ومن قال ”فیم“؟فقد ضمنہ، ومن قال”علام“؟ فقد اخلی منہ، کائن لا عن حدث، موجود لا عن عدم، مع کل شیء لا بمقارنة، و غیر کل شیء لا بمزایلة،فاعل لا بمعنی الحرکات والالة، بصیر اذ لا منظور الیہ من خلقہ، متوحد اذ لا سکن یستانس بہ و لا یستوحش لفقدہ۔
ترجمہ
جس نے یہ کہا وہ کس چیزمیں ہے ؟اس نے اسے کسی شئے کے ضمن میں فرض کرلیا اور جس نے یہ کہا وہ کس چیز پر ہے؟اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں ۔ وہ ہمیشہ ہے اور کسی چیز سے وجود میں نہیں آیاہے، وہ ایسا وجود ہے جو عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر شئے کے ساتھ ہے لیکن جسمانی اتصال کی طرح نہیں، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے لیکن اس سے بیگانہ اور جدا نہیں ہے ۔ وہ فاعل ہے (ہرکام کو انجام دینے والاہے)لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں ہے ۔ وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی۔ وہ یگانہ ہے، اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہوجائے ۔
شرح و تفسیر
کوئی بھی چیز اس کے جیسی نہیں ہے
امام علیہ السلام نے خطبہ کے اس حصہ میں توحیدی مباحث کے بہت حساس اور دقیق نقطہ پر روشنی ڈالی ہے اور بہت مختصر اور پر معنی عبارت میں پانچ نکتوں کو بیان کیا ہے ، آپ فرماتے ہیں:
۱۔ خدا وند عالم کی ذات کو مکان (دوسرے لفظوں میں مکان سے بالاتر ہونے)کے لحاظ سے نامحدود ہونے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جس نے یہ کہا وہ کس چیزمیں ہے ؟اس نے اسے کسی شئے کے ضمن میں فرض کرلیا(ومن قال ”فیم“؟فقد ضمنہ) ۔
کیونکہ لفظ ”فی“(فارسی میں لفظ ”در“ )ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے کوئی موجود کسی دوسرے وجود کے ظرف میں ہو اور اس پر احاطہ کئے ہوئے ہو جیسے انسان کا گھر میں ہونا، یا پھول کا باغ میں ہونا ، اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی ذات محدود ہے اورجیسا کہ اوپر اشارہ ہوا ہے کہ توحید کی تمام دلیلیں بتاتی ہیں کہ اس کی ذات ہر لحاظ سے نامحدود ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی سوال کرے کہ خدا کس چیز کے اوپر ہے؟ (عرش پر، کرسی یا آسمانوں کے اوپر)اس نے بھی خدا کو محدود شمار کیا ہے ، کیونکہ اس نے دوسری جگہوں کو اس سے خالی سمجھ لیا ہے” اور جس نے یہ کہا وہ کس چیز پر ہے؟اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں“(ومن قال”علام“؟ فقد اخلی منہ) ۔
اس بات کا لازمہ بھی اس کی ذات کو محدودکرنا ہے جو کہ واجب الوجود کے ساتھ سازگار نہیں ہے، اس بناء پر جن لوگوں نے اس کو عرش یا آسمانوں یا دوسری جگہ پر بٹھا دیا ہے وہ لوگ خالص موحدنہیں ہیں اور حقیقت میں وہ ایسے مخلوق کی پرستش کرتے ہیں جس کو انہوں نے اپنی فکر سے بنایا ہے اور اس کے اوپر ”اللہ“ کا نام رکھ دیا ہے ۔(چاہے وہ عوام کے حلقہ میں ہو یا خواص کے لباس میں ہو) ۔
کبھی ناآگاہ لوگوں نے یہ تصور کیا ہے کہ آیہ شریفہ ” الرحمن علی العرش استوی“ (۱) کو خدا وندعالم کے جسمانی ہونے پر دلیل سمجھتے ہیں اور اس آیت کے ذریعہ انہوں نے خدا وند عالم کو عرش پر بٹھا دیا ہے، جب کہ ”استوی“ کے معنی کسی چیز پر مسلط ہونے کے ہیں اور صرف کسی چیز پر سوار ہونے یا اس کے اوپر بیٹھنے کے نہیںہیںاور اصولی طور پر ”استوی علی العرش“ تخت حکومت پر بیٹھنے کو کہتے ہیں اور اس کے مقابل میں ”تل عرشہ“تخت سے نیچے اترنے کو کہتے ہیں اور ان دونوں تعبیروں سے معروف کنایہ مراد ہے جو حکومت حاصل کرنے یا حکومت سے اترنے میں استعمال ہوتا ہے ،اس سے مراد تخت حکومت کو توڑنا یا اس کے اوپر بیٹھنا نہیں ہے ۔ اس بناء پر ”استوی علی العرش“ کے معنی خدا وندعالم کی عرش کے اوپر حکومت اورحاکمیت کے مستقر ہونے کے ہیں ۔ بہر حال اگر کوئی اس تعبیر سے خداوند عالم کی جسمانیت کا خیال کرے تو وہ بہت ہی بچگانہ حرکت انجام دیتا ہے ۔
۲۔ دوسرے حصہ میں زمانہ کے لحاظ سے اس کے نامحدود ہونے کے متعلق اشارہ کیا ہے اور اس کی ازلی و ابدی ہونے کی وضاحت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں: وہ ایسا وجود ہے جو ہمیشہ ہے اور کسی چیز سے وجود میں نہیں آیاہے(کائن لا عن حدث) ۔
وہ ایسا وجود ہے جو عدم سے وجود میں نہیں آیا(موجود لا عن عدم) ۔
اس طرح وہ تمام مخلوقات سے جدا ہے کیونکہ وہ سب عدم سے وجود میں آئی ہیں ۔ صرف اس کی ذات ایسی ہے جو عدم سے وجود میں نہیں آئی۔ اور اصولی طور پر ”کائن“ اور ”موجود“ کے الفاظ کواستعمال کرنابغیر اس کے مفہوم کو مخلوقات کے صفات اور سابقہ عدم سے دور کئے بیغبر ممکن نہیں ہے(۱) ۔
۱۔ نہج البلاغہ کے بہت سے شارحین نے مندرجہ بالا دو جملوں کو دو عبارتوں میں ایک ہی مطلب سمجھا ہے اور بعض نے(جیسے ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح میں) پہلے جملہ (کائن لا عن حدث)کوعدم حدوث زمانی کی طرف اشارہ اور دوسرے جملہ (موجود لا عن عدم)کو عدم حدوث ذاتی کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔
یعنی پہلے جملہ میں فرماتے ہیں: خدا وند عالم ہرگز کسی زمانہ میں نہیں تھا کہ اس میں حادث ہوتا اور دوسرے جملہ میں کہتے ہیںزمان کے قطع نظر اس کی ذات میں حدوث بھی نہیں ہے ۔ بلکہ وہ واجب الوجود ہے(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۷۹) ۔ بعض علماء نے اس کے برخلاف کہا ہے یعنی پہلے جملہ کو حدوث ذاتی یا زمانی سے نفی کی ہے اور دوسرے جملہ کے ذریعہ حدوث زمانی سے نفی کی ہے(شرح نہج البلاغہ ابن میثم، جلد ۱ ، ص ۱۲۷) ۔
لیکن حقیقت میں ان دونوں فرقوں کے اوپر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ لفظ حدوث،معمولا حدوث زمانی کو کہتے ہیں لیکن اس میںحدوث ذاتی پر حمل ہونے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے جس طرح لفظ عدم معمولا عدم زمانی کیلئے استعمال ہوتا ہے اورممکن ہے کہ عدم ذاتی پر بھی اس کااطلاق ہو ۔
اس بناء پر ان دونوں جملوں کا تاکید کیلئے ہونا زیادہ مناسب لگتا ہے یعنی دونوں کے ذریعہ حدوث ذاتی اور زمانی کی نفی کی ہے اس معنی میں کہ کبھی بھی حدوث اور عدم کو ذات اور زمان میں خدا وند عالم کی ذات کیلئے نفی کیا ہے ۔
۳۔ بعد والے جملہ میں مخلوق اور خالق، ممکنات اور واجب الوجود کے درمیان بہت لطیف رابطہ کی طرف اشارہ کیا ہے ، آپ فرماتے ہیں : وہ ہر شئے کے ساتھ ہے لیکن جسمانی اتصال کی طرح نہیں، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے لیکن اس سے بیگانہ اور جدا نہیں ہے ۔ (مع کل شیء لا بمقارنة، و غیر کل شیء لا بمزایلة) ۔
بہت سے لوگوں نے حتی کہ بہت سے فلاسفہ اور دانشورں نے خداوند عالم کے رابطہ کو موجودات کے ساتھ ،دو مستقل موجود کا ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط جانا ہے جو کہ ایک دوسرے کا مخلوق ہے ۔ مثلا ایک عظیم شعلہ کا وجود ہو اور اس سے ایک چھوٹی شمع روشن کریں جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ مخلوق اور خالق کا فرق ایک ضعیف اور قوی وجود کا فرق نہیں ہے بلکہ ایک مستقل وجود کا فرق تمام جہات سے اور ایک وابستہ وجود کا فرق ہے ۔ تمام عالم اس سے وابستہ ہے اور لمحہ بہ لمحہ اپنے وجود کے نور کو اس سے لیتا ہے ۔ خدا وند عالم اس عالم ہستی سے جدا نہیں ہے اور موجودات میں سے بھی نہیں ہے(جیسا کہ وحدت وجود کے قائلین اور صوفیوں نے سمجھا ہے) اور توحید واقعی اسی حقیقت کو درک کرنے پر منحصر ہے ۔
اس حقیقت کو مندرجہ ذیل مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ہے(اگر چہ یہ مثالیں بھی ناقص ہیں):
سورج کی روشنی اور کرن کا وجود پایا جاتا ہے اور یہ سورج سے الگ ہے، لیکن ہمیشہ اس سے وابستہ ہے، یعنی اس کے علاوہ ہے لیکن یہ مغایرت بیگانگی ، جدایی اور استقلال کے معنی میں نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہے ، لیکن یگانگی اور وحدت کے معنی میں بھی نہیں ہے ۔
