اَما وَاللهِ لَقَدْ تَقَمَّصها فُلان وَ اِنَّهُ لَيَعْلَمُ اَنَّ مَحَلّى مِنْها مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحا. يَنْحَدِرُ عَنِّى السَّيْلُ، وَلا يَرْقى اِلَىَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَها ثَوْباً، وَ طَوْيتُ عَنْها كَشْحاً. وَطَفِقْتُ اَرْتَئى بَيْنَ اَنْ اَصُولَ بِيَد جَذّاءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلى طَخْيَة عَمْياءَ، يَهْرَمُ فيهَا الْكَبيرُ، وَيَشيبُ فيهَا الصَّغيرُ، وَ يَكْدَحُ فيها مُؤمِن حَتّى يَلْقى رَبَّهُ! فَرَاَيْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلى هاتا اَحْجى، فَصَبَرْتُ وَ فِى الْعَيْنِ قَذىً، وَفِى الْحَلْقِ شَجاً، اَرى تُراثى نَهْباً.
خدا کی قسم! اس نے پیراہن خلافت پہن لیا۔ حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میںوہی مقام ہے جوچکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے(جس کے بغیر چکی چل نہیں سکتی)، میں (علم و فضیلت)کا وہ کوہ بلندہوں جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گرجاتا ہے ، اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود)میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوںسے(دوستوں اور مددگاروں کے بغیر، اپنے مخالفین پر) حملہ کردوں یا اس سے بھیانک تاریکی پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتاہے۔ اور مومن اس میں جد وجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتاہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔(آسودہ خاطر ہو کر صبر نہیں کیابلکہ میں نے اس عالم میں صبر کیا کہ میری آنکھوں میں (غبار اندوھ کی)خلش تھی اور حلق میں(غم و رنج کے)پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
مسئلہ خلافت کا تحلیلی جائزہ
اس خطبہ میں (جیسا کہ گذر چکا)آپ نے سخت اور شدید طوفانوں کی طرف اشارہ کیا ہے ایسے طوفان جو رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد خلافت کو اس کے اصلی محور و مدار سے موڑنے کیلئے انجام اٹھائے گئے ہیں اس کے بعد آپ پیغمبراکرم (ص)کی جانشینی کیلئے لائق و حقدار شخص کو دلیل و منطق کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں، اس کے بعد خلافت سے متعلق پیغمبر اکرم(ص) کی صریح نص سے اختلاف کے سلسلہ میں جو عظیم مشکلات پیش آئی ان کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔
پہلے آپ نے خلافت سے متعلق شکایت بیان کی اور فرمایا : خدا کی قسم ! اس نے پیراہن خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میںوہی مقام ہے جوچکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے(جس کے بغیر چکی نہیںچل سکتی)۔ اما واللہ لقد تقمصھا(۱) فلان و انہ لیعلم ان محلی منھا محل القطب من الرحا، (۲)۔
۱۔ ”تقمص“ کا مادہ ”قمیص“ ہے جس کے معنی پیراہن کے ہیں اور ”تقمص“کے معنی پیراہن کو پہننے کے ہیں۔
۲۔ ”الرحی“ کے معنی چکی کے پتھر کے ہیں، یہ مادہ ناقص واوی اور ناقص یایی دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔
بغیر کسی شک و شبہ کے ”تقمصھا“کی ضمیر خلافت کی طرف پلٹتی ہے اور ”قمیص“کہہ کر شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس نے خلافت کے مسئلہ کواپنی زینت کیلئے بعنوان لباس پہن لیا ہے ، جب کہ اس عظیم چکی کو ایک ایسے طاقتور محور اور مدار کی ضرورت ہے جو اس کے نظام کو اس کی تیز حرکت کے وقت محفوظ کرسکے اور اس کو منحرف ہونے سے بچا لے اور نازک وقت میں اس کی حفاظت کرے۔ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں کام کرے ۔ جی ہاں خلافت ایک لباس کا نام نہیں ہے ؟ بلکہ معاشرہ کو چلانے کیلئے چکی کے پتھر کی طرح ہے اور خلافت کو ایک محور و مدار کی ضرورت ہے نہ یہ کہ کوئی اس کو پہن لے اور اس کو اپنے لئے لباس قرار دے۔
