علی (ع) اور جھاد

[علامہ تقیجعفری (رہ)]

مسئلہ جھاد جو ا پنے ھمر اہ خو نریز ی ، بے رحمی اور بر بر یت کا مھیب تصور لیکر آتا ھے ، اسلا م کے اھم تر ین مسا ئل میں سے ایک ھے۔ لھذا ضروری ھے کہ اس قو ل کی کہ اسلا م شمشیر کے زور پر پھیلا ھے حتی ا لا مکا ن تو جیہ و تفسیر کی جا ئے ۔ اس مسئلے کی وضا حت کے لئے ضروری ھے کہ اس سما ج کا بہ نظر غا ئر ایک جا ئز ہ لیا جائے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تبلیغی سفر کا آغاز کیا تھا ۔ اس سلسلے میں کچہ مطا لب بیان کئے جا ئینگے اور کو شش کی جا ئے گی کہ ایسے مصا در اور منا بع سے استفادہ کیا جائے جو مسلم اور غیر مسلم دو نو ں مور خین کیلئے متفق علیہ ھو ں یعنی جب تک کسی ایک امر کی وضاحت کے لئے متفق علیہ مصا در پیش نھیں کئے جا ئینگے ،انکے ذریعے استنا د سے اجتناب کیا جائے گا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پھلی مر تبہ وحی نا زل ھو نے کے بعد جب اپنے ھا دی اور رھنما ئے بشر یت ھو نے کا یقین حا صل کر لیا تب اپنی رسا لت کے اظھا ر کے لئے اقدا مات شروع فر ما ئے ۔ ابتدا میں آپ نے اپنی رسالت کے اظھا ر کے لئے ایک بھت ھی مختصر اور محدو د دا ئر ے کا انتخا ب فر ما یا ۔ آپکے موٴ ثر اقدا مات اور حقیقی پیغا مات کے نتیجے میں مر دو ں میںسب سے پھلے حضرت علی (ع) اور خوا تین میں اسلام کی طرف سب سے پھلے سبقت کر نے وا لی حضرت خد یجہ تھیں ۔

ایک عر صے تک آ پ نے اپنی نبوت کو اپنے اقربا ء کے در میا ن پو شیدہ رکھا ۔ بتدر یج آپکی رسا لت کو و سعت بخشی جا تی رھی یھا ں تک کہ پیغام آیا کہ اپنے اعمام کو (جنکا شما ر اشراف قر یش میں کیا جا تا تھا )جمع کرو اور اپنی رسالت کو انکے سامنے بیان کرو ۔ آپ نے اپنے چچاؤ ںکو جمع کیا اور انکے سامنے اپنے مبعوث بہ رسالت ھو نے کو بیان کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ انھوں نے آپ کی صدا پر لبیک نھیں کھا بلکہ آپ کو انکی روگردانی اور اعتراضات کا بھی سامنا کر نا پڑا ۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے تمام اعتراضات سے قطع نظر کرتے ھوئے بغیر کسی قسم کی یا س و نا امیدی کے اپنے پیغام کو دوسرے افراد تک پھونچانا شروع کر دیا ۔آھستہ آھستہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ھونے لگا ۔بت پرستی اور زمانۂ جاھلیت کے عرب کے درمیان رائج فاسد رسم ورواج اور ناروا عادات کے سلسلے میں آپکی مخا لفت زباں زد عام و خاص ھو گئی ۔مختلف حادثات و واقعات رونما ھوتے رھے لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔آ پکے اس تبلیغی مشن اور محکم ارادوں کے سامنے قریش بے دست وپا ھو گئے اور اس افتادناگھانی سے نجات پانے کے لئے انھوںنے چھو ٹے بڑے گروہ تشکیل دینا شروع کر دئے۔

آپ کے اس تبلیغی دور کے دوران اشراف قریش کے نمائندے کبھی مال و متاع کی لالچ دے کر تو کبھی مصائب و آلام سے ڈرا دھمکا کر آپکی آواز کو دبانے اور آپ کوآپکے بلند و بالا مقا صد سے باز رکھنے کی سعی لا حاصل کرتے رھے ۔انھیں اقدمات میں سے بعنوان نمونھ، ایک کا ذکر اس جگہ پر مناسب ھے۔

قریش کی خواھش

ایک روز عتبہ بن ربیعہ جو عرب کے سر برآوردہ افراد میں سے تھا،قریش کے مجمع میں بیٹھا ھوا تھا ۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تنھا تھے۔عتبہ نے روٴسائے قریش سے کھا: ”میں محمد(ص) کے پاس جا رھا ھوں ،ان سے گفتگو کروںگا اور ان مسائل کے سلسلے میں انکے سامنے کچہ چیزوںکی پیش کش کروں گا ، شاید کسی کو قبو ل کر لےں۔ وہ جس چیز کے خواھش مند ھوں گے ھم ان کے لئے مھیا کر دینگے۔شاید مال و منا ل اور قدرت و اختیار تک رسائی انکے بلند حوصلوں کو پست اور انکی ثابت قدمی کو متزلزل کر دے ۔“(یہ واقعہ اس وقت کا ھے جب جناب حمزھ(ع) ایما ن لا چکے تھے اور آ پکے پیروکا روں کی تعداد روز افزوں تھی) قریش کے سرداروں نے اسکی تائید کی اور اسکو حضرت سے گفتگو کر نے کی اجازت دے دی ۔عتبہ مسجد میں آکر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک بیٹہ گیا اور کھنے لگا :”اے میرے بھتیجے!جیسا کہ تم جانتے ھو کہ تمھارا مقام و منزلت تمھارے قبیلے کی عظمت و شرا فت کی وجہ سے ھے ۔تم نے اپنی قوم کے بھت ھی حساس مسئلے کو چھیڑا ھے، اس کے اتحاد کو درھم برھم کر دیا ھے، اسکی خواھشات اور آرزووٴں کو حماقت سے تعبیر کر تے ھو، اسکے خداؤں اور مذھب پر عیب لگاتے ھوئے اسکے آباء و اجداد کو کافر قرار دیتے ھو ۔میںتمھارے سامنے بعض چیزوں کی پیش کش کر تا ھو ںان پر غور کرو شاید ان میں سے کچہ یا تمام اس لائق ھوں کہ ان کو قبول کر لو۔“

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اے ابو الولید!کھو میں سن رھا ھوں۔“

عتبہ نے کھا :”میرے بھتیجے !اگر تمھاری ان تمام حرکات کا مقصد مال و ثروت اکٹھا کر نا ھے تو ھم تم کو اتنی دولت دینے کے لئے آمادہ ھیں کہ تم سب سے زیادہ ثروت مند ھو جاؤ،اگر مقام و منزلت کے خواھشمند ھوتوھم تم کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ھیں، اگر حکومت چاھتے ھو توھم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لےںگے اور اگر تم اپنی اس حالت کوجو تم پر طاری ھو تی ھے اپنے سے دور کرنے سے عا جز ھو تو تمھارے لئے طبیب کا انتظام کر سکتے ھیں، تمھیں اس مرض سے نجات دلانے کے لئے ھم اپنی دو لت خرچ کردینگے ۔ بعض اوقات انسان پر ایسی حالت طاری ھو سکتی ھے لیکن اسکے معالجے کا امکان ھے ۔ جب عتبہ اپنی بات مکمل کر چکا اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ و سلم اسکی تمام گفتگو سن چکے تو فرمایا :”اے عتبہ !تمھاری بات ختم ھوگئی ۔ اس نے کھا :” ھاں “ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :”اب مجھ سے سنو۔“اسنے کھا:”میں ھمہ تن گوش ھوں۔“ پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:”بسم اللهالرحمن الر حیم کتاب فصلت آیا تہ قر آنا عر بیا لقو م یعلمو ن بشیر اً ونذ یراً فا عر ض اکثر ھم فھم لا یسمعو ن وقا لو اقلو بنا فی ا کنة مما تد عو نا ا لیہ ( فصلت /3۔ 5 ) پھر اسکے بعد کی آیا ت عتبہ کے سا منے تلا وت فر ما ئیں ۔(جب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیا ت کی تلاوت فر ما رھے تھے، عتبہ بے خودی کے عا لم میں آیات کو سن رھا تھا ) یھا ں تک کہ جب آیۂ سجدہ پر پھنچے تو و ھیں سجدہ ادا کیا، پھر فر ما یا : ”اے ابو ا لو لید ! تم نے سنا ؟ اب تم خودھی فیصلہ کرو ۔“ عتبہ وا پس پلٹ گیا ۔ جیسے ھی قر یش نے عتبہ کو پلٹتے دیکھا ، ایک دوسر ے سے کھنے لگے کہ عتبہ ایک دو سری حا لت میں وا پس ھو رھا ھے ۔

عتبہ آکر قر یش کے در میا ن بیٹہ گیا ۔ قر یش نے بے چینی سے سو ال کیا:” عتبہ تم نے کیا دیکھا؟“ ۔ عتبہ کھنے لگا ”خدا کی قسم! آج ایسا کلا م سنا ھے کہ اس سے پھلے کبھی نھیں سنا تھا ۔ بخدا وہ کلا م نہ شعرھے اورنہ سحر و جا دو ۔ اے سر دار ان قر یش ! اس مر د کے با ر ے میں میری بات مانو اور اسکا معا ملہ میر ے سپر د کر دو ۔ میرا نظر یہ ھے کہ اس شخص کو اسکے حال پر چھو ڑکر کنا رہ کش ھو جا ؤ ۔ خدا کی قسم !میں نے آج جو کلا م اس سے سنا ھے وہ مستقبل کے کسی بھت بڑے حا دثے کا پیش خیمہ ھے ۔ اگر عر ب نے اسکا کا م تمام کر دیا تو تم بغیر کسی اقدام کے اس مشکل سے نجات پا جا ؤ گے اور اگر یہ شخص عر ب پر مسلط ھو گیا تو اسکی منز لت اور قدرت وا قتد ار تمھاری عظمت اور اقتدار کا و سیلہ بن جائیگی۔ اسکی بنا پر تم تمام عر ب سے زیا دہ خو ش بخت ھو جا ؤ گے ۔“ قر یش نے اسکی گفتگو سن کر کھا :” خدا کی قسم !اسنے تم پر بھی جادو کر د یا ھے ۔“عتبہ نے کھا :”یہ میرا نظر یہ تھا ور نہ تم خو د صا حب اختیا ر ھو ۔“

