محقق شوشتری نے دیگر نہج البلاغہ کی شرحوں میں رائج الفاظ کی ترتیب و تنظیم پر ”معنی کی ترتیب“ کو ترجیح دیا ھے، اور ایک طرح سے نہج البلاغہ سے نہج البلاغہ کی شرح کی ھے، اور اس طرح موصوف نے اہم حقائق تک رسائی حاصل کی ھے کہ جن سے گزشتہ شارحین محروم تھے، نمونہ کے طور پر ایک اہم مطلب یعنی علی علیہ السلام خود اپنی زبانی کے نام سے یاد کیا جاسکتا ھے کہ محقق شوشتری نے پہلی بار حضرت امام علی علیہ السلام کی زندگی کو نہج البلاغہ کی زبان میں تفصیلی طور پر تالیف کیا ھے، کہ جس میں بہج الصباغہ کا نصف حصہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی سے مخصوص ھے۔ (۱۳)
کتاب بہج الصباغہ ، ۱۴ جلدوں پر مشتمل اور ۹۳۳ کلی موضوعات اور ۶۰ کلی فصلوں پر مشتمل ھے ، چنانچہ ان میں سے بعض موضوعات فصلوں کی ترتیب سے مختصر طور پر بیان کئے جاتے ھیں:
1. توحید، 53 عنوان پر مشتمل؛
2. خلقت جھان، ۶ عنوان پر مشتمل؛
3. خلقت ملائکہ ۳عنوان پر مشتمل؛
4. خلقت انسان ۴عنوان پر مشتمل؛
5. نبوّت عامّہ (پیامبران الٰھی،) ۹عنوان پر مشتمل؛
6. نبوّت خاصّہ (پیغمبر اسلام)،47 عنوان پر مشتمل؛؛
7. امامت عامّہ 33 عنوان پر مشتمل؛
8 - 35. خلافت و امامت کے دلایل و براھین کے سلسلہ میں ۳۵ دلیل و برھان، اور کلی طور پر حضرت امام علی علیہ السلام کی زندگی ۳۱۳ عنوان پر مشتمل؛
36 - 42.موت، مردم شناسی،زہد، قیامت، حقوق، اسلام، ایمان،قرآن، آزادی و عبادت خدا ۱۹۱/ عنوان پر مشتمل؛
43 - 52. ،اخلاق،آداب معاشرت، انصار و قریش وغیرہ ۱۲۱ / عنوان پر مشتمل؛
53 - 60. ،عقل وتفکر،عشق و دل، فقر و غنا، زن و زندگی وغیرہ ۱۵۲ /عنوان پر مشتمل؛(۱۴)
نیز امامت کے سلسلہ میں مختلف فصلوں میں درج ذیل موضوعات کے سلسلہ میں تفصیلی اور مستند طور پر بحث کی ھے:
زر و زور کی حکومت، نفاق و منافقین،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ اور فدک، مردم اورشورا، سقیفہ اورغاصبان خلافت، قومی اور قبیلہ پرستی، ناکثین، قاسطین و مارقین، کفر و نفاق اموی وغیرہ۔
نیز انھیں دو فصلوں میں (امامت عامہ و خاصہ) کے سلسلہ میں بارہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی کا خلاصہ قدیمی اور یقینی منابع و مآخذ سے روایات کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ بیان کیا گیا ھے، نمونہ کے طور پر یہ بیان کیا جاتا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی شرح میں کہ جھاں حضرت فرماتے ھیں:وَإنّا لاٴُمَرٰاء ِ الْکَلامِ ، وَفینٰا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُہُ،وَعَلَینٰا تَہَدَّلَتْ غُصُونُہُ، (۱۵) حضرات ائمہ علیہم السلام کے علمی اور ادبی آثار کو یاد کرتے ھیں اور ان حضرات کی جاویدانہ کتابوں جیسے: نہج البلاغہ، صحیفہ کامل سجّادیہ،الصحیفة العلویة الاولی؛ الصحیفة العلویة الثانیة، الصحیفة الحسینیّنة،الصحیفة السجّادیّة الثانیة، الصحیفة السجّادیّة الثالثة، الصحیفة السجّادیّة الرابعة، الصحیفة السجّادیّة الخامسة (۱۶) و توحید مفضّل،(۱۷) کی توصیف کرتے ھوئے ان کے ذریعہ مخالفین کے ساتھ حجت اور دلیل پیش کرتے ھیں، اور نہج البلاغہ کے سلسلہ میں فرماتے ھیں: ھو تالی القرآن لفظاً ومعناً.(۱۸) ؛ یعنی نہج البلاغہ لفظا اور معناً قرآن کے بعد کا درجہ رکھتا ھے۔
اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ھیں:
لو لم یکن لہ إلاّ دعاؤہ فی یوم عرفة، لکفاہ فی کونہ من اُمراء الکلام. (۱۹)
نیز حضرت امام زین العابدین سید سجاد علیہ السلام کے سلسلہ میں تحریر کرتے ھیں:
