اس کتاب کوتالیف کرنے کا اصلی ہدف
معارف اسلامی کا بہت بڑا خزانہ
انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین اورعالی ترین درس
خود سازی اور تہذیب نفس کا بہترین سرمایہ
پاک و پاکیزہ ، صحیح و سالم اور سربلند معاشرہ بنانے کے لئے بہترین اورموثرترین لائحہ عمل
یہ سب ایسے عنوان ہیں جن کو نہج البلاغہ کے لئے انتخاب کیا جاسکتا ہے ۔
اس بزرگ اور بے نظیر کتاب کے متعلق صرف وہی لوگ کچھ کہہ سکتے ہیں جنہوں نے کم سے کم شروع سے لے کر آخر تک ایک مرتبہ غور وفکر کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا ہو ، اس وقت معلوم ہوگا کہ اس گرانبہا مجموعہ کے متعلق جو کچھ بھی کہا جائے وہ کم ہے ۔
نہج البلاغہ سے عقیدت رکھنے والے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی اس کے بعض حصوں کا مختلف ضرورتوں کے تحت مطالعہ کیا تھا ، یہاں تک کہ پندرہ خردادکو بہت سے بزرگ متفکرین کے ساتھ مجھے قید خانہ میںڈال دیاگیا، شروع میں تو شاہ کے کارندوں نے ہم پر بہت سختی کی اور ہمارے لئے ہر چیز ممنوع قرار دے رکھی تھی ، لیکن بعد میں آہستہ آہستہ عمومی افکار کی وجہ سے ہماری محدودیت کو کم کردیا گیا اور اس وقت ہم نے اپنے دوستوں سے خواہش کی کہ وہ ہمیں زندان میں مطالعہ کے لئے کچھ کتابیں لاکر دیدیں، میں نے نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا اور اس وقت فراغ البالی میںمیں نے بہت ہی منظم اور مرتب طریقہ سے اس کا غور وفکر سے مطالعہ کیا ،خصوصا نہج البلاغہ کے دوسرے حصہ (خطوط اور سیاسی و اخلاقی فرامین)کا کامل اور دقیق مطالعہ کرنے کی الہی توفیق مجھے حاصل ہوگئی ۔ اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ نہج البلاغہ اس سے بھی بڑی اور بلند و بالا کتاب ہے جس کو ہم سوچتے ہیں اور اس کے متعلق غورو فکر کرتے ہیں ۔
میں نے اپنے آپ کو علم و دانش کے دریا کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کا انسان کی زندگی کے تمام معنوی اور مادی اہم ابعاد سے سروکار ہے ۔ یہ ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے جو اپنے موتیوں کو اپنی امواج کے ساتھ ساحل پر پہنچا دیتا ہے اور ساحل پر بیٹھنے والے اپنے آپ کومختلف معنوی اورمادی عطیوں میںغرق کرلیتے ہیں ،لیکن سعی و کوشش کرنے والے غوطہ وروں کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ۔
میں اس وقت سمجھا کہ وہ لوگ کس قدر محروم ہیں جوایسے گران بہا خزانہ سے بے خبر ہیں اور دوسرے لوگوں کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہیں، اور جو چیز خود ان کے باس ہے اس کو دوسروں سے مانگتے ہیں!
نہج البلاغہ کے عجیب ترین امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی مآخذ قرآن مجید کی طرح فکری، سیاسی اور اخلاقی نظریات کے فرسودہ اور قدیم ہونے کے باوجود اس کے بیانات، تحلیل اور اس کی منطق تازی اور جدید ہے ، گویا کہ آج ہی اور آج کل ہی کے لئے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے زبان سے صادر ہوئے ہیں ۔
حقیقت پسند،معرفت خدا کو تلاش کرنے والے اور بہترین راہ و رسم کو حاصل کرنے والوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ روانہ عالم بزرگ سید رضی (نہج البلاغہ کوجمع کرنے والے)کی قبر کے پاس حاضر ہوں اور ان کے سامنے سر تعظیم خم کریں ، ان کی روح پر صلوات بھیجیں کہ انہوں نے مولی علی (علیہ السلام) کے ایسے گران بہا اور بے نظیر و بے بدیل کلمات کو ایک جگہ جمع کردیا ہے اوراس کو ہم مسلمانوں بلکہ انسانی معاشرہ کے حوالہ کردیا ہے ۔
نہج البلاغہ کے سلسلہ میں جو کچھ بھی کہا جائے وہ کم ہے اور یقینا اس کا حق ادا کرنا ہمارے لئے غیر ممکن ہے ، بہتر یہ ہے کہ اس بات کو چھوڑتے ہوئے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا جائے جو ان سطروں کو لکھنے کا اصلی ہدف ہے اور وہ یہ ہے :
