بسم الله الرحمن الرحیم

شرح نہج البلاغہ

ساتواں حصّہ

ثُمَّ اٴَنْشَاٴَ سُبْحَانَہُ ریحاً اعْتَقَمَ مَھَبَّہَا وَاٴدَامَ مُرَبَّھَا وَاٴعْصَفَ مَجْرَاھَا وَاٴبْعَدَ مَنْشَاھَا فَاٴمَرَھَا بِتَصْفِیْقِ الْمَاءِ الزَّخَّارِ وَإثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ فَمَخَضَتْہُ مَخْصَ السِّقَاءِ وَعَصَفَتْ بِہِ عَصْفَھَا بِالْفَضَاءِ․ تَرُدُّ اٴوَّلَہُ إلیٰ آخِرِہِ وَسَاجیَہُ إلیٰ مَائِرِہِ حَتّی عَبَّ عُبَابُہُ وَرَمی بِالزَّبَدِ رُکَامُہُ فَرَفَعَہُ فِی ھَواءٍ مُنْفَتِقٍ وَجَوٍّ مُنْفَھِقٍ فَسَوَّی مِنْہُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ جَعَلَ سُفْلَاھُنَّ مَوْجاً مَکْفُوفاً وَعُلْیَاھُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وَسَمْکاً مَرفُوعاً بِغَیرِ عَمَدٍ یَدْعَمُھَا وَلَادِسَارٍ یَنْظِمُھَا ثُمَّ زَیَّنَھَا بِزِیْنَةِ الْکَوَاکِبِ وِضِیَاءِ الثَّوَاقِبِ وَاٴجری فِیھَا سِراجاً مُسْتَطِیراً وَقَمَراً مُنِیْراً فِی فَلَکٍ دَائِرٍ وَسَقْفٍ سَائِرٍ وَرَقِیْمٍ مَائِرٍ․

ترجمہ

اس کے بعد پاک ومنزہ پروردگارنے ایک طوفان کو پیدا کیا جس کا کام پانی کی لہروں میں تلاطم اور اس کی موجوں کو درہم وبرہم کرنا تھا، طوفان شدّت سے جاری تھا اور ایک دور دراز مرکز سے نشاٴت پارہا تھا، پھر اُسے حکم دیا کہ اُس بحر ذخار کو الٹ پلٹ کردے اور دریا کی موجوں کو ہر طرف پھیلادے! نتیجہ میں اُس نے پانی کو ایک مشک کی طرح متھ دالا اور اُسی شدّت کے ساتھ کہ جیسے وہ فضا میں جاری تھا، اُن موجوں پر حملہ آور ہوا، اس کے اوّل کو آخر پرپلٹ دیتا اور ٹھہرے ہوئے پانی کو متحرک موجوں سے ملادیتا، یہاں تک کہ ایک کے اوپر ایک پانی کی تہہ جم گئیںاور پھر وہ پانی پہاڑ کی چوٹی کی طرح اُبھر کر اُوپر آگیا، موجوں نے جھاگ کو بلند کیا اور اُسے کھلی ہوا اور پھیلی ہوئی وسیع فضاء میں منتشر کردیا اور اُس سے ساتھ آسمان پیدا کئے، نیچے کے آسمان کو ٹھہری ہوئی موج کی طرح قرار دیا اور سب سے اوپر کے آسمان کو محفوظ اور بلند چھت کے مانند بنایا، کسی ایسے ستون کے بغیر جو ا س کی حفاظت کرسکے اور نہ اس میں کیلیں لگائیں جو اُسے باندھ سکے، اس کے بعد نیچے والے آسمان کو تابندہ نجوم اور درخشاں ستاروں کے نور سے مزیّن کیا، ان کے درمیان ایک ضوفگن چراغ اور ایک نورفشاں مہتاب کو متحرک فلک اور گھومنے والی چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں رواں دواں کیا ۔

شرح اور تفسیر

آغاز خلقت میں طوفان کا کردار

مولائے متقیان کے کلام کا یہ حصّہ (جیسا کہ پہلے اشارہ ہوچکا ہے) گذشتہ کلام کی تکمیل اور اُسی کا باقی حصّہ ہے ۔

یہاں پر بھی (پہلے سے کوئی فیصلہ کئے بغیر) پہلے حضرت کے کلام میں آنے والی نہایت دقیق اور عمیق عبارتوں کو سمجھیں گے، پھر اس کے بعد گفتگو کریں گے کہ تخلیق کائنات کے بارے میں دور حاضر کے دانشمندوں کے نظریات پر اُسے کیسے تطبیق دیا جائے ۔

مولا امیرالمومنین علیہ السلام اپنے کلام کے اس حصّہ میں چند مرحلوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:

نسب سے پہلے آپ یہ فرماتے ہیں: ”الله سبحانہ نے ایک اور ہوا چلائی اور دوسرا طوفان پیدا کیا (اس طوفان کی چار خصوصیت تھیں“ (ثُمَّ اٴَنْشَاٴَ سُبْحَانَہُ ریحاً اعْتَقَمَ (۱)مَھَبَّہَا (۲)) ۔ نہ بادل ہی تھا جو آپس میں رابطہ پیدا کرتا اور بارش برساتا اور نہ کوئی پھول ہی تھا جو اُسے بارور کرتا یعنی اس میں تولیدی صلاحیت نہیں تھی ۔

 ”وہ ہوا ہمیشہ پانی کے ساتھ رہتی ارو اس سے جدا نہیں ہوتی تھی“ (وَاٴدَامَ مُرَبَّھَا )(۳) عام ہواوٴںکے برخلاف جن میں دوام نہیں ہوتا، کبھی چلتی ہیں اور کبھی رُک جاتی ہیں ۔

”وہ ہوا جس کے جھونکے بہت ہی قوی اور طاقتور تھے (یہ ہوا  معمولی ہواوٴں اور طوفانوں سے بہت مختلف تھی)“ (وَاٴعْصَفَ(۴) مَجْرَاھَا ) ۔

”وہ ہوا جو دور دراز مرکز سے متصل  تھی (معمولی ہواوٴں کی طرح نہیں جواکثر نزدیکی سرچشموں سے نشاٴت پاتی ہیں)“ (وَاٴبْعَدَ مَنْشَاھَا) ۔

                                                       

۱۔ ”اعتقم“ ”عُقْم“ (بروزن ”قُفل“) سے مشتق ہے، اس کے معنی خشکی کے ہوتے ہیں جو اثر کو قبول کرنے سے مانع ہوتی ہے، ”عقیم “ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو بچہ نہیں جنتی اور مرد کے نطفہ کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، البتہ یہ لفظ تنگی اور مضیق ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے، (مفردات، لسان العرب اور مقاییس اللغة)․

۲۔ ”مَھَبَّ“ ”ھُبوب“ (بروزن ”سجود“)سے مشتق ہے اور بیدار ا ہونے، تلوار لہرانے اور عام طور پر ہیجانی کیفیت طاری ہونے کے معنی میں آتا ہے اسی وجہ سے ہوا چلنے اور طوفان آنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے ۔

۳۔ ”مُرَبَّ“ ”ربّ“ سے مشتق ہے، اصل میں تربیت کے معنی میں ہے اور مربی (تربیت کرنے والا)، مالک  اور خالق کے لئے بھی ”رب“ کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے (یہ ایسا مصدر ہے جوفاعل کے معنی میں آتا ہے) اور جب باب ”افعال“ (ارباب) سے آئے تو استمرار اورملازمت کے معنی میں ہوتا ہے (اس لئے کہ تربیت، استمرار کے بغیر امکان پذیر نہیں ہوتی) لہٰذا اس بناپر ”مُرب“ جو مصدر میمی ہے دوام اور بقاء کے معنی میں ہے ۔

۴۔ ”اعصف“، ”عَصْف“ (بروزن ”عصر“) سے مشتق ہے اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سرعت، حرکت اور شدّت کے معنی میں ہے ۔

دوسرے مرحلہ میں حضرت، اس طوفانی ہوا کو دیئے گئے حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، فرماتے ہیں: ”اس کو حکم دیاگیا ہے کہ دریا کے گہرے پانی اور اس کے ذخیرہ کو متواتر ایک دوسرے پر مارتی اور کوٹتی رہے“ (فَاٴمَرَھَا بِتَصْفِیْقِ(۱) الْمَاءِ الزخار) ۔

”دریاوٴں کی موجوں اور لہروں کو ہر سمت میں چلایا“ (وَإثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ) ۔

