خدا کا رسول (ص)دنیا میں کسی عظیم الشان سلطنت کی بنیاد قائم کرنے نہیں آیا تھا ،نہ وہ ایسے شاندار قصروں کی تعمیر کرنا چاہتا تھا جن کے کنگرے سطح فلک سے مقابلہ کرتے ہوں نہ وہ کوئی خزانہ جمع کرنے کی ضرورت سمجھتا تھا جس میں تمام اطراف ارض کا خراج سمیٹ کر ذخیرہ کیا جائے، نہ وہ ایسا شاندار لباس پہننا باعث افتخار سمجھتا تھا جس کی جمک دمک سے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوں، بے شک اگر پروردگار عالم کی نظر میں ان ظاہری اشیاءکے لئے کوئی اہمیت حاصل ہوتی تو قیصر و کسریٰ سب سے زیادہ حقدار تھے کہ ان پر اپنا پیغام نازل کرتا ملک عرب کے بڑے بڑے سرمایہ پرست کافی وجوہ رکھتے تھے کہ وہ ان کو اپنا سفیر مقرر کرے لیکن یہ کیا تھا کہ اس نے بنی ہاشم کے گھرانے میں سے ابو طالب کے پروردہ یتیم کو رسالت کے عہدہ کے لئے منتخب کیا اور نبوت کا اعلیٰ منصب اس کے متعلق کیا ۔تمام سرمایہ داران قریش اور ارباب جاہ و حشم کی گردنیں اسی ہستی کے سامنے خم کرا دیں ۔کیا اس لئے کہ ان کے اقتدار سے ما فوق ایک دنیاوی سلطنت قائم کرنا منظور تھا ؟ہرگز نہیں ،اگر ایسا ہوتا تو وہ قادر تھا اپنے پیغمبر (ص)کے لئے مکہ و مدینہ کے پہاڑ وں کو طلائے خالص بنا دیتا اور زمیں کے سنگریزے زرو جواہر بن جاتے لیکن اس کے برخلاف رسول اکرم (ص)نے اپنی زندگی بھر دونوں وقت شکم شیر ہو کر کھانا بھی نہ کھایا ،شاہی محل اور قصر کیسے !اگر کوئی رسالتما ¿ب (ص) کے گھر کے اندر جایا کرتا تو چھت کو اپنے سے چھوٹا پاتا ۔مسجد کا شاہی دربار جس میں ارکان دولت کا اجتماع ہوتا تھا اس میں سلطان دین و دنیا کے پاس بیٹھنے والے وہ اشخاص ہوتے تھے جن کے پاس پہننے کو ثابت کپڑا بھی نہ تھا ۔
اس سیرت کو دیکھتے ہوئے یہ بات کسی ثبوت کی محتاج نہیں رہتی کہ خدا کا رسول ملوکانہ زندگی بسر کرنے کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع بشر کو حقائق توحید سے مطلع کرنے اور دنیا کو درس اخلاق دینے کے لئے آمادہ تھا ،وہ مادہ کی ظاہری شان و شوکت کو توڑ کر روحانیت کے جذبہ کی ترقی دینا اپنا فرض سمجھتا تھا اور اول دوربعثت سے لے کر آخر ی وقت تک اس کا نصب العین یہی رہا ۔
رسول خدا (ص) کیآنکھیں بند ہوئی اور موت نے ان کے ظاہری فیوض کو مسلمانوں سے سلبکیا جس کے ساتھ ہی اخلاق و عادات ،جذبات و احساسات میں عجیب و غریب انقلاب پیدا ہو گئے ،روحانیت کہ جگہ مادیت نے لینا شروع کی اور حقائق پرستی کے بجائے سرمایہ پرستی نے اپنا عمل قائم کردیا قیصر و کسریٰ کے ممالک فتح ہوئے ۔ایران کی نازک مزاجی ،ظاہر داری ،فضول خرچی کا اثر غیر متمدن عربوں نے لیا اور مال غنیمت کی کثرت نے خزانوں کے دامن کو زرو جواہر سے مملوک کر دیا ۔اب کیا تھا بے دردی سے اسلام کی دولت صرف کی جانے لگی اور اسلامی خصوصیات کے بر خلاف ملوکیت اور جہاگیریت کا دور دورا شروع ہو گیا ۔مستحقین کے بنائے مسلمانوں کا مال ملکی سیاست اور ذاتی اغراض کا ذریعہ قرار پاگیا ۔
