بسم اللہ الرحمن الرحیم

نہج البلاغہ اورحضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں گفتگو(۱)

حضرت علی (علیہ السلام) یا آپ کی عظیم کتاب نہج ا لبلاغہ کے متعلق کچھ کہنا آسان کام نہیں ہے اور ایک لحاظ سے بہت آسان ہے !

جی ہاں ، آسان ان لوگوں کے لئے آسان نہیں ہے جو چاہتے ہیں کہ آپ کے وجود کی گہرائی کوحاصل کریں، اور تمام پہلوؤں سے آپ کی بلند فکر، قوی ایمان اور ملکات فاضلہ سے باخبر ہوں، یا آپ کی نہج البلاغہ کو اسی طرح پہچاننا چاہیں جیسی وہ کتاب ہے،یقینا یہ کام آسان نہیں ہے ،لیکن ان دونوں بیکران سمندروں کے بعض گوشوں سے آگاہی سب کے لئے آسان کام اور ممکن ہے ۔

جو بھی امام علی (علیہ السلام) ، آپ کی تاریخ زندگی، تقاریر اور آپ کے افکار سے ذرا بھی آشنائی رکھتا ہوگا وہ اچھی طرح سمجھ جائےگا کہ آپ ایک بہت ہی بلند و بالا انسان ہیں، آپ خدا کی بزرگ آیتوں میں سے ایک آیت ہیں، آپ انسان کے وجود کی کتاب کا نادر نسخہ ہیں اوریہ بھی جان لیجئے کہ ان کی کتاب نہج البلاغہ جو ان کے وجود کا ایک حصہ ہے وہ بھی ایسی ہی ہے!

۱۔  اس کتاب کو خداوند عالم کی مدد سے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی شب ولادت ۱۲ رجب ۱۴۱۳ ہجری کو آغاز کیا ۔

آپ کی نہج البلاغہ ٹھاٹیںمارتا ہوا دریا ہے ،ایک بہت بڑا سمندر ہے ، موتیوں کا خزانہ ہے، پھولوں سے بھرا ہواباغ ہے، ستاروں سے بھرا ہوا آسمان ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ سعادت کی راہ میں انسان کی تمام ضرورتوں کا ملجا و ماوی ہے ۔

بیشک جب بھی اس میدان میں قدم رکھنے کا ارادہ کرے وہ اپنے آپ کو ایک بڑی کتاب لکھنے کیلئے آمادہ کرلے ،جب کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ زیادہ معلومات کے لئے صرف مقدمہ کے عنوان سے کچھ چیزوں کی طرف اشارہ کریں، اور پھر اپنے مولا و آقا کے کلمات کی شرح کریں، جو آپ کی پہچان کرواتے ہیں اور ایسے آفتاب ہیں جو خود آفتاب کی دلیل ہیں ۔

یہاں پر ہم قارئین کی توجہ کو چند موضوعات کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور دوسرے دانشوروں کے افکار اور جو لوگ سالہا سال نہج البلاغہ اور امام علی (علیہ السلام) سے آشنا رہے ہیں، ان کے بیانات سے استفادہ کریں گے ،خصوصا غیر مسلمان اور غیرہ شیعہ افراد سے جو کہ مولا علی (علیہ السلام) کے عاشق اور ان کے کلام سے آشنا ہیں استفادہ کریں گے ، تاکہ دلوں پر زیادہ اثر کرے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے :

خوشتر آن باشد کہ حسن دلبران

گفتہ آید در زبان دیگران

ان کے کلام کی خوبیاں :

نہج البلاغہ کی تاریخ اور اس کی جوشرحیں اور تفسیر لکھی گئی ہیں ان کا مطالعہ کرتے وقت اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ بہت سے لوگ حتی کہ علماء اور دانشورں کے ایک گروہ نے نہج البلاغہ کے متعلق جوباتیں سنی ہیں وہ بہت دور سے سنی ہیں ، شاید ان کا تصور یہ تھا کہ نہج البلاغہ، معمولی یا اس سے کم تقاریر کا ایک مجموعہ ہے لیکن جب وہ اس سے نزدیک ہوئے تو انہوں نے اپنے آپ کو ایک عظیم دریا کے سامنے پایا جس کی گہرائی اور کنارے معلوم نہیں ہیں، اس وجہ سے وہ تعجب اور حیرت میں پڑ گئے اوران کلمات کے ذریعہ جن میں جذبہ، شوق اورعشق کی علامتیں پائی جاتی ہیں ، اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔

ان تمام علماء اور دانشوروں کے لئے اس تعجب ، حیرت اور شوق و عشق کا ایک سرچشمہ تھا جس کے مجموعہ تین عنوان میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:

۱۔  نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت۔

۲۔  نہج البلاغہ کے عمیق اور بہترین مطالب۔

۳۔  نہج البلاغہ کا بہترین جاذبہ

۱۔  نہج البلاغہ کی فصاحت اور بلاغت

پہلے حصہ یعنی نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت میں ادباء، خطباء اور مصنفین کے ان نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں جن کو نہج البلاغہ کی شیرین بیانی،تعبیرات کی خوبصورتی اور بلاغت کی ظرافت نے بہت زیادہ موثر کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اس کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور بیان کیا ہے :

۱۔  سب سے پہلے نہج البلاغہ کو تالیف کرنے والے سید رضی کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں جو خودج فصاحت و بلاغت کے سورما اور مرد مجاہد تھے ، گویا انہوں نے عرب کے بہت سے فصیح اور بلیغ علماء سے سبقت حاصل کی اور اپنی عمر کا ایک حصہ نہج البلاغہ کو جمع کرنے میں صرف کیا ۔

سید رضی وہی شخصیت ہیں جن کے متعلق مصر کے مشہور دانشور ڈاکٹر” زکی مبارک“نے اپنی کتاب ”عبقریةالشریف الرضی“ میں لکھا ہے : جب میں سید رضی کے اشعار کا مطالعہ کرتا ہوں اور پھر ان کی نثر کا مطالعہ کرتا ہوں تو میں ان کو ایک دوسری شخصیت پاتا ہوں ، میں دیکھتا ہوں کہ ان کی علمی تحریریں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ بہت بڑے ادیب ہیں ۔اور جب ان کی شاعری کو دیکھتا ہوں تو آپ کو بہت ہی ماہر اور باذوق طبیعت کا مالک پاتا ہوں،ان دونوں میدانوں میں بہت ہی کم کسی کو یہ مہارت حاصل ہوتی ہے ، افسوس کہ سید رضی کے تمام قلمی آثار باقی نہیں ہیں، اگر وہ سب موجود ہوتے تو اس وقت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ تمام مولفین کے درمیان بے نظیر مولف اور مصنف ہیں اور تالیف و تصنیف میں آپ کا مقام بہت بلند ہے (۱) ۔