”اس عظیم طوفان نے اس پانی کو سقّوں کی مشک کی طرح متھ ڈالا “ (فَمَخَضَتْہُ(۲) مَخْصَ السِّقَاءِ) ”اور اس کو شدّت کے ساتھ فضا کی طرف بلند کردیا“ (وَعَصَفَتْ بِہِ عَصْفَھَا بِالْفَضَاءِ) ۔

                                                       

۱۔ ”تصفیق“ ”صفق“ (بروزن ”سقف“) سے مشتق ہے اور ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنے کے معنی میں ہے کہ اس سے آواز بلند ہوجائے، اسی وجہ سے ہتھیلی بجانے کو تصفیق کہا جاتا ہے، یہاں پر ہلانے اور پانی کو ایک دوسرے پر مارنے کے معنی میں آیا ہے (لسان العرب، مقاییس اللغة، شرح عبدہ) ۔

۲۔ ”مَخَضَ“ ”مَخْض“ (بروزن ”قرض“) سے مشتق ہے، اصل میں بہنے والی چیزوں کو اُن کے برتن میں ہلانے کے معنی میں آتا ہے لہٰذا جب کسی مشک ، یا متھینی میں دہی ڈال کر مکھّن نکالنے کے لئے ہلایا اور متھا جائے تو اس وقت کے لئے اس لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

”اس طوفان نے پانی کے پہلے حصّہ کو آخری حصہ پر اُلٹ دیا اور ٹھہرے ہوئے حصّہ کو متحرک پانی کی طرف لے گیا“( تَرُدُّ اٴوَّلَہُ إلیٰ آخِرِہِ وَسَاجیَہُ(۱) إلیٰ مَائِرِہِ(۲)) ۔

تیسرے مرحلہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”وہ پانی ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوکر اوپر آگئے“ (حَتّی عَبَّ عُبَابُہُ(۳)) ۔ ”پانی ۔ کے جمع ہونے والے ذخیرہ نے اپنے اندر سے کچھ جھاگ باہر پھینک دیا“ (وَرَمی بِالزَّبَدِ رُکَامُہُ(۴))

آخرکار چوتھے مرحلہ میں: ”خداوندعالَم نے یہ جھاگ، اوپر کی وسیع فضا اور پھیلی ہوئی کشادہ ہوا میں بلند کردیئے“ (فَرَفَعَہُ فِی ھَواءٍ مُنْفَتِقٍ وَجَوٍّ مُنْفَھِقٍ(۵)) ۔

”اور اُس سے سات آسمان پیدا کئے اور اُن میں نظم برقرار کیا“ (فَسَوَّی مِنْہُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ) ۔

                                                       

۱۔ ”ساجی“ ”سَجْو“ (بروزن”سَہْو“) سے مشتق ہے، اور سکون وارام کے معنی میں اتا ہے ۔

۲۔ ”مائر“ ”موٴر“ (بروزن ”فوْر“) سے مشتق ہے، اصل میں تیزی سے جاری ہونے کے معنی میں آتا ہے، یہ لفظ سڑک کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے چونکہ اُس پر لوگ متحرک رہتے اور رفت وآمد کرتے رہتے ہیں ۔

۳۔ ”عُباب“ کا مصدر ”عبّ“ ہے اور وقفہ دیئے بغیر تیزی سے پانی پینے کے معنی میں ہے، اسی وجہ سے پانی کی فراوان مقدار ، زیادہ بارش اور عظیم سیلاب کو ”عُباب“ کہا جاتا ہے، جبکہ یہاں پر ایک پانی کی دوسرے پانی پر تہہ جمنے کے معنی میں آیا ہے ۔

۴۔ ”رُکام“ زیادہ مقدار میں جمع ہونے کے معنی میں ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے ۔

۵۔ ”مُنْفَھِق“ ”فَھْق“ (بروزن ”فرق“)سے مشتق ہے اور پھیلنے اور وسعت کے معنی میں آیا ہے، اسی وجہ سے درّہ کے پھیلے ہوئے حصّے اور پانی سے بھر ہوئے ظرف کو  ”منفہِق“ کہتے ہیں ۔

”یہ ایسے عالَم میں تھا کہ اس کی نچلی سطح کو ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح قرار دیا اور اس کے اوپر کا حصّہ ایک محفوظ چھت کی طرح بلند بنادیا“ (جَعَلَ سُفْلَاھُنَّ مَوْجاً مَکْفُوفا (۱) وَعُلْیَاھُنَّ سَقْفاً مَحْفُوظاً وَسَمْکا (۲) مَرفُوعاً) ۔

”حالانکہ اس کا نہ کوئی ستون تھا جو اُسے سہارا دے سکے اور نہ کوئی کیل اور رسّی تھی جو اُسے منظم کرسکے اور باندھ سکے“ (بِغَیرِ عَمَدٍ(۳) یَدْعَمُھَا (۴) وَلَادِسَارٍ یَنْظِمُھَا (۵)) ۔

آخر کار پانچواں اور آخری مرحلہ آگیا: ”خداوندعالَم نے آسمان کو تابندہ نجوم اور درخشاں ستاروں کے نور سے مزیّن کیا“ (ثُمَّ زَیَّنَھَا بِزِیْنَةِ الْکَوَاکِبِ وِضِیَاءِ الثَّوَاقِبِ(۶)) ۔  ”اور اس میں روشن چراغ ضوفگن (تابندہ آفتاب) اور نور افشاں ماہتاب کو ایک متحرک فلک، گھومنے والی چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں رواں دواں کیا“ (وَاٴجری فِیھَا سِراجاً مُسْتَطِیرا (۷) وَقَمَراً مُنِیْراً فِی فَلَکٍ دَائِرٍ وَسَقْفٍ سَائِرٍ وَرَقِیْمٍ(۸) مَائِرٍ) ۔

                                                        

۱۔ ”مکفوف“ کفّ“ (بروزن ”سدّ“) سے مشتق اور قبض واقباض اور کسی چیز کو جمع کرنے کے معنی میں ہے، ہاتھ کے نچلے حصّہ کو ”کف“ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ قبض واقباض یعنی لین دین کیا جاتا ہے اور نابینا کو ”مکفوف“ کہا جاتا ہے، چونکہ اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ۔

۲۔ ”سَمْک“ اصل میں رفعت اور بلندی کے معنی میں آیا ہے، گھر کی چھت کو اسی وجہ سے ”سمک“ کہا جاتا ہے چونکہ بلند ہوتی ہے ۔

۳۔ ”عمَد“ (بروزن ”سبَد“) و ”عُمُد“ (برورزن”شُتر“) دونوں ”عمود“ کی جمع اور ستون کے معنی میں ہیں ۔

۴۔ ”یَدْعَم“ ، ”دعم“ (بروزن ”فَھْم“) سے مشتق اور کسی چیز کو اٹھائے رکھنے کے معنی میں ہے، اسی طرح ”دِعام“ اور ”دعامہ“ اُن لکڑیوں (بَلِّیّوں) کے معنی میں آتے ہیں، جس سے دیوار بنانے کے لئے پیڑ باندھی جاتی ہے ، یہ الفاظ ہر اُٹھانے والی چیز اور شخص کے لئے بولے جاتے ہیں ۔

 ۵۔ ”دسار“ کیل کے معنی میں اور اسی طرح رسّی کے معنی میں ہے جس سے کسی چیز کو مضبوطی سے باندھتے ہیں ۔

۶۔ ”ثواقِب“، ”ثَقْب“ (بروزن ”سقْف“) سے مشتق اور سوراخ کرنے، پھاڑنے اور کسی چیز میں نفوذ کرنے کے معنی میں ہے، درخشاں ستاروں کو اس لئے ”ثواقب“ کہا جاتا ہے کہ گویا اُن کا نور آنکھوں میں سوراخ کرکے اُن میں نفوذ کرجاتا ہے یا اس لئے کہ اُن کا نور آسمان سے گذر کر ہم تک پہنچتا ہے ۔

۷۔ ”مستطیر“ ”طَیْر“ سے مشتق ہے، اصل میں اس کے معنی، ہوا میں کسی چیز کے ہلکا ہونے کے ہیں، پھر بعد میں ہر تیز رفتار چیز اور پرندوں کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور ”مستطیر“ منتشر اور پھیلے ہوئے کے معنی میں ہے، یہ لفظ صبح کے اُس وقت کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ جب سورج کی کرنیں افق میں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں ۔

