شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام حضرت آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي کے مجمو عہ خطابات کي روشني ميں
امير المومنين علي عليہ السلام کي ذات ايک بہت بڑے اوقیانوس کے چھپے ہوئے کنارے کي طرح ہے کہ ايک انسان کے لئے جسکا پوري طرح سے احاطہ کرنا ناممکن ہے آپ جس طرف سے بھي فضيلت کے اس سمندر ميں وارد ہونے کي کوشش کریں گے آپ عظمت کي ايک کائنات کا بچشم خود مشاہدہ کریں گے،عجائبات کي ايک دنيا مختلف ند ّياں، گہرائياں ،قسم قسم کے دريائي حيوانات اس طرف کو چھوڑ کر ايک دوسرے کنارے سے وارد ہوں تو پھر بھي يہي منظر دکھائي دے گا۔ اگر اس اقيانوس کے تيسرے چوتھے يا دسويں حصے کي طرف جائيں يا جس طرف سے بھي اسکے اندر داخل ہوں اسي طرح کے عجائب و غرائب انسان کو حيرت ميں ڈالتے رہيں گے ذات اميرالمومنين عليہ السلامبھي کچھ اسي طرح ہے اور اس بات میں کوئي مبالغہ نہيں ہے انکي ہمہ گير و آفاقي شخصيت کے لئے يہ مثال بھي نارسا دکھائي ديتي ہے انکي ذات واقعاً عجائب و غرائب کا ايک شگفتہ انگيز مجموعہ ہے۔ يہ اظہارات ايک انسان کے عجز و ناتواني کو بتا رہے ہيں جس نے خود ايک مدّت تک آپکي شخصيت کو زير مطالعہ رکھا ہے اور پھر يہ محسوس کيا کہ اس فضيلت مآب ذات علي عليہ السلام کو ايک معمولي ذہن اپني اس عقل و فہم کے ذريعہ سمجھنے سے قاصر ہے اس لئے کہ انکي ذات ہر طرف سے شگفت آور نظر آتي ہے ۔
علي عليہ السلام پيغمبر اکرم ۰ کي ہو بہو ا يک مثال:
اگرچہ اميرالمومنين عليہ السلام حضور اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے شاگرد خاص اور انکي ہو بہو تصوير ہيں مگر يہي عظيم المرتبت شخصيت جو ہماري نظروں کے سامنے ہے، خود کو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے مقابل ناچيز سمجھتے اور آنحضرت کي شاگردي پر فخر کرتے ہيں مگر جب ہم انہيں بحیثیت ايک بشر ديکھتے ہيں تو وہ ايک انسان سے بالاتر نظر آتے ہيں، کيونکہ ہم اس جيسي عظمتوں کي حامل ذات کا تصور ہي نہيں کر سکتے انسان کے ذرائع معلومات يعني عقل و ادراک وفہم (البتہ ميں ٹيليويژن و کيمرہ کي بات نہيں کرتا جو کہ انساني ذہن سے بھي حقير تر ہيں اور ذہن انساني ہر مادي اسباب سے بلند و برتر ہے) اس سے کہيں نا چيز و کمتر ہيں کہ وہ اميرالمومنين عليہ السلام کي شخصيت کو ايسے لوگوں کے سامنے پوري طرح پيش کر سکے جو تہذيب نفس اور روحاني کشف و شہود کي منزل تک پہنچ ہي نہيں سکے ہيں۔