عکس العمل

جب قر یش اپنی آمد و رفت اور و عد وو عید سے ما یو س ھو گئے تو انکے پا س مسلمانوں پر ظلم ڈھا نے اور انکو نیست ونا بود کر نے کی کوششوں کے علا وہ کو ئی چا رئہ کار نہ بچا ۔چنا نچہ عر ب کے تما م قبیلے اپنے قبیلے کے ان افراد کو جو اسلام لے آئے تھے ، گر فتا ر کر کے قید و بند میں مبتلا کر دیتے تھے اور ان پر طرح طر ح کے مظا لم ڈھا تے تھے ۔ انکو ما رتے پیٹتے ، بھوک اورپیا س کے ذر یعے تمام را ھیں ان پر مسدو د کر دیتے تھے ۔ جب مکہ کی سنگلا خ وادی پر آفتاب شعلہ افشانی کر رھا ھو تا تھا ان مسلمان پر انھیں سلگتے ھو ئے پتھر وں اور تپتی ھو ئی ریت میں عذا ب ڈھا یا جا تاتھا ۔

جو ں جو ں مسلمانوں کی تعدا دمیں اضا فہ ھو تا جا تا تھا ان پر مصا ئب وآ لا م بھی کبھی فر دی اور کبھی اجتما عی طور پر بڑ ھتے چلے جا تے تھے ۔ آخر کا ر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مجبو ر ا ًبعض مسلما نو ں کو حبشہ ھجرت کر نے کا حکم دینا پڑا تا کہ انکو قر یش کے مظا لم سے نجا ت دلا ئی جاسکے ۔ان مسلمانوں کو حبشہ کے لئے رخصت کر تے و قت آپ نے فر مایا :” حبشہ میں ایک عا دل با د شا ہ کی حکو مت ھے ۔ وھا ں تم پر ستم نھیں ھو گا ۔“

قر یش اس صورت حا ل پر سا کت نھیں بیٹھے بلکہ دو لو گو ں کو عر ب کے نمائند ے کی حیثیت سے حبشہ روا نہ کیا گیا کہ مسلمانوں کو واپس لیکر آئیں تا کہ قر یش انکو دین اسلام سے منحرف کر سکیں ۔ جب نمائند گان عرب حبشہ کے بادشاہ کے پاس پھنچے اور مسلمانوں کی بازیابی کی درخواست کی تو نجاشی نے کھا:”میرے لئے یہ جا ننا ضروری ھے کہ یہ لو گ میری سر زمین پر کیو ں وا رد ھو ئے ھیں ؟“ کچہ مسلمانوں کو حا ضر کیا گیا ۔ انھو ں نے پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپکے اس دین کے بارے میں جس نے انسانو ں کو سعا دت ابد ی سے ھمکنا رکر نے کا وعد ہ کیا تھا ، بیا ن کیا ۔ نجا شی نے کھا کہ میں ان لو گو ں کو پلٹنے کا حکم نھیں دو نگا بلکہ یہ اس سلسلے میں مختار ھیں ۔

اسکے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دین کو عر ب کے قبا ئل کے سا منے پیش کر نا شرو ع کیا ۔ خصو صاً حج کے مو سم میں منیٰ میں قیا م پذ یر حا جیو ں کی جا ئے قیام پر پھو نچ کر تو حیدکی تبلیغ فر ما تے اور ان لو گو ں کو شر ک اور بت پر ستی سے اجتناب کی جا نب دعو ت دیتے تھے ۔ وہ قبا ئل جن کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی دعو ت دی ، مند رجہ ذ یل ھیں :

1)بنی کلب 2)بنی حنیفہ 3)بنی عامر 4)بنی خزرج

دعوت جھاد

یہ با ت مسلم ھے کہ تمام تو ار یخ ا س بات پر متفق ھیں کہ بیعت عقبہ (ھجرت سے دو تین سال قبل ) تک پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جانب سے ذرہ برابر بھی جنگی ارا دے کا اظھا ر نھیں کیا تھا ۔ اسلام کی قدرت مند ی اور پختگی نے آھستہ آھستہ قر یش کو بے حد پر یشا ن کر دیا جسکے نتیجے میں مسلمانوں پر عر صۂ حیات تنگ کیا جا نے لگا ۔ یھاں تک کہ نو بت جنگ تک پھو نچ گئی ۔ تاریخ نے اس صورت حال کو اس طرح بیان کیا ھے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بیعت عقبہ سے پھلے تک جنگ کی اجازت نھیں حا صل ھو ئی تھی ۔ بیعت عقبہ تک آپ نے صبر و شکیبا ئی کو اپنا شعا ر اور لو گوں کے لئے دعا ؤ ں کو اپنا و ظیفہ قرا ر دیا تھا ۔ دوسر ی جا نب قر یش نے مسلما نوں کو نیست ونابود کر نے اور مظالم ڈھا نے میں کو ئی د قیقہ نھیں اٹھا رکھا تھا ۔ انھوں نے بعض مسلما نوں کو انکے دین سے بر گشتہ کر دیا تھا ، بعض کو جلا وطن اور بعض کو مصائب وآلام میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ یھا ں تک کہ جنگ کے سلسلے میں پھلی آیت نا زل ھو ئی :

”اذن للذین یقاتلون با نھم ظلمو اوان اللہ علی نصر ھم لقد یرالذین اخرجو امن دیارھم بغیر حق000“ (سورۂ حج /39۔ 40)

(جن لو گو ں سے مسلسل جنگ کی جا رھی ھے انھیں ان کی مظلو میت کی بنا پر جھا د کی اجا زت دیدی گئی ھے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے وا لا ھے ۔یہ وہ لو گ ھیں جو اپنے گھر وں سے بلا کسی حق کے نکا ل دئے گئے ھیں ۔)

پھر دوسری آیت نا زل ھو ئی :

”و قا تلو ھم حتی لا تکو ن فتنة“

(انکے ساتھ جنگ کرو(تاکہ مسلمانوںکوانکے دین سے نہ پلٹائیں) یا تاکہ فسادکا خاتمہ ھوجائے۔)

ان امور کی جانب توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ھوجاتی ھے کہ رھنمائے اسلام نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے جنگ کا سھارا نھیں لیا بلکہ جنگ کی بنیاد ڈالنے والے کفار و مشرکین ھیں۔ اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا دفاع کرنے پر مجبور تھے۔ چنانچہ پھلی بار جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ کے سلسلے میں اقدام فرمایا تو حملہ نھیں کیا بلکہ صرف اور صرف دفاع کیا۔ اگر اسلام کی تمام جنگوں کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو ھر جگہ دفاعی جھتیں ھی نظر آتی ھیں حتیٰ کہ یھود و نصاریٰ کی پیمان شکنی کے موقع پر بھی چونکہ اس بات کا خوف تھا کہ وہ اسلام کے خلاف علم جنگ بلند کردیںگے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حملے میں ابتدا فرمائی ھے۔ اسلام کے تمام جھادوں کی تحقیق کے لئے ضروری ھے کہ ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو جھاد کے سلسلے میں نازل ھوئی ھیں۔ لھٰذا یھاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں واقع ھونے والے جھادوں سے متعلق نازل ھونے والی آیات کو بطور اختصاص پیش کیا جارھا ھے۔

(1)۔ ”اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللّٰہ علیٰ نصرھم لقدیر، الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق۔۔۔“ (سورئہ حج/39۔40)

(جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارھی ھے انھیں ان کی مظلومیت کی بنا پر جھاد کی اجازت دیدی گئی ھے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ھے۔ یہ وہ لوگ ھیں جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دئے گئے ھیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار اللہ ھے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے نہ روکتا ھوتا تو تمام گرجے اور یھودیوں کے عبادت خانے اور مسیحیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کر دی جاتیں اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحب قوت بھی ھے اور صاحب عزت بھی ھے۔)

(2)۔ ”و قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة“

(انکے ساتھ جنگ کرو تاکہ مسلمانوں کو انکے دین نہ پلٹائیں یا تاکہ فساد کا خاتمہ ھو جائے۔)

(3)۔”انما ینھاکم اللّٰہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاھرواعلی اخراجکم ۔۔۔۔“ (ممتحنہ /9)

(وہ تمھیں صرف ان لوگوںسے روکتا ھے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ھے اور تمھیں وطن سے نکال باھر کیا ھے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ھے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ھو گا ۔)

(4)۔”کیف وان یظھر واعلیکم لایرقبوافیکم الّا ولاذمة یرضونکم بافواھھم و تابی قلوبھم واکثرھم فاسقون اشتروابآیات اللّٰہ ثمنا قلیلا فصدواعن سبیلہ انھم ساء ماکانو ایعملون لایرقبون فی موٴمن الّاولاذمة واولئک ھم المعتدون فان تابو ا و اقاموا الصلٰوة وآتواالزکاة فاخوانکم فی الدین ونفصل الآیات لقوم یعلمون وان نکثو ا ایمانھم من بعدعھد ھم وطعنوا فی دینکم فقاتلو اائمة الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھونالا تقاتلون قوما نکثو اا یمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بدءُ وکم اول مرة اٴ تخشونھم فاللّہ احق ان تخشوہ ان کنتم موٴمنین“(توبہ/ 8۔13)

(ان کے سا تہ کس طرح رعایت کی جائے جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں تو نہ کسی ھمسایگی اورقرابت کی نگرانی کریںگے اور نہ کوئی عھد وپیمان دیکھیںگے ۔ یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کررھے ھیں ورنہ انکا دل قطعی منکر ھے اور ان کی اکثریت فاسق اور بد عھد ھے ۔ انھوں نے آیات الٰھیہ کے بدلے بھت تھوڑی منفعت کو لے لیا ھے اور اب راہ خدا سے روک رھے ھیں ۔ یہ بھت برا کام کررھے ھیں ۔یہ کسی مومن کے بارے میں کسی قرابت یا قول و قرار کی پرواہ نھیں کرتے ھیں ۔ یہ صرف زیادتی کرنے والے لوگ ھیں ۔ پھر بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریںاور زکوٰة ادا کریں تو دین میں تمھارے بھائی ھیں اور ھم صاحبان علم کے لئے اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے رھتے ھیں اور اگر یہ عھد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے سر براھوں سے کھل کر جھاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ کیا تم اس قوم سے جھاد نہ کرو گے جس نے اپنے عھدو پیمان کو توڑ دیا اور رسول کو وطن سے نکال دینے کا ارادہ بھی کرلیاھے اور تمھارے مقابلے میں مظالم کی پھل بھی کی ھے۔ کیا تم ان سے ڈرتے ھوتو خدازیادہ حق دار ھے کے اس کا خوف پیدا کرو اگر تم صاحب ایمان ھو۔)

(5)۔”و اذان من الله ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بری ء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فھوخیر لکم وان تولیتم فاعلمو اانکم غیر معجزی اللہ وبشرالذین کفرو ا بعذاب الیم الا الذین عٰھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظا ھر واعلیکم احدا فاتمواالیھم عھدھم الی مدتھم ان الله یحب المتقینفاذاانسلخ الاشھر الحرم فاقتلو االمشرکین حیث وجدتموھم وخذوھم واحصروھم واقعد والھم کل مرصد فان تابو اواقامواالصلوة وآتواالزکاةفخلواسبیلھم ان اللّٰہ غفوررحیم “(توبہ 3۔4۔5)