بیشک موجودات عالم کا خداوند عالم سے ارتباط اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے اور ان کی خدا سے وابستگی اس سے بھی زیادہ ہے اور حقیقت میں اس سے زیادہ دقیق مثال اس وابستگی اور یگانیت کیلئے اس عالم میں نہیں مل سکتی۔ اگر چہ مذکورہ مثال کی طرح دوسری مثالیں (یا انسان کے ذہنی تصورات کی طرح جو کہ روح سے وابستہ ہے اور اس سے جدا نہیں ہے اور درعین حال اسی سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے)کسی حد تک مطلب کو واضح کردیتی ہیں(غور و فکر کریں) ۔
۴۔ اس کے بعد دوسرے جملہ میں خدا وندعالم کی ایک دوسری صفت کے سلسلہ میں اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں:وہ فاعل ہے (ہرکام کو انجام دینے والاہے)لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں ہے ۔ (فاعل لا بمعنی الحرکات والالة) ۔
روزانہ کی باتوں میں معمولا فاعل اور کام کرنے والا اس پر اطلاق ہوتا ہے جو اپنے ہاتھ اور پیر یا سر اور گردن کی حرکات و سکنات سے کوئی کام انجام دیتا ہے اور چونکہ انسان اور جانداروں کی قدرت کام انجام دینے میں محدود ہے اور انسان کے اعضاء اپنی تمام ظرافت کے ساتھ ہر کام انجام دینے پر قادر نہیں ہیں، اور وسائل و آلات سے مدد لیتا ہے اور اپنی کمیوں اور قدرت کو اس سے پورا کرتا ہے ۔ ہتھوڑے سے کیل کو ٹھوکتا ہے، آری سے لکڑی کو کاٹتا ہے اور جر ثقیل سے بھاری چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے اور ان سب میں جسم و جسمانیت کے آثار پائے جاتے ہیں ۔
اور چونکہ خداوند عالم کے پاس نہ جسم ہے اور نہ ہی اس کی قدرت کے لئے کوئی حدوحدودی ہے لہذا اس کی فاعلیت بھی کسی حرکت کو انجام دینے کے معنی میں نہیں ہے اور وہ اپنی نامحدود قدرت کی وجہ سے وسائل و آلات کامحتاج نہیں ہے ۔
اصولی طور پر وسائل و آلات کے خلق ہونے سے پہلے خداوند فاعل تھا ۔ جب بھی اس کو کوئی انجام دینے کیلئے کسی آلہ کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنی پہلی اشیاء کی خلقت سے عاجز ہوتا ۔
جی ہاں وہ ایک آنکھ جھپکنے سے پہلے یا اس سے بھی کم وقت میں اپنے حکم ”کن“ کے ذریعہ پوری کائنات کو موجود یا معدوم کرسکتا ہے اور رفتہ رفتہ ہر وقت اپنے ارادہ کے ذریعہ اس کو وجود دے سکتا ہے ۔ پس توجہ رہے کہ جب بھی ہم کہتے ہیں کہ خدا وند عالم فاعل ہے تو اس کی فاعلیت کو اپنی ذات پر قیاس نہ کریں اور آلات ووسائل کی حرکات کے مرہون منت شمارنہ کریں ۔
البتہ اس کے معنی یہ نہیںہیں کہ خداوند عالم کے پاس خلقت کی تدبیر کیلئے فرمانبرداراور فرشتے نہیں ہیں ۔ وہ بہت سے حوادث کو اسباب کے ذریعہ ایجادکرتا ہے کیونکہ اس کا ارادہ اسی پراستوار ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کو ان کی ضرورت ہے ۔
۵۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی(بصیر اذ لا منظور الیہ من خلقہ) ۔
یہ بات صحیح ہے کہ ”بصیر“ کے معنی دیکھنے کے ہیں، اس کا مادہ ”بصر“ ہے جس کے معنی آنکھ کے ہیں، لیکن خدا وند عالم کے متعلق کبھی بھی حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوتا ۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہا جائے کہ ایسا مجاز ہے جو حقیقت سے بالاتر ہے ۔ خداوند عالم کے بصیر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان تمام چیزوں سے آگاہ ہے جو روٴیت کے قابل ہیں ، یہاں تک کہ وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب کوئی چیز دکھائی دینے والی نہیں تھی۔
اس بناء پر اس کا بصیر ہونا اس کے بے نہایت علم کی طرف پلٹتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا علم ازلی ہے ۔
اس حصہ کے آخری جملہ میں اس کی وحدانیت کے متعلق اشارہ کرتے ہیں :وہ یگانہ ہے، اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہوجائے(متوحد اذ لا سکن یستانس بہ و لا یستوحش لفقدہ)(۱) ۔
۱۔ کیا یہاں پر ”۱ذ“ ظرفیت ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ازل میں کوئی چیز پیدا نہیں کی گئی تھی اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز کا وجود نہیں تھا، جس کو وہ اپنا انیس و مونس قرار دیتا ، یا اس کے چلے جانے سے ناراض ہوتا؟ یا یہ کہ ”اذ“ یہاں پر علت کو بیان کررہا ہے یعنی چونکہ کسی کا وجود نہیں تھا اس لئے وہ یکہ و تنہا تھا اور آج بھی ہے کیونکہ اس کو کسی کی یا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے؟
دوسرا احتمال قوی معلوم دیتا ہے ۔ ضمنا جملہ ”لا یستوحش“ میں ”لا“زائدہ ہے اور تاکید کے لئے آیا ہے اور بعض نے اس کو جملہ مستانفہ سمجھاہے ۔
انسان اور دوسرے زندہ موجودات کی قدرت اپنے فائدہ حاصل کرنے اور ضرر و نقصانات کو دور کرنے میں محدود ہے لہذا وہ اپنے جیسے افراد یا دوسروںسے مدد لینے میں مجبور ہیں تاکہ جو خطرات اس کو درپیش ہیں ان کے مقابلہ امنیت کا احساس کرسکیں ۔ یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان تنہائی سے ڈرتا ہے اور اپنے پاس دوسرے افراد کے ہونے سے خصوصا اس وقت جب اس کو آفات، بلاؤں اور بیماریوں کا خطرہ ہو تو آرام و سکون حاصل کرتا ہے ۔اور کبھی کبھی یہ کوتاہ فکر انسان خدا کو اپنے آپ سے قیاس کرتا ہے اور تعجب کرتا ہے کہ خداوند عالم ان مخلوقات کے پیدا ہونے سے پہلے کس طرح تنہا تھا، اور کس طرح بغیر دوست و مددگار کے رہتا تھا، اور کس طرح اس تنہائی کے عالم میں آرام و سکون کا احساس کرتا تھا؟!
اس بات سے بے خبر ہو کر کہ وہ ایساموجود ہے جس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے جو اس کی مدد کرے او رنہ کسی کی دشمنی سے پریشان ہے کہ اس کے لئے کسی سے مدد کی درخواست کرے اور نہ کوئی اس کا شبیہ و نظیر ہے جس سے وہ انس و محبت کرے ۔ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ متوحد(بے یار و مددگار)تھا اور اسی طرح آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا، مذکورہ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ”متوحد“ کا مفہوم ”واحد“ اور ”احد“ سے الگ ہے ۔
نکات
اس حصہ میں بہت سے پر معنی نکات پوشیدہ ہیں اور اس میں بہت سے عبرت آمیز درس ہیں جن کے ذریعہ سے” اللہ کی معرفت اور اس کے اسماء و صفات“ کی بہت سی عقیدتی مشکلات حل ہوسکتی ہیں:
۱۔ مخلوق اور خالق کا رابطہ اور ”وحدت وجود“ کا مسئلہ!
خدا وند عالم او رمخلوق کے درمیان کیا رابطہ ہے اس سلسلہ میں فلاسفہ اور دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے۔ اس سلسلہ میں بعض گروہ نے افراط سے کام لیا ہے اور انہوں نے وحدت وجود اور موجود کی راہ میں قدم بڑھایا اور اس کو مخلوق کی طرح سمجھنے لگے۔
وہ کہتے ہیں عالم ہستی میں ذاتی وجود ایک سے زیادہ نہیں ہے اور اس کے علاوہ جوکچھ بھی ہے اس میں اس کی ذات کے جلوے موجود ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے : ایک سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے اورکثرت ، تعدد، خیالات اور فکریں ایسی سراب کی طرح ہیں کہ جو اپنے آپ کو پانی ظاہر کرتا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہیں ہے۔
کبھی کبھی وحدت او راتحاد کے بجائے حلول کی تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ایسی ذات ہے جو تمام اشیاء میں حلول کرگئی ہے اور ہر زمانہ میں ایک لباس میں آتا ہے اور بے خبر وجال لوگ اس میں دوئی کا احساس کرتے ہیں جب کہ وہ ایک سے زیادہ کچھ نہیں ہے (۱) ۔
۱۔ بہت سے صوفیوں کا یہی عقیدہ ہے اور ان کے بڑے علماء کے جملے اس بات پر گواہ ہیں جو انہوں نے کہے ہیں جیسے بعض نے کہا ہے ”انی انا اللہ“ (میں خدا ہوں) اور بعض نے بہت تعجب خیز جملات کہیں ہیں ”سبحانی ما اعظم شانی” (میں پاک و منزہوں! میرا مقام و منزلت کتنا بڑا ہے!) اور بعض نے اپنے اشعار میں وضاحت کے ساتھ کہا ہے: بت پرستی عین خدا پرستی ہے!
