جس دن ھم نے نھج البلاغہ کا ادراک کر لیا اور تمام تعصبات و جانبداریوں سے مبرا ھوتے ھوئے اسکی کنہ حقیقت تک پھنچ گئے اس دن ھم تمام سماجی، اخلاقی، معاشی اور فلسفیانہ مکاتب فکر سے بے نیاز ھوجائیں گے۔
نھج البلا غہ : کتاب حق و حقیقت
حقیقت تو یہ ھے کہ ان چند جملو ں کے ذریعہ نھج البلا غہ کی شناخت حاصل نھیں کی جا سکتی کیو نکہ اگر ارباب علم و فلسفہ گز شتہ تا ریخی حقائق کے سلسلے میں نھج البلاغہ سے استفادہ کر لیں تب بھی ان کیلئے مستقبل تو مجھول ھی ھے جبکہ نھج البلاغہ فقط ماضی وحال ھی سے مربو ط نھیں ھے بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ھے جو آئند ہ سے بھی مر بوط ھے کیو نکہ نھج البلاغہ میں انسان و کا ئنات کے بارے میں جا و دانہ طور پر مبسوط بحث کی گئی ھے۔ بشر وکا ئنات کے حوا لے سے جن اصو ل وقو انین کا تذکرہ کیا گیا ھے وہ کسی ایک زبان ومکان کو پیش نظر رکہ کرو ضع نھیں کئے گئے ھیں کہ کسی ایک محدود زمانے میں مقید ھو کر رہ جا ئیں ۔ زمانے تبدیل ھو تے رھتے ھیں اورھر زمانے کے افراد اپنے فھم وا دراک کے مطا بق اس آفاقی کتاب سے استفادہ وبھرہ بر داری کرتے رھتے ھیں ۔
ایسی کو نسی کتاب ھے جس میں نھج البلا غہ کی طرح حیات ور موز حیات کے متعلق اسقدر عمیق اور جامع بحث کی گئی ھو اور زندگی کے دونو ں پھلو ؤ ں اور اسکی حقیقت کو با لتفصیل وا ضح کیا گیا ھو ؟
آیا ممکن ھے کہ نھج البلا غہ کے علاوہ کسی اور کتاب میں مفھو م اورر موز موت وحیات تک دستر سی پیدا کی جا سکے ؟
کیا ممکن ھے کہ بشر کے محدو د ذھن کے ذریعہ سا ختہ شدہ ، نا قص مکا تب فکر سے اقتصادیات کے ان تمام نکا ت اور پھلو ؤ ں کا استخر اج کر لیا جا ئے جو نھج البلاغہ میں مو جو د ھیں ؟ ھر اقتصا دی مکتب فکر جھاں کچہ امتیازات و محا سن کا حا مل ھو تا ھے و ھیں اسمیں کچہ نقا ئص بھی پا ئے جا تے ھیں۔ ایک مکتب فکر انسا ن کو اقتصادیات پر قربان کر دیتا ھے جبکہ دوسر ے مکتب کی نگا ہ میں انسان کیلئے معا شیات کی کو ئی حیثیت نھیں ھے ، تیسرا مکتب ، بشر کو اس حدتک آزادی کا اختیار دے دیتا ھے کہ معاشرے کی تمام اھمیت وا رزش ھی ختم ھو کر رہ جاتی ھے ، چو تھا مکتب آتا ھے اور اسکی ساری تو جھات معاشرے پر مر کو زھو جاتی ھیںلیکن نھج البلاغہ نے اسلام کی معتد ل روش کا اتبا ع کرتے ھو ئے سماج کے ھر طبقے کے حقو ق کی محا فظت کی ھے اس طرح کہ فر د ومعا شرہ ،دونو ں کا یکسا ں خیال رکھا ھے یعنی فرد ی آزادی اور اختیار ات فقط اس حد تک قا بل قبو ل ھیں جھا ں تک سما جی زند گی میں خلل پیدا نہ ھو ورنہ معا شر تی زندگی مذکورہ صورت میں بھر حال بر تری کی حامل ھے یعنی سماجی زندگی ، فردی زندگی پر فو قیت رکھتی ھے ۔ نھج البلاغہ نے زندگی کے معاشی شعبے میں اسلام کے اصول وقوا نین اسقدر واضح طور پر بیان کئے ھیںکہ خو د بخو د ھر حقدا ر تک اسکا حق پھو نچ جا تا ھے ۔سما جی نظا م حیات کو اس طرح مر تب کیا ھے کہ معا شرے کے تمام افراد ایک انسانی بدن کے اعضا ء کی مانند نظر آتے ھیں ۔ اگر پیر میں تکلیف ھو تی ھے تو آنکہ بھی اس درد کا احسا س کرتی ھے لیکن جو کام آنکہ کر سکتی ھے ، ایک پیر نھیں کر سکتا اور پیر سے ایسی تو قع رکھی بھی نھیں جا سکتی لھذا اسی وجہ سے معا شرہ کو فردی زندگی پر مقدم رکھا گیاھے ۔
اسلامی نقطئہ نظر سے کسی شخصیت کا معیار فقط وفقط تقویٰ ھے ۔ اسلامی معا شرے میں وھی شخص مقام و مرتبہ کا حامل ھے جو اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو خاطر خواہ طور پر انجام دیتا ھے ۔
اسی طرح نھج البلاغہ میں ذکر شدہ حکومت و سیاست سے متعلق امور و اصول معاشرے میں ممکنہ طور پر موجو د مسا ئل کا راہ حل بھی پیش کر تے ھیں ۔ نھج البلاغہ میں حضرت علی (ع) کے ذریعے ما لک اشتر کے لئے صا در شدہ فر مان میں ھر اس قا نو ن کامشا ھدہ کیا جاسکتا ھے جو حکو مت وعو ام کے را بطے کے متعلق ایک انسانی ذھن وضع کر سکتا ھے خواہ یہ قا نون کسی ایک ملک و مملکت سے متعلق ھو یا عالمی برادری کو مد نظر رکھتے ھو ئے بنا یا گیا ھو ۔ ساتھ ھی ساتھ حضرت علی (ع) کے اس فرمان کا خاصہ یہ بھی ھے کہ اس فرمان میں مو جو د ہ نکات اور پھلو ؤں تک ایک عام انسان کا ذھن پھو نچ بھی نھیں سکتا ۔
نھج البلاغہ کا طرئہ امتیا ز یہ ھے کہ اس نے مختلف النوع مضا مین ومطا لب کو اتنے جاذب اسلو ب میں بیان کیا ھے کہ گو یا یہ کتا ب ایک مسلسل مضمون پر مشتمل ھے۔ جھا ں ما وراء الطبیعت مسا ئل کا تذکرہ کیاگیا ھے ،قطعاًً ایسا محسوس نھیں ھو تا کہ عقل وقلب ان مسا ئل کے ادراک میں ایک دوسرے کی مخا لف جھت میں جارھے ھوں جبکہ فلسفے کی کتابو ں میں جب ایک فلسفی کسی مسئلے کی تحلیل کرتا ھے تو فقط عقلی نقطھٴ نظر کو مد نظر رکھتے ھوئے ۔ ایک فلسفی کے لئے ممکن ھی نھیں ھے کہ ایک ھی مسئلے کی تحلیل عقل وقلب دونوںاعتبار سے کر سکے ۔ یھی وجہ ھے کہ عقل فطر ی اور عقل عملی (1صطلاحاً جسے ادراک قلبی ووجد انی بھی کھا جاتا ھے ) کو ایک دوسرے سے جدا رکھا جاتا ھے کیونکہ رو ح انسانی میںان دونو ں حقیقتو ں کی روش مختلف ھے ۔