( اور اللہ ورسول کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ھے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں مشرکین سے بیزار ھیں لھذا اگر تم تو بہ کر لو گے توتمھا رے حق میں بھتر ھے اور اگر انحراف کیا تو یا د رکھنا کہ تم اللہ کو عا جز نھیں کر سکتے ھو اورپیغمبر آپ کا فر وں کو درد ناک عذا ب کی بشا رت دے دیجئے ۔ علا وہ ان افرا د کے جن سے تم مسلمانو ں نے معا ھدہ کر رکھا ھے اور انھوں نے کو ئی کو تا ھی نھیں کی ھے اور تمھا رے خلا ف ایک دوسر ے کی مدد نھیں کی ھے تو چا ر مھینے کے بجا ئے جو مدت طے کی ھے اس وقت تک عھد کو پو را کر و کہ خدا تقوی اختیا ر کر نے وا لو ں کو دوست رکھتا ھے ۔ پھر جب یہ محتر م مھینے گز ر جا ئیں تو کفار کو جھا ں پا ؤ قتل کر دواور گر فت میں لے لو اور قید کر دو اور ھر را ستہ اور گز رگا ہ پر ان کے لئے بیٹہ جا ؤ اور راستہ تنگ کردو ۔ پھر اگر تو بہ کر لیں اور نماز قا ئم کر یں اور زکوٰ ة ادا کر یں تو ان کا راستہ چھو ڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مھر بان ھے ۔ )

(6) ۔” و قا تلو اا لمشر کین کافة کما یقا تلو نکم کا فة “(توبہ/ 36)

(اور تمام مشر کین سے اسی طر ح جھا د کرو جس طرح وہ تم سے جنگ کر تے ھیں ۔)

(7) ۔” و قا تلو افی سبیل اللّہ الذین یقا تلو نکم ولا تعتدواان اللّٰہ لا یحب المعتدین وا قتلو ھم حیث ثقفتمو ھم واخرجو ھم من حیث اخرجو کم والفتنة اشد من القتل ولاتقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقا تلو کم فیہ فا ن قا تلو کم فا قتلو ھم کذا لک جزاء الکافرین فا ن انتھوافان اللّٰہ غفوررحیم و قا تلو ھم حتی لا تکون فتنة ویکون الذین للّہ فا ن انتھو افلا عدو ان الا علی الظالمین“(بقرة /190۔191۔192۔193)

(جولوگ تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے راہ خدا میں جھاد کرو اور زیادتی نہ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا اور مشرکین کو جھاں پاوٴقتل کردو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ھے تم بھی انھیں نکال باھر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بد تر ھے اور ان سے مسجدالحرام کے پاس اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ تم سے جنگ نہ کریں ۔اس کے بعد جنگ چھیڑدیں تو تم بھی چپ نہ بیٹھو اور جنگ کرو کہ یھی کافرین کی سزا ھے ۔ پھر اگر جنگ سے بعض آجائیں تو خدا بخشنے والا اور مھربان ھے اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ھو جائے اور دین صرف اللہ کا نہ رہ جائے پھر اگر وہ لوگ باز آجائیں تو ظالمین کے علاوہ کسی پر زیادتی جائز نھیں ھے ۔ )

(8)۔”ود کثیر من اھل ا لکتاب لو یر دونکم من بعد ایمانکم کفارا“(بقرة /109 )

( بھت سے اھل کتاب یہ چاھتے ھیں کہ تمھیں بھی ایمان کے بعد کافر بنالیں ۔)

مذکورہ آیات اسلام میں جھاد کی اھمیت کو واضح اور اس کے مفھوم کو روشن کرسکتی ھیں ۔ ان آیات کا اکثر حصہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور آپکے پیروکاروں کو اپنا اور حریم اسلامی کا دفا ع کر نے پر ما مو ر کر نے کیلئے خدا وند عالم کی جا نب سے نا زل کیا گیا ھے ۔ آخر الذ کر آیت ، اھل کتاب کے مسلمانوں کے سا تہ بر تا ؤ کی وضا حت کر رھی ھے کہ یہ لو گ اسلام کے ار تقا ء کے لئے سد راہ ھیں ، حتی کہ مسلمانوں کو انکے منتخبہ راستے سے دگرگوں کرنے کے لئے سعی و کو شش میں مصروف ھیں۔سورئہ تو بہ کی بعض آیات جن کو نقل کیا گیا ھے ، وا ضح طور پر بیان کر رھی ھیں کہ پیمان کے ختم ھو نے کے بعد مشر کین کے ساتھ کو ئی رور عایت نہ کرو اور انکے ساتھ جنگ کا آ غا ز کردو ۔

مذکو رہ آیات اور اسی قسم کی دو سری آیات اس بات پر دلا لت کر تی ھیں کہ اسلام نے مشر کین کے لئے صرف دور ا ھو ں کا انتخاب کیا ھے، ایک اسلام اور دوسرے جنگ لیکن رسمی اد یان کے پیر وکا روں کو ایک تیسری راہ کی بھی پیش کش کی ھے اور وہ ھے جز یہ ( ٹیکس ) د یکر اسلامی حکو مت کی پناہ میں ز ندگی بسر کرنا ۔

اسلامی حکو مت

اسلام میں شمشیر کشی اور جھاد کا مسئلہ چند اعتبا ر سے قا بل غور ھے :

(1)۔ اسلام کی نظر میں مشر کین کے لئے دور استو ں کے علا وہ تیسر ا راستہ مو جو د نھیں ھے ۔

(2) رسمی ادیان کے پیرو کا روں کو جو صا حب کتاب تھے اور خو د کو سا بقہ الھی پیشوا ؤ ں کا پیرو سمجھتے تھے ، اسلام نے فقط اپنی حکو مت اور سر پر ستی قبو ل کر وانے کے بعد انکے مذھبی عقائد کے سلسلے میں آزاد چھو ڑ دیا تھا ۔

(3)۔آیا اسلام نے کفار کے علاوہ دیگر گر و ھو ں کے سا تہ بھی جنگی اقدامات کئے یا نھیں ؟ اور وہ کون سے گر وہ تھے ؟

(4)۔ اسلام اپنی حکو مت کو تما م قو مو ں اور ملتوںپر مسلط کر نا چا ھتا تھا ۔

(5) ۔ جنگ کے سلسلے میں اسلام کی راہ وروش کیاتھی ؟

(6) ۔ مسئلہ جز یہ (ٹیکس ) کی کیا نو عیت تھی ؟

(7) ۔ آیا اسلام کی نشو ونما اور ار تقا ء میں شمشیر اور خو نریز ی دخیل تھی ؟

(8) ۔آیا حکو مت اسلامی کا دائر ہ ،جنگ اور خو نریزی کے ذریعہ وسیع کیا گیا ھے ؟

(1)۔ اسلام نے مشرکین کیلئے صرف دور ا ستو ں کا انتخاب کیا تھا

فقہ اسلامی اور معتبر تا ریخی شو ا ھد سے یہ با ت ثا بت ھو چکی ھے کہ اسلام نے مشر کین کو دور اھو ں میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے مخیّرکردیا تھا کہ یا اسلام کو قبو ل کر لیں یا دوسر ا اور آخری راستہ یہ تھا کہ آمادئہ جنگ ھو جا ئیں ۔

انسانی فطر ت اور نفسیا ت کے دقیق مطا لعے کے بعد یہ بات ظا ھر ھو تی ھے کہ صا نع عا لم کا و جو د اور اسکی یکتا ئی ایک عمیق اور دقیق تر ین مسئلہ ھے جسکو معمو لی انسا نوں کی نفسیات میں خا صا دخل ھے حتی کہ منکر ان الو ھیت بھی نا دا نستہ اور اجمالی طور پر یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ اگر ایسی کسی ذات کا اس کا ئنات میں وجو د ھو تو وہ با عظمت ترین ذات اور یہ نظر یہ عظیم تر ین نظر یہ ھو گا ۔ دوسری طرف یھی انسان جب مقا م پر ستش میں آتا ھے تو خدا کی ذات کے اتنے عظیم تصور کے باوجود اسکی منزلت کو اتنا گر اد یتا ھے کہ دست انسانی کے ذریعے تر اشے گئے ایک پتھرکو اس کا شریک اور جایگزیں بنا دیتا ھے ۔ یہ جانتے ھوئے کہ ایک بے جان پتھر یا ایک جا مد مادہ طبیعی تغیرات کے سا منے بے دست و پا اور سر ا پا تسلیم محض ھے اور کسی قسم کا شعو ر وا حساس نھیں رکھتا ھے ۔یہ نہ صرف خدا کی بز ر گ وبالا ذات کی توھین ھے بلکہ اسمیں دنیا ئے بشر یت کی بھی اھانت مضمر ھے ۔

ایسا انسان جو اپنے مقدس تر ین اور بز ر گترین جذبے اور تصو رکو (جوکہ مقا م والا ئے خدا وند ی ھے ) اس حد تک تنز ل دید ے کہ اپنے ھی ھا تھو ں سے تر ا شے ھوئے پتھر وں کے سا منے سر نیا ز خم کر دے تو اسکا مطلب یہ ھے کہ اسکے نز د یک کسی بھی بزرگ اور با عظمت مفھو م کی کو ئی اھمیت نھیں ھے ۔ اسی بنیا د پر اسلام نے مشرکین سے جنگ کو اختیا ر کیا ورنہ اگر مشر کین بھی خود کو اھل کتاب اور انھیں کی طرح خدا وند عالم کی عظیم ذات کا معتر ف اور معتقد قرا ر دیتے تو انکے ساتھ بھی اھل کتا ب والا سلوک روار کھا جا تا یعنی وہ بھی دیگر خارجی گرو ھو ں کی طرح جز یھ(ٹیکس ) ادا کر کے اسلام کی عا دلا نہ حکو مت کے زیر سا یہ ز ندگی بسر کر سکتے تھے ۔

(2) ۔ رسمی اور الھی ادیا ن کے صا حبا ن کتاب پیرو کار صرف اسلامی حکو مت کو قبو ل کر نے پر مجبو ر تھے

فقہ اسلامی اور تاریخ کے متفقہ فیصلہ کی مدد سے یہ بات پائے ثبو ت کو پھو نچ چکی ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر ادیان کے تا بعین پر اسلامی عقائد کو تحمیل کر نے کے لئے ھر قسم کے جبر وزبر دستی سے اجتنا ب کیا ھے بلکہ اسکے بر خلاف انکے عقا ئد کو محتر م جانا ھے ۔ آپکی روش یہ تھی کہ صرف انکے فا سد اور منحرف عقا ئد پر اعتراض فر ماتے تھے ۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان کیاگیا ھے:

