معرفت الٰہی


    معرفت کالغوی اور اصطلاحی معنی لفظ معرفت ’’عرف‘‘  سےمشتق ہے اور لغت میں اس کا معنی ہے ’’کسی چیز کیذات،آثار اور خصوصیات کے بارے میں علم حاصل کرنا‘‘ (١)جبکہ اصطلاح میں کسی چیز کو اس کے غیر سے ممتاز کردینے کو اس چیز کی معرفت کہا جاتاہے ۔

فرق بین علم و معرفت:

    علم و معرفت کے درمیان فرق یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی تصویر ذہن میں آجاۓ اور اسے حواس خمسہ کے ذریعہ درک کیا جاۓ۔ تو یه اس شی کا علم کہلاتا ہے اور چونکہ اللہ تعالی انسانی تصور سے بالا تر ہے ،حواس خمسہ بھی اس کے ادراک سے عاجز ہیں  لہذا خداوند عالم کے بارے میں لفظ’’علم‘‘استعمال نہیں ہوتا بلکہ لفظ ’’معرفت‘‘استعمال ہوتا ہے مثلا علمت اللہ نہیں کہا جاۓ گا بلکہ عرفتُ اللّہ  کالفظ استعمال ہوگا۔(٢)

معرفت، انسانی جوہرکمال:

  انسان کی حقیقی قدرو قیمت اورجوہر کمال ہے۔ وہ علم و معرفت کی جس بلندی پر فائز ہوگا اسی کے مطابق اس کی قدر ومنزلت ہوگی۔ چنانچہ جوہر شناس نگاہیں شکل و صورت، بلندیِ قدو قامت اور ظاہری جاہ و حشم کو نہیں دیکھتیں بلکہ انسان کے علم وہنر کو دیکھتی ہیں اور اسی ہنر کے لحاظ سے اس کی قیمت لگاتی ہیں ۔

  زآنکہ ہر کس را بقدر دانش او قیمت است

احادیث میں علم و معرفت کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئ ہے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:’’قیمة کل امری ما یحسنہ‘‘ (٣)محجة البیضا میں بھی یہ جملہ نقل ہوا ہے:" قیمة کل امری ما یعلمہ"(٤)ہر شخص کی قیمت اس کی دانش ہے ۔
امیر المومنینعلیہ السلام کا یہ کلام اس بات کی نشان دہی کررہا ہے کہ ہر انسان کی ارزش اس کے علم و معرفت کے مطابق ہے۔ البتہ دنیا میں رائج علوم کے انسانی تکامل میں کردار کے مطابق مختلف مراتب ہیں ،جو علم انسانی تکامل میں جتنا موثر کردار ادا کریگا وہ علم اتنا ہی قیمتی ہوگا ، مثلا علم طب کا اگرچہ انسانی زندگی میں بنیادی کردار ہے مگر چونکہ دنیا تک محدود ہے لہذا اس کی قیمت بھی دنیا تک محدود ہوگی ، اسی تناسب سے معرفت الہی کی قدر وقیمت ہمارے سامنے واضح ہوجاتی ہے ۔

١:معرفت الہی کا انسانی تکامل میں کردار

٢:معلوم کی قدر ومنزل

معرفت الہی سے بڑھ کر اور کسی بھی علم کا انسانی تکامل میں بنیادی کردار نہیں ہے۔ اور معلوم کی قدرومنزلت بھی بے انتہا ہے لہذا اس علم کی قدروقیمت کا اندازہ لگانا انسانی تصورات سے بالاترہے ۔

