تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ سید رضی کی ولادت ۳۵۹ ہجری کو بغداد میں ہوئی ، آپ کا نام محمد رکھا گیا اور بعد میں آپ ”شریف رضی“ اور ”ذو الحسبین“ کے نام سے مشہور ہوئے ۔
آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت حسین بن ابی محمد اطروش تھا ، آپ کا شجرہ نسب امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) تک پہنچتا ہے (۱) آپ بہت ہی فاضلہ، پرہیزگار اور بلند مرتبہ خاتون تھیں ، سید رضی نے اپنی والدہ کے متعلق اس طرح کہا ہے :
لو کان مثلک کل ام برة
غنی البنون بھا عن الاباء
اگر تمام نیک مائیں تم جیسی ہوجاتیں تو بچوں کو اپنے والد کی ضرورت محسوس نہ ہوتی(۲) ۔
آپ کے والد کا شجرہ نسب امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے ملتا ہے ، ان کا نام ابواحمد ، حسین بن موسی تھا (۳)، عباسی حکومت اور آل بویہ کی حکومت میں آپ کا بہت عظیم مرتبہ تھا آپ کو ابونصر بہاء الدین نے ”الطاہر الاوحد“کے لقب سے نوازا تھا ۔
ابو احمد پانچ مرتبہ طالبیین کی سرپرستی اور ریاست کے عہدیدار رہے اور جس وقت آپ کا انتقال ہوا اس وقت اس گروہ کے نقیب اور بزرگ کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے ۔
۱۔ فاطمہ بنت الحسین بن ابی محمد الحسن الاطروش بن علی بن الحسن بن علی بن عمر بن علی بن ابی طالب (علیہ السلام) ۔
۲۔ مقدمہ یاد نامہ علامہ شریف رضی ۔
۳۔ ابواحمد الحسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن الامام ابی ابراہیم موسی الکاظم (علیہ السلام) ۔
جی ہاں سید رضی ایسے ماں اور باپ سے متولد ہوئے اور ایسے پاک و پاکیزہ خاندان میں آپ کی تربیت ہوئی کہ بچپن سے لے کر آخری عمر تک آپ کے چہرہ سے عظمت و بزرگی ظاہر ہوتی تھی ۔
مرحوم ” علامہ امینی “ نے سید رضی کے متعلق کہا ہے : سید رضی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے طیب و طاہر خاندان کا افتخار،اور علم ، حدیث اور ادب کے دانشوروں کے راہنما اور دین و دانش و مذہب کے بہت بڑے سورما ہیں ۔
بیشک انہوں نے اپنے پاک وپاکیزہ بزرگوں سے جو کچھ میراث میں حاصل کیا تھا ان سب میں وہ بہت آگے اورنمونہ عمل تھے : آپ علم کے دریا،بلند و بالا نفس، صحیح فکر و نظر ،بلند فطرت ، برتر ادب اور پاک و پاکیزہ حسب و نسب کے مالک تھے ، آپ شجرہ نبوی کے نواسہ اور ولایت علوی کی شاخ ہیں ، آپ نے عظمت وبزرگی ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) اور سیادت، حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے میراث میں حاصل کی ہے ۔
اس کے علاوہ آپ میں دوسرے بہت سے فضائل پائے جاتے ہیں جن کو لکھنے کی قلم میں طاقت نہیں ہے (۱) ۔
اس کے بعد علامہ امینی نے ایسی چالیس کتابوں کا نام ذکر کیا ہے جن میں سید رضی کی شخصیت اور زندگی کے متعلق بیان کیا گیا ہے ،اس کے بعد مزید کہتے ہیں :
آپ کے بلند روحانی حالات کا” علامہ شیخ عبدالحسین حلی“ کی کتاب میں جس کو انہوں نے اپنی تفسیر کی پانچویں جلد کے ۱۱۲ صفحہ کے مقدمہ لکھا ہے ، مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔
آپ کی بلند مرتبہ شخصیت کے متعلق مشہور مصنف ”زکی مبارک“ کی کتاب ”عبقریة الرضی“ میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو دو بزرگ جلدوں میں چھپی ہے اور ان دونوں سے پہلے علامہ شیخ محمد رضا کاشف الغطاء نے ان کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے ۔
سید رضی کے استاد :
علامہ امینی نے سید رضی کے چودہ استادوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے صرف مندرجہ ذیل افراد کی طرف یہاں پر اشارہ کریں گے:
۱۔ ابوسعید حسن بن عبداللہ بن مرزبان نحوی، معروف بہ ”سیرافی“ ، متوفی ۳۶۸۔ سید رضی نے اس وقت آپ سے علم نحو سیکھا جب آپ کی عمر دس سال کی بھی نہیں ہوئی تھی ۔
۲۔ ابوعلی حسن بن احمد فارسی، مشہور نحوی، متوفی ۳۷۷۔
۳۔ ہاون بن موسی ۔
۴۔ ابویحیی عبدالرحیم بن محمد، معروف بہ ”ابن نباتہ“ ، زبردست اور مشہور خطیب، متوفی ۳۹۴۔
۵۔ قاضی عبدالجبار ، شافعی معتزلی کے مشہور عالم۔
۶۔ حقیقت میں سید رضی کے سب سے بزرگ استاد ، فقیہ،محدث، شیعہ متکلم ، شیخ مفید ہیں ، سید رضی اور ان کے بھائی سید مرتضی کی شاگردی کا واقعہ سننے کے لائق ہے ۔
”الدرجات الرفیعہ“ کے مولف نے لکھا ہے : ایک رات شیخ مفید نے خواب دیکھا کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) اپنے دونوں فرزند حسن اور حسین (علیہما السلام) کا ہاتھ پکڑ کر کرخ(بغداد کے قدیم محلہ ) کی مسجد میں داخل ہوئیں اور ان کو شیخ مفید کے حوالہ کیا اور کہا : میرے ان دونوں بچوں کو فقہ سیکھاؤ ! ( و قالت لہ : علمھما الفقہ) ۔
شیخ مفید بہت ہی تعجب کے ساتھ خواب سے بیدار ہوگئے اور جب صبح ہوئی تو معمول کے مطابق مسجد میں گئے ، ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی کہ آپ نے دیکھا سید رضی کی والدہ فاطمہ اپنے خادموں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئیں ، آپ کے ساتھ سید رضی اور سید مرتضی بھی تھے ، شیخ مفید نے جیسے ہی ان کو دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور فاطمہ کو سلام کیا ۔ فاطمہ نے شیخ کی طرف رخ کرکے کہا :
اے شیخ ! میں اپنے ان دونوں بچوں کو آپ کے پاس لائی ہوں تاکہ آپ ان کو فقہ سیکھاؤ!
شیخ مفید کو اپنا رات کا خواب یاد آگیا اور آپ گریہ کرنے لگے ، آپ نے اپنے خواب کا سارا واقعہ فاطمہ کو سنایا ۔
۱۔ الغدیر ، ج ۴، ص ۱۸۱۔
جی ہاں اس طرح شیخ مفید نے ان دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی اور خداوند عالم نے بھی ان پر احسان کیا اور علم و دانش کے بہت زیادہ دروازے ان کے لئے کھول دئیے ،ان کی بہت سی اہم کتابیں آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں ۔
اس واقعہ کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح کی پہلی جلد کے صفحہ ۴۱ پر بیان کیا ہے ۔
سید رضی کے شاگرد
بہت سے شیعہ اور اہل سنت بزرگ علماء نے آپ سے روایت کی ہے کہ علامہ امینی نے آپ کے ایسے نو شاگردوں کے نام نقل کئے ہیں جنہوں نے سید رضی سے روایت کی ہے انہی میں سے آپ کے بڑے بھائی سید مرتضی ، شیخ الطائفہ ، ابوجعفر محمد بن حسن طوسی کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔
سید رضی نے اپنی بلند ہمت کے ساتھ طلاب اور دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لئے شبانہ روزی ایک مدرسہ تاسیس کیا اور اس کا نام ”دار العلم“ رکھا ، آپ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں ایسا مدرسہ تاسیس کیا جس میں شب و روز تعلیم دی جاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک کتب خانہ بھی تاسیس کیا(۱) ۔
یاد نامہ علامہ سید شریف رضی ، ص ۲۹۔
سید رضی کی تالیفات اور کتابیں
علامہ امینی نے سید رضی کی ۱۹ کتابوں کا ذکر کیا ہے جن میں سب سے اہم نہج البلاغہ ہے جس میں حضرت علی (علیہ السلام) کے خطبے،خطوط اور کلمات قصار ہیں ۔
اس کے بعدعلامہ امینی نے اپنے زمانہ تک لکھی جانے والی نہج البلاغہ کی ۸۱ شرحوں اور ترجموں کا ذکر کیا ہے ۔
سید رضی کی دوسری اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ ”خصائص الائمہ“۔ مولف نے نہج البلاغہ کے مقدمہ میں اس کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
۲۔ ”مجازات آثار النبویة“ ،یہ کتاب ۱۳۲۸ میں بغداد میں چھپ کر منتشر ہوئی ۔
۳۔ آپ کے ”علمی خطوط“ تین جلدوں میںچھپے ہیں ۔
۴۔ ”معانی القرآن“۔
۵۔ ”حقائق التاویل فی متشابہ التنزیل “ ، کشی نے اس کتاب کو ”حقائق التنزیل“ سے تعبیر کیا ہے ۔
مرحوم حاج شیخ عباس قمی نے اپنے استاد محدث نوری سے نقل کیا ہے،جسا کہ ابوالحسن عمری نے کہا ہے ،کتاب ”حقائق التنزیل“ ،شیخ طوسی کی کتاب ”تبیان“ سے بڑی،نیک اور مفید ہے ،ہمیں اس کا صرف پانچواں حصہ مل سکا جس میںپورے سورہ آل عمران اور آدھے سورہ نساء کی تفسیر ہے ۔ اس کتاب میں سید رضی کا طور طریقہ یہ ہے کہ آپ مشکل آیت کو بیان کرتے ہیں اور اس کے اشکال کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، اس کے بعد مفصل طریقہ سے اس کا جواب دیتے ہیں، اور ان آیات کے درمیان دوسری آیات کی بھی تفسیر کرتے ہیں ۔ اس بناء پر آپ نے تمام آیتوں کی تفسیر نہیں کی ہے ، بلکہ ان آیات کی تفسیر کی ہے جن آیات کی تفسیر میں ابہام و اشکال پایا جاتا تھا (۱) ۔
۱۔ سفینة البحار، مادة (رضا) ۔
سید رضی اور اشعار
سید رضی شاعری میں بھی مشہور تھے ، اگر چہ اشعار سے آپ کی عظمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ،لیکن بہر حال آپ نے جتنے اشعار کہے ہیں وہ سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ شعر کہنے میں بھی بہت زیادہ قوی تھے ۔ سید رضی نے دس سال سے کم عمر میں قصیدہ غراء کہا تھا جس میں اپنے بلند حسب و نسب کو بیان کیا ہے ۔
بہت سے دانشور آپ کو قریش کا بہترین شاعر کہتے ہیں ۔ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :
میں نے محمد بن عبداللہ کاتب سے سنا ہے : سید رضی ، قریش کے زبردست شاعر تھے ۔ ”ابن محفوظ“ نے اس کے جواب میں کہا : جی ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے ، اس کے بعد مزید کہا : قریش کے درمیان کچھ لوگ تھے جو بہترین اشعار کہتے تھے ،لیکن ان کے اشعار بہت کم تھے، لیکن جس نے خوبصورت اور زیادہ اشعار کہے ہیں وہ صرف سید رضی ہیں ۔
