نہج البلاغہ کی شرحیں

اس مقدمہ میں آخری بات نہج البلاغہ کی شروح اور تراجم کے متعلق ہے جن کو مسلمان دانشوروںنے سید رضی سے لیکر اب تک لکھی ہیں اورایسا لگتا ہے کہ جس قدر ہم سید رضی کے زمانہ سے دور ہوتے جارہے ہیں اسی قدر اس کی شرح ، تفاسیر اور تراجم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بزرگ خزانہ کو روز بروز بہتر پہچانا جارہا ہے ۔

مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی چوتھی جلد میں سید رضی کی سوانح حیات میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ کہتے ہیں :

مرحوم سید رضی کے زمانہ سے لیکر اب تک ستر سے زیادہ نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی جاچکی ہیں ۔

اس کے بعد ان کے تمام مولفین کے نام اوران کی تاریخ وفات ذکر کی ہے اور حال میں اس کے تراجم میں جو اضافہ ہوا ہے ان کی تعداد اکیساسی شرح و ترجمہ لکھی ہے (۱) ۔ اور فطری سی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک شرح (قرآن کی تفاسیر کی طرح) نے نہج البلاغہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا ہے ،بعض نے ادبی نکات ،بعض نے تاریخی ،فلسفی، تربیتی اور اجتماعی نکات کو بیان کیا ہے ۔

مصادر نہج البلاغہ کے مولف نے اپنی کتاب میں ایک سو دس شرح و تفسیر کے نام ذکر کئے ہیں اور بعض فضلانے نہج البلاغہ کے کتاب نامہ میں تین سو ستر شرح و تفسیر اور ترجمہ ذکر کئے ہیں (۲) ، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اعتراف کرلینا چاہئے کہ ایسا لگتا ہے گویا اس کتاب کو ابھی کسی نے ہاتھ نہیں لگایا ہے اور بہت سی شروح کی ضرورت ہے جو اس کے معانی کے گوہر کو الفاظ کے صدف سے باہر نکالیں، اور نہج البلاغہ کے بیکراں دریا میں غوطہ لگا کر معانی کے موتیوں کو باہر نکالیں،کیونکہ نہج البلاغہ کے ابعاد ، حضرت علی (علیہ السلام) کے وجود کی طرح بہت وسیع ہیں جن کو بہت آسانی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔

۱۔  الغدیر ، ج ۴، ص ۱۸۶ تا ۱۹۳۔

۲۔  المعجم المفھرس لالفاظ نہج البلاغہ، ص ۱۰ (یہ بات قابل ذکر ہے کہ مصادر نہج البلاغہ میں شروح کی تعدادکا نمبر ایک سو نو لکھا ہے ،ایک سو دس نہیں) ۔

اگر چہ جن شروح اور تراجم کو مندرجہ بالا ذکر کیا گیا ہے وہ کامل اور مفصل نہیں ہیں ،ان میں سے بعض نے نہج البلاغہ کے ایک حصہ کی شرح کی ہے اور ان میں سے بعض شروح ایسی بھی ہیں جو کامل ، وسیع اور مفصل ہیں اوران میں ایک خاص امتیاز پایا جاتا ہے ، ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے :

۱۔  ”اعلام نہج البلاغة“ ، علامہ امینی کے بقول نہج البلاغہ کی سب سے قدیمی شرح ہے ، اس کے مولف ”علی بن الناصر“ ہیں جو مرحوم سیدرضی کے ہم عصر تھے ۔

۲۔  ”منھاج البراعة“ ، مصنف ”سعید الدین ھبة اللہ راوندی“ ، ان کا شمار چھٹی صدی ہجری کے علماء میں ہوتا ہے ۔

۳۔  ”شرح ابن ابی الحدید معتزلی“ ۔ ان کاشمار ساتویں صدی کے علماء میں ہوتا ہے انہوں نے یہ شرح بیس جلدوں میں لکھی ہے اور یہ سب سے مشہور ترین شرح ہے ۔

۴۔  ”شرح بن میثم بحرانی“ ۔ ان کا شمار بھی ساتویں صدی میں ہوتا ہے ، یہ شرح بھی مفصل اور بہت اچھی شرح ہے ۔

۵۔  دوسری شرح حاج میرزا حبیب اللہ موسوی خویی کی ”منھاج البراعة“ ہے ، ان کا شمار تیرہوی اور چودہویں صدی میں ہوتا ہے اور یہ کتاب ، شرح خویی کے نام سے مشہور ہے ۔

۶۔  ”شرح شیخ محمد عبدہ“ ، ان کا شمار اہل سنت کے مشہور علماء میں ہوتا ہے اور یہ تیرہویں صدی میں زندگی بسر کرتے تھے ۔

معاصر اہل قلم کی ایک جماعت نے بھی نہج البلاغہ کی بہت سی شرح لکھی ہیں جن کو ذکر کرنے سے مقدمہ بہت مفصل ہوجائے گا ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالم بزرگوار ”مرحوم محدث تہرانی“ نے کتاب ”الذریعہ“ میں شیعہ علماء کی تقریبا ایک سو چالیس شرح نہج البلاغہ کو ذکر کیا ہے اور سولہ شرح اہل سنت کی ذکر کی ہیں ،ان کی سب سے قدیمی شرح فخر رازی (متوفی ۶۰۶ہجری )کی شرح ہے (۱) ۔

