مولائے متقیان امیرمومنان حضرت علی علیه السلام السلام نهج البلاغه کلمات قصار نمبر 89 میں ارشاد فرماتے هیں:
مَن اَصْلَح ما بَيْنَه وَبَيْن اللّه اَصْلَح اللّه ما بَيْنَه وَ بَيْن النّاس۔
اگر انسان اپنے اور خدا کے درمیان اصلاح کرلے خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کردیتا هے۔
انسان کی ایک خصوصیت اُس کی سماجی زندگی هے اور اجتماعی زندگی کا لازمہ وہ مختلف طرح کے تعلقات هیں جن کے ماتحت سماج کے فرد کا مختلف گروهوں ، طبقوں، صنفوں اور سماج کے دیگر افراد سے تعلق برقرارهوتا هے۔ معمولاً یہ تعلق مختلف افراد سے ان کی نسبت کے مطابق انجام پاتا هے جو اس کے اور ان افراد کے درمیان هے۔ صنفی، سیاسی، اداری، کاروباری، قبیلہ ای، قومی، خاندانی، دوستانہ، عالمی، دینی، ثقافتی، اقتصادی، روحی، معنوی، اخلاقی تعلقات کی طرح مختلف ایسے تعلقات هیں جو انسانوں کے ایک فرد یا بہت سے افراد کے دوسرے انسانوں سے برقرار هوتے هیں اور ان تعلقات میں دوسرے شخص یا اشخاص کے لئے مختلف ذمہ داریاں اور توقعات اورکردارنبھانا یقینا ضروری هے ۔
وہ افراد جن سے آپ کے تعلقات هیں اورآپ ان کے متعلق طرح طرح کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے هیں اگرآپ اس احساس ذمہ داری کے بدلے ان سے اپنی توقعات اور اپنے سے ان کی بے جا یا بجا توقعات کرنے کی ایک فهرست بنالیں تو معلوم هوگا کہ کس طرح هر شخص کتنے وسیع اور پیچیدہ روابط کے نیٹ ورک میں خواہ نخواہ پھنسا هوا هے اوراس کو اس نیٹ ورک کو منظم کرنا چاهئے۔ اس روابط کے نیٹ ورک کو معتدل کرنا اورمنظم کرنا وہ بھی اس طرح سے کہ انسان حیرانی، تضادو تعارض سے دوچار نہ هو اور ان روابط کے پیچیدہ اور بالمقابل جال میں انسان اپنے آپ سے غافل نہ رہ جائے اوراپنی ابدی کامیابی اور انتهائی کمال کو غفلت اور بھول چوک کے سپرد نہ کردے٬ یہ کام بہت دشوار اور اهم، لیکن قسمت ساز هے۔
بعض لوگ اس وجہ سے کہ وہ اپنے روابط میں ایسی توجہ اور تعادل برقرار نهیں کرسکتے٬ حیرانی اور پریشانی میں مبتلا هوجاتے هیں اور آخر کار اپنے هر طرح کے روابط میں مدّمقابل کی توقعات اور ذمہ داری کے مطابق اپنا کردار نبھاتے هیں اور نفاق کا شکار هوجاتے هیں یهاں تک کہ وہ خود اور اس کے اردگرد کے لوگ اس کے تضاد اور تعارض سے آگاہ هوجاتے هیں لیکن اس کو اتنا اهم نهیں مانتے! یهاں تک کہ کبھی کبھی یہ خیال کیا جاتا هے کہ سماجی زندگی کا لازمہ یهی هے کہ هر شخص اور جماعت سے وهی مخصوص رابطہ رکھا جائے جو اس شخص یا جماعت کے لئے خاص طور پر مناسب معلوم هوتاهے! یهاں پر جو بات بھولی جاتی هے وہ یہ هے کہ انسان کی کامیابی کی راہ، حقیقی اور ابدی حیات کے لوازم اور ضرورتیں کس راہ اور رفتاروگفتار کے طالب هیں! البتہ انسان کے روابط کی جدت اور مختلف روابط میں مختلف ذمہ داریاں اورتوقعات، طبیعی طور پر الگ الگ برتاؤ کی موجب هیں لیکن اگر یہ الگ الگ طرح کے برتاؤ ایک اصول کے تحت بیان نه هو اور ایک قانون کے دائرے میں نہ آئے تو انسان کو نفاق سے دوچار کردیتا هے جو اندرونی تعارض اور روحی کشمکش کا باعث هوتا هے۔