۱۔  عبقریة الشریف الرضی ، ج ۱ ، ص ۲۰۴ ۔۲۰۹۔(خلاصہ کے ساتھ) ۔

بہر حال شریف رضی نے نہج البلاغہ کے خوبصورت مقدمہ میں لکھا ہے :  ”کان امیرالمومنین (علیہ السلام) مشروع الفصاحة و موردھا و منشا البلاغة و مولدھا و منہ ظھر مکنونھا و عنہ اخذت قوانینھا و علی امثلتہ حذا کل قائل خطیب و بکلامہ استعان کل واعظ بلیغ و مع ذلک فقد سبق و قصروا وقد تقدم و خروا“۔فصاحت و بلاغت کی چھپی ہوئی باریکیاں آپ ہی سے ظاہر ہوئیں اور آپ ہی سے اس کے اصول و قواعد سیکھے گئے اورہر خطیب و متکلم کو آپ کی مثالوں پر چلنا پڑا اورہر واعظ بلیغ نے آپ کے کلام سے خوشہ چینی کی ، پھر بھی وہ آپ کے برابر کبھی نہیں آسکے اور سبقت و تقدم کا سہرا آپ کے سر رہا ۔

اس کے بعد اس بات کی تفسیر میں مزید کہتے ہیں : ”لان کلامہ (علیہ السلام) الکلام الذی علیہ مسحة من العلم الالھی و فیہ عبقة من الکلام النبوی“۔ کیونکہ ان کے کلام میں علم خدا کی نشانیاں ہیں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام کی معطر خوشبو ہے ۔

۲۔  نہج البلاغہ کے ایک مشہور شارح کے نظریات کو نقل کرتے ہیں : انہوں نے اپنی عمر حضرت علی (علیہ السلام) کے کلمات کی تفسیر میں گذاری ہے اور ان کے کلام کی ظرافت، اور گہرائی پر ان کی گرفت ہے ، وہ نہج البلاغہ اور حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق عشق و محبت میں اپنی زبان کھولتے ہیں یعنی عزالدین عبدالحمید ابن ابی الحدید معتزلی جو کہ ساتویں صدی میں اہل سنت کے مشہور ترین دانشور ہیں (۱) ۔

۱۔  انہوں اس کتاب کو ۲۰ جلدوں میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ میں نے یہ کتاب پانچ سال سے کم میں لکھی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ میں نے یہ کتاب اتنے ہی سال میں لکھی ہے جتنے سال مولی علی (علیہ السلام) کی خلافت ظاہرہ رہی ہے ۔

انہوں نے اس سلسلہ میں نہج البلاغہ کی شرح میں بارہا کہا ہے اور نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت کے سلسلہ میں بارہا سر تعظیم خم کیا ہے ۔

انہوں نے ایک جگہ (برزخ کے متعلق ۲۲۱ ویں خطبہ کے ذیل میں) مولا علی (علیہ السلام) کے بعض کلام کی شرح کے بعد کہا ہے :

”و ینبغی لو اجتمع فصحاء العرب قاطبة فی مجلس و تلی علیھم ، ان یسجدوا لہ کما سجد الشعراء لقول عدی ابن الرقاع: قلم اصاب من الداوة مدادھا ․․․ فلما قیل لھم فی ذلک قالوا انا نعرف مواضع السجود فی الشعر کما تعرفون مواضع السجود فی القرآن “ ۔

اگر عرب کے تمام فصحاء ایک مجلس میں جمع ہوجائیں اور اس خطبہ کا یہ حصہ ان کے سامنے پڑھا جائے توان کے لئے بہتر ہے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ کریں (جیسا کہ روایت بیان ہوئی ہے) جس وقت عرب کے شعراء نے ”عدی بن الرقاع“ کے مشہور شعر کو سنا تو اس کے لئے سجدہ کیا جب ان سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم شعر میں سجدہ کی جگہ کواسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح تم قرآن مجید میں سجدہ کی جگہ کوپہچانتے ہو (۲) ۔

۲۔  شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ، ج ۱۱، ص ۱۵۳۔

دوسری جگہ جب مولی علی (علیہ السلام) کے بعض کلام کا چوتھی صدی ہجری کے مشہور خطیب ”ابن نباتہ “ کے کلام سے اجمالی مقایسہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں :

”فلیتامل اھل المعرفة بعلم الفصاحة والبیان ھذا الکلام بعین الانصاف یعلموا ان سطرا واحدا من کلام نہج البلاغة یساوی الف سطر منہ بل یزید و یربی علی ذلک“۔

علم فصاحت وبلاغت سے آشنا افراد اگر علی (علیہ السلام) کی اس گفتگو کو انصاف کی نظر سے دیکھیں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ نہج البلاغہ کی ایک سطر ، مشہور مولف ابن نباتہ کی ہزار سطروں سے زیادہ بہتر ہے بلکہ اس کے اوپر اس ایک سطر کو برتری حاصل ہے ۔

 پھر اسی سلسلہ میں انہوں نے ایک عجیب بات کہی ہے جب یہ ابن نباتہ کے جہاد کے سلسلہ میں ایک خطبہ کو نقل کرتے ہیں جس میں امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے خطبہ جہاد کے کلمات سے استفادہ کیا ہوا ہے ” ما غزی قوم فی عقر دارھم الا ذلوا“۔ کسی بھی قوم و ملت کے گھروں میں دشمنوں نے ان پر حملہ نہیں کیا مگر یہ کہ وہ ذلیل ہوگئے ۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں : اس جملہ میں غور وفکر کرو اور دیکھو کہ ابن نباتہ کے پورے خطبہ کے درمیان یہ جملہ کس طرح فریاد کررہا ہے اور اپنی فصاحت و بلاغت کو سننے والوں کے سامنے اعلان کررہا ہے کہ یہ اس خطبہ کے خزانہ کا حصہ نہیں ہے ، خدا کی قسم اسی ایک جملہ نے ابن نباتہ کے خطبہ کو ایسی زینت بخشی ہے جس طرح کسی خطبہ میں قرآن کریم کی ایک آیت پورے خطبہ پر نور افشانی کرتی ہے ۔(۳) ۔