مسلمان گر بدانستی کہ بت چیست
یقین کردی کہ حق در بت پرستی است!
جیسا کہ مولوی کہ اشعار میں بیان ہوا ہے جو خدا کو ایک بت عیار کے عنوان سے یاد کرتا ہے کہ خدا وند عالم ایک روز آدم کے لباس میں آیا! اور بعد میں نوح کی شکل میں اس کے بعد موسی و عیسی کی شکل میں ظاہر ہوااور پھر محمد (ص) کی شکل میں اور ایک روز علی اور ان کی تلوار ذوالفقار کی شکل میں ظاہر ہوا اور آخر کار منصورکی شکل میں سولی پر چڑھ گیا! ( ”عارف و صوفی چہ می گویند“ سے تلخیص، صفحہ ۱۱۷) ۔
خلاصہ یہ کہ وہ عالم ہستی کو ایک دریا کی طرح سمجھتے ہیں اور موجودات کو اس دریا کے قطرے:
ہر کس کہ ندیدہ قطرہ بابحریکی
حیران شدہ ام کہ چون مسلمان باشد؟!
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ہر طرح کی دوئی، اس عالم میں خیال و وہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
وصال این جایگہ رفع خیال است
خیال از پیش بر خیزد وصال است!
بلکہ بعض علماء کے عقیدے کے مطابق انسان صوفی حقیقی اس وقت ہو سکتا ہے جب وحدت وجود اور موجود پر اعتقاد رکھتا ہو بغیر اس کے صوفی حقیقی نہیں بن سکتا کیونکہ تصوف کی اساس اور بنیاد یہی وحدت وجود ہے!
اگر چہ ان کے بعض کلمات ، توجیہ کرنے اور بعض صحیح معانی پر حمل کرنے کے قابل ہیں ۔ جیسا کہ عالم میں قائم بالذات کا حقیقی وجود ایک سے زیادہ نہیں ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ اسی سے وابستہ ہے (جیسا کہ تشبیہ میں اسمی اور حرفی معنی کی بحث میں کہا ہے)یا یہ ہے کہ خداوندعالم کی ذات (کہ جس کاوجود ہر جہت سے لامحدود ہے) کے علاوہ باقی موجودات اس قدر چھوٹی اور بے قیمت ہیں جن کا شمار نہیں ہوتا ایسا نہیں ہے کہ ان کا اصلا وجود ہی نہ ہو۔
لیکن ان کی یہ باتیں توجیہ و تاویل کے قابل نہیں ہیں بیشک یہ کہتے ہیں اس دنیا میں ایک وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے باقی جو کچھ ہے وہ ایک خیال اور وہم ہے یہاں تک کہ وضاحت کرتے ہیں کہ بت پرستی بھی اگر محدود نہ ہو تو عین خدا پرستی ہے، کیونکہ تمام عالم وہ ہے اور وہ تمام عالم ہے۔
یہ بات کسی کی بھی ہو(وجدان و عقل کے برخلاف ، بلکہ بدیہات میں سے ہے اور اس کے ذریعہ علت و معلول، خالق و مخلوق اور عابد معبود کا انکار کیا جارہا ہے) اسلامی عقاید کے لحاظ سے اس کا فساد و بطلان کسی کے اوپر پوشیدہ نہیں ہے۔کیونکہ اس صورت میں خدا اوربندہ، پیغمبر و امت، عابد و معبود اور شارع و مکلف کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جائے گایہاں تک کہ بہشت و دوزخ، اہل بہشت اور اہل دوزخ سب ایک ہوجائیں گے اور سب اس کی عین ذات ہیں،اور یہ دوئی ، وہم و خیال کی ایجاد ہے کہ اگر اس وہم و خیال کے پردوں کو ہٹا دیں تواس کے وجود کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا! اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم کے مجسم ہونے یا اس کے حلول ہوجانے کا اعتقاد قائم ہوجائے گا۔
لہذا یہ نہ عقل و دلایل عقل سے سازگارہے اور نہ اسلامی عقاید اور قرآن سے۔ یہی وجہ ہے کہ فقیہ نامدار مرحوم محقق یزدی (قدس سرہ) عروة الوثقی کے متن میں کفار کی بحث کے سلسلہ میں لکھتے ہیں : لا اشکال فی نجاسة الغلاة والخوارج والنواصب و اما المجسمة والمجبرة والقائلین بوحدة الوجود من الصوفیة اذا التزموا باحکام الاسلام فالاقوی عدم نجاستھم الا مع العلم بالتزامہم بلوازم مذاھبھم من المفاسد (۱) ۔ غلات، خوارج اور نواصب کے ناپاک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے (۲) ۔ لیکن جو لوگ خدا کی جسمانیت اور جبر کے قائل ہیں اور اسی طرح صوفیوں کا وہ گروہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے، اگر یہ اسلام کے احکام پر عمل کریں تو اقوی یہ ہے کہ یہ نجس نہیں ہیں ، مگر یہ ثابت ہوجائے کہ جو چیزیں ان کے مذہب میں فاسد ہیں یہ ان پر قائم ہیں ۔
۱۔ عروة الوثقی، نجاست کافر کی بحث، مسئلہ ۲۔
۲۔”غلات“ وہ لوگ ہیں جو ائمہ(علیہم السلام)خصوصا حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ان کو خدا جانتے ہیں یا ان کو خدا کے ساتھ متحد شمار کرتے ہیں ۔ ”خوارج“ وہ لوگ ہیں جو جنگ صفین میں سے باقی رہ گئے تھے اور انہوں نے حضرت علی(ع) کے خلاف خروج کیا تھااور جنگ نہروان میں آپ کے ساتھ جنگ میں ہار گئے تھے ۔ اور نواصب ، اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمن ہیں ۔
اس عبارت میں دو نکتہ قابل توجہ ہیں: ایک وحدت وجود کے معتقدین کو جبریوں اور جو لوگ خدا کی جسمانیت کے قائل ہیں،ان کے اوپر عطف کرنااور ان سب کو ایک صف میںشمار کرنا اور دوسرے اس بات کی وضاحت کہ ان کے اعتقاد میں مفاسد دینی پائے جاتے ہیں اگر یہ ان مفاسد کو انجام دیں تو مسلمان نہیں ہیں اور اگر ان مفاسد کو انجام نہ دیں تو مسلمانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
یہ بات وضاحت کے ساتھ سمجھا رہی ہے کہ ان کے مذہب میں اس قدر مفاسد موجود ہیں کہ اگر یہ ان پر پابند رہیں تو مسلمانوں کی صف سے خارج ہوجائیں گے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ جن علماء نے عروہ الوثقی پر حاشیہ لگایا ہے، انہوں نے اس بات کو قبول کیا ہے یا اس پر کچھ قیود کا اضافہ کیا ہے (جیسے توحید اور رسالت کے انکار کا سبب نہ ہو) (۱) ۔
۱۔اس کی زیادہ وضاحت کیلئے مرحوم آیة اللہ شیخ محمد تقی آملی (فقیہ ، فلسفی) کی کتاب مصباح الھدی کی جلد اول کے صفحہ ۴۱۰ پر مراجعہ کریں اور اسی طرح مرحوم آیةاللہ خوئی کی تقریرات میں تیسری جلد کے صفحہ ۸۱ اور ۸۲ پر مراجعہ کریں ۔
اس مسئلہ کے مفاسد اور برائیوں کو جاننے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں جس کی طرف مثنوی میں اشارہ ہوا ہے۔
مثنوی کے چوتھے دفتر میں ایک لمبی داستان کو نقل کرتے ہوئے یزید کے جملہ ”سبحانی ما اعظم شانی“ کو نقل کیا ہے جس پر اس کے مریدوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کیا بکواس ہے جس کو بیان کرتے ہو اور کہتے ہو ”لا الہ الا انا فاعبدون” (میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہذا میری پرستش کرو)؟!۔ اس نے کہا اگر میں نے دوبارہ اس کی تکرار کی تو چاقو سے میرے اوپر حملہ کرنا۔ دوبارہ پھر اس نے یہی کہااور ”میرے جبہ میں خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے اس کو زمین و آسمان میں کیوں تلاش کرتے ہو“کا نغمہ الانپا۔ اس کے مریدوں نے چاقو سے اس پر حملہ کیا،لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ چاقو سے اپنے جسم کو زخمی کررہے ہیں ۔
یہ گھڑا ہوا افسانہ اور اس طرح کی فکر بتا رہی ہے کہ اس راہ کو تلاش کرنے والے کہاں تک جاتے ہیں ۔
اس بات کو نہج البلاغہ میں ایک معاصر کے کلام پر ختم کرتے ہیں:
”یہ مکتب (وحدت وجود بہ معنائے وحدت موجود)عقلی تمام قوانین ، نفسانی فکر اور الہی ادیان کی باتوں سے دور ہے اور جہان ہستی کو وجود کے مرتبہ (خدا) سے اوپر لے جاتا ہے یا خدا کو بہت پست کرکے اس دنیا سے ملا دیتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ اس مکتب نے بعض افراد کے ذہن کواشکالات سے چھٹکارا پانے کیلئے مشغول کررکھا ہے (۱) ۔
۱۔ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، استاد جعفری، جلد ۲، ص ۶۴۔
۲۔ ناآگاہ افراد کا خدا کے صفات کی حقیقت سے منحرف ہونا