”قل یا اھل الکتاب تعالو اا لی کلمة سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربا بامن دون اللہ فا ن تو لو افقو لو ااشھد وابانا مسلمون “(آل عمران 64)

رسمی اور سا بقہ الٰھی ادیان کے پیروکا ر اسلامی تحریک کے مقا بلے میں تین امو ر میں سے کسی ایک کو اختیار کر نے پر مجبور تھے:

(1) ۔ قبو لیت اسلام

(2)۔ حکو مت اسلامی کے سامنے تسلیم ھو نا اور اپنی فر دی اور اجتما عی زند گی کی حفا ظت کیلئے جز یہ وغیرہ اداکر نا

(3)۔ جنگ : جیسا کہ آئند ہ ذکر ھو گا کہ یہ جنگیں اپنے عقا ئد کو منوا نے کےلئے نھیں تھیں بلکہ اسلام کی عا دلا نہ حکو مت کو قبو ل کر انے کے لئے تھیں

(3) آیا اسلام نے کفارکے علاوہ دیگر افراد کے ساتھ بھی اعلان جنگ کیا تھا ؟

یقینا اسلام نے مملکت اسلامی میں ھر باغی اور منحرف گروہ کے ساتھ پیکار کی ھے اور اسی طرح مانعین زکاة کے ساتھ بھی سلوک کیا ھے باوجود یکہ وہ باغیانہ قصدنھیں رکھتے تھے ( چونکہ ان دونوں مسائل کی قطعی علت واضح اور روشن ھے اس کی توضیح اور تفصیل سے احتراز کیا گیا ھے ۔) ۔

(4) حکو مت اسلامی کو تمام اقوام وملل پر تسلط پیدا کرنے کی کیا وجہ تھی ؟

شاید یہ مسئلہ ھماری بحث کا اھم ترین مسئلہ ھے ۔ یقیناً یہ کھا جاسکتاھے کہ قطعی دلیلیں اور واضح براھین ، اسلام کی مستحکم اور عدالت خواہ حکومت کو ثابت کرتے ھیں۔ اس سلسلے میں احکام اسلامی اور اسلام کے حقیقی حکام کی راہ وروش اور طرزحکومت سے استدلال کیا جائیگا۔

اولاً اسلام نے جھاں تک انسانی فطرت کا مطالعہ اور اسکی طبیعت و جبلت کے بارے میں مکمل طور پر تحقیق کی ھے اس سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ اسلام میں حکو مت اور حاکمیت کا تصور ایک حساس ترین مسئلہ ھے جس کی اساس یہ ھے کہ انسان کو سعادت اور خوش بختی کی جانب حتی الامکان رھنمائی اور اس کو سعادت ا بدی سے ھمکنار کرنے کی آخری مرحلے تک سعی وکوشش کی جائے ۔

حکو مت اورحاکمیت کا مسئلہ ایسا مسئلہ نھیں ھے جس سے سرسری طور پر گزرا جاسکے یا اپنی تسلی خاطر کے لئے خوبصورت اور ادبی اسلوب بیان میںعمدہ عبارتوںمیں بیان کر دیا جائے ۔بغیر کسی جھجک اور پر دہ پو شی کے یہ بات کھی جا نا چاھئے کہ ھر حا کم اور ھر حکمراں بلکہ ھر اجتما عی اور مذھبی مکتب کی ا ھمیت اور حیثیت کا اندا زہ انسان ، جو ھر مکتب اور مذ ھب کی تمام کا ر کر د گیو ں کا محو را ور اساس ھے ، کے سلسلہ میں اسکی راہ وروش اور طر ز تحقیق و تبیین سے لگا یا جا سکتا ھے ۔ یھی طر زتفکر اور طر یقۂ تحقیق و شنا خت اس مکتب کی حقیقی حیثیت کا کا شف ھو سکتا ھے۔

پیغمبر اسلام نے فطرت انسانی اور بشری نفسیات کی بطور کامل شناخت اور اسکی منطقی طور پر تحقیق کی ھے ۔اس بات کی تصدیق دوطر یقو ں سے کی جا سکتی ھے :

(1) ۔ وہ اصو ل جن کو قرآن ( اسلامی آئین ) نے انسان کے سلسلے میں بیان فر مایا ھے جنکو ان مبا حث کے مقدمہ میں مفصل بیان کیا جا چکا ھے اور اس بحث میں بھی ا جما لی طور پر اشا رہ کیا جا ئے گا ۔

(2) ۔ ان افراد کی گوا ھی جو اسلام کے با رے میں اطلا عا ت رکھتے ھیں ۔ علا وہ بر ایں ، انسان کے سلسلے میں خو د پیغمبر اسلام اور آپکے سا تھیو ں کی را ہ وروش بھی قا بل استفا دہ ھے ۔

انسان کے سلسلے میں قر آن کر یم میں جو اصو ل و نظر یات بیان کئے گئے ھیں وہ کسی ایک پھلو کی نشا ندھی نھیں کر تے بلکہ اسکی مختلف جھات سے تشر یح کر تے ھیں۔

(1)۔انسان سعا دت و شقا وت کے اعتبا ر سے ایک ثابت مو جو د نھیں ھے بلکہ تغیرات پذیر ی اسکا خا صہ ھے ۔

(2) ۔ انسا ن کے ا ندر مذ کو رہ دونو ں صفا ت غیر محدو د طور پر جلو ہ گر ھو سکتی ھیں ۔جب سعا دت اور خوش بختی کی مقدس اور پا کیزہ صفا ت اسکے اندر جلو ہ نمائی شروع کر تی ھیں تو وہ خدا کی عظیم اور ما فو ق کائنا ت ، ذات کے صفا ت کا مظھر بن جاتاھے ۔ جیسے ابرا ھیم (ع) خلیل خدا ، مو سی (ع) بن عمران ،عیسی (ع) بن مریم ، محمد بن عبد اللہ اور علی بن ابی طالب (ع) اور جب یھی انسان شقا وت اور پستی کی منازل میں وارد ھو تا ھے تو پست تر ین حد تک گر سکتا ھے جسکی کو ئی انتھا نھیں ھے جیسے فر اعین و ستمگا ران بنی اسرا ئیل وا بن ملجم وفر عون اور اسی طر ح بیشمار افراد ۔

(3) ۔ ان دونو ں صفات میں سے کوئی بھی صفت ،انسانی توانائی اور اسکے اختیارات کے حدود کی تعیین کئے بغیر قابل حل نھیں ھے۔

(4)۔ اصل طبعیت انسان ایک با عظمت گو ھر کی حیثیت رکھتی ھے جو لامتنا ھی صعو د اور تنز ل کو تحمل کر نیکی صلا حیت رکھتا ھے۔

(5)۔ انسا ن اپنے مادی پیکر اور حب ذات کی بنیاد پر خو د غرض اور منا فع پر ست وا قع ھو اھے ۔ اگر ایمان ایک خارجی ما نع کی حیثیت سے اسکے رو برونہ ھو تو وہ ایک ایسا خود خواہ اور منا فع پر ست مو جو د ھے جسکے مقا بلے میں دنیا کی تمام مخلو قا ت ھیچ ھیں ۔

(6) ۔ اگر ان طبیعی عو ارض سے جو اس کو فساد کی جا نب لے جاتے ھیں، قطع نظر کر تے ھو ئے فیصلہ کیا جائے تو اس مو جو د کی حیثیت اور قیمت دیگر تمام حیثیتو ں اور قیمتو ں کے مقا بلہ کھیں زیادہ بلکہ ما فو ق حیثیت وا ھمیت ھے ۔

کسی بھی اجتما عی ،سیاسی یا فلسفی مکتب نے انسان کی اس فطر ت کو مد نظر رکھتے ھو ئے اپنے نظر یات بیان نھیںکئے ھیں کیو نکہ ابھی تک مختلف مکا تب فکر انسا ن کے بارے میں اس کی تمام جھات کو مد نظر رکھتے ھو ئے اظھار نظر نھیں کر سکے ھیں اور اگر اتفاقاً کو ئی ایسا مکتب فکرجس نے انسا ن کے سلسلے میں اسکی تمام جھات کو مد نظر رکھتے ھوئے اپنے نظر یات بیان کئے ھو ں ، معر ض وجو د میں آیا بھی ھے تو اسلام کا مو افق ومدا فع ھی رھا ھے اور اپنے ان ھمہ جھات نظر یات کی بنیاد پر اپنی ابدیت کا ضا من بن گیا ھے ۔ اسلام نے دو با رہ انسان کی انسا نیت سے قطع نظر کر تے ھو ئے زندگی اور رو ح کو مو رد تحقیق قرا ر دیا ھے ۔ اسلام وسیع پیما نے اور غیر محدود طور پر حیوا نات کو ذی رو ح ھو نے کی بنیا د پر مورد تحقیق قرار دیتا ھے اور انکے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتاھے:

”کسی بھی ز ندہ مو جو د سے بغیر کسی علت کے اسکی زندگی کو سلب نھیں کیا جا سکتا خوا ہ وہ حیوا ن قا بل استفا دہ بھی نہ ھو ۔“

یھا ں پر حیوا ن کے حقو ق کے سلسلے میں اجمالی طور پر بعض اسلامی نظر یات کو بیا ن کیا جا رھا ھے :

(1)۔ھر شخص جس کے پاس کوئی حیوان ھو اس کے لئے ضروری ھے کہ وہ اس حیوان کے لئے اسکے حسب حال تمام وسائل زندگی فراھم کرے ۔اگر اسکے امکان میں نہ ھویا نہ چا ھتا ھو کہ ان وسا ئل کو مھیا کر ے تو اگر اس حیو ان کا گو شت قا بل استفادہ ھو تو اسکو ذبح کر کے اسکے گو شت سے استفادہ کر سکتا ھے اور اگر یہ بھی اسکے امکان میں نہ ھو یا حیوا ن کا گو شت قا بل استفادہ نہ ھو تو اسکو چاھئے کہ اس حیوان کو فر و خت کر دے یا کر ائے پر دیدے تا کہ اسکی ز ندگی کے و سائل فرا ھم ھو سکیں اور اگران تمام را ھو ں میں سے کو ئی بھی اسکے اختیا ر میں نہ ھو یا ان پر عمل در آمد کر نا نہ چا ھتا ھو تو اسے چاھئے کہ اس حیوان کو آزاد کردے تا کہ وہ اپنی ز ندگی کے لئے وسائل فرا ھم کر سکے ۔