اس کے بعد اس معنی کی واضح و روشن دلیل بیان کرتے ہیں جو کسی بھی صورت میں قابل انکار نہیں ہے،چنانچہ آپ فرماتے ہیں: میں (علم و فضیلت)کا وہ کوہ بلندہوں جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گرجاتا ہے ، اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔( ینحدر(۱) عنی السیل، ولا یرقی الی الطیر)
۱۔ ”ینحدر“ کا مادہ ” ”انحدار“ ہے جس کے معنی نیچے گرنے اور کثرت کی وجہ سے اوپر نیچے ہونے کے ہیں۔
”ینحدر“ نیچے گرنا، ”ولایرقی“اوپر نہ جانا، کے الفاظ ایک دوسرے کے برابر اور دومختلف سمتوںکی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کے ذریعہ امام ایک لطیف اور ظریف نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے امام کے وجود کو ایک عظیم پہاڑ سے تشبیہ دی ہے جس کی چوٹی بہت بلند ہے اور ایسے پہاڑوں اور ان کی چوٹیوں کی فطرت یہ ہے کہ یہ آسمان سے نازل ہونے والی چیزوں کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں اور پھر ہمیشہ زمین اور جنگل و بیابان پر ان چیزوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ پھولوں، گھاس پھونس اوردرختوں کو سرسبز و شاداب کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ کوئی پرندہ بھی اس تک پرواز نہیں کرسکتا۔
یہ تشبیہ اسی چیز کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے کہ پہاڑزمین کی آبادی اور آرام و سکون کو قائم کرتے ہیں ”والقی فی الارض رواسی ان تمید بکم و انھارا و سبلا لعلکم تھتدون“۔
ترجمہ : اور اس نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دئیے تاکہ تمہیں لے کر اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائے اور نہریںاور راستے بنادئیے تاکہ منزل سفر میں ہدایت پاسکو(۲)۔ ۲۔ سورہ نحل، آیت۱۶۔
جی ہاں اگر عظیم پہاڑوں کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تو زمین کا داخلی فشار ایک طرف سے ، چاند ، سورج اور زمین کا جزر و مد دوسری طرف سے اور طوفانوں کا دباؤ تیسری طرف سے انسان کے آرام کو سلب کرلیتا اور آسمان سے نازل ہونے والا پانی اگر اپنے عظیم سیلاب کے ساتھ دریاؤں میں نہ جاتا تو پانی کا یہ ذخیرہ نہر اور چشمہ کی صورت میں موجود نہ ہوتا۔
ہر امت کیلئے ایک ہوشیار، بیدار، طاقتور اور معصوم امام ان کے آرام اور ان کیلئے برکتوں کا سبب ہوتا ہے ، لہذا یہ جملے بتار ہے ہیں کہ کوئی بھی امام علیہ السلام کے بلند افکار ،ان کی معرفت اور ذات کی حقیقت تک رسائی نہیں کرسکتا اور اس کے وجود کے اسرار کو پیغمبر اکرم(ص)کے علاوہ کوئی نہیں جانتا وہ رسول جو کہ آپ(ع)اور معصوم اماموں کے بزرگ استادتھے۔
آپ کے اصحاب اور آپ کی پیروی کرنے والوں نے اپنے ظرف کے لحاظ سے اس بزرگ سمندر سے فائدہ اٹھایا بغیراس کے کہ کسی پر حقیقت و عظمت روشن ہو (۲)۔
۲۔ امیرالمومنین(علیہ السلام)کے الفاظ کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے اورتمام امت پر آپ کی بلا شک و شبہ برتری کو جاننے کیلئے اس کتاب کے مقدمہ میں آپ کے فضائل سے متعلق بحث کی طرف رجوع کریں۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ چکی کے پاٹوں کو گھمانے کیلئے نہروں کا سہارا لیا جاتاہے اور یہ نہریں ، پہاڑوں سے تشکیل پاتی ہیں اس کے علاوہ چکی کے پاٹوں کو پہاڑوں سے بنایا جاتا ہے اور ممکن ہے کہ مذکورہ الفاظ ان تمام معنی کو بیان کرتی ہے ، یعنی میں محور ومدار بھی ہوں،چکی کا پاٹ بھی ہوں اور اس کو چلانے والی طاقت بھی ہوں جو علم و دانش سے سرشار ہے۔
اسی طرح جیسا کہ اشارہ ہوا ہے کہ پہاڑوںکی چوٹیاں آسمانی برکات کو برف کی صورت میںاپنے دامن میںجگہ دیتی ہیں اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کوپیاسی زمین کی طرف روانہ کرتی ہیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ سرچشمہ وحی اور وجود پیغمبر اکرم(ص)کے دریائے بیکراں سے فیضیاب ہونے میں حضرت علی علیہ السلام زیادہ نزدیک ہیں