سید رضی کے القاب اور عہدے
”بہاء الدولہ دیلمی“ نے ۳۸۸ ہجری میں سید رضی کو ”شریف اجل“ کے لقب سے نوازا، ۳۹۲ میں”ذوالمنقبتین“ اور ۳۹۸ میں ”رضی ذوالحسبین“ کا لقب دیا ۔ ۴۰۱ ہجری میں ”بہاء الدولہ“ نے حکم دیا کہ تمام تقریروں اور خطوط میں سید رضی کو ”شریف اجل“ کے لقب سے یاد کریں ۔
سید رضی ۳۸۰ ہجری میں جب آپ کی عمر ۲۱ سال سے زیادہ نہیں تھی ،عباسی خلیفہ ”الطائع باللہ“ نے آپ کو حاجیوں کا سرپرست(امیرالحاج) اور دیوان مظالم کی سرپرستی پر معین کیا،اس کے بعد ۱۶ محرم ۴۰۳ ہجری کو تمام شہروں کی طالبین کی سرپرستی کے عہدے پر منصوب ہوئے اور آپ کو ”نقیب النقباء“ کہا جانے لگا(۱) ۔
۱۔ ”نقابت“ ایک ایسا عہدہ تھا جس کو نہ چاہتے ہوئے بھی ممتاز شخصیت، محبوب ، عالم اور باتقوی انسان کو دیا جاتا تھا اور لوگ عام طور سے اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے اور اس کی سرپرسرتی کو قبول کرتے تھے ، خلفاء اور بادشاہ بھی شہرت حاصل کرنے کیلئے اس کا حکم دیتے تھے ، اس منصب کے مالک کی درج ذیل ذمہ داریاں تھیں:
۱۔ سادات خاندانوں کی شمارش اور حفاظت۔
۲۔ آداب اور اخلاق کے لحاظ سے لوگوں کی حفاظت۔
۳۔ پست اور نامشروع مشاغل سے ان کو دور رکھنا ۔
۴۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے قانون کی بے حرمتی سے منع کرنا ۔
۵۔ دوسروں پر تجاوز کرنے سے منع کرنا ۔
۶۔ لوگوں کے حقوق کو ان تک پہچانا ۔
۷۔ ان کے حقوق کو بیت المال سے ادا کرانا ۔
۸۔ ان کی لڑکیوں اور شادیوںپر نظر رکھنا ۔
۹۔ عدالت کو جاری کرنا ۔
۱۰۔ موقوفات پر نظارت کرنا (الغدیر ، ج ۴، ص ۲۰۵ سے ۲۰۷ تک (خلاصہ کے ساتھ) ۔
سید رضی نے بہت ہی کفایت اور شایستگی کے ساتھ معاشرہ کے تمام مناصب کو حاصل کیا ،یہاں تک کہ ”القادر باللہ“ کے زمانہ میں حرمین شریفین کی سرپرستی بھی آپ کو دیدی گئی ۔
شاید اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت عباسی کا مرحوم سید رضی کی طرف متوجہ ہونے اور ان کو یہ سب مناصب دینے کا مقصد یہ تھا کہ بنی ہاشم اور علویوں میں آپ کا بہت زیادہ نفوذ تھا ، آپ ان کے بزرگ اور معتمد سمجھے جاتے تھے ، لہذا حکومت اور خلافت کے پاس ان بیوتات کے ادارہ کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔
سید رضی غیروں کی نظر میں
سید رضی کے متعلق بہت سے دانشوروں نے اپنے نظریات بیان کئے ہیں ہم یہاں پر ان میں سے بعض کی رائے کو نقل کریں گے :
۱۔ ثعالبی جو آپ کے معاصر تھے ، آپ کے متعلق کہتے ہیں :
وہ آج ہمارے زمانہ کے روشن فکر اور عراق کے شریف سید ہیں، حسب ونسب کے علاوہ آپ بہترین ادب اور کامل فضل سے مزین ہیں ۔
۲۔ ابن جوزی نے المنتظم میں کہا ہے :
