سوال :کیا شیعوں کے درمیان اس قرآن عظیم کے علاوہ جس کا نام مصحف امام علی  علیہ السلام  ہے موجود ہے جو ان کے عقیدہ کے مطابق اس وقت امام زمانہ  علیہ السلام  کے پاس ہے ؟

جواب:

ایک بنیادی اعتراض جو غرض مند افراد نے شیعہ امامیہ پر وارد کیا ہے یہ ہے کہ شیعہ لوگ معتقد ہیں کہ امام علی  علیہ السلام  کا ایک الگ قرآن ہے جو اس وقت امام زمانہ  علیہ السلام  کے پاس موجود ہے ۔

وہابیوں کے معروف مصنف احسان الٰہی ظہیر نے اپنی کتاب الشیعہ و السنۃ میں لکھا ہے :

  ” شیعہ حضرات اس بات کے مدعی ہیں کہ امام علی  علیہ السلام  کے پاس ایک مصحف جو کہ مسلمین کے قرآن کے علاوہ ہے اور یہ شایعہ پھیلانے سے یہ ہدف رکھتے ہیں کہ امت اسلامی میں تفرقہ پیدا کریں “ (۱)  

  اسی لئے یہاں پر امام علی  علیہ السلام  کے مصحف کے بارہ میں مختصر بحث تاکہ اس کا حقیقی مرتبہ نمایاں ہوجائے کہ واقعاً شیعہ امام علی  علیہ السلام  کے مصحف کو قرآن سے جدا سمجھتے ہیں اور اس کا نام دوسرا قرآن رکھا ہے جیسا کہ احسان الٰہی ظہیر نے کہا ہے ، یا اس کو قرآن کی تفسیر سمجھتے ہیں ؟

امام علی  علیہ السلام  اعلم صحابہ ہیں :

  اس بات میں شک نہیں ہے کہ امام علی علیہ السلام صحابہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے :

  امام ترمذی اور دوسرے لوگوں نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص)  نے فرمایا : ” میں خانہ حکمت ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں “ (۲)

  ابن عباس نے رسول خدا  (ص) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” میں مدینہ کا علم ہوں اور علیؑ اس کے دروازہ ہیں اور جس کو شہر علم میں داخل ہونا ہے اسے چاہئے کہ اس کے دروازے سے داخل ہو“ (۳)  

  ابن عساکر نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص)  نے حضرت علی  علیہ السلام  سے فرمایا : ”تم میرے بعد میری امت کے ان مسائل کو حل کروگے جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا ہے “ (۴)  

  ابن عساکر کہتے ہیں : خدا کی قسم !” حضرت علی  علیہ السلام  کو علم کے دس حصہ میں سے نو حصہ دیا گیا ہے اور خدا کی قسم وہ حضرت دسویں حصہ میں بھی تم لوگوں کے شریک ہیں “(۵)  

  عمر ابن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام علی  علیہ السلام  کے ہاتھوں لوگوں کی مشکلات کو حل ہوتے دیکھتے ہوئے بارہا یہ جملہ زبان پر جاری کیا کہ : ” لولا علی لھلک عمر “ اگر علی  علیہ السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔ (۶)  

امام علی  علیہ السلام  کاعلم قرآن پر :

امام علی علیہ السلام بقیہ اصحاب سے زیادہ علوم قرآن کی نسبت آگاہ اور اس کی تفسیر ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ وغیرہ سب سے زیادہ آشنا تھے ۔

  ابن مسعود نقل کرتے ہیں : امام علی  علیہ السلام  نے مسلمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ” مجھ سے اللہ کی کتاب کے بارہ میں سوال کرو کیوں کہ کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کے متعلق مجھے علم نہ ہو کہ دن میں نازل ہوئی ہے یا رات میں ، ہموار زمین پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑوں کے درمیان “ ( ۷)  