البتہ اس بات سے بھي انکار نہيں کيا جا سکتا کہ کچھ ايسے عرفائ بھي ہيں جو روحاني پاکيزگي اور تہذيب نفس کي وجہ سے کشف و شہود کي منزل پرپہنچ کر ممکن ہے آپکي شخصيت کے کچھ پہلوؤں کو درک کر سکيں ليکن ہم جيسے لوگ ان تک رسائي نہيں رکھتے۔ ميں آپکے سامنے اميرالمومنين عليہ السلام کي ايک خصوصيت بيان کرنا چاہتا ہوں کہ جس خصوصيت کو ميں اميرالمومنين عليہ السلام کي ذات ميں توازن سے تعبير کرتا ہوں جو آپکي زندگي ميں ايک عجيب و غريب توازن ہے يعني بظاہر کچھ صفات آپکي ذات ميںاس طرح خوبصورتي سے يکجا ہيں کہ جو خود اپني جگہ حسن کا ايک مرقع بن گئي ہیں جبکہ ايک انسان کے اندر يہ صفات اکھٹي ہوتي دکھائي نہیں آتیں باہم نہيں دکھائي پڑتيں،اور علي عليہ السلام کے وجودمیں ايسي متضادصفات ايک دو نہيں بلکہ بے نہايت جمع ہو گئيں ہيں۔
ميں يہاں اسمیں سے چند صفتوں کو آپکے سامنے بيان کرتا ہوں۔
آپکے اٹل فیصلے اور رحم دلي:
مثال کے طور پر بيک وقت ايک انسان کسي کے ساتھ رحم دلي بھي کرے اور وہيں اور وہيں پراپنافیصلہ بھي اٹل رکھے اور قطعاً کسي کوبے جا حق دينے پر راضي نہ ہو يعني رحم دلي اور قاطعيت آپس ميں دو ايسي متضاد صفتيں ہيں جو ايک شخص کے اندر جمع نہيں ہو سکتيں!ليکن حضرت امير المومنين عليہ السلام کے اندر رحم دلي، عطوفت و محبت اپني حد کمال کو پہنچي ہوئي ہے جو ايک عام انسان کے اندر بہت کم نظر آتي ہے مثال کے طور پر فقيروں کو مدد کرنے والے پسماندہ لوگوں کي مشکلات حل کرنے والے آپکو بہت مليں گے۔ مگر ايک ايسا شخص جو نمبر ١ ۔اس کام کو اپني حکومت کے دوران انجام دے ، نمبر٢ ۔اسکا يہ عمل ايک دو دن نہيں ہميشہ کا ہو،نمبر٣۔تنہا ماّدي مدد تک ہي اسکا يہ عمل محدود نہ رہے بلکہ وہ بنفس نفيس ايسے لوگوں کے گھر جائے،اس بوڑھے کي دلداري کرے، اس نابينا کو دلاسا دے ، ان بچوں کے ساتھ بچوں کي طرح کھيلے اسکا دل بہلائے اور اسي کے ساتھ ساتھ انکي مالي مدد بھي کرے پھر ان سے رخصت ہو يہ فقط امير المومنين عليہ السلام ہي کي ذات ہے اب ذرا بتائيے آپ دنيا کے رحم دل انسانوں ميں اس جيسا کتنوں کو پيش کر سکتے ہيں!؟ حضرت عليہ السلام مہر ومحبت عطوفت اور رحم دلي ميں اسطرح سے ديکھائي ديتے ہيں۔کہ ايک بيوہ جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہيں اسکے گھر جاتے ہيں ، تنور روشن کرتے ہيں انکے لئے روٹياں سينکتے ہيں انکے لئے کھاناپکاتے ہيں اور اپنے ہاتھوں سے ان يتيم بچوں کو کھانا کھلاتے ہيں يہي نہيں بلکہ اسلئے کہ ان بچوں کے لبوں پربھي دیگر بچوں کي طرح مسکراہٹ آئے اور وہ بھي کچھ دير کے لئے غم و اندوہ سے باہر نکل سکيں انکے ساتھ بچوں کي طرح کھيلتے بھي ہيں انہيں اپني پشت پر سوار کرتے ہيں انکے لئے ناقہ(اونٹ) بنتے ہيں اس جھونپڑي ميں انہيں مختلف طريقوں سے سرگرم رکھتے ہيں تا کہ وہ بھي مسکرا سکيں يہ ہے حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي رحم دلي اور محبت و عطوفت کي ايک مثال يہاںتک کہ محبت کا يہ برتاؤ ديکھ کر اس زمانے کے ايک بزرگ کہتے ہيں اس قدر اميرالمومنين يتيموں اور بے سہارا بچوں سے محبت سے پيش آتے اور انکے منہ ميں شہد ڈالتے اور انہيں پيار کرتے تھے کہ خود ميں تمنا کرنے لگا ’موددتُ ان اکون يتيماً ‘کاش ميں بھي يتيم ہوتاتاکہ مجھے بھي علي عليہ السلام اسي طرح پيار کرتے! يہ آپکي محبت ہے۔