معرفت الٰہی کی اہمیت

انسانی تکامل میں معرفت پروردگار کا بنیادی کردار ہے ،اگر انسانی ذہن کسی معبود کے تصور سے خالی ہوتو نہ اطاعت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ کسی آئین کی پابندی کا ۔کیونکہ جب کوئ منزل سامنے نہ ہوگی تو منزل کی سمت بڑھنا بے معنی ہوگا، اور جب کوئ ہدف پیش نظر نہ ہوگا تو اس کےلۓ تگ ودو کرنے کا کیا مطلب ہے؟!البتہ جب انسان کی عقل و فطرت ،اس کا رشتہ کسی مافوق فطرت طاقت سے جوڑ دیتی ہے اور اس کا ذوق پرستاری و جذبہ عبودیت اسے کسی معبود کے آگے جھکا دیتا ہے تو وہ من مانی نہیں کرتا اور اپنے آپ کو قانون کے دائرہ میں محدود کرلیتا ہے ،اسی قانون کا نام دین ہے۔ جس کا نقطہ آغاز خالق کی معرفت ہے۔ حضرت امیر المومنین نے فرمایا: ’’اول الدین معرفتہ‘‘ (٥)دین کی ابتدا  اس کی معرفت ہے ۔اسی سلسلہ میںآپ نے ایک اور مقام پر فرمایا:’’من عرف اللّٰہ کملت معرفتُہ‘‘ یا فرمایا ’’معرفة اللّٰہ سبحانہ اعلی المعارف‘‘:جس نے اللہ کو پہچانا اس کی معرفت کامل ہوئ۔(٦) اللہ تعالی کی معرفت سب سے برتر معرفت ہے۔ (٧) بے شک معرفت الہی کو باقی تمام علوم سے وہی نسبت حاصل ہے جو سر کو بدن سے ۔اگر معرفت خدا کو علوم سے جدا کردیا جاۓ تو علم ایک ناقص وجود کی صورت میں سامنے آۓ گا ، جو قدرت تعقل و تفکر سے عاری ہوگا اور ایسا عالم ، انسانی شکل میں ایک ایسے لاش خور کی مانند ہے جس کے منہ میں مردار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان صنعتی ترقی کے دور میں معرفت الہی سے بے بہرہ ہونے کے سبب انسانی قدروں کو روندتے ہوۓ ، اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کا سازو سامان مهیا کررہا ہے ۔

معرفت الہی کی حدود

خداوند متعال کی حقیقی معرفت (کنہ ذات خداوند متعال) ، انسانی عقل کی وسعت و طاقت سے بالاتر ہے بلکہ ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین بھی اس متحیر العقول وادی میں قدم نہیں رکھ سکے ۔منقول ہے:

  ’’ان اللّٰہ احتجب عن العقول کما احتجب عن الابصار و ان الملا الاعلی یطلبونہ کما تطلبونہ انتم‘‘(٨)

   ذات پروردگار عقلوں سے اسی طرح پوشیدہ ہے جس طرح آنکھوں سے اوجھل ہے۔ جس طرح تم اس کی جستجو میں ہو اسی طرح ملآ اعلی کے مکین بھی اس کی تلاش میں ہیں۔

کسی چیز کی حقیقت اور کنہ ذات تک رسائی کےلۓ اس پر احاطہ ضروری ہے چونکہ اللہ تعالی پر کسی کا احاطہ نہیں ہے بلکہ وہ’’ علی کل شئ محیط ‘‘ہے لہذا کوئی بھی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔رسول اعظم(ص) کا یہ فرمان اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے :

’’ما عرفناک حق معرفتک‘‘(٩):خدایا تیری معرفت کا جیسا حق ہے تجھے، نہیں پہچان سکے.

امام عرفان علی علیه السلام نے فرمایا:’’لا یدرکہ بُعد الھمم و لا ینالہ غوص الفطن...‘‘(٠١)نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں ، نہ عقل و فہم کی گہرائاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں .

اس کی ذات کے کمالات کی کوئی حد معین نہیں ہے۔جب اولیاۓ الہی اور کامل و اکمل ہستیاں حقیقتِ ذات کی شناخت سے اظہار عاجزی کرتے دکھائ دیتے ہیں تو عام انسانوں کا مقام معرفت واضح ہوجاتا ہے  .