بعض شارحین نے لفظ”سیل“ سے امام علی علیہ السلام کے علم و دانش کے بیکراںسمندر کو مراد لیا ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی مشہور حدیث ”انا مدینة العلم و علی بابھا“(۱)میں اشارہ فرمایا ہے اورامام علی بن موسی الرضا(ع) نے اس آیت”قل ارایتم ان اصبح ماؤکم غورا فمن یاتیکم بماء معین“ ۔ کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارا سارا پانی زمین کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے لئے چشمہ کا پانی بہا کر کون لائے گا(۲)۔کی تفسیر میں ”ماء معین“ سے امام کاعلم مرادلیا ہے(۳)۔
۱۔ اس مشہور حدیث کی سندوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے اہل سنت کی کتابوں اور احقاق الحق کی پانچویںجلد کے صفحہ۴۶۸ سے ۵۰۱ تک رجوع فرمائیں۔
۲۔ سورہ ملک ، آیت ۳۰۔
۳۔ تفسیر نور الثقلین، جلد ۵، ص ۳۸۶۔ یہ تفسیر آیت کے ظاہری معنی آب جاری سے منافات نیہں رکھتی اور اسی طرح وہ تفسیر جو بعض روایات میں ماء معین سے خود امام کی ذات مراد لی گئی ہے چونکہ یہ تمام معنی آیت کے مفہوم میں جمع ہوسکتے ہیں
یہاں پر چند مختصر سوال بیان کئے جاتے ہیں :
۱۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے : امام علی(ع)نے اپنی تعریف کیوںبیان کی ہے جب کہ خود اپنی تعریف بیان کرنا ایک بری صفت ہے(تزکیة المرہ لنفسہ قبیح)۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اپنی تعریف کرنے اور اپنے کو پہچنوانے میں بہت بڑا فرق ہے۔ کبھی کبھی لوگ کسی کی شخصیت سے واقف نہیں ہوتے اور لاعلمی کی وجہ سے وہ اس کی ذات سے فائدہ نہیں اٹھاتے ، ایسی صورت میں اپنے آپ کو پہچنوانا نہ صرف عیب نہیں ہے بلکہ بالکل صحیح اور باعث نجات ہوتا ہے جیسا کہ ایک طبیب یا ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری کی امتیازات کے نسخہ کے شروع میں لکھتا ہے جس سے اس کا ہدف لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ایک رہنمائی ہوتی ہے نہ کہ خود ستائی۔
۲۔ جملہ ”ینحدرعنی السیل، ولا یرقی الی الطیر“ ایک دعوی ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟
اس سوال کا جواب پہلے سوال کے جواب سے زیادہ واضح ہے ، کیونکہ جس کو بھی اسلام اور مسلمین کی تاریخ سے ذرا سا بھی واسطہ ہے وہ علم و دانش کے اعتبار سے حضرت امیر المومنین(ع)کے بے نظیر مرتبہ کو سمجھ جاتا ہے کیونکہ پیغمبر اکرم(ص)سے آپ کے بے نظیرعلم سے متعلق احادیث کے علاوہ اوراس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ تمام اسلامی دانشورں نے واضح طور پر کہا ہے کہ تما م اسلامی علوم کا سرچشمہ آپ ہی ہیں اور آپ ہی ان علوم کی بنیاد ڈالنے والے ہیں(۱)۔اور اسی طرح قطع نظر اس بات کے کہ تمام خلفاء نے اپنی مشکلات میں آپ ہی کی ذات کا سہارا لیتے اور بعض مشکلات حل نہ ہونے کی صورت میں آپ سے مسئلہ کا حل طلب کیا کرتے تھے، صرف نہج البلاغہ کے خطبے، خطوط اور کلمات قصارکا مطالعہ، آپ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے کافی ہیں ۔ ہر انصاف پسند انسان چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان جب نہج البلاغہ کا بغور مطالعہ کرتا ہے تو حضرت علی (علیہ السلام)کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتا ہے اور ”ینحدر عنی السیل، ولا یرقی الی الطیر“ کا مفہوم ، عملی طور پر اس کے سامنے ظاہر و آشکار ہوجاتا ہے۔
۱۔ابن ابی الحدید، نہج البلاغہ کی شرح میں اس متعلق مفصل بحث کرتے ہیں اور علوم اسلامی کے ایک ایک اسلامی علم کا ذکر کرتے اور امام علی علیہ السلام کے علمی سمندر سے اس کے تاریخی رابطہ اور اس کی کیفیت کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہیں(شرح ابن ابی الحدید، جلد ۱ صفحہ ۱۷سے۲۰ تک)۔