اوريہي علي عليہ السلامجنگ نہروان ميں بھي ہيں جب کچھ کج فکر اور متعصب لوگ بے بنياد بہانوں سے آپکي حکومت کو ختم کر دينا چاہتے ہيں پہلے آپ انہيں نصيحت کرتے ہيں کہ وہ جسکا مطلقاً اثر نہيں ليتے ، احتجاج کرتے ہيں مگر اسکا بھي کوئي فائدہ نظر نہيں آتا۔کسي تيسرے آدمي کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہيں انکي مالي امداد کرتے ہيں ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ ديتے ہيں مگر ان سب سے کوئي فائدہ نہيں پہنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہيں پھر بھي آپ انہيں نصيحت کرتے ہيں مگر آپکي يہ نصيحت انکے لئے بے فائدہ ثابت ہوتي ہے اسوقت پورے شد و مد کے ساتھ پوري قطعيت سے پرچم زمين پر گاڑ کر فرماتے ہيں ! تم ميں سے کل تک جو بھي اس پرچم تلے آجائيگا وہ امان ميں رہے گااور جو نہيں آيا اس سے ميں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ہزار١٢٠٠٠ افراد ميں سے ٨٠٠٠آٹھ ہزار افراد پرچم کے نيچے آگئے اور باوجوديکہ ان لوگوں نے آپ سے دشمني کي ہے، لڑنے ميں بر ابھلا کہا ہے پھر بھي فرماتے ہيں جاؤ تم لوگ يہاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انہيں کوئي اہميت نہيں دي اور انہيں معاف کر ديا، جو دوسرے ٤٠٠٠چار ہزار بچے،فرمايا! اگر تم لڑنے پر تلے ہوتو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے ديکھا وہ لڑنے مرنے پر تيار ہيں فرمايا ! ياد رکھو تم چار ہزار ميں سے دس افراد کے علاوہ کوئي باقي نہيں بچے گا ۔جنگ شروع ہوگئي اس ٤٠٠٠ چار ہزار ميں ١٠ لوگ زندہ بچے بقيہ سب کے سب ہلاک ہوگئے، يہ وہي علي عليہ السلام ہيں جب ديکھا مقابلہ ميں بدسرشت و خبيث النفس انسان ہیں تو پھر پوري صلاحيت کے ساتھ ان سے جنگ لڑتے ہيں اور انکا دندان شکن جواب ديتے ہيں۔
خوارج کو ٹھيک سے پہچانيں:
’’خوارج‘‘ کا صحيح ترجمہ نہيں ہوا ہے مجھے افسوس ہے کہ مقرّرين ،اسلامي شعرائ فلموں ميں کام کرنے والے فنکار وغيرہ خوارج کو ’’خشک مقدس‘‘ سے تعبير کرتے ہيںجبکہ يہ سراسر غلط ہے، ’’خشک مقدس‘‘ کا کيا مطلب؟ ! حضرت امير عليہ السلام کے زمانے ميں بہت سے لوگ ايسے تھے جو اپني ذات کے لئے کام رہے تھے اگر آپ خوارج کو پہچاننا چاہتے ہيں تو ميںاپنے ہي زمانے ميں انکي مثاليں پيش کر سکتا ہوں۔
آپ نے (ابتدائے انقلاب اسلامي ايران) کے گروہ منافقين کو ابھي بھلايا نہ ہوگا؟ وہ لوگ تلاوت کرتے تھے، نہج البلاغہ کے خطبے پڑھتے تھے، دينداري کا دعويٰ کرتے تھے اورا پنے آپ کو سارے مسلمانوں سے مسلمان تر اور سارے انقلابيوں سے زيادہ انقلابي سمجھتے تھے اور وہي لوگ مملکت جمہوري اسلامي ايران ميں بم دھماکہ بھي کرتے تھے اور گھروں کے گھر ویران کردیتے تھے بوڑھے جوان عورت مرد بچوں تک کو ماہ رمضان المبارک ميں بوقت افطار قتل کردیتے تھے ! آخر کيوں؟