اگر مولا علی(علیہ السلام) کے اس حصہ کے کلام میں غور و خوض کریں تو اصل توحید اور خدا کے صفات کی حقیقت سے منحرف ہونے کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور اور انسان ان آیات ”و نحن اقرب الیہ من حبل الورید” (ہم انسان کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں (۱)) اسی طرح ” و ھو معکم اینما کنتم” (۲) ”و ما یکون من نجوی ثلاثة الا ھو رابعھم” (کہیں بھی تین آدمیوں کے درمیان راز کی بات نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے (۳))، ”اللہ نور السموات والارض” (اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۴))، اور ” و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ“ (اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے (۵)) کے مفہوم سے بخوبی آگاہ ہوجاتا ہے۔
۱۔ سورہٴ ق، آیت ۱۶۔
۲۔ سورہ ٴ حدید، آیت ۴۔
۳۔ سورہٴ مجادلہ، آیت ۷۔
۴۔ سورہٴ نور، آیت ۳۶۔
۶۔ سورہ انفال، آیت ۲۴۔
یہ نکتہ وحدت و جود سے متعلق بحثوں کو(اس کے صحیح معنی میں) کامل کرنے کے علاوہ خدا کے صفات میں ہر طرح کی کج فہمی کے راستہ کو بند کردیتا ہے۔
لیکن حیرت و تعجب کی وادی میں گمشدہ افراد ایسے مسائل کو تلاش کرنے لگے جس سے انسان کو شرم آتی ہے۔
انہی میں سے ایک گروہ ”مجسمہ“ کا ہے یہ لوگ خدا وند عالم کے لئے ان صفات کے قائل ہوگئے جو صفات ممکنات میں پائے جاتے ہیں اور اس کے لئے جسم و جسمانیت تک کے قائل ہوگئے، یہی نہیں بلکہ اس کے لئے شکل و صورت ، ہاتھ پیر ، گھنگھریالے بال اور زمان و مکان کے قائل ہوگئے، ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ خدا وند عالم اس دنیا میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور ایک گروہ کاعقیدہ ہے کہ خدا کو فقط آخرت میں دیکھا جاسکتاہے۔
”محقق دوانی“ جن کا شمار مشہور فلاسفہ میں ہوتا ہے (بحار الانوار کے نقل کے مطابق) کہتے ہیں:” اہل تشبہ کا ایک گروہ خدا کو حقیقت میں جسم سمجھتا ہے ، بعض اس کو گوشت اور خون سے مرکب جانتے ہیں اور بعض اس کو چمکتا ہوا نور ، چاندی کے سورج جیسا سفید رنگ جس کی لمبائی خود اس کے ہاتھ سے سات بالشت ہے ، بعض اس کو انسان کی صورت جیسا اور بعض اس کو بغیر ڈاڈھی والا جوان، گھنگھریالے بال اور بعض اس کو بوڑھے انسان کی شکل میں سیاہ اور سفید بالوں والا اور بعض اس کو (دوسرے تمام اجسام کی طرح نہیں) جسم سمجھتے ہیں اور بعض ان جیسے دوسرے باطل اور بے اساس عقاید کے قائل ہوگئے ہیں ۔(۷) ۔
۷۔ بحار الانوار، جلد ۳، ص ۲۸۹۔
اس بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی روایات یا بعض اصحاب پیغمبر (ص) سے خداوند عالم کیلئے عجیب جسمانی اوصاف نقل کئے ہیں (جب کہ یقینا یہ روایات جعلی ہیں) ۔ ایک حدیث میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا: کیا محمد (ص) نے اپنے پروردگار کا مشاہدہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، سوال کیا گیا: خدا کو کیسے دیکھا؟ کہا: ایک سرسبز و شاداب باغ میں ایک سونے کی کرسی پر جس کا فرش بہت خوبصورت تھا اور اس کو چار فرشتہ اٹھائے ہوئے تھے ،بیٹھے ہوئے دیکھا (۱) ۔
اس کے علاوہ صحیح بخاری، سنن ابن ماجہ اور دوسری کتابوں میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ خداوند عالم کو قیامت کے دن آنکھوں کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں (۲) ۔ یہاںتک کہ بعض روایات میں تصریح کی ہے کہ اہل بہشت خدا کو دیکھیں گے جس طرح سے چودہویں کا چاند دکھائی دیتا ہے (۳) ۔
ان احادیث کی وجہ سے بہت سے اہل سنت دانشور قیامت کے روز خدا وند عالم کے روٴیت کے قائل ہوگئے اور شدت کے ساتھ وہ اس سے دفاع کرتے ہیں، جبکہ قرآن مجید صراحت کے ساتھ کہتا ہے: لا تدرکہ الابصار(کوئی بھی آنکھ خدا کو نہیںدیکھ سکتی) (۴) ۔ اور حضرت موسی سے فرمایا: ”لن ترانی” (تم مجھے کبھی بھی نہیں دیکھ سکتے (۵)) ۔ (اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ”لن“ ہمیشہ ، ابد کی نفی کیلئے استعمال ہوتا ہے) ۔
۱۔ توحید ابن خزیمہ، صفحہ ۲۱۷ (”بحوث فی الملل والنحل“کتاب کے نقل کے مطابق، جلد ۱، ص ۱۴۵۔
۲۔ صحیح بخاری، ج ۶، ص ۵۶، تفسیر سورہ نساء اور سنن ابن ماجہ، ج۱،(مقدمہ۔ باب ۱۳۔ حدیث ۱۷۷) ۔
۳۔ ان روایات کا مطالعہ کرنے کیلئے (جو کہ یقینا جعلی روایات ہیں) اور اسی طرح ان روایات کا جواب اور آیات ومعتبر روایت سے وہ دلیلیں جو کہتی ہیں کہ خدا کو آنکھوں کے ذریعہ نہیں دیکھا جاسکتا ، نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں، ان کا مطالعہ کرنے کیلئے پیام قرآن تفسیر موضوعی کی چوتھی جلد ، ص۲۴۱ سے ۲۵۱ تک مراجعہ کریں ۔
۴۔ سورہ انعام، آیت ۱۰۳۔
۵۔ سورہ اعراف، آیت ۱۴۳۔
خطبہ اشباح میں یہ مسئلہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے وہاں پر آپ فرماتے ہیں:
”والرادع اناسی الابصار عن ان تنالہ او تدرکہ او تبصرہ“ ۔ : وہ آنکھ کی پتلیوں کو (دور ہی سے)روک دینے والا ہے کہ وہ اسے پاسکیں یا اس کی حقیقت معلوم کرسکیں ۔
۱۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۹۱۔
دوسرے خطبہ میں فصیح و بلیغ زبان میں فرماتے ہیں: ”الحمدللہ الذی لا تدرکہ الشواھد و لا تحویہ المشاھد و لا تراہ النواظر و لا تحجبہ السواتر“ ۔ساری حمد و ستائش اس اللہ کے لئے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے ، نہ جگہیں(مکان) اس کو گھیرسکتی ہیں، نہ آنکھیں اس کو دیکھ سکتی ہیں،نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں(۲) ۔
۲۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۵۔
ان عقائد کے علاوہ عقل کے صریح حکم کے مخالف ہے،کیونکہ اگر خدا مشاہدہ کے قابل ہو تو یقینااس کے لئے جسم کا ہونا بھی ضروری ہوگا اور وہ کسی جگہ یا کسی سمت میں ہوگا ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ محدود ہوجائے گا اور اس طرح وہ واجب الوجود ہونے سے تنزلی کی طرف آجائے گااور ممکنات کے زمرہ میں آجائے گا۔
یہاں پر آکر معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین(علیہ السلام) کی لطیف تعبیرات کس طرح آفتاب اور مہتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور حقائق کے چہرہ کو منور کررہی ہیں اور باطل و خرافاتی عقاید کو نابود کررہی ہیں ، امیر المومنین (علیہ السلام)ہمیں توحید اور خدا کے صفات کی شناخت کا خوبصورت اور آسان درس دے رہے ہیں ۔
آپ ہمیشہ افراطی اور تفریطی افراد کے سامنے خود نمائی کرتے ہیں ۔ بعض افراد تو تشبیہ کے قائلین کے برخلاف خداکو جسم اور جسمانیت سے نیچے لے آئے ہیں ۔اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی شناخت ممکن نہیں ہے ، نہ اس کی حقیقت اور نہ اس کے صفات کی شناخت۔ اور ہم خدا کے صفات سے منفی مفاہیم کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ جب کہتے ہیں کہ وہ عالم ہے تو اس سے یہ بات سمجھ میں اتی ہے کہ وہ جاہل نہیں ہے ، لیکن اس کا عالم ہونا ہماری سمجھ میںنہیں آتا اور اس طرح وہ انسان کے سب سے بڑے افتخار یعنی معرفة اللہ اور شناخت خدا کو فراموشی کے سپرد کردیتے ہیں اور ایسے راستہ کی طرف قدم بڑھاتے ہیں جس میں سرا سر ظلمت، تاریکی اور قرآن مجید کی تعلیم کے برخلاف ہے، قرآن مجید کہتا ہے کہ خدا کی شناخت کے راستہ ہمارے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔
اس بات کو نہج الباغہ کی دوسری بہترین تعبیر کے ساتھ ختم کرتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا: لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ ولم یحجبھا عن واجب معرفتہ فھو الذی تشھد لہ اعلام الوجود علی اقرار قلب ذی الجحود تعالی اللہ عما یقول المشبھون بہ والجاحدون لہ علوا کبیرا۔
اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کے لئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے وجود کے نشانات اس طرح اس کی شہادت دیتے ہیں کہ (زبان سے) انکار کرنے والے کا دل بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اللہ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند و برتر ہے جو مخلوقات سے اس کی تشبیہ دیتے ہیں، اور اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں ۔(۳) ۔
۳۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۴۹۔
افراط و تفریط (تشبیہ و تعطیل) کے درمیان ،معرفت اور شناخت خدا کا بہترین راستہ وہی ہے جس کو امام علی علیہ السلام نے مذکورہ تعبیرات میں بیان کیا ہے۔
خداوند عالم کے صفات سے متعلق اور اس کی صحیح معرفت و شناخت کو امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے دوسرے خطبوں میں بہت سادہ جملوں میں بیان فرمایا ہے جو اس خطبہ کی بحثوں کو مکمل کرتے ہیں ، انشاء اللہ اس کی وضاحت وہیں پر بیان کریں گے۔
۳۔ اس کی ذات پاک سے ذاتی اور زمانی حدوث کی نفی
اس حصہ میں جو تعبیرات بیان ہوئی ہیں ان سے استفادہ ہوتا ہے کہ خدا کی ذات میں نہ حدوث ذاتی پایا جاتا ہے اور نہ حدوث زمانی۔
حدوث زمانی سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز کسی زمانہ میں وجود پائے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ کسی زمانہ میں موجود نہ ہو اور پھر موجود ہوجائے ۔ یہ معنی اس دنیا کے پیدا ہونے کے بعد متصور ہوتے ہیں کیونکہ جہان کی خلقت سے زمان وجود میں آیا ہے اور حدوث و عدم زمانی کے مفہوم نے وجود پایا ہے۔
حدوث ذاتی سے مراد یہ ہے کہ جہان مادہ کی پیدائش سے قطع نظر وہ اپنی ذات میںحادث ہو یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اس کا وجود اس کی ذات سے نہیں بنا ہے۔ بلکہ کسی دوسرے وجود کے معلول سے وابستہ ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ ان دونوں حدوث میں سے کوئی ایک بھی خداوند عالم کی ذات میں موجود نہیں ہے کیونکہ وہ واجب الوجود تھا اور ہے اور ہمیشہ رہے گا، بلکہ اس کا وجود عین ہستی ہے (غور و فکر کریں) ۔
۴۔ کیا لفظ ”موجود“ خداوند عالم کے اوپر اطلاق ہوتاہے؟
کیا لفظ ”موجود کو خداوند عالم کے اوپراطلاق کیا جاسکتا ہے ؟ مذکورہ تعبیرمیں فرماتے ہیں ”موجود لا عن عدم“ (وہ ایسا وجود ہے جو عدم سے وجود میں نہیں آیا)، اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اس لفظ کے اس پر اطلاق کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ یہ لفظ اسم مفعول ہے اور اس کا اصلی مفہوم اور معنی یہ ہے کہ کسی دوسرے نے اس کو وجود بخشا ہے اوریہ خدا کی ذات پر صدق نہیں کرتا اور موجود کا یہاں پر دوسرا مفہوم ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ وجود رکھنے والا ہے جیسا کہ نہج البلاغہ کی بعض شرحوں میں اس کی تصریح ہوئی ہے کہ موجود کبھی کبھی ماہیات ممکنہ پر جو کہ وجود کی صفت ہے اطلاق ہوتا ہے اور کبھی موجود کہا جاتا ہے اور اس سے مراد خود وجود ہوتا ہے (۱) ۔یہ تعبیر(موجود) اصول کافی کی بعض روایات میں بھی آیا ہے (۲) ۔
۱۔ مفتاح السعادةفی شرح نہج البلاغہ، جلد ۱، ص ۱۳۹۔
۲۔ اصول کافی، جلد ۱ذ، باب ادنی المعرفة، حدیث۱، اور جلد۱، باب النہی عن الصفة، حدیث ۱، اور جلد۱، باب جوامع التوحید، حدیث ۴۔
چوتھا حصہ
انشا الخلق انشاء و ابتداء بلا رویة اجالھا و لا تجربة استفادھا ولا حرکة احدثھا و لا ہمامة نفس اضطراب فیھا احال الاشیاء لاوقاتھا ولام بین مختلفاتھا و غرز غرائزھا والزمھا اشباحھا عالما بھا قبل ابتدائھا محیطا بحدودھا و انتھائھا عارفا بقرائنھا و
احنائھا․
ترجمہ :اس نے خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہواور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا، خدا وند عالم نے ہر چیز کی تخلیق کو اس کے وقت کے حوالے کیا۔ بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی، ہر چیز کو جدا گانہ طبیعت و مزاج کا حامل بنایااور ان طبیعتوں کے لئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں، وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتاتھا ان کی حدود و نہایت پراحاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے تمام لوازم و جوانب کو پہچانتا تھا۔
شرح و تفسیر
تخلیق کائنات کے متعلق بحث
ابھی تک اس خطبہ میں جو سب سے اہم بات بیان کی گئی وہ خدا کی معرفت اس کی شناخت اور اس کے مختلف صفات کی طرف اشارہ تھا جو انسان کی معرفت کا پہلا مرحلہ ہے اور اس فراز کے بعد تخلیق کائنات ، خلقت کے آغاز کی کیفیت اور زمین و آسمان کے عجائب و غرائب کے متعلق بیان کیا ہے ،اگر چہ یہ بھی خدا وند عالم کے گذشتہ صفات کے سلسلہ میں ایک تکمیلی بحث ہے۔
اس حصہ کے شروع میں فرماتے ہیں : اس نے خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہواور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا،(انشا(۱) الخلق انشاء و ابتداء بلا رویة(۲) اجالھا(۳) و لا تجربة استفادھا ولا حرکة احدثھا و لا ہمامة (۴) نفس اضطراب فیھا) ۔
۱۔ ”انشاء“ کا مادہ ”انشاء“ ہے ، اس کے متعدد معانی ذکر ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہاں پر اس کے معنی ایجاد کے ہیں ۔
۲۔ مقاییس اللغہ کے بقول ”رویة“ کے معنی سیراب ہونے کے ہیں لیکن دقت کے ساتھ غور و فکر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، گویا اپنی فکر کو اس مسئلہ کے متعلق سیراب کرتا ہے یا مسئلہ کو اپنی فکر سے سیراب کرتا ہے اور فکر کرنے کا حق ادا کرتا ہے۔
۳۔ ”اجال“ کا مادہ ”جولان“ ہے اور اس کے معنی حرکت کرنے اور گردش کر نے کے ہیں ۔
۴۔ نہج البلاغہ کے شارحین اور مفسرین نے ”ھمامة“ کے مختلف معنی ذکر کئے ہیں:بعض نے اس کے معنی کسی چیز کے متعلق داخلی تمایل کے بیان کئے ہیں یعنی اس کے فقدان کی وجہ سے انسان ناراض ہوتا ہے (شرح ابن میثم بحرانی، ج۱، ص ۱۳۲) ۔
بعض نے اس کے معنی کسی کام میں شک و تردید کرنے کے بیان کئے ہیں(منہاج البراعة، ج ۱، ص ۵۱) ۔
بعض نے کسی مطلب کو اہمیت دینے کے بیان کئے ہیں(شرح مغنیہ، ج ۱، ص ۲۷) ۔
ابن ابی الحدید نے اپنی مشہور شرح میں ”ہمامہ“ کو ”مجوسیوں“ کے اعتقاد ات میں شمار کیا ہے ، وہ لوک معتقد تھے کہ نور اعظم کاارادہ، ظلمت و تاریکی سے جنگ کرتے وقت متزلزل تھا اور اس کی ذات سے ایک چیز خارج ہوئی جس کا نام ”ھمامة“ تھا۔
لیکن لغت میں ”ھمامة“ کے معنی ضعف، فتور اور سستی کے ہیں لہذا ہر کمزور و ناتوان مرد و عورت کو ”ھم“ اور ”ھمة“ کہتے ہیں ، تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عبارت ”ھمامہ“ کے معنی عزم و ارادہ میں شک و تردید ، سستی اور ناتوانی کے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کسی کام کا ارادہ نہ کرسکے یا زحمت ومشقت کے ساتھ ارادہ کرنے پر قادر ہوتا ہے۔
یہاں پر امام (علیہ السلام) خلقت الہی کو مخلوقات کے کاموں سے بطور کلی جدا شمار کرتے ہیں کیونکہ جب انسان کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پہلے کبھی انجام نہ دیا ہو تو پہلے اس کے بارے میں فکر کرتا ہے اور پھر اپنی ایجاد کے ذریعہ اس کو شروع کرتا ہے اور اگر وہ کام پہلے کبھی انجام پاچکا ہوتا ہے تو دوسروں کے تجربہ یا اپنے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی کبھی اس کے ذہن و فکر میں ایک بہت بڑی حرکت ہوتی ہے اور وہ اس مسئلہ کے مقدمات پر غور و فکر کرتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ تک پہنچتا ہے اور کبھی کبھی شک و تردید میں متزلزل رہتا ہے اور آخر کار اس کام کے ایک سرے کو انتخاب کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔
خدا وند عالم کی ذات میں تخلیق کائنات کے وقت ان چاروں حالتوں میں سے کوئی ایک حالت بھی نہیں پائی جاتی ، نہ اس کو غور و فکر کی ضرورت ہے اور نہ پہلے تجربہ کی ، نہ وہ اس کے مقدمات اور نتیجہ پر غور و فکر کرتا ہے اور نہ اپنے ارادہ میں شک و تردید اور متزلزل کی کیفیت میں رہتا ہے۔ اس کا ارادہ کرنا یعنی موجودات کو ایجاد کرنا ہے ” انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون“ اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے (۱) ۔
۱۔ سورہ یس، آیت ۸۲۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ یہ چاروں حالتیں ان اشخاص سے مربوط ہوتی ہیں جن کا علم و قدرت محدود ہوتا ہے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کو سوچ بچاریا دوسروں کے تجربہ یا ان کے اندر اضطراب و تردید پایا جاتا ہے۔ لیکن جس کا علم بے نہایت اور قدرت نامحدود ہے اس کو تخلیق کے وقت یہ حالات پیش نہیں آتے ہیں ۔
مندرجہ بالا باتوں سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حرکت سے مراد وہی نفس کے اندر غور و فکرکرنے کی حرکت ہے ۔
لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ حرکت سے مراد جسمانی خارجی حرکت ہے جو کہ اجسام کا لازمہ ہے اور خدا وند عالم ، جسم و جسمانیات سے بہت بلند و بالا ہے۔
لیکن پہلے معنی زیادہ مناسب نظر آتے ہیں ، کیونکہ عبارت میں دوسری تینوں حالتوں کا سیاق وسباق کسی کام کوانجام دینے سے پہلے غور و فکر کرنے او رارادہ کرنے سے متعلق ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ خداوند عالم کے افعال بندوں کے افعال سے بالکل جدا ہیں ، کیونکہ وہ اشیاء کے مصالح و مفاسد اور تخلیق کے نظام پر قدرت تام و کامل رکھتا ہے اور یقین کے ساتھ ارادہ کرتا ہے اور بغیر کسی شک و تردید، تزلزل اور تجربہ کے موجودات کو وجود کا لباس پہنا تا ہے ۔ تخلیق کے شروع میں بھی ایسا ہی ہے اور تخلیق کے بعد بھی۔
اس کے بعد موجودات کی تخلیق اور اشیاء کی تدبیر کی طرف منظم و مرتب پروگرام کے تحت اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: خدا وند عالم نے ہر چیز کی تخلیق کو اس کے وقت کے حوالے کیا(کیونکہ اس کی تخلیق تدریجی اور منظم و مرتب پروگرام کے تحت ہوئی تھی تاکہ وہ اپنی با عظمت تدبیر اور قدرت بے نظیر کو آشکار کرے) ۔ (احال الاشیاء لاوقاتھا) ۔
موجودات کی تخلیق کے مسئلہ کے بعد اس کے خاص داخلی نظام اور ترکیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی(ولام (۱) بین مختلفاتھا) ۔
عالم تخلیق کے عجائبات میں سے ہے کہ خداوند عالم نے مختلف اشیاء اور موجودات کو ایک دوسرے سے اس طرح متصل اور ان میں توازن و ہماہنگی پیدا کی ہے کہ گویا یہ سب ایک ہی ہیں ۔ سرد و گرم،تاریک و روشنائی، موت و زندگی ، پانی اور آگ کو آپس میں جوڑ دیا ہے ۔ ہرے درخت میں آگ کو خلق کیا اور انسان و حیوان اور نباتات کو ایک مختلف مادہ سے مختلف طبیعتوں میں خلق کیاہے ، یہاں تک کہ روح اور جسم (جو کہ دو مختلف عالم سے بنے ہیں ایک مجرد ، نورانی اور بہت ہی لطیف ہے اور دوسرا مادی، تاریک اور خشن ہے) کے درمیان ایک عمیق پیوند قرار دیا ہے۔
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے ان میں طبیعت اور غرایز کو قرار دیا اورہر چیز کو جدا گانہ طبیعت و مزاج کا حامل بنایا(و غرز (۲) غرائزھا) ۔
۱۔ ”لام“ و ”لائم“ کا مادہ ”لام“ ہے اور اس کے معنی جمع کرنے، اصلاح اور کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ شامل کرنے اور جوڑنے کے ہیں اور اسی وجہ سے زرہ کو ”لامہ“ (رحمة کے وزن پر) کہتے ہیں کیونکہ اس کے حلقہ آپس میں ملے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جوڑے ہوتے ہیں ۔
۲۔ ”غرز“ کا مادہ ”غرز“ (قرض کے وزن پر )ہے اور اصل میں اس کے معنی سوئی چبھونے یا بٹھانے اورکسی چیز میں داخل کرنے کے ہیں، اس کے بعد وہ ان طبیعتوں پر اطلاق ہونے لگا جو انسان اور زندہ موجودات میں ودیعت کی ہیں ، گویا یہ طبعیت اور غرایز ، انسان کے وجود کی سرزمین میں پودے کا مانند لگا دیا ہے۔
حقیقت میں یہ خداوند عالم کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے جو ہر موجود میں اس کی ضرورت کے اعتبار سے اس کی طبیعی صورت میں ایجاد کردی گئی ہے تاکہ وہ کسی دوسرے محرک کی ضرورت کے بغیر اپنے راستہ کو اختیار کرلے اور اپنی ذات کے اندر سے مخصوص پروگرام کی طرف گامزن ہو کیونکہ اگر موجودات کے اندر داخلی غریزہ نہ ہوتا تو اشیاء کے آثار ہمیشہ باقی نہ رہتے اور موجودات کے اوپر بے نظمی اور بے سروسامانی حکومت کرتی۔
آج کے زمانے میں انسان یا دوسرے موجودات کی ذاتی ہئیت کو دو مختلف چیزوںسے تعبیر کیا جاتا ہے ، کبھی فطرت سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدا شناسی انسان کی فطرت ہے اور کبھی غریزہ (طبیعت) سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان میں جنسی طبیعت پائی جاتی ہے، یا کہتے ہیں کہ حیوانات کی حرکت میں عام طور سے غریزی(فطری)پہلو پایا جاتا ہے ۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی دانشوروں نے بنیاد رکھی ہے ۔ ایک ایسی فطرت و طبیعت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جس میں غور و فکر کا پہلو پایا جاتا ہے (فطرت) اور دوسرے ان طبیعت اور فطرت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جس میں غیر فکری یا عاطفی پہلو پایا جاتا ہے (غریزہ) ۔ لیکن لغوی معنی کے اعتبار سے دونوں کے معنی تخلیق اور ایجاد کے ہیں ۔
اس حصہ کے آخری جملہ میں فرماتے ہیں : اور ان طبیعتوں کے لئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں(والزمھا اشباحھا) (۱) ۔
۱۔ ”اشباح“، ”شبح“ کی جمع ہے (بعض اہل لغت کی تصریح کے مطابق) اور اصل میں یہ شخص کے معنی میں ہے اور آشکار، نمایاں اور ظاہر چیز کے معنی میں بھی آتا ہے اور روز مرہ کے استعمالات میں ایسے موجود کو ”شبح“ کہتے ہیں جو صاف طور سے ظاہر نہ ہو اور اچانک ظاہر ہوجائے۔
نہج البلاغہ کے مفسرین نے اس جملہ کی دومختلف تفسیریں بیان کی ہیں ۔ بعض مفسرین جیسے ”ابن ابی الحدید“ کا عقیدہ ہے کہ مذکورہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند عالم نے ان غرایز کو موجودات میں ثابت اور برقرار کیا ہے (اس بناء پر ”الزمھا“ کی ضمیر ، غرایزکی طرف پلٹتی ہے)لہذا مذکورہ جملہ موجودات میں غرایز کے ثابت ہونے پر تاکید کررہا ہے۔
لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وجودسے مراد ہر موجود کیلئے خاص امتیازات ہیں ۔ یعنی خداوند عالم نے ہر چیز کو کچھ خصوصیات دیں اور کیونکہ خداوند عالم کے ذہن میں کلی طور پر موجود تھیں لہذا بعد میں ان کو خارج میں جزئیات اور اشخاص کی صورت میں قرار دیا(اس تفسیر کی بناء پر ”الزمھا“ کی ضمیر، اشیاء کی طرف پلٹتی ہے)بعض نے دونوں تفسیروں کو دو احتمال کے طور پر ذکر کیا ہے۔
لیکن چونکہ پہلی تفسیر میں ضمیروں کی ہماہنگی محفوظ نہیں ہے اور اس کے علاوہ جملہ تاکیدی سمجھا جاتا ہے نہ کہ نیا اور جدید مطلب ، لہذا دوسری تفسیر صحیح معلوم دیتی ہے۔