۱۔  الذریعة ، ج ۱۴، ص ۱۱۱تا ص ۱۶۰۔

دیباچہ

مولف نہج البلاغہ علامہ شریف رضی (قدس سرہ)

حمد و ستائش اس اللہ کے لئے ہے ، جس نے حمد کو اپنی نعمتوں کی قیمت، ابتلاؤں سے بچنے کا ذریعہ، جنت کا وسیلہ اور اپنے احسانات کے بڑھانے کا سبب قرار دیا ہے ۔ درود ہو اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر جو نبی رحمت ، پیشواؤں کے پیشوا،امت کا چراغ ، دودمان شرافت کاانتخاب، قدیم ترین بزرگیوں کا نچوڑ ، رگ و پے میں سمائے ہوئے فخر کی کھیتی ، رفعت و بلندی کی برگ پوش و ثمر دار شاخ ہے اور آپ کے اہل بیت پر رحمت ہو جو تاریکیوں کے چراغ، امت کے لئے سامان حفاظت ، دین کے روشن مینار اور فضل و کمال کا بلند معیار ہیں ۔ اللہ ان سب پر رحمت نازل کرے ،ایسی رحمت جو ان کے فضل و کمال کے شایان،ان کے عمل و کردار کی جزاء اور ان کی ذاتی و خاندانی پاکیزگی کے ہم پلہ ہوجب تک صبح درخشاں لو دیتی رہے اور جگمگاتے ستارے ابھرکر ڈوبتے رہیں۔

میں نے اوائل عمر اورشاخ جوانی کی شادابی میں آئمہ علیہم السلام کے حالات و خصائص میں ایک کتاب کی تالیف شروع کی تھی، جو ان کے نفیس واقعات اور ان کے کلام کے جواہر ریزوں پر مشتمل تھی ۔

جس کی غرض تالیف میں نے اسی کتاب کے دیباچہ میں ذکر کیا ہے اور اس میں وہ حصہ جو امیرالمومنین علی (صلوات اللہ علیہ) کے خصائص سے متعلق تھا، پایہ تکمیل کوپہنچایا، لیکن زمانہ کی مزاحمتوں اور شب و روز کی رکاوٹوں نے بقیہ کتاب پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دی۔

جتنا حصہ لکھا گیا تھا اسے میں نے چند ابواب و فصول پر تقسیم کیا ، چنانچہ اس کی آخری فصل حضرت سے منقول شدہ پند و نصائح ، حکم و امثلہ اوراخلاقیات کے حسین و مختصر جملوں پر مشتمل تھی، مگر طویل خطبات اور بسیط خطوط در نہ تھے ۔

احباب اور برادران دینی کی ایک جماعت نے اس کے لطیف و شگفتہ کلمات پر اظہار تعجب و حیرت کرتے ہوئے فصل مذکور کے مندرجات پسند کئے اور مجھ سے خواہشمند ہوئے کہ میںایک ایسی کتاب ترتیب دوںجوامیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے تمام اسالیب کلام اور اس کے متفرق شعبوں پر حاوی ہو از قبیل خطبات و خطوط و نصائح و آداب وغیرہ،اس یقین کے ساتھ کہ وہ فصاحت و بلاغت کے عجائب ونوادر ، عربیت کے گہرہائے تابدار اوردین و دنیا کے متعلق درخشندہ کلمات پر مشتمل ہوگی، جونہ کسی کلام میں جمع اور نہ کسی کتاب میں یکجا ہیں،کیونکہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فصاحت کا سرچشمہ اور بلاغت کی مخرج و منبع تھے ۔

فصاحت و بلاغت کی چھپی ہوئی باریکیاں آپ ہی سے ظاہر ہوئیں اور آپ ہی سے اس کے اصول وقواعد سیکھے گئے اور ہر خطیب و متکلم کو آپ کی مثالوں پر چلنا پڑا اورہر واعظ و بلیغ نے آپ کے کلام سے خوشہ چینی کی۔

پھر بھی وہ آپ کے برابر کبھی نہیں آسکے ، اور سبقت و تقدم کا سہرا آپ کے سررہا ، اس لئے کہ آپ کا کلام وہ ہے جس میں علم الہی کا پرتو اورکلام نبوی کی بوباس ہے ۔

میں نے ان کی خواہش کو قبول کیا اور یہ کام شروع کردیا یہ جانتے ہوئے کہ اس میں نفع عظیم، نیک نامی، اور ذخیرہ اجر ہے اور بہت جلد یہ کتاب ہر جگہ چھا جائے گی اوراس کا اجر آخرت کا ذخیرہ ہے ۔

اس تالیف سے مقصود یہ ہے کہ میںامیرالمومنین کی فن بلاغت میں رفعت و برتری کو ظاہر کروں جو آپ کی بے شمار خوبیوں اور ان گنت فضیلتوں کے علاوہ ہے اور یہ کہ آپ اس فضیلت کے مقام منتہا تک پہنچنے میں ان تمام سلف اولین میں یکتا ہیں جن کا کلام تھوڑا بہت پاشان و پریشان نقل کیا جاتا ہے لیکن آپ کا کلام ایک ایسا امنڈتا ہوا دریا ہے جس کے بہاؤ سے ٹکر نہیں لی جاسکتی اوراتنی خوبیوں کا مجموعہ ہے کہ اس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا ۔ میرے لئے جائز و خوشگوار ہوگا کہ میں حضرت کی طرف اپنے نسبی استناد کی بناء پر فخر وناز کرتے ہوئے فرزدق کا شعر بطور مثال پیش کروں.