کيا اسلئے کہ يہ لوگ واقعي امام خميني ۲اور انقلاب کے طرفدار تھے؟! جو ناگہاني طور پر بم دھماکے کرتے اور مثلاًايک بے گناہ قوم شہر کے فلاں ميدان ميں خاک و خون ميں غلطاں ہو جاتي تھي؟ يہي لوگ ٨٠ سالہ شہيد محراب ايک مقدس مجاہد راہ خدا ،عالم رباني کو اسي بم سے اڑا ديتے ہيں ان لوگوں نے چار پانچ بزرگ نوراني علمائ اور کئي مومنوں اور مجاہدوںکو اسي طرح شہيد کر ديا،عموماً انکي سياہ اعمالي يہ تھي اسي طرح سے خوارج اور انکے ناپسند افعال بھي تھے جو عبداللہ بن خبّاب کو قتل کر ديتے ہيں اسکے بعد انکي حاملہ بيوي کا پيٹ چاک کر کے جنين(بچے) کو باہر نکال ليتے ہيں اوربے رحمي سے اسکے سر کو کچل کر اسے موت کے گھاٹ اتار ديتے ہيں۔آخر ايسا کيوں؟ اسلئے کہ يہ علي ابن ابي طالبعليہ السلام کے چاہنے والے ہيں لہذا وہ اس جرم ميں قتل کر دئے گئے ہيں۔يہ ہيں خوارج ،يہ ہے انکي صحيح صورت ! اسلئے خوارج کو صحيح طور سے پہچانيے۔
جو تنہا ظاہري طور پر دين کا ڈھونگ کرنے والے قرآني آيات کاحفظ کر کے نہج البلاغہ کو رٹ کراگرچہ اس زمانے ميں نہج البلاغہ نہيں تھي ليکن اس قسم کي فکر رکھنے والے آئندہ اپنے مفاد و مصلحت کے تحت دين قرآن، نہج البلاغہ کو ايک وسيلہ قرار ديں گے کہ بعض ديني عقائد کے پاپند تھے ليکن روح دين کے مخالف تھے اور انہيں شديد تعصب تھا، ويسے تو وہ خدا خدا کرتے تھے مگر وہ شيطان کے حلقہ بگوش تھے کيا آپ نے اپني مملکت ميں نہيں ديکھا تھا کہ يہي منافقين جو اپنے آپ کوسب سے بڑا انقلابي سمجھتے تھے وقت پڑنے پر حکومت اسلامي،امام خميني ۲ اور ساري انقلابي قدروں سے جنگ کرنے کے لئے تيار ہوگے اور امريکہ یہودیوں اور صدام کے ساتھ ہاتھ بٹانے پر پوري طرح راضي ہوگئے اور انکي غلامي کرنے لگے!
خوارج اس قسم کے افراد تھے جواُسوقت اميرالمومنين عليہ السلام سيسہ پلائي ہوئے ديوار بن کے انکے مقابل ڈٹ گئے کہ قرآن کہتا ہے (اشدّا ئ علي الکفار ئ رحمائ بینھم) يہ وہي علي ہيںذرا غور تو کريں يہ دو(٢) خصوصیتیں کسطرح خوبصورتي اور زيبائي خلق کرتي ہيں،ايک ايساانسان جو رحم و محبت کا مجسمہ ہے اور ايک يتيم کو غم زدہ رہنا تک گوارہ نہيں کرتا اپنے دل ميں کہتا ہے جب تک اس بچہ کو ہنسانہ دونگا اپني جگہ سے ہٹ بھي نہيں سکتا، جبکہ ان الٹي فکروں اور غلط فکرکے لوگوں (جو بچھو کي طرح ہر بے گناہ کو ڈنک مارنے پر تلے ہيں )کے مقابلہ ميں يہي با فضيلت انسان ڈ ٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور چار ہزار افراد کو ايک دن يا چند گھنٹوں ميں موت کے گھاٹ اتار ديتا ہے ۔ ’’ من يفلت منھم عشرۃ ‘‘کہ ظاہراً اس جنگ ميں خود آپکے پانچ يا چھ اصحاب شہيد ہوئے مگر ان چار ہزار ميں سے دس افراد سے کم يعني نو ٩لوگ باقي بچتے ہيں متوازي شخصيت کا مطلب يہ ہے يعني رحم دلي کے ساتھ ساتھ اپنے ارادوں میںمحکم بھي ہے ۔
