آج کے اس ترقي يافتہ دور ميں جيسے ہي سياست کا نام آتا ہے عام طور پر ذہنوں ميں مکر و فريب، ظلم و ستم، انساني فضل و شرف کي رسوائي، خونريزي، آباد بستيوں کي ويراني اور نواميس الٰہي کي پامالي کا تصور ہوتا ہے۔ لفظ سياست سابق حکمرانوں کے گندے کرتوت اور بداعماليوں کي وجہ سے اپنے حقيقي معني اور معنوي حيثيت کھوبيٹھا جبکہ تاريخ سياست کے طويل عرصہ ميں قديم فلاسفہ ہميشہ سياست کو ايک مستقل حيثيت ديتے رہے کہ جو سياست مدن کے نام سے مشہور ہے۔
امام عليٴ کي سياست اور الٰہي حکمت عملي کو سمجھنے سے پہلے نہج البلاغہ کي حکمت نظري اور اس کے بنيادي عقائد سے اچھي طرح باخبر ہونا ضروري ہے۔ چنانچہ اگر نہج البلاغہ کي حکمت نظري جھوٹ، دغا بازي، فريب، مکاري اور ظلم و ستم کو اچھي نظر سے نہيں ديکھتي تو ان کي سياست ميں ان چيزوں کو تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہيں۔
بلاشبہ علي ابن ابي طالبٴ ان چند مستثني شخصيتوں ميں سے ہيں جن کا آئين سياست، الٰہي مکتب فکر اور انساني فضل و کمالات پر استوار ہے۔ اگر چہ سياست کي يہ سيرت و روش خود ان کي ذات کيلئے گراں ثابت ہوئي اوراس نے سرکشيوں اور فساديوں کو ان کے مقابل لا کھڑا کيا ليکن دوسري طرف عليٴ کي يہي روش بشري فضل و کمال کي ايسي راہ معين کررہي تھي جو تاريخ سياست ميں عالم انسانيت کے لئے اک معيار اور نمونہ بن گئي۔
ہم اس مقالہ ميں حضرت امام عليٴ کي منطقي سياست کا جائزہ ليں گے اور نہج البلاغہ کے خطبوں سے بہ حد امکاں سياست کا حقيقي مفہوم، سياست کي فکري بنياد، سياست کے اصول، سياست علوي کے وظائف اورمنشورات و... بيان کرنے کي کوشش کريں گے۔
انسان فطرتاً سماجي ہوتا ہے لہٰذا بغير سماج کے زندگي بسر نہيں کرسکتا اور اجتماع کا لازمہ نياز بشري کي تکميل ہے اور نياز بشري کي تکميل کا لازمہ تدبير اور حکومت ہے اسي لئے ابن خلدون کہتا ہے :’’حکومت کي تشکيل انسان کي فطري ضرورتوں کا تقاضا ہے‘‘۔ ارسطو جيسا مفکر کہتا ہے :’’...سياسي دانش کي غايت تمام علوم و دانش سے افضل اور بہتر ہے اور سياست بالاترين نيکي ہے...‘‘۔ اسي اہميت کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت امام عليٴ فرماتے ہيں :’’الا کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعيتہ‘‘۔(١)
دائرۃ المعارف بستاني، عربي لغت لاروس ، منجد الطلاب، المعجم الوسيط، فرھنگ عميد جيسي لغت کي کتابوں و اخوان الصفا اور اخلاق ناصري جيسي اہم کتابوں کے مآخذ اور متون ميں مندرج لفظ سياست کے معنوں پر غور کرنے سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ سياست کے حقيقي معني انساني معاشرے، ملک اور عوام کي سرپرستي اور قيادت کے پہلوؤں پر مشتمل ہيں جن کے ذريعہ ان کي فلاح و بہبودي اور ترقي کي ضمانت ملتي ہو۔ (٢)
سياست کي اصطلاحي تعريف ميں ارسطو کہتا ہے :’’ضروري ہے کہ ہر مجموعہ کا اہم ترين موضوع سب سے اچھي نيکي قرار پائے اور اس کا نام سياست و حکومت رکھا جائے...اور سياست ميں نيکي کا مطلب سماجي انصاف کے علاوہ اور کچھ نہيں ہے جو عوام کي اصلاح اور بہبودي سے وابستہ ہے۔‘‘(٣) اسي کے بالکل برعکس اُوسولڈ اشپنگلرکہتا ہے کہ سياست يعني افراد کے ذريعہ ہدف کا معين کيا جانا اور اسے ہر طرح سے حاصل کرنے کي سعي و کوشش کرنا۔ (٤) وہ صرف دين اور سياست کو جدا کرنے کيلئے کہتا ہے کہ ايک فطري سياستداں کے نزديک حق و باطل کي کوئي اہميت نہيں ہے يعني اس کے نزديک وہ وحشي درندے جو حصول اقتدار کي خاطر ہر طرح کا فعل درست سمجھتے ہيں، سياستداں کہلائيں گے۔
صديوں سے سياست کے سلسلہ ميں بيان کي جانے والي يہ غلط تعريف سياستدانوں اور حکمرانوں کي اس فکر کي عکاس ہے کہ ہم تمام مخلوق پر حکومت کرنے کيلئے پيدا کئے گئے ہيں اسي لئے اگر کبھي کسي سياستداں کي زبان پر انصاف، مظلوموں کي حمايت اور نظم و ضبط جيسے کلمات جاري ہوجاتے ہيں تو ان کو کوئي اہميت نہيں دي جاتي بلکہ يہ سمجھا جاتا ہے کہ يہ اپني حکومت کو مزيد مستحکم کرنے کي چاليں ہيں۔
گذشتہ وضاحت کي روشني ميں يہ بات کہي جاسکتي ہے کہ حقيقت کے متلاشي اس بات کو اچھي طرح سمجھ ليں کہ اگر سياست سے مراد وہ مفہوم ہے جسکي تشريح اوسولڈ اشپنگلر نے کي ہے تو يقين جانيں کہ حضرت عليٴ ايسي سياست سے پوري طرح واقف تو تھے مگر اس پر عمل پيرا نہ تھے کيونکہ آپ خود فرماتے ہيں :’’لو لا التقيٰ لکنت ادھيٰ الناس‘‘۔ (٥)اور ايک دوسري جگہ فرماتے ہيں :’’ہم ايسے زمانے ميں زندگي گزار رہے ہيں جہاں اکثر افراد مکرو فريب کو ہوشياري سمجھتے ہيں اور نادان لوگ اس قسم کے حيلوں کو راہ حل سمجھتے ہيں ...ايک حقيقي رہبر ان تمام دھوکوں کو بخوبي سمجھتا ہے ليکن خود کبھي اسے اختيار نہيں کرتا کيونکہ خدا کا حکم اسکے قدم روک ديتا ہے... ليکن جس کو دين کا درد نہ ہو وہ ايسے کاموں ميں پوري طرح ڈوب جاتا ہے ‘‘۔ (٦) ايک دوسري جگہ بھي آپ نے صاف لفظوں ميں فرمايا کہ خدا کي قسم! معاويہ مجھ سے زيرک نہيں ہے ليکن وہ مکرو فريب اور فسق و فجور سے کام ليتا ہے اور اگر مجھے مکرو فريب سے نفرت نہ ہوتي تو ميں لوگوں ميں سے سب سے زيادہ زيرک ہوتا... خدا کي قسم! مجھے عياري اور فريب سے غفلت ميں نہيں ڈالا جاسکتا اور نہ حالات کي سختيوں کے ذريعہ دبايا جاسکتا ہے۔ (٧) ’’تم لوگ مجھ سے يہ چاہتے ہو کہ ملت پر ظلم و ستم کرکے فتح و کامراني کي راہ تلاش کروں؟ خدا کي قسم! جب تک ايک ستارہ دوسرے ستارہ کے پيچھے چل رہا ہے (يعني يہ دنيا برقرار ہے) ميں اس کام کے قريب بھي نہ جاؤں گا۔ اگر يہ مال خود ميرا ہوتا تب بھي ميں اسے لوگوں ميں برابر تقسيم کرتا چہ جائيکہ يہ اللہ کا مال ہے...‘‘۔(٨)
