بسم اللہ الرحمن الرحیم

پانچواں حصہ

ثم انشا (سبحانہ ) فتق الاجواء و شق الارجاء و سکائک الھوائ

ترجمہ

 پھر خداوند عالم نے فضا کے طباقت کو کھولا اور فضا کو ایجاد کیااور اس کے اطراف و اکناف کو وسیع کیا،پھر فضا اور ہوا کے طبقات کو ایجاد کیا ۔

شرح و تفسیر

دنیا کی پیدائش کے آغاز کی کیفیت

مورد بحث عبارت کے پہلے جملہ میں دنیا کی شروعات کو بیان کیا اور فضا کی خلقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” پھر خداوند عالم نے فضا کے طباقت کو کھولا اور فضا کو ایجاد کیا ۔ (ثم انشا سبحانہ فتق (۱) الاجواء(۲)) ۔

اور اس کے اطراف و اکناف کو وسیع کیا ۔  (و شق (۳) الارجاء (۴)) ۔

اور فضا و ہوا کے طبقات کو ایجاد کیا ۔ ( وسکائک (۵) الھواء(۶)) ۔

۱۔  ”فتق“ (مشق کے وزن پر)اصل میں فتق کے معنی کھولنے اور دو چیزوں کے درمیان فاصلہ کے ہیں یہ ”رتق“ کے برخلاف ہے (جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے)اور صبح کو ”فتیق“ کہتے ہیں، کیونکہ وہ افق کو پھاڑکر ظاہر ہوتا ہے ، لسان العرب کے بقول فصیح اور سخنور افراد کو ” فتیق اللسان“ کہتے ہیں کیونکہ اس کی زبان کھلی ہوئی اور کشادہ ہے ۔

۲۔  ”اجواء “ ، ” جو“ کی جمع ہے ، مفردات اور لسان العرب کے بقول اس ہوا اور فضاء کو کہتے ہیں جو زمین اور آسمان کے درمیان برقرار ہے ۔

۳۔  ”شق“ کے معنی کسی چیز میں شگاف کے ہیں ، اسی وجہ سے کسی جمعیت کے درمیان جب کوئی اختلاف ہوتا ہے اور وہ اختلاف ان کو ایک دوسرے سے جدا کردیتا ہے تو اس کو ”شقاق“ کہتے ہیں ۔

۴۔  ” ارجاء“ ”رجا“ (بغیر ہمزہ )کی جمع ہے ، مقائیس اللغہ کے بقول کنویں یا ہر چیز کے اطراف کو کہتے ہیں، اور جب ”رجاء“  ہمزہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کے معنی امید کے ہوتے ہیں، بعض لغویین جیسے ”التحقیق“ کے مصنف کانظریہ ہے کہ اس کے اصلی معنی اسی چیز کے ہیں جس کے اطراف و جوانب میں واقع ہونے کی امید کی جاتی ہے اور اس طرح کے اطراف و جوانب جن میں امید کی جاتی ہے وہاں پر ”رجا“ (بغیر ہمزہ )کے اطلاق ہوتا ہے ۔

۵۔  ”سکائک “ ،”سکاکہ“(خلاصہ کے وزن پر) کی جمع ہے ، لسان العرب کے بقول اس ہوا اور فضاء کو کہتے ہیں جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے، اور ابن ابی الحدید کے بقول فضا کا اوپری حصہ ہے ۔

۶۔  ” ھواء “ کے اصلی معنی ، خالی ہونے اور نیچے گرنے کے ہیں، لہذا ہر خالی چیز کو ” ھوا“ کہتے ہیں ، زمین و آسمان کے درمیان فضاء کے معنی بھی اسی بناء پر مراد لئے جاتے ہیں اور شہوائے نفسانی کی رغبت کو ”ھوا“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان دنیا اور آخرت دونوں میں سقوط کرجاتا ہے (مقاییس اللغة، مفردات راغب، لسان العرب) ۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ لفظ ا پنے استعمال کی وسعت کی وجہ سے” آکیسجن“ اور ” ازت “سے مرکب نامرئی گیس کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے جو کہ اپنے اصلی معنی سے تناسب بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی خالی جگہ سمجھی جاتی ہے (اگر چہ بعض روایات میں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے) ۔