۳۔  شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج۲، ص ۸۴۔

آخر کار ان کی بات کو ان کی کتاب کے مقدمہ میں ایک جملہ پر ختم کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : ”و امام الفصاحة فھو (علیہ السلام) امام الفصحاء و سید البلغاء و فی کلامہ قیل : دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوقین و منہ تعلم الناس الخطابة والکتابة “ ۔

ان کی فصاحت ،فصحاء اور بلغاء کی فصاحت کی سردار ہے لہذا ان کے کلام کے متعلق کہا گیا ہے : کہ یہ خالق کے کلام سے کم اور مخلوق کے کلام سے زیادہ ہے اور لوگوں نے خطابت کی راہ و رسم اسی کتاب سے سیکھی ہے (۱) ۔

۱۔  شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج۱، ص ۲۴۔

۳۔  جورج جرداق :  لبنان کے مشہور عیسائی مصنف نے اپنی قیمتی کتاب ”الامام علی صوت العدالة الانسانیة“ میں حضرت علی (علیہ السلام) کی شخصیت کے متعلق اس طرح کہا ہے :

بلاغت میں آپ کا کلام سب سے بلیغ ہے ، آپ کا کلام ، قرآن کے مقام سے کم ہے جس میں عربی زبان کی تمام خوبصورتیاں جمع ہوگئی ہیں ،یہاں تک کہ مولی علی (علیہ السلام) کے متعلق کہاہے : ان کا کلام ، خالق کے کلام سے کم اور مخلوق کے کلام سے زیادہ ہے (۲) ۔

۴۔  جاحظ جن کا شمار عرب کے بزرگ ادباء اور نوابغ میں ہوتا ہے ، انہوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”البیان والتبیین“ میں مولی علی (علیہ السلام) کے کچھ کلمات کو نقل کیا ہے اور آپ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے ،جس وقت اپنی کتاب کی پہلی جلد میں مولی کے ایک کلمات قصار(قیمة کل امرء ما یحسنہ انسان کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں ہے (۳)) پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں : اگر اس کتاب میں صرف یہی جملہ ہوتا تو کافی تھا ، بلکہ کفایت کی حد سے زیادہ کہا ہے : کیونکہ بہترین بات یہ ہے کہ آپ کو اس کی کم مقدار ، زیادہ سے بے نیاز کردے اور اس کا مفہوم ظاہر اور آشکار ہو ،گویا خداوند عالم نے اپنی عظمت و جلالت کا جامہ اور نور و حکمت کا پردہ اس کے اوپر ڈال رکھا ہے جو بولنے والے کی پاک و پاکیزہ نیت، بلندفکر اور بے نظیر تقوی سے سازگار ہے ۔

۵۔  کتاب ”الطراز “ کے مصنف (امیر یحیی علوی) نے اپنی کتاب میں جاحظ کا یہ جملہ نقل کیا ہے جس میں کہا ہے : یہ مرد جو کہ فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے ، انہوں نے اپنے بیانات میں اس طرح کہا ہے :  مولی علی (کرم اللہ وجہہ) کے کلام کے علاوہ کبھی بھی میرے کانوںنے خدا اور پیغمبر اکرم کے کلام کے بعد ایسا کلام نہیں سنا جس کا میں نے مقابلہ نہ کیا ہو لیکن مولی علی کے کلام سے مقابلہ کرنے کی مجھ میں کبھی ہمت نہیں ہوئی ۔ مولی کا ایساکلام جس میں آپ نے فرمایا : ” ما ھلک امرء عرف قدرہ“۔ جو اپنے وجود کی قیمت کو پہچان لے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوگا ۔ ” من عرف نفسہ عرف ربہ“ ۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کوپہچان لیا ۔ ” المرء عدو ما جھل“ ۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اس کا دشمن ہوتا ہے ۔  ” و استعن عمن شئت تکن نظیرہ و احسن الی من شئت تکن امیرہ و احتج الی من شئت تکن اسیرہ“۔جس سے بھی تم کچھ چاہتے ہو اس سے بے نیاز ہوجاؤ تاکہ اسی کے جیسے ہو جاؤ اور جس کے ساتھ چاہو نیکی کرو تاکہ اس کے امیر اور سردار ہوجاؤ اور جس کے چاہو اس کے محتاج ہوجاؤ تاکہ اس کے غلام اور سیر بن جاؤ !۔

اس کے بعد مزید کہتے ہیں : جاحظ اپنی اس بات میں انصاف کے ساتھ نظر کرو اوراس کی کوئی دلیل نہیں ہے مگر یہ کہ علی (علیہ السلام) کی بلاغت نے ان کے کانوں کے پردے ہلا دئیے ہیں اور اعجاز و فصاحت کی وجہ سے ان کی عقل حیران ہوگئی ہے ، جب جاحظ جیسے آدمی کا یہ حال ہے جن کو بلاغت میں ید بیضا حاصل ہے تو پھر دوسروں کی تکلیف واضح اور روشن ہے (۱) ۔

۱۔ الطراز، ج ۱، ص ۱۶۵ ۔ ۱۶۸۔

 اسی وجہ سے (کتاب الطراز کے مصنف) زیدی نے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ معانی وبیان کے بزرگ علماء جو کہ فصاحت و بلاغت کو حاصل کرنے کیلئے کلام خدا اور کلا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کے بعد شعراء عرب کے دیوان اورخطباء کے کلمات پر تکیہ کرتے تھے انہوں نے علی (علیہ السلام) کے کلام کو فراموش کردیا ،جب کہ وہ جانتے تھے کہ نہج البلاغہ فصاحت و بلاغت کی سطح سے بہت زیادہ بلند ہے اور جس چیز کی بھی ان کو ضرورت ہے وہ اس میں موجود ہے جیسے  استعارہ، تمثیل، کنایة، خوبصورت مجازاور دقیق معانی سب کچھ موجود ہے (۲) ۔

۲۔ الطراز، ج ۱، ص ۱۶۵ ۔ ۱۶۸۔

۶۔  محمد غزالی نے اپنی مشہور کتاب ”نظرات فی القرآن“ میں سازجی کی سفارش کو نقل کیا ہے اس کی عین عبارت یہ ہے : ” اذا شئت ان تفوق اقراتک فی العلم والادب صناعة الانشاء فعلیک بحفظ القرآن و نہج البلاغہ“ ۔ اگرتم چاہتے ہو کہ علم ،ادب اور تحریر میں سب سے برتر و بلند ہوجاؤ تو قرآن کریم اور نہج البلاغہ کو حفظ کرنے کی کوشش کرو (۱) ۔