نھج البلاغہ کی ایک خا صیت یہ بھی بیان کی گئی ھے کہ جس حد تک انسان وکا ئنا ت کے متعلق حقائق و وا قعات اس کتاب میں ذکر کر دئے گئے ھیں، ان سے بالا تر حقا ئق کا تصو ر بھی نھیں کیا جا سکتا ۔ مثا ل کے طور پر جھا ں زھد وتقویٰ سے متعلق گفتگو کی گئی ھے وھا ں ایسا معلوم ھو تا ھے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ھو رھے ھیں جسکی ساری زندگی صرف اور صرف زھد وپا ر سا ئی کے در میان ھی گزری ھے ۔
اسی طرح جن مقا مات پر جنگ اور مقد مات جنگ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ھے وھا ں ایسا محسوس ھو تا ھے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ھو رھے ھیں جسکی ولا دت میدان جنگ میں ھو ئی ھے اور نہ فقط ولا دت بلکہ اس نے جنگ کے دوران ھی اس دنیا سے کوچ کیا ھے ۔
جھا ں حضرت علی (ع) نے دنیا کی بے ثبا تی اور متضا د صفات کا تذکرہ کیا ھے وھا ں محسوس ھو تا ھے کہ گو یا علی (ع) نے دنیا کی خلقت کے او لین مر حلے ھی سے بشر یت کے ساتھ زندگی گزاری ھے اور دنیا کے خاتمے تک تمام حوادث کا بذات خو د مشا ھدہ کیا ھے
مالک اشتر کو حکو مت وسیاست کے اصول تعلیم فر ماتے ھیں تو ایک عام انسانی ذھن خیا ل کر تا ھے کہ روز اول ھی سے امام (ع)نے اپنی زندگی انھیں امور کو انجا م دینے میں گزاری ھے ۔ آج جب کہ چا رو ں طرف زمانہ میں تمدن وتھذیب کا دور دورا ھے ،نھج البلا غہ میں مذکورہ دستور ات کے تحت معا شرے کو مکمل طور پر مھذب و متمدن بنا یا جاسکتا ھے ۔
جھا ں لطیف تشبیھات وکنا یات کا ذکر فرمایا ھے وھا ں محسوس ھو تا ھے گو یا آپ کی تمام عمر ادب وفنون لطیفہ کے در میان گزری ھے ۔تو حید کے ارفع وا علی مبا حث کے متعلق خطبہ ارشاد فرماتے ھیں تو تمام فلسفی گنگ ھو کر رہ جاتے ھیں ۔
مختصراً یہ کہ جس طرح حضرت علی(ع) کی شخصیت ایسی مختلف اور متضا دصفا ت کی حا مل ھے کہ کسی ایک فرد میں اسکا اجتما ع ممکن نھیں ھے اسی طرح نھج البلاغہ بھی مختلف ومتضا د فردی واجتما عی مسا ئل وا مور کا سمندر اپنے اندر سمو ئے ھو ئے ھے ۔
نھج البلاغہ سے متعلق ایک غور طلب نکتہ یہ بھی ھے کہ بعض سا دہ لو ح حقیقت سے بے خبریا با خبر لیکن خود غرض افرا د یہ سمجھتے ھیں کہ نھج البلاغہ سید رضی (رح) کی تخلیق ھے۔ ھاں! اتنا ضرور ھے کہ حضرت علی (ع) کی زبان سے جاری شدہ بعض الفاظ یا جملے بھی اس میں شامل ھیں ۔اس طرح کے بے بنیا د دعوے ابن خلکان سے شروع ھو ئے اور دوسرے افراد نے اسکی پیر وی کی ھے۔
