سوال : شیعہ ، کس طرح شریعت اسلام کی خاتمیت کے قائل ہیں جب کہ وہ کتاب علی  علیہ السلام  کے معتقد ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ؟

  جواب :

 شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر خدا  کی رحلت سے وحی کے نزول کا سلسلہ بند ہوگیا اور حضرت علی  علیہ السلام  نے پیغمبر  کی تجہیز و تکفین کے وقت فرمایا ہے : ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کی وفات سے نبوت اور آسمانی خبروں کا سلسلہ منقطع ہوگیا “ (۱)

  بڑے افسوس کی بات ہے اس سلسلے میں مشکوک و شبہات وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں شیعی عقائد کے بارے میں ذرا سی بھی معلومات نہیں ہے اور صرف مستشرقین یا ان لوگوں کی بات پر کان دھرتے ہیں جو شیعی ماحول سے دور ہیں اور ایسے ہی لوگوں کی پیروی میں اپنی زبانیں کھولتے ہیں ، انھیں شبہات میں سے ایک یہی سوال ہے جسے ذکر کیا گیا ہے اس بحث میں ہم ”کتاب علی  علیہ السلام  “ کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں :

  مکتب اہل بیت  علیہم السلام ، رسول خدا  کی تمام روایات کی تدوین و حفاظت پر خاص عنایت رکھتا ہے کیونکہ سنت رسول خدا  (ص) چاہے وہ اقوال ہوں یا افعال ہوں یا تقدیر ، وحی کے راستے سے صادر ہوئے ہیں جیسا کہ خدا نے خود اعلان کر دیا ہے کہ : ( وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الیٰ وحی یوحیٰ ) (۲) وہ ہر گز ہوا و ہوس سے گفتگو نہیں کرتے ہیں ، وہ وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے ۔

  امام علی  علیہ السلام  ، پیغمبر اسلام  (ص)کے پروردہ ہیں آپ ہی وہ شخص ہیں جو بچپنے سے پیغمبر  کی آخری سانس تک ان کے ہمراہ رہے امام علی  علیہ السلام  ان اوقات کی اس طرح توصیف فرماتے ہیں :

  ” وکنت اٴتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ ، یرفع لی فی کل یوم من اخلاقہ علما ، و یامرنی بالاقتداء بہ ، ولقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولا یراہ غیری ، ولم یجتمع بیت واحد یومٴذ فی الاسلام غیر رسول اللہ  و حدیجة وانا ثالثھما ، اری نور الوحی و الرسالة ، و اشم ریح النبوة “ (۳)

  ” میں ان کے ہمراہ ایسے تھا جیسے کہ اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ہمراہ رہتا ہے وہ روزآنہ میرے لئے اپنے اخلاق کی کسی نہ کسی نشانی کو برپا کرتے تھے اور مجھے اس کی اطاعت و پیروی کا حکم دیتے تھے ، ہر سال غار حراء میں تنہا رہتے تھے میں انھیں دیکھتا تھا اور میرے علاوہ انھیں کوئی نہیں دیکھتا تھا اس وقت سوائے ایک گھر کے کہ جس میں خود رسول خدا (ص) اور خدیجہ موجود تھے کسی گھر میں اسلام نہیں آیا تھا اور میں ان دونوں کا تیسرا تھا میں وحی و پیغمبری کی نورانیت کو دیکھتا تھا اور نبوت کی بو سونگھتا تھا “

  امام علی  علیہ السلام  شب و روز ، سفر و حضر میں رسول خدا  کے ہمراہ رہتے تھے کسی جنگ و غزوہ میں آپ نے رسول خدا (ص) کو نہیں چھوڑا سوائے غزوہ تبوک کے کہ اس غزوہ میں آپ رسول خدا (ص) کے حکم سے مدینہ میں رہے ، یہاں تک کہ رسول خدا (ص) کی رحلت کا وقت قریب آ    گیا رسول خدا  بستر بیماری پر ہیں اور تن تنہا تیمارداری کرنے والے حضرت علی  علیہ السلام  ہیں زندگی کے آخری لمحوں میں آ نحضرت کا سرمبارک حضرت علی  علیہ السلام  کے سینہٴ مبارک پر تھا اور اسی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہا امام علی  علیہ السلام  اس وقت کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” ولقد قبض رسول اللہ  وان راٴسہ لعلی صدری ولقد سالت نفسہ فی کفی فامررتھا علی وجھی ، ولقد ولیت غسلہ  و الملائکة اعوانی ، فضجت الدار و الافنیة ، ملایھبط ، وملا یعرج ، وما فارقت سمعی ھینمة منھم ، یحلون علیہ ، حتی واریناہ فی ضریحہ ، فمن اذا احق بہ منی حیا و میتاً “ (۴)

