علامه سيد رضي کے بعد تقريبا دو ڈھائي سو برس تک نھج البلاغه کے خلاف کوئي آواز اٹھتے هوئے نظر نهيں آئي هے بلکه متعدد اهل سنت نے اس کي شرحيں لکھي هيں جيسے ابوالحسن علي ابن ابي القاسم بيھقي متوفي ۵۶۵ ھ امام فخرا الدين متوفي ۶٠۶ ابن ابي الحديد معتزلي متوفي ۶۵۵ و علامه سعد الدين تفتازاني وغيره ۔ ۔ ۔ انھيں شرحوں کے نتيجه ميں عوام نھج البلاغه سے آشنا هوئي هے اور يه بات قابل لحاظ هے که نھج البلاغه کے بارے ميں تعصبي آواز نھج البلاغه کے مرکز تاليف يعني بغداد يا عراق کے کسي شھر سے بلند نه هوئي بلکه مغربي مملکت جهاں بني اميه کي سلطنت تھي وهاں ابن خلکان مغربي کي زبان سے يه آواز بلند هوئي که( قدامت اختلف الناس في کتاب نھج البلاغه المجموعة من کلام علي ابن ابي طالب ھل ھو جمعه اواخوه سيد رضي و قيل انه ليس من کلام علي ابن ابي طالب و انما الذي جمعه و نسبه اليه ھو الذي و ضعه والله اعلم )
ابن خلکان متوفي ۶۸۱ ھ سيد مرتضي کے حالات ميں لکھتا هے لوگوں نے اس سلسلے ميں اختلاف کيا هے که نھج البلاغه جو علي ابن ابي طالب (ع) کے کلام کا مجموعه هے اس کا جامع کون هے آيا اسے سيد مرتضي نے جمع کيا يا ان کے بھائي سيد رضي نے اور قول قيل هے که يه علي ابن ابي طالب (ع) کا کلام نهيں هے بلکه جنھيں اس کا جامع سجمھا جاتا هے وهي اس کے مصنف هيں والله اعلم :
ڈوبتے کو تنکے کا سهارا کافي هوتا هے لذا ابن خلکان سے بڑھ چڑھ کر ديگر متعصب افراد کو يه همت پيدا هوئي که بغير کسي قيل و قال کے نھج البلاغه کے کلام امير المومين (ع) هونے کا انکار کرنے لگے جيسے سيد مرتضي کے حالات ميں ذھبي متوفي ۷۴۸ ھ لکھا تن طالع کتابه نھج البلاغه جزم با انه مکذوب علي اميرالمومين فقيه السب الصريح بل حط علي السدين ابي بکر و عمر :
اگر کوئي کتاب نھج البلاغه کا مطالع کرے تو اسے يقين هو جائے گا که يه کلام امير المومنين (ع) کا نهيں هے کيونکه اس ميں کھلم کھلا اظهار بيزاري اور شخين کي تنقيص هے.