لو اجتمعت العرب، وکلّ ذی اٴدبٍ اٴن یاٴتوا بمثلھا لعجزوا، و یکفیہ دعاؤہ المعروف بدعاء اٴبی حمزة، فإنّ فقراتہ فی غایة القرب من آیات القرآن،(۲۰)
یعنی اگر تمام عرب جمع ھوجائیں اور سب ادباء کلام اس (صحیفہ سجادیہ) کی مثل لانے چاھیں تو وہ عاجز ھیں اور ان کے لئے آپ کی مشھور و معروف دعائے ابوحمزہ ثمالی ھی کافی ھے کیونکہ اس کے فقرے قرآن مجید کی آیت سے بہت ھی زیادہ مشابہ ھیں۔
اگر ہم چاھیں کہ بہج الصباغہ کے موضوعات اور مطالب کو تفصیلی طور پر شمار کریں تو بحث بہت طولانی ھوجائے گی، ہم یھاں پر اس عظیم الشان شرح کے بعض موضوعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ھیں، کیونکہ بہج الصباغہ کی شناخت کے لئے یہ اشارے بہت زیادہ مفید ھیں ، اس لئے کہ مذکورہ بحثوں میں بہت سے دیگر بحثوں کے سلسلہ میں تحقیق ھوئی ھے، البتہ بہج الصباغہ کے کلیدی اور اصلی نکات گزشتہ شمار کئے گئے نکات میں محدود نھیں ھیں بلکہ ہم نے بحث طولانی ھونے کی خاطر اس مقدار پر اکتفاء کی ھے۔ اب ہم یھاں پر شیخ شوشتری کی شرح ”بہج الکے دیگر امتیازات شمار کرتے ھیں۔
نہج البلاغہ کی غیر معمولی شہرت کی وجہ سے گزشتہ شارحین، شریف رضی کے کام کے شیفتہ اور عاشق بن گئے اور اسے ہر لحاظ سے کامل مانا، اور ان تمام کو حضرت علی علیہ السلام کا کلام مانا، اسی وجہ سے اس پر تنقید اور تحقیق کی ہمت نہ کرسکے،لیکن محقق شوشتری نے جیسا کہ ان کی دیگر کتابوں (قاموس الر جال و الاخبار الدخیلہ) میں دیکھا گیا ھے کہ ایک عالمِ شارح، نقل کرنے والے محدث اور راوی ھونے کے علاوہ ایک بھادر تنقید کرنے والے اور نقّاد محقق ھیں، اس کے باوجود کہ عصر حاضر میں علوم انسانی کے سلسلہ میں علمی نقد و تنقید اتنی زیادہ رائج نھیں ھے، اور کبھی بھی انتقاد کرنے والے کو عزت کی نگاہ سے نھیں دیکھا جاتا۔
لیکن محقق شوشتری نے رائج پروپیگنڈوں سے دور رہ کر اور حوزہ میں مرید اور مراد بازیوں سے آسودہ خاطر ھوکر اپنے شہر شوشتر کے ایک گوشہ میں بیٹھ کر انصاف کی بات کھی وہ آج کے زمانہ میں کہ جب نقد اور تنقید کرنا کوئی آسان کام نھیں ھے، بہر حال موصوف نے بہج الصباغہ میں سب سے زیادہ تحقیق و تنقید پر زور دیا ھے، انھوں نے سب سے پہلے نہج البلاغہ میں سید شریف رضی کے کام پر تنقید کی اور اس میں کاٹ چھاٹ کیا۔ اور پھر دیگر شارحین کی شرحوں کو تحقیق و چھان بین کی۔ اس ضمن میں ان کو مہم قرار دیا ھے اور ان کے علمی و فکری نتائج کو واضح طور پر نام بنام بیان کیا ھے اور ان میں سے بہت سے افراد (خصوصاً نہج البلاغہ شریف رضی )کی تعریف و تمجید کی ھے ، ان کی جزئیات اور خامیوں کو بیان کیا ھے اور اس سلسلہ میں تکلفات و تعارفات کو جائز نھیں سمجھا ھے اور انھوں نے علم و حقیقت کو عالم اور محقق سے بالاتر قرار دیا ھے ، چنانچہ اب ہم یھاں پر موصوف کی عالمانہ تنقید پر ایک نظر ڈالتے ھیں اور اس کی مزید تحقیق و تفصیل کو خود بہج الصباغہ پر چھوڑتے ھیں، چنانچہ نہج البلاغہ سید رضی علیہ الرحمہ سے شروع کرتے ھیں۔
ایک: موصوف نے مکتوب نمبر ۶۲ میں موجود کلام کو خط کے عنوان سے بیان کیا ھے جبکہ ایسا کچھ نھیں ھے کہ یہ خط امام علیہ السلام نے مالک اشتر کے لئے مصر لکھا ھو بلکہ یہ ان خطبوں کے مضامین ھیں کہ جن کو محمد بن ابی بکر کی شھادت کے بعد کوفہ میں بیان کیا ھے (شھادت مالک اشتر کے سلسلہ میں نھیں ھے کیونکہ وہ بلاشک محمد (بن ابی بکر) سے پہلے تھے۔ اس سلسلہ میں نھایت چیز یہ ھے کہ امام علیہ السلام نے اس کو لکھا تھا تاکہ اس کو لوگوں کے سامنے پڑھا جائے۔(۲۱)