پہلے حصہ میں فضا کو کھولنے کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے حصہ میں اس کے اطراف وجوانب کو ایجاد کرنے اور تیسرے حصہ میں اس کے طبقات کی طرف اشارہ ہے ۔

ان تمام جملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہان مادہ میں سب سے پہلے دنیا کی فضا کو خلق کیا گیا ہے ، ایسی فضا جس میں اجرام فلکی، منظومہ شمسی اور کہکشاں کو قبول کرنے کی استعداد پائی جاتی ہو ،بالکل اسی طرح سے جس طرح ایک ماہر نقاش ایک وسیع کاغذ کو نقاشی کرنے سے پہلے تیار کرتا ہے ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ کلمہ ”ثم“ یہاں پر تکوینی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ بیان کی ترتیب و تاخیر کو بیان کیا گیا ہے ۔ کیونکہ پہلے جملوں میں مختلف موجودات اور کائنات کے خلق کرنے کو بیان کیا گیا ہے اور یقینا فضا کی تخلیق ، پھر اجرام فلکی اور زمین کے بعد نہیں ہوسکتی ، حقیقت میں گذشتہ حصہ میں موجودات کی تخلیق سے متعلق ایک اجمالی بحث کی گئی تھی اور اس حصہ میں اس کی شرح و تفصیل کو بیان کر رہے ہیں ۔

بہرحال اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالم مادہ میں سب سے پہلی مخلوق یا مخلوقات میں سے ایک مخلوق فضا ہے ، لیکن بعض فلاسفہ اور متکلمین نے فضا کے  امر وجودی یا امر عدی ہونے میں تردید کی ہے اور بعض کا نظریہ ہے :  جس طرح زمانہ ، موجودات کی پیدائش اور ان کی حرکت کے بعد حاصل ہوتا ہے (کیونکہ زمان وہی حرکت کی اندازہ گیری ہے) مکان بھی مختلف اجسام کی پیدائش اور ان ا یک دوسرے سے مقائسہ کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے ، جب کہ بہت مشکل ہے کہ ہم یہ تصور کریںجب پہلے جسم کو بنایا گیا تھاتو مطلقا کوئی مکان موجود نہیں تھا ۔

جب ہم چند منزلہ عمارت بناتے ہیں تو جس طرح زمین کے اوپرجگہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح زمین کے اوپری حصوں میں فضا بھی ضروری ہوتی ہے اور اگر بہت بڑی عمارت بنائی جائے تو اس کے لئے بہت زیادہ فضا کی بھی ضرورت ہے ۔

بہر حال امام علیہ السلام کے کلمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے : فضا اوراس کے اطراف او رطبقات ، خدا کی مخلوق ہیں اور ہم اس کو قبول کرتے ہیں اور اس کے متعلق بحث کو خود اس کی جگہ پر بیان کریں گے ۔

نکتہ

کیا عالم مادہ حادث ہے؟

کیا عالم مادہ حادث ہے یا قدیم اورازلی؟ اس متعلق دانشوروں اور فلاسفہ کے درمیان اختلاف ہے ، بعض اس کو قدیم اورازلی جانتے ہیں اور بہت سے گروہ اس کو حادث سمجھتے ہیں ، لہذا ان دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جو کہتے ہیں کہ ازلی اور ابدی ایک چیز ہے اور وہ خداوند عالم کی ذات پاک ہے ،اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ حادث ہے اور اللہ تعالی کی مخلوق ہے اوراسی سے وابستہ ہے ۔

دنیا کو حادث سمجھنے والوں نے اس کے لئے کبھی فلسفی دلائل کو بیان کیا ہے اور کبھی علمی دلائل سے استفادہ کیا ہے ۔