۷۔  یقینا اسی دلیل کی وجہ سے مشہور مفسر ”شہاب الدین آلوسی“ نے ( نہج البلاغہ کا تذکرہ کرتے ہوئے) کہا ہے ، اس کتاب کا یہ نام اس لئے ہے کہ یہ ایسے کلمات پر مشتمل ہے جس کے بارے میں انسان تصور کرتا ہے کہ یہ مخلوق کے کلام سے بلند اور خالق کے کلام سے کم ہے ، یہ ایسے کلمات ہیں جو اعجاز سے نزدیک ہیں اور حقیقت ومجاز میں ایجادات اور ابتکار سے کام لیا گیا ہے (۲) ۔

۸۔  استاد محمد محیی الدین عبدالحمید نے نہج البلاغہ کی تعریف میں اس طرح کہا ہے :

یہ ایسی کتاب ہے جس میں بلاغت و فنون کے چشمہ جاری ہیں،اس کتاب نے اپنے قائین کے لئے فصاحت کے اسباب فراہم کردئیے ہیں ،اس کے شیرین پھلوں کوحاصل کرنے کا وقت آگیا ہے ،کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد فصیح ترین مخلوق کی زبان سے یہ کلمات جاری ہوئے ہیں، جس کی قدرت ، منطق اور لغات پر تسلط سب سے زیادہ ہے ، وہ جس طرح چاہے ان کو اپنے لئے استعمال کرسکتا ہے ،ایسا حکیم ہے جس کے بیانات سے حکمت کے فنون خارج ہوتے ہیں، ایسا خطیب جس کے سحر بیان سے دل مسحور ہوجاتے ہیں ،ایسا عالم اور دانشور جس کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اورکتابت وحی کی ہمنشینی اور زبان و شمشیر سے دین کادفاع کرنے کی وجہ سے ایسے امکانات فراہم ہوگئے تھے جو کسی اور کے لئے فراہم نہیں ہوسکتے تھے (۳) ۔

۹۔  نہج البلاغہ کے مشہور و معروف شارح ”شیخ محمد عبدہ“ ،اہل سنت کے بزرگ اور مشہور عالم ، عرب کے مشہور مصنف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ نہج البلاغہ سے ان کی آشنائی اتفاقی طور پر ہوئی ہے، نہج البلاغہ کے متعلق بہت بلند مطالب بیان کئے ہیں جیسے :

میں نے جب نہج البلاغہ کے بعض صفحات کا مطالعہ کیا اور اس کی بعض عبارتوں میں غور و فکر کیا اور اس کے مختلف موضوعات پر توجہ کی تو میری نظر میں اس طرح سے مجسم ہوگیا کہ گویا اس کتاب میں عظیم جنگ بپا ہے وحکومت بلاغت کے ہاتھ میں اور قدرت فصاحت کے اختیار میں ہے ، اوہام اور نصیحتیں بے ارزش ہیں ، خطابت کی فوج اور فصاحت کے لشکر نے اوہام پر حملہ کیا ہے اور قوی دلایل کے اسلحہ سے وسوسوں اور اوہام پر حملہ کیا ہے ۔

باطل قدرت کو ہر جگہ شکست دی ہے ، شک و تردیک کو درہم و برہم کردیا ہے، اوہام کے فتنوں کو خاموش کردیا ،میں نے دیکھا کہ اس حکومت کا حاکم اور کمانڈر اور اس کا کامیاب علمبردار صرف اور صرف امیرالمومنین علی بن ابی طالب ہیں ۔ (۱) ۔

۱۰۔  ”سبط بن جوزی“ جو کہ خود اہل سنت کے ایک خطیب، مورخ اور مفسر ہیں ، نے اپنی کتاب تذکرة الخواص میں ایک چھوٹا سا جملہ تحریر کیا ہے :

” وقد جمع اللہ لہ بین الحلاوة والملاحة والطلاوة والفصاحة لم یسقط منہ کلمة و لا بارت لہ حجة ، اعجزالناطقین و حاز قصب السبق فی السابقین الفاظ یشرق علیھا نور النبوة و یحیر الافھام والالباب“۔

 خداوند عالم نے حلاوت، خوبصورتی، اور فصاحت کے امتیازات کو علی (علیہ السلام) کے وجود میں جمع کردیا ہے ،کوئی کلمہ ان سے ساقط نہیں ہوا ہے اورکوئی حجت و دلیل ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹی ہے ۔ انہوں نے تمام خطباء کو ناتوان کردیا ہے گو یا انہوں نے سب پر سبقت حاصل کرلی ہے ،ایسے کلمات جن پر نبوت کا نور چمک رہا ہے ، افکار و عقول ان کلمات سے حیران ہوگئے ہیں(۲) ۔

۱۱۔ و  ۱۲۔  اس حصہ کو دو مشہور عیسائیوں کی بات پر ختم کرتے ہیں :

 عیسائی مصنف ”میخائیل نعیمة“ نے اس طرح کہا ہے  :

علی (علیہ السلام) اسلام کے لئے تن تنہا سردار تھے کیونکہ ایک عیسائی مصنف نے ۱۹۵۶ میں ان کی سوانح حیات اور ان کے واقعات میں تحقیق کی (عیسائی اور لبنانی مصنف جورج جرداق، صاحب کتاب الامام علی صوت العدالة الانسانیة، مراد ہیں) اور ایک عاشق شاعر کی طرح ان تمام دلفریب قضایا ، حکایات اور آپ کی تعجب آور بہادری کو اپنے اشعار میں بیان کرتا ہے یہ امام ایسا پہلوان تھا جو صرف میدان جنگ ہی میں نہیں تھا بلکہ ان کی بلاغت، سحربیانی، اخلاق فاضلہ، ایمان کا جذبہ، ہمت کی بلندی ،غریبوں کا مددگار ، حق کی پیروی اور تمام نیک صفات اس ایک پہلوان میں موجود تھے (۱) ۔

اپنے مقدمہ میں دوسری جگہ کہا ہے :