دو: ”لا تقتلوا الخوارج بعدی... “؛(یعنی میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا) کا جملہ بعید ھے کہ امام علیہ السلام کا ھو ، کیونکہ اس سلسلہ میں سید رضی علیہ الرحمہ کا مدرک و مآخذ نھیں ملا ھے اور اگر امام علیہ السلام ایسا کوئی حکم دیا ھوتا تو پھر لازم تھا کہ حضرت کے ماننے والے خوارج کو قتل نہ کرتے ، جبکہ اس سلسلہ میں شیعیان علی علیہ لاسلام بہت کوشاں نظر آئے جن کی سر فہرست صعصعة بن صوحان، معقل بن قیس ، عدیّ بن حاتم و شریک بن اعور، شیعیان کوفہ و بصرہ، (۲۲)
تین : خطبہ نمبر ۱۶۸ ”یا اخوتاہ۔۔۔“ حضرت علی علیہ السلام کا کلام نھیں ھے، بلکہ یہ الفاظ معاویہ کے جملے اور الفاظ ھیں کہ جن کو معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کی نقل بناتے ھوئے کھیں ھیں، محقق شوشتری نے اس خطبہ کو ردّ کرتے ھوئے تفصیلی طور پر تحقیق کے ساتھ گفتگو کے بعد واضح طور پر یوں بیان کیا ھے:
و بالجملہ، ہذا الخبر کباقی اخبار سیف الّتی ینقلھا الطبری عن السدی عن شعیب عنہ، کذب وافتعال، الاّ اٴنّ المصنّف - عفا اللہ عنہ - کان مغرماً علی جمع کلام فصیحٍ منسوب إلیہ علیہ السلام مع انَّہ لیس بتل-ک الفصاحة مع اٴنّ خطبةً نسبھا إلی عثمان الّتی نقلناھا عنہ اٴفصح، فالرجل کان ادیباً تاریخیّاً شاعراً وکان خبیثاً داھیاً، فکان یقلّب کلّ شیء ٍ ویموہہ بکلمات اٴدبیّة، ویضع لہ اٴراجیز حتّی یلبس الحقّ بالباطل، لکنّ الباطل زھوق، فکلّ اہل السیر من الواقدی والمدائنی وصاحب (المغازی) وغیرہم اظہروا کذبہ، واللہ یفضح الکاذب،... و کیف غُرّ المصنّف بہ؟... وحیث إنّ العنوان مفتعل ولیس من کلامہ علیہ السلام قطعاً، لم نتعرّض لشرح فقراتہ.(۲۴)
(بہر حال سیف کی یہ خبر بھی کہ جس کو طبری نے سدی کے ذریعہ شعیب کے ذریعہ سیف سے نقل کیا ھے جھوٹی اور بناوٹی ھے، چنانچہ منصف (عفی اللہ عنہ) اس سلسلہ میں دھوکہ کھا گئے ھیں کیونکہ ان کا مبنیٰ یہ تھا کہ جو کلام فصیح ھے وہ امام علیہ السلام سے منسوب ھے، لیکن یہ خطبہ اتنا فصیح نھیں ھے جبکہ جو خطبہ عثمان کی طرف منسوب ھے اور ہم نے اُسے سیف سے نقل کیا ھے وہ اس سے کھیں زیادہ فصیح ھے، چونکہ یہ شخص ادیب، تاریخ داں او رشاعر تھا لیکن یہ شخص خبیث اور ھوشیار تھا، اور یہ ہر چیز میںملاوٹ کردیتا تھا اور اپنے ادبی کلام میں ملادیتا تھا، اور حق و باطل کو ملا دیتا تھا، لیکن باطل ہمیشہ نابود ھونے والا ھے، چنانچہ واقدی، مدائنی اور صاحب مغازی وغیرہ نے اس کے جھوٹ کو ثابت کیا ھے، خداوندعالم بھی جھوٹے کو رسوا کردیتا ھے۔۔۔ لیکن مصنف نے کیسے دھوکہ کھایا؟ ، جبکہ عنوان واضح ھے اور یہ امام علیہ السلام کا کلام قطعاً نھیں ھے، لہٰذا ہم نے اس کے فقروں کی شرح بھی نھیں کی ھے۔
یہ بات بلا کھے ھی واضح ھے کہ یہ سیف وھی افسانہ نگار ھے کہ جس نے عبد اللہ بن سبا کی خیالی اور لمبی داستان گڑھی ھے اور اس نے پیغمبر اسلام (ص) کے سو سے زیادہ صحابیوں کا اختراع کیا ھے۔ (۲۵)
چار: مکتوب نمبر ۵۸ ”وکان بدء امرنا۔۔۔“ بھی امام علیہ السلام کا کلام نھیں ھے اور موٴلف کا ماننا ھے کہ یہ خط بھی گذشتہ خطبہ کی طرح سیف کا من گڑھت ھے، اور سید رضی نے نادانستہ طور پر ان دونوں کلام کو حضرت علی علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا ھے، قرائن و شواہد اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ بے شک یہ دونوں کلام امام علیہ السلام کی طرف بہتان ھیں۔ (۲۶)