۳۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ رسول خدا(ص) کے بعد خلافت سے متعلق واقع ہونے والے واقعات کی شکایت کرتے ہیں ،کیا یہ مقام صبر و رضا کے منافی نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب بھی مشکل نہیں ہے ، کیونکہ صبر و رضا الگ چیز ہے اور تاریخ میں حقایق کو ثابت کرنے ، حاضرین اور آئندہ آنے والی نسل کو باخبر کرنا الگ چیز ہے اور اس میں کوئی حرج ہی نہیںبلکہ کبھی کبھی واجبوں میں سب سے اہم واجب بن جاتا ہے اور خلافت کے متعلق مسائل، اسی طرح کے ہیں ، حقیقت میں لوگوں کی مصلحت ، اسلامی معاشرہ اور آئندہ آنے والی نسل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امام علیہ السلام ان حقایق کو بیان کریں تاکہ یہ حقایق بھلا نہ دئیے جائیں۔
اس کے بعد فرماتے ہیں : (جس وقت میںنے دیکھاکہ وہ آگے بڑھ گیا ہے اور خلافت کو اس نے چھین لیا ہے)تو میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلو تہی کرلیا ( فسدلت (۱)دونھا ثوبا، و طویت عنھا کشحا(۲)۔
۱۔ ”سدلت“ کا مادہ عدل کے وزن پر ”سدل“ ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا اوپر کی طرف سے نیچے کی طرف اس طرح آنے کے ہیں کہ اس کو اچھی طرح چھپا لے، اس بناء پر ”سدلت“کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کے اوپر کسی چیز کو رکھ دیا۔
۲۔ ”کشح“(فتح کے وزن پر)کے معنی پہلو کے ہیں اور ”طوی عنہ کشحہ“ کنایہ ہے، کسی چیز سے بے اعتنائی اور صرف نظر کرنے کے ہیں۔
ان الفاظ سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو اس واقعہ کے سامنے دیکھاتو آپ نے اس میں الجھنا نہیں چاہااور کچھ دلیلوں کیوجہ سے کہ جن کی طرف مندرجہ ذیل عبارت میں اشارہ کیا جائے گا ، کریمانہ انداز میںان مسائل سے چشم پوشی کرلی ور زاہدانہ طور پر اس سے الگ ہوگئے۔ لیکن دوسری طرف یہ فکر ہمیشہ آپ کی روح کودکھ پہنچا رہی تھی کہ اس انحراف کے سامنے کیاکیا جائے اور الہی مسئولیت کو معاشرہ میں کیسے انجام دیں؟
اسی دلیل کی بناء پر آپ نے فرمایا : اپنے کٹے ہوئے ہاتھوںسے(دوستوں اور مددگاروں کے بغیر، اپنے مخالفین پر) حملہ کردوں یا اس بھیانک تاریکی پر صبر کرلوں؟و طفقت ارتنی بین ان اصول بید جذاء،(۱) او اصبر علی طخیة (۲)عمیاء،
۱۔ ”جذاء“کے معنی ٹوٹنے اور کاٹنے کے ہیں۔
۲۔ ”طیخہ“ کے معنی تاریکی اور ظلمت کے ہیں اور کبھی کبھی نازک بادلوں کے معنی دیتاہے اور ”طخیاکے معنی اندھیری رات کے ہیں۔
امام علیہ السلام اس جملہ کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح کررہے ہیں کہ میں نے امت کے سامنے اپنی ذمہ داری اور خدا و رسول کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو بھلایا نہیںہے ، لیکن کیا کروں دو مشکلوں کے درمیان گرفتار ہوگیا : ایک مشکل یہ ہے کہ میں قیام کروں اور اپنے مخالفین سے جنگ کروں جب کہ ایک طرف میرا کوئی یار ومددگارنہیں اور دوسری طرف اس قیام کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان شگاف پڑ جاتے ہیں اور اس سے منافقین اور دشمنوں کو موقع مل جائے گا جن حالات کے انتظار میں وہ بیٹھے ہوئے تھے ، اور دوسری مشکل یہ تھی کہ میں اس تاریکی اور ظلمت کے ماحول میںصبر کروں۔
طخیة عمیائکے الفاظ اگر چہ طخیہ کے معنی ظلمت اور تاریکی کے ہیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی اتنا زیادہ اندھیرا نہیں ہوتا اوراس تاریکی میں کسی حیولہ کودیکھا جاسکتا ہے لیکن یہ ظلمت و تاریکی اس قدر شدید تھی کہ جس کا نام آپ نے بھیانک تاریکی رکھا۔
اس کے بعد آپ نے اس زمانے کے ماحول کی اچھی طرح وضاحت تین مختصر اور پرمعنی جملوںمیں بیان کرتے ہوئے فرمایا : ایسی بھیانک تاریکی جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور چھوٹے بچے بوڑھے ہوجائیں۔ اور مومن اس میں جد وجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتاہے۔یھرم فیھا الکبیر، و یشیب فیھا الصغیر ، و یکدح(۱) فیھا مومن حتی یلقی ربہ!