آپ کا يہ جملہ ان لوگوں کے نظريات پر خط بطلان کھينچ ديتا ہے جو يہ کہتے ہيں کہ مقصد کيلئے ہر طرح کا وسيلہ اختيار کرنا جائز ہے کيونکہ اسلامي سياست کي کاميابي کيلئے جوروستم کو ہرگزوسيلہ نہيں بنايا جاسکتا۔ دوسرے لفظوں ميں خون کوخون سے نہيں دھويا جاسکتا بلکہ ’’ملاک السياسۃ العدل‘‘(٩)’’بئس السياسۃ الجور‘‘(۱۰) ’’جمال السياسۃ العدل‘‘(١١) ’’حسن السياسۃ قواۃ الرّعيۃ‘‘(١۲) پھر فرماتے ہيں :’’واللہ لا اريٰ اصلاحکم بافساد نفسي‘‘(١٣) بلکہ ’’حسن السياسۃ يستديم الرعيہ‘‘(١٤) ’’من حسنت سياستہ وجب طاعتہ‘‘(١٥) اور حکومت اسي طرح کي سياست سے باقي بھي رہ سکتي ہے جيسا کہ رسول خدا۰ نے فرمايا کہ حکومت کفر کے ساتھ تو رہ سکتي ہے مگر ظلم کے ساتھ باقي نہيں رہ سکتي۔(١٦)
يہ تھا حضرت عليٴ کي سياست کا فکري محور۔ ہاں! اميرشام بھي ايک سياستداں تھا مگر اسکي سياست کا معيار اتنا گھناؤنا تھا کہ جس سے ہرانصاف پسند انسان نفرت کرتا ہے۔ اگر اس کي سياست سے آشنائي چاہتے ہوں تو اس دستور کو پڑھيں جو اس نے سفيان بن عوف غامدي کے لئے جاري کيا تھا۔ اس عبارت کو ملاحظہ کريں:
’’سفيان بن عوف غامدي کہتا ہے کہ اميرشام نے مجھے بلايا اور کہا کہ تم کو ايک عظيم لشکر کے ہمراہ بھيج رہا ہوں ۔ فرات کے کنارے سے ہوتے ہوئے ’’ہيئت‘‘ پہونچو۔ اس پر قبضہ کرو، اگر اہل قريہ مخالفت کريں تو ان سب پر حملہ کرکے ان کے جان و مال کو غارت کردو...ايسے وقت ميں وہ افراد جو تمہاري رائے سے متفق نہ ہوں ان کو قتل کردينا، راستے ميں جو بھي آبادي ملے اسے تباہ و برباد کردينا، لوگوں کے اموال کو ضبط کرلينا کيونکہ مال و ثروت کي لوٹ مار قتل عام کي حيثيت رکھتي ہے اور اس کے اثرات زيادہ ہوتے ہيں‘‘۔ (١٧)
يہ تھا ايک بڑے سياستداں کا حکم جو ايک ايسے اسلامي معاشرے ميں تھا جہاں کے انسانوں کي اہميت اس کي نظر ميں ايک چيونٹي سے کم تھي۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ چنگيزخاں کچھ دير سے دنيا ميں آيا، کاش اميرشام کے زمانے ميں ہوتا تو اس کے سياسي نظريات کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے بيٹھتا اور سياست کے آئين سيکھتا۔ اسي لئے امام عليٴ نے اميرشام کے جواب ميں لکھا تھا :’’تم کہاں اور ملت کے اموال کي نگراني کہاں؟ جبکہ دين سے متعلق نہ تيري پچھلي زندگي درخشاں اور تابناک ہے نہ ہي تو کسي قابل ذکر شرف کا حامل ہے...‘‘ (١٨) پھر ايک دوسري جگہ فرماتے ہيں :’’تمہارا اس فاضل و مفضول حاکم و رعايا (سياست) کے مسئلہ سے کيا تعلق ہے؟...‘‘ (١٩)
علامہ محمد تقي جعفري لکھتے ہيں کہ اس جملے ميں امام يہ کہنا چاہتے ہيں کہ اے معاويہ تم لوگوں کي رہبري نہيں کرسکتے۔ سياست و حکومت اور نظم و نسق سے تمہارا کوئي تعلق نہيں ہے۔ تم خدعہ، نيرنگ، ظلم و ستم اور فتنہ و فساد ميں ہي غرق رہو۔ (٢١)
مختصر يہ کہ اسلامي سياست ميں خدا اور آخرت پر ايمان، دين اور انساني فضائل، صداقت اور حسن نيت، خلوص ، خدمت اور حقيقت اصل محور ہوتي ہے جبکہ دوسرے تمام سياسي طريقوں ميں مادي جوڑ توڑ، خود خواہي، رياکاري، بے اعتباري، ظلم و ستم، ناانصافي، نفرت انگيز دوغلي پاليسي، مکاري اور عياري کو محور قرار دياجاتا ہے۔
حضرت امام علي عليہ السلام اور حکومت
حضرت عيسيٴٰ کي ولادت سے چار صدي پہلے يوناني معاشرے ميں ارسطو نے ’’سياست‘‘ کے موضوع پر ايک کتاب لکھي تھي جس ميں تين طرح کي حکومتوں کي طرف اشارہ کيا گيا ہے:
(١)تاناشاہي (٢) اشرافي(بالا طبقے کي حکومت) (٣) جمہوري حکومت۔
تاريخ علم سياست کي طويل مدت ميں جمہوري حکومت سب سے بہتر سمجھي گئي ہے جبکہ نہج البلاغہ ميں سياست کا مفہوم اس مفہوم سے قريب ہے جسميں کسي قسم کا دھوکا اور فريب شامل نہ ہو ليکن ان دونوں کے درميان وہ بنيادي اختلاف بھي موجود ہے جو اسلامي نظام ميں روح سياست کے تشخص کا باعث ہوتا ہے اور وہ ہے حاکميت خدائے لايزال۔
امام عليٴ کي مختصر پنج سالہ حکومت، تاريخ بشريت ميں ايک نمونہ کي حيثيت رکھتي ہے کيونکہ آپ ہميشہ حکومت کو امانت سمجھتے تھے اور خود قرآن نے بھي اس بات کي تائيد کي ہے ۔ آپ اسي نظريہ پر خود بھي عمل پيرا رہے اور ارکان حکومت کو بھي اس پر عمل کرنے کي تاکيد کي۔ آپ نے اشعث بن قيس کو لکھا کہ يہ تمہارا منصب کوئي لقمہ تر نہيں ہے بلکہ تمہاري گردن پر امانت الٰہي ہے اور تم ايک بلند ہستي کے زيرنگراني حفاظت پر مامور ہو... اور خبردار کسي مستحکم دليل کے بغير کسي بڑے کام ميں ہاتھ مت ڈالنا۔ (٢١) اور ايک دوسري جگہ اپنے کارمندوں سے خطاب کرتے ہيں : ’’ومن استھان باالامانۃ...‘‘(٢٢)
دوسري کئي جگہوں پر آپ کے خطوط اور خطابات ميں لفظ امانت کو ذمہ داري سے تعبير کيا گيا ہے۔ حضرت اميرالمومنينٴ کے ان جملوں سے دو بات سامنے آتي ہے :
(١) پہلي بات يہ ہے کہ حکومت ’’ہدف‘‘ نہيں بلکہ وسيلہ ہے۔ جسے دنياوالوں نے ايک منصب اور بہت بڑا عہدہ سمجھ رکھا ہے اس کي ارزش علي کي نظر ميں بکري کي ناک سے نکلنے والي رطوبت سے کمتر اور مکھي کے پر سے زيادہ ہلکي ہے بلکہ ثروت و حکومت علي کي نظر ميں سور کي ان انتڑيوں سے زيادہ ذليل ہے جو کسي کوڑھي کے ہاتھ ميں ہوں۔ امام عليٴ کي نظر ميں وہ حکومت جس سے حق کا قيام اور باطل کا خاتمہ نہ ہو تو اس کي قيمت کہنہ وپيوند زدہ جوتيوں سے کمتر ہے۔’’واللہ لھي احب الي من امرتکم...‘‘(٢٣)