پانچ: خطبہ نمبر ۲۲۸، ”للہ بلاد فلان۔۔۔“ ہرگز امام علی علیہ السلام کا کلام نھیں ھوسکتا، اور جن لوگوں نے ابن ابی الحدید کی پیروی میں اس خطبہ کو امام علی علیہ السلام کا قرار دیا ھے کہ انھوں نے یہ مانا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس خطبہ کو خلیفہ دوم کی مدح اور ان کے اکرام و تعظیم میں بیان کیا ھے، بے شک انھوں نے اس سلسلہ میں خطا اور غلطی کی ھے،(۲۷) خطبہ کا مضمون خود اس بات کا گواہ ھے کہ یہ کلام مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کا نھیں ھے، یہ ایک ایسا من گڑھت خطبہ ھے کہ جسے حضرت علی علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ھے، (۲۸) اور اس کلام کی نسبت حضرت علی علیہ السلام کی طرف دینا واقعا ایک افترا اور بہتان ھے، (۲۹) اور اس میں ذرا بھی شک نھیں ھے کہ یہ من گڑھت ھے۔ (۳۰)
اس خطبہ کے سلسلہ میں صرف طبری نے اشارہ کیا ھے کہ اس کی طرف بھی مستند نھیں کیا جاسکتا، تعجب کی بات ھے کہ ہمارے ہم عصر ایک دانشور نے اس سے پہلے محقق شوشتری کے نظریات پر مشتمل مقالات کو اس خطبہ کی ردّ کے سلسلہ اپنی تائید اور تاکید کے ساتھ بیان کیا۔(۳۱) لیکن ابھی جبکہ انھوں نے نہج البلاغہ کی شرح لکھی اور شائع کرائی ھے، اس میں اس خطبہ کو حضرت علی علیہ السلام کے خطبہ کے عنوان سے دیا اور اس کی شرح بھی کی ھے، طرز بیان کی شناخت کے لحاظ سے مختلف حصے ایک دوسرے کے مشابہ ھیں لیکن وہ سب جدا جدا جملے اور الگ الگ فقرے ھیں کہ ان کو کوئی میں اپنی زبان سے کہہ سکتا ھے، لہٰذا سید رضی پر یہ اعتراض نھیں کیا جاسکتا کہ ان عام گفتگو میں حضرت علی علیہ السلام کے فصیح و بلیغ کلام کو نھیں پہچان سکے، کیونکہ تمام خطبہ کی فصاحت و بلاغت سے پہچانا جاسکتا ھے اگرچہ وہ خطبہ مختصر ھی کیوں نہ ھو، لہٰذا یہ نتیجہ لیا جاسکتا ھے کہ یہ کلام مکمل طور پر امام علیہ السلام کا کلام نھیں ھے لیکن امام علیہ السلام کے خطبوں کے درمیان اس کا لانا ایک تاریخی حقیقت اور ایک ادبی نکتہ کا علم ھوجاتا ھے۔ (۳۲)
لیکن یھاں پر وہ تاریخی حقیقت اور ادبی نکتہ کیا ھوسکتا ھے موصوف نے کوئی اشارہ بھی نھیں کیا ھے، اور یہ احتمال کہ اس سے مراد یھی جعلی کلام ھو وہ بھی اس فصاحت و بلاغت کی حد تک کہ جو امام علیہ السلام کی زبان سے صادر ھوا ھو؛ کوئی زیادہ بعید نظر نھیں آتا۔
چھ: خطبہ نمبر ۸ ”یزعم انہ قد بایع۔۔۔“ شیخ مفید (کہ جو سید رضی علیہ الرحمہ) کے استاد ھیں) کی وضاحت کے مطابق حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا کلام ھے۔ (۳۳)
سات: خطبہ نمبر ۹۲ ”دعونی والتمسوا غیری...“بھی سیف کی من گھڑت روایاتوں میں سے ھے اور حضرت علی علیہ السلام کا کلام نھیں ھے،(۳۴) محقق شوشتری یھاں پر سید شریف رضی پر تنقید کرتے ھوئے تعجب کے ساتھ فرماتے ھیں:
والعجب من المصنّف کیف یاٴخذ من روایاتہ و یری اشتمالھا علی مقطوع الکذب؟!(۳۵)
مصنف پر تعجب ھے کہ انھوں نے اس کلام کو (سیف کی ) روایات سے کیسے لے لیا جبکہ وہ ایسی شخص پر مشتمل ھے جس کا جھوٹ بولنا یقینی ھے۔
اس کے بعد موصوف فرماتے ھیں: ثم قد عرفت عدم تحقّق العنوان فی کلامہ علیہ السلام، فلا نحتاج الی شرحہ اٴو تاٴویلہ.(۳۶) یعنی آپ پہچان چکے کہ کلام امام علیہ السلام میں اس عنوان کی تحقیق نھیں ھوئی ھے لہٰذا ہم اس کی شرح یا تاویل کرنے کی ضرورت محسوس نھیں کرتے۔
اس خطبہ کی بعض عبارتوں پر غور و خوض کرنے سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ھے کہ یہ کلام امام عادل کے لئے سزاوار نھیں ھے بلکہ ظالم و جابر بادشاھوں کے کلام سے زیادہ مشابہ ھے، آخر کس طرح ممکن ھے کہ انصاف پسند لوگوں کے امام علی علیہ السلام یہ فرمائیں۔
واٴعملوا اٴنّی إن اٴجبتُکم رکبتُ بکم ما اٴَعلمُ ولم اٴُصغِ إلی قول القائل وعتب العاتب.