۱۔ ”یکدح“ کا مادہ ”کدح“ ہے جس کے معنی سعی و کوشش کے ہیں۔
اس عبارت سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ عام طور پر سب درد و غم میں مبتلا تھے کہ جس نے ،بچوں کو بوڑھا اور بوڑھوں کوناتوان کردیا لیکن مومنین کو دوبرابر رنج و غم برداشت کرنا پڑا کیونکہ اسلامی معاشرہ کی روز بروز کی مشکلات اور دوسرے خطرات ہر طرف سے ان کو خوف زدہ کررہے تھے ، یہی درد و رنج جو کچھ ہی دنوں بعد بنی امیہ کی شکل میں ظاہرہوئے اور انہوں نے پیغمبر اکرم(ص)اور سچے مومنین کی اکثرزحمتوں کوبرباد کردیا۔
آخر کار امام علی علیہ السلام نے اپنے اس مصمم ارادے کو ان دو مشکل اور خطرناک راستوں کے پیش نظر اس طرح بیان فرمایا ہے: آخر کار(کافی غور و فکرکرنے کے بعد اور تمام مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے) مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا۔ (فرایت ان الصبر علی ھاتا(۱) احجی(۲))
۱۔ لفظ ”ھاتا“ میں ”ھا“علامت تنبیہ ہے اور ”تا“ اسم اشارہ مونث ہے، اور یہ ’لفظ ’طیخہ“ (تاریکی اورظلمت)کی طرف اشارہ ہے جو کہ پہلے والے جملہ میںگذرا ہے ۔ بعض علماء نے مشار الیہ کو اس حالت میں جانا ہے کہ جب عبارت سے استفادہ ہوتا ہو ۔ اس وقت اس کے معنی یہ ہیں : فرایت ان الصبر علی ھذہ الحالة احجی“ ۔
۲۔ ”احجی“ کامادہ ”حجا“ ہے جس کے معنی عقل کے ہیں اس بناء پر احجی کے معنی عاقل کے ہیں ۔
اسی دلیل کی بناء پر میں نے صبر کیا۔(آرام و سکون والاصبر نہیں ) حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوھ کی)خلش تھی اور حلق میں(غم و رنج کے)پھندے لگے ہوئے تھے۔ (فصبرت و فی العین قذی(۱) وفی الحلق شجا(۲)،)
۱۔ ”قذی“ کے معنی آلودگی اور خشک و خاشاک کے ہیں۔
۲۔ ”شجی“ کے معنی اندوہ،غم، شدت اوررنج کے ہیں اور کبھی کبھی ہڈی یا کسی دوسری چیز کو جو کہتے ہیں جو گلے میں اٹک جاتی ہے۔
اس زمانے میں یہ الفاظ امام علیہ السلام کے درد و رنج کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام اس زمانہ میںان حوادث پر اپنی آنکھوں پر نہ پٹی باندھ سکتے تھے اور نہ آنکھیں کھول سکتے تھے اور نہ ہی فریاد کرکے اپنے اندر کے درد و رنج کو آشکار کرسکتے تھے، ”اسی وجہ سے فرمایا: میں اپنی انکھوں سے اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا“۔(اری تراثی نھبا)۔
نکات
۱۔ امام علیہ السلام نے صبر کو کیوں ترجیح دی؟!
تاریخ اچھی طرح اس بات کی گواہ ہے کہ منافقین اور اسلام کے دشمن پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کاشدت کے ساتھ انتظار کرہے تھے اور اکثر لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام(ص)کی رحلت کے بعد تمام کے تمام مسلمان جڑ سے ختم ہوجائیں گے اور اس انقلاب کے خلاف کچھ حالات ان کے حق میں ہوجائیںگے اور اس وقت وہ جدید اسلام کو ختم کرنے پر قادر ہوجائیں گے ، ایسے ماحول میں اگر علی علیہ السلام اپنا حق لینے کے لئے یا دوسرے لفظوں میںیہ کہا جائے کہ مسلمانوں کو پیغمبر اسلام(ص) کے زمانہ کے صحیح اسلام کی طرف پلٹانے کےلئے قیام کرتے تو بے شک جنگ شروع ہوجاتی کیونکہ ان لوگوں کا اصل ہدف ہی یہ تھا کہ آپ کو راستہ سے ہٹا دیا جائے اور اسلامی معاشرہ اس طرح پریشان ہوجائے کہ منافقین اور دشمن اپنے برے مقاصد تک پہنچنے کیلئے راستہ ہموار کرلیں ۔ اور اس کی سب سے اہم دلیل ”ہل ردہ“ کے وہ گروہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کی رحلت کے بعد اسلام کے خلاف قیام کیا تھا اور مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی نے ان کو کچل کر رکھ دیاتھا ۔ چنانچہ تاریخ اسلام کی بہت سی مشہور و معروفقروں میں بیان ہوا ہے : لما توفی رسول اللہ(ص) ارتدت العرب و اشرایت الیھودیة، والنصرانیة و نجم النفاق و صار المسلمون کالغنم المطیرة فی اللیلة الشاتیة۔
جس وقت پیغمبر اسلام(ص)کی وفات ہوئی تو عرب(کے جاہلوں)نے اپنے پہلے دین کی طرف پلٹنا شروع کردیا ، یہودیوں اور نصرانیوں نے سراٹھا لیئے اور منافقین ظاہری طور پر میدان میں آگئے اور مسلمانوں کی وہ حالت تھی جو بغیر چرواہے کے کسی ریوڑ کی ہوتی ہے جو سردیوں کی رات میں بارش کے وقت کسی بیابان میں مبتلا ہوجاتے ہیں(۱)۔