۸۔ ”رَقِیم“ ”رَقْم“ (بروزن ”رزم“) سے مشتق ہے اور اصل میں خط وکتابت کے معنی میں ہے، لفظ ”رقیم“ کتاب کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور آسمان کو اس لئے ”رقیم“ کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب کے ایک صفحہ کی طرح ہے جو ستاروں کے نقش ونگار سے بھر گیا ہے ۔ (مقاییس اللغة، مفردات اور لسان العرب)

نکات

۱۔ عصر حاضر کے نظریات پر اس کلام کی اجمالی تطبیق

تخلیق کائنات کے سلسلہ میں دور حاضر کے دانشمند حضرات کے کچھ خاص نظریات ہیں، جو مفروضات کی حد سے آگے نہیں بڑھتے اس لئے کہ اربوں سال پہلے کوئی بھی نہیں تھا جو تخلیق کائنات کی کیفیت کا مشاہدہ کرتا، لیکن بہرحال کچھ ایسے قرائن اور نشانیاں موجود ہیں جو بعض مفروضوںکی بطور دقیق تائید کرتی ہیں ۔

مولائے کائنات کے کلام میں جو عبارتیں آئی ہی وہ مکمل طور پر مشہور مفروضوں کے اوپر منطبق ہونے کی قابلیت رکھتی ہیں، ذیل میں یہ عبارتیں قارئین کی نظروں سے گذریں گی البتہ کوئی ایسا دعویٰ کئے بغیر کہ مولا کی مراد یہی رہی ہو۔

 جیسا کہ گذشتہ بیانات کی شرح اور تفسیر کے ذیل میں ہم نے بیان کیا ہے کہ شروع میں یہ کائنات، گیس کے کثیر ذخیرہ کادبا ہوا ایک ڈھیر تھا جو بہنے والی چیزوںسے بہت زیادہ مشابہ تھا کہ اُسے ”پانی“ کہنا بھی صحیح ہے ار ”دخان“ (دھویں) کا کام دینا میں درست ہے، جیسے قرآن مجید کی آیات میں آیا ہے ۔

خالق کائنات نے اُس کے اوپر دو عظیم طاقتوں کو مسلط کیا جنھیں مذکورہ کلام میں دو ہواوٴں کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے:

قوّت جاذبہ ، جو اُسے ایک دوسرے سے قریب رکھتی اور منتشر ہونے سے حفاظت کرتی تھی اور قوّہٴ دافعہ جو اپنے چاروں طرف گردش کرنے اور محور سے گریز کرنے والی قوت کو وجود دینے کے نتیجہ میں، اُس کو باہر کی جانب کھینچتی تھی، یہ وہی دوسری تیز ہوا ور شدید طوفان تھا ۔

اگر ہم اس بات کو قبول کرلیں کہ کائنات کی دائرہ نما پہلی گردش، متغیّر کیفیت کی حامل تھی، کبھی شدّت اختیار کرتی اور کبھی نرمی اختیار کرلیتی تھی، تو یہ طبیعی ہے کہ اُس سیّال گیس کے ذخیرے میں عظیم لہریں اور خوفناک موجیں پیدا ہوتی تھیں، وہ موجیں ہمیشہ ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوتی اور پھر اس کے اندر سرایت کرجاتی تھیں ۔

آخرکار ان میں سے جو موجیں ہلکی اور کمترین وزن رکھتی تھیں ”جسے مولا کے کلام میں جھاگ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے“ باہر کی فضا میں اوپر آجاتی تھیں، (یاد رہے کہ لفظ ”زَبَد“ پانی کے اوپر آنے والے جھاگ کو بھی کہا جاتا ہے اور اس چکنائی اور مکھن کو بھی کہا جاتا ہے جو ہلکا ہونے کی وجہ سے متھینی کے اندر اوپر کی طرف نمایاں ہوجاتا ہے) ۔

اس طرح اُ س دائرہ نما گردش میں شدّت آگئی اور اُس بڑے ڈھیر کے بہت سے عظیم حصے اور اجزاء جدا ہوکر فضا میں پھیل گئے، جن میں زیادہ شدّت تھی وہ زیادہ بلندی پر پہنچ گئے اور جن میں شدّت کم تھی وہ نچلی جگہوں پر ٹھہرگئے ۔

وہ حصّے جو دور مقامات پر پہنچ گئے تھے، قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے پھر بھی مکمل طور پر فرار یا جدانہ ہوسکے اور ایک محفوظ چھت کی صورت میں قرار پائے نچلی سطح کا حصّہ وہ کمزور موجیں تھیں جنھیں مولا نے مکفوف موج کے عنوان سے تعبیر فرمایا ہے ۔

سات آسمان (جن کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے) اُس پھیلی ہوئی فضا میں ظاہر ہوئے وہ بھی اس طرح کہ نہ کوئی ستون تھا جو انھیں ٹھہرا سکے اور نہ کوئی کیل تھی جو انھیں روک سکے اور نہ ہی کوئی رسی تھی جو انھیں باندھ سکے، فقط جاذبہ اور دافعہ قوت کا تعادل تھا اور جو اُنھیں ایسی جگہ پر روکتا اور اُن کے اپنے مدار اور مرکز پر گھماتا تھا ۔

اس زمانے میں فضا، چھوٹے بڑے کُرات (گول افلاک) سے بھری ہوئی تھی، ان موجوں کے پھیلے ہوئے ٹکڑے باہر کی جانب منتشر ہوتے اور آہستہ اہستہ، قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، بڑے کرات کی طرف کھینچ لئے جاتے تھے، فضا صاف ہوئی اور ستارے جگمگانے لگے، نجوم اور کواکب، زینت بخشنے لگے، سورج نے ضوفشانی کی اور چاند نے چمکنے کی ابتدا اور تابناکیوں کا آغاز کیا اور سب اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگے ۔

تخلیق کائنات کے بارے میں بعض مفروضوں میں آیا ہے کہ منظوموں، کہکشانوں اور آسمانی کرات کے سب سے پہلے کے عظیم ڈھیر سے جدا ہونے کا سبب، اندرونی عظیم دھماکہ تھا جس کا سبب دقیقاً کسی کو بھی معلوم نہیں ہے، اس عظیم دھماکے نے  اس گیس کے عظیم ڈھیر اور ذخیرے کے اکثر حصّوں کو فضا میں اُچھال کر بکھیر دیا اور منظوموں اور کرات کو بنادیا ۔

ممکن ہے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام میں یہ عبارت ”تیز آندھی اور دوسرا طوفان چلنے لگا جس کا سرچشمہ کہیں دور واقع تھا اور اس نے پانی کو شدّت سے الٹ پلٹ دیا یہاں تک کہ اس کے اوپر جھاگ نمودار ہوگیا“ اسی عظیم دھماکے کی طرف اشارہ ہو جو وہ سب سے پہلے مادّے کی گہرائیوں سے وجود میں آیا ہو۔

بہرحال جیسے اوپر بیان ہوچکا ہے، مقصد یہ ہے کہ اس خطبہ کی عبارتوں کو، تخلیق کائنات کے بارے میں موجودہ اندازوں اور مفروضات پر تطبیق دینے کے سلسلہ میں وضاحت کریں، کوئی یقینی قضاوت یا فیصلہ نہیں ۔

۲۔ تخلیق کائنات کی کیفیت

وہ نہایت پیچیدہ مسائل جو دانشمند اور متفکر حضرات کے سامنے ہیں اُن میں سے ایک مسئلہ یہی ہے کہ کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی، اس مسئلہ کی بازگشت اربوں سال پہلے کی طرف ہے اور شاید یہ مسئلہ کسی انسان کی فکر میں نہ سما سکے، اسی وجہ سے بڑے بڑے دانشمند، اپنے ان تمام مفروضوں اور اندازوں کے باوجود جن کا انھوں نے اظہار کیا اور اس سلسلہ میں انھوں نے طاقت فرسا مطالعہ اور کوششیں کی ہیں، کسی جگہ تک نہیں پہنچ سکے بلکہ سب نے اس مسئلہ میں عاجزی کا اظہار کیا ہے ۔

لیکن بشر کی جستجو گر روح اُسے خاموش ہوکر چین سے نہیں بیٹھنے دیتی کہ اس سلسلہ میں گفتگو نہ کرے، حقیقت میں دانشمندوں کی زبان حال یہ ہے کہ اگرچہ ہم اس موضوع کی تہہ اور حقیقت تک پہنچنے سے عاجز اور ناتواں ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم اس کا ایک تصور اور خیال اپنے ذہن میں بٹھاکر اپنی جستجوگر اور پیاسی روح کو تھوڑا سیراب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