” سیاست “ اپنےحقیقی معنی میں بہت خوشگوار اور قابل وقعت لفظ ہےیہ در حقیقت اس انتظامی قابلیت کا نام ہے جومبداءفیض کی طرف سے مدنیت و اجتماع کی حفاظت کے لئے کسی انسان میں ودیعت کی جاتی ہے اور جس کے آثار اصلاح ملک و ملت کے ضمن میں ظاہر ہوتے ہیں ۔
لیکن افسوس ہے کہ جس طرح بہت سی لفظیں اپنے غلط استعمال کی وجہ سے بے وقعت ہو گئی ہیں اسی طرح سیاست کی لفظ اپنے بے محل موارد استعمال کی بدولت اصلی مفہوم سے ہٹ کر دوسرے معنی کی قالب بن گیا ہے ،سیاست کے معنی جدید اصطلاح میں اپنے مقصد کو حق ناحق ہر طریقے سے کامیاب بنانا اور اس کے حصول میں جن طریقوں کی بھی ضرورت ہو ان کا بلند حوصلگی کے ساتھ استعمال کرکے اس مقصود کو حاصل کر لینا ہے۔
خدائی مدرسہ ¿اخلاق و تمدن کے تعلیم یافتہ افراد میں سیاست کے جنبہ کومذکورہ بالا حیثیت سے تلاش کرنا کھلی ہوئی غلطی ہے ،نہ یہ کہ وہ سیاست کے پیچیدہ رموز و اسرار سے ناواقف ہوا کرتے ہیں ،ہرگز نہیں بلکہ اس لئے کہ ان کو دیانت و امانت کے فرائض اور خدائی قانون کی دفعات اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان طریقوں کا استعمال کریں ،وہ تو قدم قدم پر اپنے خدا کی مرضی کے جویا اور اس کی خوشنودی کے طالب ہوا کرتے ہیں اور اپنی حرکت و سکون بلکہ گردش چشم اور جنبش زبان میں اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ اس قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے جس کے وہ پابند بنائے گئے ہیں ۔اس فلسفہ کو حکیم اسلام امیر المومنین علیہ السلام نے چند کلموں میں اس طرح ادا فرمایا ہے :” واللّٰہ لولا الدین لکنت ادھیٰ العرب“
دنیا پرست افراد اپنے مقصد کے حصول میں ہر جائز و ناجائز طریقے کو عمل میں لانا ضروری سمجھیں لیکن شریعت الٰہیہ کے محافظ اور دینی احکام کے نگہبان افراد کسی طرح ان طریقوں کو اختیار نہیں کر سکتے جن کو متعلق مذہبی احکام اجازت نہیں دیتے اگر سیاست سے ناواقفیت اسی کا نام ہے تو ہم بہت کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کے تسلیم کرنے کے لئے موجود ہیں ۔دنیاوی بادشاہوں ،مادہ پرست ارباب اقتدار میں اگر تم سیاست کے اس مفہوم کو تلاش کرتے ہو تو بیجا نہیں ،مگر خلافت الٰہیہ کے مالک اور شریعت مقدسہ کے محافظ افراد کے حالات زندگی اور طرز عمل میں اس مفہوم کی جستجو کرنا دانشمندی سے بہت بعید ہے ۔وصی درحقیقت نبی کا جانشین ہواکرتا ہے لیکن جانشینی سے مراد صرف ظاہری مسند پر بیٹھ جانا یا منبر پر رسول کی جگہ کو پر کردینا نہیں ہے بلکہ اعمال واخلاق اور سیرت میں بالکل رسول (ص) کی تصویر ہوکر دنیا کے سامنے نمونہ ¿رسول (ص)بن کر ظاہر ہوناہے کہ جس کی وجہ سے رسول (ص)کی جگہ پر ہوجائے بہ این معنی کہ گویا دنیا کو معلوم نہ ہو کہ رسول (ص) عالم میں موجود نہیں ہیں۔یہ حقیقی معنیٰ جانشینی کے ہیں اور جس میں یہ صفت پائی جائے وہی حقیقی جانشین رسول (ص) کہے جانے کامستحق ہے۔