برہان حرکت و سکون ، فلسفہ کی مشہور دلیل ہے جوکہتی ہے کہ عالم مادہ ہمیشہ حرکت اور سکون کی حالت میں ہے اور حرکت و سکون ،حادث ہیں اور جو چیز حوادث سے وجود میں آئے وہ خود بھی حادث ہے ۔

اس دلیل کو وسیع طور پر بیان کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالم مادہ میں ہمیشہ تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے اور تغیر و تبدل ، حدوث کی علامت ہے کیونکہ اگر ازلی ہواور اس میں ہمیشہ تغیر و تبدل ہوتا رہے تو حدوث اور قدم ایک جگہ جمع ہوجائیںگے یعنی وہ تغییرات جو کہ حادث ہیں ان کو ازلی ماننا پڑے گا اور یہ آشکار تناقض ہے ۔

یہ دلیل حرکت جوہری کو قبول کرنے سے جو کہ کہتی ہے اشیاء کی ذات میں حرکت چھپی ہوئی ہے ،بلکہ ان کی عین ذات ہے، آشکار اور رواضح ہوجاتی ہے،کیونکہ حرکت کا وجود جو کہ حادث ہے از میں اس کے کوئی معنی نہیں ہیں (غور وفکر کریں) ۔

یہ دلیل نقد و تحقیق کے قابل ہے اور اس کی تحقیق و نقد فلسفی مباحث میں کی جائے گی ۔

لیکن علمی دلیل ایسی دلیل ہے جو کہتی ہے عالم ہمیشہ خستہ اور پرانی حالت کی طرف رواں ہے اور بہت زیادہ علمی دلائل اس کی ہمیشہ فرسودگی اور خستگی کو ثابت کرتی ہیں ، سیارے، کہکشاں ، اپنی جگہ قائم ستارے،زمین اور وہ چیزیں جو زمین کے اوپر ہیں ان سب کو یہ قانون شامل ہے ، ہمیشہ جاری رہنے والی فرسودگی اس بات پر دلیل ہے کہ جہان مادہ ایک روز ختم ہوجائے گاکیونکہ فرسودگی بہت دیر تک قائم ودائم نہیں رہ سکتی اور جب ہم یہ قبول کرلیتے ہیں کہ اس کی کوئی آخری حداور ا ختتام ہے تو پھر یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ اس کی شروعات اور آغازبھی ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی چیز ابدی نہ ہو تو وہ یقینا ازلی بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ ابدیت کے معنی ہیں جس کی کوئی انتہا یا حد نہ ہو۔ اور جس چیز کی کوئی انتہا نہ ہو وہ نامحدود ہے اورنامحدود کا کوئی آغاز نہیں ہوتا اس بناء پر جو چیز ابدی نہیں ہے وہ ازلی بھی نہیں ہے ۔

اس تعبیر کو دوسرے الفاظ میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر جہان ، ازلی ہے اور فرسودگی و خراب ہونے کی طرف رواں و دواں ہے تو اس فرسودگی کو دنیا کوختم کردینا چاہئے کیونکہ جس فرسودگی کی کوئی انتہاء نہ ہو وہ عدم کے مساوی ہے ۔

اس کے علاوہ آخری علمی نظریہ کے مطابق جہان مادہ ایک چیز کی طرف رواں دواں ہے ،ایٹم بھی آہستہ آہستہ منتشر اور قوت و طاقت میں تبدیل ہوجاتا ہے ، اور طاقتیں ایک ہی رنگ و آہنگ کی طرف چلتی ہیں (اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے کہ جب کسی کمرہ میں آگ جلاتے ہیں تو جلانے والا مادہ گرمی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور کمرہ کی گرمی آہستہ آہستہ منتشر ہوجاتی ہے، اور ایک رنگ و آہنگ کی صورت میں حرکت کرنے لگتی ہے ۔)

اگر اس عالم کے اوپر ایک بے انتہاء زمانہ گذر چکا ہوتو یہ حالت(تمام مواد کو طاقت وقوت میں تبدیل اور مستعد طاقت کو ایک رنگ اور مردہ حالت میں تبدیل ہوجانا ) ہونا چاہئے ۔