(٢) اور دوسري بات يہ ہے کہ حکومت خدمت گذاري کا نام ہے۔ حکومت کي اہميت اور قيمت اس وقت ہے جب يہ ذريعہ ہو خدمت خداوند اور اس کي مخلوق کا۔ آپٴ فرماتے ہيں: ’’خدايا! تو جانتا ہے کہ ميں نے حکومت کے بارے ميں جو اقدام کيا ہے اس ميں نہ سلطنت کا لالچ تھا اور نہ مال دنيا کي تلاش۔ ميرا مقصد صرف يہ تھا کہ دين کے آثار کو ان کي منزل تک پہنچاؤں اور شہروں ميں اصلاح پيدا کروں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہوجائيں اور معطل حدود قائم ہوجائيں...‘‘ (٢٤) ان جملوں ميں خدمت خلق، قيام حق اور اطاعت پروردگار ، حکومت کے اہداف بتائے گئے ہيں۔ امام عليٴ نے حکومت کو خدمت خلق سمجھا اور اس پر عمل کرکے دکھايا جيسا کہ آپٴ مالک اشتر کو لکھتے ہيں :’’واشعر قلبک الرحمۃ...‘‘ (٢٥) يعني عليٴ نے مالک کو تاناشاہي اور ڈکٹيٹرشپ سے منع کيا اور فرمايا :’’ولا تقولن اني مومر...‘‘(٢٦)اگر حکومت کو امانت سمجھا جائے تو پھر کبھي ڈکٹيٹرشپ کي گنجائش نہيں ہوسکتي اور جو لوگ امين ہوتے ہيں وہ کبھي خيانت نہيں کرتے۔ امامٴ نے اپنے ايک کارمند کو لکھا :’’بلغني عند امر...‘‘(٢٧)
حضرت عليٴ نے پوري زندگي حکومت اور عوام کے اقتصاديات کو بہتر بنانے اور فقروناداري کے خلاف جدوجہد ميں گزاري۔ آپ معيشت اور اقتصاد کو سدھارنے کيلئے طاقت فرسا کام انجام دينے سے گريز نہيں کرتے تھے بلکہ انہيں خود پرلوگوں کا حق سمجھتے تھے۔آپ اقتصاد کي اہميت کے پيش نظر فرماتے ہيں :’’کوئي بھي فقير اپنے معاش سے محروم نہيں ہوتا مگر يہ کہ ايک غني اس کے مال ميں تصرف کرليتا ہے‘‘۔ (٢٨) پھر فرماتے ہيں :’’جو شخص اپنے کام کي زحمت کو نہيں برداشت کرسکتا وہ فقيري کو تحمل کرنے کیلئے آمادہ ہوجائے‘‘۔ (٢٩)
غرض کہ حضرت عليٴ نے اقتصاد کو بحال کرنے کي خاطر اپنے دورحکومت ميں تجارتي بازاروں پر سخت کنٹرول رکھا اور احتکار، کم فروشي، عنين در معاملہ وغيرہ جيسي ناجائز چيزوں سے مقابلہ کيا اور ٹيکس جيسے خمس و زکوٰۃ اور انفاق وغيرہ کو رواج بخشا۔ ايک شخص جو اچھي اور خراب کھجوروں کو الگ کرکے متفاوت قيمت پر بيچ رہا تھا۔ آپ نے اسے دونوں کو مخلوط کرکے متعادل قيمت پر بيچنے کا حکم ديا۔ (٣٠) آپ فرماتے ہيں :’’صرف وہي تاجر صحيح ہيں جو معاملہ ميں سچے ہيں باقي سب ہرزہ کار ہيں‘‘۔ (٣١) اسي لئے مالک اشتر کو لکھا تھا:’’معاملات ميں بہت سے لوگوں کي روش غيرمناسب ہے يعني وہ معاملات ميں سخت گير، حريص اور بخيل ہيں اور احتکار سے کام ليتے ہيں۔ ان کي خبر لو اور انہيں سزا دو تاکہ دوسروں کيلئے باعث عبرت ہوں‘‘۔ (٣٢) آپ نے تجارت کو اقتصاد بہال کرنے کا سبب بيان کرتے ہوئے فرمايا:’’ اتّجروا بارک اللہ‘‘ (٣٣)تجارت کرو کہ تجارت تمہيں لوگوں سے بے نياز کردے گي، يہاں تک کہ ذريعہ معاش کي اقسام کو بيان کرتے ہوئے آپ ذريعہ معاش کو پانچ حصوں ميں تقسيم کرتے ہيں ۔ (٣٤) اور فقر و ناداري سے بچنے کيلئے ايک معيار بھي بتاتے ہيں :’’جو شخص بھي ميانہ روي اختيار کرتا ہے ميں اس کي ضمانت ليتا ہوں کہ وہ کبھي فقير نہيں ہوسکتا۔‘‘ (٣٥) يہي وجہ تھي کہ آپ کي حکومت کے دوران عمومي رفاہ کا يہ حال تھا کہ کونے ميں رہنے والا غريب شخص بھي گيہوں(گندم) کي روٹي کھاتا اور اس کے سرپر چھت کا سايہ رہتا تھا۔
ايک بوڑھا شخص کھدائي کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا نصراني ہے۔ آپ نے حکم ديا کہ اسے بيت المال سے کچھ خرچ کيلئے دے دو۔ آپ کي نظر ميں عوام کي معيشت اس قدر اہميت کي حامل ہے کہ جہاں آپ نے اپني وصيت ميں اور دوسري باتوں کي طرف اپنے فرزندوں کو متوجہ کيا وہيں اس طرف بھي ان کو متوجہ کيا تاکہ ان کي معيشت کبھي خراب نہ ہو۔
حضرت عليٴ نے اپنے دور حکومت ميں ثقافتي سياست کے پيش نظر سماج و معاشرے کي تعليم وتربيت، قرآني تعليمات پر عمل، آپس ميں ميل و محبت، اتحاد اور ہمدلي، بدعتوں سے مقابلہ، سالم اور بہتر معيشت کيلئے جد و جہد کرنے ميں کوئي لمحہ فروگذاشت نہيں رکھا۔ جيسا کہ آپ فرماتے ہيں :’’اے لوگو! ايک حق ميرا تمہارے اوپر ہے اور ايک تمہارا ميرے اوپر ہے۔ تمہارا حق جو ميرے اوپر ہے وہ يہ کہ ميں تمہيں نصيحت کروں اور تمہاري معيشت کو نظم بخشوں اور تمہيں تعليم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو‘‘ ۔(٣٦) امامٴ کے اس جملے سے بخوبي اس بات کا اندازہ ہوتاجاتا ہے کہ حاکم کا جس طرح اپني رعيت پر حق ہوتا ہے اسي طرح رعيت کا حاکم پر بھي حق ہوتا ہے جسميں سے ايک تعليم ہے۔
آپ ہميشہ سماج و معاشرے ميں ميل و محبت، اتحاد اور ہمدلي برقرار رکھنا چاہتے تھے اسي لئے فرمايا تھا کہ تم پر لازم ہے کہ تفرقہ و اختلاف سے دور رہو اور ايک دوسرے کو اتحاد کي ترغيب دلاؤ اور ان تمام امور سے اجتناب کرو جن سے قدرت و طاقت کم ہوجائے۔ (٣٧) حتي ايک جگہ فرماتے ہيں :’’جو تفرقہ اندازي کرے وہ قتل کا سزاوار ہے چاہے يہ تفرقہ اندازي مجھ سے ہي کيوں نہ سرزد ہو‘‘۔ (٣٨)
آپ نے اپني اسلامي سياست ميں قرآني تعليمات پر عمل کرنے کرنے کيلئے بہت زور ديا اور فرمايا :
’’اللہ اللہ في القرآن لا يسبقکم بالعمل بہ غيرکم‘‘(٣٩)