عرب کے اس نابغہ نے جو کچھ سوچا،کہا اور عمل کیا اس کو نہ کسی کان نے آج تک سنا ہے اور نہ کسی آنکھ نہ دیکھا ہے اور ان کے متعلق مورخ اپنی زبان اور قلم سے جتنا بھی لکھے وہ سب کم ہے لہذا ہم ان کے متعلق جس قدر بھی لکھے وہ سب ناقص اور بے قیمت ہے(۲) ۔

۱۔  ترجمہ و تنقید از کتاب ”الامام علی ندای عدالت انسانیت“ (۲) ۔

۲۔  گذشتہ حوالہ، ص ۳۔

۲۔  نہج البلاغہ کی جامعہ اور عمیق مطالب۔

نہج البلاغہ کے امتیازات میں سے ایک امتیاز اس کی جامعیت اورمتنوع موضوعات ہیں ، انسان کو یقین نہیں آتا کہ ایک شخص اس قدر عمدہ گفتگو، شیرین بیان اوردقیق موضوعات کو اس طرح سے ایک جگہ جمع کردے اور یقینا یہ کام امیر المومنین علی (علیہ السلام)جن کے قلب و دل میں الہی اسرار کا خزانہ اور ان کی روح میں علم و دانش کا عظیم سمندر چھپا ہوا ہے، کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا ۔

آپ کے متعلق یہاں پرایک مرتبہ پھر بعض علماء کی گواہی کی طرف اشارہ کریں گے :

۱۔  سب سے پہلے اہل سنت کے بزرگ او رمشہور عالم ”شیخ محمد عبدہ“ سے شروع کرتے ہیں انہوں نے نہج البلاغہ کے خطبات، خطوط اور کلمات کا پہلی مرتبہ مطالعہ کرتے وقت اس کے متعلق بہت ہی خوبصورت کلمات کہے ہیں :

جب بھی میںنہج البلاغہ کے ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کا مطالعہ کرتا تھا تو احساس کرتا تھا کہ اس کا منظر کامل طور سے بدل گیا ہے کبھی میں اپنے آپ کو ایسے عالم میں دیکھا تھا کہ معانی کی بلندروحیں بہترین عبارتوں کے خوبصورت لباس میں پاک و پاکیزہ نفوس کے ارد گرد گھوم رہی ہیں اور صاف و شفاف قلوب سے نزدیک ہورہی ہیں اور ان کو راہ راست کا الہام کررہی ہیں اور ان کو ہدف تک پہنچنے کا راستہ دکھا رہی ہیں، لغزشوں سے منع کررہی ہیں اور فضل و کمال کے راستہ کی ہدایت کررہی ہیں ۔

کبھی میں ایسے چہروں کو دیکھتا تھا کہ جو دشمن پر حملہ کرنے کیلئے آمادہ ہیں اور انہوں نے آمادہ دلوں کو تسخیر کرلیا ہے اور بغیر کسی زور و زبردستی کے سب کو کنٹرول کرلیا ہے لیکن باطل خیالات اور فاسد فکر کو اپنے درمیان سے نکال دیا ہے ۔

کبھی میں دیکھتاتھا کہ ایک نوارنی عقل جس کی جسمانی مخلوقات سے کوئی شباہت نہیں ہے ،الہی سواروں کے گروہ سے الگ ہوتا ہے اور انسانی روح سے متوسل ہوجاتا ہے ، اس کو طبیعت کے ظلماتی پردوں سے باہر نکال کر ملکوت اعلی کی طرف لے جاتے ہیں، اور تجلی نور کی جگہ پر پہنچاتے ہیں ، اس کو عالم قدس میں جگہ دیتے ہیں ۔

کبھی کبھی اپنے کانوں سے حکمت آموز خطیب کے کلام کو سنتا تھا جو معاشرہ کے دانشورں اور علماء سے باتیں کررہا ہے ،ان کو راہ راست دکھا رہا ہے ، شک و تردید اور لغزشوں سے بچا رہا ہے ، ان کو اچھی سیاست اور بہترین راہ و روش کی طرف ہدایت کررہا ہے اور زمامداری کے عالی ترین اسباق اورتدابیر ان کو سکھا رہا ہے ۔

جی ہاں یہ کتاب وہی کتاب ہے جس کو سید رضی (رحمة اللہ علیہ) نے ہمارے مو لا و آقا امیرالمومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے کلمات سے جمع کیا ہے اور اس کا نام نہج البلاغہ رکھا ہے اور میری نظر میں اس نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام اس کتاب کے مضامین کو ظاہر کرنے کیلئے نہیں ہے(۱) ۔

۱۔  شرح نہج ا لبلاغہ، شیخ محمد عبدہ، ص ۱۰ ۔

۲۔  نہج البلاغہ کے مشہور شارح ”ابن ابی الحدید معتزلی“ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں : مجھے بہت زیادہ تعجب ہے اس شخص پر جو میدان جنگ میں ایساخطبہ پڑھتا ہے جو گواہی دیتا ہے کہ اس کی طبیعت و فطرت ،شیروں کی طبیعت جیسی ہے ، پھر اسی میدان جنگ میں جب موعظہ اور نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ ان کی طبیعت ایسے راہب کی طرح ہے جو اپنے مخصوص لباس میں چھپا ہوا ہے اور اپنے دیر میں زندگی بسر کرر ہے ، وہ نہ کسی جانور کا خون بہاتا ہے اور نہ کسی جانور کا گوشت تناول کرتا ہے ۔

کبھی ”بسطام بن قیس“، ”عتیبہ بن حارث“ اور ”عامر بن طفیل“ (۱) کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اورکبھی ”سقراط حکیم“، ”یوحنا“ اور ”مسیح بن مریم“ کی شکل میںظاہر ہوتا ہے ۔

میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی تمام امتیں قسم کھاتی ہیںمیںنے اس خطبہ (خطبہ الھکم التکاثر ۲۲۱) کو پچاس سال سے اب تک ایک ہزار بار سے زیادہ پڑھا ہے اور جب بھی اس کو پرھتا تھا خوف و وحشت اور عمیق بیداری میرے تمام وجود پر طاری ہوجاتی تھی اور میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہوتا تھا اور میرے جسم کے اعضاء میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا ۔ جب بھی میں اس کے بلند مضامین میں غور و فکر کرتا تو اپنے خاندان،رشتہ دار اور دوستوں کے مردہ افراد کو یاد کرنے لگتا اور ایسا لگتا تھا کہ شاید میں وہی ہوں جن کی امام (علیہ السلام) اس خطبہ میں تعریف کررہے ہیں ۔

