کتاب نهج البلاغه کے سلسله میں ایک یه اعتراض یه بهی هوتا هے که سید رضی اعلی الله مقامه نے خطبات اور مکتوبات کا حواله ذکر نهیں کیا اسی وجه سے اس کتاب کے اعتبار میں شک و تردید ایجاد هوتا هے٬ لهذا یه افراد کهتے هیں که نهج البلاغه ایک مرسل کتاب هے اور فقهی طور پر اس کو مستند قرار نهیں دیا جاسکتا٬ وغیره(1)
نهج البلاغه کے سلسله میں تحقیق کرنے والوں نے اس سوال کے جواب میں عالمانه جد و جهد کی هیں اور انھوں نے نهج البلاغه کے منابع و ماخذ کو سید رضی سے پهلے اور سید رضی کے بعد تلاش کئے هیں۔
هم یهاں پر ان جد وجهد کو مختصر طور پر ذکر کرتے هیں:
1- استناد نهج البلاغه٬ تالیف٬ علی خان عرشی٬ موصوف نے پهلے نهج البلاغه کی جمع آوری اور حضرت امیر المومنین علیه السلام کی طرف نهج البلاغه کے کلمات کی نسبت کو ثابت کرنے کے لئے بهت سے بحثیں بیان کی هیں اور نهج البلاغه کو دوسروں کی طرف منسوب کرنے کے سلسله میں دوسروں کے اعتراضات کا جواب دیا هے٬ اس کے بعد نهج البلاغه کے اسناد و مدارک کو سید رضی علیه الرحمه سے پهلے لکھے جانے والے شیعه و سنی منابع و مآخذ سے پیش کئے هیں۔
2- اسنادومدارک نهج البلاغه٬ تالیف: سید مرتضی آیت الله زاده شیرازی٬ جس کا فارسی ترجمه بهی هوچکا هے اور انتشارات امیر کبر نے سن 1362 هجری شمسی میں اسے شایع کیا هے۔
اس کتاب کی چوتھی جلد (سات جلدوں کے مجموعه میں سے) نهج البلاغه سے آشنائی کے سلسله میں لکهی گئی هے۔
3- مصادر نهج البلاغه واسانیده٬ تالیف: سید عبد الزهرا الحسینی٬ یه کتاب چار جلدوں پر مشمتل هے اور نهج البلاغه کے منابع و مآخذ کو چار حصوں میں تقسیم کیا هے:
الف: وه منابع و مآخذ که جو سن 400 هجری قمری سے پهلے شایع هوچکے هیں اور ابھی بھی موجود هیں۔
ب: وه منابع و مآخذ که جو نهج البلاغه سے پهلے شایع هوچکے هیں لیکن ان سے بالواسطه نقل کیا هے۔
ج: وه منابع و مآخذ که جو سید رضی کے بعد لکھے گئے هیں لیکن حضرت امیر کے اس کلام کو متصل اسناد کے ساتھ ذکر کیا هے که جن میں سید رضی کا ذکر نهیں هے۔
د: وه منابع و مآخذ که جو سید رضی کے بعد لکھے گئے هیں اور ان میں حضرت امیر کا کلام نهج البلاغه کے کلام سے فرق کرتا هے۔
مولف نے 114 منابع و مآخذ کا ذکر کیا هے اور ان کی طرف حواله دیا هے٬ مولف محترم نے پهلی اور پانچویں جلد کا آدھا حصه نهج البلاغه اور سید رضی سے متعلق کلیات سے مخصوص کی هے ٬ مولف موصوف کی اس کتاب میں روش یه هے که پهلے نهج البلاغه کی عبارت کو ذکر کیا هے٬ اس کے بعد مشکل الفاظ کی وضاحت کی هے اور اس کے منابع و مآخذ کا ذکر کیا هے اور اگر مستقل طور پر شرح لکهی گئی هے تو بهی اس کا ذکر کرتے هیں۔
4- مدارک نهج البلاغه ودفع الشبهات عنه٬ تالیف: هادی کاشف الغطاء (مکتبة الاندلس بیروت) مولف کی یه کتاب ان کی دوسری کتابوں یعنی مستدرک نهج البلاغه کے ساتھ شایع هوئی هے۔
