بسم اللہ الرحمن الرحیم

نہج البلاغہ کی شرحیں

قرآن کریم کی طرح نہج البلاغہ بھی ایک زندہ وجاوید کتاب ہے اور یہ قرآن کے ساتھ قدم بہ قدم چلی آرہی ہے متفکراور عقیدت مند حضرات اس کتاب سے فائدہ اٹھار ہے ہیں، اس کتاب کے دنیا کی رائج زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں جیسے فارسی، ترکی، اردو، انگلش، فرانسوی، جرمنی،اٹالین اور اسپینش وغیرہ ۔

ہم یہاں پراب تک اردو میں ہوے ترجموں کا مختصر تعارف بیان کر تے ہیں :

 ۱۔نہج البلاغہ (الاشاعة)

مترجم: سید اولاد حسن بن محمد حسن سلیم ہندی امروہوی،معاصر سید علی نقی نقوی ۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں ان کاتذکرہ ہوا ہے ۱۔

۲۔ نہج البلاغہ (سلسبیل فصاحت)۔

مترجم : سید ظفرمہدی گوہر ابن سید وارث حسین جائسی، مدیر تحریر مجلہ”سہیل یمن“ ان کی ایک دوسری کتاب بھی ہے جو اللہ اللہ کے نام سے موسوم ہے یہ کتاب انہوں نے اہل سنت کے جواب میں لکھی ہے اور ہندوستان میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۲۔

۳۔ نہج البلاغہ

  مترجم: سید علی اظہر کھجوی ہندی متوفی ۱۳۵۲ھ۔ اس کا ترجمہ سطروں کے درمیان لکھا اور چھپا ہے ۳۔

استاد سید عبدالعزیر طباطبایی الذریعہ کے تعلیقہ موسوم بہ اضواء علی الذریعہ میں کہتے ہیں : اس کتاب کے مترجم کے متعلق میں نے علامہ سعید اختررضوی سے پاکستان میں ایک خط لکھ کر معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ترجمہ سید علی اظہر کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے سید علی حیدر کا ہے (۱۳۰۳۔۱۳۸۰ھ) اور غلطی سے ان کے والد کی طرف نسبت دیدی گئی ۴۔ اور ان کی سوانح حیات ،مطلع الانوار کتاب(ص ۳۵۴۔۳۵۹) میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔

۴۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سید یوسف حسین ہندی امروہوی، متوفی ۱۳۵۲ھ۔ ہندوستان میں یہ ترجمہ ۱۹۲۶ء میں بہترین پریسوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۴۔

۵۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : یوسف حسین بن نادر حسین صدر الافاضل لکھنوی۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں یہ لاہور میں آکر مقیم ہوگئے تھے (۱۳۰۱۔۱۴۰۸ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان (ص ۳۹۳۔ ۳۹۶)میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے، وہاں آپ کی تالیفات کو ذکر کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے۔۵

۶۔ نہج البلاغہ

۔  مترجم: سیدمحمد صادق ۔ خلیق احمد نظامی نے نہج البلاغہ سے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اس کے متعلق بیان کیاہے اور اس ترجمہ کو اپنے مجلہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے پہلے شمارہ میں چھاپاہے۶۔

۷۔ نہج البلاغہ

۔  مترجم : حسن عسکری ہندی حیدرآبادی،یہ ترجمہ ۱۹۶۶ء میں حیدرآباد دکن میں شائع ہوا۷۔

۸۔ نہج البلاغہ

۔  مترجم: سید سبط حسن رضوی پاکستانی ہنسوی ۔ ان کی سوانح حیات کی تفصیل کتاب ”مطلع الانوار“ کے صفحہ ۲۵۰پر بیان ہوئی ہے۸۔

 

۹۔ نہج البلاغہ

۔ نیرنگ فصاحت: مترجم : سید ذاکر حسین اختر ابن سید فرزند علی ہندی دہلوی واسطی (۱۳۱۵۔۱۳۷۲ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں تفصیل کے ساته بیان ہوئی ہے۹۔