پرہيز گاري اور حکومت اميرالمومنين عليہ السلام :
ايک دوسري مثال اور آپ کي متضاد صفات کا نمونہ حکومت کے ساتھ ساتھ تقويٰ و پارسائي ہے يہ ايک عجيب چيز ہے؟ ورع و تقويٰ کا کيا مطلب ہے؟ يعني انسان ہر وہ چيز جس سے دين خدا کي مخالفت کي بو آتي ہو اس سے پرہيز کرے اور اسکے قريب نہ جائے۔پھر ادھر حکومت کا کيا ہو گا؟ آخر ممکن ہے کہ حکومت رکھتے ہوئے کوئي پارسا بھي ہو آج جب ہمارے کاندھوں پر اہم ذمہ دارياں ہيں ہميں زيادہ احساس ہے کہ اگر يہ خصوصيات کسي کے اندر موجود ہوں تو وہ کسقدر اہميت کا حامل ہو گا، حکومت ميں رہتے ہوئے صرف اسے کلي قوانين سے سروکار ہوتا ہے اور قانون کا نفاذ اپني جگہ بہت سے فوائد لئے ہوتا ہے اگرچہ عين ممکن ہے اسي قانون کي وجہ سے مملکت کے کسي گوشہ ميں کسي شخص پر ظلم و ستم بھي ہواور ممکن ہے حکومت کے ذمہ دار کي طرف سے خلاف ورزياں بھي ہوں اور پھر نا محدود جزئيات کے ہوتے ہوئے کيسے ممکن ہے کہ وہ (حاکم)ہر شعبہ ميں زہد و پارسائي کا بھي لحاظ رکھ سکے؟ اسلئے بظاہر لگتا ہے کہ تقويٰ حکومت کے ساتھ اکٹھا ہونا نا ممکن سي بات ہے ليکن قربان جائیں اميرا لمومنين عليہ السلام کي ذات پر کہ اپنے وقت کي بااقتدار حکومت کے ساتھ بھي پارسائي و تقويٰ کو يکجا کرتے ہوئے ديکھائي ديتے ہيں جوايک حيرت انگيز بات نظر آتي ہے۔
وہ اس معاملہ ميں کسي کا پاس و لحاظ نہيں کرتے تھے کہ اگر انکي نگاہ ميں کوئي کسي منصب کا اہل نہيں ہے تو اسے منصب دے کر بھي بلاتکلف اس عہدے کو واپس لے ليتے ہيں ۔محمد بن ابي بکر کو حضرت اميرعليہ السلام اپنے بيٹے کي طرح سمجھتے تھے اور وہ حضرت علي عليہ السلام کو اپنے مہربان باپ کي حيثيت سے جانتے تھے (آپ ابوبکر کے چھوٹے صاحب زادہ اور علي عليہ السلام کے مخلص شاگرد ہيں آپکے دامن پر مہر و محبت ميں پروان چڑھے ہيں ) مگر مصر کي ولایت دينے کے بعد امير المومنين عليہ السلام نے ايک خط ميں آپکو لکھا ميں تم کو مصر کي حکومت کے لائق نہيں سمجھتا اسلئے مالک اشتر کو تمہاري جگہ بھيج رہا ہوں۔اور آپنے انکو معزول کر ديا اگرچہ انسان ہونے کے ناطے محمد بن ابي بکر کويہ بات بري بھي لگي مگر حضرت نے اس معاملہ ميں کسي بھي چيز کالحاظ نہيں کيا يہ ہے آپکي پارسائي ايسي پارسائي جسکي ضرورت ايک حکومت اور حاکم کو پڑتي ہے و ہ ذات علي عليہ السلام ميں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتي ہے۔