(2)۔اگر اس شخص نے جسکے زیر نظر کو ئی حیوان ھے ، مذ کو رہ امو ر میں سے کسی کو انجام نہ دیا ھو تو حاکم شرع کو حق حاصل ھے کہ وہ اس حیوان اور اسکے ما لک کے حسب حال ، ما لک کو مذکو رہ امور میں سے کسی ایک پر مجبو ر کر ے ۔

(3) ۔ اگر مالک ان تمام امور کی انجام دھی سے اجتناب کر ے تو اس صورت میں اس حیوان کے تمام اختیا ر ا ت حاکم شرع کی جانب منتقل ھو جا ئیں گے ۔ حاکم اسکے اموال منقو لہ کو فر و خت کر کے حیوان کی ز ندگی کے و سا ئل مھیا کر سکتا ھے حتی اگر مالک کے اموال غیر منقو لہ پر تصرف کے علا وہ دوسر ا کو ئی چارہ باقی نہ رہ جا ئے تو بھی حاکم شرع اسکے اموال غیر منقو لہ پر تصر ف کرکے حیوان کے لئے وسائل زندگی مھیا کر سکتا ھے ۔

(4)۔ بچہ دار حیوان کے دودہ سے استفا دہ کر نے کی اجا زت دی گئی ھے لیکن اگر دودہ حاصل کر نے کی بنا پر اس جا نور کے بچہ کو کو ئی گز ند پھونچ جا ئے تو ما لک کو مجرم سمجھا جا ئیگا ۔

اگر دو جا نور تشنگی کی بنیاد پر مو ت کے قر یب ھو ں اور انمیں سے ایک ما کو ل اللحم اور دوسر ا غیر ماکو ل اللحم حیوان ھو اور پا نی کی مو جو دہ مقدا را ن دونو ں میں سے کسی ایک کو موت سے نجا ت دے سکتی ھو تو بعض فقھا ء کے فتاوی کے مطا بق پا نی کے ذریعے غیر ما کو ل اللحم حیوان (ما نندسگ ) کو ز ندگی بخشی جا ئیگی کیونکہ ما کو ل اللحم کو ذبح کر کے اسکے گو شت سے استفادہ قا نونی حیثیت رکھتا ھے لیکن کتے کا تشنگی کی بنیا د پر مر جا نا غیر قا نونی ھے ۔

مذ کو رہ حقو قی قوا عدکی علت فقھا ئے اسلامی یہ بیان فرماتے ھیں کہ یہ تمام حقوق اس بنا پر ھیں کہ حیوان ایک ذی روح مو جود ھے اور ذی روح مو جود کی ز ندگی کو بے ارزش قرار نھیں دیا جاسکتا ۔

اگر حکو مت اسلامی کے عا دلانہ قو انین کی ذی روح بالخصوص نوع انسا نی کو مد نظر رکھتے ھو ئے آخر ی حد تک شنا خت حاصل کر لی جا ئے تو اسکے باقی قوا نین وا حکام کی حقیقت کی شناخت وتحقیق سے بے نیا ز ی حاصل ھو سکتی ھے۔یہ ایک حقیقت ھے کہ جس طرح اسلام نے انسان کی شناخت کی ھے کسی دوسرے مکتب فکری کی رسائی اس مرتبہ تک نھیں ھوئی ھے جسکو دیگر مکاتب فکر کے غیر مسلم مورخین و محققین نے اپنے آثار میں ذکر کیا ھے ۔

امریکا کا مشھور مورخ ، ویل ڈورانٹ، موٴلف تاریخ تمدن ، اس سلسلے میں یوں رقم طراز ھے :

”یہ بات بالکل واضح ھے کہ کسی بھی شخص نے پیغمبر (ص) کے تعلیم یافتہ ھونے کو اھمیت نھیں دی ھے کیونکہ اس زمانہ میں لکھنا اورپڑھنا انسان کے امتیاز ات میں شمارنھیں کیا جاتا تھا ۔اس بنا پر قبیلہ قریش میںصرف 17/ افراد ایسے تھے جو لکہ اور پڑہ سکتے تھے اور یہ بات پائے ثبوت کو نھیںپھونچی ھے کے پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے ھاتھوں سے کچہ لکھاھو حتی کہ مبعوث بر رسالت ھونے کے بعد بھی ایک محر رآپکی خدمت میںر ھتا تھا ۔ اسکے باوجو د بھی کہ آپکا علم حاصل نہ کر نا ، آپکے ایک ایسی کتاب پیش کرنے کے سدراہ نہ ھو سکا جو عر بی کی مشھو ر تر ین و بلیغ ترین کتا ب ھو اور اسی طرح انسان کی اسکے شایان شان شنا خت کر سکے کہ علمی لحا ظ سے تر قی یا فتہ اور بلند پا یہ اشخاص بھی اسکی منزلت و عظمت تک رسا ئی حا صل نہ کر سکیں ۔“

اس جگہ اسکا آخری جملہ قا بل غور ھے کہ وا ضح طور پر اس نے بیان کیا ھے کھ” آپکی انسان شناسی تقریباً بے نظیر ھے “اسی مورخ کا ایک اور جملہ قابل ذکر ھے۔ مذکو رہ کتاب کے صفحہ/ 47 پر اس طرح رقمطر از ھے :

”اگرمفھو م عظمت اور ایک با عظمت انسان کی انسانی جو ا مع پر اثر گزاری کے بارے میںاظھار خیال کیا جائے تو یہ کھے بغیر نھیں رھا جا سکتا ھے کہ محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) تاریخ کے عظیم تر ین انسانو ں سے زیادہ بافضیلت و عظمت ھیں ۔آپنے اپنی اس قوم کی روحی اور اخلاقی سطح کو بلند ی عطا کر نیکا بیڑااٹھا یا تھا کہ جسکو جھلستے ھو ئے ریگستا ن کی گرم ھوا ؤ ں اور بیابانوں کی بے کیف خشکی نے حیوانیت کی گھنگھور تا ریکی میں ضم کر دیا تھا ۔ آپ اپنے عزم میں اس حد تک کا میاب وکا مران ھو ئے کہ تاریخ بشر یت کا کوئی بھی مصلح آپکے مقام تک نہ پھو نچ سکا۔ “

یھی مو رخ اور مفکر مذکو رہ کتاب کے صفحہ /116 پر کھتا ھے کہ ”اسلام ، ادیان میں سادہ تر ین اور روشن تر ین دین ھے۔ “

دوبا رہ صفحہ/ 151 پر یو ں بیا ن کر تا ھے :” تعلیم وتر بیت کے سلسلے میں اسلامی حکو متو ں کی تا ئید سے چلا ئی جانے والی تحر یکو ں کی بدولت تعلیما ت عام ھو گئیں اور علم ودا نش کو زندگی مل گئی ، اد بیات ،فلسفہ اور دیگر فنون کو ار تقا ء کی اتنی بلند منازل پر پھنچادیا گیا کہ مغربی ایشیا 500/ سال تک دنیا کے متمدن تر ین مما لک میں شما ر کیا جا تاتھا ۔“

صفحہ/ 65 1پر لکھتا ھے :”یہ کھا جاسکتا ھے کہ اسلامی معاشرہ کی عام راہ و روش ترقی کی آخری ممکنہ حدوں تک رسائی حاصل کر چکی ھے۔“

شخصیت صفحہ/ 292 پر کھتا ھے: ”اسپین کی تاریخ میں اسلامی حکومت سے زیادہ مھربان اور عادل حکومت وجود میں نھیں آئی ھے۔ “

خلا صئہ کلام یہ کہ حکومت اسلامی نے اپنے منصفا نہ اصول وقو انین کی بنیاد پر تمام معاشروں پر حکومت اور تسلط کا انتخاب کیاھے۔

اسلامی حکومت میں شخصیت، حسب ونسب اور دیگر تمام مر و جہ رسوم کو لغوا ور بے حقیقت قرار دیا گیا ھے ۔

ایک سیاہ فا م مسلمان جسکے اندر حا کمیت کے شرائط پا ئے جارھے ھو ں، مملکت اسلامی پر حکومت کر سکتا ھے اسلئے کہ اسلام نے شخصیت کی اساس ، پا کیز گی روح اور تقوے کو قرار دیا ھے ۔ حکومت اسلامی کی راہ وروش،جسکا اثر اور نتیجہ مختلف معاشروں میں نظر آتا ھے ، ایک تایخی وا قعے کے ذریعے ظا ھر ھو تی ھے جسکی مسلم اور غیر مسلم دونوں مور خین نے تصدیق کی ھے ۔

عمر بن خطاب کے دور حکومت میں مسلمانوں کو اطلاع مو صو ل ھو ئی کہ شھنشاہ روم نے مسلمانو ں سے جنگ کر نے کیلئے ایک عظیم لشکر تر تیب دیا ھے ۔ اس زمانے میں مسلمانوں کے لشکرنے شام کے ایک شھر”حمص “ پر فتح حاصل کی تھی اور اسکے باشندو ں سے طبق معمو ل جز یہ لیا تھا ۔ اس خبر کے مو صول ھو نے کے بعد ھی کہ شھنشا ہ روم، حمص پر حملہ آور ھو نے وا لا ھے ،حمص کے با شندوں کو ان سے حاصل کیا ھو اتمام جز یہ واپس پلٹا دیا گیا اور ان سے کھا گیا کہ ھم شھنشا ہ روم کے مقا بلے میں تمھا ری محافظت کر نے سے معذور ھیں لھذا تم خود اپنی حفاظت کا بندو بست کر لو۔ اھل حمص نے جوا ب دیا کہ تمھاری (مسلمانوں کی) حا کمیت ھمارے لئے سابقہ حکو متو ں کی بہ نسبت محبوب تر ھے ۔ ھم گز شتہ حکو متوں کے دوران مظلو م اور بے بس تھے ۔ اسی بنا پر قو م یھو دنے پیش قدمی کرتے ھو ئے کھا :” تو ریت کی قسم ! ھم تمھا رے سپہ سالار کے شا نہ بشا نہ لشکر روم سے جنگ کر ینگے یھاں تک کہ ھماری طاقت جوا ب دےجا ئے یا ھم مغلو ب ھو جائیں ۔“ چنا نچہ قوم یھود نے شھر کے دروازوں کو بند کر دیا اور اسکی حفاظت کے لئے کوشاں ھو گئی۔

اسی طرح دوسرے شھروں میں مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنے اور حکومت اسلامی کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے والے یھودو نصاری نے بھی اقدامات کئے۔ انکا خیال تھا کہ اگر شھنشاہ روم مسلمانوںپرغالب آگیاتو ھمیں ناچار اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹنا پڑے گا اور اگر شھنشاہ روم غالب نہ ھو سکا تو ھم مسلمانوں کے باقیماندہ آخری فردتک کا ساتھ دینگے ۔جب خداوندعالم نے مسلمانوںکو فاتح اور کفار روم کومغلو ب کر دیا تو یھود و نصاری نے شھروں کے دروازوں کو مسلمانوں کے لئے کھول دیا اور شادمانی ومسرت کے عا لم میں ناچتے گاتے ھوئے مسلمانوں کا استقبال کیا اور دوبارہ جزیہ ادا کیا ۔(فتوح البلدان:ج/1،ص/187 )