بغداد میں سید رضی ، طالبین کے بزرگ اور راہنما تھے، آپ نے تیس سال کی عمر میں قرآن کریم کو حفظ کرلیاتھا ، فقہ کو بھی بطور عمیق اور دقیق پہچانا اور حاصل کیا ۔ آپ عالم، فاضل، زبردست شاعراور بہت ہی دیندار انسان تھے ۔ نقل ہوا ہے کہ ایک روز ایک خاتون نے آپ کو پانچ درھم کا اون کا بنا ہوا کپڑابیچا ، جب آپ اس کپڑے کو گھر لائے اور اسے کھولا تو اس میں”ابن مقلہ“ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک تحریر پائی، آپ نے دلال سے کہا کہ اس عورت کو بلا کر لاؤ ، جب وہ عورت آئی تو آپ نے اس سے کہا کہ میں نے جو تجھ سے اون کا بنا ہوا کپڑا خریدا ہے اس میں ”ابن مقلہ“ کی تحریر ملی ہے ،اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہئے اس کاغذ کو واپس لے جاؤ اور چاہے اس کی قیمت لے لو ، وہ عورت اس کی قیمت لے کر چلی گئی اور سید رضی کے لئے دعاء کی ۔ اسی طرح سید رضی بہت ہی زیادہ جود و سخاوت کے مالک تھے ۔
۳۔ مصر کے مشہور دانشور ڈاکٹر زکی مبارک جو کہ خود بہت بڑے مولف ہیں ، نے لکھا ہے :
بغیر کسی شک و شبہ کے سید رضی ایک بہت بڑے مصنف ہیں، لیکن ان کے کاموں میں ان کااسلوب علمی ہے فنی نہیں نہیں، اگرچہ ان کی بعض کتابوں میں فنی پہلو بھی پایا جاتا ہے ۔
دوسری جگہ کہتے ہیں : جب میں سید رضی کے اشعار کا مطالعہ کرتا ہوں اور پھر ان کی نثر کا مطالعہ کرتا ہوں تو میں ان کو ایک دوسری شخصیت پاتا ہوں ، میں دیکھتا ہوں کہ ان کی علمی تحریریں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ بہت بڑے ادیب ہیں ۔
انہوں نے اپنی کتاب میںدوسری جگہ لکھا ہے : اگر سید رضی کے تمام قلمی آثار باقی رہتے اس وقت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ تمام مولفین کے درمیان بے نظیر مولف اور مصنف ہیں اور تالیف و تصنیف میں آپ کا مقام بہت بلند ہے (۱) ۔
سید رضی کی وفات
سید رضی کا چھے محرم ۴۰۶ کو ۴۷ سال کی عمر میں انتقال ہوا،آپ کی تشیع جنازہ میں وزراء، قاضی، دوسری اہم شخصیات اور ہر طبقہ کے لوگ پیدل اور پابرہنہ حاضر ہوئے ، آپ کے گھر میں ایک بہت بڑا پروگرام ہوا ۔
اکثر مورخین کے بقول شریف رضی کے جنازے کو کربلا منتقل کیا گیا اور ان کوان کے والد کی قبر کے برابر میںدفن کیا گیا اور جیسا کہ تاریخ میں ملتا ہے کہ شروع ہی سے آپ کی قبر امام حسین (علیہ السلام) کے حرم میںمشہور اور معروف ہے ۔
سید رضی کے بھائی سید مرتضی رنج و غم کی وجہ سے آپ کے جنازہ میں حاضر نہیں ہوسکے ، یہاں تک کہ اپنے بھائی کے تابوت کی طرف نظر بھی نہیں کرسکے ، اسی طرح بہت زیادہ رنج و غم کی حالت میں امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی قبر کی طرف چلے گئے اور اپنے رنج وغم کو کم کرنے کیلئے ایک مدت تک ساتویں امام کے حرم میں بیٹھے رہے ۔ آپ کی وفات کے بعد بہت سے شعراء نے مرثیہ کہے جن میں سب سے پہلے سید مرتضی نے مرثیہ کہا(۲) ۔
۱۔ عبقریة الشریف الرضی ، ج ۱ ، ص ۲۰۴ و ۲۰۵۔
۲۔ سید رضی کی شخصیت اور زندگی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ کتاب الغدیر، ج ۴ ص ۱۸۱۔ ۲۱۱ سے لیا گیا ہے ،اسی طرح ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ، عبقریة الشریف الرضی، سفینة البحار اور یاد نامہ علامہ شریف رضی سے لیا گیا ہے ۔