معرفت الہی میں شرعی وظیفہ کے حدود

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف کنہ ذات تک رسائ ممکن نہیں دوسری جانب شریعت مقدس اور عقل سلیم نے خدا کی معرفت کو مورد تاکید قرار دیا ہے صرف یہی نہیں بلکہ معرفت الہی کو مقصود زندگی اور عظیم ترین معرفت سے تعبیر کیا ہے اور اسے دین کی پہلی اصل اور شریعت کی بنیاد سے تعبیر کیا ہے لہذا اس کا راہ حل کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ واجبات الہی اوراحکام شریعت ، انسانی قدرت کے مطابق ہیں اور تکلیف ما لا یطاق(غیر مقدور عمل کو انجام دینے کا حکم ) شریعت میں نہیں ہے ۔ ورنہ ظلم و جبر لازم آتا ہے۔ لہذا معرفت الہی کی اتنی مقدار واجب ہے جتنا ایک انسان کے بس میں ہے  (١١)

معرفت الہی کی اقسام

الف:مقام ذات کی معرفت :  مقام ذات کو ہویت مطلق ،کنہ(گہرائی ، حقیقت)  ذات اور مرتبہ غیب الغیوب سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ مرتبہ انبیاۓ مرسلین اور مقرّب ملائکہ کی طاقت سے بھی باہر ہے ۔ نہ حکماۓ عقول یہاں پہنچ سکتے ہیں اور نہ عرفا کے قلبی شہود ۔لہذا یہ مرتبہ دائرہ تکلیف سے باہر ہے ۔

ب: صفات ذات کی معرفت:اس مرتبہ کو کنہ (گہرائی ، حقیقت) صفات ذاتی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہ مقام بھی مقام ذات ہی کے حکم میں ہے اس لۓ کہ صفات ذات ،عین ذات ہیں۔یہ مرتبہ بھی احکام شریعت اور واجب الہی کے دائرہ سے خارج ہے ۔

 ج:صفات فعلی کی معرفت:  اگرچہ صفت فعلی اسی ذات کا ظہور ہے لیکن چونکہ مقام ذات سے جدا ہے لہذا برہان عقلی اور شہود عرفانی کے ذریعہ ان کا ادراک ممکن ہے۔ البتہ ہر انسان اپنی طاقت اور ذہنی وسعت کے مطابق ان مراتب کو درک کرتا ہے۔ انسان آیات الہی میں جتنا تدبر کرےگا ، معرفت کے مراتب طے کرتا جاۓ گا۔معرفت الہی کا واجب ہونا اسی قسم پر تطبیق ہوتا ہے اس مقام معرفت میں بھی ،معرفت الہی کی اتنی مقدار واجب ہے جہاں تک انسانی ذہن کی رسائی ممکن ہے۔ معرفت کی یہ قسم فقط اسماء حسنٰی اور صفات علیا (صفات فعلی) سے مخصوص ہے اور اسی مرحلہ میں انسان، کمال کا سفر طے کرسکتا ہے البتہ معرفت کی بلندیاں طے کرنے والے اس مرحلہ میں بھی جب اظہار معرفت کرتے ہیں تو انکساری اور عاجزی کو ہی اوج معرفت بیان کرتے ہیں ،جیسا کہ پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے:’’ما عرفناک حق معرفتک‘‘

آقا ۓ علی مدرس زنوزی نے اس حدیث کے مفہوم کوان لفظوں میں بیان کیا ہے: خدایا تیری معرفت کا حق ،معرفت سے عاجزی کا اعتراف ہے ۔مقام شکر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ہمیںیہی تعلیم دی ہے ۔آپ بارگاہ ربّ العزت میں عرض کرتے ہیں: ’’فکیف لی بتحصیل الشکر و شکری ایاک یفتقر الی شکرفاشکر عبادک  عاجز عن شکرک(۱۲) ’’خدایا تیرا شکر کیسے ادا کروں جبکہ اداۓ شکر کے لۓ مجه پر ایک اور شکر واجب ہوجاتا ہے، میرا ہر شکر تیرے ایک اور شکر کا محتاج ہے خدایا تیرے بندوں میں سب سے زیادہ شاکر وہ ہے جو شکر ادا کرنے میں عاجزی کا اظہار کرے‘‘۔ رسول خدا ، حمد و ثناۓ پروردگار میں اظہار عاجزی کرتے ہوۓ فرماتے ہیں : لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک(۱۳) خدایا جس طرح تو نے اپنی ثناکی ہے میں اس طرح ثنا کرنے سے عاجز ہوں۔