۱۔ سیرہٴ ابن ہشام ، جلد ۴، ص ۳۱۶۔
یہ سب باتیں ایک طرف اور جنگ کرنے کے لئے یار و مددگار کے نہ ہونے کی وجہ سے کامیابی آپ کے لئے بہت مشکل تھی اور شاید اگر امام قیام فرماتے تو بہت سے بے خبر اور جاہل لوگ ،خدا کے مہم مسائل میں قیام کے بجائے اس کو ذاتی رنگ دیدیتے۔
لیکن خلافت کو اپنے محور ومدار سے ہٹانے کیلئے جو مشکلات اور پریشانیاں سامنے آئی تھیں یہ روز بروز بڑھتی جارہی تھیں اور یہی سب پریشانیاں تھیں کہ جو غبار اندوہ کی خلش کی طرح مولا کی آنکھوں میں بیٹھ رہی تھیں اور ہڈی کی طرح آپ کے گلے کو اذیت دے رہی تھیں۔
پوری تاریخ اسلام کے لئے یہ ایک سبق ہے کہ جب بھی اپنے ذاتی حق تک پہنچنے کے لئے دین کی بنیاد کو چوٹ پہنچ رہی ہو تو اس سے چشم پوشی کرلینا چاہئے اور اصول کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم کرنا چاہئے اور اپنے حقوق کے ضایع ہونے کے درد و رنج پر صبر کرنا چاہئے ۔
اسی معنی کو چھبیسویں (۲۶)خطبہ میں بھی بیان کیا ہے ، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: فنظرت فاذا لیس الی معین الا اھل بیتی و اغضیت علی القذی و شربت علی الشجی میں نے اپنے اطراف میں نظر دوڑائی تو مجھے اپنا حق لینے کیلئے اپنے خاندان کے علاوہ کوئی یار و مددگار نظر نہ آیا تو میں نے کانٹوں سے بھری ہوئی آنکھوں کو بند کرلیا اور اپنے اس گلے سے جس میں گویا ہڈی پھسی ہوئی ہے ، حوادث کی گھونٹ کو نوش کرلیا۔
۲۔ خلافت کو میراث کیوں کہا گیا؟
مندرجہ بالا عبارت میں امام علیہ السلام نے فرمایا ہے : ”میں اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا “ یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خلافت کو میراث کیوں کہا گیا؟
اس سوال کا جواب اس نکتہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ خلافت ایک معنوی اور الہی میراث ہے جو پیغمبروں کے ذریعہ ان کے معصوم جانشینوں تک پہنچتی ہے اور یہ کوئی ذاتی، مادی اور ظاہری حکومت کی میراث نہیں ہے۔ اسی طرح کے الفاظ قرآن مجید کی آیات میں بھی پائے جاتے ہیں جہاں پر جناب ”زکریا“ نے خدا وند عالم سے اپنے لئے ایک فرزند کی دعا کی ہے کہ وہ فرزند، آپ کا اور آل یعقوب کا وارث بھی بنے (اور بنحواحسن نبوت کی میراث اور خلق کی ہدایت ک کرسکے)۔فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب(۱)۔
۱۔ سورہ مریم، آیت ۵ و ۶۔
در اصل یہ پوری امت کی میراث ہے لیکن پیغمبر اکرم(ص)کے جانشین اور امام کے سپرد کی گئی ہے۔
جیسا کہ آسمانی کتابوں کے متعلق ارشاد ہوتاہے : ”ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا“ (۲)۔
ترجمہ :
۲۔ سورہ فاطر، آیت ۳۲۔
اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص)نے اپنی مشہور حدیث میں فرمایا ہے : العلماء ورثة الانبیاء“ ۔ علماء ،انبیاء کے وارث ہوتے ہیں(۳)۔
۳۔ اصول کافی ، ج ۱ ص ۳۲ و ۳۴۔
حضرت علی(ع)کی تاریخ زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ آپ نے عملی طور پر بتادیا کہ آپ کو دنیا کے مال و منصب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور خلافت کو (الہی فریضہ کے بغیر)ایک پرانے ٹوٹے ہوئے جوتے کی طرح یا جانور کی ناک کے پانی کی طرح سمجھتے ہیںکس طرح ممکن ہے کہ اس کے جانے پر کس طرح فرمائیںگے کہ آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈی پھنسی ہوئی ہے؟۔
بعض افراد نے احتمال دیا ہے کہ اس جملہ(کہ میں اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھ رہاتھا)سے مراد ”فدک“ ہے جس کو پیغمبر اکرم(ص)نے اپنی بیٹی حضرت زہرا(س)کو عطا کیا تھا اور چونکہ بیوی کا مال ، شوہر کے مال کے حکم میں ہوتا ہے اس لئے امام نے یہ جملہ بیان فرمایا ہے(۴)۔لیکن یہ احتمال بہت بعید ہے
۵۔ منھاج البراعة، جلد ۳، ص ۴۵۔
کیونکہ اس پورے خطبہ میں صرف خلافت کی بات بیان ہوئی ہے اور یہ جملہ بھی اسی کی عکاسی کرتا ہے۔
۳۔ امام علی(علیہ السلام)کی گوشہ نشینی