اسی داستان کو جارج زیدان نے تاریخ تمدن اسلامی :ج/1،ص/28پر نقل کیا ھے۔

یھی اسباب تھے کہ جنکی بنا پر اس قدیم زمانے میں جس میں علم و معرفت کے دروازے بند تھے اور انسانی اور طبیعی اصول وقوانین کو اس بے شعور سماج میں نافذ کر دینا تقریبا نا ممکن تھا ،نافذکر دیا گیا ۔اکثر مسلم اور غیر مسلم مور خین اس بات کے معترف ھیں کہ اس دور کی مشکلات کے باوجود اسلام نے جھاں بھی قدم رکھا ،اپنے طرز حکومت اور مختلف اقوام و ملل کو منطقی حدودمیں بخشی گئی آزادی کے بنا پربھت تیزی کے ساتھ ترقی کی منزلوں کو طے کرتا چلا گیا۔

اس مقام پرضرورت ھے اس بات کی کہ ایک ماھر سماجیات جسکی اس فن میں مھارت مشرقی و مغربی دونوں مورخین کے نزدیک ثا بت ھو ، کا نظر یہ طلب کیا جائے اور ھما ری نظر میں یہ شخص ڈا کٹر گو سٹا ولو بو ن (1841۔1931) ھے جسکی تا لیفات ابھی تک سما جیات کے سلسلے میں عمیق تر ین آثا ر میں شمار کی جاتی ھیں ۔اس عظیم محقق نے اسلامی حکو مت اور اسکے ار تقا ء کی تندر فتا ری کے بارے میں اس طر ح اظھا ر نظر کیا ھے:

”خلفا ئے راشد ین کی امو ر مملکت کے بارے میں حسن تد بیر ، جنگی فنون اور سپاہ گری سے زیادہ تھی ۔ بھت ھی مختصر مد ت میں انھو ں نے ان فنون میں مھارت حا صل کر لی تھی۔ابتدا ئے کا ر میں انکا سا بقہ ایسی اقوام و ملل سے پڑا تھا جو سا لھا سال ظالم حکا م کے شکنجے میں رہ چکی تھیں ۔ان ظا لم حا کمو ں نے ھر طرح کے ظلم وجو ر کو انکے لئے رواکر رکھا تھا ۔چنا نچہ ان مظلوم رعا یانے اسلامی حکمرا نوں کی جد ید حکو مت کا تھہ دل سے ا ستقبا ل کیا کیو نکہ وہ جا نتی تھیں کہ سابقہ حکو متو ں کے مقا بلے اسلامی حکومت میں بیشتر آزادی اور امن وسکون نصیب ھوسکتاھے ۔ان مغلوبہ اقوام کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے ؟ یہ بات مکمل طور پرروشن اور واضح ھو چکی تھی ۔ خلفائے اسلام نے ، بالخصوص حسن سیاست کے لحاظ سے مذھب کوتلوار کے زور پر پھیلانے کی کوشش نھیں کی بلکہ ان کی ھمیشہ یھی کوشش رھی کہ حتی الامکان دیانت اور عدالت کو معاشرہ میں رائج کرسکیں ۔ چنانچہ جیساکہ زباں زد عام و خاص ھے انکی طرف سے وقتاً فوقتاً اس بات کا اظھار ھوتا رھتاتھا کہ مغلوبہ اقوام کے تمام مذھبی رسوم وعقائد کو قابل حترام سمجھاجائے گا اور اس آزادی کے مقابلہ میں ان سے بھت مختصر مقدار میں جز یہ کے عنوان سے خراج لیا جاتا تھا جو سابقہ حکام کے مقابلے بھت کم تھا ۔ مجاھدین اسلام اس سے پھلے کہ جنگ کا آغاز کریں سفیروں اور نمائندوں کے ذریعے صلح کی پیش کش کرتے تھے جیسا کہ ابو المحاسن نے نقل کیا ھے کہ یہ شرائط اساسی طور پر وھی شرائط ھوتے تھے جنکی پیش کش 17ہ ء میں عمروعاص نے غزہ کے باشندوں سے کی تھی اور ا یران و مصر کے ساتھ بھی اسی طرح کی شرائط باندھی جاتی تھیں ۔ جس طرح کے شرائط مقرر کئے تھے ا ن شرائط کی عبارت مندرجہ ذیل طریقہ پر ھوا کرتی تھی :

”ھمارے حاکم نے ھم کو یہ حکم دیا ھے کہ اگر تم قانون اسلام کو قبول نہ کرو تو ھم تمھارے ساتھ جنگ کریں ۔ پس ھما ری صدا پر لبیک کھو ، ھمارے بھائی بن جاؤ اور ھر قسم کے سود و منافع میں ھمارے شریک ھوجاو۔جا ن لو کہ اس کے بعد ھماری جانب سے تمھیںکسی قسم کی اذیت و آزار نھیں پھونچے گا ۔اگر ھمارے شرائط تمھارے لئے قابل قبول نھیں ھیں تو جب تک زندہ ھو ، سالانہ خراج(جزیھ) کے عنوا ن سے ایک مبلغ ھمیں ادا کرتے رھو ۔دوسری جانب اس خراج کے مقابلے ھم بھی عھد کرتے ھیں کہ جو بھی تم کو اذیت و آزار پھنچائے گا یا کسی بھی قسم کی دشمنی کا اظھار کرے گا، ھم اس سے جنگ کرےنگے ۔جب ھم تمھارے ساتھ یہ قرارداد کریں گے تو کسی بھی موقع پر اسے توڑیں گے نھیں۔ اگر تم نے اس کو بھی قبول نھیں کیا تو ھمارے اور تمھارے درمیان صرف تلوار فیصلہ کرے گی ۔ھم جب تک حکم خدا کو جاری نھیں کر دینگے تمھارے ساتھ جنگ کرینگے۔“

عمروعا ص نے تقر یبا یھی بر تا ؤ اھل مصر کے سا تہ کیا تھا۔ اسنے انکے سا تہ قرار دادکی تھی کہ مذ ھب اور مذ ھبی مرا سم کے اعتبا رسے انکو مکمل طور سے آزادی دی جا ئیگی ،قا نون وعدا لت کو غیر جا نبدری سے انکے در میان جاری کیا جائیگا ، ما لکیت کے اصو لو ں کے تحت آرا ضی وا جنا س انکے حقو ق میں شما ر کئے جا ئیں گے۔ ان سھو لیا ت کے عوض قرار دادکی گئی کہ با دشا ھان قسطنطنیہ جو خطیر ر قم زبر دستی ان سے لیتے تھے اسکے مقا بلے ھر شخص سا لا نہ جز یہ کے عنو ان سے ایک مختصر مبلغ جو تقر یبا 15/ فر ینک کے مسا وی تھا ، ادا کرے ۔ ان اطراف میں بسنے وا لو ں نے اس قرارداد کو اسقدر غنیمت سمجھا کہ فو راً ا سکوقبو ل کر لیا اور مبلغ صلح کے عنوان سے کچہ ما ل جمع کر کے ھتھیا ر ڈال دئے ۔اسلامی حکومت کے عمال اپنے عھد و پیمان کے سلسلے میں اسقدر و فا دار تھے کہ سا بقہ حکمرانو ں کے ظلم وستم کا شکا ر عوا م کے ساتھ انھو ں نے غیر معمو لی شفقت اورمحبت ومھر بانی کا سلو ک اختیارکیا کہ عوا م با رضا ور غبت، دین اور زبان عر ب کی جانب کھنچتے چلے آئے ۔ ایسے نتائج تلوار کے زور پر حاصل نھیں کئے جا سکتے۔ چنانچہ عر ب سے قبل مصر کو فتح کر نے وا لے افراد میں سے کو ئی بھی ھر گز یہ کا میابی حاصل نہ کرسکا۔

فتو حات عر ب کے سلسلے میں ایک نکتہ قا بل غور ھے جو دیگر اقوام میں نھیں پایاجاتاھے ۔ دوسری اقوام کو اگر دیکھا جائے تو مثل بر ابر ہ (جس نے روم کو فتح کیا ) یا تر ک وغیرہ جنھو ں نے عا لمی حکومت کے قیام کے قصد کے ساتھ نما یاں فتو حات حاصل کیں ، انمیں سے کو ئی بھی اپنا تمدن اور تھذیب قا ئم نہ کر سکا بلکہ اکثر نے مغلوبہ اقوام کے احوا ل وکو ائف سے حتی الا مکان بھر ہ بر داری کی ۔اسکے بر خلاف تاریخ اسلام نے ایک بھت مختصرمدت میں ایک نئے تمدن اور تھذیب کو نا فذ کر دیا اور مفتو حہ ممالک کی اقوام کی بڑی تعدا د کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ اس جد یدتمدن کے تمام اجز اء حتی کہ اسکی زبان اور مذ ھب کو اختیار کر لیں ۔“(تمد ن اسلام وغرب، چو تھا ایڈ یشن صفحہ /157۔158۔159)

اسی مفکر نے مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر145ا ور148 /پر اسلامی حکو مت کی تر قی کے اسباب وعلل پر اسطرح رو شنی ڈالی ھے:

” ھم اگر ابتدا ئی مسلما نوں کی فتو حات کا بہ نظر غائر مطا لعہ کر یں اور انکی کا میابی کے اسباب وعلل پر غور کر یں تو احساس ھو گا کہ وہ مذھب کے سلسلے میں مکمل طور پر آزادی بخشتے تھے ۔“

اگر عیسا ئیوں نے اپنے فا تحین یعنی اعراب کے دین یھاں تک کہ زبان کو بھی اختیار کر لیا ھے تو اسکا حقیقی سبب یھی ھے کہ وہ سا بقہ حکمرانوں کے ظلم و ستم برداشت کر چکے تھے اور جدید حکا م کو سا بقہ کے مقا بلے عادل اور منصف مزا ج سمجھتے تھے ۔ اسکے علاوہ انکا مذھب بھی انکے اپنے مذھب کے مقا بلے سادہ اور حقیقت سے قر یب تھا ۔

تا ریخ کے ذریعے یہ بات ثابت ھو تی ھے کہ کسی بھی مذھب کو تلوار کے زور پر پھیلا نا ناممکن ھے ۔جب نصا ری نے اندلس کو مسلمانوں کے قبضہ سے چھین لیا تو اس مغلوب قوم نے مرنا تو قبول کر لیا لیکن مذھب کو تبدیل کر نا گوا رانھیں کیا ۔ وا قعاً بجا ئے اس کے کہ اسلام تلوار ونیز ے کے زور پر پھیلاھو در حقیقت تبلیغ وتقریر اور تشویق کی بنا پر آگے بڑھا ھے ۔