کتنے واعظ، خطیب اور فصیح و بلیغ انسانوں نے اس سلسلہ میں اپنے اقوال بیان کئے ہیں اور کتنی مرتبہ میں نے ان کے اقوال کو پڑھا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی مجھے متاثر نہیں کیا جس قدر اس کلام نے مجھے متاثر کیا ہے (۱) ۔

۳۔  شیخ بہائی نے اپنے کشکول میں کتاب الجواہر سے ابوعبید کا قول نقل کیا ہے : علی (علیہ السلام) نے نو (۹)  جملے کہے ہیں ، عرب کے فصیح اور بلیغ علماء ان جیساایک جملہ بھی نہیں لا سکتے ، آپ نے تین جملہ مناجات میں ، تین جملہ علوم میں اور تین جملہ ادب میں بیان فرمائے ہیں (۲) ۔

پھر ان نو جملوں کی وضاحت کی ہے جن میں سے بعض نہج البلاغہ اور بعض کلمات دوسری کتابوں میں موجود ہیں ۔

۴۔  ڈاکٹر زکی مبارک نے کتاب ”عبقریة الشریف الرضی“ میں بہت ہی سادہ بیان میں کہا ہے : میرا عقیدہ ہے کہ نہج البلاغہ میںغوروفکر کرنے سے انسان کو مردانگی، شہامت اور بزرگی حاصل ہوتی ہے ،کیونکہ یہ کتاب بزرگ روح کی بزرگ فکر سے صادر ہوئی ہے جس نے مشکلات اور حوادث میں بہت ہی قدرت و طاقت سے کام لیا ہے (۳) ۔

۱۔  شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید ، ج ۱۱، ص ۱۵۳۔

۲۔  کشکول ، شیخ بہائی، ج ۳، ص ۳۹۷۔

۳۔ عبقریة الشریف الرضی ،ج ۱ ، ص ۳۹۶۔

۵۔  ابن ابی الحدید نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے : ”سبحان اللہ ! کس نے یہ تمام گرانقدر امتیازات اور شریف خصوصیات اس نمونہ عمل مرد (علی (علیہ السلام)) کو عطاء کئے ہیں ، کس طرح ہوسکتا ہے کہ مکہ کا ایک انسان جس نے اسی ماحول میں زندگی بسر کی ہو اور کسی ایک فلسفی کے ساتھ ہم نشینی اختیار نہ کی ہو لیکن علوم الہیہ اور حکمت متعالیہ میں افلاطون اور ارسطو سے آگاہ اور عالم ہو ۔ جس نے کبھی عرفان اور اخلاق کے اساتید کے ساتھ معاشرت نہ کی ہو اس سلسلہ میں وہ سقراط سے بلند و بالا ہے ،جس نے بہادروں کے درمیان پرورش حاصل نہ کی ہو (کیونکہ اہل مکہ تاجر تھے جنگجو نہیں تھے) اس میں اس قدر شجاعت پائی جاتی ہو (۱) ۔

۱۔  شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج ۱۶ ، ص ۱۴۶۔

۶۔  مرحوم سید رضی نے اس کتاب میں جگہ جگہ پر نہج البلاغہ کے مضامین کی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ قابل ملاحظہ ہے ، آپ اکیسویں خطبہ کے ذیل میں کہتے ہیں : ”ان ھذا الکلام لو وزن بعد کلام اللہ سبحانہ و بعد کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بکل کلام لمال بہ راجحا و برز علیہ سابقا “ ۔  سید رضی فرماتے ہیں کہ کلام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا اور ہر حیثیت سے بڑھے چڑھے رہیں گے ۔

انہوں نے اکیسویں خطبہ ”فان الغایة امامکم و ان ورائکم الساعة تحدوکم، تخفوا تلحقوا فانما ینتظر باولکم آخرکم “ ۔ تمہاری منزل مقصود تمہارے سامنے ہے ،موت کی ساعت تمہارے عقب میں ہے جو تمہیں آگے کی طرف لے جارہی ہے ،ہلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو ، تمہارے اگلوں کو پچھلوں کا انتظار کرایا جارہا ہے ۔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :   کلام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا ۔

کلمات قصارکی ۸۱ ویں حکمت کے ذیل میں بھی اسی معنی کے مشابہ بیان کئے ہیں اور کہا ہے : یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہوسکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہوسکتا ہے ۔

۷۔  یہاں پر مصر کے مشہور مصنف ”عباس محمود العقاد“ کے کلام کو بیان کرتے ہیں جن کا شمار عرب کے بہترین مصنفین اورمولفین میں ہوتا ہے ، انہوں نے اپنی کتاب ”عبقریة الاامام“ میں جگہ جگہ بہت بلندتعبیرات استعمال کی ہیں جس سے امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شخصیت اور نہج البلاغہ کے کلمات کے متعلق ان کی عمیق معرفت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

ایک جگہ کہتے ہیں :  نہج البلاغہ،توحیدی آیات اور الہی حکمت کا ایسا جاری چشمہ ہے جس سے عقاید ، اصول خدا شناسی اور توحید میں بحث کرنے والے کو اچھی آگاہی حاصل ہوتی ہے (۱) ۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں : ” ان کے کلام کا ہر نمونہ ان کی استعداد پر گواہ ہے اور حقایق کو بیان کرنے میں ان کے خداداد املکہ کو بتاتا ہے ، آپ یقینا آدم کی اولاد ہیں جن کو اسماء کا علم سکھا یا گیا تھا ، آپ ”وعلم آدم الاسماء کلھا“ اور اسی طرح ”اوتوالکتاب“ و ”فصل الخطاب“ کے مصداق ہیں ۔(۲) ۔

۱۔  العبقریات ، ج ۲، ص ۱۳۸ (طبع دارالکتاب اللبنانی) ۔  ۲۔  گذشتہ حوالہ ، ص ۱۴۵۔

دوسری جگہ کہتے ہیں : امام علیہ السلام سے بہترین مضامین کے جو کلمات روایت ہوئے ہیں وہ اس قدر بلند ہیں کہ ان کی برتری حکمت سلوک میںنظر نہیں آتی ․․․ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :  ”میری امت کے علماء ،بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں ، یہ حدیث سب سے زیادہ امام علی (علیہ السلام) پر صادق آتی ہے جن کے حکمیانہ کلمات ، انبیاء کے حکیمانہ کلمات کے برابر ہیں (۱) ۔