” اور رسول خدا  (ص)نے اس حالت میں جان دی کہ ان کا سر مبارک میرے سینہ پر تھا اور ان کا نفس میری ہتھیلی پر جاری ہوا میں نے ان کو اپنے منھ پر مل لیا پھر ان کو غسل دینے کا عہدہ دار ہوا فرشتے میری مدد کر رہے تھے گھر اور گھر کے اطراف کی چیزیں نالہ و شیون کر رہی تھی ، فرشتوں کا ایک دستہ نیچے آتا تو دوسرا اوپر جاتا ان کی فریاد میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی وہ آ  نحضرت پر درود بھیجتے تھے یہاں تک کہ میں نے انھیں سپرد لحد کر دیا ، پس ان کی نسبت مجھ سے زیادہ کون حقدار ہے چاہے ان کی زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد ۔

رسول خدا(ص)  کی تجہیز و تکفین ان امتیازات میں سے ہے جو صرف حضرت علی  علیہ السلام  کو حامل ہے اور یہ خصوصیت کسی صحابہ کو حاصل نہ تھی ۔ اسی لئے آپ شہر علم نبی  کا در مشہور ہوئے ، آپ ہی خلفاء کے دور میں علی الاطلاق لوگوں کے روحی معنوی مرجع تھے ۔

امام علی  علیہ السلام  سے سوال کیا گیا کہ : کیا وجہ ہے کہ اصحاب رسول خدا  (ص)میں سب سے زیادہ آپ ہی روایات نقل کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” انی اذا کنت سالتہ انبانی ، واذا سکت ابتدانی“ (۵) میں وہ ہوں کہ جب میں رسول خدا (ص) سے سوال کرتا تھا وہ مجھے جواب مرحمت فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوجاتا تھا تو وہ گفتگو کا آغاز کرتے تھے ( یعنی مسلسل سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا تھا )

حدیث لکھنے کا حکم :

  جناب رسول خدا (ص) ہمیشہ حضرت علی  علیہ السلام  کو حکم دیتے تھے کہ جو کچھ ان کے لئے بیان کر رہا ہوں اسے لکھ لیں ، ایک دن حضرت علی  علیہ السلام  نے حضرت رسول خدا  سے عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ میرے سلسلہ میں بھول جانے کا خوف رکھتے ہیں ؟ پیامبر  نے فرمایا : میں تمھارے سلسلہ میں اس جہت سے ہراساں نہیں ہوں کیونکہ خداوند متعال سے دعا کر چکا ہوں کہ آپ کے حافظہ کو قوی کر دے اور آپ پر نسیان طاری نہ ہو لیکن آپ اپنے شرکاء کے لئے لکھ لیں میں نے عرض کیا میرے شرکاء کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : تمھاری اولاد میں سے ائمہ(ع) ۔ (۶)

کتاب علی  علیہ السلام  :

  وہ جملہ مطالب جسے امام علی  علیہ السلام  کے واسطے رسول خدا ن(ص)ے املاء فرمائے اور حضرت علی  علیہ السلام  نے اسے تحریر کر لیا تھا ایک کتاب کی شکل میں ہے جس کی لمبائی ۷۰ ہاتھ ہے اور یہ وہی مکتوب ہے کہ روایات میں جسے کتاب علی یا صحیفہ علی  علیہ السلام  کے نام سے شہرت حاصل ہے اور یہ کتاب اہل بیت  علیہ السلام  اور ان کے پیروکاروں میں بہت معروف ہے اس کتاب میں قیامت کے وہ سارے مسائل جمع ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت پیش آ تی ہے ، ائمہ معصومین  علیہم السلام  نے بھی اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں اور بطور شاہد پیش کیا ہے اور یہ کتاب سوائے احادیث پیغمبر  کے اور کچھ نہیں ہے جسے آنحضرت نے حضرت  علیہ السلام  کو املاء کرایا ہے اور امام  علیہ السلام  نے بھی اسے لکھ لیا ہے اور اپنے فرزندوں کے لئے یادگار چھوڑا ہے تاکہ ان کے بعد وہ اس سے روایات نقل کر سکیں ۔