آپ نے سماج و معاشرے ميں امنيت قائم رکھنے کيلئے بدعتوں کا اس وقت مقابلہ کيا جب عالم يہ تھا کہ دين اشرار کے ہاتھوں ميں کٹھپتلي بنا ہوا تھا۔ فرماتے ہيں :’’کوئي بھي بدعت پيدا نہيں ہوتي مگر يہ کہ ايک سنت ترک کرنے کا باعث ہوتي ہے‘‘۔ (٤٠) حسن بصري کو حضرت عليٴ نے بدعتوں کے رواج ہي کي بنياد پر مسجد سے نکال ديا تھا اور اسي بنياد پر آپٴ نے اسے اپني امت کا سامري اور شيطان کا بھائي کہا تھا۔‘‘ (٤١) اسي لئے آپ نے فرمايا :’’امربالمعروف اور نہي عن المنکر کو ترک نہ کرو اس لئے يہ کہ فريضہ اگر ترک ہوگيا تو اشرار تمہارے اوپر مسلط ہوجائيں گے...‘‘ (٤٢) ايسي صورت ميں ماحول بد سے بدتر ہوتا جائيگا بلکہ مولا کے بقول ’’اس زمانے کے لوگ بھيڑئيے ہوجائيں گے اور بادشاہ و حکام درندے، متوسط طبقہ شکم پرور ہوگا اور غريب و پست طبقہ کے افراد مردہ ہوں گے، صداقت ناپيد ہوجائيگي اور جھوٹ کا بول بالا ہوگا‘‘۔ (٤٣) پھر آپٴ نے فرمايا :’’ لوگوں کا فريضہ ہے کہ ذلت و خواري اختيار نہ کريں اور ايسے افراد کے آگے سرتسليم خم نہ کريں بلکہ ايسے غاصبوں کے حلق ميں ہاتھ ڈال کر اپنا حق نکال ليں‘‘۔ (٤٤)
نظم و ضبط ايک معاشرہ کي بہتر تشکيل و تنظيم کے لئے بڑي اہميت رکھتا ہے۔ اسي نظم و ضبط کے تحت ذمہ دارياں تقسيم ہوجاتي ہيں اور امور صالح افراد کے سپرد کئے جاتے ہيں۔ اوقات منظم اور قابو ميں رہتے ہيں۔ ظاہر سي بات ہے جب امور منظم و مرتب ہوجاتے ہيں تو کاميابياں کئي گنا بڑھ جاتي ہيں۔ يہ وہ چيز ہے جس سے نہ معاشرہ کا کوئي فرد مستغني ہے نہ معاشرہ اس سے بے نياز ہوتا ہے بلکہ حکومت کے ذمہ دار افراد کو تو سب سے زيادہ اس کي ضرورت ہے کہ ان کے امور و معاملات منظم ہوں اور حالات ان کے قابوميں رہيں۔ اسي اہميت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت عليٴ فرماتے ہيں:’’ ميں تم دونوں (حسنٴ و حسينٴ) اور اپنے تمام فرزندوں اور خاندان والوں نيز ان تمام افرادکو جن تک ميرا يہ خط پہنچے وصيت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقويٰ اختيار کرو، پرہيزگار بنو ، اپنے امو رکو منظم کرو اور آپس ميں صلح و صفا کا برتا ؤ کرو‘‘۔ (٤٥)
يہ ايک بہت باريک اور اہم نکتہ ہے کہ ايک حاکم و ذمہ دار شخص، امور اور ذمہ داريوں کي تقسيم کے سلسلہ ميں مناسب افراد کا انتخاب کرے اور پھر معين طور پر ان ميں ہر ايک کو الگ الگ کام سونپے، ہر ايک سے ان کي ذمہ داريوں کي انجام دہي کے سلسلہ ميں جواب طلب کرے اور اگر کام انجام نہ پائے يا صحيح طور سے انجام نہ پائے تو اس کا سبب تلاش کرے۔ کاموں کي بے ضابطگي اور ذمہ داريوں کا مشخص نہ ہونا طاقت کے بلا وجہ ضائع ہونے، کاموں کے پڑے رہ جانے اور نظام ميں گڑبڑي اور خسارہ کا باعث بنے گا۔اس سے ہر ايک کو پرہيز کرنا چاہئے، خاص کر ان افراد کو جو معاشرہ کے امور کي ذمہ داري رکھتے ہيں۔ امام انہي ذمہ داريوں کي تقسيم کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہيں :’’اپنے ہر خدمت گذار اور کارکن کے فريضے کو مشخص و معين کرو تاکہ اس ذمہ داري کے تحت اس سے کام لے سکو کيونکہ يہ ايک بہترين اقدام ہے۔ اس طرح وہ اپني ذمہ داريوں کو دوسرے کے کاندھے پر نہيں ڈاليں گے ...‘‘ (٤٦) يہي وجہ تھي کہ آپ نے اپنے دور حکومت ميں اپنے عمال کو سات گروہ ميں تقسيم کيا تھا :
(١) گورنر (٢)حکام (٣)بيت المال کے ذمہ دار (٤)زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے (٥)معاينہ کار و قضات (٦)کاتبان (٧)حاجبان و دربانان ۔ (٤٧)
اگر چہ اسلام ميں کسي بھي جگہ خاندان و قبيلہ پر تکيہ نہيں کيا گيا ہے ليکن يہ بھي مسلم ہے کہ انسان اپنے خاندان کے افراد کے عادات و کردار کو دوسرے سے بہتر جانتا ہے اور ان کے صالح افراد پر ہر شخص سے زيادہ اعتماد کرسکتا ہے۔ اسي لئے امامٴ فرماتے ہيں :’’اور اپنے اہل خاندان کا احترام کرو کيونکہ وہ تمہارے لئے ايسے پر وبال کي حيثيت رکھتے ہيں جن سے تم پرواز کرتے ہو اور ايسي اصل و بنياديں ہيں جن کي طرف تم پلٹتے ہو اور تمہارے ايسے ہاتھ ہيں جن سے تم کام ليتے ہو‘‘۔ (٤٨)
مادي دنيا کي سياست کے برخلاف جس ميں انساني فضل و شرف اور اخلاق کوئي حيثيت نہيں رکھتے، اسلامي سياست ميں اخلاق و فضائل کو بنيادي اور اصلي حيثيت حاصل ہے۔ ديني رہنماؤں کي سيرت و سياست اور ان بزرگوں کے سياسي اصول نہ صرف اس حقيقت کي عکاسي کرتے ہيں بلکہ اس روش کيلئے راہنما ہيں۔ اخلاقي اصول کي رعايت چاہے اس کا تعلق خصوصيت سے حاکم کي ذات سے ہو يا پوری قوم و ملت کي عزت و آبرو سے متعلق ہو، ايک بنيادي اصول کي حيثيت رکھتي ہے۔ حضرت امام عليٴ اپنے عہدنامہ ميں مالک اشتر کو يوں تحرير فرماتے ہيں :’’ رعايا کے درميان تمہاري نظر ميں سب سے زيادہ ناپسند اور سب سے زيادہ دور اس شخص کو ہونا چاہئے جو برابر لوگوں کي عيب جوئي کيا کرتا ہے اوران کے برملا کرنے پر اصرار کرتا ہے کيونکہ لوگوں ميں عيب تو پائے ہي جاتے ہيں اور سب سے زيادہ حاکم کا حق ہے کہ ان کي پردہ پوشي کرے۔ لہٰذا پوشيدہ عيوب کو آشکار نہ کرو اور جو کچھ ظاہر ہوگيا ہو ان کا جواز اور صفائي پيش کرو اور جو عيوب پوشيدہ ہيں ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ جہاں تک ہوسکے دوسروں سے کينہ کي ہر گرہ کھول دو اور انتقام کي ہررسي کو کاٹ ڈالو، ہر وہ چيز جو تمہارے لئے مناسب نہيں اس سے لاتعلق بن جاؤ، چغلخورکي باتوں کي جلدي سے تصديق نہ کرو کيونکہ وہ فريب کار ہوتا ہے اگر چہ خيرخواہ بن کر سامنے آتا ہے۔‘‘ (٤٩)پھر آپ نے صفين ميں ايک خطبہ کے دوران فرمايا :’’مجھ سے اس (ڈرے اور سہمے) انداز ميں باتيں نہ کيا کرو جس طرح جابر و سرکش حاکموں سے کي جاتي ہيں اور نہ ہي اس طرح ملا کرو جيسے کسي غصہ ور سردار سے محتاط انداز ميں ملا جاتا ہے۔ مجھ سے رابطہ قائم کرنے کے سلسلہ ميں چاپلوسي اور خوشامد کا طريقہ اپنانے کي ضرورت نہيں ہے...‘‘(٥٠)