جان لو کہ میں اگر تمھاری درخواست کو قبول کرلوں تو تمھارے ساتھ ایسا سلوک کروں گا کہ اس کے بارے میں میں خود ھی جانتا ھوں، کہنے والوں کی باتوں پر کان نھیں دھروں گا، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت توجہ نھیں کروں گا۔
اور اگر کوئی ”اٴنی را حتماً من و رکبتُ بکم ما اٴعلم “ کو تم پر سوار ھوجاؤںگا، معنی کرے جیسا کہ خود ھی مجھے معلوم ھے و عتب العاتب،کا منتقد کے انتقاد کا معنی کریں تو اس صورت میں قضیہ بدتر دکھائی دیتا ھے اسی وجہ سے مترجمین نے تحریر کی شدت کو کم کرنا چاھا اور عتب العاتب کو لومة لائم یعنی ملامت کرنے والوں کی ملامت پر توجہ نھیں کروں گا، معنی کیا ھے۔
آٹھ: خطبہ نمبر ۱۶۹ میں ”إن اللہ بعث رسولاً...“یا مکمل خطبہ سیف کا من گڑھت ھے یا اس نے اس میں کاٹ چھانٹ کی ھے اور اس میں تحریف کی ھے۔ (۳۷)
نو: خطبہ نمبر ۲۷ میں یہ جملہ: ” اٴلا وإنّ الیوم المضمار وغداً السباق “ غلط ھے، صحیحِ جملہ یہ ھے: آن اٴلا و انّ المضمار الیوم والسباق غداً “، (۳۸)
دس: حکمت نمبر ۲۸۹ (کان لی فی ما مضی اخ فی اللہ... ) حضرت علی علیہ السلام کا کلام نھیں ھے بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام کا کلام ھے۔
اس سلسلہ میں محقق شوشتری تحریر کرتے ھیں:
لم اٴدر من اٴین نسب المصنّف ہذا الکلام إلیہ علیہ السلام وقد اتّفقت الخاصّة والعامّة علی اٴنّہ کلام إبنہ الحسن علیہ السلام (۳۹)
ہمیں نھیں معلوم کہ مصنف (سید رضی ) نے کس طرح اس کلام کو امام علی علیہ السلام کی طرف نسبت دیا جبکہ شیعہ اور سنی علماء اس بات پر متفق ھیں کہ یہ آپ کے فرزند امام حسن علیہ السلام کا کلام ھے۔
گیارہ: حکمت نمبر ۲۲ (مَن اٴَبْطَاٴَ بِہِ عملہ لم یُسرع بہ حُسبہ) کو سید رضی نے اسی طرح اپنی دوسری کتاب (۴۰) میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرف نسبت دی ھے اور نہج البلاغہ میں بغیر کسی وضاحت اور اشارہ کے اس کلام کو حضرت علی علیہ السلام کی طرف نسبت دیا ھے۔ (۴۱)
بارہ : حکمت نمبر ۲۹۶ (إنّما اٴنت کالطاعن نفسہ...) بھی سیف کا ساختہ و پرداختہ کلام ھے محقق شوشتری نے اصل کلام کو تاریخ طبری سے نقل کیا ھے اس کے بعد موصوف نے تحریر کیا ھے: ”مُحرَّفٌ لایفہم منہ محصّل ثمّ جمیع ما یرویہ الطبری عن سیف اٴمور منکرة خلاف ما یرویہ الخاصّة والعامة ومنھا ہذا الخبر“.(۴۲)یعنی یہ کلام تحریف شدہ ھے اس سے کوئی نتیجہ حاصل نھیں کیا جاسکتا، اس کے بعد طبری نے جو کچھ نقل کیا ھے وہ خلاف شرع امور میں سے ھے اور اہل سنت اور شیعہ حضرات نے ان چیزوں کو نقل نھیں کیا ھے اور انھیں میں سے یہ روایت بھی ھے۔
چنانچہ موصوف سید رضی پر تنقید کرتے ھوئے تحریر کرتے ھیں:
ولعلّ العنوان کان کلامہ علیہ السلام فی مقام آخر فاٴسلکہ سیف فی ہذا کما ھو داٴبہ،کما اٴنَّ المصنَّف إذا راٴی کلمہ بلیغة منسوبة إلیہ علیہ السلام ینقلھا ولا یراعی السند.(۴۳)
اور شاید یہ امام علی علیہ السلام کا کلام ھو دوسرے مقام پر، لیکن سیف نے اس مقام پربیان کیا ھے جیسا کہ اس کا طریقہ کار بھی یھی ھے، اور جیسا کہ مصنف جب کوئی فصیح و بلیغ کلام جو امام علیہ السلام کی طرف منسوب ھوتا تھا اسے نقل کردیتے تھے اور اس کی سند کی تلاش نھیں کرتے تھے۔