اس تعصبي انداز پر تعجب هے که پهلے اسے سيد مرتضي کا کارنامه قرار ديتا هے اور پھر يکسره يقيني حالت ميں اظهار کرتا هے که امیر المومنین (ع) کی طرف اس کتاب و کلام کی نسبت جھوٹی هے اور ساتھ هی ساتھ دلیل بھی دیتا هے که اسمیں کوئی ایسی عینک مل گئی جو ان سے پهلے کسی کے پاس نه تھی کا علمی دنیا میں دوسرداروں کی تنقیص کی وجه سے یقینی نسبت کو جھوٹ کهنے کی قیمت هے یه تو بالکل ایسے هی هے که جیسے قرآن کے نازل هونے کے بعد مشرکین کا ایک طبقه الهی هونے کا اس لئے انکار کرے که اس میں الله کی مذمت و تنقیص هے ۔
کاش حقیقت کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھتے نه که جذبات کے لحاظ سے مگر ان کا طره امتیاز هی یه هے که وه هر قانون شریعت کو جذبات کے تحت دیکھتے هیں ۔
مناظره کے میدان کا سب سے آسان هتھیار بن گیا که جب نھج البلاغه کا کوئی کلام بطور دلیل پیش هو تو اس کا یه کهکر انکار کر دیا جائے که یه امیر المومنین کا کلام نهیں هے ۔
انھیں کی پیروی کرتے هوئے علامه یا فعی متوفی ۷۶۸ ھ و ابن العمار متوفی ۸٠۸ ابن حجر عقلان متوفی ۸۵۲ ھ نے بغیر کسی تحقیق کے یه کهه ڈالا که یه کتاب سید رضی کی تصنیف هے یا سید مرتضی کی هے ۔
علامه سید ذیشان حیدر جوادی نے اپنی مترجمه نھج البلاغه کے مقدمه میں تقریبا اکسٹھ ایسی کتابوں کے حوالے دیئے هیں که جو خطبات وفرامین امیر المومنین (ع) کے حوالے سے سید رضی کی ولادت سے سالها سال پهلے لکھی گئی هیں اس موقع پر وه تحریر کرتے هیں کیا اس کا بھی امکان هے که انسان دنیا میں آنے سے پهلے اپنے کلمات مولفین کے اذهان تک منتقل کردے ایسا هوسکتا هے تو یه سید رضی کے معجزات میں شمار هوگا جس کا اسلامی دنیا میں کوئی امکان نهیں پایا جاتا هے ۔
ابن ابی الحدید کهتے هیں که بعض هوس پرستوں کا یه گمان هے که نجھ البلاغه کا عمده حصه بعض شیعوں کا گڑھا هوا کلام هے اور بهت سے لوگ اس کے بعض حصوں کو سید رضی اور بعض دوسرے افراد کی طرف سے گڑھا هوا تصور کرتے هیں لیکن یه لوگ اس قدر متعصب هیں که تعصب کی وجه سے ان کے دل کی آنکھیں اندھی هوگئی هیں اور وه سیدھے راسته سے منحرف هوگئے هیں اور قلت معرفت و میزان کلان سے نه آشنا هونے کی وجه سے بے راه روی کا شکار هوگئے هیں (۲)
سید رضی نے اپنی کتاب المجازات النبویة کے ان صفحوں ص۳۸۷ ۔ ص ۲۴۷ ۔ ص ۱۹۵ ۔ ص ۳۶ ۔ ص ۳۵ ۔ پر وضاحت کی هے که نھج البلاغه کو میں نے جمع کیا هے اسی طرح اپنی کتاب حقایق التاویل ص ۲۸۷ ۔ پر اور خصائص الائمه کے دیباچه میں بھی اسی مطلب کو تحریر کیا هے ۔ اور اهل سنت کے مصنف مزاج و حقیقت شناس علماء و ادباء و حفاظ نے نھج البلاغه کے مندرجات کو کلام امیرالمومنین مانتے رهے هیں اور اس کا اظهار کرتے رهے هیں اور شرحیں و مصادر نھج البلاغه بھی رقمطراز کی هیں ۔