  اور اسی طرح فرماتے ہیں : ” بہ تحقیق کی قرآن میرے ساتھ ہے اور جس وقت سے میں اس کے ساتھ ہوں کبھی بھی اس سے جدا نہیں ہوا ہوں “ (۸)  امام حاکم اور دوسرے لوگوں نے حضرت ام سلمہؓ نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  (ص)  نے فرمایا : ” علی  علیہ السلام  قرآن کے ساتھ اور قرآن علی  علیہ السلام  کے ساتھ ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی بھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر کے کنارہ مجھ پر وارد ہو جائیں “ (۹)  

  ابن ابی الحدید اپنی سند سے امام محمد باقر   علیہ السلام  سے نقل کرتے ہیں : کہ طلوع فجر کے بعد فقراء ، مساکین اور دیگر لوگ امام علی  علیہ السلام  کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور امام علی  علیہ السلام  ان لوگوں کو فقہ اور قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔ (۱۰)  

  ابن عساکر اپنے سلسلہٴ سند سے ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں : میں نے ۹۰ سورہ رسول خدا  (ص) کے پاس پڑھی اور قرآن کو لوگوں میں بہترین شخص کے پاس ختم کیا ۔ سوال ہوا : بہترین شخص کون ہے ؟ فرمایا : علی ابن ابی طالب علیہ السلام ۔ (۱۱)  

جزری در اٴسنی المطالب میں نقل کرتے ہیں کہ قرآن سات حرف پر نازل ہوا ہے اور ایسا کوئی حرف نہیں ہے جس میں ظاہر و باطن نہ ہو اور بہ تحقیق علی  علیہ السلام  کے نزد اس ظاہر و باطن کا علم موجود ہے ۔ (۱۲)  

امام علی  علیہ السلام  اور قرآن کا جمع کرنا :

گذشتہ روایات پر نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف وہ شخص لائق ہے کہ جس کو پیغمبر اسلام  (ص)  عظیم کام جیسے قرآن کی جمع آوری کا انتخاب ، وہ علی بن ابی طالب  علیہ السلام  ہیں ۔

متقی ہندی نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر  نے حضرت علی  علیہ السلام  کو حکم دیا کہ وہ مصحف جو آ نحضرت  کے گھر میں فراش کی پشت پر اور مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا اس کو ایک کتاب میں جمع کرلیں ۔ (۱۳)  

  ابن ابی الحدید امام علی  علیہ السلام  کے بارہ میں کہتا ہے : ” سبھی لوگوں کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ صرف علی  علیہ السلام  نے رسول خدا (ص)  کے زمانہ میں قرآن کو حفظ کیا اور وہ اولین شخص تھے کہ جس نے قرآن کو ایک کتاب میں جمع کیا “ (۱۴)  

امام باقر   علیہ السلام  فرماتے ہیں : ” اس امت کے کسی بھی شخص نے قرآن کو جمع آوری نہیں کی ہے سوائے رسول خدا (ص)  وصی و وزیر حضرت علی  علیہ السلام  نے “ ( ۱۵)  

امام علی  علیہ السلام  نے فرمایا :

  امام باقر   علیہ السلام  نے فرمایا : ” جو بھی اس بات کا دعویٰ کرے کہ جس طرح قرآن نازل ہوا ہے اس طرح سے اس نے اس کی جمع آوری کی ہے وہ جھوٹا ہے ۔ جس طرح سے علی  علیہ السلام  اور ان کے بعد آنے والے اماموں نے قرآن کو جمع اور حفظ کیا ہے کسی بھی شخص نے اس طرح سے  جمع اور حفظ نہیں کیا ہے “ ( ۱۷)  

  امام علی  علیہ السلام  نے فرمایا : ” کوئی آیت رسول خدا  پر نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ ان حضرت نے مجھ پر قراٴت اور انشاء کیا اور میں نے بھی اس کو اپنے خط سے لکھا ، اور آ نحضرت  نے قرآن کی تفسیر ، ناسخ و منسوخ کرنے کی بھی مجھے تعلیم دی “ (۱۸)  