اگر انسان اپنے دوستوں، ساتھیوں، مافوق افراد، اور ماتحتوں، والدین، بیوی بچوں، پڑوسیوں، محلہ والوں، مربوط اداروں، حکومتوں، هم مذہبوں، هم شهریوں وغیرہ کے درمیان اگر ایک معین اصول کی رعایت نہ کرے اور اپنے تعلقات کو منظم کرنے میں باوجود مختلف ذمہ داریوں اور توقعات کے ایک قانون کو جاری و ساری نہ کرے تو قطعی طور پر حیرانی و سرگردانی سے دوچار هوجائے گا اور آخرکار ممکن هے کہ نفاق میں مبتلا هوجائے! اب سوال یه هے که همیں کیا کرنا چاهئے کہ مختلف اور پیچیدہ سماجی روابط میں ایسے نتائج سے روبرو نہ هوں۔
بعض لوگوں نے جب انسان کے مستقبل میں اس اهم اور حیاتی نکته پر توجہ کی تو انھوں نے انسانی اور اخلاقی اصول کی رعایت اور صحیح و سالم نفس کی حفاظت کے لئے جو انسان کی کامیابی میں قطعی طور پر اثر انداز هے٬ اس پریشانی کے حل کا راستہ روابط کم کرنا اور سماج سے کٹ کر رہنا مانا هے٬ بعض اخلاقی اورعرفانی کتابوں اور تحریروں میں بھی «عزلت» سماج سے کنارہ کش هونے اور سماجی مختلف گروهوں، صنفوں اور طبقات سے رابطہ کم کرنے کے معنی میں بیان کیا گیا هے اور سماج سے دوری اختیار کرنے اور زیادہ اورغیرضروری میل جول سے پرهیز کی نصیحت کی گئی هے۔ بعض لوگوں نے بھی (دانستہ یا نادانستہ) نفاق اور چند طرح کی باتیں کرنے کوسماج کے اجتناب ناپذیر اصول کے طور پر مان لیا هے اور ان کو اصول اور آداب معاشرت سمجھ لیا هے اور ان کی نظر میں هر جماعت کے رنگ میں رنگ جانا، دینداروں سے دینداری کا اظهار کرنا اور فاسقوں کے ساتھ گناہگار بن جانا٬انھوں نے سماجی اصول اور آداب میں مان لیا هے! ان افراد کی نظر میں زندگی کا بسر هونا اور انسان کے لئے سهولیات مهیا هونا اسی اصول کے تحت هے کہ انسان هر ماحول میں اور هر صنف اور طبقہ اور جماعت کے ساتھ ان کے لحاظ برتاؤ کیا کرے! اس روش کا نتیجہ یہ هوتاهے کہ انسان اس طرح زندگی بسر کرے جیسا کہ لوگ چاہتے هیں نہ یہ کہ جیسا خود وہ چاہتاهے! اس صورت میں انسان خود بخود ایسا کام کرتے هیں جس کا «ماحول» اور «حالات» چاهتے هیں نہ یہ کہ اس طرح عمل کریں جو کامیابی اور کمال کا لازمہ اور مقدمہ هے! وہ ایسی بات کرتے هیں جو لوگوں کو پسند هے اور لوگوں کو مقبول هے نہ کہ وہ بات جو ان کے عقیدے اور آرزو سے بلند هوتی هے اور کہنے سننے والے کے لئے مفید اورلازم هے! سماجی زندگی میں اس روش کا طبیعی نتیجہ شخص کا جمعیت میں کھوجانا اور کمزورهوجانا اور افراد کا اپنی پہچان کھودینا هے جس کا نتیجہ اپنے سے غفلت اور «خود کو بھلا دینا»هے!
