امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام نهج البلاغه میں نوع انسانیت کو اپنے نفس کے حساب کی طرف تاکید کرتے هوئے ارشاد فرماتے هیں:
فَحاسِب نَفْسَكَ لِنَفْسِك، فَاِن غَيرَها مِن الاَنْفُس لَها حَسيب غَيرُكَ۔
اپنے آپ کو اپنے لئے پرکھ لو اور محاسبہ کرو٬ چونکہ دوسروں کو پرکھنے اور محاسبہ کرنے کے لئے تمهارے علاوہ کوئی دوسرا موجود هے۔
هر کام میں ترقی کی مقدار کو معین کرنا اور پرکھنا اور محاسبہ کرنامقصد تک پهنچنے کے اسباب میں سے ایک سبب هے٬ کسی بھی ادارہ کے انتظام اور هدایت میں ایک وہ چیز جس پر مدیر کو همیشہ توجہ کرنا ضروری هوتی هے وہ هے محاسبہ کرنااور پرکھنا کسی کام یا ادارے کی ترقی کے صحیح اور دقیق حساب کے بغیر ممکن نهیں کہ اس کے طریقه کی صحت اور کامیابی کی امید کی جاسکے اور اس پر اطمینان کیا جاسکے اس کام میں کوتاهی بہت سے ناقابل معاوضہ نقصانات پهنچاسکتی هے اور سهولیات اور مواقع کے هاتھ سے نکل جانے کا باعث هوجاتی هے اور سب کوششیں اور اقدامات بےکار رہ جاتے هیں۔
هر انسانی فرد اپنے طرز عمل، انتهائی فیصلوں اور بنیادی اقدامات میں انتظام اور هدایت کی محتاج هے ایسا انتظام جو خود اسی کے ذمہ هے اس کے بغیر اپنے مقاصد کی پیروی اور آرزؤوں تک رسائی غیر ممکن هوتی هے٬ انسان کی سب سے اهم ذمہ داری یهی هے کہ اپنی سهولیات اور حدود کے مطابق، اپنے مقاصد اور پسندیدگی پر توجہ رکھتے هوئے، کمال اور کامیابی تک رسائی کے لئے اپنے رویّہ اور طریقہ میں معقول اور منطقی نظم رکھیں تاکہ بغیر منصوبہ اور بے مقصد اپنی سهولیات کو استعمال نہ کریں اور خسارت اور نقصان سے دوچار نہ هوں٬ انسان کے اپنے انتظام کا ایک بنیادی رکن انسان کا اپنا محاسبہ اور تعین هے یہ محاسبہ اور جانچ پڑتال جتنی بھی حقیقت پر مبنی ، تنقیدی اور عین مطابق واقع هوگی اور قریب تر هوکر کی جائے گی تو اتنا هی انسان کی اصلاح کی راہ میں اوردوباره غلطیوں سے بچنے میں اور غلطیوں کی تلافی کرنے میں موثر کردار ادا کریگی۔
اس محاسبے اور جانچ پڑتال کا مقصد یہ نهیں هے کہ اس کا نتیجہ دوسروں کے سامنے اعلان کیاجائے یا دوسروں کی شاباشی یا تنبیہ کا موضوع بنے! نهیں، بلکہ اپنے نزدیک اور اپنے لئے محاسبہ کرے اور اپنی جانچ پڑتال کرے کہ وہ کیا کیا سهولیات اور مواقع والا رها هے اور ان مواقع کو کن کن معاملات میں صرف کرتا رها هے؟ اور اس کی سرگرمیاں اور کوششیں کتنی اس کے مقاصد اور آرزؤوں تک رسائی کی سمت میں رهیں هیں؟ اپنے خاطرخواہ کمال کی طرف پهنچانے والی راہ کو کتنا طے کرنے میں کامیاب هوا هے؟ اس کی کتنی سهولیات بیکار ضائع هوگئی هیں؟ وہ کیا کرسکتا تھا جس سے اپنی سهولیات کو ضائع هونے سے روک سکے؟ اور کتنی ایسی سهولیات اور مواقع تھے جن کو جلد کمال تک پهنچنے کے لئے کام میں لاسکتا تھا؟ وہ کیسا تعاون اس راہ میں استعمال کرسکتا تھا اور کتنا اس کو استعمال کیا هے؟ گذشتہ تحریکوں اور کوششوں میں اس کی کامیابی کے اسباب اور رکاوٹیں کیا کیارهیں هیں؟ اور آخر کار وہ اس جانچ پڑتال کے ذریعہ یہ معین کرلے کہ مستقبل میں اس راہ پر چلنے کےلئے کیا کیا کام انجام دینے هیں؟ اور اپنے طریقے، آلات و راہ میں کیا کیا اصلاحات لانی هیں؟ اوراحتمالاً وہ کونسی غلطیاں هیں جن کی تلافی کی جاسکتی هیں؟ اور کس طرح کی جاسکتی هیں؟