ہم یھاں پر نقل ھوئے ۱۲ موارد پر اکتفاء کرتے ھیں اور دیگر موارد کے سلسلہ میں بہج الصباغہ کی جلد اور صفحہ کا حوالہ پیش کرتے ھیں آپ حضرات رجوع کرسکتے ھیں:
یہ چند نمونے تھے کہ جن کو ہم نے بہج الصباغہ کی ورق گردانی میں دیکھا ان میں سے ہر ایک پہلی نظر میں جزئی اور معمولی دیکھائی دیتا ھے لیکن نہج البلاغہ کی تصحیح و تبیین اور ترجمہ و تحقیق و تفسیر و شرح میں بہت کارآمد ھے اور محققین نہج البلاغہ کے لئے ان سے گزیر نھیں ھے۔
بلا کھے ھی یہ بات روشن ھے کہ محقق شوشتری (شریف رضی کے کام پر بہت زیادہ تعریف و تمجید کرنے کے علاوہ) نہج البلاغہ کی موضوعی شرح کے ساتھ عملی طور پر سید رضی کے جاویدانہ کلام پر خاص توجہ رکھتے تھے۔ (۴۴) بعض مذکورہ موارد کی تصحیح کے علاوہ نہج البلاغہ کے سلسلہ میں بہت زیادہ تاکید فرماتے ھیں یھاں تک کہ عبارت کی شرح سے پہلے سید رضی کے مقدمہ کی شرح کرتے ھیں اور نہج البلاغہ کے مقدمہ میں سید رضی کے نوشتوں پر بہت زیادہ توجہ دیتے ھیں جبکہ یہ کام دیگر شرحوں میں نھیں دیکھا گیا ھے، چنانچہ محقق شوشتری نے ، سید رضی کے مقدمہ کی شرح کرتے ھوئے موصوف کے کام کی اہمیت کے سلسلہ میں ایک گفتگو کی ھے کہ اگر اُسے نقل کیا جائے تو مقالہ کی اس فصل میں فصل الخطاب واقع ھوگا اور اس سلسلہ میں محققین کے لئے بہت سی چیزیں واضح ھوجائیں گی چنانچہ محقق شوشتری فرماتے ھیں:
مسلم دانشمندوں نے چاھے وہ شیعہ ھوں یا سنی ہر فن میں اسلام کے ابتدائی دنوں سے کتابیں لکھیں ھیں لیکن آج تک کسی نے شریف رضی کی کتاب سے بہتر کوئی تالیف نھیں ھے کیونکہ ہر کتاب کی اہمیت اس کتاب کے فائدہ کی مقدار کی وجہ سے ھے اور اس کی ارزش اس سے حاصل ھوئی مقدار کے لحاظ سے ھوتی ھے، اور اس سلسلہ میں میں قرآن مجید کے بعد کوئی بھی کتاب سید رضی کی تالیف کی حد تک نھیں پہنچی ھے کہ یہ کتاب فصاحت و بلاغت میں اور پند و نصیحت کے شامل ھونے کی وجہ سے ٹھیک قرآن مجید کے بعد قرار پائی ھے، اور انصاف کی بات یہ ھے کہ کہنے والوں نے اس کی توصیف میں کیا خوب کھا ھے: یہ (نہج البلاغہ) ایک ایسی کتاب ھے کہ گویا خدا نے اپنی کتاب کی آیات کے ذریعہ اس کے الفاظ کو سجایاھے۔
یہ کتاب ایسی حکمتوں پر شامل ھے جو مروارید اور درّدرخشاں کی طرح حقیقت میں گویا ھیں صرف قرآن مجید سے اس کا فرق یہ ھے کہ یہ (نہج البلاغہ) آسمان سے نازل نھیں ھوئی ھے۔ (۴۵)
ان تمام باتوں کے بعد ایک بار پھر موصوف سید رضی کی تعریف و تمجید کرتے ھیں: خدا کا لطف ھے کہ موصوف کو اس کتاب کی جمع آوری کی توفیق دی اور ان پر احسان کیا ،خداوندعالم ان کو اجر دے۔ کتنے ایسے انسان ھوں گے کہ جو اس کتاب کی تالیف سے آج تک اس کے زیر سایہ ہدایت پائے اور کتنے لوگ اس کتاب کے ذریعہ مستقبل میں ہدایت پائیں گے، اس کے علاوہ موصوف نے اس کتاب کی تالیف کے ذریعہ عربی زبان، اس کے استحکام، اس کے قواعد ادب وغیرہ کو بنیاد بخشی ھے، خداوندعالم ان کی سعی کو مشکورقرار دے اور ان کو بہترین اجر عنایت کرے۔ (۴۶)
اس کے بعد کی تحریر ہماری محل شاہد ھے اور اس کی ہر سطر نہج البلاغہ کی شرح و شناخت اور مشکلات و خامیوں کے حل کے لئے ایک محقق کے لئے راہ گشا ھے اور اُسے اس کے منزل مقصود تک پہنچا دیتی ھے، چنانچہ موصوف تحریر فرماتے ھیں:
لیکن بات موصوف (سید رضی عفی اللہ عنہ) کی کہ وہ امام علی علیہ السلام سے منسوب فصیح کلام کو نقل کرنے میں غرق تھے چنانچہ انھوں نے باریک بینی اور عمیق بینی سے کام نھیں لیا کہ دشمن نے اپنی چالاکی اور جھوٹ اور فریب کاری کے ذریعہ امام علی علیہ السلام کے کلام میں اپنے کلام کو مخلوط کردیا ھے کہ جس کے چند نمونے خطبات نمبر ۹۰، ۱۶۶، ۲۶۶ میں دیکھے جاسکتے ھیں۔ ۔۔(۴۷)
اور چونکہ موصوف امام علیہ السلام کے کلام سے صرف اسی حصہ کو انتخاب کرتے تھے جو فصیح و بلیغ ھوتا تھا، چنانچہ انھوں کبھی تو کسی کلام کو مختصر کردیا اور مکمل طور پر اس کلام کو نقل نھیں کیا ھے اور یہ گویا ایسا ھے کہ کوئی قرآن مجید میں ”لاتقربوا الصلاة“ (یعنی نماز کے قریب نہ جاؤ) کو ”و انتم سکاری“ (یعنی کہ جب تم نشہ کے عالم میں ھو) سے الگ کردے، اور یہ کام حکمت نمبر ۴۶۷ سے ظاہر ھے جیسا کہ ہم نے اس سلسلہ میں پہلے گفتگو کی ھے۔ (۴۸) اور چونکہ موصوف (عفا اللہ عنہ) نے صرف اہل سنت کی کتابوں اور ان کی روایات کی طرف رجوع کیا ھے بہت سے موارد میں ایسی چیزوں کو نقل کردیا ھے کہ جن کو شیعوں کی روایات ردّ کرتی ھیں جیسا کہ خطبہ نمبر ۵۷ میں دیکھا گیا ھے اور ہم نے اس سے پہلے اس کی تفصیل بیان کردی ھے۔ (۴۹)
نیز کبھی کبھی ایسا ھوا ھے کہ خواب میں امام علیہ السلام کے سنے ھوئے کلام کو امام علیہ السلام کی طرف نسبت دیدی ھے جیسا کہ کلمہ ۴۰۶ سے ظاہر ھوتا ھے اور ہم نے اسے بھی اپنی جگہ بیان کیا ھے، اور کبھی خطبوں کو خط کا عنوان دیا ھے اور اس کی شان بیان میں غلطی کی ھے، نیز کبھی کبھی غیر سنجیدہ تحریف و تصحیف سے دچار ھوئے ھیں اور کبھی کبھی ایسی کتابوں سے کہ جن کی سند صحیح نھیں تھی ان کے جملے اور کلام نقل کرنے میں دقت سے کام نھیں لیا اور ان کو صحیح ضبط نھیں کیا ھے۔ (۵۰)
بہج الصباغہ میں سب سے زیادہ ابن ابی الحدید کی ”شرح نہج البلاغہ“ پر تنقید ھوئی ھے، یھاں تک کہ کبھی کبھی انسان کو یہ گمان ھوتا ھے کہ محقق (شوشتری) نے اپنی شرح نہج البلاغہ کو ابن ابی الحدید کے کلامی، تایخی، لغوی اور ادبی نظریات پر تنقید و تحقیق کرنے کے لئے تالیف کیا ھے، سو فی صد یہ اختلاف اور تنقید اس کے مذہبی اصول کی بنا پر ھے، اور سب سے زیادہ اہل بیت اطھار علیہم السلام کے سلسلہ میں ان کا ایمان و اعتقاد کو ظاہر کرتا ھے ، اس کے مقابل ابن ابی الحدید معتزلی کا غاصبان خلافت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی حکایت کرتا ھے، اسی وجہ سے اسے اسلام علوی سے محروم کردیا ھے اور زیادہ تر وہ اموی اسلام میں غلطاں نظر آتے ھیں۔
یہ فیصلہ حقیقت تلخ کی بنیاد پر ھے کہ بہج الصباغہ کی سطر سطر احادیث کی تحقیق اور ان کی تحلیل کو مدّ نظر رکھتی ھے اور یہ حقیقت قبل اس کے کہ بہج الصباغہ کی طرف پلٹے خود نہج البلاغہ سے جوش مارتی ھے، اور خدا کا شکر کہ محقق شوشتری اس صاف و گوارا چشمہ سے بہترین طور پر سیراب ھوتے ھیں اور اس کی رفتار پر بہترین طور پر سیر کرتے ھیں، اور ابن ابی الحدید کی حقیقت کو ظاہر کردیتے ھیں کہ جو مخالف ذہنیت سے نہج البلاغہ کی شرح کرنا چاہتا ھے ، اور چونکہ ابن ابی الحدید شیعہ اور علوی نھیں ھے اسی وجہ سے بہت سے مقامات پر اس نے سراب کو پانی تصور کیا ھے ، چنانچہ محقق شوشتری نے بہج الصباغہ میں جگہ جگہ اسے عدالت کی کوٹھری میں کھڑا کیا ھے، اور بعض مقامات پر تاریخی حقائق ، قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے اس کے حاصل کردہ مخالف نتائج کو پیش کیا ھے، اور بعض مقامات پر ان تمام باتوں کے علاوہ خود اس کی گذشتہ کی گفتگو اور بعد کی گفتگو میں ٹکراؤ کو ظاہر اور روشن کیا ھے۔
