ پہلے گروہ کي طرح تھے يا دوسرے گروہ کي طرح، آپ ميں صرف قوت دفع تھي يا قوت کشش و دفع دونوں آپکے اندر موجود تھيں ”علي وہ انسان کامل ہيں جس ميں قوت کشش بھي ہے اور قوت دفع بھي ،اور آپکي دونوں قوتيں بہت قوي ہيں شايد  کسي بھي صدي ميں علي  جيسي قوت کشش و دفع رکھنے والي شخصيت موجود نہ رہي ہوں[13]

اس لئے کہ آپ نے حق پر ست اور عدالت و انسانيت کے دوستداروں کو اپنا گرويدہ بنايا اور باطل پرستوں، عدالت کے دشمنوں اور مکار سياست کے پجاريوں اور مقدس مآب جيسے لوگوں کے مقابلہ کھڑے ہو کر ان کو اپنا دشمن بھي بنا يا ۔

حضرت علي  کي قوت کشش:

آپ حضرت علي  کي قوت کشش کے ضمن ميں فرماتے ہيں ”علي  کے دوست و حامي بڑے عجيب، فداکار، تاريخي، قرباني دينے والے، آپ کے عشق ميں گو يا آگ کے شعلے کي طرح سوزان و پر فروغ، آپ کي راہ ميں جان دينے کو افتخار سمجھتے ہيں اور آپ کي حمايت ميں ہر چيز کو فراموش کرتے ہيں آپ کي شہادت سے آج تک آپ کي قوت کشش کام کر رہي ہے اور لو گوں کو حيرت ميں ڈال رہي ہے[14]

”آپ کے گر د شريف، نجيب، خدا پرست و فداکار، عادل و خدمت گذار، مہربان و ايثار گر عناصر، پروانے کي طرح چکر لگا تے ہيں ايسے انسان جن ميں ہر ايک کي اپني مخصوص تاريخ ہے معاويہ اور امويوں کے زمانے ميں آپ کے عاشقوں اور حاميوں کو سخت شکنجوں کا سامنا رہا ہے ليکن ان لو گوں نے ذرہ برابربھي آپ کي حمايت و دوستي ميں کو تا ہي نہيں کي اور مرتے دم تک آپ کي دوستي پر قائم رہے ۔“[15]

حضرت علي  کي قوت کشش کا ايک نمونہ :

آپ کے با ايمان و با فضيلت اصحاب ميں سے ايک نے ايک دن کو ئي خطاء کي جس کي بنا پر اس پر حد جاري ہو ني تھي آپ نے اس ساتھي کا داہناہاتھ کا ٹا، اس نے بائيں ہاتھ ميں اپنے اس کٹے ہو ئے ہاتھ کو اٹھا يا اس حالت ميں کہ اس کے ہاتھ سے خون جا ري تھا اپنے گھر کي طرف جا رہا تھا راستہ ميں ايک خارجي (دشمن حضرت علي) ملا جس کا نام ابن الکواء تھا اس نے چا ہا کہ اس واقعہ سے اپنے گروہ کے فائدے اور علي کي مخالفت ميں استفادہ کرے وہ بڑي نرمي کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا ارے کيا ہوا؟تمہارا ہاتھ کس نے کا ٹا ؟! عاشق علي نے اس نامراد شخص کا يوں جواب ديا :

قطع يميني سيد الوصيين و قائد الغرّالمحجلين و اولي الناس بالموٴمنين يعني ميرے ہاتھ کو اس شخص نے کاٹا جو پيغمبروں کا جانشين ہے، قيامت ميں سفيد رو انسانوں کا پيشوا اور مومنين کے لئے سب سے حقدار ہے يعني علي بن ابيطالب  نے، جو ہدايت کا امام، جنت کي نعمتوں کي طرف سب سے پيش قدم اور جاہلوں سے انتقام لينے والا ہے...... (بحار الانوار ج۴۰ ص ۲۸۱و ۲۸۲)

ابن الکواء نے جب يہ سنا تو کہا واے ہو تم پر اس نے تمہارے ہاتھ کو بھي کاٹا اور پھر اس کي تعريف بھي کر رہے ہو ! امام کے اس عاشق نے جواب ديا ”ميں کيوں اس کي تعريف نہ کروں اس کي دوستي و محبت تو ميرے گو شت و خون ميں جاملي ہے خدا کي قسم انھوں نے ميرا ہاتھ نہيں کا ٹا مگر اس حق کي وجہ سے جو کہ خدا نے معين کيا ہے ۔تاريخ ميں علي  کي قوت کشش کے بارے ميں اس طرح کے بہت سے واقعات مو جود ہيں آپ کي زندگي ميں بھي اور شہادت کے بعد بھي ۔

حضرت علي  کي قوت دفع :

علي جس طرح لو گو ں کو اپني طرف جذب کرتے ہيں اسي طرح باطل، منافق، عدل و انصاف کے دشمنوں کو اپنے سے دور اور ناراض بھي کرتے ہيں ۔شہيد مطہري ۻ فرماتے ہيں:

”علي وہ انسان ہے جو دشمن ساز بھي ہے اور ناراض ساز بھي اور آپ کے عظيم افتخارات ميں سے ايک ہے ۔“[16]

اس لئے کہ جن لو گوں کے مفادات نا انصاف و غير عادلانہ نظام کے ذريعہ حاصل ہو تے تھے وہ کبھي بھي آ پ کي عدالت و انصاف پسندي سے خوش نہيں ہو ئے۔

 ”لہذا آپ کے دشمن آپکي زندگي ميں اگر دوستوں سے زيادہ نہيں تو کم بھي نہيں تھے ۔“[17]

آپ اس سلسلے ميں مزيد لکھتے ہيں کہ:

’’نہ آپ کے جيسے غيرت مند دوست کسي کے تھے اور نہ آپ کے جيسے دشمن کسي کے تھے آپ نے لو گو ں کو اسقدر دشمن بنايا کہ آپ کي شہادت کے بعد آپ کے جنازے پر حملہ ہو نے کا احتمال تھا آپ نے خود بھي اس حملہ کا احتمال ديا تھا لہذا آپ نے وصيت کي تھي کہ آپکي قبر مخفي رکھي جا ئے اور آپکے فرزندوں کے علاوہ کو ئي اس سے با خبر نہ ہو ايک صدي گذرنے کے بعد امام صادق عليہ السلام نے آپ کي قبر کا پتہ بتا يا“[18]


[1]صدائے عدالت انساني  جلد ۳ ص ۲۴۷
[2]سيري در نہج البلاغہ صفحہ ۱۹ و ۲۰
[3]سيري در نہج البلاغہ صفحہ۳۸ و ۳۹
[4]انسان کامل ص۱۵
[5]انسان کامل ص۵۹
[6]وہي صفحہ ۷۵۴
[7]وہي صفحہ ۴۳
[8]جاذبہ و دافعہ علي  ص۱۰
[9]گفتار ہاي معنوي ص ۲۲۸
[10]گفتار ہاي معنوي ص ۲۲۸
[11]جاذبہ و دافعہ علي  ص ۱۱۳
[12]جاذبہ و دافعہ علي  ۲۱ تا ۲۸
[13]وہي مدرک ص ۳۱
[14]وہي مدرک ص ۳۱
[15]وہي مدرک ص ۳۱
[16]جاذبہ و دافعہ علي  ص ۱۰۸
[17]جاذبہ و دافعہ علي  ص ۱۰۸
[18]جاذبہ و دافعہ علي  ص ۱۱۰