ظلم اور فريب نہ صرف انسان کي آخرت تباہ کرتے ہيں بلکہ بے آبروئي اور بے اعتباري ظلم و فريب کار کے پيچھے پيچھے لگي رہے گي اور دوسروں کو موقع فراہم کرے گي کہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسے نيست و نابود کرديں۔ حضرت عليٴ ايک خط ميں معاويہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہيں:’’حقيقتاً ظلم و ستم، طغيان،جھوٹ اور فريب انسان کو دين و دنيا دونوں کي تباہي اور ہلاکت کي طرف کھيچ لے جاتے ہيں اور اس کي کمزوريوں کو نکتہ چينوں کے سامنے آشکار کرديتے ہيں ۔تم اچھي طرح جانتے ہو کہ جس چيز کا تمہارے ہاتھ سے چلاجانا مقدور ہوچکا ہے اس تک تم نہيں پہنچ سکتے...‘‘ (٥١)
حضرت عليٴ مالک اشتر کے نام تحرير کردہ عہدنامہ ميں فرماتے ہيں : ’’ديکھو خودپسندي سے پرہيز کرو اور تمہيں جو چيز خودستائي کي طرف مائل کرے اس پر تکيہ نہ کرو اور اپني بڑائي کا اظہار کرنے سے ہميشہ دور رہو کيونکہ يہي لمحے شيطان کے نفوذ کرنے کے حساس ترين مواقع ہوتے ہيں تاکہ اس طرح وہ نيک بندوں کے اچھے کاموں کو ضائع کردے۔‘‘(٥٢) اقتدار اور سطوت ميں کھيلنے والے ايک سياستداں اور حاکم کيلئے خودپسندي، تملق بازي، چاپلوسي اور فرعونيت کا شمار اخلاقي بلاؤںميں ہوتا ہے۔ يہ آگ اس وقت اور زيادہ بھڑک اٹھتي ہے جب غلامانہ ذہنيت کے افراد اپني مدح و ستائش اور چاپلوسي کے ذريعہ حکام کے کبر و نخوت اور غرور کو بڑھانے لگتے ہيں۔
حضرت عليٴ گھوڑے پر سوار ہو کر کہيں جارہے تھے۔ ايک شخص آپ کے پيچھے پيچھے پيادہ روانہ ہوا تاکہ اپني کارگذاري حضرت سے بيان کرے۔ امامٴ نے اس سے فرمايا :’’واپس پلٹ جاؤ کيونکہ تمہارا يہ انداز مومن کيلئے ذلت کا نمونہ اور حاکم و والي کيلئے فتنہ کا سبب ہے‘‘۔ (٥٣)
امامٴ نے اپني فوج کے ايک سردار اسود بن قطبہ کو ايک خط ميں تحرير فرمايا :’’...حاکم جب نفساني ہوا و ہوس ميں گرفتار ہوجاتا ہے تو اسکا نفس اسے بہت سارے امور ميں عادلانہ اقدام کرنے سے روک ديتا ہے۔ پس لوگوں کے امور و معاملات تمہاري نظر ميں حق کي ميزان پر برابر ہونے چاہئيں کيونکہ ظلم و ستم، حق کا ہم پلہ اور اس کا بدل نہيں ہوسکتا۔ لہٰذا اس طرح کي غلطيوں سے پرہيز کرو اور اپنے نفس کو فرائض الٰہي کي انجام دہي کيلئے رام اور آمادہ کرو۔ ثواب کي اميد رکھو اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہو‘‘۔ (٥٤) گوناگوں خواہشات و ميلانات اور حق و انصاف کے محور سے گريز حاکم کے دل ميں بہت سي گرہوں اور رکاوٹوں کو جنم ديتے ہيں جن کي وجہ سے وہ حق و حقيقت کے مرکزي نقطہ سے دور ہوجاتا ہے اور اس پر توجہ نہيں کرپاتا۔ ان تمام فسادات کي جڑ نفس ہے لہٰذا اپنے نفس کو قابو ميں رکھنا چاہئے اور اس کي خواہشوں کو خدا کي رضا اور خوشنودي کي راہ ميں ذليل و حقير بنا دينا چاہئے۔ ايک حاکم کيلئے رياضت و سلوک کا تازيانہ بہت ضروري ہے جس سے وہ اپنے نفس کو ہميشہ مودب کرتا رہے۔ خدا کے عذاب کا خوف اور ثواب آخرت کي اميد ہي اس کے لئے سب سے زيادہ مددگار ثابت ہوسکتي ہے۔
يہ ايک ايسي حقيقت ہے جس پر امامٴ نے پوري تاکيد فرمائي ہے۔ حضرت ٴنے اہل مصر کو ايک خط تحرير فرمايا جس ميںمالک بن حارث اشتر کو اپني طرف سے مصر والوں کا حاکم و والي مقرر کرتے ہوئے فرماتے ہيں :’’...ميں نے بندگان خدا ميں سے ايک ايسا شخص تم لوگوںکي طرف روانہ کيا ہے جو نہ خوف کے دنوں ميں سوتا ہے اور نہ وحشت کي گھڑيوں ميں دشمن کے مقابل سست پڑتا ہے۔ جو فساديوں اور تباہ کاروں کے لئے آگ کے شعلوں سے کہيں زيادہ آتش بار ہے۔ وہ مالک بن حارث مذحجي ہیں۔ اس کي باتوں کو سنو اور جہاں تک وہ حق کے مطابق ہو اس کي اطاعت کرو۔ يقينا وہ اللہ کي تلواروں ميں سے ايک ايسي تلوار ہے جو نہ کاٹ ميں کند ہوتي ہے اور نہ وار ميں بے اثر‘‘۔ (٥٥) يہاں قابل توجہ نکتہ يہ ہے کہ امامٴ نے اس بات کا ذکر بھي ضروي سمجھا کہ ميرے نمائندے يعني مالک اشتر کي اطاعت فقط حق کے دائرے ميں لازم و واجب ہے۔ اسلام ،حق کي پيروي سکھاتا ہے، شخصيت پرستي نہيں۔ شخصيت بھي حق کي بنياد پر قابل قدر ہوتي ہے۔ بنابرايں ہر شخص چاہے وہ کسي بھي عہدہ يا درجہ پر فائز ہو صرف حق کے معيار پر قانوني حيثيت پاتا ہے۔ شخصيتوں کے تقدس کے فريب ميں آکر لوگوں کو حق کا معيار نہ بھولنا چاہئے اور نہ شخصيتوں کا شکار ہونا چاہئے ورنہ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھانے لگيں گے اور حق شخصيتوں کے سايہ ميں گم ہوکر رہ جائے گا يا پامال ہوجائے گا۔
کسي معاشرہ پر حاکم نظام ميں فرائض کي تقسيم کے ذيل ميں تين طاقتوں کي بات سامنے آتي ہے :
(١) مقننہ ۔ يعني قانون ساز طاقت
(٢)عدليہ۔ يعني قانوني امور ميں
رجوع اور حالات کے مطابق احکام صادر
کرنے والي طاقت
(٣)انتظاميہ (مجريہ)۔ يعني احکام کا اجرا
کرنے والي طاقت۔
ہم اس ڈھانچہ کے تحت حضرت عليٴ کے سياسي نظام کے ارکان کو مشخص کرنا چاہيں تو يہ کہيں گے کہ اس ڈھانچہ کي سب سے پہلي طاقت يعني قانون ساز طاقت کي جس طرح دوسرے تمام سياسي نظام تعريف بيان کرتے ہيں، نہج البلاغہ ميں سرے سے اس کا وجو دہي نہيں ہے۔ کيونکہ دوسرے سياسي نظام عوامي نمائندوں کي آرا کو ہي مطلق طور سے قانون کا سرچشمہ تصور کرتے ہيں جو قانوني طور پر اکثريت کي منظوري کے بعد ہي قابل اجرا ہوتا ہے جبکہ نہج البلاغہ کے سياسي نظام ميں قوانين کا سرچشمہ پہلے سے مشخص کيا جاچکا ہے اور اس کے تمام اصول و کليات وحي الٰہي سے ماخوذ ہيں۔