محمد بن سیرین عکرمہ سے اس طرح نقل کرتے ہیں : ” ابوبکر کی خلافت کی ابتداء میں امام علی  علیہ السلام  نے گھر میں بیٹھ کر قرآن کے جمع کرنے کا کام شروع کیا ۔ ابن سیرین کہتے ہیں : میں نے عکرمہ سے عرض کیا : آیا حضرت علی  علیہ السلام  سے پہلے قرآن کی تاٴلیف موجود تھی ؟ کہا : اگر جن و انس جمع ہوجائیں تب بھی وہ حضرت علی  علیہ السلام  کے جیسی تاٴلیف نہیں کر سکتے ہیں ۔ (۱۹)  

  ابن حجر کہتے ہیں : ” حدیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت علی  علیہ السلام  نے رسول خدا  (ص) کی وفات کے بعد قرآن کو ترتیب نزول کے ساتھ جمع کیا “ (۲۰)  

ابن کثیر ، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نقل کرتے ہیں کہ اس بات پر بہت سی روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ پہلا مصحف جو اسلام میں جمع کیا گیا ہے ، وہ مصحف علی  علیہ السلام  ہے ۔ (۲۱)  

امام علی  علیہ السلام  کے مصحف کی خصوصیات :

  حدیث کے مجموعے سے جو امام علی  علیہ السلام  کے مصحف کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ان حضرت کا مصحف نیچے دی گئی خصوصیات و امتیازات کا حامل ہے ۔

  ۱۔ ترتیب نزول کی بنیاد پر قرآن کی آیت مرتبت ہوئی ہے ۔

  ۲۔ منسوخ ناسخ پر مقدم ہے ۔

  ۳۔ بعض آیتوں کی تاویل تفصیل کے طور پر لکھی ہوئی ہے ۔

  ۴۔ بعض آیتوں کی تفسیر تفصیل سے بیان کی گئی ہے ۔

  ۵۔ قرآن کے محکمات و متشابہات کو ذکر کیا گیا ہے ۔

  ۶۔ قرآن سے حرف کی کمی یا زیادتی نہیں کی گئی ہے ۔

  ۷۔ اہل حق و باطل کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔

  ۸۔ املائے رسول خدا  (ص) اور امام علی  علیہ السلام  کی تحریر تھی ۔

  ۹۔ فضایح قوم میں سے،مہاجرین ، انصار اور ان لوگوں کا جو اسلام کے ہمراہ نہیں تھے ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

  ۱۰۔ قرآن کے نصوص ضبط اور ثابت ہیں ۔

  ۱۱۔ قرآن کی قراٴت ، جس طرح سے رسول خدا  (ص) قراٴت کرتے تھے اس طرح ثبت ہوا ہے ۔

۱۲۔ حاشیہ میں توضیحات پر مشتمل اور مناسب بیان ہے کہ جو آیات کے نزول کا سبب بنا ۔ اور اسی طرح سے جگہ،  وقت اور قرآن کی آیت میں شاٴنیت اشخاص منعکس اور مراعات ہوئی ہے ۔ ( ۲۲)  

اہل سنت کا اعتراف :

  جو خصوصیتیں حضرت علی  علیہ السلام  کے مصحف کے لئے بیان کی گئی ہیں اس کا حق ہے کہ اس کے نام کو اس کی خصوصیات کے ساتھ سنے     تاکہ ان کے علم کے خزانے سے بہرہ مند ہو ۔ تاریخ اس کی مثال ہے کہ بعض علماء نے   سیوطی اور دوسرے لوگ ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں کہ کہا : ” مجھ کو خبر دی گئی کہ علی نے قرآن کو اس کے نزول کی کیفیت کے مطابق لکھ رکھا ہے ، اگر وہ مجھے مل جائے تو سمجھ لو کہ بہت بڑا علم مل گیا ہے “ (۲۳)  اس کے بعد کہتے ہیں : کہ اس کتاب کو طلب کیا حتی ایک خط بھی مدینہ لکھا تا کہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کروں ، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوا ۔