قرآنی آیات اور اسلامی روایات واحادیث میں اس مسئلہ کی طرف فقط مختصر سا اشارہ نظر آتا ہے لہٰذا وہ بھی ہمارے ذہن میں فقط ایک دھندے سے خیال کی تصویر کشی کرتی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں اور طبیعی طور پر یہ مسئلہ بھی اسی بات کا تقاضا کرتا ہے ۔

بہرحال تخلیق کائنات کے متعلق جو بھی اِس خطبہ شریفہ میں آیا ہے وہ اس سے ہماہنگ ہے جو خطبہ نمبر۲۱۱ میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت نے ارشاد فرمایا: ”وَکَانَ مِن اقتدار جَبَرُوتِہِ وَبَدِیع لَطَائِفِ صَنْعِتِہ اٴن جَعَلَ مِن مَاءِ الْبَحْرِ الزَّاخِرِ الْمُتَرَاکِمِ الْمُتَقَاصِفِ یَبَساً جَامِداً ثُمَّ فَطَرَ مِنہُ اٴَطْبَاقاً فَفَتَقَھَا سَبْعَ سَمَوَاتٍ، بَعدَ اِرْتِتَاقِھَا؛ خلّاق کائنات کے اقتدار وجبروت کی طاقت اور اس کی صناعی کی حیرت انگیز لطافت یہ تھی کہ اس نے طغیاںمتلاطم اور تہہ دار سمندر کے پانی سے جس کی موجیں شدّت سے آپس میں ٹکرارہی تھیں ایک  ٹھوس اور خشک چیز کو پیدا کیا، پھر اس کے طبقے بنائے اور ایک دوسرے میں پیوستہ کرنے کے بعد اُنھیں شگافتہ کرکے سات آسمان پیدا کئے“۔

اسلامی روایتوں میں بھی اس سلسلہ میں کثرت سے بحث وگفتگو دکھائی دیتی ہے، اکثر روایات، اس بیان سے ہماہنگ ہیں جو اس خطبہ میں آیا ہے، فقط اس فرق کے ساتھ کہ ان میں سے بہت سی روایتوں میں آیاہے کہ پہلے اس پانی پر جھاگ نمودار ہوئے، جھاگ سے بھاپ یا دھواں اٹھا اور آسمانوں کووجود میں لایا ۔(۱)

                                                       

۱۔ ان روایات کے بارے میں مزید معلومات کے لئے بحارالانوار، مطبوعہ بیروت، ج۳، ۱۰،اور ۵۷ میں رجوع فرمائیں، اس سلسلہ کی زیادہ تر حدیثیں جلد۵۷ میں موجود ہیں ۔

لیکن جیسا کہ کہا گیا ہے ان حدیثوں میں کوئی تضاد یا ٹکراوٴ نہیں ہے چونکہ قوی امکان ہے کہ سب سے پہلا مادّہ، بہنے والی چیز کی طرح دبی ہوئی سیّال گیس کی شکل میں رہا ہو اور اس پر مختلف مرحلوں میں پانی، بھاپ اور دھوئیں کا عنوان صادق آتا ہے ۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اُن روایات اور حدیثوں میں بھی کوئی تضاد یا ٹکراوٴ نہیں ہے جن میں بیان ہوا ہے کہ سب سے پہلے جو چیز پیدا ہوئی وہ پانی ہے یا سب سے پہلے الله نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم کے نور کو خلق کیا یا سب سے پہلے عقل کو بنایا ہے، اس لئے کہ ان میں سے بعض احادیث، عالَم مادّہ کی تخلیق پر ناظر ہیں اور بعض حدیثیں عالَم مجردات اور عالَم ارواح پر نظر رکھتی ہیں ۔

گذشتہ بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان روایات اور سورہٴ فصّلت کی گیارہویں آیت میں جو بیان ہوا ہے کوئی کسی طرح کا تضاد یا ٹکراوٴ نہیں ہے قرآن مجید کے سورہٴ فصّلت میں ارشاد ہوتا ہے: <ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَھِیَ دُخَانٌ > ”اس کے بعد آسمانوں کو بنایا حالانکہ وہ دھواں تھے“۔

۳۔ تخلیق کائنات کے متعلق، نزول قرآن کے زمانے میں موجودہ مفروضے

قابل توجہ نکات میں سے ایک اچھا نکتہ یہ ہے کہ نزول قرآن کے ماحول میں (یا صحیح لفظوں میں جس زمانے میں قرآن نازل ہوا ہے) تخلیق کائنات کے بارے میں دو مشہور نظریے موجود تھے: ایک نظریہ ”بطلمیوس“ کے علم نجوم کا تھا جو تقریباً پندرہ صدیوں تک دنیا کی علمی محفلوں پر سایہ فگن اور قرون وسطیٰ کے آخری دور تک باقی رہا ، اس نظریہ کے مطابق کائنات کا محور، زمین تھی اور نو فلک (سیارے) اُس کے اردگرد گردش کرتے تھے ۔

یہ افلاک پیاز کے چھلکوں کے مانند، صاف وشفّاف اور ایک دوسرے کے اوپر لپٹے ہوئے تھے جبکہ متحرک ستاروں (عطارد، زہرہ، مریخ اور زحل) میں سے ہر ایک ستارہ کی جگہ اپنے مخصوص فلک میں تھی، نیز چاند اور سورج کا بھی اپنا اپنا ایک مخصوص فلک تھا، اس کے علاوہ ساکن ستاروں سے مربوط سات فلک اور بھی تھے (ساکن ستاروں سے مراد ستاروں کا وہ مجموعہ ہے جو ایک ساتھ طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور آسمان میں اپنی جگہ نہیں بدلتے، اُن ستاروں کے برخلاف جن کا نام شروع میں بیان کیا جاچکا ہے) آٹھویں فلک یعنی فلک ثوابت کے بعد، فلک اطلس تھا، جس میں کوئی ستارہ نہیں تھا، اس کا کام دنیا کے فوقانی مجموعہ کو زمین کے گرد گھمانا تھا، اس کا دوسرا نام فلک الافلاک تھا ۔

دوسرا مفروضہ، عقول عَشَرہ کے مفروضہ پر مشتمل تھا، اس نظریہ میں بھی ’بطلمیوس“ کے اس نظریہ سے مدد لی گئی تھی جو کائنات کی طبیعت پر ناظر تھا ۔

اس نظریہ کے مطابق جو بعض یونانی فلسفیوں کی جانب سے بیان کیا گیا تھا، خداوندعالَم نے شروع میں فقط ایک چیز پیدا کی اور وہ عقل اوّل تھی (فرشتہ یا روح عظیم اور مجرد جس کا نام شروع میں عقل اوّل رکھا گیا) اِس عقل نے دو چیزوں، عقل دوّم اور نویں فلک کو پیدا کیا، اس کے بعد عقل دوّم نے عقل سوّم اور آٹھویں فلک کو خلق کیا اور اس ترتیب سے دس عقلیں اور نو فلک پیدا ہوئے اور پھر دسویں عقل نے اس کائنات کی دیگر موجودات کو پیدا کیا ۔

حقیقت میں مفروضہ مراتب کے اس سلسلہ کی کوئی دلیل نہیں تھی، جیساکہ ”بطلمیوس“ کے مفروضے کی بھی بقدر کافی دلیل نہیں تھی، بہرحال جو کچھ بھی تھے کئی صدیوں تک یہ مفروضے، افکار پر حاکم اور غالب رہے ۔

لیکن قرآن مجید اور اسلامی احادیث نے نہ پہلے مفروضہ کو قبول کیا اور نہ دوسرے نظریہ کو مانا، چونکہ آیات قرآنی اور مشہور حدیثوں (خصوصاً نہج البلاغہ) میں ان نظریوں کا ہمیں کوئی اثر نہیں ملتا اور یہ بات بذات خود، قرآن اور اسلامی احادیث کی عظمت اور مستقل مزاجی پر بہترین گواہ ہے، نیز شاہد ہے کہ قرآن وحدیث کا سرچشمہ، وحی ہے بشری افکار نہیں، ورنہ یہ بھی وہی رنگ اختیار کرلیتے ۔(۱)

                                                       