رسالت مآب (ص) کی وفات کے بعد جو انقلابات پیدا ہوئے انھوں نے شریعت اسلامیہ کی صورت کو بہت کچھ بدل دیا تھا اور روحانیت کے بجائے مادیت نے پورے طور پر اپنا عمل قائم کرلیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارباب اقتدار کی طرف سے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے اسلامی روپیہ عالی حوصلگی کے ساتھ صرف کیا جانے لگا مخصوص حوالی موالی اور رشتہ داروں کا خیال تمام مسلمانوں سے مقدم رکھتے ہوئے اہل اسلام کے مشترکہ اموال کو معدودے چند افراد سے مخصوص کردیا گیا، عثمان کا دوران خصوصیات کی حیثیت سے پورا امتیاز رکھتاہے۔
مصر،عراق،شام،تمام اطراف خاندان بنی امیہ کے تسلط واقتدار کا مرکز بن گئے ،مروان بن حکم جو رسول اکرم (ص)کی زندگی میں بلکہ اس کے بعد بھی خلیفہ اول وخلیفہ ثانی کے عہد تک مدینہ کے اندر داخل ہونے سے ممنوع تھا وہ ذاتی مصالح کی بناپر اتناسر چڑھایا گیا کہ خلافت اسلامیہ کا نظم ونسق اس کی چشم وابرو کے اشارہ کاتابع ہوگیا،آرمیناکا ملک فتح ہوتاہے اور اس کا پورا خمس مروان کو ہبہ کردیاجاتاہے ،عبد اللہ بن خالد بن امیہ تنگ دستی کااظہار کرتاہے اس کو چار لاکھ درہم بیت المال سے سپرد کردئے جاتے ہیں حکم بن ابی العاص جس کی گردن میں رسول کی زبان سے لعنت کا طوق پڑچکاتھا وہ مدینہ لاکر مقربین بارگاہ میں داخل کیا گیا اور اسی پر اکتفاءنہیں کی بلکہ حقوق مسلمین سے ایک لاکھ درہم بھی اس کو عطا کردئے گئے۔مروان کے بھائی حارث بن حکم کو تہرزنامی ایک موضع لکھ دیا گیا حالانکہ رسالتمآب (ص) اپنی زندگی میں اس کو مسلمانوں کے لئے تصدق قرار دے چکے تھے ،خود مروان بن الحکم کے نام فدک لکھ دیا گیا حالانکہ یہی وہ باغ ہے کہ جس کے لئے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کبھی میراث کی بنا پر اور کبھی عطیہ رسول ہونے کی رو سے احتجاج کیا،مگر ان کے قول کو رد کیا گیا اور اس کو مسلمانوں کے لئے وقف بتایاگیا،لیکن تیسرے دور میں حکم بدل گیا اور اسے مروان بن حکم طرید رسول کی ملکیت قرار دینا جائز سمجھا گیا۔مدینہ کے ارد گرد جتنی سرسبز وشاداب زمینیں تھیں وہ سب حکومت کی طرف سے اپنے لئے مخصوص قرار دے دی گئیں ۔سوائے بنی امیہ کے کسی شخص کو مسلمانوں میں سے وہاں مویشی لے جاکر چرانے کی اجازت نہیں رہی،افریقہ غربی (طرابلس الغرب سے لے کر طنجہ تک) فتح ہوا اور جتنا بھی مال خراج وہاں سے آیا وہ سب بلا شرکت غیرے عبد اللہ بن ابی سرح کو عطا کردیا گیا ، معاویہ کے والد ابوسفیان بن حرب کوبیت المال سے دو لاکھ درہم دئے گئے اور یہ اسی دن کا تذکرہ ہے کہ جب مروان کوایک لاکھ درہم ملے تھے جس پر زید بن ارقم خازن بیت المال نے کنجیاں لاکر سامنے رکھ دیں اور رونا شروع کیا۔ عثمان نے کہا کہ تم اس لئے روتے ہو کہ میں نے اپنے قرابتداروں کی اہانت کی۔ زید نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ میں اس خیال سے رویا کہ آپ نے مسلمانوں کا مال غیر مستحق اشخاص کے سپردکیا، اگر مروان کو سودرہم بھی دئے جاتے تو بہت تھے اور ابو سفیان کو ایک درہم بھی ملتا تو زیادہ تھا کیونکہ یہ دونوں ہمیشہ سے اسلام کے ساتھ جنگ کرتے رہے عوض اس کے کہ ان کلمات سے کچھ اثر لیا جاتا جواب ملا کہ اچھا کنجیاں رکھ دو ہم کو بیت المال کی خزینہ داری کے لئے کوئی دوسرا شخص مل جائے گا۔اس کے علاوہ ابو موسیٰ اشعری نے عراق سے اموال خراج کو بھیجا وہ تمام بنی امیہ کے درمیان تقسیم کردیا گیا اس قسم کے واقعات کثرت سے ہیں جن کو اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو ایک طویل مضمون درکارہے ۔
بنی امیہ کے ساتھ ان تمام رعایتوں کا منشا صرف سیاسی مصالح تھے اور یہ غرض تھی کہ بنی ہاشم کے مقابلہ میں اس گروہ کو پوری طاقت حاصل رہے اور دامن خلافت تک کوئی آنچ آنے لگے تو یہ لوگ سینہ سپر ہوں ، شام میں معاویہ اور ان کے جانشین سلاطین نے طلا ونقرہ کی سیاسی بارش کو بہت ترقی دی ان کا نقطہ نظر ذرا وسیع تھا وہ صر ف بنی امیہ کے جذبہ ¿ قلوب پر اکتفا نہ کرتے ہوئے تمام اشراف قبائل اور رو ¿سا ئے قریش کی رضا مندی کو حاصل کرنا چاہتے تھے اور اکثر وہ اپنے طلائی و نقرئی سکوں سے اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوجاتے تھے اگر ذرا غور سے ان تمام سلاطین کے حالات زندگی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی غرض سوائے اپنے ذاتی مصالح اور سیاسی اغراض کے اور کچھ نہ تھی اور اپنے مقصد کے حصول میں کسی مذہبی یا اخلاقی قانون کا لحاظ ضروری نہ سمجھتے تھے۔ یہی ملوکانہ سیاست اور دنیاوی طریقہ ¿ حکومت ہے کہ جس سے اسلام کو دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔
ان سب کے مقابلے میں جب امیر المومنین کے طرز حکومت اور حالات زندگی پر نظر کی جائے تو بے ساختہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کا اقتدار زر و جواہر کی بارش کا ر ہین منت اور سیاسی طریق عمل کا زیر باراحسان نہیں ہے ۔ آپ اپنے پیش رو حضرت رسول اکرم (ص) کی طرح خالص روحانی سلطنت کی بنیا د قائم کرنا چاہتے تھے جس میں تصنع اور ریاکاری جنبہ داری کا نشان تک نہیں پایا جاسکتا ۔ مسلمانوں کے بیت المال کو حضرت ایک امانت سمجھتے تھے جو خالق کریم کی طرف سے آپ کے ہاتھ میں مستحقین تک پہونچانے کے لئے ودیعت رکھی گئی ہے۔ کیا ممکن ہے کہ اس میں سے ایک حبہ بھی بلا استحقاق کسی کو دے دیا جائے؟ ایک طرف شام میں قبیلہ ¿ قریش کے بڑے بڑے افراد کے لئے خزانوں کے منھ کھلے ہوئے تھے اور جو شخص بنی ہاشم سے منحرف ہوکر حاکم شام کا دوست ہوجائے وہ مال دنیا سے مالامال ہوجاتا تھا لیکن دوسری طرف قرآن مجید کی تعلیم کا خیال اور سنت رسول (ص)کی پابندی پیش نظر تھی۔