  صرف ابن سیرین کو وہ کتاب نہیں ملی بلکہ ابن عون نے بھی جب اس کتاب کے فضل سے آگاہوئے تو اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی ، لیکن کامیاب نہیں ہوا ۔ وہ خود کہتے ہیں : ” کہ میں نے عکرمہ سے مصحف امام علی  علیہ السلام  کے بارے میں سوال کیا ، لیکن ان کو بھی اس کتاب کے بارے میں معلومات نہیں تھی “ زہری بھی مصحف علی  علیہ السلام  کے بارے میں کہتے ہیں : ” اگر وہ مصحف مل جائے بہت فائدہ مند تھی اور اس کا علم بھی بہت زیادہ ہے “ ۔ (۲۴)  

اسی طرح ابن جزری کلبی سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا : ” اگر مصحف علی  علیہ السلام  مل جائے اس میں بہت علم ہے ۔۔۔ “ ۔ (۲۵)  

مصحف امام علی  علیہ السلام  کے مخفی ہونے کی علت :

  ایک سوال جو یہاں مطرح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیوں مصحف امام علی  علیہ السلام  لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے تاکہ انسان اس کے علوم اور اس کی خبروں سے محروم رہیں ؟

تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ امام علی  علیہ السلام  نے قرآن کی جمع آوری کرنے کے بعد اس کو اپنے لئے رکھ لیا ۔ البتہ اس سے قبل لوگوں کے پاس اآے اور ان کو دکھایا لیکن ان لوگوں نے علی  علیہ السلام  کے قرآن کو قبول نہیں کیا ۔

شیخ صدوق اعتقادات کی کتاب میں اس طرح نقل کرتے ہیں کہ : امام علی  علیہ السلام  نے قرآن کی جمع آوری کرنے کے بعد اس کو لے کر مسجد میں آئے اور فرمایا : ” یہ تمھارے خدا کی کتاب ہے ، جیسا کہ تمھارے نبی پر نازل ہوئی ہے ، اس میں کوئی حرف کم یا زیادہ نہیں ہوا ہے “ لوگوں نے امام  علیہ السلام  کے جواب میں کہا : ہم کو آپ کے قرآن کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ تمھارے قرآن کے جیسی کتاب ہمارے پاس موجود ہے ۔ (۲۶)  

اہل سنت کے مصادر سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ امام علی  علیہ السلام  نے رسول خدا(ص)   کی وفات کے بعد قرآن کی جمع آوری کی خاطر لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، ( البتہ یہ کام رسول خدا  ک(ص) ے حکم کے مطابق تھا )  اور فرمایا : میں ردا کو اس وقت تک اپنے کاندھے پر نہیں رکھونگا جب تک قرآن کو جمع نہ کر لوں ۔ روایت میں آیا ہے کہ ان حضرت نے ردا کو کاندھے پر نہیں رکھا ، سوائے نماز کے یہاں تک کہ قرآن کو جمع کر لیا ۔ (۲۷)  

جمع کرنے کی مدت :

  بعض لوگ معتقد ہیں کہ امام علی  علیہ السلام  نے اپنے مصحف کو چھ مہینے کی مدت میں جمع کیا ۔

  لیکن بعض روایتوں کے مطابق ، امام علی  علیہ السلام  نے رسول خدا  ک(ص) ے بعد قرآن کو تین دن میں جمع کر لیا ۔ (۲۸)   

  ان دونوں قول کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام علی  علیہ السلام  نے قرآن کی آیتوں کو رسول خدا (ص)  حیات کے زمانہ ہی میں لکھ چکے تھے اور آ نحضرت  کی وفات کے بعد پیامبر  کے دستور کے مطابق اس کو مرتب و منظم کیا کہ جو تین شب و روز میں ختم ہوا ۔ ۔

مصحف امام علی  علیہ السلام  کے رد ہونے کی علت :