بہر حال اس مطلب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ کوئی زمانہ ایسا تھا جس میں خداوند عالم نے کسی مخلوق کو خلق نہ کیا ہو اور اس کی فیاض ذات بے فیض رہی ہو بلکہ اس کے برعکس بھی کہاجاسکتا ہے : خداوند عالم کے پاس ہمیشہ ایک مخلوق تھی لیکن یہ مخلوق ہمیشہ تغیر و تبدل کی حالت میں تھی اور یہ تمام مخلوقات اس کی ذات سے وابستہ تھیں، یا دوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ یہ مخلوقات ، حدوث ذاتی رکھتی تھیں، حدوث زمانی نہیں، کیونکہ ان سب کیلئے حدوث زمانی کا تصور نہیں کیا جاسکتا (غور وفکر کریں) ۔ اور روایت میں جو یہ آیا ہے : ” کان اللہ و لا شئی معہ“ خداوند عالم ہمیشہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی (۱) اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ نہیں تھی، بلکہ اس کی مخلوق تھی (غور وفکر کریں) ۔

۱۔  توحید صدوق، صفحہ ۶۶، اسی مضمون کے مشابہ صفحہ ۱۴۵ اور ۲۲۶ پر بھی بیان ہوا ہے ۔

چھٹا حصہ

فاجری فیھا ماء متلاطما تیارہ متراکما زخارہ ، حملہ علی متن الریح العاصفة والزعزع القاصفة ، فامرھا بردہ ، وسلطھا علی شدہ ، وقرنھا الی حدہ ، الھوائمن تحتھا فتیق، والماء من فوقھا دفیق ۔

ترجمہ :

پھر خداوند عالم نے اس (عظیم فضا)کے درمیان وہ پانی بہادیاجس کی لہروں میں تلاطم تھااوراسے ایک تیز و تند ہوا کے کاندھے پر لاد دیا ، پھر ہوا کو ان امواج کو الٹنے پلٹنے اور روک کر رکھنے کا حکم دیا اوراس کی حدوں کو پانی کی حدوں سے اس حدتک ملادیا جس قدر اس کو ملانا ضرور ی تھا اس کے نیچے ہوا کی وسعتیں تھیں اور اوپر پانی کا تلاطم !

شرح و تفسیر:

پانی پہلی مخلوق تھی

عالم کی پیدائش کی کیفیت سے متعلق اس حصہ اور آئندہ حصہ میں مولائے کائنات امیر المومنین علی (علیہ السلام)کے کلمات سے جو کچھ استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے سب سے پہلے پانی یا دوسرے لفظوں میںایساسیال جو پانی کی طرح تھا، خلق کیااور اس کو تیز و تند ہوا کے کندھوں پر سوار کیا ان تیز و تند ہواؤں کو حکم کیا گیا تھا کہ اس سیال کو کامل طور سے محفوظ رکھیں ،منتشر نہ ہونے دیںور سرحدوں پر اس کو متوقف رکھیں ۔

اس کے بعد اس سے بھی زیادہ تیز و تند ہواکو خلق کیا تاکہ وہ اس عظیم سیال میں امواج کو ایجاد کرے اور اس تیز و تند ہوا نے پانی کی عظیم امواج کو اور زیادہ عظیم بنادیا پھر وہ موجیں اتنی بلند ہوئیں کہ فضا کی کمر پر سوار ہوگئی اور اس سے سات آسمان خلق ہوگئے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پانی ، ہوا، طوفان وغیرہ جیسے الفاظ (کیونکہ اس وقت نہ پانی تھا نہ ہو ا اورنہ طوفان یہاں تک کہ اس وقت نہ روز تھا اور نہ شب)کنایہ ہیں ان موجودات سے جن کو ہم آج پانی اور ہوا سے مشابہ دیکھتے ہیں کیونکہ لغویین نے ان الفاظ کو ان کاموں کے لئے وضع کیا ہے اور جو چیز اس عالم کی تخلیق میںواقع ہوئی ہے اس کے لئے انہوں نے کوئی لفظ وضع نہیں کیا ہے ۔