کوئی بھی شخص امام علی(ع) کے گوشہ نشین ہونے کی وجہ سے اسلام پر وارد ہونے والے نقصان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ جس وقت صرف علمی بُعد کے حوالے سے نہج البلاغہ کو دیکھتے ہیں جس میں آپ کے خطبہ، خطوط اور کلمات قصار جو آپ کی مختصر سی خلافت کے عرصہ میں لکھی گئی ہے وہ خلافت بھی ایسی کہ جو حوادث اور دردناک واقعات سے بھری ہوئی تھی اور اس میں ایک کے بعد دوسری جنگ رونما ہوتی تھی ، اگر حضرت علی (ع)۲۵ سال امت کے درمیان رہتے اور لوگ آپ کے علم بیکراں سے فائدہ اٹھاتے تو آج دنیا بھرکے مسلمانوں بلکہ انسانیت کیلئے ایک عظیم الشان یاد گار ہوتی۔
لیکن کیا کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم فیض کو مسلمانوں اوربشریت تک پہنچنے سے روک دیا گیا اور تاریخ میں ایسا بزرگ طوفان کھڑا کردیا کہ جس کو مہار نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ امام (ع)نے خلافت کے مسئلہ کو کیوںبیان کیا؟
بعض علماء کا خیال ہے کہ کیا بہتر ہوتا کہ امام علیہ السلام خلافت کے گذشتہ مسئلہ کو بیان نہ فرماتے اور اس کو بھولادیتے کیونکہ کہیں یہ مسلمانوں میں مزید اختلاف کا سبب بن جاتا؟
آج بھی اسی طرح کی باتیں ایک گروہ کی طرف سے بیان ہوتی ہیں اور جیسے ہی حضرت علی(ع)کی خلافت بلافصل کا تذکرہ آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اتحاد کی خاطر سکوت اختیار کرو اور اس طرح کے مسائل کو بھولا دو ۔ آج ہم اپنے بڑے دشمن کے سامنے کھڑے ہیںاور اس طرح کے مسائل ہمیں اپنے مشترک دشمن کے مقابلے میں کمزور کردیں گے ، اس طرح کی بحثوںسے کیا فائدہ ؟ جب کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے ارادہ پر مصمم ہیں اور اپنے اپنے راستہ پر گامزن ہیں جبکہ اس طرح کی بحثوں کو جاری رکھنے سے کسی نئے اتحاد کی امید رکھنا بہت بعید ہے۔
اس سوال کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے :
الف : موجودہ حقائق کبھی بھی حقیقت کو نہیں بھلا سکتے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت علی(ع)کی خلافت پر تاکیدکرنے کے علاوہ خود امام علی علیہ السلام کی ہر لحاظ سے صلاحیت سب سے زیادہ تھی، لیکن کیا حالات پیش آئے یہ مسئلہ بالکل الٹ گیا۔اس بناء پرحضرت علی(ع)جو کہ ہمیشہ حقیقت کے طرفدارتھے اس وقت کی حقیقت سے ناسازگار مسائل کی مخالفت کیلئے کھڑے ہوگئے اور اس وقت آپ کو حق تھا کہ آپ رسول خدا(ص)کے بعد خلافت سے متعلق واقعات کو بیان کریںتاکہ صدیوں اور ہزاروں سال بعد آنے والے محققین انصاف سے فیصلہ کرسکیںاور اگر کوئی موجودہ حالت سے صرف نظر کرنا چاہے اور حقیقت کو تلاش کرے تو وہ راہ مستقیم کو تمام حقیقی واقعات کے ذریعہ حاصل کرسکے۔
بہ ہرحال کسی کو بھی حقیقت بیان کرنے سے منع نہیں کیا جا سکتااوربالفرض روک بھی لیں تو یہ کام کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ بہت بڑا حادثہ شمار ہوگا اس لئے کہ ہمیشہ موجودہ مسائل ، حقایق سے سازگار نہیں ہیں اور کبھی کبھی ان دونوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہوتا ہے، جو کچھ ہے وہ ہمیشہ اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہئے ۔ اسلام ہم سے کہتا ہے کہ ہمیں ایسی چیز کے پیچھے جاناچاہئے جو چیز موجود ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم(ص)کے بعد خلافت اور امامت کامسئلہ ہمارے دین کی بنیادی بحث ہے ، چاہے اس کو اصول دین کا جزء سمجھیں جس طرح مکتب اہل بیت(ص) کے ماننے والے(شیعہ)کہتے ہیں یا فروع دین کا جزء تصور کریں۔ بہر حال یہ مسئلہ دینی لحاظ سے بنیادی مسئلہ ہے اور یہ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے ان لوگوں کے برعکس بعض بے خبراور ناواقف لوگ تصور کرتے ہیں کہ یہ ایک ماضی کا تاریخی واقعہ ہے بلکہ یہ مسئلہ عصر حاضر کے لوگوں اور آنے والوں کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اوریہ اسلام کے اصول و فروع سے مربوط مسائل میں اپنا بہت گہرا اثر چھوڑ سکتا ہے اسی وجہ سے حضرت علی(ع)نے اپنی ظاہری خلافت کے دوران بار ہا اس واقعہ کی یاددہانی کرائی ہے۔