  اگر امام علی  علیہ السلام  کے جواب میں کہا جائے : ہمیں آپ کے قرآن کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ آپ کے قرآن کے مانند ہمارے پاس موجود ہے ۔ یہ جملہ امام علی  علیہ السلام  کے قرآن چھوڑنے کے سبب کی حقیقی تعبیر نہیں ہے ، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اگر جن و انس مل کر علی  علیہ السلام  کے قرآن جیسا لکھیں ، تو نہیں لکھ سکتے ہیں ، جیسے عکرمہ ابن سیرین سے کہتے ہیں (۲۹)  : بلکہ مصحف امام علی  علیہ السلام  کے رد ہونے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انھیں بخوبی معلوم تھا کہ اس مصحف میں قرآن کے حقیقی آیتوں کی تفسیر ہے ، کیونکہ یہ کام ان کی سیاست سے میل نہیں کھاتا تھا ۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ اس مصحف میں اہل حق و باطل کے نام کہ جن پر قرآن نازل ہوا ہے موجود ہے ۔ لہذا اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مصحف ان کی سیاست کے ضرر میں ہے اور اسی ضرر و نقصان کی وجہ سے حدیث رسول خدا  (ص) کی نشر و اشاعت کی روک تھام کی ہے ۔

  کلام امام علی  علیہ السلام  میں صریحی طور پر اس دلیل کی طرف اشارہ ہے ، جہاں پر وہ خود اپنے مصحف کی داستان کے بارے میں کہتے ہیں : ” جب ان کو اس بات کا علم ہوا کہ اللہ نے اہل حق و باطل کے اسامی مصحف میں بیان کیا ہے اور یہ روشن و آ شکار ترین نقض ہے اسی لئے ان لوگوں نے عہد کیا اور کہا : ہمیں تمھارے مصحف کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جو کچھ قرآن میں سے ہمارے پاس ہے وہ ہمیں بے نیاز کردیتا ہے ۔ (۳۰)  

امام علی  علیہ السلام  کا مصحف کہاں ہے :

  بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مصحف امام علی  علیہ السلام  ان حضرت کے بعد ان کے بیٹے امام حسن  علیہ السلام  پھر امام حسین  علیہ السلام  اور اسی طرح سے ان کے معصوم فرزندوں میں منتقل ہوئی ہے اور اب بھی ان آخری معصوم فرزند ، یعنی امام زمانہ  علیہ السلام  کے پاس ہے۔

  طلحہ کہتے ہیں : میں نے امیر المومنین  علیہ السلام  سے سوال کیا : مجھے خبر دیں اس چیز سے جو آپ کے پاس ہے ، جیسے قرآن اور اس جیسی ، اور حلال و حرام کا علم ، مصحف کو کس کے حوالے کریں گے اور آپ کے بعد اس مصحف کا صاحب و مالک کون ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ” اس کے حوالے کروں گا کہ جس کو رسول خدا  نے مجھے حکم دیا ہے ، وہ میرا وصی اور لوگوں میں پہلا شخص ، یعنی میرا بیٹا حسن ہے اور وہ بھی میرے بیٹے حسین کو دے گا اور اسی طرح ایک ایک کر کے سب بیٹوں میں حسین کے بیٹے تک پہنچے گا ۔ (۳۱)  

  ایک حدیث جو امام صادق   علیہ السلام  سے نقل ہوئی ہے پڑھتے ہیں : ( یہ مصحف امام زمانہ کے پاس ہے اور جب قیام کریں گے ، کہ جو علی علیہ السلام کی تحریر  لائیں گے )  ( ۳۲)  

  لہذا مصحف امام علی  علیہ السلام  جیسا کی روشن ہے ، قرآن سے قرآنی جدائی حتی اس سے کم و زیادہ نہیں ہے ، بلکہ قرآن کریم کی آیتوں کی حقیقت میں تفسیر ہے کہ جو خاص ترتیب اور حسب نزول ہے ، اس میں علم و معرفت کا سمندر ہے کہ جس کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ لوگ اس کی برکتوں سے محروم ہوگئے ۔

 

-----------------------------------------------------------------

ماخوذ از: شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات ؛ علی اصغر رضوانی ، ج 1 ، ص  290 ۔ 298  ۔