جو کچھ مولا علی (علیہ السلام) کے کلام میںبیان ہوا ہے اس میں غور وفکر کرنے سے ان آخری فرضیات کی تفسیر کی جاسکتی ہے جن کو آج کے دانشوروں نے بیان کیا ہے ،ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہتے کہ مولا کی مراد یہی تھی بلکہ اجمالی طور پر اس طرح کی تفسیرکو اس کے لئے ذکر کیا جاسکتا ہے ۔

توضیح :  دنیا کی پیدائش کے سلسلہ میں آج کے آخری فرضیات یہ ہیں کہ شروع میں تمام عالم ،گیس کا ایک بہت عظیم انبار تھا جو سیال سے مشابہ تھا اور اس کے اوپر ”دخان“ (دھویں) کا نام رکھا جاسکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ وہ آسمان کے بالائی حصوں میںدھواںتھااور جتنا بھی دنیا کے مرکز سے نزدیک ہوتا جاتھا اتنا ہی چھوٹا اور سیال کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا ۔

جو چیز اس عظیم ،انبار کو محفوظ کئے ہوئے تھی وہ جذب کرنے والی وہی طاقت تھی جو دنیا کے تمام ذرات کے درمیان برقرار ہے ،یہ قوت جاذبہ اس سیال گیس کے اوپر مسلط اور محکم تھی اور اس کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ یہ اپنی حدوں سے باہر نکلے ۔

اس کے بعد اس عظیم انبارنے اپنے مرکز کا چکر لگانا شروع کیا (یا شروع ہی سے اپنے اطراف میں چکر لگارہا تھا) یہاں پراپنے مرکز سے فرار کرنے والی طاقت وجود میں آئی(۱) ۔

مرکز سے اس ․طاقت کے فرار کرنے کی وجہ سے گیس کا یہ عظیم انبار فضا میں داخل پھیلنے لگا ۔ اور نہج البلاغہ کی تعبیر میں اس دریا کی امواج کو ہر طرف بھیجنے لگایا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ زمین کے صفحہ پر جو جھاگ ظاہر ہوئے تھے ان کو باہر نکالا اور ان کو کھلی ہوئی ہوا اور وسیع فضا میں اوپر لے گیا (اس خطبہ کے آئندہ جملوں میں بھی یہی تعبیر بیان ہوئی ہے) اور اس سے منظومہ شمشی،کہکشاں،چھوٹے اور بڑے کرات (یا قرآن کریم اور نہج البلاغہ کی زبان میں سات آسمان )وجود میں آئے ۔

ہم کسی اصرار کے بغیر مذکورہ تعبیرات کو ان نظریات پر تطبیق کرتے ہیں ،ہم اس حدتک کہتے ہیں کہ آسمان،منظومہ شمسی ، کہکشاں او رکرہ زمین کی پیدائش میں نظریوں کے افق اور آج کے علمی فرضیات کاملا مولا علی (علیہ السلام) کے جملوں میں قابل درک ہیں ۔

اب ہم ان دقیق اور ظریف تعبیرات کا مطالعہ کرتے ہیں جو مولا علی کے کلام میں بیان ہوئے ہیں:

پہلے آپ فرماتے ہیں : خدا وند عالم نے اس عظیم فضاء میں جس کو پہلے خلق کیا تھا ، پانی جاری کیا،ایسا متلاطم پانی جس کی امواج بہت زیادہ شدید تھیں(فاجری فیھا ماء متلاطما(۲) تیارہ (۳)) ۔

”تلاطم“ کے معنی امواج کا ایک دوسرے سے ٹکرانا ہے اور ”تیار“ کے معنی ہر طرح کی امواج کے ہیں، خصوصا وہ امواج جو پانی کو باہر پھنکتی ہیں ۔

کیا یہ متلاطم اور پر جوش پانی وہی پہلے والاسیال گیس نہیںہے جو آج کے دانشوروں کے نظریات کے مطابق دنیا کے اولین مادے کو تشکیل دیتا ہے؟