مولف نے نهج البلاغه کی نسبت کے سلسله میں بعض اعتراضات کا جواب دیتے هوئے حضرت امیر کے کلام کے منابع و مآخذ کا بهی ذکر کیا هے۔
5- بحثی کوتاه پیرامومن نهج البلاغه و مدارک آن٬ تالیف رضا استادی٬
6- العذيق النضيد بمصادر ابن ابي الحديد في شرح نهجالبلاغه، تالیف:عزالدين ابي حامد عبدالحميد المدائني البغدادي (656 -586ق) (مطبعة العاني، بغداد، 1407 -1987قمری)
7- استاى حسن زاده آملی ان افراد میں سے هیں که جنھوں نے اس سلسله میں بهت همت سے کام لیا هے چنانچه موصوف انسان کامل از دیدگاه نهج البلاغه کے مقدمه میں تحریر کرتے هیں:
یه نهج البلاغه کے بهت سارے منابع و مآخذ کا ایک حصه هے که جو حدیثی٬ سیرت٬ تاریخ٬ علمی مجموعوں اور سفینوں سے حاصل کئے گئے هیں٬ جبکه عام هدف یه تها که سید رضی اور نهج البلاغه سے پهلے کے منابع ذکر کئے جائیں٬ شاید اس کے دو تهائی منابع حاصل هوگئے هوں٬ ان میں سے ایک حصه تکملة منهاج البراعه في شرع نهجالبلاغه که جو پانچ جلدوں پر مشتمل هے اور شائع هوچکی هے٬ کے مختلف مقامات پر ذکر هوئے هیں(2)
8- «المعجم المفهرس لالفاظ نهجالبلاغة» میں ایک حصه نهج البلاغه کے منابع و ماخذ سے مخصوص هے٬ وهاں پر بهی نهج البلاغه کی ترتیب سے خطبات اور مکتبوبات کے منابع ذکر هوئے هیں۔(3)
ان تمام منابع و مآخذ کے باوجود اس طرح کے سوال اور اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نهیں ره جاتی٬ اس کے علاوه که بهت سے خطبات٬ مکتوبات اور کلمات قصار کا مضمون حضرت امیر کی طرف ان کی نسبت پر شاهد اور گواه هے۔
اس بهترین بحث کے آخر میں ابن ابی الحدید کے کلام کو پیش کرتے هیں که جو خطبه ابن ابی اشحما کے بعد نقل کرتے هیں٬ ان کا کهنا هے که یه خطبه که جو حضرت امیر کا بهترین خطبه هے تکلف کے ساته هے اور یه هم نے اس وجه سے کها هے که بعض لوگوں نے نهج البلاغه پر اعتراضات کئے هیں۔
اس کے بعد موصوف کهتے هیں:
وه لوگ یا تو تمام نهج البلاغه کو جعلی مانتے هیں یا اس کے بعض حصه کو٬ پهلا احتمال ضرروی طور پر باطل هے٬ کیونکه بعض خطبات اور مکتوبات کی نسبت حضرت امیر علیه السلام کی طرف قطعی اور یقینی هے٬ اور اگر یه کها جائے که اس کا ایک حصه جعلی هے تو همارا مدعا ثابت هوگا که پورا نهج البلاغه ایک سبک اور ایک ڈھنگ پر لکها هوا هے۔
و انت اذا تاملت نهجالبلاغه وجدته کله مأ اًو احداً و نفساً واحداً و اسلوباً و احداً کالجسم البسيط الذي ليس بعض من ابعاضه مخالفاً لباقي الابعاض في الماهية و کالقرآن العزيز اوله کاوسطه واوسطه کاخره و کل سورة منه و کل آية منه مماثلة في المآخذ و المذهب و الفن و الطريق و النظم لباقي الايات و السور و لو کان بعض نهجالبلاغه منحولاً و بعضه صحيحاً لم يکن ذلک کذلک. (4)
پى نوشتها:
1- الغدير علامه امينى ج 4 ص 193
2- انسان کامل از ديدگاه نهج البلاغه ص 36
3- المعجم المفهرس لالفاظ نهج البلاغه ص 1424
4- شرح ابن ابى الحديد ج4 ص 325
منبع :سايت نور پرتال
ترجمه: اقبال حیدر حیدری