انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے علم کے بارے میں لوگوں کے مختلف نظریات ہیں ، کچھ معتقد ہیں کہ ان کا علم محدود تھا اور شرعی مسائل کے علاوہ دوسرے امور ان کے حیطہ علم سے خارج ہیں ، کیوں کہ علم غیب خدا کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے ، قرآن کریم کی کچھ آیات اس بات کی تائید کرتی ہیں جیسے : وعندہ مفاتیح الغیب لا یعلمھا الا ھو (انعام ۵۹)
غیب کی چابیاں اس کے پاس ہیں ا سکے علاوہ کوئی بھی ان سے مطلع نہیں ہے
دیگر آیتمیں ارشاد ہوا : وماکان اللہ لیطّلعکم علی الغیب (آل عمران۱۷۹)خدا تمہیں غیب سے مطلعنہیں کرتا۔
کچھ اس نظریہ کو رد کرتے ہیں اور معتقد ہیں انبیاء ؑاور ائمہ ؑکا علم ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے اور کوئی بھی چیز چاہے امور تکوینیہ میں سے ہو یا تشریعیہ میں سے ان کے علم سے باہر نہیں ہے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو امام کی عصمت کا قائل نہیں ہے اہل سنّت کی طرح امام کو ایک عام رہبراور پیشوا کی طرح مانتا ہے ا سکا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ امام کسی چیز کے بارے میں مامومین سے کم علم رکھتا ہواور اس کے اطاعت گزار کچھ چیزوں میں اس سے اعلم ہوں جیسا کہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر نے ایک عور ت کے استدلال کے بعد اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا : کلکم افقہ من عمر حتی المخدرات (شبہائے پشاور ۸۵۲)
تم سب عمر سے زیادہ صاحب علم ہو حتی خانہ نشین خواتین بھی۔
فلسفہ کی نظر سے ہما راموضوع انسان کی معرفت اور اس کے علم کی نوعیت سے مربوط ہے اوریہ کہعلم کس مقولےکے تحت آتا ہے ۔ مختصر یہ کہ علم واقعیت کے منکشف ہونے کا نام ہے اور یہ دوطرح کا ہوتا ہے ذاتی اور کسبی ،۔ذاتی علم خداوند عالم کے لئےہے اور نوع بشر اس کی حقیقت اور کیفیت سے مطلع نہیں ہو سکتی لیکن کسبی علم کوانسان حاصل کر سکتا ہے ۔
علم کی ایک تیسری قسم بھی ہے جسے علم لدنّی اور الہامی کہا جاتا ہے یہ علم انبیاء اوراولیاء الھی کے پاس ہوتا ہے یہ علم نہ انسانوں کی طرح کسبی و تحصیلی ہوتا ہے اور نہ خدا کی طرح ذاتی بلکہ عرضی علم ہے جو خدا کی طرف سے ان کو عطا ہوتا ہے اسی علم کے ذریعہ انبیاء اور ائمہ علیھم السلام لوگوں کوآئندہ اور گذرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے تھے ا ور ہرسوال کا جواب سوال کرنے والوں کی عقل کی مناسبت سے دیتے تھے جیسا کہ قرآن کریم نے حضرت خضرؑ کے لئے فرمایا: وعلمناہ من لدنّا علما (کہف۶۵( ہم نے انہیں اپنی طرف سے علم لدنّی و غیبی عطا کیا۔
قرآن حضرت عیسیؑ کی زبانی بیان فرماتا ہے : انبئکم بما تأکلون وما تدخرون فی بیو تکم(آل عمران۹۴۹)
تمہیں خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو۔
معلوم ہواکہ اس علم غیبمیں جو خدا اپنے لئے مخصوص کرتا ہے اور اس علم میں جو اپنے نبیوںاور ولیوں کو عطا کرتا ہے فرق ہے اور وہ فرق وہی ہے جوذاتی اور عرضی میں ہے جو دوسروں کے لئے ناممکن ہے وہ علم ذاتی ہے لیکن عرضی علم خدا اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے جس کے ذریعہ وہ غیب کی خبریں دیتے ہیں :
عالم الغیب فلا یظہرعلی غیبہ احد الا من ارتضیٰ من رسول (جن۲۶)
خدا غیب کا جاننے والا ہے کسی پر بھی غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے اسکے جسے رسالت کے لئے منتخب کر لے ۔ گذشتہ آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیامبر ا کرم (ص) جوزنجیر عالم امکان کی پہلی کڑ ی ہیں اور قاب قوسین او ادنیٰ کی منزل پر فائز ہیں خدا کے بعد سب سے زیادہ علم ان کے پاس ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا: علّمہ شدید القویٰ (نجم۵) اسی لئے وہ کائنات کے اسرار و رموز کا علم ہر مخلوق سے زیادہ رکھتے ہیں اور حضرت علی ؑ کا علم بھی انہیں کی طرح اسی ابدی وازلی سر چشمہ سے وابستہ ہے اس لئے کہ علی علیہ السلام باب مدینۃ العلم ہیں کیونکہ خود آنحضرتؐ نے فرمایا ہے : انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیأت من بابھا(مناقب ابن مغازلی ص۸۰) انا دار الحکمۃوعلی بابہا.(ذخائر العقبیٰ۷۷)
