نہج البلاغہ کے متعلق بزرگوں کے نظریات

نہج البلاغہ کے جاذبہ کے متعلق بزرگ علماء نے جو تعبیرات بیان کی ہیں وہ سب نہج البلاغہ کے بلند و بالا مطالب پر بہترین گواہ ہیں:

سید رضی ، نہج البلاغہ کے میدان کے سورما جس کا خود عرب کے ادباء میں شمار ہوتا ہے ، نے نہج البلاغہ کے خطبوں کے ذیل میں کہیں کہیں ایسی تعبیریں بیان کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ان خطبوں کو سننے کے بعد کس قدر ان کی طرف مجذوب ہوتے ہیں یا وہ خود کس قدر اس کے طاقت ور جاذبوں کی امواج سے متاثر ہوئے ہیں ۔

خطبہ غراء (نہج ا لبلاغہ کے خطبہ ۸۳) کے ذیل میں کہتے ہیں :  ” و فی الخبر انہ لما خطب بھذہ الخطبة اقشعرت لہ الجلود و بکت العیون و رجفت القلوب“۔

جب حضرت (ع) نے اس خطبہ کو ارشاد فرمایا تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور دل لرزنے لگے ۔

مشہورو معروف خطبہ ہمام (وہی زاہد و عارف انسان جو مولا علی (علیہ السلام) سے متقین کی صفات کوبیان کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور امام (علیہ السلام) اس عجیب و غریب اور بے مثال خطبہ کو بیان کرتے ہیں)کے ذیل میں پڑھتے ہیں :

(جس وقت امام (علیہ السلام) خطبہ کے حساس ترین نقطہ پر پہنچے ) ہمام نے ایک چیخ مار ی اور بیہوش ہوگیا اور اس کی روح ، فقس عنصری سے پرواز کرگئی ، امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : آہ ، میں اسی وقت سے ڈر رہا تھا (اسی وجہ سے پہلے میں نے اس کی درخواست کو قبول نہیں کیا اور بہت اصرار کرنے کے بعد قبول کیا) اس کے بعد مزید کہتے ہیں : کیا ایسا نہیں ہے کہ صاحبان تقوی کے دلوں پر نصیحت کا اثر اسی طرح ہوا کرتا ہے ۔

اسی طرح اٹھائیسویں خطبہ کے ذیل میں دوسری بات بیان کرتے ہیں جوسید رضی کی فکر و جان میں خطبہ کی گہرائی کی خبر دیتی ہے :

اگر کوئی ایسا کلام ہوسکتا ہے جو انسان کی گردن پکڑ کر اسے زہد کی منزل تک پہنچا دے اور اسے عمل آخرت پر مجبور کردے تو وہ یہی کلام ہے ،یہ کلام دنیا کی امیدوں کے قطع کرنے اور وعظ و نصیحت قبول کرنے کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کافی ہوتا ۔

پھر اس خطبہ کی چند تعبیرات کو نمونہ کے طور پر ذکر کرنے کے بعد مزید کہتے ہیں : حقیقتا اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا باطن انتہائی عجیب و غریب اور اس کی گہرائی انتہائی لطیف ہے اور یہ تنہا اس کلام کی بات نہیں ہے بلکہ حضرت کے کلام میں عام طور سے یہی بلاغت پائی جاتی ہے اور اس کے معانی میں اسی طرح کی لطافت اور گہرائی نظر آتی ہے ۔

اسی طرح سولہویں خطبہ کے ذیل میں کہتے ہیں :  اس مختصر سے کلام میں اس قدر خوبیاں پائی جاتی ہیں جہاں تک کسی کی داد و تعریف نہیں پہنچ سکتی ہے اوراس میں حیرت واستعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس میں فصاحت کے وہ پہلو بھی ہیں جن کو کوئی زبان بیان نہیں کرسکتی ہے اور ان کی گہرائیوں کا کوئی انسان ادراک نہیں کرسکتا ہے ۔ اور اس حقیقت کو وہی انسان سمجھ سکتا ہے جس نے فن بلاغت کا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے باخبر ہو(جی ہاں) ”وما یعقلھا الا العالمون“۔  اوران حقایق کو اہل علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