امام علی علیہ السلام نے مختصر جملوں میں ایک تیسری روش کو اس اهم اور مشکل مسئلہ کے حل کے لئے بیان کیا هے جس میں نہ تو سماج سے کٹ کر رہنا اور مختلف وسیع روابط جو سماجی زندگی کا لازمہ هے اس سے کنارہ کش هونا اور نہ هی سماج میں هضم اور فنا هوجانا اور کئی کئی چهرے اور کئی کئی زبان بدلناهے! بلکہ دوسروں سے رابطہ قائم کرنا٬ اپنے اور خدا کے درمیان رابطے کو منظم کرنے کی بنیاد پر هو۔
جی هاں! سمجھدار اور معتقد انسان وہ هے جو اپنی زندگی میں اصول اور منطقی حقیقی قواعد رکھتاهو اور اپنے لئے کچھ قدر و اصلیت کا قائل هو کوئی ایسا بھی هے جو یہ نهیں چاہتا کہ اپنی زندگی کو دوسروں کی پسند کے مطابق منظم کرے بلکہ وہ اپنی کامیابی اور کمال کی فکر میں هے اور دوسروں سے رابطے کو ( تنوع، پیچیدگی اور ضرورت کے باوجود) اپنے رشد اور بلندی کا زمینہ مانتا هے اور اس متنوع اور پیچیدہ روابط کو خدا سے رابطے کے طول میں قرار دیتاهے اور دوسروں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا هے کہ جس کی وجہ سے اهم اور مستقبل سازالٰهی رابطے پر برا اثر نہ پڑے۔ پہلے تو خدا کے ساتھ اپنے عرفانی، ولایتی، عبادی اور الٰهی رابطے کو منظم کرتا هے٬ پھر دوسروں کے ساتھ چاهے وہ کوئی بھی هوں اور کسی بھی طبقہ سے هوں اور کسی بھی نسبت، درجہ اور گروہ سے متعلق هوں اورچاهے وہ اس سے کوئی بھی امید یا توقع رکھتے هوں ایسے روابط منظم کرتا هے جو ان کو بندہٴ خدا مانتے هوئے هے اور جس طرح ان سے تعلقات رکھنے میں خدا نے مصلحت قرار دی هے اور عقل اور وحی کے ذریعہ اس کی رہنمائی کی هے اس صورت میں اول تو سماج سے کٹ کر رہنے کی کوئی ضرورت نهیں هے دوسرے یہ کہ وہ تعلقات اور روابط جو ایک شخص دوسرے شخص سے برقرار کرتا هے وہ انسان کی تکاملی سیر اور کامیابی کی راہ سے مطابق اور موازن هونگے، تیسرے یہ کہ مختلف جماعتوں اور گروهوں سے انسان کی گفتار و کردار میں کوئی تعارض اور تضاد نهیں پایا جائے گا اور آخرکار ظاهرداری، لحاظ، دوسروں کی خوش آمد کهنا٬ آنے پر لعن و طعن کرنا، تعریف و تمجید، یا بعض معاملات میں لوگوں کی رد اور انکارمیں انسان کا کردار نهیں ڈھلے گا بلکہ یہ سب معاملات اور اسباب جهاں اپنا کردار نبھاتے هیں اور مؤثر هوتے هیں وهاں هی انسان اور خدا کے درمیان رابطے کے قانون میں ڈھل جائیں گے اس راہ حل میں ایسا نهیں هے کہ سماجی مصلحت، اخلاقی لحاظ، ماحول کے خاص تقاضے اور زمان و مکان کے حالات اور مواقع ایک انسان کے دوسرے سے رابطے میں اثر انداز نہ هوتے هوں لیکن یہ سب اسباب بھی ایک بامقصد دائرہٴ کار میں انسان کے خدا سے رابطے کے اندر جانے پہچانے اور منظم کئے جاتے هیں۔