اس کے بعد اس پانی کے تلاطم اور جوش و خروش کے سلسلہ میں زیادہ تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” یہ اس وقت تھا جب یہ امواج اس متلاطم دریا سے اٹھتی تھیں اور ایک دوسرے کے اوپر سوار ہوتی تھیں(متراکما(۴) زخارہ(۵) ) ۔

۱۔ جو چیز بھی اپنے گردچکر لگاتی ہے ،وہ اپنے مرموزی طاقت کے تحت اس مرکز سے فرار کرنا چاہتی ہے ،بالکل اسی آگ کی طرح جس کو ہم اپنے ہاتھ سے گھوماتے ہیں اگر وہ اچانک ہمارے ہاتھ سے چھٹ جائے تو بہت دور جاکر گرے گی ، یہ وہی طاقت ہے جو مرکز سے فرار کرنا چاہتی ہے اور یہ جتنی بھی شدید ہوگی اسی قدر دور سے دور جگہ پر جاکر گرے گی ۔

۲۔”متلاطم“ کا مادہ ”لطم“ (ختم کے وزن پر) ہے اس کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی سے چہرہ پرطمانچہ مارنے کے ہیں، بعد میں یہ لفظ امواج کے تھپیروں میں استعمال ہونے لگا ۔

۳۔  ”تیار“ دریا کی ان امواج کو کہتے ہیں جو پانی کو دریا سے باہر پھینکتی ہیں، بعض اہل لغت نے اس کو ہر طرح کی موج پر اطلاق کیا ہے (مقاییس اللغة اور لسان العرب) ۔

۴۔  ”متراکم“ کا مادہ ”رکم“ (رزم کے وزن پر) ہے، اس کے معنی کسی چیز کو اکھٹا کرنے اور ان میں سے بعض کو بعض کے اوپر ڈالنے کے ہیں ، بادلوں، ریت، پانی ا وران انسانوں کے اوپر اطلاق ہوتا ہے جو ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں (مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔

۵۔  ”زخار“ کا مادہ ”زخر“ ہے اور ”زخور“ اصل میں بلندی کے معنی میں ہے اور یہ دریا کے بھرجانے اور اپنی حدود سے باہر نکلنے پر بھی اطلاق ہوتا ہے (لسان العرب و مقاییس اللغة) ۔

اس کے بعد مزید فرماتے ہیں :  خداوند عالم نے اس پانی کو ایک تیز و تند ہوا اور سخت طوفان کے کاندھے پر لاد دیا (حملہ علی متن الریح العاصفة(۱) والزعزع(۲) القاصفة(۳)) ۔

 ”عاصف“ کے معنی توڑے اور کوٹنے کے ہیں ”زعزع“ کے معنی مضطرب، شدید اور ”قاصف“ کے معنی بھی توڑنے کے ہیںاور یہ پے در پے تمام تاکیدیں اس شدید اور وسیع ہوا کی قدرت کو بیان کرنے کیلئے ہیں ۔

اس عظیم اور وحشتناک طوفان کوحکم دیا گیا تھا کہ پانی کی امواج کو محفوظ اور ان کے اجزاء کو ایک دوسرے سے متصل کردے اور ان کو اپنی حدود میں محفوظ رکھ(فامرھا بردہ ، وسلطھا علی شدہ(۴) ، وقرنھا الی حدہ ) ۔

کیایہ عظیم اور شدیدطوفان امواج جاذبہ کی طرف اشارہ نہیں ہے جس کو خداوند عالم نے عالم مادہ کے تمام ذرات پر مسلط کیا ہے جس کے ذریعہ سے تمام اجزاء کے متصل ہونے اور ذرات کے منتشر ہونے سے روکتا ہے، اور سب کو مہار کرکے اپنے دائرہ میں محفوظ رکھتا ہے؟

عظیم امواج اور اس کے شرایط کوبیان کرنے کیلئے تیز ،سخت اور مہار کرنے والی ہوا سے بہتر اور کیا تعبیر بیان کی جاسکتی تھی ۔