۸۔  ہمارے ہم معاصر دانشور اور عالم محمد امین نواوی نے نہج البلاغہ کی تعریف میں کہا ہے : یہ ایسی کتاب ہے جو خداوند عالم نے اس حقیقت کے لئے آشکار حجت قرار دیا ہے کہ علی (علیہ السلام) نور قرآن، اس کی حکمت، علم، ہدایت، اعجاز اور فصاحت کی زندہ مثال ہیں، اس کتاب میں علی (علیہ السلام) کے لئے ایسے گرانقدر مطالب جمع کئے ہیں جو دنیا کے مشہورفلاسفہ، حکماء اور علماء ربانی کو حاصل نہیںہیں (۲) ۔

۱۔  گذشتہ حوالہ ، ص ۱۴۴۔

۲۔  مصادر نہج البلاغہ، ج۱ ، ص ۹۰۔

۹۔  ایک مرتبہ پھر مصر کے مشہور مصنف یعنی ”طہ حسین“ کے اقوال کو بیان کرتے ہیں : انہوں نے کسی شخص کے سوال کے جواب میں جو کہ جنگ جمل کے متعلق شک و تردیم میں پڑ گیا تھا،حضرت علی (علیہ السلام) کے کلام کو نقل کرنے کے بعد اپنے اقوال میں کہا : میں نے وحی اور خداوند عالم کے بیان کے بعد اس سے زیادہ سلیس اور با عظمت جواب نہیں سنا ہے (۱) ۔

۱۰۔  مرحوم ثقة الاسلام کلینی نے کافی کی پہلی جلد میں امام علی (علیہ السلام ) کے توحید کے متعلق ایک خطبہ کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

یہ خطبہ بہت زیادہ مشہور ہے اس کو اکثر لوگ جانتے ہیں اور جو لوگ علم توحید کے طالب ہیں ان کے لئے اس میں بہت زیادہ علم و فہم موجود ہے اور اگر جن و انس کی تمام زبانیں (انبیاء کی زبان کے علاوہ) جمع ہوجائیںتو وہ امام علی (علیہ السلام) کی طرح توحید کو بیان نہیں کرسکتیں اور اگر ان کے بیانات نہ ہوتے تو لوگوں کو معلوم نہ ہوتا کہ توحید کے راستہ کو کس طرح طے کریں(۲) ۔

۱۱۔ اس بحث کو ایک بزرگ فقیہ علامہ فقید آیة اللہ خویی کے بیان پر ختم کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : جس وقت حضرت علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبوں میں کسی بحث میں داخل ہوتے ہیں تو کسی اور بات کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،یہاں تک کہ جن لوگوں کو امیرالمومنین (علیہ السلام) کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں وہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تمام عمر اسی موضوع کے متعلق صرف کردی ہے (۳) ۔

۱۔  سیری در نہج البلاغہ ، ص ۱۸ و ۱۹۔

۲۔  اصول کافی ، ج ۱ ، ص ۱۳۶۔

۳۔  البیان ، ص ۹۰۔

۳۔  نہج ا لبلاغہ کی کشش اور جاذبیت

جو لوگ نہج البلاغہ سے آشنائی رکھتے ہیں (چاہے وہ علی کے شیعہ ہوں اور چاہے دوسرے اسلامی دانشور اور عیسائی علماء) انہوں نے نہج البلاغہ کے طاقت ور جاذبہ کی طرف اشارہ کیا ہے اورانہوں نے خود کو اس کے تحت تاثیر پایا ہے ، نہج البلاغہ کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار میں جو طاقت ور جاذبہ اور کشش محسوس ہوتی ہے اس نے بہت سے علماء اور دانشوروں کو نہج البلاغہ کی شرح لکھنے یا حضرت علی (علیہ السلام) کی شخصیت کے متعلق مستقل کتاب یا مقالہ لکھنے پر مجبور کردیا ہے ۔

ہمارے عقیدے کے مطابق اس کشش کی بہت سی دلیلیں ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہیں :

۱۔  پوری نہج البلاغہ میں محروم طبقوں اور ستمدیدہ انسانوں کے ساتھ ہمدردی نظر آتی ہے ، پوری نہج البلاغہ میں ظلم ، بے عدالتی اور ظالموں و جابروں کے ساتھ جنگ کرنے کی بات نظر آتی ہے ۔

مالک اشتر کے عہد نامہ میں مختصر عبارات میں حکومت کرنے کے متعلق بہترین اور سلیس پروگرام بتائے ہیں جس وقت اجتماعی سات گروہوں اور ان کے وظائف و حقوق کی بات آتی ہے تو ایک خاص اطمینان کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور جیسے ہی محروم اور ستمدیدہ افراد کی بات آتی ہے تو امام (علیہ السلام) کے کلام میں اس قدر بلندی آجاتی ہے جیسے دل کی تہوں سے فریاد کررہے ہیں :  ”اللہ اللہ فی الطبقة السفلی من الذین لا حیلة لھم من المساکین و المحتاجین و اھل البوسی والزمنی“ ۔ اس کے بعد اللہ سے ڈرو، اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین، محتاج ، فقراء اور معذور افراد کا طبقہ ہے ، جن کا کوئی سہارا نہیں ہے ۔ اس کے بعد انہیں حکم دیتے ہیں کہ بذات خود بغیر کسی واسطہ کے پورے اسلامی ملک میں ان کی حالت پر نظر رکھو اور ان کے امور میں کسی دوسرے کو دخالت کرنے کی اجازت مت دو ۔

صرف یہیں پر نہیں بلکہ ہر جگہ اور ہر مناسبت سے امام علی (علیہ السلام) ان کے بارے میں سفارش اور وصیت کرتے ہیں ۔

۲۔  نہج البلاغہ ہر جگہ انسان کو ہوا و ہوس کی زنجیروں کی قید و بند سے نجات حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے ایسی ہوا و ہوس جو ان کو ذلت اور بدبختی کی طرف لے جاتی ہے اور اسی طرح ستمگاروں اور سرمایہ دار طبقات کی اسارت سے نجات دلاتی ہے (۱) ۔

امام (علیہ السلام) سب کو متوجہ کرتے ہیں کہ آزادی، مساوات اور عدالت کی آزاد روح کو واپس لانے میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں، بلکہ آپ نے حکومت کے بلند مقام کو اسی امر کی وجہ سے قبول کیا تھا (۲) اور جو لوگ یہ گمان کرتے تھے کہ علی (علیہ السلام) اس متعلق معاملہ کرلیں گے وہ بہت بڑی غلطی پر تھے انہوں نے علی (علیہ السلام) کوپہچانا نہیں تھا (۳) ۔

۳۔  نہج البلاغہ کا عرفانی جاذبہ ایسا ہے جو تشنہ ارواح کو اپنے آب زلال سے اس طرح سیراب اور مست کرتا ہے کہ ا س کی شراب طہور کا نشہ انسان کے وجود کے تمام ذرات سے آشکار ہوتا ہے !