۱۔بلکہ قرآن کریم کی بعض آیتوں میں زمین کے متحرک ہونے کا اشارہ ملتا ہے، جیسے سورہٴ نمل کی آیت نمبر ۸۸ <وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَةً وَھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللهِ الَّذِی اٴَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ> اور سورہٴ مرسلات کی پچیسویں آیت <اٴَلَمْ نَجْعَلْ الْاٴَرْضَ کِفَاتًا> (البتہ بعض تفسیروں کی بناپر اور بعض آیات چاند اور سورج کے عالَم بالا کی فضا میں تیرنے پر  دلالت کرتی ہیں، جیسے سورہٴ یٰسین کی چالیسویں آیت < لَاالشَّمْسُ یَنْبَغِی لَھَا اٴَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَااللَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ >(مزید تشریح کے لئے تفسیر نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔

تخلیق کائنات کی کیفیت کو ”امیرالمومنین علیہ السلام“ کے کلام میں جو دوسری بہت سی احادیث سے ہماہنگ ہے، آپ نے مشاہدہ کیا ہے ۔

قرآنی آیات اور اسلامی احادیث میں سات آسمانوں کا ذکر ملتا ہے، نہ کہ نو افلاک اور دس عقلوں کا، بہرحال آئندہ گفتگو میں سات آسمانوں کی تفسیر بیان ہوگی ۔

لیکن افسوس کہ نہج البلاغہ کی شرح کرنے والے قدیم علماء (جو تخلیق کائنات کے سلسلہ میں دس عقلوں کے فرضیہ یا ”بطلمیوس“ کے نظریہ سے متاثر ہوگئے تھے) ان نظریات کو شرح نہج البلاغہ میں لے آئے اور انھیں کے اوپر مذکورہ خطبہ کو تطبیق دینے کی کوشش کی، حالانکہ اس بات پر مُصر رہنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی، چونکہ یہ دونوں نظریے فقط مفروضے ہی تو تھے، جن کا باطل ہونا دور حاضر میں ثابت ہوچکا ہے ۔

عصر حاضر کے علمی مشاہدات اور علم نجوم کے ماہرین کے تجربات نے واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ فلک کے جو معنی بطلمیوس گمان کرتا تھا اُس معنی میں کوئی فلک موجود نہیں ہے اور ساکن یا متحرک ستارے، جن کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو قدیم علماء سمجھتے تھے، خلاء میں (سیّارے زمین کے نہیں بلکہ سورج کے گرد اور ساکن ستارے دوسرے محور پر) گردش کرتے ہیں جبکہ زمین یہ ہی نہیں کہ وہ کائنات کا محور نہیں ہے بلکہ منظومہ شمسی کے سیّاروں میںسے ایک چھوٹا سا سیّارہ ہے جو خود اپنے حساب سے ایک چھوٹا منظومہ ہوتے ہوئے بھی کائنات کے کروڑوں اور اربوں منظوموں سے بڑا منظومہ ہے ۔

جبکہ عقول عشرہ (دس عقلوں) کا نظریہ رکھنے والے حضرات نے اگرچہ اپنے اس نظریہ کا ایک ستون ”بطلمیوس“ کے علم نجوم سے حاصل کیا ہے (جس کا باطل ہونا آج کے دور میں ثابت ہوچکا ہے) اور دوسرے ستون کو بعض عقلی قواعد ”اَلْوَاحِدُ لایَصْدُرُ مِنہُ الّا الْوَاحِد“ کی بنیاد پر رکھا ہے کہ یہاں پر اس قاعدہ کی وضاحت کرنے کا موقع نہیں ہے ۔

بہرحال بہت سے دانشمندوں کے نظریہ کے لحاظ سے چونکہ مذکورہ قاعدہ پر بقدر کافی دلیل نہیں ہے لہٰذا اس مفروضہ کا دوسرا ستون بھی غیر معتبر اور بے اثر ہوجائے گا (دقّت فرمائیں) ۔

۴۔ سات آسمان سے کیا مراد ہے؟

فقط مورد بحث خطبہ یا دیگر خطبوں (جیسے خطبہ نمبر۲۱۱) میں ہی نہیں بلکہ قرآن مجید میں بھی ”سماوات سبع“ یعنی سات آسمانوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے ۔(۲)

قدیم اور جدید دونوں دانشمندوں کے درمیان ، سات آسمانوں کے بارےں میں طرح طرح کی تفسیریں نظر آتی ہیں، اُن سب تفسیروں کو یہاں پر بیان کرنے کا موقع ومحل نہیں ہے، ان میں سے یہ تفسیر زیادہ صحیح نظر آتی ہے کہ سات آسمان سے مراد وہی واقعاً سات آسمان ہیں؛ آسمان کا مطلب عالَم بالا کے کواکب اور ستاروں کا ایک مجموعہ اور سات کے عدد سے مراد وہی سات کا مشہور عدد ہے، کثرت کا عدد یا زیادہ کے معنی میں نہیں ہے، البتہ قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سب چیزیں جنھیں ہم ساکن اور متحرک ستاروں اور کہکشاں کی صورت میں دیکھتے ہیں وہ سب، پہلے آسمان کے مجموعہ سے مربوط ہیں ۔

                                                       

۱۔ مرحوم ”خواجہ نصیر الدین طوسی“ نے ”تجرید الاعتقاد“ نامی کتاب میں ”عقول عشرہ“ پر مشتمل مفروضہ کے دلائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اور انھیں غلط شمار کیا ہے، وہ مختصر لفظوں میں کہتے ہیں: ”وَاَدِلَّةُ وُجُودِہِ مَدخُولة“ مزید وضاحت کے لئے، خواجہ کے کلام اور اس کی شرح کو ملاحظہ فرمائیں جو علامہ حلّیۺ نے کی ہے ۔

۲۔ غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں میں ”سماوات السبع“ سات آسمانوں کی طرف اشارہ ہوا ہے (بقرہ، آیت۲۹؛ اسراء۴۴؛ مومنون۸۶؛ فصلت۱۲؛ طلاق۱۲؛ ملک۳، اور سورہٴ نوح آیت۱۵) بعض دوسری آیتوں میں بھی دیگر الفاظ میں اشارہ ہوا ہے ۔

اس بناپر اس عظیم مجموعہ کے علاوہ مزید چھ مجموعے اور بھی ہیں جو چھ آسمانوں کو وجود دیتے ہیں، جو بشر کی علمی دسترسی سے باہر رہے ہیں ۔

سورہٴ صافات کی چھٹی آیت اس مطلب پر گواہ ہے: <إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِینَةٍ الْکَوَاکِب> ”ہم نے نچلے (یا نزدیک) آسمان کو ستاروں سے مزین کیا ہے“۔

یہی معنی سورہ فصلت کی بارہویں آیت میں آئے ہیں : <وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ>”ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں کے چراغوں سے سجایا ہے“۔

جبکہ سورہٴ ملک کی پانچویں آیت میں بھی ہم پڑھتے ہیں: <وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ >غور طلب بات یہ ہے کہ بحارالانوار میں ”علامہ مجلسی“ نے بھی اس تفسیر کو ایک احتمال کے عنوان سے جو اُن کے ذہن میں خطور کیا یا اس وقت کی زبان میں کہا جائے کہ جو انھوں نے آیات اور احادیث کی روشنی میں سمجھا ہے، بیان کیا ہے ۔(۱)

صحیح ہے کہ آج کے زمانے کے آلات اور وسائل نے ابھی تک اُن چھ عالَم کا پردہ فاش نہیں کیا ہے، لیکن اُن کے افکار پر بھی حقیقت میں موجودہ علوم کے لحاظ سے کوئی دلیل نہیں ہے، شاید آئندہ زمانے میں اس معمّا کا راز کشف ہوجائے، البتہ علم نجوم کے بعض ماہرین کے انکشافات سے اس طرح کا پتہ چلتا ہے کہ دوسرے عالَم کے موجود ہونے کے بارے میں کچھ سائے سے دور سے نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر فضائی تحقیقات کے بعض رسالوں میں مشہور رصدخانہ ”پالومر“ کے قول کے مطابق اس طرح بیان ہوا ہے: ”پالومر“ رصدخانہ کی ٹیلسکوپ کے ذریعہ کروڑوں کی تعداد میں جدید کہکشاوٴں کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے بعض کہکشاں، ہم سے ایک ارب سال نوری کے فاصلہ پر واقع ہیں ۔