۱۰۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : صدرالافاضل سید مرتضی حسین لکھنوی، موصوف لاہور کے مشہور عالم گذرے ہیں(۱۳۴۱۔۱۴۰۷ھ)۔

۱۱۔ نہج البلاغہ

۔  یہ ترجمہ دو لوگوں نے مل کر انجام دیا جیسے خطبوں کا ترجمہ : میرزا یوسف حسین، خطوط اور کلمات قصار کا ترجمہ : غلام محمد زکی سرود کوئی،یہ ترجمہ ”حمایت اہل بیت“ کی طرف سے ۱۳۹۴ھ میں شائع ہوا ۔ اس ترجمہ پر بہت سے علماء نے مقدمہ لکھے جیسے سید علی نقی نقوی، سید محمد صادق لکھنوی، محمد بشیر ،ظفر حسن،مرتضی حسین اور ظل حسنین ۔

۱۲۔ نہج البلاغہ

۔ اس ترجمہ کو چند حضرات نے مل کر تحریر کیا : سید رئیس احمد جعفری، نائب حسین نقوی، عبدالرزاق ملیح آبادی اور مرتضی حسین ان میں سے ہرایک نے ایک ایک حصہ کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کررکھی تھی اور یہ ترجمہ پاکستان میں شایع ہواہے۔۱۰

۱۳۔ نہج البلاغہ

۔  مترجم: مفتی جعفر حسین لاہوری ، آپ اس کتاب کے ترجمہ سے ۱۸ رجب المرجب ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء میں فارغ ہوئے یہ ترجمہ ہندوستان وپاکستان میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہوااور اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں ، لاہور میں یہ کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس طرح شایع ہوا کہ ایک صفحہ میں ایک طرف عربی متن اور دوسری طرف اردو ترجمہ ہے اور دوسرا ایڈیشن ”امامیہ پبلیکشنز“ پاکستان سے ۱۹۸۵ء میں چھپا اور اس کے شروع میں علامہ سید علی نقی نقوی نے ادباء کے نظریات کے متعلق ایک مفصل مقالہ لکھا جس میں انہوں نے ان کے اقوال وکلمات بھی ذکر کئے ہیں ۱۱۔

 یہ تمام تراجم اس وقت موجود نہیں ہیں اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا ، نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردئے، جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحب جو ہندوستان وپاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھ بلندی سیرت اور سادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان وپاکستان میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی ، ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہ اور شارحانہ حواشی کے تحریر کا بیڑا اٹھایا اور کافی محنت وعرق ریزی سے اس کام کی تکمیل فرمائی۔ بغیر کسی وشک وشبہ کے یہ کہا جاسکتاہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنے ترجمہ اس کتاب کے اور حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ کا مرتبہ اپنی صحت اور سلامت اور حسن اسلوب میں یقینا بلند ہے اور حواشی میں بھی ضروری مطالب کے بیان میں کمی نہیں کی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیاہے ، بلاشبہ نہج البلاغہ کے ضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کے لئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کوپورا کیا ہے جس پر مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔

اقتباس از مقدمہ علامہ علی نقی نقوی

۱۴۔ نہج البلاغہ

۔  مترجم: علامہ سید ذیشان حیدر جوادی۔

 علامہ موصوف اپنے اس ترجمہ کے متعلق فرماتے ہیں:زیرنظر ترجمہ اور شرح اس بنیاد پر نہیں ہے کہ اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی کام نہیں ہوا ہے یا اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

 کام بہت ہوا ہے اور بہت خوب ہوا ہے متعدد تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں اور مختلف شرحیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور مجھے خود بھی ان خدمات سے بڑی حد تک استفادہ کرنے کا موقع ملاہے۔

 لیکن ترجمہ وتفسیر قرآن مجید کے منظر عام پرآنے کے بعد اور مومنین کرام کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہرکام ناظرین کرام کی نگاہ میں قابل قدر ہوتاہے اگر اس میں کوئی بھی ندرت یا خوبی پیدا ہوجائے۔