اس بات کی وضاحت کہ خداوند عالم نے ہر موجود میں دو خصوصیت رکھی ہیں وہ خصوصیات جو ان کی ذات میں پوشیدہ ہیں جس کو امام علیہ السلام نے غرایز سے تعبیر کیا ہے اور وہ خصوصیات جو ظاہر اور نمایاں ہیں جیسے زمان ، مکان اور تمام جزئیات۔ اور اس کو ”الزمھا اشباحھا“ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس طرح اپنی حکمت کے مطابق ہر موجود کیلئے ظاہری اور باطنی خصوصیات مقرر فرمائیں تاکہ ہر موجود اپنے خاص وظیفہ کو انجام دے سکے اور دوسرے موجودات سے اپنی پہچان کرا سکے۔
نکتہ
تمام موجودات کی فطری اور تکوینی ہدایت
امام علیہ السلام کے مندرجہ بالا کلمات میں جن باتوں کی طرف اشارہ ہواہے ان میں ایک اہم نکتہ پایا جاتا ہے جس پر قرآن مجید نے بھی مکرر تاکید کی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام موجودات خلقت اور مادہ میں ایک خاص زمانہ پایا جاتا ہے اوران میں آپس میں تضاد و اختلاف ہونے کے باوجود یہ ایک دوسرے سے ہماہنگ اور متصل ہیں اور ایک دوسرے کو کامل کرتی ہیں اور ہمیشہ داخلی اور خارجی نظم و ترتیب کے ذریعہ ان کی ہدایت ہوتی ہے اور ایک منظم قافلہ کی صورت میں ایک ساتھ اپنے آخری ہدف کی طرف گامزن ہیں اور اپنے راستہ سے منحرف نہیں ہوتے ہیں اور بطور دقیق اپنے مقصد کی طرف جار ہے ہیں ۔
فصل بہار اور گرمیوں میں درخت کے پتوں کا سرسبز و شاداب ہونا، اور سردیوں میں ان کا خشک ہوجانا ، باروں برجوں پر خورشید کا حرکت کرنا، شب و روز کی کیفیت ، زمین کا اپنے گردگھومنااور اسی طرح انسان کی داخلی اور ظاہری طاقت خدا وند عالم کی تکوینی ہدایت پر گواہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید حضرت موسی(علیہ السلام) کی زبانی فرماتا ہے : ”ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی“ ( ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے) (۱) ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے: ”فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا“ (یہ توحید اور اسلام )وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے) (۲) ۔
اور نیز فرماتا ہے : ”و ان من شئی الا عندنا حزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم“ (اور کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں او رہم ہر شے کو ایک معین مقدار میں (نظم و حساب کے مطابق )ہی نازل کرتے ہیں) (۳) ۔
۱۔ سورہ طہ، آیت ۵۰۔
۲۔ سورہ روم، آیت ۳۰۔
۳۔ سورہ حجر، آیت ۲۱۔
یہ حقیقت میں خداوند عالم کے وجود کی ایک اہم نشانی ہے کہ جس قدر بھی انسان اس میں غور و فکر کرے ، ہدایت تکوینی ، نظم اور مختلف چیزوں کے درمیان اتصال کے مسئلہ کا بطور دقیق مطالعہ کرے تو اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہوجائے گا۔
اس کے بعدمزید فرماتے ہیں : وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتاتھا ان کی حدود و نہایت پراحاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے تمام لوازم و جوانب کو پہچانتا تھا (عالما بھا قبل ابتدائھا محیطا بحدودھا و انتھائھا عارفا بقرائنھا (۱) و احنائھا (۲)) (۳) ۔
۱۔ ”قرائن“ ، قرینہ کی جمع ہے ، اس کے معنی مصاحب اور دوست کے ہیں ۔(صحاح ، قاموس اور لغت کی دوسری کتابیں) نہج البلاغہ کے بعض شارحین جیسے ”ابن ابی الحدید“ نے ”قرائن“ کو ”قرونہ“ (معونہ کے وزن پر) کی جمع اور اس کے معنی نفس سمجھے ہیں ، لیکن مذکورہ تمام جملوں میں جو تعبیر بیان ہوئی ہے اس کے اعتبار سے پہلے معنی زیادہ مناسب ہیں ۔
۲۔”احنا“ ، ”حِنو“ (فِعل کے وزن پر) کی جمع ہے اورمقاییس ولسان العرب کے بقول ” حَنو“ (حَرف کے وزن پر)ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس میں کجی پائی جاتی ہو ، جیسے ٹھڈی اور دانتوں کی ہڈی۔ اس کے بعد جوانب کے معنی میں بھی آیا ہے (کیونکہ اشیاء کے اطراف و جوانب اکثرا ٹیڑھے ہوتے ہیں) ۔
۳۔ توجہ رہے کہ ان چند جملوں میں جو ضمیریں استعمال ہوئی ہیں یہ سب ”اشیاء“ کی طرف پلٹتی ہیں نہ کہ ”غرائز“ کی طرف، جیسا کہ بعض نہج البلاغہ کے مفسرین نے بیان کیا ہے کیونکہ دوسرے احتمال کا جملوں کے ساتھ کوئی خاص تناسب نہیں پایا جاتا۔
حقیقت میں یہ تین جملے پہلے جملوں کیلئے دلیل یا بیان یا وضاحت کے طور پر بیان ہوئے ہیں کیونکہ جو یہ چاہے کہ ہر موجود کو اس کے مناسب وقت پر ایجاد کرے اور مختلف اشیاء کو ایک دوسرے سے متصل کرے ، داخلی غرایزاور اور بیرونی لوازم کو ان کی جگہ پر مقرر کرے ، لہذا ایک طر ف اس سے کامل اور جامع آگاہی کی ضرورت ہے اور دوسری طرف اس پر احاطہ اور تام و تمام قدرت کی ضرورت ہے۔
اسی وجہ سے آپ نے فرمایا: وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتاتھا ان کی حدود و نہایت پراحاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے تمام لوازم و جوانب کو پہچانتا تھا(عالما بھا قبل ابتدائھا محیطا بحدودھا و انتھائھا عارفا بقرائنھاواحنائھا) ۔
خداوند عالم نہ صرف ان کی ابتداء اور انتہاء سے باخبر تھا بلکہ ان کے لوازم و جوانب اور علل و آثار کو بھی جانتا تھا۔ لہذا جو بھی ان تمام امور سے آگاہ ہو اور ان کو انجام دینے پر قادر و توانائی رکھتا ہو وہ ہر چیز کو منظم طریقہ سے اس کی جگہ پر رکھ سکتا ہے اور ہر چیز کو جس کی ضرورت ہے اس کو عطا کرسکتا ہے اور اس کی حیات اور وجود کی طرف ہدایت کرکے اس کے اصل کمال کی طرف پہنچا سکتاہے۔
نکات
۱۔ کیا خدا وند عالم پر ”عارف“ کا لفظ اطلاق ہوتا ہے؟
نہج البلاغہ کے بعض مفسرین نے اس مسئلہ میں شک و تردید کیا ہے کہ کیا خدوند عالم کو ”عارف“ سے توصیف کیا جاسکتا ہے۔
اس شک و تردید کی وجہ دو چیزیں ہیں:
اول یہ ہے کہ مفردات میں راغب کے بقول معرفت اور عرفان کے معنی کسی چیز کے آثار میں غور و فکر اور تدبیر کے ساتھ درک کرنا ہے یادوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ معرفت اس علم کو کہتے ہیں جو محدود ہو اور غور وفکرکے ذریعہ سے حاصل ہو اور یہ بات مسلم ہے کہ خداوند عالم کا علم ایسا نہیں ہے۔
دوسرے یہ ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لہ(تعالی) تسعة و تسعین اسما من احصاھا دخل الجنة“ خداوند عالم کے ننانویں (۹۹) نام ہیں اور جو بھی ان ناموں کو پڑھے گا (اور ان پر ایمان و معرفت رکھے گا)وہ جنت میں جائے گااور علماء کا اجماع یہ ہے کہ ان نناویں (۹۹) ناموں میں عارف خدا کا نام نہیں ہے (۱) ۔
۱۔ ابن میثم نے اس بات کو ایک اشکال کے طور پر پیش کیاہے اور اس کے بعد جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ خداوند عالم کے نام اس سے زیادہ ہیں اور اس پر کچھ دلیلیں بھی دی ہیں(شرح نہج البلاغہ، ابن میثم، جلد۱، ص ۱۳۷) ۔
اس بات کی طرف توجہ رہے کہ مذکورہ حدیث صحیح بخاری، مسلم،مسند احمد ، سنن ترمذی اور دوسری معتبر کتابوں سے در المنثور میں نقل ہوئی ہے، الدر المنثور، جلد۳، ص ۱۴۷(پیام قرآن، جلد ۴، صفحہ ۴۶) ۔
لیکن ایک اجمالی تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ اسلامی روایات میں بارہا خداوندعالم کے اوپر اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے اور نہج البلاغہ (میں یہ لفظ وصف کے طور پر اور دوسری جگہ فعل کی صورت یمں آیا ہے) کے علاوہ کہ اصول کافی میں بھی یہ لفظ متعدد بار استعمال ہوا ہے (۱) ۔