اولاًسید رضی (رح)کے ذریعے تخلیق کر دہ علم وحکمت ا ور ادب پا رے ھما ری دسترس میں ھیں۔ انکا شعر ی د یو ان بھی کافی مشھور ومعروف ھے ۔ اگر سید رضی(رح) کو درجھٴ اول کے شعراء اور ادباء میں فرض بھی کرلیا جائے تو سید رضی (رح)ماھر اقتصادیات و سماجیات یا حکیم وغیرہ نھیں ھیںیعنی حضرت علی(ع)کے سماجی زندگی اور حکمت سے متعلق عام خطبا ت تک بھی سید رضی (رح)کے ذھن کی رسائی نھیں ھے ۔
ثا نیاً مو جو د ہ نھج البلا غہ میں مو جو د آنحضرت(ع) کے خطب ومکتو بات ، سےد رضی(رح) کی ولا دت سے پھلے ھی سے دوسری کتا بو ں میں بیا ن کئے گئے ھیں ۔ ایسا قطعاًً نھیں ھے کہ نھج البلا غہ سید رضی (رح)کی تخلیق ھے بلکہ فقط تعصب ، خود غر ضی اور جھا لت اس بے بنیاد دعوے کا سبب ھیں۔
ثالثاًکون ھے جس نے حضرت علی(ع) کے زمانے سے لیکر سید رضی بلکہ آج تک اس بلند و بالا فصا حت و بلا غت اور مختلف حقا ئق ومسا ئل کو اس قدر سلیس انداز سے ایک ھی اسلوب میں بیان کیا ھو ؟ ما قبل و ما بعد اسلام عرب میں مو جو د اکثر خطب و مکتو بات تاریخ میں موجو د ھیں اور سینکڑ وں کتابیں اس مو ضو ع پر لکھی گئی ھیں لیکن ایسی ایک کتا ب بھی مشا ھدے میں نھیں آسکی ھے کہ جسکا اسلو ب اور انداز بیان نھج البلا غہ کے در جے تک پھونچ سکے ۔
کس قدر مضحکہ خیز ھے کہ نھج البلا غہ کے مشھو ر و معروف خطبے” ان الد نیا دار مجا ز والا خر ة دار قرار “کو معا ویہ بن ابو سفیان سے منسوب کیا گیا ھے ۔ ”بیان اور تبیین “ میں جا حظ کے بقو ل معا ویہ کے پاس دنیا پر ستی اور حکو مت پرستی کی وجہ سے اتنی فر صت ھی کھا ں تھی کہ ان بلند وبالا مضامین ومطا لب میں اپنا سر کھپا سکتا ۔ اگر ” بیان اور تبیین “ کا مطا لعہ کیا جائے (سید رضی (رح)نے بھی عین عبارت کو نقل کیا ھے ) تو خود بخود وا ضح ھو جا ئیگا کہ معاویہ جیسے شخص کیلئے محال ھے کہ ان عالی مضا مین کے حا مل خطبے کو اپنی زبان سے جا ری کر سکے ۔
رابعاً سید رضی (رح) جیسی بلند شخصیت سے بعید ھے کہ کسی شخص کے کلام کو کسی دوسر ے شخص سے منسوب کرے ۔ بعض مخا لفین اپنے تقلید ی عقائد اور اعتقا دات کو ثابت کر نے کیلئے نہ فقط یہ کہ سید رضی (رح) جیسے عادل شخص کو فا سق اور دروغ گو ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٹھر اتے ھیں بلکہ حضرت علی (ع) کے وا لد بز ر گو ار جناب ابو طالب (ع) اور جناب ابوذر تک کو بھی کفار کی فھرست میں شامل کر دیتے ھیں ۔ ایسے افراد کیلئے سید رضی(رح) کو دروغ گو قرار دینا قطعاً اھمیت نھیں رکھتا کیونکہ تا ریخ میں بعض حضرات کے نزدیک کسی کو درو غ گو ثابت کر دینا بھی ایک فن ھے ۔