۱) علامه البو حامد عبد الحمید ابن ھبة الله معروف به ابن الحدید مدائنی بغدادی متوفی ۶۵۵ نے نھج البلاغه کی مبسوط شرح لکھی هے وه حضرت امیرکے فضائل ذاتیه میں فصاحت کے ذیل میں لکھتے هیں ۔
(اما الفصاحة فھو امام الفصحاء و سید البلغاء و عن کلامه قیل دون الخالق و فوق کلام المخلوق و عنه تعلم الناس الخطابة و الکتابة )
آپ کی فصاحت فحاء کے امام اور بلغاء کے سردار آپ هی کے کلام کے لئے کها گیا هے که خالق کے کلام سے نیچا اور کلام مخلوق سے بالا هے اور آپ هی دنیائے علم نے خطابت وکتابت سیکھی هے ۔
۲) علامه سعد الدین تفتازانی متوفی سنه ۷۹۱ ھ شرح مقاصد میں لکھتے هیں و اذا فصھھم لسانا علی ما یشھد به کتاب نھج البلاغه : امیرالمومنین (ع) سب سے زیاده فصیح اللسان تھے جس کی گواھی کتاب نھج البلاغه کی صورت میں موجود هے ۔
۳) علامه علاء الدین قوشجی متوفی ۸۷۵ ھ شرح التجرید میں قول محقق طوسی افصحھم لسان کی شرح میں لکھتے هیں علی مایشھد به کتاب نھج البلاغه وقال البلغاء ان کلامه دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق افصح اللسان پر کتاب نھج البلاغه گواه هے اور بلغاء کا کهنا هے که آنحضرت کا کلام خالق کے کلام سے نیچا اور کلام مخلوق سے بالا هے ۔
۴) محمد بن علی طباطبا معروف به ابن طقطقی اپنی کتاب تاریخ الفخری فی الادب السلطانیه والدول الاسلامیه مطبوعه مصر ص ۹ پر لکھتے هیں عدل ناس الی نھج البلاغه من کلام امیر المومنین علی ابن ابی طالب فانه الکتاب الذی یتعلم منه و الموعظ و الخطب و التوحید و الشجاعة و الفرھد و علوالھمة و ادنی فوائد الفصاحة و البلاغة : )
بهت سے لوگوں نے نھج البلاغه کی طرف توجه کی جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے کلام پر مشتمل هے اسی کتاب سے حکم و مواعظ توحید و شجاعت و زھد بلند همتی کا درس حاصل کیا جاسکتا هے اور اس کتاب کا سب سے مختصر فائده فصاحة و بلاغت هے :
۵) ابن ابی الحدید کهتا هے که اگر عرب کے تمام فصحاء کو جمع کیا جائے اور کلمات امام کو باالخصوص خطبه نمبر ۲۲۱ کی تلاوت کی جائے تو بهتر یه هے که سب اس کلام کے سامنے سجده ریز هو جس طرح آیات سجده قرآنی کے سامنے سجده ریز هوتے هیں (۳)
۶) عبد الحمید یحیی جو فن خطابت و کتابت میں عربوں کے درمیان ضرب المثل تھا اس سے پوچھا گیا که فصاحت و بلاغت کے اس مرتبه تک کے پهونچنے تو اس نے جواب دیا حفظ کلام الاصطع ) اصلع یعنی جس کے سر کے اگلے حصے کا بال چھڑ گیا هو ۔
اس ضمیر فروش نے مولا کا نام اس لئے نهیں لیا که مروان بن محمد آخری اموی خلیفه کے دربار کا کاتب تھا ۔
۷) حافظ متوفی ۲۵۵ ھ کهتا هے علی کرم الله وجھه رسول خدا (ص) کے بعد سب سے زیاده فصیح و دانشمند و زاھد تھے امور شریعت و حق میں سختگیر اور پیامبر (ص) کے بعد بطور مطلق خطبائے عرب کے امام جانے جاتے تھے ۔ (۴)