یہ سب اس وقت تھا کہ جب اس کے نیچے فضا ہاتھ کھولے ہوئے تھا اور پانی (وہی سیال گیس) اس کے اوپر حرکت کررہا تھا(الھوائمن تحتھا فتیق(۵)، والماء من فوقھا دفیق(۶)) ۔

”فتیق“ کا مادہ ”فتق“ ہے اور اس کے معنی کھلنے کے ہیں ۔ ”دفیق“ کا مادہ ”دفق“ ہے اوراس کے معنی تیزی سے حرکت کرنے کے ہیں ۔

جی ہاں یہ متلاطم موجیں تیز ہواؤں کے ذریعہ محدود ہوجاتی ہیں اور اپنی حدوں سے تجاوز کرنے سے روک دی جاتی ہیں ۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تیز اور مہار کرنے والی ہواؤں کے باوجود وہ متلاطم موجیں کس طرح پانی کے اندر پیدا ہوتی تھیں، کیونکہ عام طور سے موجیں ہوا اور طوفان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، جب کہ یہاں پر طوفان ، امواج کو روکنے اور مہار کرنے کا کردار ادا کرتا تھا پھر کون سی چیز باعث ہوتی تھی کہ ان امواج میں تلاطم پیدا ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ ان امواج کی پیدائش کا سبب خود اس کے اندر کوئی چیز تھی جو پانی کو ہمیشہ متلاطم کرتی تھی ،یہ علت اور سبب کیا ہے ، دقیقا طور سے ہمارے لئے یہ بات ثابت نہیں ہے ،لیکن آج کے دانشوروں کے نظریات سے کامل طور پر سازگار ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے سیال گیس کے اندر پے در پے بم منفجر ہوتے تھے ، وہی انفجار جو آج بھی ہمارے سورج کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ عظیم انفجار ، سیال گیس کے آرام میں خلل ایجاد کرتا تھا اور امواج میں ایک عظیم تلاطم پیدا کردیتا تھا ۔

اس فراز کو کامل کرنے کیلئے بعد والے فراز کا مطالعہ کرتے ہیں اور مولا علی(علیہ السلام) کے نظریات کے مطابق دنیا کی پیدائش کا دقیق نقشہ بناتے ہیں ۔

۱۔  ”عاصفہ“ کا مادہ ”عصف“ (عصر کے وزن پر) ہے اس کے معنی ہلکے اور جلدی کے ہیں اسی وجہ سے حبوبات کے چھلکوں اور گھانس پھونس کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جلدی منتشر ہوجانے کی وجہ سے عصف کہتے ہیں ۔ ”عاصف“ اور ”معصف“ اس چیز کو کہتے ہیں جو اشیاء کو ٹوڑکر نرم کردیتی ہے (مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔

۲۔  ”زعزع“(زمزم کے وزن پرہے اور اس )کے معنی حرکت اور اضطراب کے ہیںاور یہ شدید و سخت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ( لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔

۳۔  قاصفہ کا مادہ قصف (حذف کے وزن پر)ہے اس کے معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں، اسی وجہ سے سخت اور شدید طوفانوں کو قاصف کہتے ہیں کیونکہ یہ دریاؤں میں کشتیوں کو توڑدیتے ہیں ،اسی طرح شدید رعد و برق کو قاصف کہتے ہیں (مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔

۴۔  ”شد“ (مد کے وزن پرہے) کے معنی کسی چیز کی قوت اور طاقت کے ہیں، اسی وجہ سے قوی (خصوصا جنگ میں قوی)  افراد کو شدید کہا جاتا ہے ۔ یہ لفظ، محکم گرہ لگانے(چاہے بدن میں ہو یا باطنی اور روحی طاقت میںیا مصیبت اور عذاب )میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔(مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔

۵۔  ”فتیق“ کا مادہ ”فتق“ ہے جو کہ پہلے فراز میں گزر گیا ہے ۔

۶۔  ”دفیق“ کا مادہ ”دفق“ (دفن کے وزن پر)ہے اصل میں اس کے معنی کسی چیز کو آگے کی طرف ہانکنے کے ہیں اور تیزی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ تیز چلنے والے اونٹ کو ”ادفق“ کہتے ہیں ۔