فصل  ٢ :  معرفت الٰہی کا ذریعہ

خدا شناس فطرت

  اگرچہ خدا کا وجود انسانی فطرت کی صدا ہے ، مگر فطرت ، اجمالی طور پرفقط ایک کامل و اکمل ذات کی نشاندہی کرتی ہے جو اس عالم ہستی کی خالق اور مدبر ہے، لیکن فطرت مصداق کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ فطرت کو نور عقل سے منور کیا گیا ہے مگر اسکی ضیاء  محدود ہے ۔لہذا جب بھی کوئی معرفت کی تلاش میں عقل کی روشنی میں فطرت کی انگلی تھام کر چلے گا تو تھوڑی دیر بعد راستہ مسدود دکھائی دے گا، اور منطقی شعوربھی تھوڑی دور تک راہنمائی کرکے تھک ہار کر آواز دے گا:اے سیروسلوک کے مسافر !آگے کا سفر میرے بس میں نہیں ہے یہ حیران کن وادی ہے ،جس میں نورِ وحی درکار ہے ،کسی ایسے مرکز علم کو تلاش کر جو تجھے تیرے حقیقی مالک کا پتہ بتا سکے ، اور تیرے رب کی پہچان کراسکے اور اس کی مرضی کے مطابق تیرے عملی وظیفہ سے بھی تجھے آگاہ کرسکے۔ فطرت آواز دے گی کہ اے انسان ! کسی ایسے دروازے پر دستک دے جس کا رابطہ عالم ملک سے عالم ملکوت تک ہو، اس کا زاویہ نظر ، عالم مادہ کی سرحدوں کو توڑ کر عالم موجودات تک جا پہنچا ہو ،وہ ایک ایسے خالق و مدبر کا پتہ بتاۓ جو قرآنی ’’محکمات‘‘کی تفسیر ہو،جسم و جسمانیت،نزول ،احتیاج اورتشبیہ سے منزہ ہو، اس کی صفات عین ذات ہوں اور’’ قدماۓ ثمانیہ‘‘ کی مشکل حل ہوسکے۔

ائمه معرفت کا ذریعه

 وہ کونسا دروازہ ہے جو حقیقی معبود سے آشنا کرادے؟

وہ دروازہ ، در اہلبیت ہے ، اہلبیت شہر علم کا عظیم دروازہ اور ساقی علم لدنی ہیں، جو تشنہ حقیقت کو سیراب کرتے ہیں،جو وادی معرفت میں امیر کارواں ہیں، جو سیر وسلوک کے مسافروں کی راہنمائی کرتے ہیں اورہدایت کے سب راستے دروازہ اہلبیت تک منتہی ہوتے ہیں ۔ رسول اکرم اور آپ کا پاک خاندان ہدایت کے روشن چراغ ، عبد کو معبود تک پہنچانے کا ذریعہ اور وہ مضبوط رسی ہیں جو انسان کو اپنے مالک سے ملا دیتی ہے۔ زیارت جامعہ کا یہ جملہ اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے: ’’السلام علی آئمة الھدی و مصابیح الدجی و اعلام التقی و ذوی النھی و اولی الحجی و کھف الوری و ورثة الانبیاء و المثل الاعلی‘‘(۱۴)

جناب علی مرتضی سفر معرفت کے امیر کارواں ہیں ، جنہوں نے رسول خدا کی زیر نگرانی علمی کمالات حاصل کۓ۔ خطبہ قاصعہ میںآپ اپنی تربیت کا حال بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :

       ’’اللہ نے روح القدس کو رسول خدا کے ہمراہ کردیا تھا جو انہیں پاک خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر لے کرچلتا تھا اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے لگا رہتا ہے ۔آپ ہر روز اخلاق حسنہ کے علم بلند کرتے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے ، میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا...‘‘(۱۵)