ب : جو چیز مسلمانوں کی اتحاد کی صفوں کے لئے نقصان دہ ہے وہ اختلاف پھیلانے والی اور ہت دھرمی والی بحثیںہیں ، لیکن اگردونوں طرف ، علمی اور منطقی بحثوں میں علمی اور منطقی اصولوں کی رعایت کریں تو نہ صرف مسلمانوں کے اتحاد کو کوئی نقصان پہنچے گا بلکہ بہت سے مواقعوں میں مددگار بھی ثابت ہوں گی۔
یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے بلکہ ایسی چیز ہے جس کا ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے۔ حال ہی میں ایران کے ایک ضلع میں ہفتہ وحدت کی مناسبت سے شیعہ اور اہل سنت کے کچھ دانشوروں نے مل کر ایک کانفرنس کی اور اس میں شیعہ اور اہل سنت کے اختلافی مسائل سے متعلق علمی بحثیں کیں اور اس کا نتیجہ بہت اچھا ثابت ہوا ، اس لئے کہ بہت سی بحثوں میں دونوں کا ایک نظریہ ہوگیا اور اختلاف کم ہوگیا اور سب کو یقین ہوگیا کہ اگر اس طرح کی بحثیں کی جائیںتو فریقین کے درمیان فاصلہ کو کم کرنے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کیلئے یہ ایک اچھا قدم ہوگا(۱)۔
یہاں تک کہ آسمانی ادیان سے متعلق اختلافی مسائل کو بھی اس طرح کی مفید او رموثر بحثوں کے ذریعہ اختلاف کو کم کیا جاسکتا ہے اور جو لوگ ان بحثوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ حقیقت میں بے خبری کی حالت میں اختلافات اور فاصلوں کو زیادہ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
۱۔ اس جلسہ میں بیان ہونے والے بحثیں اور معاہدوںکی تفصیل جاننے کے لئے ”پیام حوزہ نامی مجلہ کے“کا پیش شمارہ کی طرف رجوع کریں۔
حتّى
مَضَى الاَوَّلُّ لِسَبيلِهِ فَاَدْلى بِها اِلى فُلان بَعْدَهُ. ثُمَّ تَمَثَّلَ
بِقَوْلِ الاَعْشى:
شَتّانَ ما
يَوْمى عَلى كُورِها
وَ يَوْمَ
حَيّانَ اَخى جابِرِ
فَيا عَجباً!!
بَيْنا هُوَ يَسْتَقيلُها فى حَياتِهِ اِذْ عَقَدَها لآخَرَ
بَعْدَ
وَفاتِهِ ـ لَشَدَّ ما تَشَطّرا ضَرْعَيْها ـ فَصَيَّرها فى حوزَة خَشْناءَ
يَغْلُظُ كَلْمُها، وَ يَخْشِنُ مَسُّها و يَكْثُرُ العِثارُ
فيها، وَ
الاِعْتِذارُ مِنْها، فَصاجِبُها كَراكِبِ الصَّعْبَةِ اِنْ
اَشْنَقَ لها
خَرَمَ، وَ اَنْ اَسْلَسَ لَها تَقَحَّمَ، فَمُنِىَ النّاسُ
ـ لَعَمْرُ
اللهِ ـ بِخَبْط وَ شِماس، وَ تَلَوُّن وَ اعْتِراض فَصَبَرْتُ عَلى
طُولِ الْمُدَّةِ، وَ شِدَّةِ الِْمحْنَةِ.
یہ
حالت چلتی رہی ، یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی
اور اپنے بعد خلافت کو دوسرے شخص(یعنی
عمر)کے حوالہ کردی پھر حضرت نے بطور تمثیل (مشہور شاعرکا) اعشی
کا یہ شعر پڑھا:
شتان ما
یومی علی کورھا و یوم حیان
اخی جابر
آج او رکل
میں کتنا بڑا فرق ہے کہ آج یہ دن غم و رنج میںگذرتا ہے جبکہ کل
خوشی و کامیابی میں گذرتا تھا۔
(یعنی
رسول اکرم کے زمانہ میں میرا اتنا احترام تھا کہ میں سب سے
زیادہ آنحضرت(ص)سے نزدیک
تھا لیکن آج مجھے اس طرح گوشہ نشین کردیا کہ خلافت کو ایک
کے بعد دوسرے کے دیدی جاتی ہے جیسا کہ اس کا مجھ سے
کوئی رابطہ نہ ہو)!
تعجب کی
بات ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا لیکن اپنے
مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا
گیا۔بیشک ان دونوں
نے سختی
کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔
اس نے خلافت
کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا جس کے چرکے کاری تھے،
جس کو
چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی ۔جہاں بات بات
میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا ۔
جس کا اس سے سابقہ پڑے وہ ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار
کہ اگرمہار کھینچتا ہے تو(اس کی منہ زوری سے)اس کی ناک کا
درمیانی حصہ ہی شگافتہ
ہوجاتاہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہوجائے گا) اور اگر باگ
کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے
گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد
کی قسم ! لوگ کجروی، متلون مزاجی اور بے راہ روی
میں مبتلا ہوگئے ۔ لیکن
میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا
۔