امیر المومنین حضرت علی (ع) کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں: ''فَکُونُوا مِنْ حَرَثَۃِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِہِ'' (۱) قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ''وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُمْ'' قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔
وَاسْتَنْصِحُوہُ عَلٰی أَنفُسِکُمْ ، اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔
اس بنا پر حضرت علی (ع) مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (إِنَّ ہٰذَا الْقُرآنَ یَہْدِيْ لِلَّتِي ہِيَ أَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُم أَجرًا کَبِیراً)(سورہئ اسرائ، آیت ۹)
''بے شک یہ قرآن اس راستہ کیہدایتکرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارتدیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجرہے''۔
جو نکتہ یہاں پر قابل تاکید ہے، یہ ہے کہ اس آیہئ شریفہ کے مضمون پر ایمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ہے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ایسا ایمان و اعتقاد انسان کی روح پر حاکم نہ ہو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختیار میں نہ دے اور اپنے کو کج فکری، خود پسندی اور نفسانی خواہشات سے پاک و صاف نہ کرے ہر لمحہ ممکن ہے شیطانی وسوسوں کے جال میں پھنس جائے اور گمراہ ہو جائے، پھر جب بھی قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن میں بھی ایسے مطالب اور آیات ڈھونڈے گا جو کہ اس کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتے ہوں۔
واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیںہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔
البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ہی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پہلے، انسان اپنے ذہن کو ہر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ہے اور نہایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰہی معارف کو قبول کرتاہے۔
تفسیر بالرائے
واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالرائے کا روحی اور نفسیاتی محرّک یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انسان بندگی کی روح کمزور ہونے کے سبب اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کو چھوڑ نہیں سکتا اور دوسری طرف شیطان اس حالت سے مناسب فائدہ حاصل کرتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے کام لیتا ہے کہ ایسے انسان کے فکر و ذہن کو قرآن ودین سے غلط تفسیر کی طرف موڑ دے اور اسے گمراہ کردے۔
خصوصاً اگر یہ شخص اجتماعی اور سماجی لحاظ سے ثقافتی مرتبہ کا حامل ہو، شیطان کا وسوسہ، اس کی کوشش اور اس قسم کھائے ہوئے دشمن کی حرص ایسے انسان کے منحرف اور گمراہ کرنے میں سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ شیطان جانتا ہے کہ ایسے انسان کو منحرف کرنے سے ایک گروہ کودین سے منحرف کردے گا کہ وہ گروہ ممکن ہے اس انسان کی باتیں سنتا اور مانتا ہو۔ایسے لوگ نہ کم تھے اور نہ ہیں جو کہ تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے بغیر، خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ، قرآن کی طرف رجوع کرنے سے پہلے فتویٰ صادر کرتے ہیں اور بغیر اس کے کہ تھوڑی سی بھی علمی صلاحیت اور ضرورت بھر مہارت رکھتے ہوں، اظہار نظر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن بھی ہمارا ہی نظریہ رکھتا ہے۔
واضح سی بات ہے کہ ایسے انسان اپنےنفسانی خواہشات اور باطل افکار و نظریات پر دینی اور قرآنی رنگ چڑھانے کے لئے مجمل آیات اور بحسب ظاہرمبہم سے مبہم آیات سے تمسک کرتے ہیں۔
بدیہی ہے کہ ایسی روحی، خود پسندی اور کج فکری کی حالت سے نہ صرف قرآن کے صحیح سمجھنے کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہ جاتی، بلکہ فطری طور پر غلط فہمی اور حق سے منحرف ہونے کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔
قرآن کی اس طرح کیتفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیرکیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہاور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔
قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:
وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰہِ ہُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَۃَ اللّٰہِ عَلَیکُمْ وَ مَاأَنزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہِ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمٍ) (سورہ بقرہ، آیت ۲۳۱)
یعنی ''خبردار! آیاتالٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اسنے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یادرکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے''۔
جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ وہ لوگ قرآن کریم کی ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں جو اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں، اور جو لوگ خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے دینی اور قرآنی توجیہیں گڑھیں اور اپنی رائے سے کلام خدا کی تفسیر و توجیہ کریں، وہ خدا پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں۔
یہاں پر مناسب ہے کہ اس سلسلہ میں چند روایتوں پر توجہ کریں:
''قالرسول اللّٰہ (ص) : قال اللّٰہ جلّ جلالہ:مَا آمَنَ بِی مَن فَسَّرَ بِرَأیِہِ کَلامِی'' (۲) پیغمبر (ص) ، خداوند متعال کا قول نقل فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے: وہ شخص ہرگز مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔
دوسرے بیان میں پیغمبر(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا
''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰہِ الکَذِبَ'' (۳) جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔
پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد اس وجہ سےہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہآیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔
قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔
حضرت پیغمبر (ص) اس سلسلہ میںبھی ارشاد فرماتے ہیں : ''مَنفَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِہِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدہ مِنَ النَّار'' (۴) جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔
اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔
جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی (ع) کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔
حضرت علی (ع) کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:
''وَاتَّھِمُوا عَلَیہِ آرَائَکُم'' (۵) جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت (ع) کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔
قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت (ع) فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔
''وَاسْتَغِشُّوافِیہِ اَہوَائَکُمْ'' اپنے خواہشات اورہوا و ہوسکو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔
اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