امیر المومنین علیہ السلام وہ پہلے مفکر اسلام ہیں جنہوں نے خداوند عالم کی توحید اور اس کے صفات کو عقلی نقطہ نظر سے مورد بحث قرار دیا ۔آپ نے اس سلسلہ میں جو خطبات ارشاد فرماۓ ، وہ علم الہیات میں نقش اول بھی ہیں اور حرف آخر بھی ۔آپ کی بلند نظری اور معنی آفرینی کے سامنے حکما و متکلمین کی ذہنی رسائیاں ٹھٹک کر رہ جاتی ہیں اور کہنہ رس طبیعتوں کو عجر و نارسائی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔

ابن ابی الحدید نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوۓ لکھا ہے: حکمت الہیہ اور معارف توحید پر عقلی استدلال کرنا اصل عرب کا فن نہ تھا بلکہ فقط حکماۓ یونان اور اہل معرفت ہی ان مباحث کو بیان کرتے تھے۔ قوم عرب میں سب سے پہلے جس نے ان علوم کو متعارف کرایاوہ علی بن ابی طالب ہیں.(١۶)

ابن ابی الحدید ایک اور مقام پر بزرگ صحابہ کی عجز و نارسائی کا اعتراف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :توحید،عدل اور الہی معارف فقط علی ابن ابی طالب کے ذریعہ پہچانے گۓ اور آپ کے علاوہ اکابرین صحابہ میں کسی سے کوئ ایسی بات نقل نہیں ہوئی کیونکہ ان کے اذہان ان مسائل کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ورنہ وہ ضرور اسے بیان کرتے .(١٧)

علم و عرفان آئمہ کا معیار فضیلت

 آئمہ معصومین علیہم السلام کی ذات گرامی میں اگرچہ متعدد ایسے فضائل اور امتیازات پاۓ جاتے ہیں جو عام انسانوں میں نہیں پاۓ جاتے ۔ مگر ان کی فضیلت کا حقیقی معیار ان کا علم وعرفان ہے ۔ آئمہ اطہار کا دوسروں سے حقیقی فرق علم و معرفت کی بنیاد پر ہے۔ معصوم کا علم ، عالَم وحی سے نور علم کی تجلی ہے ،عالم غیب سے معارف الہی کو لے کر لوگوں کی وسعت ظرفی کے مطابق ان کو تعلیم دیتے ہیں ۔مقام امامت وہ مقام ہے جہاں ذہین و فطین افراد کی بھی رسائ ممکن نہیں۔ امام علی نے فرمایا:’’ینحدر عنی السیل و لا یرقی الیّ الطیر‘‘(١٨)میں وہ سر چشمہ علم ہوں جس سے معرفت کے دریا بہتے ہیں، مجھ تک عقل و فراست کا پرندہ پر نہیں مار سکتا ۔

عمر وابن بحر ، جو کہ جاحظ کے نام سے مشہور ہیں، نظام میں نقل کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :

کلام علی سخت امتحان و آزمایش والا کلام ہے کیونکہ اگر کوئی اس کے حق کو وفا(ادا)کردے تو غالی ہوجاۓ گا اور اگر کوتاہی کرے تو جفا کار بن جاۓ گا جبکہ وفا اور جفا کے درمیان حد وسط بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ، جس تک ماہر اور اانتہائ ذہین انسان کی رسائ بھی مشکل ہے(١٩)

امام عارفان علی نے فرمایا: ’’لا یقاس بآل محمد من ھذہ الامة‘‘(٢٠)

’’اس امت کی کسی فرد کوآل محمد پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ،جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری ہیں وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں‘‘۔

آئمہ معصومین عرفان کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جہاں عام انسان نہیں پہنچ سکتا ۔جسے اللہ کی معرفت حاصل کرناہو ، اسے اسی دروازہ پر جھکنا پڑے گا ۔معرفت الہی کا فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ اہلبیت ہیں۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:’’الامام علَم بین اللہ عزو جل و بین خلقہ فمن عرف کان مومنا و من انکرہ کان کافراً‘‘(١٢) امام کی ذات گرامی، اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان لہراتا پرچم ہے جس نے ا س کو پہچانا وہ مومن بن گیا ، جس نے انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔

امام علی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :’’و انما الائمة قوام اللہ‘‘(٢٢) بلا شبہ آئمہ ، اللہ کے ٹھہراۓ ہوۓ حاکم ہیں اور یہی اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہیں ، جنت میں وہی جاۓ گا جسے انکی معرفت ہوگی۔

آئمہ  کی معرفت (الٰہی) کے آثار

١۔  علمی آثار :   آئمہ اطہار جب باب توحید(معارف الہیہ)میں لب گشائی کرتے ہیں تو نہج البلاغہ جیسی عظیم کتاب ہمارے سامنے آتی ہے ۔البتہ سید رضی رحمة اللہ علیہ نے اس بحر بیکراں کے کچھ موتی چن کر ہمارے لۓ پیش کۓ، دیگر آئمہ کے کلام مبارک کی بھی یہی خصوصیت ہے اور ان کا معجز نما کلام بھی مختلف کتابوں میں موجود ہے ۔آئمہ علیہم السلام نے باب توحید میں جو کلمات اور استدلال بیان فرماۓ ہیں وہ علم الہیات میں نقش اول بھی ہیں اور حرف آخر بھی۔  بلاشبہ جن لوگوں نے الٰھیات میں علم و دانش کے دریا بہاۓ ہیں ان کا سرچشمہ آئمہ ہی کے حکیمانہ ارشادات ہیں اور انہوں نے انہی کے خوان علم سے ریزہ خواری کی ہے ۔ امام علی علیہ السلام نے توحید اور اسماء و صفات میں ان دقیق مسائل کا ایسا تجزیہ اور تحلیل کی ہے کہ جس کی نظیر فقط قرآن کریم میں ملتی ہے۔  اسی وجہ سے کلام علی ،’’اخ القرآن ‘‘قرار پایا اور ’’فوق کلام المخلوق دون کلام الخالق‘‘کے لقب سے  ملقب ہے۔ 

کلام علی کلام علی     و ما قالہ المرتضی مرتضیٰ

زبور آل محمد ،صحیفہ سجادیہ اگرچہ ایک معصوم کے عملی رشحات ہیں مگر تشنگان علم ومعرفت کےلۓ خزینہ اسرار ہے۔

٢۔عملی آثار:  میدان عمل میں آئمہ علیہم السلام نے ہمیشہ ایک معبود کی رضا کو مد نظر رکھا ، اسی کی خاطر جینے ، مرنے کو اپنی زندگی کا اصول بنایا ، اور اس کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کوہیچ اور پست سمجھا(۲٣)،دنیا کی آب و تاب کو پائوںکے نیچے روندتے چلے گۓ ، نہ مال وزرکو کبھی اہمیت دی اور نہ جاہ و جلال کو ، ان کی زندگی کا واحد مقصد ذات احدیت کی مرضی کا حصول ہے۔

دنیاکی رنگینیوں کو بکری کی چھینک سے بھی بدتر سمجھا (٢٤)تو کبھی سور کی انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل و حقیر بتایاجو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں(٢٥)۔ ہاں یہ اس نبی کے جانشین ہیں جس نے فرمایاتھا : اگر ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں توحید کی تبلیغ سے ہاتھ نہیں اٹھائوں گا ۔یہ اسی نبی کے فرزندہیں اگر چاہتے تو مدینہ میں جاہ و جلال سے زندگی بسر کرسکتے تھے مگر توحید کے لۓ تپتے صحرا میں خاک و خون میں غلطاں ہونا قبول کیا مگر اپنے پروردگار کی رضا کے خلاف دنیا کی کسی آسایش کو قبول نہ کیا۔
علی مرتضی علیہالسلام کا ٥٢ سالہ سکوت (جبکہ آنکھ میں غم و اندوہ کا کانٹا اور گلے میں دکھ درد کی ہڈی پھنسی تھی)(٢٦)بھی اپنے معبود کی توحید کا علم بلند کرنے کےلۓ تھا۔ حضرت زھراء سلام اللہ علیہا پر دروازہ گرنے سے لیکر کربلا تک ،کربلا سے لیکر کوفہ و شام کے درباروں تک ،بنی امیہ اور بنی عباس کے دل فگار مظالم سے لیکر زہر ہلاہل تک اہل بیت کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عرفان الہی کا مظہر ہے ۔