ترجمہ سوال و جواب : نور محمد ثالثي

حوالے جات

  ۱۔ الشیعہ و السنۃ احسان الٰہی ظہیر ، ص۸۸ ۔

  ۲۔ صحیح ترمذی ، ج۵ ص۶۳۷ ۔

  ۳۔ مستدرک حاکم ، ج۳، ص۱۲۷۔

  ۴۔ ترجمہ امام علی  علیہ السلام  ابن عساکر سے ، ج۲، ص۴۸۸۔

  ۵۔ استیعاب ، ج۳، ص۴۰۔

  ۶۔ ہمان ، ص۳۹ و فیض القدیر ، ج۳، ص۳۵۷۔

  ۷۔ الطبقات الکبری ، ج۲، ص۳۳۸ و تاریخ الخلفاء ، ص۱۸۵۔

  ۸۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۲۔

  ۹۔ مستدرک حاکم ، ج۳، ص ۱۲۴ و کنز العمال ، ج۱۱ ص ۴۰۳ و مجمع الذوائد ، ج۹ ، ص۱۳۴۔

  ۱۰۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج۴ ص ۱۰۹۔

  ۱۱۔ ترجمہ امام علی  علیہ السلام  ، ابن عساکر ، ج۳، ص۲۶ ، رقم ۱۰۵۱ومجمع الذوائد ، ج۹ ، ص۱۱۶۔

  ۱۲۔ اسنی المطالب ، ص۱۵۔

  ۱۳۔ کنز العمال ، حدیث ۴۷۹۲۔

  ۱۴۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج۱ ، ص۲۷۔

  ۱۵۔ بحار الانوار ، ج۸۹، ص۴۸۔

  ۱۶۔ ہمان ، ص۵۲۔

  ۱۷۔ کافی ، ج۱ ، ص۱۷۸ و کنز العمال ، ج۲ ، ص۳۷۳۔

  ۱۸۔ کمال الدین ، ج۱ ، ص۲۸۴۔

  ۱۹۔ اتقان ، سیوطی ، ج۱، ص۵۷ و طبقات ابن سعد ، ج۲، ص۱۰۱۔

  ۲۰۔ اتقان ، ج۱، ص ۷۱ و ۷۲ و مصنف ابن ابی شیبہ ، ج۱، ص۵۴۵ و طبقات ابن سعد ، ج۲، ص ۳۳۸ و ابن کثیر ، ج۱، ص۲۸۔

  ۲۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، ج۱، ص ۵۴۵ ، طبقات ابن سعد ، ج۲ ، ص۳۳۸۔

  ۲۲۔ حقائق ھامہ ، ص ۱۶۰ و ۱۶۱۔

  ۲۳۔ التمہید ، ج۱، ص۲۹۲۔

  ۲۴۔ تاریخ الخلفاء ، ص۱۸۵و طبقات ابن سعد ، ج۲، ص۳۳۸ و الاستیعاب بھامش الاصابہ ، ج۲، ص ۲۵۳۔

  ۲۵۔ فواتح الرحموت بھامش المستصفی ، ج۲، ص۱۲۔

  ۲۶۔ التسہیل لعلوم التنزیل ، ج۱ ، ص۴ ۔

  ۲۷۔ اعتقادات صدوق ، ہمراہ با مصنفات شیخ مفید ، ج۵ ، ص۸۸۵ ۔

  ۲۸۔ الطبقات الکبری ، ج۲، ص۳۳۸ و انساب الاشرف ، ج۱، ص۵۸۷ و الاتقان ، ج۱ ، ص۲۰۴۔

  ۲۹۔ مناقب ، ابن شہر آشوب ، ج۲، ص۴۰۔

  ۳۰۔ مقدمہٴ تفسیر برہان ، ص ۳۷ و المصنف ، ابن ابی شیبہ ، ج۱، ص۵۴۵۔

  ۳۱۔ مناہل العرفان ، ج۱، ص۲۴۷۔

  ۳۲۔ احتیاج طبرسی ، ج۱، ص۳۸۳ و تفسیر صافی ، ج۱، ص۳۸ و ۳۹ ۔

  ۳۳۔ بحار الانوار ، ج۹۲، ص۴۲ و تفسیر صافی ، ج۱، ص۳۸۔

  ۳۴۔بصائر الدرجات ، ص۱۹۳۔