لیکن ایک ارب نورس سال کے فاصلہ کے بعد ایک عظیم ، ہولناک اور تاریک خلاء نظر آتا ہے جس کے اندر کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی، لیکن بلاشبہ اُس خوفناک اور تاریک خلاء میں کروڑوں کہکشاں موجود ہیں اور ان ہی کی جاذبہ قوت سے، نیچے کی اُن کہکشاوٴں کی حفاظت کی جاتی ہے جو ہماری سمت میں واقع ہیں، یہ پوری عظیم دنیا جو ہمیں نظر آتی ہے اور اس میں کھربوں کہکشائیں موجود ہیں، اس عظیم کائنات کے ایک بے مقدار ذرِّے کے سوا کچھ نہیں ہے البتہ ابھی ہم مطمئن نہیں کہ اس دوسری دنیا کے پیچھے بھی کوئی اور دنیا نہ ہو۔(۲)

لہٰذا اس بنا پر جو عالَم ابھی تک بشر کے لئے کشف ہوئے ہیں، اپنی تمام حیرت انگیز اور چکاچوند کرنے والی عظمتوں کے باوجود، اس عظیم اور بڑے عالَم کا ایک چھوٹا سا گوشہ ہیں، کوئی عجب نہیں کہ مستقبل میں شاید دوسرے چھ عالَم بھی انسان کے لئے واضح ہوجائیں ۔

 ۱۔ بحارالانوار: ج۵۵، ص۷۸․

۲۔ مجلہ فضا (نامی رسالہ): نمبر ۵۶، فروردین سن ۱۳۵۱ ھ ش․

۵۔ امام علیہ السلام کو ان چیزوں کا کیسے پتہ چلا

قابل توجہ بات یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے مذکورہ خطبہ میں جو عبارتیں استعمال کی ہیں وہ ہرگز ایک مفروضہ یا احتمال کی صورت میں نہیں ہیں بلکہ مکمل یقین واعتماد کے ساتھ اس طرح گفتگو کی ہے کہ گویا آپ حاضر وناظر تھے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے علم کو الله کے غیبی خزانہ یا پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیمات (جوسرچشمہ وحی سے لی گئی ہے) سے حاصل کیا تھا اور ”ابن ابی الحدید“ کے قول کے مطابق یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے پاس ہر علم موجود تھا اور یہ بات آپ(علیه السلام) کے فضائل ومناقب سے بعید بھی نہیں ہے ۔(۱)

ایسا کیوں نہ ہو حالانکہ دوسری جگہ پر بذات خود ارشاد فرماتے ہیں: ”اٴَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ اٴَعْلَمُ مِنِّیْ بِطُرُقِ الْاٴَرْض؛ میں آسمانوں کی راہوں کو زمین کے راستوں سے زیادہ جانتا ہوں“۔(۲)

                                                       

۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱، ص۸۰․

۲۔ نہج البلاغہ: خطبہ۱۸۹․

آٹھواں حصّہ

ثُمَّ فَتَقَ مَابَیْنَ السَّمَوَاتِ الْعُلَا فَمَلَاٴَھُنَّ اٴَطْوَاراً مِنْ مَلَائِکَتِہِ، مِنْھُمْ سُجُود لَا یَرْکَعُونَ، وَرُکُوع لَایَنْتَصِبُونَ، وَصَافُّونَ لَایَتَزَایَلُونَ، وَمُسَبِّحُونَ لَایَسْاٴَمُونَ، لَایَغْشَاھُمْ نَومُ الْعُیُونِ، وَلَاسَھْوُ الْعُقُولِ، وَلَافَتْرَةُ الْاٴَبْدَانِ، وَلَاغَفْلَةُ النِّسْیَانِ، وَمِنْھُمْ اُمَنَاءُ عَلیٰ وَحْیِہِ، وَاٴَلْسِنَةِ اِلیٰ رُسُلِہِ، وَمُخْتَلِفُونَ بَقَضَائِہِ وَاٴَمْرِہِ، وَمِنْھُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِہِ وَالسَّدَنَةُ لِاٴَبْوَابِ جِنَانِہِ، وَمِنْھُمُ الْثَّابِتَةُ فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلیٰ اٴَقْدَامُھُمْ، وَالْمَارِقَةُ مِنَ السَّمَاءِ الْعُلْیَا اَعْنَاقُھُمْ، وَالْخَارِجَةُ مِنَ الْاَقْطَارِ اَرْکَانُھُمْ، وَالْمُنَاسِبَةُ لِقَوائِمِ الْعَرْشِ اَکْتَافُھُمْ نَاکِسَة دُونَہُ اٴَبْصَارُھُمْ مُتَلَفَّعُونَ تَحْتَہِ بِاَجْنِحَتِھِمْ، مَضْرُوبَة بَیْنَھُمْ وَبَینَ مَن دُونَھُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ وَاَسْتَارُ الْقُدْرَةِ، لَایَتَوَھَّمُونَ رَبَّھُمْ بِالتَّصْوِیرِ، وَلَایُجْرُونَ عَلَیہِ صِفَاتِ الْمَصْنُوعِینَ، وَلَایَحُدُّونَہُ بِالْاَمَاکِنِ، وَلَایُشِیْرُونَ اِلَیْہِ بِالنَّظَائِرِ․

ترجمہ

 پھر اس نے بلندترین آسمانوں کو شگافتہ کیا اور انھیں طرح طرح کے فرشتوں سے بھردیا، ان میں سے بعض فرشتے ہمیشہ سجدے میں رہتے ہیں، رکوع نہیں کرتے اور بعض رکوع میں ہیں، قیام نہیں کرتے، بعض صف باندھے کھڑے ہیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے، ہمیشہ تسبیح الٰہی کرتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے نہیں ۔

ان کی آنکھوں پر کبھی بھی نیند غالب نہیں آتی اور عقلوں پر سہو ونسیان طاری نہیں ہوتا، نہ اُن کے بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ نسیان کی غفلت کا شکار ہوتے ہیں ۔

ان میں بعض فرشتے وحی کے امین اور پیغمبروں کی طرف اس کی زبان ہیں، ہمیشہ اس کے حکم اور فرمان کو پہنچانے کے لئے رفت وآمد میں مصروف رہتے ہیں، ان میں سے بعض فرشتے اس کے بندوں کے محافظ اور اس کی بہشت کے دربان ہیں، اُن میں سے بعض وہ ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے باہر نکلی ہوئی ہیں، ان کے اعضاء بدن، اقطار عالَم سے باہر نکلے ہوئے ہیں، ان کے شانے عرش الٰہی کے ستونوں کو اٹھانے کے لئے آمادہ ہیں، وہ عرش الٰہی کے سامنے نگاہیں جھکائے ہوئے اور اس کے نیچے اپنے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں، ان کے اور اس مخلوق کے درمیان، جن کا مرتبہ ان سے کمتر ہے، عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں (وہ معرفت الٰہی میں اس قدر غرق ہیں کہ) اپنے ذہن میں اپنے پروردگار کے شکل وشمائل کا بھی تصور نہیں کرتے، اس کے حق میں مخلوق کی صفات کے قائل نہیں ہوتے، اس کو کبھی بھی کسی جگہ میں محدود نہیں کرتے اور اشباہ ونظائر سے اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں ۔

شرح اور تفسیر

عالَم ملائکہ میں

اس خطبہ میں گذشتہ حصّوں کے آسمانوں اور کائنات کی تخلیق کے سلسلہ میں بحث وگفتگو کے بعد امام علیہ السلام خطبہ کے اس حصّہ میں آسمانی موجودات اور عالَم بالا کے فرشتوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور مختصر وگویا عبارتوں میں فرشتوں کی اقسام، ان کی صفات، خصوصیات اور ان کے اعمال کے بارے میں بات کرتے ہیں، نیز ان کے وجود کی بناوٹ اور اُن کی معرفت کے بلند درجات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں، حقیقت میں خطبہ کا یہ حصّہ، مختلف زاویوں سے فرشتوں کی پہچان کرانے سے مربوط ہے، جس میں حضرت(علیه السلام) ارشاد فرماتے ہیں: پھر خداوندعالَم نے بلندترین آسمان کو شگافتہ کیا (ثُمَّ فَتَقَ مَابَیْنَ السَّمَوَاتِ الْعُلَا) ۔(۱)

اس عبارت سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ آسمانوں کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں، جو شروع میں ایک دوسرے جُڑے ہوئے تھے پھر بعد میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور یہ بات ”بطلمیوس“ کے علم نجوم کے بالکل برخلاف ہے جس میں بیان ہوا تھا کہ آسمان پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر قائم ہیں اور ان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے ۔

اس کے بعد امام علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: ”خداوندعالَم نے ان فاصلوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھردیا ہے“ (فَمَلَاٴَھُنَّ اٴَطْوَارا (۲) مِنْ مَلَائِکَتِہِ) ۔(۳)