۱۔ اصول کافی،جلد۱، ص ۹۱، باب النسبة، حدیث ۲ و صفحہ ۱۱۳، باب حدوث الاسماء، حدیث ۲۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ معرفت کے لفظ میں اگر چہ محدودیت کے معنی یا اس میں غور و فکر کی ضرورت کے معنی پائے جاتے ہیں لیکن بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے اس کا مفہوم وسیع ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے یہ علم و آگاہی کی ہر قسم پر استعمال ہونے لگا چہ جائیکہ اس میں فکر و اندیشہ نہ پایا جاتا ہو۔
لیکن نناویں(۹۹) ناموں والی روایت کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس روایت سے کبھی بھی خدا کے ناموں کو نناویں(۹۹) ناموں میں محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ حقیقت میں خداوند عالم کے برجستہ صفات اور خدا کے اسمائے حسنی ہیں اور اسی وجہ سے بعض روایات میں خدا کے ایک ہزار نام بیان ہوئے ہیں اور اس پر اس سے بہتر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ امام علی(علیہ السلام)جو کہ خود خدا کے ناموں اور صفات سے سب سے آگاہ ہیں ، آپ نے نہج البلاغہ کے مطابق خداوند عالم کے ان ناموں یاان سے مشتق ناموں کو استعمال کیا ہے۔
۲۔ موجودات کو ایجاد کرنے سے قبل خداوند عالم کے علم کی کیفیت
فلسفی اور اعتقادی پیچیدہ مسائل میں سے ایک مسئلہ ”موجودات کو ایجاد کرنے سے قبل خداوند عالم کے علم کی کیفیت“ سے متعلق ہے ۔ ایک طرف تو ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم آئندہ حوادث سے آگاہ ہے اور قرآن کریم کی آیات میں بھی اس کی طرف بارہا اشارہ ہوا ہے اور مذکورہ عبارت میں بھی بیان ہوا ہے۔
دوسری طرف خداوند عالم کا علم ”علم حصولی“ نہیں ہے ، یعنی اشیاء کی ذہنی صورت اورنقش و نگار اس کی ذات میں منعکس نہیں ہوتے ہیں کیونکہ اس کے پاس مخلوقات کی طرح ”ذہن“ نہیں ہے، اور اس کا علم موجودات کی صورت کو منعکس کرنے کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کا علم ”علم حضوری“ ہے، یعنی مخلوقات کا وجود اس کے نزدیک حاضر ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جو چیزیں ابھی وجود میں نہیں آئی ہیں ان کے متعلق علم حضوری معنی نہیں رکھتا، یہاں تک کہ یہ اشکال ان موجودات کے متعلق بھی پیش آتا ہے جو گذشتہ میں محو او رنابود ہوگئی ہیں، اگر ہم ان سے آگاہ ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ذہنی صورتیں اور ان کی یادداشت ہمارے دل و جان میں سما گئی ہیں ،لیکن جس کے پاس ذہن ، یادداشت اور داخلی نقش و نگار نہیں ہیں اور جس کی ذات محل حوادث نہیں ہے وہ کس طرح ان چیزوں سے باخبر اور آگاہ ہوسکتا ہے؟!
مثال کے طور پر فرعون اور اس کے اصحاب کی صورتیںنابود ہوگئی ہیں اوران کی تاریخ بھی بہت پرانی ہوگئی ہے ہم فقط ان کی تصویروں کو اپنے ذہن میں حاضر کرسکتے ہیں ، لیکن خداوند عالم کا علم اس طرح نہیں ہے تو وہ کس طرح ان کے متعلق آگاہی رکھتا ہے؟
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ گذشتہ سے آگاہ نہیں ہے؟ یا اس کو آئندہ کی خبر نہیں ہے؟ ہرگز! پس اگر وہ عالم ہے تواس کا علم کیسا ہے؟
اس پیچیدہ مسئلہ نے فلاسفہ اور علمائے کلام کو سخت مشکل میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اس کے متعدد جواب دئیے ہیں ، ہم اس حصہ میں اس مسئلہ کی طرف سرسری بحث کریںگے:
۱۔ خداوند عالم ہمیشہ اپنی ذات جو کہ تمام اشیاء کی علت ہے ،سے آگاہ تھا اور آگاہ ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اس کی ذات اس کے پاس حاضر ہے اور اپنی ذات کا یہ علم تمام موجودات عالم چاہے وہ ایجاد سے پہلے ہو یا ایجاد سے بعد میں ہو ان سب کا ایک علم اجمالی اس کے پاس موجود ہے۔
اگر ہمیں اشیاء کی علت کے بارے میں بالکل صحیح علم ہو تو یہ علم اس کے نتیجہ اور معلول تک پہنچنے کا سبب بنے گا۔ کیونکہ ہر علت میں اس کے معلول کے تمام کمالات پائے جاتے ہیں اور چونکہ خداوند عالم تمام اشیاء کی علت ہے اور اپنی ذات سے آگاہ ہے اور تمام اشیاء سے بھی آگاہ ہے اور حقیقت میں یہ ایک طرح کا کشف تفصیلی ہے۔
اس بات کی ایک دوسری طرح بھی توضیح دی جاسکتی ہے: گذشتہ حوادث بطور کامل نابود نہیں ہوئے ہیں اور ان کے آثار آج کے حوادث میں پوشیدہ ہیں ۔ اسی طرح آئندہ حوادث ، آج کے حوادث سے جدا نہیں ہیں اور وہ ان سے مربوط ہیں اور انہی سے ان کو وجود ملتا ہے ۔ اس طرح کہ گذشتہ، حال اور آئند ہ اس سلسلہ کا ایک مجموعہ ہے جوعلت و معلول سے و جود میں آیا ہے جس کی وجہ سے ایک حلقہ اور سلسلہ کا علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے پہلے اور بعد والے حلقہ سے واقف ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم بطور دقیق پوری زمین کی ہوای کی کیفیت اور ان عوامل کو جو موجودہ ہوا کی پیدائش کا سبب بنے ہیں ،جان لیں اور تمام جزئیات اور علت و معلولات کے رابطہ سے آگاہ ہوجائیں تو بطور دقیق ہزاروں سال پہلے کی ہوا کی کیفیت کو معلوم کرسکتے ہیں ۔
کیونکہ گذشتہ اور آئندہ تمام چیزیں حال حاضر میں موجود ہیں ۔ بطور دقیق آج کی تمام چیزیں کل پر منحصر ہیں اور آئندہ کی آج پر۔ اور آج کی تمام جزئیات پر کامل طور سے آگاہ ہونے کا مطلب ہے کہ گذشتہ اور آئندہ کے حوادث سے بطور کامل آگاہ ہیں ۔
اب اگر اس حقیقت کی طرف توجہ کریں کہ خداوند عالم کل،آج اور آئندہ کے تمام حوادث کا اصلی سرچشمہ ہے اور اس کو اپنی ذات کا علم ہے تو ہمیں یہ قبول کرلینا چاہئے کہ اس کو گذشتہ، آئندہ اور آج کے تمام حوادث کا علم ہے۔ البتہ جس موجود میں جو بھی اثر ہے وہ اس کے حکم اور اجازت سے ہے ، لیکن اس کی سنت اس بات پر جاری ہے کہ وہ موجودات کو آثار اور خواص عطا کردے اور جب چاہے ان آثار کو ان سے واپس لے لے (۱) ۔
۱۔ جن لوگوں نے مذکورہ اشکال کا جواب دینے کی کوشش ہے ان کے سامنے یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم ، موجودات کی کثرت کو کثرت کی صفت کے ساتھ ان کے وجود سے پہلے نہیں جانتا تھا، کیونکہ کثرت اس کی ذات میں نہیں ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ موجوددات کے وجود سے پہلے اور ان کے وجود کے بعد خداوند عالم کے علم میں فرق ہے: وجود سے پہلے اس کا علم اجمالی ہے اور وجود کے بعد علم تفصیلی ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض نے اس فرق کا اعتراف بھی کیا ہے۔
۲۔ دوسرا راستہ جو اس سوال کے جواب میں اختیار کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ،حال اور آئندہ کا ہمارے علم میں تصور ہوتا ہے کیونکہ ہمارا وجود محدود ہے لیکن خداوند عالم کی ذات نامحدود ہے ، گذشتہ، حال اور آئندہ کا وہاں پر کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا ،بلکہ تمام اشیاء اور حوادث اپنی تمام خصوصیات اور جزئیات کے ساتھ اس کے پاس حاضر ہیں ۔
اس دقیق اور نازک مطلب کو مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ہے:
فرض کرلیں کہ کوئی شخص کسی کمرہ میں قید ہے اور اس کمرہ میں فقط ایک چھوٹا سا سوراخ ہے اور اس سوراخ کے سامنے سے اونٹوں کی ایک قطار کو گزارا جائے تو یہ قیدی انسان اس سوراخ میں سے پہلے اونٹ کا سر اور گردن کو دیکھے گا پھر اس کے کوہان کو اور پھر اس کی پیروں اور اس کی دم کو دیکھے گا اور پھر دوسرے اونٹوں کو اسی طرح دیکھے گا۔
سوراخ کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے گذشتہ ، حال اورآئندہ بنا لیتا ہے لیکن جو شخص اس کمرہ کے باہر ہو اور اس کی چھت پر یا کھلی ہوئی فضا میں اس بیابان کو دیکھ رہا ہو تو پھر اس کو اونٹوں کی پوری قطار ایک دفعہ میں نظر آجائے گی (غور و فکر کریں) ۔