خا مساً اگر نھج البلاغہ وا قعی سید رضی(رح) کی تخلیق اور ذھنی کا و شو ں کا نتیجہ ھے تو پھر کیو ں سید رضی (رح)نے اسقدر ان کلمات وجملا ت کو از حد اھمیت دی ھے ۔ مثلاًایک خطبے کو نقل کر نے کے بعد سید رضی(رح) تحریر فر ماتے ھیں :” یہ خطبہ گز شتہ صفحات میں بھی نقل کیا جا چکا ھے لیکن روا یات کے اختلاف کی بنا پر یھاں اسکو دوبارہ نقل کیا گیا ھے ۔“ یا ” مذکورہ جملے ، گز شتہ خطبے میں دو سر ے انداز سے نقل کئے گئے تھے لیکن اختلاف کی وجہ سے یھاں دو بارہ نقل کیا جارھا ھے ۔“
نھج البلاغہ کو حضرت علی (ع) سے منسو ب نہ کر نے کی دوا ھم و جو ھات بیان کی گئی ھیں :
(1) ۔ طر فدا ران حضرت علی (ع) آپ کی بر تر ی ثابت کر نے کیلئے نھج البلا غہ کو بطور مثا ل پیش کر تے ھیں اورنتیجتاً کھتے ھیں :” اگر دوسرے افراد بھی حضرت علی (ع) ھی کی طرح بلند مقا مات و منا صب کے حامل تھے تو نھج البلا غہ کا کم از کم ایک تھائی یا چو تھا ئی حصہ ھی ان سے نقل کیا گیا ھو تا ۔ دوسرے الفاظ میں علی (ع) کے پا س نھج البلا غہ جیسا شا ھکا ر ھے، دوسرو ں کے پاس کیا ھے ؟“
(2) ۔ حضرت علی (ع) نے نھج البلاغہ میں اکثر مقا مات پر گز شتہ افرا د کے متعلق اپنی نا را ضگی اور عدم رضا یت وا ضح طور پر بیان کی ھے اور یھیں سے وا ضح ھو جا تا ھے کہ حضرت(ع) کے بارے میںرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فر ما ئشا ت کو ز مانے نے فرا موش کر دیا تھا ۔
نھج البلاغہ حضرت علی (ع) سے صا در ھو ئی ھے ، اس کے لئے عمدہ تر ین اور بھتر ین دلیل یھی ھے کہ تا حال نھیں سنا گیا ھے بلکہ غیر ممکن ھے کہ کو ئی دعو ی کر ے کہ نھج البلا غہ کا کوئی بھی خطبہ یا مکتو ب امیر المو منین (ع) سے صا در نھیں ھواھے کیو نکہ تمام شیعہ وسنی محدثین ومو رخین اس پر متفق ھیں کہ نھج البلاغہ کا کم از کم کچہ حصہ تو حتمی اور یقینی طور پر حضرت علی (ع) سے صا در ھو اھے اور اگر کو ئی شخص محد ثین و مور خین کے اس اتفاق کی تصدیق کردے ( اس بات سے انکار فقط اسی صورت میں کیا جاسکتا ھے جب اسلامی اصول وا حا دیث کو طا ق پر اٹھا کر رکہ دیاجا ئے ) تو اسکو لا محا لہ یہ اقرار کر نا پڑے گا کہ نھج البلاغہ از اول تا آخر حضرت علی (ع) سے صا در ھو ئی ھے کیو نکہ عربی ادبیا ت سے ذرہ برابر آشنا ئی اور واقفیت ر کھنے وا لا شخص بغیر کسی شک وتر دید کے کھہ دیگا کہ نھج البلاغہ فقط ایک اسلو ب اور سبک پر محیط ھے اور ایک ھی شخص سے صا در ھو ئی ھے۔
اگر خور شید کو بھی اپنی نور افشا نی کی تصدیق کیلئے دو سرے خود غرض افراد کی ضرورت ھو تی تو نہ جا نے کب کا اس کا ئنات کو الو داع کھہ چکا ھوتا اور کسی مجھو ل ومبھم گو شے میں پو شیدہ ھو کر رہ گیا ھو تا ۔