خود حضرت امیرؑ نے فرمایا: لقد علمنی رسول اللہ(ص)الف باب کل باب یفتح الف باب (خصال صدوق ج ۲ص۱۷۶)
شیخ سلیمان بلخی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں امیرالمومنین ؑسے نقل کیا ہے : سلونی عن اسرار الغیب فانی وارث علوم الانبیاء والمرسلین۔(ینابیع المودہ باب۱۴ ص۶۹)
نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا علم و حکمت دس حصوں میں تقسیم ہوئی ہے جس میں نو حصے علیؑ سے مخصوص ہیں اور ایک حصّہ دوسرے انسانوں کے لئے ہے اور اس ایک حصے میں بھی علی اعلم الناس ہیں ۔(ینابیع المودہ باب۱۴ ص۷۰)
خودحضرت علی ؑ نے فرمایا: سلونی قبل ان تفقدونی.(ارشاد مفید ج۱باب ۲ فصل۱ حدیث۴)
مختصر یہ کہ متعدد احادیث علی علیہ السلام کے علم بیکراں کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علی۔ غیب دان اور عالم علم لدنی تھے ۔
اختصار کے پیش نظر اس بحث کو یہیں پر ختم کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ انشاء اللہ عنقریب ہی کسی دوسرے اشاعتی سلسلہ میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے ۔٭٭
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون اور فروع دین میں سے ہیں ۔قرآن کریم اور معصوم راہنماؤں نے فریضہ کے بارے میں کافی تاکید کی ہے ۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دوسر ے ادیان آسمانی نے بھی اپنے تربیتی احکام کو جاری کرنے کے لئے ان کا سہارا لیا ہے ۔لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : امر بالمعروف اور نہی عن المنکرانبیاء کی روش اور نیک کردار افراد کا شیوہ اور طریقۂ کار ہے ۔
(وسائل الشیعہ ۱!۳۹۵)
امر یعنی فرمان اور حکم دینا ۔نہی یعنی روکنا اور منع کرنا۔
معروف یعنی پہچانا ہوا، نیک ، اچھا ۔منکر یعنی ناپسند ، ناروا اوربد ۔
اصطلاح میں معروف ہر اسچیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے قربت اور لوگوں کے ساتھ نیکی کےعنوان سے پہچانی جائے ۔اور ہر وہ کام جسے شارع مقدس (خدا)نے برا جانا ہے اور اسے حرام قراردیا ہے اسے منکر کہتے ہیں ۔(مجمع البحرین کلمۂمعروف اور منکر )
معروف اور منکر کے وسیعدائرے
معروف اور منکر صرف جزئی امور ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر برے اور ناپسند کام کو شامل ہے ۔
دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت ، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و گذشت ، امید و رجاء ، راہ خدا میں انفاق ، صلۂ رحم ، والدین کا احترام، سلام کرنا ، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، ہمنوع ، پڑ وسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت ، طہارت و پاکیزگی ، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اور سیکڑ وں نمونے ۔
اس کے مقابلہ میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسند شمار کیا ہے ، جیسے :ترک نماز ، روزہ نہ رکھنا، حسد ، کنجوسی ، جھوٹ ، تکبر ، غرور ، منافقت ، عیب جوئی او ر تجسس، افواہ پھیلانا، چغلخوری ، ہوا پرستی ، برا کہنا، جھگڑ ا کرنا، نا امنی پیدا کرنا، اندھی تقلید ، یتیم کامال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری ، رشوت لینا ، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرناوغیرہ وغیرہ۔