                                                       

 ۱۔ ”العلاء“ اعلیٰ کی موٴنث ”علیا“ کی جمع ہے جس کے معنی بلند اور اشرف کے ہوتے ہیں ۔

۲۔ ”اطوار“، ”طَوْر“ (بروزن قول) کی جمع ہے جس کے معنی صنف اور حد وحالت کے بھی آئے ہیں ۔

۳۔ صحیح ہے کہ عبارت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ”ھُنَّ“ کی ضمیر آسمانوں کی جانب پلٹی ہے، لیکن ”ثم فتق“ اور ”ملاٴھُنَّ“ میں فاء تفریع کے قرینہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد آسمانوں کے درمیانی فاصلے ہیں ۔

”خطبہ اشباح“ (خطبہ ۹۱) میں بھی ہم پڑھتے ہیں: ”وَمَلَاٴَ بِھِمْ فُرُجَ فِجَاجِھا وَحَشَابھم فُتُوقَ اٴَجوائِھَا؛ان (فرشتوں) کے ذریعہ آسمانوں کے تمام فاصلوں کو بھردیا اور خلاء کے فاصلوں کو اُن سے مالامال کردیا“۔

اسی خطبہ کے دوسرے جملہ میں ہم پڑھتے ہیں: ”ولیس فی اٴطباق السماء موضِعُ اِھَاب اِلَّا وَعَلیہِ مَلَک ساجِد اوساعٍ حافد؛تمام آسمانوں میں ایک چوپائے کی کھال کے برابر بھی جگہ نہیں ملے گی مگر یہ کہ اس میں کوئی فرشتہ سجدے میں سر رکھے ہوئے ہے، یا تیزی سے کسی کام کی جستجو میں مصروف ہے“۔

پھر حضرت(علیه السلام) نے انواع واقسام یا دوسرے لفظوں میں فرشتوں کے طور طریقوں کو بیان کیا اور انھیں چار گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے:

پہلی قسم کے فرشتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو عبادت میں مصروف ہیں، انھیں بھی چند گروہوں میں تقسیم فرماتے ہیں: ”ایک گروہ کے فرشتے ہمیشہ سجدہ کی حالت میں رہتے ہیں، رکوع نہیں کرتے“ (مِنْھُمْ سُجُود(۱) لَا یَرْکَعُونَ) ۔

”ایک گروہ ہمیشہ رکوع میں رہتا ہے قیام نہیں کرتا“ (وَرُکُوع لَایَنْتَصِبُونَ) ۔

”جبکہ ایک گروہ ہمیشہ قیام کی حالت میں ہے اور اس حالت سے ہرگز جدا نہیں ہوتا“ (وَصَافُّونَ(۲) لَایَتَزَایَلُونَ) ۔

بعض علماء نے یہاں پر لفظ ”صافّون“ کو عبادت کے لئے صف باندھنے کے معنی میں لیا ہے اور بعض دوسرے علماء نے آسمان میں بال وپر پھیلانے کے معنی میں لیا ہے البتہ قرآن کی اس عبارت کو قرینہ بناتے ہوئے جو پرندوں کے بارے میں آئی ہے جس میں خداوندعالَم ارشاد فرماتا ہے: <اٴَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صَافَّاتٍ> (کیا انھوں نے اپنے سروں کے اوپر اُن پرندوں کو نہیں دیکھا جو پر پھیلائے ہوئے ہیں)(۳)

                                                        

 ۱۔ ”سجود“ ”ساجد“(سجدہ کرنے والا) کی جمع ہے  جیسا کہ ”رکوع“ ”راکع“ (رکوع کرنے والے) کی جمع ہے ۔

۲۔ ”صافّون“ ”صافّ“ (بروزن حادّ) کی جمع اور ”صف“ سے مشتق ہے، اس کے معنی مساوات کے ہوتے ہیں، اصل میں اسے ”صَفَف“ سے لیا گیا ہے جو صاف زمین کے معنی میں ہے ۔

۳۔ سورہٴ ملک: آیت۱۹․

یہ بھی امکان پایا جاتا ہے کہ اس سے منظم صفوں میں کھڑے ہوکر فرمان کی اطاعت اور احکام کی بجاآوری کے لئے تیار ہونا مراد ہو۔

لیکن پہلا احتمال بہرحال پہلے اور بعد کے جملوں کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے، حقیقت میں جیسے ہماری عبادتوں میں عمدہ طور پر تین حالت ہوتی ہیں، قیام، رکوع اور سجود، اُن میں سے بھی ہر گروہ انہی تین عبادتوں میں سے کسی ایک عبادت میں غرق رہتا ہے ۔

”صافّون“ کا لفظ یا فرشتوں کی منظم صفوں کی طرف اشارہ ہے، یا ان میں سے ہر ایک کے منظم قیام کی طرف، صحیح وہی ہے جو متقین کے بارے میں دیئے گئے خطبہ ”ہمام“ میں آیا ہے، حضرت(علیه السلام) فرماتے ہیں: ”راتوں کو قیام کی حالت میں رہتے ہیں، اپنے پیروں کو ایک دوسرے ملائے ہوئے ہیں اور تلاوت قرآن میںمصروف رہتے ہیں“ (وَاٴَمّا اللَّیل فَصَافّون اٴَقْدَامَھُمْ تالینَ لِاَجْزَاء القُرآنِ) ۔(۱)

                                                        

 ۱۔ نہج البلاغہ: خطبہ۱۹۳․

”دوسرے گروہ کے فرشتے جو ہمیشہ تسبیح الٰہی میں مصروف ہیںاور ہرگز خستہ حال نہیں ہوتے ہیں“ (وَمُسَبِّحُونَ لَایَسْاٴَمُونَ) ۔

اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک علیحدہ گروہ ہے جو اُن تین گروہوں سے بالکل جدا ہے جو سجدے، رکوع اور قیام کی حالت میں رہتے ہیں (اگرچہ نہج البلاغہ کے بعض شارحین نے یہ بھی امکان دیا ہے کہ تسبیح الٰہی کرنے والے فرشتے بھی، وہی مذکورہ گروہ ہیں اور بعض حدیثوں سے بھی ان کے اس امکان کی تائید کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم سے سوال کیا گیا کہ فرشتوں کی نماز کیسی ہے؟ آنحضرت نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور حضور اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم سے عرض کیا: ”اِنَّ اٴَھْلَ السَّمَاءِ الدُّنْیَا سُجُودٌ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ یَقُولُونُ سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوتِ وَاٴَھْلُ السَّمَاءِ الثَّانِیَةِ رُکُوعٌ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ یَقُولُونَ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّةِ وَالْجَبَرُوتِ وَاٴَھْلُ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ قِیَامٌ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ یَقُولُونُ سُبْحَانَ الْحَیِّ الَّذِی لَایَمُوت؛پہلے آسمان والے قیامت تک سجدے میں ہیں اور ہمیشہ کہتے ہیں کہ پاک ومنزہ ہے وہ ذات جو ملک وملکوت کی مالک ہے، دوسرے آسمان والے قیامت تک ہمیشہ رکوع میں رہیں گے جو کہتے ہیں کہ پاک ومنزہ ہے وہ الله جو صاحب عزّت وجبروت ہے اور تیسرے آسمان والے قیامت تک ہمیشہ قیام کی حالت میں ہیں اور کہتے ہیں پاک ومنزہ ہے وہ پروردگار جو ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی بھی نہیں مرے گا“) ۔(۱)

اب رہا یہ سوال کہ کیا ان کے سجود، رکوع اور قیام سے مراد وہی ہمارے جیسے سجود، رکوع اور قیام کے طرز کے اعمال ہیں یا یہ فرشتوں کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے اُن کی عبادت اور خضوع کے مراحل کی طرف اشارہ ہے، بہرحال کہا جاسکتا ہے کہ اگر فرشتوں کو صاحب جسم (جسم لطیف) سمجھیں کہ اُن کے بھی ہاتھ، پیر، چہرہ اور پیشانی ہوتی ہے تو پہلے معنی زیادہ مناسب رہیں گے اور ان کے لئے جسم کے قائل نہ ہوں یا جسم کے قائل ہوں لیکن ہماری طرز کا جسم نہیں، تب دوسرے معنی زیادہ مناسب رہیں گے ۔ (بہرحال جب نکات اور گوشوں کے بارے میں گفتگو کی جائے تو اُسی وقت اس سلسلہ میں بھی گفتگو کریں گے) ۔