جس وقت خدا کی معرفت اور اس کے صفات جمال وجلال کے جاذبہ کو بیان کرتے ہیں تو آپ کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جس سے قاری احساس کرتا ہے کہ وہ فرشتوں کے پروں پر سوار ہوکر ایسی دور دراز جگہ پہنچ گیا ہے جہاں انسان کی فکر نہیں پہنچ سکتی (۴) ۔

جب سوئی ہوئی روحوں کو بیدار کرنے کیلئے اپنے کلام کا تازیانہ اٹھاتے ہیں ، زندگی کی موت و حیات اور گذشتہ قوموں کی تاریخ کو بیان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ انسان کی روح کو لرزادیا ایسا دردناک لرزہ جو لذت بخش بھی ہوتا ہے اور بیدار کرنے والا بھی ہوتا ہے (۵) ۔

۴۔  نہج البلاغہ کا ایک دوسرا طاقت ور جاذبہ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں، یہ ہے کہ امام (علیہ السلام) جس میدان میں بھی قدم رکھتے ہیں اس کا حق ادا کرتے ہیں اور بہت ہی دقت کے ساتھ ایک ایک بات کی وضاحت کرتے ہیں گویا کہ بولنے والے نے اپنی تمام عمر اسی موضوع کی تحقیق میں گزاری ہے اور کوئی دوسرا کام انجام نہیں دیا ہے ۔

۱۔  امام علی صدای عدالت انسانیت ، ج ۳، ص ۱۷۷۔

۲۔  خطبہ شقشقیہ (خطبہ ۳) ۔

۳۔  عثمان بن حنیف کے نام خط (خط نمبر ۴۵) ۔

۴۔  خطبہ اول اور خطبہ اشباح (خطبہ نمبر ۹۱) اور دوسرے بہت سے خطبے ۔

۵۔  خطبہ نمبر ۱۰۹ ۔ ۱۱۱۔ ۱۱۳۔ اور دیگر خطبات۔

جس وقت امام (علیہ السلام) ایک توحیدی خطبہ کا آغاز کرتے ہیں اور خداوند عالم کے جمال و جلال اور اسماء و صفات کی شرح کرتے ہیں تو ایک الہی بزرگ فلسفی کا چہرہ ، انسان کے ذہن میں مجسم ہوجاتا ہے جو سالہا سال سے توحید کی باتیں کررہا ہو اور اس سلسلہ میں گرانبہا موتی پیش کررہا ہو اوراس کے علاوہ کسی اور چیز کو بیان نہ کرتا ہو ، نہ وہ خدا کے تجسم کی طرف قدم بڑھاتا ہے اور نہ صفات کی تعطیل کی طرف اور اس طرح خدا کی معرفت کو بیان کرتا ہے کہ انسان، دل کی آنکھوں کے ذریعہ اس کو آسمان، زمین اور اپنے وجود میں ہر جگہ حاضر دیکھتا ہے اور اس کی روح معرفت الہی کے انوار سے سرشار ہوجاتی ہے ۔

لیکن جیسے ہی ہم نہج البلاغہ کو کھولتے ہیں اچانک ہماری نظریں خطبہ جہاد پر متوقف ہوجاتی ہیں ، اس خطبہ میں شجاع اور بہادر افسر کودیکھتے ہیں کہ جس نے جنگ کا لباس زیب تن کررکھا ہے ، بہترین دستور اور جنگ کی ٹیکنک کو اپنے لشکر کی فوج کے سامنے وضاحت کے ساتھ بیان کررہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پوری عمر صرف میدان جنگ اور جنگ کے فنون میں گزار ہے ۔

جس وقت نہج البلاغہ کے ورق پلٹتے ہیں اور امام (علیہ السلام) کو حکومت اور امت کی رہبری کی کرسی پر دیکھتے ہیں اس وقت آپ شہروں کے گورنروں اور کمانڈروں کے سامنے ملک کے قوانین کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،ظالم اورستمگر قوموں کی تاریخ اور ایک اجتماعی، سیاسی اور فوجی آرام وسکون کو بہت ہی بہترین عبارت میں بیان کرتے ہیں گویا کہ آپ نے اپنی پوری عمر میں صرف یہی کام انجام دیا ہے ۔

دوبارہ اس کے ورق پلٹتے ہیں توامام (علیہ السلام) کو درس اخلاق، تہذیب نفس اور روح و افکار کی تربیت کی مسند پر دیکھتے ہیں ،پاک وپاکیزہ اور نیک صفت انسان ”ھمام“ آپ سے پرہیزگاروں کے صفات کے متعلق نئے درس کا تقاضا کرتا ہے اور وہ اس قدر تشنہ ہوتا ہے جو ایک یا دو پیمانہ سے سیراب نہیں ہوتا، امام اپنے علم و دانش کے سرشار دریچوں کو اس کے لئے کھولتے ہیں اور اس کو پارسائی اور پرہیزگاری کا درس دیتے ہیں ، تقریبا متقین کے سو صفات کو محکم ، عمیق عبارت اور حق کی راہ کو طے کرنے والوں کے لئے بہترین راہ کی ہدایت کرتے ہیں ، گویا کہ صدیوں سے اسی مسند اور اسی جگہ پر خلق کی ہدایت، نفوس کی تربیت اور اخلاق کی تدریس کررہے ہیں ،یہاں تک کہ سوال کرنے والاان باتوں کو سن کر چیخ مارتا ہے اور وہی دم توڑدیتا ہے ! اور باتوں کا اس طرح نافذ ہوجانا تاریخ میں نہیں ملتا ۔

یقینا نہج البلاغہ کے مختلف مناظر جو اپنی نوعیت میںکم نظیر یا بے نظیر ہیں، اس بزرگ کتاب کی خصوصیات میں شمارہوتے ہیں ۔