امام عليٴ مالک
اشترکو لکھتے ہيں :’’جس
کام ميں بھي سنگيني اور الجھاؤ کا احساس کرتے ہو يا جن امور ميں تردد کا
شکار ہوجاتے ہو انہيں خدا
اور رسول کے حوالے کردو... خدا کے حوالہ کرنے کا مطلب اس کي روشن و واضح آيتوں کي
طرف رجوع کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ہے اور پيغمبرکے حوالہ کرنے کا مطلب
آنحضرت کي وسيع و جامع اور غيراختلافي سنت کي پيروي ہے‘‘۔ (٥٦)
حضرت عليٴ نے اس محکمہ کي اہميت کے پيش نظر اس موضوع پر خاص تاکيد فرمائي ہے۔ آپ مالک اشتر کو لکھتے ہيں:’’لوگوں کے درميان قضاوت اور فيصلے کے لئے ايسے شخص کا انتخاب کرو جو تمہاري نگاہ ميں رعايا ميں سب سے بہتر ہو۔ ايسا شخص جو اس کام ميں عاجز و مجبور نہ ہوتا ہو اور طرفين کے رويہ سے غصہ ميں نہ آتا ہو۔ اپنے اشتباہ اور لغزش پر اصرار و ہٹ دھرمي کا اظہار نہ کرتا ہو اور حق کو پہچان کر اسکي طرف رجوع کرنے اور اسے اختيار کرنے ميں تامل يا طبيعت پر بوجھ نہ محسوس کرتا ہو۔ اس کا نفس طمع و لالچ کا شکار نہ ہوتا ہو اوربغير پوري چھان بين کئے سرسري طور پر کسي معاملہ کو سمجھنے پر اکتفا نہ کرتا ہو۔ شبہہ کے مقامات پر احتياط سے کام ليتا ہو اور دلائل کي بنياد پر ہي فيصلہ کرتا ہو۔ شکايت کرنے والوں کے بار بار رجوع کرنے سے تھکتا اور دل تنگ نہ ہوتا ہو۔ معاملات کي تحقيق اور گتھيوں کو سلجھانے ميں بڑے صبر و تحمل سے کام ليتا ہو اور حق کو پہچان لينے کے بعد اس کے مطابق بے دھڑک فيصلہ سناديتا ہو۔ خوشامد و چاپلوسي اسے مغرور نہ بنا دے اور فريب اسے گمراہ نہ کردے۔ البتہ ايسے لوگ بہت کم ہيں‘‘۔(٥٧)
نظام سياست کے ارکان
ميں سے ايک قانون کو نافذ کرنے والا رکن
بھي ہے جس ميں وزرائ ، اسکے معاونين، سکريٹري و... سے لے کر معمولي خدمت گزاروں تک
سيکڑوں افراد حکومت کے معاون و مددگار ہوتے ہيں۔ ان افراد کا انتخاب و تقرر خود ايک
مسئلہ ہے اور ان مختلف صنف کے افراد اور حکومت کے باہمي روابط اکثر ايک دوسرے
پر اور خود معاشرے پر ايک دوسرا مسئلہ
ہيں۔
امامٴ نے تفصيل کے ساتھ ان دونوں پہلوؤں کي وضاحت فرمائي ہے۔ ملاحظہ ہو :’’تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ رعايا ميں کئي طبقے ہوتے ہيں جن کي فلاح و بہبودي ايک دوسرے سے وابستہ ہے اوريہ ايک دوسرے سے بے نياز نہيں ہيں۔ يہ طبقے کچھ اس طرح ہيں:
خدا کے سپاہي (لشکر)، عمومي و خصوصي شعبوں کے منشي، عدالتوں کے قاضي، امن و انصاف قائم کرنے پر مامور افراد، ذمي کفار اور مسلمانوں سے جزيہ، خراج اور ديگر ٹيکس وصول کرنے والے، تجار اور اہل صنعت وحرفت اور معاشرہ کا غريب و محتاج اور نچلا طبقہ؛
خداوندعالم نے ہر ايک کا حق معين کرديا ہے اور کتاب خدا و سنت پيغمبر۰ ميں اس کي حدبندي کردي ہے جو ايک عہد اور آئين نامہ کي صورت ميں ہمارے پاس محفوظ ہے‘‘۔ (٥٨)
چونکہ نہج البلاغہ کے سياسي نظام ميں حکومت، ملت سے الگ نہيں ہے اسي لئے ہم ديکھتے ہيں کہ کلام امامٴ ميں بلااستثنا معاشرہ کے تمام طبقات کا ذکر موجود ہے اور جسطرح مسلح فوجوں نيز عدالتي حکام کا ذکر کيا گيا ہے يوں ہي کاريگروں، مزدوروں، کسانوں، تاجروں اور فقراء کا ذکر بھي کيا گيا ہے۔ ساتھ ہي سب کے لئے مخصوص حدود و حقوق بھي معين کئے گئے ہيں۔ آپٴ نے مالک اشتر کے عہدنامہ ميں حکومت کا ايک مکمل نظام ذکر کيا ہے جس کو تفصيل سے ذکر کرنا اس محدود مقالہ ميں ممکن نہيں ہے۔ لہٰذا يہاں اس بہترين اور نفيس سياست و حکومت کے صرف چند اجزاء اختصار کے ساتھ پيش کرنا چاہوں گا جسکے بغير دنيا کي کسي بھي حکومت کا نظام مکمل نہيں ہوسکتا۔
١۔ نگراني اور جانچ پڑتال: آپٴ فرماتے ہيں
:’’... اس کے بعد ان کي کارگزاريوں کي ديکھ بھال اور نگراني رکھو، سچے اور
وفادار افراد کو بطور ناظر ان کے اوپر معين کرو کيونکہ ان کي خفيہ نگراني اور جانچ
پڑتال انہيں امانت کي رعايت اور لوگوں کے ساتھ نرم روئي پر مجبور کردے گي۔
اپنے مددگاروں اور معاونوں سے خود کو محفوظ رکھنا۔ اگر ان ميں سے کوئي خيانت کا مرتکب ہو
تو ...رسوائي کا طوق اس کے گلے ميں ڈال
دو‘‘۔(٥٩)
٢۔ اکثريت کي رضا
مندي:آپٴ فرماتے ہيں :’’او ر
تم کو وہي امر سب سے زيادہ پسند ہونا چاہئے جو بلحاظ حق سب سے زيادہ وسط
ميں واقع ہو، بلحاظ عدل سب سے
زيادہ عموميت رکھتا ہو اور رعايا کي رضامندي کا سب سے زيادہ جامع ہو کيونکہ
عامۃ الناس کي ناراضگي، خواص کي رضامندي کو بے اثر و بے سود بناديتي ہے اور عامۃ
الناس کي رضامندي کے ساتھ خواص کي ناراضگي ناقابل التفات ہوتي ہے و...‘‘(٦٠)
٣۔ حکومت کا عوام کے ساتھ
براہ راست ربط:اس سلسلہ ميں پوري تاکيد
کي گئي ہے کہ حکومت اور اس کے ذمہ دار ،عوام سے دور اور الگ تھلگ نہ رہيں اور اپنے
گرد کوئي ايسا حصار نہ قائم کريں کہ عوام ان تک اپني بات نہ پہنچا سکے۔ حکام
اور عوام کے براہ راست تعلق و ارتباط سے بڑے مفيد اثرات اور نتائج برآمد ہوتے ہيں۔
امام عليٴ مکہ کے گورنر قثم ابن عباس کو يوں لکھتے ہيں :’’...تم لوگوں کے لئے حج کي
ادائيگي کا سر و سامان کرو اور انہيں اللہ کے يادگار دنوں کي ياد دلاؤ، صبح و شام
عمومي جلسہ رکھو، سوالات کرنے والوں کے سوالات کا جواب دو، جاہل کو علم دو علمائ
سے تذکر کرو...کسي ضرورتمند کو کبھي ملاقات سے مت روکنا... جو اموال تمہارے پاس جمع
ہوجائيں ان پر نظر رکھو اور تمہارے يہاں جو عيال دار اور بھوکے پياسے لوگ ہيں ان
پر صرف کردو...‘‘ (٦١)
٤۔خراج اور ماليات (ٹيکس):امامٴ نے بازاروں اور