۸) علامه احمد بن منصور کا زردنی اپنی کتاب مفتاح الفتوح میں امیر المومنین (ع) کے حالات میں لکھتے هیں ( ومن تامل فی کلامه و کتبه و خطبه و رسالاته علم لا یوازی علم احمد و فضائل لا تشاکل فضائل احد بعد رسول الله و من جملتھا کتاب نھج البلاغه ) جو بھی امیر المومنین (ع) علی ابن ابی طالب کے کلام و خطوط و خطبوں و رسالوں پر غور و فکر کرے تو اسے معلوم هو جائے گا که رسول اسلام (ص) کے بعد کوئی بھی علم و فضائل علی ابن ابی طالب (ع) کے برابر نهیں هے ۔ اور انھیں میں سے کتاب نھج البلاغه هے ۔
۹) مفتی دیار مصر یه علامه شیخ محمد عبده متوفی ۱۳۳۲ ھ اپنی شرح کے مقدمه میں کهتے هیں که نھج البلاغه کے اثناء مطالعه مجھے ایسا تصور هورها تھا که جیسے لڑائیاں چھڑی هوئی هیں نبرد آزمائیاں هورهی هیں بلاغت کا زور هے اور فصاحت پوری طاقت سے حمله ور هے تو ھمات شکست کھارهے شکوک و شبھات پیچھے هٹ رهے هیں خطابت کے لشکر صف بسته هیں طاقت لسان کی فوجیں شمشیر زن اور نیزه بازی میں مصروف هیں وسوسوں کا خون بهایا جارها هے تو ھمات کی لاشیں گررهی هیں اور یکدفه ایسا محسوس هوتا هے که بس حق غالب آگیا اور باطل هار گیا تصورات باطل کا زور ختم هوگیا اور اس فتح و نصرت کا سهرا اسد الله غالب علی ابن ابی طالب (ع) کے سر هے ۔
(نقل از مقدمه نھج البلاغه مفتی جعفر صاحب اردو )
۱٠) حجتة الاسلام آقای مروی نے حجة الاسلام والمسلمین خطیب توانا آقای فلسفی کی سالگرد و رحلت په ایک واقعه بیان کیا جسے آیة الله جواد مغنیه نے اپنی کسی کتاب میں ذکر کیا هے که هر سال شب غدیر ملک لبنان میں شیعه و سنی مل کر ایک محفل منعقد کرتے تھے اور مشهور و معروف خطیبوں میں ایک خطیب کو دعوت دیتے تھے ایک سال مصر کے بهت مشهور خطیب امیر شکیب کو دعوت دی ناظم محفل نے جب برنامه کا اعلان کرنا شروع کیا تو خطیب کا اعلان اس طرح کیا ( ألاتسمعون کلمته من الامیر شکیب انھی سمی الامیر لأنه شبیه بالامیر بیانا ) اے لوگوں ابھی امیر شکیب رونق افروز منبر هونگے اور سنوار انھیں امیر اس لئے کها جاتا هے که یه امیر المومنین کے بیان سے شباھت رکھتے هیں اس اعلان کو سنتے هی غضب شکیب ( من ھذا التشبیه ) اس تشبیه کو سنتے هی امیر شکیب کی پیشانی پر بل پڑگئے اور جب منبر پر پهونچے تو بغیر بسم الله کهے یه جملے کهے جب سے میں پیدا هوا هوں مجھے کسی نے اتنا شرمنده نه کیا جتنا آج اور یه که والله ان کل ما فی الارض عد الله و الرسول لا یشبه غبار الذی علی حافر فرس علی ابن ابی طالب خدا کی قسم اس کائنات هست و بود کی تمام اشیاء کو امیر المومنین کے سوار کی ٹاپوں تلے ذات سے بھی تشبیه نهیں دے سکتے ۔
المختصر یه هے که نھج البلاغه پر انگلی اٹھانے والے انگشت بے شمار هیں اور عظمت نھج البلاغه کے معترفین کی تعداد بهت زیاده هیں ۔