جی هاں! جوشخص اپنے اور خدا کے درمیان رابطے کی اصلاح کرلے اوراس کومنظم کرلے یعنی خالص خدا کا بندہ هوجائے اور محض خدا کی معرفت، محبت، عبادت اور اطاعت تک پهنچ جائے گا اور اس کے علاوہ کسی کو اپنا مطلوب، محبوب اور مراد نهیں مانے تو خدا اس کے اور دوسروں کے درمیان یعنی تمام افراد ، جماعتوں، حقیقی اشخاص اور اداروں، گروهوں، صنفوں اور طبقات وغیرہ کے درمیان رابطے کا انتظام کردیگا اور انهیں بهتر بنادے گا۔ اس صورت میں همارے اور دوسروں کے روابط میں یہ انتظام اور اصلاح جو تشریعی اور تکوینی دونوں پہلو سے خدا کی جانب سے هی هے اس معنی میں هے کہ جو دین خدا میں کرداری اور اخلاقی اصول و قواعد بیان هوئے هیں ان کی بنیاد پر یہ روابط منظم هوتے هیں اوریہ کہ روابط میں دوسری جانب کے افراد کے ذہن، دل اور کردار بھی اسی سمت هدایت کئے جاتے هیں جو انسان کی مصلحت اور اس کے کمال سے متعلق هے اور خدا دلوں کا مختار هے اورجو کچھ اس کے ایک حقیقی مومن اور سچے بندے کے لئے خیر و مصلحت میں هے خود انسان کے اپنے حساب کتاب اور ملحوظات سے بھی بهتر طریقے سے اس کے لئے فراهم کریگا، البتہ یہ دلوں کی هدایت اس وقت هوتی هے جب هم خدا کے تشریعی انتظام اور اصلاح کا خیال رکھیں اور اس پر توجہ رکھیں اور اس پر عمل پیرا هوں! پیغمبران الٰهی کے پیغام کا دلوں میں راسخ هوجانا، انسانی معاشروں میں شریعت اور الٰهی ثقافت کا پھیلنا اور اولیاء اللہ کی کامیابیاں یہ سب امام المتقین امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام کو درست ثابت کرتی هیں اور اس بات میں کوئی شک نهیں چھوڑتی کہ همارا دوسروں سے بهتر تعلقات کے بنانے اور اصلاح کرنے کا واحد راستہ( چاهے انفرادی سطح پر هو یا سماجی سطح پر) یہ هے کہ هم اپنے اور دوسرے کے روابط کو اپنے اور خدا کے درمیان روابط کے طول میں سمجھیں اور طول میں هی قرار دیں اور بجائے اس کے هم روابط کے عظیم و وسیع چائنل کو منظم اور همنوا کرنے کی کوشش اور تدبیر کریں فقط ایک رابطے کو جو مستقبل ساز، اطمینان بخش، پر اعتماد اور اٹوٹ هے اس کو منظم کریں اور اس کو هی بنیاد اور اصول قرار دیں اس طرح سے همارا دوسروں سے تعلق بھی بحال هوجائے گا اور هر قسم کی تشویش، کشمکش اور اضطراب ختم هوجائے گا اور یہ حقیقی توحید کا ایک بهترین، خوبصورت ترین، کارساز ترین، اور اهم ترین جلوہ هے جو انسان کے سماجی روابط کو بحال کرنے میں بنیادی کردار نبھاتا هے۔ ایسا کردار جو بے نظیرهے جس کے بغیرانسان اس کوشش میں کامیاب نهیں هوسکتا کہ اپنے سے دوسروں کے درمیان روابط کے اهم مسئلے کو نفاق، بے خودی، اور اپنی اصلیت کو کھوئے بغیر حل کرسکے۔ اس معجز نما کلام کو سوائے حضرت علی بن ابیطالب(علیه السلام) کے کون بیان کرسکتا هے جنھوں نے خود معرفت اور عمل میں اس روش کو بلند ترین مصداق کے ساتھ آزمایا هوا هے اور سوائے اس راہ کے اور کونسا ایسا راستہ هے جو توحید کی روش پر کامل امام(علیه السلام) کی پیروی میں طے کیا جاسکے؟ اور هم اِس طرح اپنی اصلاح میں ایک قدم اٹھاسکتے هیں۔