پروردگار عالم فرماتا ہے :مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں کہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔(سورہ توبہ ۔!۷۱)
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ان دو واجب الٰہی کا دوسرے اسلامی احکام سے مقایسہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو گہرے سمندرمیں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے ۔(نہج البلاغہ کلمہ !۳۷۴)
رسول خدا (ص) ایک خوبصورت مثال میں معاشرے کو ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :اگر کشتی میں سوار افراد میں سے کوئی یہ کہے کہ کشتی میں میرا بھی حق ہے لہٰذا میں اس میں سوراخ کر سکتا ہوں ، اور دوسرے مسافرین ا سکو اس کام سے نہ روکیں تو اس کا یہ کام سارے مسافروں کی ہلاکت کا سبب بنے گا ۔اس لئے کہ کشتی کے غرق ہونے سے سب کے سب غرق اور ہلاک ہوجائیں گے اور اگر دوسرے افراد اس شخص کو اس کام سے روک دیں تو وہ خود بھی نجات پاجائے گا اور دوسرے مسافرین بھی ۔(صحیح بخاری ۲!۸۸۷)
اسلام صرف انسانوں کے متعلقہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم نہیں دیتاہے بلکہ جانوروں کے سلسلہ میں بھی ا سکو اہمیت دی ہے۔ امام جعفر صادق۔ فرماتے ہیں :بنی اسرائیل میں ایک بوڑ ھا عابد نماز میں مشغول تھا کہ اس کی نگاہ دو بچوں پر پڑ ی جو ایک مرغے کے پر کو اکھاڑ رہے تھے عابد ان بچوں کو اس کام سے روکے بغیر اپنی عبادت میں مصروف رہا ، خدا وند عالم نے اسی وقت زمین کو حکم دیا کہ میرے اس بندے کو نگل جا۔(بحار الانوار ۹۷!۸۸)
شرائط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
علماء اور مراجع کرام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ شرائط بیان کئے ہیں جن کو خلاصہ کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے :
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صحیح طریقہ سے انجام دینے کی سب سے اہم شرط معروف اورمنکر ، ان کے شرائط اور ان کے طریقہ کار کو جاننا ہے ، لہٰذا اگر کوئی شخص معروف اور منکر کو نہ جانتا ہو تو وہ کس طرح ا سکو انجام دینے کی دعوت دے سکتا ہے یا اس سے روک سکتا ہے ؟!!!ایک ڈاکٹر اور طبیب اسی وقت بیمار کا صحیح علاج کر سکتا ہے جب وہ درد ، ا سکی نوعیت اور اس کے اسباب و عوامل سے آگاہ ہو ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوسری شرط امر و نہی کی تاثیر کا احتمال اور امکان پایا جاتا ہو ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرایک بیکار اور بے مقصد کام نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے حساب و کتاب اور خاص قوانین و شرائط کے ساتھ ۔ اس فریضہ کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خدا وند عالم نے تاثیر نہ رکھنے کے قوی گمان کے باوجود بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو واجب قرار دیا ہے ۔اسی بنا پر مراجع تقلید فرماتے ہیں : یہاں تک کہ اگر ہم بہت زیادہ احتمال دیں کہ فلاں مقام پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا اثر نہ ہو گا اس کا وجوب انسان کی گردن سے ساقط نہیں ہو گا ۔لہٰذا اگر گمان رکھتے ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا اثر انداز ہو گا تو ایسی صورت میں اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تیسری شر ط یہ ہے کہ امر و نہی کرنے کی وجہ سے ضر ر اور نقصان کا خطرہ نہ ہو ۔اس فریضہ الٰہی کے بہت اہم اور قیمتی نتائج سامنے آتے ہیں ۔لہٰذا اگر یہ کام صحیح اور اچھے طریقہ سے انجام نہ پائے پائے یا نقصان دہ ہو جائے ایسی صورت میں ایک امر الٰہی نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اپنے ہدف اور مقصد سے مناسبت نہیں رکھتا