تمام مسلمانوں میں مساوات جو شریعت اسلامیہ کا طرہ ¿ امتیاز ہے اور جس کو کتاب خدا نے ”انما المومنون اخوة“ کہہ کر واضح کیا تھا۔ اس سے امیر المومنین علیہ السلام ذرہ برابر ہٹنا نہ چاہتے تھے یہاں تک کہ اس مساوات سے حضرت کی اولاد ،بھائی ،بھتیجے اور دیگر عزیز قریب بھی مستثنی نہ تھے ۔عقیل جو حضرت کے حقیقی بھائی تھے انھوں نے کتنا چاہا کہ ان کے مقررہ وظیفہ میں کچھ اضافہ کر دیا جائے مگر کسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے منظور نہ کیا سابق دور میں قرابت داروں اور قوم قبیلہ والوں کے ساتھ مخصوص رعایتیں عقیل کو ہمت دلارہی تھیں کہ وہ اپنے بھائی سے اس قسم کی رعایتوں کے خواستگار ہوں لیکن علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی طرف سے یہی جواب ملتا تھا کہ بیت المال تمام مسلمانوں کا حق ہے ۔ مجھ سے مخصوص نہیں ہاں میں دوسرے مسلمانوں کے برابر لینے کا مستحق ہوں ۔اگر تم کہو تو میں اپنے حصے میں سے تم کو دے دوں ۔عقیل کا اصرار زیادہ ہوا حضرت نے فرمایا: کہ جمعہ کو مسجد میں نماز کے وقت مجھ سے ملاقات کرو ،روز جمعہ مسجد نماز گزاروں سے مملو ہو گئی اور حضرت نماز و خطبہ سے فارغ ہوئے تو عقیل کو اپنے پاس بلاکر ارشاد فرمایا کہ تمھارے نزدیک جو شخص ان سب لوگوں کی خیانت کرے وہ کیسا ہے ؟عقیل نے کہا کہ اس سے بد تر کوئی شخص نہیں ۔امیر المومنین علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا:”تم مجھ سے یہی تو چاہتے ہو کہ میں ان سب کی خیانت کروں اور تم کو ان تمام لوگوں کے حقوق میں سے مخصوص امتیاز دے دوں “۔
کچھ روز پھر سکوت کرنے کے بعد عقیل نے اپنی خواہش کا اعادہ کیا اور اب کی مرتبہ اولاد کو لے کر حضرت کی خدمت میں آئے جن کے چہروں سے فقر و فاقہ کی آثار نمایاں تھے ۔حضرت نے پھر اپنے حصہ کو جو بیت المال سے مقرر تھا دےنے پر آمادہ گی ظاہر فرمائی اور جب انھوں نے اسے منظور نہ کیا تو حضرت نے فرمایا: کہ شام کو میرے پاس آنا ۔جب وہ وقت آیا عقیل حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ نے ایک لوہا کا ٹکڑا جو آگ سے گرم کیا ہوا رکھا تھا ان کے ہاتھ پر رکھا۔ عقیل فریاد کرنے لگے ۔آپ مجھ کو آگ سے کیوں اذیت دیتے ہیں ؟ حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ تم ایک لوہے کے ٹکڑے سے جو دنیا کی معمولی آگ سے گرم کیا گیا ہے اتنا گھبراتے ہو اور مجھ کو چاہتے ہو کہ ایسی آگ میں بھیجو جسے خدا نے اپنے قہر و غضب سے روشن کیاہے ۔
کوتاہ نظر اور ظاہر بین افراد امیر المومنین علیہ السلام کے اس طرز عمل کو چاہے سیاست اور اصول حکومت کے خلاف تصور کریں لیکن اگر عقل و انصاف کی روشنی میں دیکھا جائے تو علی بن ابی طالب علیہ السلام کا طرز عمل اسلامی اصول مساوات کا بہتر ین نمونہ ہے ۔
کیا امیر المومنین علیہ السلام سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی مثل سابق دور کے تمام بیت المال کو اپنے اعزہ وقارب سے مخصوص کر دیتے اور تمام مسلمان اس سے محروم کر دیئے جاتے ؟ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنی خلافت میں ملوکانہ سیاست استعمال کے محتاج نہ تھے ۔ان کی خلافت ، خلافت الٰہیہ تھی اور روحانی طاقت و قوت پر اس کا دار و مدار تھا ۔