آئمہ کی دعا ؤں میں عرفان الہی

آئمہ علیہم السلام کی معرفت کی معراج ان سے نقل ہونے والی دعائوں میں بھی مجسم اور جلوہ گر ہے اگرچہ ظاہری طور پر یہ ایک دعا ہے ، مگر اس دعا میں علم و عرفان کے وہ نایاب گوہر ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ اس لۓ کہ آئمہ علیہم السلام جب لوگوں کے سوالوں کا جواب دیتے یا ان کو خطاب کرتے تو ان کے فہم وشعور کے مطابق گفتگو کرتے مگر جب اپنے حقیقی معبود کے ساتھ محو گفتگو ہوتے تو درمیان میں کوئ قاصر ذہن حائل نہ ہوتا تھا،مقام دعا میں کوئی واسطہ نہیں، وہاں کسی استدلال و برہان کی ضرورت نہیں ،وہاں علت و معلول کا رابطہ نہیں بلکہ عبد و معبود ہے بلکہ عاشق ومعشوق کی نسبت ہے وہاں دلیل انّی (معلول سے علت تک پہنچنا )نہیں بلکہ دلیل لمی ہے، خدا کو خدا سے پہچانا جانا ہے ، سیدالشہداء کے یہ جملے اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں :

’’الہی توددی فی الآثار یوجب بُعد المزار‘‘

کیف یستدل علیک بما ہو فی وجودہ مفتقر الیک(٢٧)

’’ خدایا تیرے آثار میں تیری جستجومجھے تجھ سے دور کردیتی ہے .خدایا جو اپنی ذات میں تیرا محتاج ہے وہ تجھ پر دلیل کیسے بن سکتا ہے. کیا تجھ سے زیادہ کوئ ظاہر ہے جو تجھے دکھاسکے ، تو کب آنکھوں سے اوجھل ہوا کہ تیرا پتہ پوچھا جاۓ ، تو کب دور ہوا کہ تیرے آثارکے ذریعہ تجھ تک پہنچا جاۓاندھی ہیں وہ آنکھیں جو تجھے اپنے اوپر نگہبان کے طور پر نہ دیکھ سکیں ‘‘۔

مولا علی مرتضی علیہ السلام وہ ہستی ہیں جنہوں نے کبھی ان دیکھے خدا کی عبادت نہیں کی (٢٨)حضرت امام صادق علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ پر غشی طاری ہو گئ  افاقہ ہوا تو وجہ پوچھی گئ تو فرمایا:نماز میں’’ ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ کا اتنا تکرار کیا کہ عالم مکاشفہ میں عرفان قلبی کے ذریعہ جلال الہی سے جب یہ آیت سنی تو قوت بدنی ،مکاشفہ جلال کی تاب نہ لا سکی۔ (٢٩)

نتیجہ

الف:   وادی معرفت میں، عقل انسانی جتنا چاہے سفر طے کرلے لیکن آئمہ علیہم السلام اس فراز و بلندی پر فائز ہیں جو علم ومعرفت کا سرچشمہ ہے وہاں فطین اور زیرک اذہان کے پرندے پر نہیں مارسکتے .

ب:  فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ جو شخص معرفت الہی کا طالب ہو،  اسے اسی مکتب کی شاگردی اختیار کرنا ہوگی چونکہ معرفت الہی انہی میں منحصر ہے،

فکانواھم السبیلالیک(٣٠)معرفت خدا کا ذریعہ فقطیہی ہستیاں ہیں۔ کے جانشین ہیں