                                                       

 ۱۔ بحارالانوار: ج۵۹، ص۱۹۸․

بہرحال اس مجموعہ کا کام ہمیشہ خداوندعالَم کی عبادت، تسبیح وتقدیس کرنا ہے، گویا اس کے علاوہ انھیں کوئی کام نہیں ہے وہ فقط عبادت سے عشق کرتے ہیں، حقیقت میں یہ فرشتے، پروردگار عالَم کی عظمت، بلند مرتبہ اور اس بات کی نشانیاں ہیں کہ مالک کائنات خالق اکبر کو عابدوں اور زاہدوں کی عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے دوسرے لفظوں میں ان فرشتوں کی تخلیق کا فلسفہ اور مقصد ممکن ہے یہی ہو کہ انسان اپنی عبادت پر مغرور نہ ہوسکے اور جان لے کہ بافرض محال اگر خلّاق کون ومکان کو عبادت کی ضرورت ہوتی تو عالَم بالا کے ملائکہ ہر جگہ اس کی عبادت میں مصروف ہیں تاکہ کرہٴ زمین پر بسنے والے تصور نہ کریں کہ اس کی کبریائی میں ان کے عبادت کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اثر ہوتا ہے اور اگر سب لوگ کافر بھی ہوجائیں تو بھی اس کے دامن کبریائی پر کسی طرح کی گرد تک نہیں بیٹھے گی: <اِن تَکْفُرُو فَاِنَّ اللهَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ>(۱) ۔

اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام فرشتوں کے اس مجموعہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نہ نیند اُن کی آنکھوں کو بند کرتی ہے، نہ عقل انھیں سہو ونسیان میں گرفتار کرتی ہے، نہ ان کے بدن میں سسی پیدا ہوتی ہے اور نہ نسیاں کی غفلت کا ان کے اوپر غلبہ ہوتا ہے“ (لَایَغْشَاھُمْ نَومُ الْعُیُونِ، وَلَاسَھْوُ الْعُقُولِ، وَلَافَتْرَةُ الْاٴَبْدَانِ، وَلَاغَفْلَةُ النِّسْیَانِ) ۔

ان کے برخلاف اگر انسان عبادت کا کوئی ایک عمل باربار انجام دے تو آہستہ آہستہ مذکورہ مشکلات میں گرفتار ہوجائے گا، آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیںگی، بدن میں سستی پیدا ہوجائے گی اور سہو نسیان کا غلبہ ہوجائے گا لیکن عبادت کرنے والے ملائکہ ان مشکلات میں ہرگز مبتلا نہیں ہوتے ۔

وہ اس قدر عبادت کے عاشق اور مناجات وتسبیح میں غرق ہوتے ہیں کہ پھر انھیں ہرگز نیند،غفلت اور سستی نہیں ہوتی ۔

دوسرے لفظوں میں اس مہم وظیفہ کی انجام دہی میں، جن چیزوں کی وجہ سے کوتاہی پیدا ہوتی ہے اُن میں سے کوئی چیز بھی ان فرشتوں کے اندر نہیں پائی جاتی ہے، بہرحال اس کوتاہی اور تقصیر کا سبب کبھی تھکن ہوتی ہے، کبھی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ، کبھی عقلوں کی بھول چوک، کبھی بدن کی سستی اور کبھی غفلت ونسیان اور چونکہ ان میں سے کوئی بات بھی اُن کے اندر نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا اپنے پروردگار کی عبادت میں وہ کبھی بھی سستی نہیں کرتے ۔

                                                        

 ۱۔ سورہٴ زمر: آیت۷․

پھر حضرت(علیه السلام)، فرشتوں کے دوسرے گروہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اُن میں سے بعض وحی الٰہی کے امین اور پیغمبروں کی طرف اس کی گویا زبان ہیں جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیں“ (وَمِنْھُمْ اُمَنَاءُ عَلیٰ وَحْیِہِ، وَاٴَلْسِنَةِ اِلیٰ رُسُلِہِ، وَمُخْتَلِفُونَ بَقَضَائِہِ وَاٴَمْرِہِ) ۔

اصل میں یہی ملائکہ، پروردگار عالَم اور اس کے رسولوں کے درمیان، واسطہ اور اس کی وحی کے ترجمان ہیں ۔

اس عبارت سے استفادہ ہوتا ہے کہ فقط جبرئیل ہی وحی الٰہی کے سفیر ہیں بلکہ حقیقت میں وہ الٰہی سفیروں کے سردار ہیں ۔

قرآن کریم میں بھی فرشتوں کے اس مجموعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے ، کبھی ارشاد ہوتا ہے: <قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ>۔”کہدو اس (قرآن) کو بیشک پروردگار کی جانب سے روح القدس نے نازل کیا ہے“۔(۱)

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: <قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلیٰ قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللهِ>”اے میرے حبیب کہدیجئے جو جبرئیل کا دشمن ہوگا (حقیقت میں وہ خدا کا دشمن ہے) چونکہ اُس نے الله کے حکم سے قرآن کو آپ کے قلب پر اُتارا ہے“۔(۲)

کبھی فرشتوں کے حاملان وحی گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: <یُنَزِّلُ الْمَلَائِکَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اٴَمْرِہِ عَلیٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ >”خداوندعالم فرشتوں کو ارواح الٰہی کے ساتھ اپنے حکم سے، اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے نازل کردیتا ہے“۔(۳)

اسلامی احادیث وروایات اور ”نہج البلاغہ“ کے بعض دوسرے خطبوں میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

توجہ رکھنا چاہئے کہ محل بحث وگفتگو جملوں میں، فیصلہ اور امر الٰہی سے مراد وہی فرامین اور دینی وشرعی احکام ہیں، تکوینی فیصلہ اور حکم نہیں جو ”نہج البلاغہ“ کے بعض شارحین نے احتمال دیا ہے چونکہ یہ بات پہلے مذکورہ جملوں (کہ جن میں وحی الٰہی کے امین ہونے کی بات آئی ہے) سے مناسب اور ہماہنگ نہیں ہے جبکہ لفظ ”مختلِفُونَ“  جس کا مصدر ”اختلاف“ ہے یہاں پر رفت وآمد کے معنی میں ہے ۔

                                                        

 ۱۔ سورہٴ نحل: آیت۱۰۲․

۲۔ سورہٴ بقرہ:آیت۹۷․

۳۔ سورہٴ نحل: آیت۲․

اس کے بعد امیر بیان(علیه السلام)، فرشتوں کے تیسرے گروہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ان میں سے ایک گروہ کے فرشتے، اس کے بندوں کے محافظ اور اس کی بہشت کے دربان ہیں“ (وَمِنْھُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِہِ وَالسَّدَنَةُ(۱) لِاٴَبْوَابِ جِنَانِہِ) ۔

”حفظة“ ، ”حافظ“ کی جمع ہے اور حفاظت کرنے والوں کے معنی میں ہے، اس مقام پر اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں: ایک، بندوں کے وہ محافظ جو اُن کے اعمال پر نگراں ہیں اور ان کے اعمال لکھتے ہیں جس کی طرف سورہٴ طارق کی چوتھی آیت میں اشارہ ہوا ہے: <إِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَیْھَا حَافِظٌ>”ہر شخص کے اوپر ایک محافظ رکھا گیا ہے“۔ اسی طرح سورہٴ انفطار کی دس اور گیارہویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں: <وَاِنَّ عَلَیکُمْ لَحَافِظِینَ، کِرَاماً کَاتِبِینَ>”تمھارے اوپر محافظ رکھے گئے ہیں، ایسے شریف نگراں جو ہمیشہ تمھارے اعمال لکھتے رہتے ہیں“۔

دوسرے، فرشتوں کا وہ گروہ جو بندوں کا محافظ ہے اور انھیں آفتوں، بلاوٴں اور مختلف حادثوں سے بچاتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوں تو انسان ہمیشہ نابودی کے دہانے پر رہتا ہے، جیسا کہ سورہٴ رعد کی گیارہویں آیت میں آیا ہے پروردگار عالَم ارشاد فرماتا ہے: <لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ > ”انسان کے لئے کچھ محافظ بنائے گئے ہیں جو انھیں پے درپے آگے اور پیچھے سے الٰہی (غیر حتمی) حادثوں سے بچاتے ہیں“۔

                                                        

 ۱۔ ”سَدَنہ“، ”سادن“ کی جمع ہے، خدمتگار اور دربان کے معنی میں ہے ۔