 میں نے اس ترجمہ اور تشریح میں تین باتوں کا خیال رکھا ہے جو نادر ونایاب تو نہیں ہیں لیکن اردو داں طبقہ کے لئے قابل استفادہ ضرور ہیں۔

 پہلی کوشش یہ کی گئی ہے کہ زبان بالکل سادہ اورسلیس ہو جب کہ یہ کام انتہائی مشکل اور دشوار تھا کہ نہج البلاغہ کی زبان خود بھی اتنی سہل وسادہ نہیں ہے جتنی آسان زبان قرآن مجید میں نظرآتی ہے۔

 ایسی صورت میں مترادف الفاظ کاتلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اور اسی بنیاد پر اکثرمقامات پر مجھے ناکامی کاسامنا کرنا پڑاہے لیکن اس کے باوجود میں نے سادگی کو فصاحت وبلاغت پر مقدم رکھاہے اوربعض دیگر مترجمین کرام کی طرح الفاظ تراشی یا محاورہ سازی کی زحمت نہیں کی ہے۔

 ۲۔ عام طور سے اردو زبان میںجو تراجم پائے جاتے ہیں ۔ان میں خطبات وکلمات کی تشریح توہے لیکن ان کا حوالہ درج نہیں ہے کہ یہ کلام نہج البلاغہ کے علاوہ اور کہاں کہاں پایاجاتاہے۔

 یہ کام انتہائی دشوار گذار تھا اور میں نے اس سلسلہ میں محنت بھی شروع کردی تھی لیکن بعد میں عربی زبان کی ایسی کتابیں دستیاب ہوگئیں جن میں یہ سارا کام مکمل طور سے ہوچکا تھا اور مجھے اس سلسلہ میں کوئی زحمت نہیں کرنا پڑی اور برسوں کا کام مہینوں کے اندر مکمل ہوگیا۔

 بہت ممکن ہے بعض حوالے نمبروں کے اعتبار سے صحیح نہ بھی ہوں لیکن اب مزید تلاش میری مصروف ترین زندگی کے حدود امکان سے باہر ہے۔ خدا کرے دیگر افاضل کرام اس کام کو انجام دیدیں اور ناظرین محترم بھی متوجہ کردیں تاکہ آئندہ اصلاح کی جاسکے۔

 ۳۔ اردو زبان میںعام طور سے تفسیر اور تشریح دونوں کا مفہوم واقعات کو قراردیا جاتاہے کہ تفسیر قرآن میں بہت سے دور قدیم کے واقعات نقل کردئے جائیں اور شرح نہج البلاغہ میں صفین وجمل وسقیفہ کے حوالہ بقدر کلام فہمی توضروری ہے لیکن اس کا تفسیراور کلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تفسیر وتشریح کے لئے الفاظ کا مفہوم ۔ عبارات کا مقصد اور اس مطلوب و مقصود کا واضح کرنا ضروری ہے جس کے لئے یہ کلام منظر عام پر آیا ہے اور صاحب کلام نے عوام الناس یا خواص کو مخاطب بنایاہے۔

 یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں ایک طرف الفاظ کا مفہوم درج کیا گیاہے اور دوسری طرف خطبات وکلمات کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ طلاب کرام کو کلام کے سمجھنے اور مومنین کرام کو کردار کے سنوارنے میں مدد ملے۔ خدا کرے میری یہ کوشش کامیاب ہو اور اس طرح تفسیر وتشریح کا ایک نیا سلسلہ منظر عام پر آسکے۔

اقتباس از گفتار مترجم علامہ سید ذیشان حیدر جوادی

حواشی


۱۔ الذریعہ ج۴،ص۱۴۴وج۱۴ص۱۱۶۔

۲۔ الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۳۰۔

۳۔  الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۴۱۔

۴۔مجلہ تراثنا ،ش۴،سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ۔

۵۔ آثار الشیعہ ص۱۰۱ بہ نقل تراثنا۔

۶۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۷۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۸۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۹۔الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵۔

۱۰۔وہی حوالہ۔

۱۱۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