یھی و جہ تھی کہ تر ک ومغل اقوام نے عر ب کو مغلوب کر نے کے با وجو د انکا دین قبول کیا اور ھند ستان میں جو فقط عرب کی گز ر گاہ وا قع ھوا تھا ، اسلام نے اس حد تک ترقی کی کہ حال حا ضر میں 20/ کر وڑ سے زیادہ مسلمان اس ملک میں مو جود ھیں اور مستقل رو بہ افزا ئش ھیں ۔ اس وقت ھزا رو ں عیسا ئی تمام وسا ئل وذرائع کے ساتھ وھاں مشغو ل تبلیغ ھیں لیکن معلو م نھیں ھے کہ انکو اپنے مقا صد میں کا میا بی حاصل ھو ئی یا نھیں ۔ چین میں بھی اسلام کی ترقی وبلند ی قا بل تو جہ ھے ۔ اسی کتاب کے دوسر ے حصہ کے مطا لعے کے بعد یہ بات معلوم ھو تی ھے کہ اسلام نے وھا ں کسی حد تک اپنا ر سوخ پیدا کیا ھے ۔ چنانچہ اسوقت چین میں 4/کروڑ سے زیادہ مسلمان مو جود ھیں در حا لیکہ عر ب نے اس زمین پر حملہ نھیں کیا حتی کہ ایک بالشت زمین بھی اپنے تصرف میں نھیں لا یا ھے۔

کتا ب تمدن اسلامی ج /1ص/80۔ 81 پر اسلامی حکو مت کی کا میابی کے اسباب کی فھر ست کے ذیل میں جر جی زیدان اس طرح تحریر کر تا ھے:

”مذکو رہ او صاف کے لئے روم اور ایران سے اسلامی حکومت کی پناہ میں داخل ھو نے والے افراد کیلئے ایک عظیم تا ثر اور وہ نصیحتیں جو اسلامی افو اج کے گوش گز ارکی جاتی تھیں ، حسب ذیل ھیں : شام سے رخصت کر تے وقت ابو بکر نے اسا مہ کو یو ں حکم دیا:” خیا نت نہ کر نا ، فر یب وھی سے اجتناب کر نا ، اسیر نہ کرنا ، مثلہ نہ کر نا ، بوڑھوںاور بچو ں کو قتل نہ کر نا ،کسی درخت کو نہ جلا نانہ گر انا ، پھل دار درختو ں کو نہ کا ٹنا ،بھیڑ ، گا ئے ، اور او نٹو ں کو نہ مار نا مگر یہ کہ خدا کے لئے ۔ اگر تم ایسے گر وہ کے پا س سے گزرو جو کنا رہ کش ھو چکا ھو اور عبادت گا ھو ں میں پناہ لئے ھوئے ھو ، اس کو اس کے حال پر چھوڑدینا ۔“

اسلام فتح مندی اور کامیابی کے دیگر اسباب میں سے ایک برابری اور مسا وات کا قا ئل ھو نا بھی ھے ۔ چھو ٹے اور بڑے کو برابر ی کا درجہ دیا جا نا اسلام کی کا میابی کاضامن بن گیا ۔ اس قانون تسا وی کی روشن تر ین دلیل غسا ن کے باد شاہ جلبہ بن ایھم کی دا ستان ھے جو عمر بن خطاب کے دور میں اسلام لایاتھا ۔ایک مر تبہ کا ذکر ھے کہ جلبہ اپنی پیادہ اور سوار فوج کی ھمر اھی میں وارد مدینہ ھو ا۔اسکے سر پر بیش قیمت جوا ھر کا جڑاؤ تاج تھا ، گھو ڑو ں کے گلے میں سونے کی زنجیر یں آویز اں تھیں۔ مد ینے کے باشند ے اسکا جاہ وحشم دیکھنے کے لئے جمع ھو گئے ۔ اسکایہ جاہ وحشم اسلامی حد جاری کئے جانے سے مانع نہ ھو سکا ۔ یہ داستان اسطرح ھے کہ قبیلہ فزارکے ایک معمولی شخص نے جبلہ کے شاھانہ لباس پر اپنا پیر رکہ دیا۔جبلہ نے اپنے جلال وعظمت کے زعم میںاس فزاری شخص کے منہ پر ایسا ھاتہ مارا کہ اسکی ناک زخمی ھو گئی ۔ اس فزاری شخص نے عمر سے شکایت کی ،عمر نے جبلہ کو حا ضر ھو نے کا حکم دیا اور اس سے اسکی اس حر کت کے بارے میں سوال کیا۔جبلہ نے جوا ب دیا :” اے امیر المو منین !یہ شخص چا ھتا تھا کہ میرا لبا س کھل جا ئے ۔ اگر مکہ کا احترا م پیش نظر نہ ھو تا تو تلوار کا ایسا وار کر تا کہ اسکا سر دونوں آنکھو ں کے در میان سے شگا فتہ ھو جاتا۔ “

عمر نے کھا :” تم نے اپنے جرم کا اعتر ف کر لیا ھے لھذا یاتو اس شخص کو را ضی کرویا یہ مر دتم سے قصا ص لے گا ۔ میں حکم دیتا ھوں کہ وہ بھی اسی طرح تمھاری ناک پر ضر ب لگا ئے جس طرح تم نے اسکو ضرب لگائی ھے ۔“ جبلہ نے سوال کیا :” یہ کیسے ممکن ھے ؟ وہ ایک معمو لی انسان ھے اور میں باد شاہ ھوں ۔“عمر نے کھا : ”اسلام تمھیں اور اسے برابر سمجھتاھے ۔ تمکو اس پر صرف تقو ی اور پا کدامنی کے ذریعے بر تر ی حا صل ھو سکتی ھے ۔“ عمر کے اس حکم کے مقا بل جبلہ کو اسلامی حکومت سے فر ار کے سوااور کوئی راہ نظر نہ آئی ۔چنانچہ قسطنطنیہ بھا گ گیا اور پھر کبھی عرب مما لک کی جانب نہ پلٹا۔

مذکو رہ داستا ن کی شبیہ قطبی کی داستان بھی ھے جسکو عمر وعاص کے بیٹے نے مارا تھا ۔ یہ شخص عمر کے پاس گیا اور اس سے عمر وعاص کے بیٹے کی شکایت کی ۔عمر نے ایک شخص کو بھیج کر عمرو عاص اور اس کے فرزند کو بلوایا اور قطبی کے ھاتہ میں تازیانہ دیگر عمر وعاص کے بیٹے کے ساتھ ساتھ عمر وعاص کو بھی مارنے کا حکم دیا ۔عمر وعاص کے پوچھنے پر کہ میرے بیٹے نے اس شخص کو مارا ھے، میری کیا خطا ھے ۔عمر نے جواب دیا کہ اے عمرو عاص ! کب سے تم نے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا ھے درحالیکہ اپنی ماں کی کوکہ سے آزاددنیا میں آئے تھے ۔

جن اصولوں نے اسلام کی ترقی کے اسباب مھیاکئے ھیں انمیں سے ایک مغلوبہ اقوام کو دی جانے والی آزادی بھی ھے ۔ عرب جب کسی ملک کو فتح کرتے تھے تو اسکے باشندوں کو انکے دین ،عقائد ،رسومات اور مدنی و قضائی احکام کے سلسلے میں آزاد چھوڑ دیتے تھے اور کسی قسم کا جبر و زبردستی انکے ساتھ روا نھیں رکھتے تھے ۔انکا یہ رویہ مصر اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ اسی طرح تھا ۔

اسلامی حکو مت کے عادلانہ اور منصفانہ ھونے پر اتنی کثرت سے شواھد موجود ھیں کہ اسلام میں جھاد سے مختص ایک کتاب اسکی صلاحیت نھیں رکھتی کہ ان تمام شواھد کی تفصیلات اسمیں درج کی جاسکیں ۔

5۔اسلام میں جنگ کی کیفیت

اسلام میں انسان بلکہ تمام جانداروں کے سلسلے میں جو تجزیہ وتفسیر کی گئی ھے اور زندگی کی اھمیت کا جس طرح اسلام قائل ھے اسکی روشنی میں ا سلام میں موضوع جنگ ایک دلچسپ شکل اختیا ر کرلیتا ھے ۔ اس موضوع کو مزید واضح وروشن کرنے کے لئے ضروری ھے کہ انسان بلکہ عام زندگی کے بارے میں اسلام کی تفسیر و تجزئے پر ایک نظر ڈالتے چلیں ۔ ھم جانتے ھیں کہ اسلام نے بغیر کسی علت کے ایک انسان کے قتل کو تمام نوع بشر کے قتل کے مرادف قرار دیا ھے ۔اس مقام پر اس کے علاوہ بھی چند نکتوں کی جانب اشارہ کیا جائے گا :

(1)۔ ان تمام اوصاف حمید ہ سے قطع نظر کرتے ھوئے کہ جن کی بنا پر حضرت علی بن ابی طالب (ع) کو پیغمبر اسلام (ص) کے بعد اسلام کی اولین ردیف میں شمار کیا جاتا ھے ،بغیر کسی شک و شبہ کے پھلی ردیف کے مجاھدبھی ھیں۔تمام تاریخوں نے متفقہ طور پر لکھا ھے کہ آپ کو کسی ایک شخص یا دشمن کی پوری فوج کے مقابلے میں کبھی ڈر کر پیچھے ھٹتے ھوئے نھیں دیکھا گیا۔جنگ تبوک کے علاوہ اسلام کی تمام جنگی فتوحا ت آپ کی علمبرداری اور فداکاری کی بنیاد پرمعرض وجود میں آئی ھیں۔

اسلام کے اسی اولین ردیف کے جنگجو کا ارشادگرامی ھے:”واللّٰہ لو اعطیت الا قالیم السبعةبما تحت افلاکھا علی ان اعصی الله فی نملة اسلبھا جلب شعیرة ما فعلت۔“

(خدا کی قسم !اگرھفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ھیں مجھے دےدئے جائیں کہ صرف الله کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوںتو کبھی ایسا نہ کروں گا۔)