البتہ بہت کم لوگ ایسے هیں جو ساٹھ ستر سال کی عمر میں اپنے آپ اپنا محاسبہ نہ کرتے هوں ، لیکن اب اس جانچ پڑتال اور محاسبہ کو دیر هوچکی هوتی هے اور اب وہ موثّر نهیں هوتا چونکہ اب اس کے نتائج سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع اور طاقت ختم هوچکی هے! اهم یہ هے کہ هم نوجوانی اور جوانی میں مشق اوریاددهانی کرکے اور دهرا دهرا کر اپنی جانچ پڑتال اور محاسبہ کوایک اهم کام مان کر اس کی طرف متوجہ هوں اور زندگی کی شروعات میں هی اپنی تحریک کے راستے کو منظم کریں اور اپنے بلند مقاصد اور ابدی کمال کی طرف مسلسل نظر رکھ کر اپنی سهولیات اور مواقع کا صحیح استعمال کریں۔
لیکن اب بھی دیر نهیں هوئی! اپنی زندگی کے روٹ میں ایک لمحہ اور ایک وقت غور و فکر اور تنقید و مطالعہ اور محاسبہ، ممکنہ نقصان و خسارت کو پہلے هی روک سکتا هے اور اپنی راہ و روش کو سدھارنے اور اصلاح کرنے میں مدد کرسکتا هے
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام، اسی تلخ حقیقت کی طرف متوجہ هونے کی وجہ سے کہ عام طور پر لوگ اپنی جانچ پڑتال اور مقایسہ سے غافل هیں بلکہ برعکس دوسروں کے اعمال و کردار کی جانچ پڑتال اور محاسبہ میں پڑے هوئے هیں، انتباہ کرتے هیں کہ «اپنا محاسبہ کرو» ، لیکن دوسروں کے لئے نهیں اور نہ هی دوسروں کے دکھاوے کے لئے، بلکہ « خود اپنے لئے »! اور جان لو کہ دوسروں کو تمهاری جانچ پڑتال اور محاسبہ کی ضرورت نهیں هے کوئی دوسرا موجود هے جو دوسروں کا حساب کتاب رکھتا هے اور ان کی جانچ پڑتال کرسکتا هے! تم اس سے زیادہ کہ دوسروں کے نقائص اور عیوب پر توجہ کرو اپنے عیوب کو دیکھو! چونکہ تمهاری توجہ سے استفادہ کرنے اور اپنی اصلاح کرنے میں جن کے لئے تمهاری توجہ کی ضرورت هے ان میں سب سے زیادہ مستحق خود تم هو! اس لئے کہ جو وقت تمهیں خود اپنی جانچ پڑتال میں صرف کرنا چاہئے وہ تم دوسروں کی جانچ پڑتال میں صرف کررهے هو؟!
حضرت علی علیہ السلام اس نورانی اور زندگی بخشنے والے کلام کو اس مقام پر بیان فرمارهے هیں کہ جب آپ اہل ذکرکی خصوصیت اور خاصیت بیان کرنے میں مصروف تھے اور ان کاطور طریقہ بیان فرمارهے تھے کہ: اہل ذکر وہ هیں کہ دنیوی مصروفیات اور روز مرہ معاملات ان کو انتهائی کمال اور اصلی مقصد سے غافل نهیں کرتے، یہ افراد لوگوں کو عدل و انصاف کی کا حکم دیتے هیں اور خود بھی عدل و انصاف سے کام لیتے هیں، لوگوں کو برے کاموں سے روکتے هیں اور خود بھی برے کاموں سے پرهیز کرتے هیں٬ ایسا لگتا هے کہ یہ لوگ دنیا سے کٹ کر جی رهے هوں اور اس کی گهرائی کا مشاهدہ کررهے هوں ، ۔۔۔۔
آخر میں امام علیہ السلام انتباہ کرتے هیں کہ اپنی جانچ پڑتال اور محاسبہ کرو اور دیکھو کہ کیا تم اہل ذکر هو یا نهیں؟ نہ یہ کہ ایک دم ا ن خصوصیات اور اقدار کی ترازو میں دوسروں کو تولنے لگو! دوسروں کو تمهاری جانچ پڑتال اور محاسبے کی ضرورت نهیں هے!
البتہ یہ خیال نهیں کیا جاسکتا کہ حضرت علی علیہ السلام کا یہ انتباہ، سماجی ذمہ داریوں کی نفی کے معنی میں هے چونکہ اہل ذکر کی ایک خصوصیت خود سماجی ذمہ داریوں اور امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کی طرف توجہ کرنا هے! بلکہ یہ انتباہ اپنی جانچ پڑتال اور نفس کے محاسبہ کو زیادہ تاکید کا موضوع قرار دیتا هے جو کہ خاطر خواہ کمال تک انسان کی رسائی میں کامیابی کی بنیادی اور اصلی شرط هے بغیر مسلسل محاسبہ اور دائمی جانچ پڑتال کے هم غفلت، اشتباہ، بھول چوک، سستی، توقف، انحراف اور خاطر خواہ منزل تک نہ پهنچنے سے دوچار هوجائیں گے۔
اپنی حقیقی اور صادقانہ دیکھ بھال اور جانچ پڑتال اور اس کے نتیجہ کو اپنی حرکت کے سدھار اور اصلاح میں استعمال کرنا ایک اهم قدم هے جس کے بغیر حضرت امام علی علیہ السلام کی راہ سے کوئی ناطہ نهیں جوڑا جاسکتا اور اس کے بغیر ایسا هرگز نهیں هوسکتا!