آپکے زمانے ميں نجاشي نامي ايک شاعر تھا جو اميرا لمومنين عليہ السلام کا مداح اور آپکے دشمنوں کے خلاف اشعار کہتا تھا۔ماہ رمضان ميں ايک دن کسي گلي سے گذر رہا تھا کہ ايک برے انسان نے اسکو ورغلايا وہ کہتا ہے کہ آؤ آج ہمارے ساتھ ميں کچھ وقت گذارو مثلاً اس شاعر نے کہا نہيں ميں مسجد جا رہا ہوں قرآن پڑھنے يا نماز پڑھنے بہرحال زبردستي اس شاعر کو اپنے گھر ميں بلا ليا! آخر يہ بھي ايک شاعر ہي تو تھا اسکے فريب ميں آگيا اور اسکے دسترخوان پر روزہ خوري کے بعد شراب بھي پي جاتي تھي اور لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا: اس پر حد جاري کرواور اس کو اسي٨٠ تازيانے شراب نوشي کي وجہ سے اور دس١٠ يا بيس٢٠تازيانے دن ميں حرام چيز سے روزہ توڑنے کي بنائ پر ۔ نجاشي نے کہا ميں آپکا اور آپکي حکومت کا مداح ہوں اپنے اشعار سے آپکے دشمنوں کو جواب ديتا ہوں اور آپ مجھے تازيانے مارنے کا حکم دے رہے ہيں؟فرمايا، کہ يہ ساري باتيں اپني جگہ قابل قبول اور قابل تحسين ہيں مگر ميں حکم خدا کو اپني ذات کي خاطر معطل نہيں کر سکتا ،ہر چند انکے قوم و قبيلہ والوں نے اصرار کيا يا اميرالمومنين عليہ السلام اسطرح ہماري عزت چلي جائيگي پھر ہم معاشرے ميں سر اٹھانے کے قابل نہيں رہیں گے آپ معاف کر ديجئے مگر حضرت نے فرمايا نہيں ممکن نہيں کہ ميں حد خدا جاري نہ کروں ۔ اس شخص کو لٹايا گيا، اور اسے کوڑے مارے گئے اور وہ راتوں رات آپکي حکومت سے يہ کہتے ہوئے فرار کر گيا کہ جب آپ کو ميري قدر نہيں معلوم اور آپکي حکومت ميں روشن خيالوں اور شاعروں کے ساتھ يہ برتاؤ ہے تو ميں وہاں جاؤنگا جہاں ہماري قدر کو پہچانتے ہوں ! اور معاويہ کے دربار ميں اس خيال سے چلا گيا کہ وہ اسکي قدر کو جانتا ہے ! خيرجسے اپني خواہشات پر اتنا قابو نہيں کہ وہ علي عليہ السلام کي تابندگي کو اپني خواہشات کے طوفان ميں جھانک کر ديکھ سکے تو اسکي سزا بھي يہي ہے کہ وہ علي عليہ السلام کو چھوڑ کر معاويہ کے پاس چلا جائے حضرت علي عليہ السلام حضرت جانتے تھے کہ يہ شخص ايک نہ ايک دن ان سے جدا ہو جائے گا آج بھي شعرائ اور فنکاروں کي اپني جگہ اہميت ہے ليکن اس زمانہ ميں ايک شاعر اسلئے زيادہ اہميت رکھتا تھا کہ وہ افکار و خيالات اور حکومت کي سياست و حکمت عملي کو اپنے شعروں میں لوگوں تک پہنچاتا تھا کيونکہ اس زمانے میں آج کي طرح ٹيلويژن اور ريڈيو نہيں تھے بلکہ يہ شعرائ کا کام ہو ا کرتا تھايہاں ملاحظہ کيجيے کس طرح اميرالمومنين عليہ السلام کي پارسائي انکي بااقتدار حکومت کے ساتھ ساتھ ہے ذرا ديکھيں توسہي کيا خوبصورتي و زيبائي سامنے نکھرکر آتي ہے ۔ہم دنيا اور تاريخ عالم ميں اس قسم کي مثال نہيں تلاش کر سکتے ۔پيش رو خلفائ ميںبھي بہت سي جگہوںپر صلاحیت نظر آتي ہے ليکن کہاں حضرت اميرعليہ السلام کہاں ديگر لوگ جو کچھ آپ سے پہلے اور آپکے بعد اور آج نظر آرہا ہے گذِشتہ اور آج میں ايک عجيب و غريب فاصلہ نظر آتا ہے اصلاً اميرالمومنين عليہ السلام کي صلاحيت و قابليت ناقابل توصيف ہے۔
قدرت اور حضرتعلي عليہ السلام کي مظلوميت:
ايک دوسرا نمونہ جو آپکي زندگي ميں ملتا ہے وہ ہے آپکي قدرت و شجاعت اور مظلوميت ۔آپکے زمانے ميں آپ سے زيادہ شجاع و بہادر کون ہو سکتا ہے؟ اميرالمومنين عليہ السلام کي آخري زندگي کے آخري لمحات تک کسي شخص کي بھي جرآت نہ ہو سکي کہ آپکي شجاعت و قدرت کے سامنے اپني بہادري کا دعو يٰ کرسکے اس کے باوجود آپکي ذات گرامي اپنے زمانے کي مظلوم ترين شخصيت ہے۔ کسي کہنے والے نے کتني سچي بات کہي ہے کہ شايد تاريخ اسلام کي شخصيتوں ميں مظلوم ترين شخصيت آپ کي ذات ہے قدرت اور مظلوميت آپس ميں دو متضادصفات ہيں جو جمع نہيں ہوتيں،عموماً طاقتور مظلوم نہيں مگر امير المومنين عليہ السلام قوت وطاقت کے مالک ہو کر بھي مظلوم واقع ہوئے ہيں۔
حضرت علي عليہ السلام کي سادگي اور زھد:
سادگي اور دنيا سے بے توجہي اميرالمومنين عليہ السلام کي حيات بابرکت ميں ضرب المثل کي حيثيت رکھتي ہے، نہج البلاغہ کے موضوعات ميں سے ايک اہم موضوع زہد ہے يہي اميرالمومنين عليہ السلام وفات پيغمبرصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد سے اپنے زمانہ حکومت تک ٢٥ سالہ خانہ نشيني کے دوران اقتصادي آباد سازي کے کام کرتے رہے، باغ لگاتے ، کنويں کھودتے، پاني کي نہريں اور کھتي باڑي کرتے تھے اور تعجب اس بات پر ہے کہ يہ ساري محنتيں راہ الہيٰ ميںہوتيں اور ان سب چيزوں کو راہ خدا وقف کر ديتے تھے۔
شايد آپکو يہ جان کر حيرت ہوگي کہ خود اميرالمومنين عليہ السلام اپنے وقت کے مالدار لوگوں ميں سے تھے کہ آپ نے فرمايا! اگر ميرے مال سے نکلي ہوئي خيرات پورے قبيلہ بني ہاشم پر تقسيم کر دي جائے تو سب کے لئے کافي ہوگي ’’ انّ صدقتي لووزّع عليٰ بني ہاشم لوسعھم‘‘ تو حضرت کي درآمدکم نہيں تھي مگر وقت کا يہ دولت مند انسان فقيرانہ زندگي بسر کرنے کو ترجيح ديتا ہے اور اپنے زور بازو سے کمائي ہوئي دولت راہ خدا ميںخرچ کر ديتے ہيں، اپنے ہاتھوں کنواں کھود رہے ہيں راوي کہتا ہے ميں نے ديکھا فوارے کي طرح زمين سے پاني ابل رہاتھا حضرت مٹي اور کيچڑ ميں لتھ پتھ کنويں سے باہر تشريف لائے کنويں کے دہانے پر بيٹھ گئے ايک کاغذ منگوايا اور اس پر اسطرح لکھا: يہ کنواں فلاں قبيلہ کے لوگوں کے ليے ميں وقف کرتا ہوں،آپ جو کچھ بھي اميرالمومنين عليہ السلام کي خلافت کے دوران آپکے کاموں کو ملاحظہ کرتے ہيں وہ سب آپکي انفرادي زندگي کے کارنامہ ہيں جسکي برکتيں آپکے دوران حکومت ميں بھي عياں رہيں دنيا سے بے توجہي اوردنیا کو آباد کرنے (کہ خدا نے تمام انسانوں کا يہ ايک فريضہ قرار ديا ہے) ميں کوئي تضاد نہيں پايا جاتا يعني دنيا کو تعمير کریں زمين آباد کريں ثروت و دولت کے اسباب وسائل تلاش کريں مگر ان سب سے دل نہ لگائيں اسکے اسير و غلام نہ ہوں تا کہ با سکون ہو کر اسے راہ خدا ميں خرچ کر سکيں اسلامي اعتدال اور توازن کا يہ مطلب ہے کہ حضرت علي عليہ السلام کي (اور ديگر آئمہ کي زندگيوں ميں)اس قسم کے بہت سے نمونہ ہيں جسکے بيان کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