کارخانوں کي آمدنيوں کو حکومت کے مالي اعتبار
کي حيثيت سے، فوج کے بجٹ، عدالتي محکموں اور ديگر حکومتي اداروں ميں کام
کرنے والوں نيز معاشرہ کے محروم
طبقہ کي ضرورتوں کي تکميل کا ذريعہ قرار ديا ہے۔ اس پر غور کرنے سے يہ نتيجہ برآمد
ہوتا ہے کہ تاجروں اور صاحبان صنعت و حرفت کي آمدني ہي حکومت کي ضرورتوں کو
پورا کرنے کا سب سے اہم ذريعہ ہے۔ (٦٢)
٥۔تجار اور اہل
صنعت:امامٴ فرماتے ہيں :’’...اور
ان سب کا انحصار تاجروں اور اہل صنعت و حرفت پر ہے جو کسب و کار کے لئے
بازاروں اور کارخانوں ميں جمع ہوتے
ہيں اور اپني آمدني و محنت و کاوش سے ان لوگوں کي ضرورتيں پوري کرتے ہيں (اور
انہيں آسودہ کرديتے ہيں) کہ دوسروں کي آمدني اس کي تلافي کے لئے کافي نہيں
ہوگي۔‘‘ (٦٣)
٦۔ دفاعي بجٹ:فرماتے ہيں
:’’..اور پھر فوج کا نظم و استحکام بھي ٹيکسوں اور آمدنيوں کے بغير قائم نہيں رہ
سکتا جو خدا نے ان کے اختيار ميں دے رکھے ہيں کہ وہ اس کے ذريعہ اپنے دشمن سے
جہاد کريں اور خود کو قوي اور ساز و سامان سے آراستہ کريں نيز اپني ضرورتيں پوري
کريں۔‘‘(٦٤)
٧۔فوج:آپٴ فرماتے ہيں :’’فوج خدا کے حکم سے ملت کا مستحکم اور ناقابل تسخير قلعہ، حکام کي زينت و آبرو، دين کيلئے سرمايہ عزت و افتخار اور معاشرہ ميں امن و مان قائم رکھنے کا وسيلہ ہے۔ رعايا کو بغير اس کے استقلال نہيں حاصل ہوسکتا ہے۔(٦٥)
٨۔ سپہ سالاروںکي ديکھ
بھال:فرماتے ہيں:’’...پھر
ان کي اس طرح ديکھ بھال کرو جس طرح ماں باپ اپني اولاد کي خبرليتے
ہيں...‘‘ (٦٦)
٩۔ بے سہارا بچے اور بوڑھے: ’’...يتيم بچوں اور سال خوردہ بوڑھوں کي
سرپرستي کرو جن کا نہ کوئي سہارا ہے اور نہ وہ سوال کے لئے اٹھتے يا ہاتھ پھيلاتے
ہيں۔ يہ امر حکام کے لئے اگر چہ سخت اور گراں ہے...ليکن بلاشبہ خداوندعالم ان
لوگوں کے لئے جو عاقبت کي بھلائي کے خواہاں، صابر اور اللہ کے وعدہ پر مطمئن ہوں، اس
سنگين ذمہ داري کو قابل تحمل بنا ديتا ہے۔‘‘ (٦٧)
١٠۔کمزور اور نچلا
طبقہ:’’...اور آخر ميں معاشرہ کا نچلا طبقہ ہے جو
محتاج اور تہي دست افراد پر مشتمل ہے اور جن کي ضرورتيں،اعانت اور مالي امداد کے
ذريعہ پوري کي جاني چاہئيں۔ خداوندعالم نے معاشرہ کے ان طبقوں ميں ہر ايک کے لئے ايک
نہ ايک راہ کھول رکھي ہے اور ان کي حيثيت کے مطابق سب کا حکومت اور والي پر حق
مقرر فرمايا ہے ۔ حاکم اپنے اس فريضہ سے اسي وقت عہدہ برآہوسکتا ہے جب اس
سلسلہ ميں عزم و حوصلہ کے ساتھ پوري جد و جہد سے کام لے، خداوندعالم سے نصرت کا
طلبگار رہے، حق پر اپنے آپ کو پوري طرح جمائے رہے اور صبر اختيار کرے چاہے اس کي
يہ ذمہ داري سبک ہو يا سنگين‘‘۔ (٦٨)
١١۔ مشيران حکومت:’’...اپنے مشورہ ميں بخيل کو ہرگز داخل نہ کرو جو تم
کو رعايا پر تفضل کرنے روکے اور فقير ہوجانے کا خوف دلائے اور نہ اس بزدل کو شريک
کرو جو تم کو انصرام امور ميں کمزور بنائے اور نہ اس حريص کو (شريک کرو) جو حرص و
طمع کو تمہاري نگاہ ميں زينت دے۔‘‘(٦٩) بات يہ ہے کہ بخل، جبن اور حرص ہيں تو
مختلف طبعي (خصائل) مگر ان کا جامع اور قدرمشترک اللہ سے سوئے ظن ہے۔
١٢۔ انتخاب وزراء:’’تمہارا سب سے برا وزير وہ شخص ہوگا جو تم سے پہلے
اشرار کا وزير اور معاصي ميں ان کا شريک رہ چکا ہو۔ پس لازم ہے کہ وہ تمہارے خواص
ميں داخل نہ ہونے پائے...وہ لوگ جنہوں نے کسي ظالم کي مدد ظلم ميں اور کسي گنہگار کي
تائيد ان کے گناہ ميں نہ کي ہوگي وہ لوگ تمہارے لئے نہايت سبک بار، اچھے مددگار
اور سب سے زيادہ مہرباں ثابت ہوں گے... پس تم انہي لوگوں کو خلوت و جلوت ميں خاص ہم
نشين بناؤ اور ان ميں سے بھي اس شخص کو ترجيح دو جو حق کي تلخ باتيں سب سے کہنے
والا ہو...‘‘ (٧٠)
١٣۔ فساد و خونريزي:’’ناجائز خونريزي سے اپني سلطنت کو
قوت دينا نہ چاہو کيونکہ وہ ضعف
و خلل پيدا کرتي ہے بلکہ اس کو فنا اور (دوسرے کي طرف) منتقل کرديتي
ہے۔ اگر تم عمداً قتل کروگے تو
ميرے اور خدا کے نزديک کوئي عذر پيش نہ کرسکو گے۔‘‘ (٧١)
١٤۔دعوت
صلح:آپٴ فرماتے ہيں :’’...اور تم کسي ايسي (دعوت) صلح کو رد نہ کرو جو دشمن کي طرف سے پيش
ہو اور خدا کي مرضي اور خوشنودي بھي اس ميں ہو اسلئے کہ صلح سے فوج کو آرام ملے گا،
تم کو فکروں سے راحت ہوگي اور بلائ(ملک) کو امن نصيب ہوگا‘‘۔
(٧٢)
غرض
کہ مالک اشتر کے عہدنامہ ميں جو آپ نے سياست کے منشور پيش کئے ہيں وہ سياست کے صفحات پر
سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہيں۔ اگر ميں اس کا خلاصہ کرنا چاہوں تو فقط عنوانات
کي شکل ميں يوں بيان کرسکتا ہوں۔ آپ نے مالک اشتر کو جو منطقي دستور بتائے ہيں ان ميں
سے خاص مندرجہ ذيل ہيں:
١۔تقويٰ و خودسازي
٢۔عاملوں کو عمل صالح کي تلقين اور عوام کي نگراني
٣۔ماضي سے سبق لينا
٤۔ضبط نفس
٥۔وقت پر کام کرنا
٦۔سيکرٹريٹ کيسا ہو
٧۔ٹيکس کي وصولي
٨۔انصاف قائم کرنا اور ظلم سے دوري
٩۔حق کا قيام اور عوام کي طرف خاص توجہ
١٠۔نالائق وزيروں سے دوري
١١۔بازار سياہ اور احتکار کرنے والوں پر پابندي عائد کرنا
١٢۔صفت حميدہ کا پاس و لحاظ رکھنا
١٣۔دانشمندوں سے تبادلہ خيال کرنا
١٤۔سماج کے مختلف طبقوں تک رسائي
١٥۔ فوجيوں اور حاکم کي قدرداني و تشويق
١٦۔چغل خور سے پرہيز
١٧۔ حاکم کي چوکسي اور ہوشياري
١٨۔روزمرہ کے مسائل سے حکومت کي دلچسپي
١٩۔عبادت کيلئے خاص وقت معين کرنا
٢٠۔صحيح مديريت و ذمہ داري کو نبھانا اور لوگوں پر اعتماد و بھروسہ کرنا ٢١۔ذمہ داري کو انجام دينے کيلئے خدا سے مدد طلب کرنا و.......