  اس بیان سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ : حضرت امام علی  علیہ السلام  ہی پہلے احادیث نگار ہیں جنھوں نے رسمی طور پر احادیث نبوی کو تدوین فرمایا ہے اگر چہ اس عظیم کام میں دوسرے بزرگ صحابی بھی شریک ہیں لیکن افسوس کی خلفاء کے دور میں کچھ وجہوں سے جسے وہ خود ہی سمجھ سکتے ہیں وہ احادیث اور کتابیں نظر آتش کر دی گئیں جس کی وجہ سے مسلمان کو بہت بڑا گھاٹا اٹھانا پڑا ایسا گھاٹا کہ جسے پورا نہیں کیا جا سکتا    اسی لئے جعل سازوں کو حدیثیں گڑھنے کا موقع مل گیا اور ان لوگوں نے جو چاہا اسرائیلیات ، مجوسیات ، اور مسیحیات کو پیغمبر  سے منسوب کر دیا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ امام علی  علیہ السلام  کی یہ کتاب اس قسم کی تمام مشکلات سے مبریٰ رہی اور آپ کے بعد معصوم اماموں تک منتقل ہوگئی ۔

امام علی  علیہ السلام  کی کتاب احادیث کا مجموعہ ہے :

  قارئین کرام کی معلومات میں اضافہ کی غرض سے کتاب امام علی  علیہ السلام  کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے تاکہ حقیقت حال ان کے اوپر مزید روشن ہو جائے ۔

۱۔ بکر بن کرب صیرفی کہتے ہیں : میں نے امام صادق   علیہ السلام  سے سنا ہے کہ : ہمارے پاس ایک ایس چیز کہ جس کے بعد ہم لوگوں کے محتاج نہیں ہیں بلکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں ، ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے جسے رسول خدا  نے املاء فرمایا ہے اور امام علی  علیہ السلام  نے تحریر فرمایا ہے یہ وہ صحیفہ ہے کہ جس میں تمام حلال و حرام کا بیان موجود ہے ۔ (۷)

  ۲۔ فضیل بن یسار کہتے ہیں : امام محمد باقر   علیہ السلام  نے فرمایا : اے فضیل ! ہمارے پاس کتاب علی علیہ السلام  موجود ہے جو ستر ہاتھ لمبی ہے ، روئے زمین پر لوگوں کی ضرورتوں کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس میں بیان نہ کی گئی ہو یہاں تک کہ خراش کی دیت وغیرہ بھی اس میں موجود ہے ۔ (۸)

اس کے علاوہ بھی روایات موجود ہیں مگر اسی مقدار پر اکتفاکی جاتی ہے ۔

کتاب علی  علیہ السلام  کی حفاظت میں اہل بیت  علیہ السلام  کی خاص توجہ :

تاریخ اور روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ : اہل بیت  علیہم السلام  نے کتاب علی  علیہ السلام  کو سنت رسول کی محافظ کے عنوان سے اس کی حفاظت میں خاص توجہ کی ہے اور اس کتاب پر حلال و حرام کے نقل کرنے میں اعتماد کیا ہے بعض روایات بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ۔

  ۱۔ ابو بصیر ، امام محمد باقر   علیہ السلام  سے نقل کرتے ہیں : امام باقر   علیہ السلام  نے جامعہ طلب کیا اور اس میں نظر کرنے کے بعد اس حکم کو بیان کیا کہ : اگر عورت مر جائے اور اس کے شوہر کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو تو اس کے سارے مال کا وارث اس کا شوہر ہے ۔ (۹)

  ۲۔ ابو بصیر کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق   علیہ السلام  سے کچھ فرائض و واجبات کے بارہ میں سوال کیا تو امام  علیہ السلام  نے فرمایا : کیا میں کتاب علی  علیہ السلام  تمھارے واسطے باہر لے آؤں ۔۔۔ یہاں تک کہ فرمایا : امام اس کتاب کو لے آئے اس میں لکھا ہوا تھا ” ایک شخص مر جاتا ہے اور اس کے چچا و ماموں باقی ہیں تو اس کے چچا کے لئے دو سوم اور اس کے ماموں کے لئے ارث کا ایک سوم حصہ ہے “ ۔ (۱۰)