اسلام نے علی (ع) کی اس طرح تر بیت کی ھے کہ ایک طرف آپ کے سامنے اس دنیا کی آخر ی قا بل تصور عظیم ترین منفعت (پوری دنیا کی مالکیت ) ھے اور دوسری طرف دنیا کی ضعیف تر ین مو جو د چیونٹی کے منہ سے ایک جو کا چھلکا چھیننا جو اس کا ئنا ت کا نا قا بل شمار اور بے ارزش ترین حادثہ ھے۔ علی (ع) دونوں کا مقا بلہ کر نے کے بعد اس چھو ٹی سی نا فر مانی کو اس لا محدو د لذت سے کھیں زیا دہ خوف ناک سمجھتے ھیں اور اس چھوٹی سی معصیت سے بچنے کے لئے اس عظیم منفعت کو ٹھکر اد یتے ھیں ۔یہ ھے اسلام کا مجا ھد ، اسے کھتے ھیں اسلام کے لئے تلوار چلانے والا، یہ وہ جنگجو ھے جو مفسد ین کے ساتھ بر سر پیکار ھے ، جنگ کر رھا ھے ، اسلام کے لئے میدان کا رزا ر میں کشتو ں کے پشتے لگا رھا ھے در حالیکہ چیونٹی جو ایک زندہ مو جود ھے ، کے منہ سے ایک جو کے چھلکے کو بھی ظلم وستم کے ساتھ چھیننا گوا رانھیں کرتاھے۔

(2) ۔ اخلاق انسانی کا جو سلو ک حضرت علی بن ابی طالب (ع) نے اپنے قا تل ابن ملجم کے ساتھ اختیار کیا ھے اس سے اندا ز ہ لگا یاجاسکتا ھے کہ اسلام میں شمشیر کشی کا مسئلہ زور آزمائی کے لئے نھیں تھا بلکہ اسکا اصل مقصد انسان سازی تھا ۔ آپ نے اپنے فرزندو ں سے فرمایاتھا کہ اگر ابن ملجم کو معاف کردو گے تو یہ تقویٰ سے زیا دہ نزدیک ھے ۔

(3)۔ حضرت رسول گرا می صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام جنگو ں کے مو قع پر عا م فر مان یہ ھوا کرتا تھا :” سیر وا با سم اللّٰہ وفی سبیل اللّٰہ وعلی ملةرسول اللّٰہ لا تغدرو اولا تغلو ا ولا تمثلو او لا تقطعو اشجر ة الا ان تضطرو ا الیھا ولا تقتلو اشیخا فا تیا ولا صبیاولا امراة ولا متبتلا فی شاھق ولا تحر قو اا لنخل ولا تغر قو ابا لماء ولا تعقروامن البھا ئم مما یوٴ کل لحمہ الا مالا بد لکم “(خداکانام لیکر،اسکی مدد ،اسکی راہ میں پیغمبر خدا کی ملت پر آگے بڑھو ۔ جنگ کے موقع پر فریب نہ کرنا ، کسی کواسیر نہ کرنا ، مثلہ نہ کرنا ،کسی درخت کو مجبوری کے موقع کے علاوہ قطع نہ کرنا ،کسی چو پائے کو کہ جسکا گوشت قابل استفادہ ھو ،نہ مارناسوائے اس کے کہ کوئی دوسری راہ موجود نہ ھو ۔) یہ اسلام کاجنگ کے سلسلے میں محکم دستور ھے۔ یہ نکتہ قابل غور ھے کہ آپ فرماتے ھیں کہ خدا کے نام سے ،خداکی مددسے ،خداکی راہ میں، کسی مقام پر یہ نھیں کھا ھے کہ تلوار کے نام سے ،کامیابی کے را ہ میں ۔کبھی نھیں فرمایا کہ عرب کے نام سے ،عرب کے تعاون سے ،عرب کی سربلندی کے راستے میں۔ کھیں پر یہ ارشاد نھیں ھوا کہ حسب ونسب کہ نام پر ، نسلوں کے تعاون سے ،نسلوں کی کامیابی کے لئے وغیرہ غیرہ ۔

آپ فرماتے ھیں کہ فریب دھی،قید و بند میں مبتلا کرنا ،مثلہ کرنا ممنوع ھے جب کہ معمولی انسانوں کے نزدیک یہ تمام چیزیں جنگ کا جز ء لاینفک ھیں صرف اتنا ھی نھیں کہ انسان کو شمشیر کی نوک پر رکھنے سے منع فرمایا ھے بلکہ حکم یہ ھے کہ بلاوجہ حیوانات کے لئے بھی مزاحمت ایجاد نہ کرنا ۔

ان تمام چیزیوں سے بڑالازم الاجراء حکم د یا جارھا ھے کہ کسی بھی درخت کو بغیر مجبوری کے قطع نہ کیا جا ئے۔

جھاد کے فقھی احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ھے کہ دشمن کی کمین گاہ میں سم پاشی ممنوع ھے۔

(4)۔اگر کسی موقع پر کفارجنگ کے دوران عورتوں ،بچوں ،اوربوڑھوںکواپنی سپر بنالیں مثلاًاگر اسلامی لشکر کی صفوں کے سامنے لا کھڑا کریں تو ایسی حالت میں جنگ ممنوع ھوجائیگی،یھا ں تک کہ مفر و ضہ کیفیت ختم ھو جا ئے ۔ سوا ئے اسکے کہ فردی جنگ کے مو قع پر مذکورہ کیفیت کی رعا یت کی بنا پر شکست کھا نے کا خوف ھو ۔ ایسی صورت میں پو ری دقت وتو جہ کے ساتھ مذکورہ اشخاص کو کمتر ین تعداد میں قتل کر تے ھو ئے جنگ کو جا ری رکھا جائے گا۔

اگر مفر وضہ حالات میں کو ئی اسلامی سپاھی مذکورہ احکام کی رعایت نہ کر تے ھو ئے بو ڑھو ں ، بچو ں اور عورتو ں پر حملہ کر دے اور ان مستثنی افراد میں سے کسی کو قتل کر دے تو اگر یہ قتل عمد 1 ھو اھو تو اس سے قصاص لیا جائے گا نیز قتل عمد ی کا کفا ر ہ بھی اسے ادا کر نا ھو گا اور اگر یہ قتل غلطی سے سر زد ھو ا ھو تو مقتو ل کا فر کی دیت اس مسلمان کے مال سے لیکر مقتو ل کے ورثا ء کو دی جا ئے گی ۔(جوا ھر : کتاب جھاد ص/ 563)

(5) ۔ جنگ کو ظھر سے قبل شرو ع کر نا مکروہ ھے ۔ یحیی بن ابی العلا ء سے روا یت ھے کہ امیر المو منین (ع) بیان فر ماتے ھیں :” ظھر گز رنے کے بعد شب قر یب ھو جا تی ھے جسکی بناپر خو نریز ی کم ھو جاتی ھے اسلئے جو میدان جنگ میں آنا چا ھتا ھے وہ تا ریکی پھیل جانے کی بنا پر نھیں پھو نچ سکے گا ۔ میدان جنگ سے فرار کر نے والے کے لئے بھا گنے کے امکانات زیادہ ھیں۔“ (سا بقہ حوالہ )

(6) ۔ جنگ کے آغاز کی لا زمی شر ط ، حقا ئق وا صول اسلام کو بیان کر نا ھے ۔ مسمع بن عبد الملک نے حضرت جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ھے کہ امیر المو منین (ع) نے فرمایا :” پیغمبر اسلام (ص)نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ اسلام کے اصول وحقا ئق کو بیان کئے بغیر کسی سے جنگ نہ کروں“۔ پھر آپ نے فر مایا :” اے علی !اگر تمھارے ذریعے خدا وند عالم کسی کی ھدا یت فر مادے تو یہ اس سے بھتر ھے کہ تم ان تمام موجودات کے مالک ھو جاوٴجن پر آفتاب طلوع وغروب کرتا ھے ۔“

ضروری ھے کہ قبل از جنگ، کفار کے لئے واضح کردیا جا ئے کہ ھمارا مقصد دنیا وی مال ومنال اور حکومت وسلطنت نھیں ھے ۔لھذا اگر ایک اسلامی سپاھی دعوت سے قبل کسی ایک کا فر کو قتل کردے تو اسکو مجرم سمجھا جائے گا حتی کہ بعض فقھاء کا نظر یہ یہ ھے کے اسلامی سپاھی اس کا فر کے خون کا ذمہ دار ھے ۔مذکورہ بالاشرائط کے ملا حظے کے بعد اس حقیقت کو قبول کرنا بھت آسان ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) اپنے آخری ایام میں ایک وسیع وعریض سرزمین جسکی مقدار تمام یو روپ کے مساوی ھے، پر حکمرانی کررھے تھے اور اس وقت لاکھوں افراد اس سرزمین پر زندگی بسر کررھے تھے۔دشمن کے صرف 150 / افراد کے جانی نقصان کے بعد یہ علاقہ فتح ھو اتھا (بہ استثنائے مقتولین یھود بنی قریضہ کہ یہ لوگ اپنی سرکشی کی بنیاد پر قتل ھوئے تھے)۔مسلمانوں کے جانی نقصان کا تخمینہ دس سال کی مدت کے دوران ایک فرد ماھانہ کے حساب سے لگایا جاسکتا ھے ۔ 120/مسلمان اور 150/ کافر کل ملاکر270/ افراد قتل ھوے ھیں اور پورے یوروپ کے مساوی سرزمین پر حکومت اسلامی قائم ھوئی ھے اور اسکے باشندوں نے اسلام قبول کیا ھے۔( رسول اکرم(ص) در میدان جنگ : ص/12)

(7) ۔جنگوں میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے روا نھیں ھے کہ پیمان شکنی کریں بلکہ اگر کفار کے دو گروہ بر سر پیکار ھوں اور پھر صلح اور آپس میں عھد وپیمان کرلیں، اس کے بعد ان دونوں گروھوں میں سے کوئی اپنے دشمن کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ عھد وپیمان کرناچاھے تو یہ پیمان اسلام کی نظر میں ممنوع ھے۔کتاب جواھر ،باب جھادص /625 پرروایت ذکر ھوئی ھے کہ طلحہ بن زید حضرت امام صادق (ع) سے نقل کرتے ھیں : ” کفار حربی میں سے دو گروھوں نے باھم جنگ کی اور پھر صلح کرلی ۔پھران دونوں بادشاھوں میں سے ایک نے اپنے دشمن کو دھوکا دیتے ھوئے مسلمانوںکے ساتھ اس دوسرے بادشاہ سے جنگ کے سلسلے میں پیمان کرلیا ۔ آیا یہ مصا لحت اور پیمان جائز ھے ؟“ آنحضرت نے فرمایا :” مسلمان فریب دھی نھیں کرسکتا ھے ، نہ فریب وحیلہ کا حکم دے دسکتاھے اور نہ فریب کاروںاور حیلہ گروں کا ساتھ دے سکتا ھے۔مسلمان صرف مشرکین سے جنگ کر سکتے ھیں لیکن ان کفار کا ساتھ نھیں دے سکتے جنھوں نے باھم جنگ نہ کرنے کا پیمان کرلیا ھو۔“