بہج الصباغہ میں ابن ابی الحدید پر اس قدر تنقید کی گئی ھے کہ ان کو شمار نھیں کیا جاسکتا، ان میں بعض کو کہ جو ہم کو دکھائی دیتی ھیں اور زیادہ غیر اعتقادی بحثوں سے متلعق ھے یھاں بیان کرتے ھیں کہ دونوں شرحوں کی طرف رجوع کرنے والے حضرات کے لئے مفید واقع ھوگی، متعدد دلائل کی بنا پر پانچویں جلد سے ترتیب ذیل کے لحاظ سے شروع کرتے ھیں اور جیسا کہ پہلے بھی یہ بات کھی جاچکی کہ ہم صرف جلد نمبر اور صفحہ نمبر ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں:
5 / 375 - 382،394،580،610 ؛ 6 / 129،167، 339،525؛ 7 / 210-266: (جعلی روایات کے سلسلہ میں ابن ابی الحدید کے نظریات کی تحقیق اور تبصرہ)،مذکورہ جلد / 342-351؛ 7 / 453؛ 8 / 550؛ 9 / 84 - 136: (عرب وغیرہ کے خرافات...) 227، 398، 435، 448؛ 11 / 386، 409،429،431، 568، 12 / 19، 22 - 23،505،601 ؛ 13 / 338؛ 14 / 165، 224، 265 - 266.
البتہ ابن ابی الحدید پر تنقید ،اعتقادی اور مذہبی علتوں کے علاوہ زیادہ تر دونوں شرح کے تاریخی ھونے کے حوالہ سے ھیں، محقق شوشتری جیسا کہ علم رجال کے لحاظ سے ہم عصر علمائے علم رجال میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ھیں ، تاریخ میں بھی ایک عجیب و غریب مھارت رکھتے ھیں۔
جیسا کہ موصوف نے اپنی کتاب ”قاموس الرجال“ میں تاریخ پر زیادہ توجہ کی ھے، بہج الصباغہ میں نہج البلاغہ کی شرح کرتے وقت تاریخ سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ھے، محقق شوشتری تنقید، ذہنی طور پر معلومات کی ردّ و بدل اور اس کی ترتیب و تحلیل میں عجیب و غریب کمال رکھتے ھیں یھاں تک کہ گویا تاریخ اسلام اور تاریخ مسلمانان کو ہمیشہ اپنے ذہن میں مجسم اور حاضر رکھتے تھے۔
جی ھاں محقق نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ عرب اور مسلمانوں کی تاریخ و ادب اور ثقافت میں بھی بہت بڑا مطالعہ رکھتے ھیں، اچھے رجال اور راویوں کو پہچانتے ھیں، اور اخبار و حدیث کی شناخت میں محدث محقق اور اہل مھارت ھیں، خصوصاً جعلیات اور تحریفات کی شناخت میں بے نظیر ماہر ھیں، چنانچہ موصوف نے نہج البلاغہ کی شرح کرتے ھوئے ان سب چیزوں سے فائدہ اٹھایا اور بہج الصباغہ کی تالیف فرمائی۔
بہج الصباغہ میں تاریخ پر اس قدر توجہ کی گئی ھے کہ اس میں صرف نہج البلاغہ اور امام علی علیہ السلام سے متعلق واقعات بیان نھیں کئے گئے بلکہ حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی بھی بیان کی ھے، اس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے حالات زندگی کے بعد خاص طور پر مقتل امام حسین علیہ السلام اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کی گفتگو کی گئی ھے اور اگر ان سب کو ایک جگہ جمع کردیا جائے تو بے شک ایک مفید اور مستند مقتل کی صورت میں بہترین کتاب بن جائے گی۔