مشہور و معروف خطبہ شقشقیہ کے ذیل میں مشہور محدث او رمفسر ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ وہ اس خطبہ سے کس قدر متاثر ہوئے ہیں :  ”فواللہ ما اسفت علی کلام قط کاسفی علی ھذا الکلام ان لا یکون امیرالمومنین (علیہ السلام) بلغ منہ حیث اراد“ ۔  ابن عباس کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! مجھے کسی کلام کے ناتمام رہ جانے کا اس قدر افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پر ہوا کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی بات پوری نہ فرما سکے اور آپ کا کلام ناتمام رہ گیا( اس وقت عراق کا ایک باشندہ غلط وقت پر کھڑا ہو اور اس نے آپ کو ایک خط دیدیا جس نے آپ کی توجہ کو اپنی طرف مجذوب کرلیا) ۔

اس بحث کومنھاج البراعہ میں محقق خوئی اور ابن ابی الحدید کے کلام پر ختم کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ہے : علی (علیہ السلام) کے کلام کو گفتار کی نظم اور باعظمت مضامین کے اعتبار سے کسی کے بھی کلام سے مقایسہ نہیں کیا جاسکتا ،آپ اس میدان کے تنہاترین سردار ہیں اور آپ ایسے خطیب ہیں جن کے بیان سے غیظ و غضب اور اضطراب ختم ہوجاتا ہے اورایسا دریا ہیں جو اپنے موتیوں کو ساحل کی طرف پھینکتے ہیں ، دلوں پر حکومت کرتے ہوئے ان کو اپنے امر و نواہی کی پیروی کرنے پر مجبور کرتے ہیں ، ان کی تشویق و ترغیب نیکیوں کی دلیل ہے اور اپنے ڈرانے والی باتوں کے تازیانہ سے ان کو منکرات سے منع کرتے ہیں ، لہذا ان کا کلام ،کلام کا امام ہے جس طرح سے یہ خود خلق کے امام اور راہنما ہیں ”فحقیق بکلامہ ان یجعل امام الکلام کما انہ علیہ السلام امام الانام“ (۱) ۔

بہرحال ابن ابی الحدید نے خطبہ ۱۰۹ کے ایک حصہ میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہ جو بھی فصاحت وبلاغت کے فنون کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور ایک دوسرے کلمہ کے ساتھ کلمات کی اہمیت کو درک کرنا چاہتا ہے وہ اس خطبہ میں غور و فکر کرے ، کہتے ہیں :

اس خطبہ کی تاثیر اور جاذبہ اس قدر ہے کہ اگر اس کو کسی بے دین کافر جو کہ اپنی تمام تر قدرت کے ساتھ قیامت کی نفی کرتا ہو،کے سامنے پڑھا جائے تو اس کی قدرت ختم ہوجائے گی اور وہ خوف و وحشت سے لرزنے لگے گا ، یہ خطبہ اس کے منفی ارادوں کو ضعیف کردیتا ہے اور اس کے اعتقاد کی بنیاد میں تزلزل ایجاد کردیتا ہے ، پس خداوند عالم ،اس خطبہ کے بیان کرنے والے کو جس نے اس کے ذریعہ اسلام کی خدمت کی ہے ، جزائے خیر دے ، ایسی بہترین جزاء جو اولیاء کو دی جاتی ہے ، کتنا بہتر ہوتا کہ اسلام کیلئے ان کی مدد کبھی ہاتھ اورتلوار ، کبھی زبان وبیان اور کبھی فکر و قلب کے ساتھ ہوتی ۔

بیشک! آپ ”سید المجاھدین و ابلغ الواعظین و رئیس الفقھاء و المفسرین و امام اھل العدل والموحدین“ ہیں (۲) ۔

۱۔  منھاج البراعة ، ج ۱، ص ۲۷۱۔

۲۔  شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج ۷، ص ۲۰۲ (مختصر تلخیص کے ساتھ) ۔