جب آپ آج کے اس ترقي يافتہ دور ميں اقوام متحدہ کا منشور پڑھيں گے تو پتہ چلے گاکہ اسميں کوئي فصل ايسي نہيں ہے جسکي نظير امام عليٴ کے دستور ميں نہ پائي جاتي ہو بلکہ حضرتٴ کے دستور ميں اس سے بہتر اور بالاتر چيزيں موجود ہيں جبکہ اقوام متحدہ کے منشور کو دنيا کے ہزاروں عقلمندوں نے مل کر مرتب کيا ہے ليکن دستور علوي کو صرف تنہا علي ابن ابي طالبٴ نے چودہ سو سال پہلے مرتب کيا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ ميں سے جنہوں نے حقوق انساني کے منشورمرتب کئے تھے انہي لوگوں نے سب سے پہلے اسے توڑ بھي ديا اور حقوق انساني کو پامال کرنے کيلئے خون کي ندياں بہا ديں، بستيوں کو ويران کرديا اور انساني لاشوں کے انبار لگادئيے، ان کے خون سے ہولي کھيلي اور لاشوں پر جشن منايامگر علي ابن ابي طالبٴ نے جو سياست کے دستور مرتب کئے تھے، ظلم و ستم کي تند آندھياں بھي اس پر عمل درآمد کو روک نہ سکيں بلکہ عليٴ خوں خوار درندوں ميں بھي رہ کر اپنے دستور پرعمل پيرا رہے۔
روئے زمين پر عليٴ ايک واحد ايسا سياستمدار ہے جس نے اپني حکمت عملي کيلئے اسلامي حکمت نظري کو انتخاب کيا اور دنيا کي کوئي طاقت ان کي اس الٰہي فکر کو تبديل نہ کرسکي اور اپنے پنج سالہ دور حکومت ميں وہ اس پر سختي سے کاربند رہے۔ بدخواہوں کے طعن و تشنيع، فاسد حکام کي ہاہو، ظالم سلطنتوں کي افتراپردازيوں اور بہتان تراشيوں کے باوجود سيسہ پلائي ديوار کي طرح اپني اسلامي سياست پر قائم رہے اور ہر طرح کے نادان دوستوں اور دانا دشمنوں کي وحشت انگيز يلغار کا تن تنہا ڈٹ کر مقابلہ کيا يہاں تک کہ حقوق انساني کا دفاع کرتے کرتے درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔
١۔ مقدمہ ابن خلدون، ص٧٨-٧٧
٢۔ دائرۃ معارف بستاني:ساس القوم:
دبرھم و توليٰ
امرھم۔ الامر قام بہ فھو سائس السياسۃ استصلاح الخلق بارشادھم
اليٰ الطريق المنجي في العاجل او
الاجل السياسۃ المدنيہ: تدبير المعاش مع العموم علي سنن العدل والاستقامۃ۔
مجمع
البحرين: ساس يسوس: الرعيۃ: امرھا و نھاھا، القيام علي الشي بما يصلحہ
المعجم
الوسيط: ساس الناس سياسۃً: توليٰ رياستھم و قيادتھم
عربي
لغت لاروس: ساس الوالي الرعيّۃ: توليٰ امرھا و احسن النظر اليھا
٣۔ السياسۃ لارسطو
طاليس، ص٩١ ک١ب١ف١ و صفحہ ٢١٢ پر
بھي يہي مطلب ہے۔
٤۔ فلسفہ سياست، اوسولوڈ اشپنگلر، ص٣٩، ٤٠
٥۔ نہج البلاغہ نقل از کتاب اصول سياست علامہ محمد تقي جعفري
٦۔ايضاً
٧۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٠٠
٨۔ نہج البلاغہ، خطبہ١٢٦
٩۔ غرر الحکم مادئہ سياست
١٠۔ ايضاً
١١۔ ايضاً
١٢۔ايضاً
١٣۔ ايضاً
١٤۔ ايضاً
١٥۔ايضاً
١٦۔ ايضاً
١٧۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد، ج١ ،ص١٦
١٨۔ نہج البلاغہ
١٩۔نہج البلاغہ،نامہ ٢٨
٢٠۔نہج البلاغہ
٢١۔نہج البلاغہ،نامہ ٥
٢٢۔نہج البلاغہ،نامہ٢٦
٢٣۔نہج البلاغہ،خطبہ ٣٣
٢٤۔نہج البلاغہ،خطبہ ١٣١
٢٥۔ ايضاً
٢٦۔ايضاً
٢٧۔نہج البلاغہ،نامہ
٤٣
٢٨۔ ’’ما منع فقير الا بما متع بہ غني‘‘ علامہ محمد تقي جعفري ، شرح نہج البلاغہ، ج١٠، ص٢٦
٢٩۔ الحياۃ ، ج٤،ص٣١٩
٣٠۔ عليٴ، ڈاکٹر علي شريعتي ص١٠٤
٣١۔الخارات ص٣٢
٣٢۔نہج البلاغہ،نامہ ٥٣
٣٣۔نہج البلاغہ،قصار ١٦٣
٣٤۔وسائل الشيعہ، ج١٢، ص٤ ’’ان معايش الخلق خمسۃ: الامارۃ والعمارۃ التجارۃ الاجارۃ والصدقات...‘‘
٣٥۔نہج البلاغہ، فيض الاسلام ص١١٥٣
٣٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ
٣٤۔ ’’ايھا الناس ان
لي عليکم حقا و لکم عليّ حق فاما حقکم عليّ فالنصيحۃ لکم و
توفيرفيکم عليکم و تعليمکم کي لا تجھلوا و
تاديبکم کيما تعملوا‘‘
٣٧۔ تجلي امامت، نقل
از المصدر ،ص٢٠٦
٣٨۔مناقب، ج١،ص٣٢١
٣٩۔ مناقب آل ابي طالبٴ ، ج٢ ،ص٩٩
٤٠۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢
٤١۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٢٧
٤٢۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٤
٤٣۔شرح نہج البلاغہ، علامہ محمد تقي جعفري، ج٢٤،ص١٦٦
٤٤۔نگرشي بہ تصوف محمد باقر لائيني
٤٥۔طبري، ج٢ ، ص٤٤٩۔ خلافت و ملوکيت ابوالاعليٰ مودودي ص١٠٤
٤٦۔ نہج البلاغہ،خطبہ ١٠٨
٤٧۔ خصوصي مجلہ
’’عليٴ اور عصر حاضر ‘‘ ١٨ذي الحجہ
١٤٢٣ (طٰہ فاؤنڈيشن، قم ايران)
٤٨۔ نہج
البلاغہ،مکتوب ٤٧
٤٩۔ نہج البلاغہ،خطبہ ٣١
٥٠۔سيماي کارگزاران علي ابن ابي طالب اميرالمومنينٴ
٥١۔ نہج البلاغہ،نامہ ٣١
٥٢۔ نہج البلاغہ،عہدنا مہ مالک اشتر، نامہ ٥٣
٥٣۔ نہج البلاغہ،خطبہ ٢١٦
٥٤۔ نہج البلاغہ،مکتوب ٤٨
٥٥۔ نہج البلاغہ،مکتوب ٥٣
٥٦۔کلمات قصار ٣١٤
٥٧۔ نہج البلاغہ،مکتوب ٥٩
٥٨۔ نہج البلاغہ،مکتوب ٣٨
٥٩۔ نہج البلاغہ،نامہ ٥٣
٦٠۔ايضاً
٦١۔ايضاً
٦٢۔ايضاً
٦٣۔ايضاً
٦٤۔ايضاً
٦٥۔ايضاً
٦٦۔ايضاً
٦٧،ايضاً
٦٨۔ايضاً
٦٩۔ايضاً
٧٠۔ايضاً
٧١۔ايضاً
٧٢۔ايضاً
٧٣۔ايضاً
٧٤۔ايضاً
٧٥۔ايضاً