پوری تاریخ اسلام میں نہج البلاغہ کی متعدد شرحیں لکھی گئیں،اور ہمارے علماء نے چاہے گذشتہ زمانہ میں اور چاہے ہمارے زمانہ میں ، اس خزانہ کی تفسیر اور وضاحت کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ہیں ۔اور بہت قیمتی خدمتیں انجام دی ہیں، لیکن انصاف یہ ہے کہ نہج البلاغہ آج بھی ایسی ہی ہے جیسے اس کو ہاتھ نہ لگایا گیا ہو ، نہج البلاغہ آج بھی مظلوم ہے ، نہج البلاغہ آج بھی بہتر زیادہ سعی و کوشش کی طلب گار ہے ۔
مخصوصاہمارے زمانہ میں جو کہ انسانی معاشرہ کے پیچیدہ مشکلات ، مختلف فکری مذاہب کے ظہور، دنیا پرستوں کی طرف سے اعتقادات، اخلاق، تقوی اور فضیلت پر حملے ہونے کا زمانہ ہے ، تاکہ وہ اپنے آلودہ اور نامشروع منافع تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرسکیں، جی ہاں اس زمانہ میں نہج البلاغہ بہت زیادہ سعی و کوشش اور کام کو طلب کرتی ہے ۔ نہج البلاغہ کے ذریعہ معنوی، مادی، فردی ،اجتماعی مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے ایک تحقیقی گروہ کی ضرورت ہے اور اسی طرح فکر اور اخلاق کو ویران کرنے والے مکاتب سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اسی دلیل کی بناء پر ”تفسیر نمونہ “ اور ”پیام قرآن“ کے بعدبحمداللہ اس حقیر اور سبھی باوفا دوستوں کو جو توفیق حاصل ہوئی ہے اس میں اہل فضل کے ایک گروہ نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ اب نہج البلاغہ کی باری آگئی ہے ۔ لہذا تفسیرنمونہ جیساکام نہج البلاغہ پر بھی کیا جائے ، بلکہ گذشتہ تجربوں سے استفادہ کرتے ہوئے بہترین اور محکم کام کیا جائے ۔
اگر چہ روزانہ کی بہت سی مشکلات اس راہ میں رکاوٹ بن رہی تھیں لیکن میں نے سوچا کہ جب تک عمر باقی ہے اس کام کو شروع کیا جائے اور ان تمام مشکلات کے باوجود خداوند عالم کی توفیق اورخدا کے بندہ کامل وخالص مولائے متقیان علی (علیہ السلام) کی روح سے مدد کی خواہش کرتے ہوئے ارادہ کرلیا اور کام کی نوعیت معین کردی گئی ، تفسیر نمونہ کے بہت سے پرانے دوست اور تازہ نفس دوستوں کے ایک گروہ نے وعدہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہوگا اس میں مدد کریں گے تاکہ نہج البلاغہ پر جدید شرح اورتفسیر لکھی جائے جو روزانہ کے مسائل ، عصری تقاضوں اور فکری و اجتماعی مشکلات کو حل کرسکے ،اس کے علاوہ گذشتہ مفسرین اور شارحین کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں ایک نئی چیز پیش کی جائے ۔
یہ کام ۱۳ رجب ۱۴۱۳ ہجری کو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ولادت کے روز شروع ہوا لیکن بہت ہی آہستہ آہستہ یہ کام آگے بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سب دوستوں کی مدد کے باوجود پہلی جلد تین سال میں مکمل ہوئی ! (اور فطری سی بات ہے کہ شروع میں جلدی نہیں کرنا چاہئے) ۔
الحمدللہ اب کام تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ جلدی کی امید ہے ،لیکن نہج البلاغہ کی امواج اس قدر عظیم ہیں کہ اس بزرگ دریا میں حرکت کرنا آسان کام نہیں ہے ۔
بہرحال بہتر یہ ہے کہ اس تفسیر میں جن چیزوں کی رعایت کی گئی ہے ان کی شرح کو یہاں پر نظر انداز کیا جائے اور اس کام کو باذوق قارئین کے اوپر چھوڑ دیا جائے اور یہیں پر تمام صاحب نظر اشخاص سے خواہش کرتے ہیں کہ اگر اس میں کچھ کمی نظر آئے یا اس کی تکمیل کیلئے کچھ نکات کو مفید سمجھتے ہوں تو ان کی ہمیں یاددہانی کرادیں تاکہ اس کتاب کی تکمیل وہ بھی شامل ہوسکیں ۔
یہاں پر خداوند عالم کی بارگاہ میں دعاء کرتے ہیں کہ ہمیں اس کتاب کی تکمیل اور نہج البلاغہ کے علوم سے تمام لوگوں کو استفادہ کرنے کی توفیق عنایت فرما ۔
قم ۔ حوزہ علمیہ
ناصر مکارم شیرازی
سوم ربیع الثانی ۱۴۱۷ ہجری قمری
مطابق ۲۹ مرداد ماہ ۱۳۷۵ ہجری شمسی