  ۳۔ عبد الملک بن اعین کہتے ہیں : امام باقر  علیہ السلام  نے کتاب علی  علیہ السلام  طلب کی امام صادق  علیہ السلام  اسے لے آئے اس حال میں کہ وہ انسان کی ران کے مانند لپیٹی ہوئی تھی اس میں لکھا ہوا تھا ” عورتیں اپنے شوہروں کے مر جانے کے بعد غیر منقول چیزوں میں سے ارث نہیں رکھتیں “ اس کے بعد امام باقر   علیہ السلام  نے فرمایا : خدا کی قسم یہ حضرت علی  علیہ السلام  کے ہاتھوں کی تحریر اور رسول خدا  کا املاء ہے )(۱۱)

۴۔ محمد ابن مسلم ثقفی کہتے ہیں : امام باقر   علیہ السلام  نے فرائض کی ایک کتاب سے جو رسول خدا (ص) کا املاء اور حضرت علی  علیہ السلام  کی تحریر تھی قراٴت فرمایا اس میں یہ تھا کہ ارث کے حصوں میں عول نہیں ہے ۔ (۱۲)

  ۵۔ عذافر صیرفی کہتے ہیں : میں حکم ابن عتیبہ کے ساتھ امام باقر   علیہ السلام  کی خدمت میں پہنچا اس نے امام سے سوال کیا امام نے اس کا احترام کیا کسی مسئلہ میں دونوں میں اختلاف ہوا امام نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اے بیٹا اٹھو اور کتاب علی  علیہ السلام  لے آؤ میں نے دیکھا کہ وہ کتاب طبقہ طبقہ اور بڑی ہے اسے کھولا اس میں نظر کی یہاں تک کہ مسئلے کو پالیا اور پھر فرمایا : یہ حضرت علی  علیہ السلام  کی تحریر اور رسول خدا  (ص)کا املاء ہے ۔ (۱۳)

  ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جس کتاب فرائض کا تذکرہ ہوا ہے وہ مولیٰ علی  علیہ السلام  کی بڑی کتاب کا ایک حصہ ہے ۔

  ۶۔ ابن بکیر کہتے ہیں : زرارہ نے امام جعفر صادق   علیہ السلام  سے لومڑی اور گلہری کے روئیں سے بنی جانماز پر نماز کے سلسلے میں سوال کیا حضرت نے کتاب باہر نکالی زرارہ کا گمان ہے کہ وہ رسول خدا  کا املاء تھا اس میں تحریر تھا کہ : ہر وہ جانور جس کا کھانا حرام ہے اس کے اون سے بنی چیز پر نماز باطل ہے ، اور اس کے روئیں ، کھال اور بال سے بنی چیزوں پر نماز قبول نہیں ہے ۔ (۱۴)

  اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ کتاب علی  علیہ السلام  حدیث کا قدیم ترین مجموعہ ہے جو رسول خدا (ص)  کا املاء اور امام علی  علیہ السلام  کی تحریر ہے یہ کتاب ائمہ کے پاس موجود تھی اور یکے بعد دیگرے بطور ارث پاتے رہے اور اہل بیت علیہم السلام کے بعض اصحاب نے بھی اسے دیکھا ہے اگر چہ فی الحال اس کتاب کی اصل ہمارے پاس موجود نہیں ہے لیکن صاحبان جوامع نے مثلاً کلینی ، صدوق ، اور طوسی وغیرہ نے اپنی کتابوں کے مختلف ابواب میں اس سے بہت سی چیزیں نقل کی ہیں ۔

صحیفہٴ امام علی  علیہ السلام  :

  بعض محدثین نے امام علی  علیہ السلام  کے ایک صحیفے کی طرف اشارہ کیا ہے جو آپ کے غلاف شمشیر میں تھا لیکن ان احادیث کا کتاب علی  علیہ السلام  کے بارہ میں وارد احادیث سے مقائسہ کرنے پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ صحیفہ کتاب علی  علیہ السلام  کے علاوہ ہے کیونکہ صحیفہ یا وہ کتاب جو ستر ہاتھ کی ہو اسے کس طرح غلاف شمشیر میں رکھا جا سکتا ہے اس کا مطلب ہے کہ صحیفہ ایک چھوٹی سی تحریر تھی جو غلاف شمشیر میں رکھتے تھے حضرت علی  علیہ السلام  سے اس صحیفے میں موجود مطالب کے بارے میں سوال کے تعلق سے جو روایتیں آئی ہیں ان میں ہے کہ آپ نے فرمایا : اس میں عقل ، اسیر کی آ زادی اور یہ کہ کسی مومن کو کافر کے قتل کر دینے سے قتل نہیں کیا جائے گا وارد ہوا ہے ۔ (۱۵)

  اگر اس حدیث کو سہی بھی مان لیا جائے تو کتاب علی  علیہ السلام  کے سلسلے میں اہل بیت  علیہم السلام  کے ذریعہ سے وارد احادیث سے منافات نہیں رکھتی بلکہ اس طرح کی احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث جعل کی گئی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جائے کہ علوم نبوت میں سے حضرت علی  علیہ السلام  کے پاس کچھ نہیں تھا اس دعوے کی دلیل وہ روایتیں ہیں جو صحیفہٴ امام کے غلاف شمشیر میں ہونے کے سلسلے میں سنی منابع حدیث میں آئی ہیں(۱۶) اور جن سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت علی  علیہ السلام  کی تحریر صرف یہی ایک صحیفہ ہے جس میں تین کلمے سے زیادہ اور کوئی چیز موجود نہیں تھی ۔

امام علی  علیہ السلام  علم پیغمبر  کے وارث ہیں :

  مذکورہ روایت کے صحیح مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ امام علی  علیہ السلام  کی اعلمیت اور ان کے باب علم کے ہونے کے بارے میں پیغمبر  سے وارد احادیث کے عظیم مجموعے کے ساتھ کیا کیا جائے ۔

  ۱۔ رسول خدا  (ص)نے فرمایا ہے : حضرت علی تم سب میں قضاوت سے سب سے زیادہ آشنا ہیں ۔ (۱۷)

  ۲۔ امام ترمذی اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  نے فرمایا : میں حکمت کا گھر اور علی  علیہ السلام  اس کے دروازہ ہیں (۱۸)

  ۳۔ ابن عباس رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں علم کا شہر اور علی اس کا در ہیں جسے علم چاہئے اسے چاہئے کہ دروازے سے آئے ۔ (۱۹)

  ۴ ۔ ابن عساکر نقل کرتے ہیں رسول خدا  نے حضرت علی  علیہ السلام  سے فرمایا : آپ میرے بعد میری امت کے لئے ان مسائل کو حل کریں گے جس میں انھوں نے اختلاف کیا ہے ۔ (۲۰)

-----------------------------------------------------------------

ماخوذ از: شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات ؛ علی اصغر رضوانی ، ج 1 ، ص  298 ۔ 306  ۔

ترجمہ سوال و جواب : نور محمد ثالثي

   حوالے جات

  ۱۔ نہج البلاغہ ،خطبہ ۲۳۵۔

  ۲۔ نجم (۵۳) آیات ۳، ۴ ۔

  ۳۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔

  ۴۔ ہمان ، خطبہ ۱۹۷ ۔

  ۵۔ کنز العمال ، ج۶، ص۱۵۶ و ۴۰۱ ۔

  ۶۔ تاریخ الخلفاء ، ص۱۱۵۔

  ۷۔ المال الدین ، ج۱ ص۲۰۶ و امالی صدوق ، ص۲۲۷۔

  ۸۔ کافی ، ج۱ ص۲۴۱ و بصائر الدرجات ، ص۱۴۲۔

  ۹۔ بصائر الدرجات ، ص۱۴۷۔

  ۱۰۔ کافی ، ج۱ ص۲۳۹ و بصائرالدرجات ، ص۱۴۳۔

  ۱۱۔ بصائر الدرجات ، ص۱۴۵۔

  ۱۲۔ کافی ، ۷ ص۱۱۹۔ 

  ۱۳۔ وسائل الشیعہ ، ج۱۷ ص۵۲۲ ، باب ۶ از ابواب میراث ازواج ، حدیث ۱۷ ۔

  ۱۴۔ تہذیب الاحکام ، ج۹ ، ص۲۴۷۔

  ۱۵۔ رجال نجاشی ، ج۲ ، ص۲۶۰ و ۹۶۷۔

  ۱۶۔ کافی ، ج۳ ، ص۳۹۷ ، ح۱۔

  ۱۶۔ مسند احمد ، ج۱، ص۷۹ ۔

  ۱۷۔ ر۔ک: مسند احمد ، ج۱ ، ص۸۱ ، ۱۰۰ ، ۱۰۲ ، و۱۱۰ ۔

  ۱۸۔ استیعاب ، در حاشیۃ الاصابہ ، ج۳ ، ص۳۸۔

  ۱۹۔ صحیح ترمذی ، ج۵ ، ٓ۶۳۷۔

  ۲۰۔ مستدرک حاکم ، ج۳ ، ص۱۲۷۔

  ۲۱۔ تاریخ ابن عساکر ، ترجمہ امام علی  علیہ السلام  ، ج۲ ، ص۴۸۸۔