۱) علامه مرحوم سید ھبة الدین شھرستانی اپنی کتاب موھو نھج البلاغه میں لکھتے هیں که ایک شخص نے مسیحی دانشور امین نحلة سے درخواست کی که حضرت علی کے کلمات میں چند کلمات کو چنیں اور انھیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو اس میں مسیحی دانشمند نے اس طرح جواب دیا که مجھے مجھ سے درخواست کی هے که عرب کی بلیغ ترین شخصیت کے کلمات میں چند کلمات کو منتخب کروں تا که تم اسے چاپ کرو فضلا مجھے ایسی کتابوں کا علم نهیں هے جو اس تقاضے کو پورا کرسکیں ۔ سوائے چند گنی چنی کتابوں کے که ان میں سے ایک نھج البلاغه هے مین خوشی کے مارے پھولا نه سمایا اور اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو میں سمجھ هی نهیں پارهاتھا که کس طرح ان کلمات میں سے سو کلمات کا انتخاب کروں اور یه کلام بلا تشبیه گویا یوں هے که ایک یاقوت کے دانے کو دوسرے دانے کے ساتھ مقایسه کرتا هوا چن لو آخر اس کام کو میں نے انجام دیا اور تمهیں یقین نه آئے گا که کس مشقت و سختی کے ساتھ بلاغت کی اس کان سے ایک ایک کلمه نکالنے میں کامیاب هوا هوں تو مجھ سے یه سو کلمات لے اور یه یاد رکھ که یه سو کلمات نور بلاغت کا مرکز اور شگوفه فصاحت کے غنچے هیں ۔ دوسری جگه استاد امین نحله کهتے هیں که جو بھی اپنے نفس کی بیماری کا علاج کرنا چاهتا هے اسے چاهیئے که نھج البلاغه میں امیر المومنین (ع) کے کلمات سے علاج کرے اور اسی کتاب کے سایه میں زندگی گذارے ۔ (۵)
۲) اسی طرح مرحوم شهرستانی کتاب تنزیه التنزیه میں رقمطراز هیں که علی گڑھ یونیورسٹی کے انگریزی استاد مستعد گرینکوی ایک دن دیگر دانشمند افراد کے ساتھ هم مجلس تھے ان سے اعجاز قرآن کے متعلق سوال کیا گیا تو اس طرح جواب ده هوئے که قرآن ایک چھوٹا بھائی جس کا نام نھج البلاغه هے آیا ممکن هے که کوئی اس کی مثال لے آئے پھر جاکر اس کے بڑے بھائی قرآنی کے متعلق سوال اور اس کی مثال لائے جانے کے امکان پر بحث کی ضرورت محسوس هونا چاهیئے اسی وجه نھج البلاغه کے بارے میں مشهور هے که یه مخلوق کے کلام سے بلند و بالا اور خالق کے کلام سے نیچے ۔ ( الفضل ما شھدت به الاعداء ) در حقیقت فضیلت تو وه هے که جس کی گواهی دشمن دے مگر افسوس صد افسوس که مسلمانوں نے نھج البلاغه کی قدرنه کی صرف شرحیں لکھی گئی جس طرح قرآن کی تفسیر با لرای سے اپنے ضمیر کو سکون دیتے رهے هیں اسی طرح نھج البلاغه بھی شرحوں سے اپنے خوابیده ضمیر کو مزید خواب خرگوش میں مبتلا کرتے رهے هیں چونکه یه کتاب صرف ادبی شاھکار هی نهیں بلکه اسلامی دائره المعارف هے جس میں راه سعادت په گامزن هونے کے لئے تمام دستورات بنحو احسن موجود هیں :
۱) مولائے کائنات حضرت علی السلام کی عظیم و بلند شخصیت نھج البلاغه کے لئے سبب جاودانگی هے آنحضرت نے اپنے کلام ان تمام صفات کو پر دیا جو لوگوں کو جذب کرسکتی تھی هر عدالت و آزاد خواه آپ کے کلام اور آپ کا عاشق نظر آتا هے اور خاتم المرسلین کے بعد میدان فضیلت کے شهوارکا نام علی اسی وجه سے ان کا بیان بھی بے بدیل و بے نظیر هے ۔
۲)فصاحت و بلاغت : خطابت پیام الهی کی تبلیغ کا ایک مٶثر و روشن طریقه هے که جس سے پیامبران الهی نے استعفاده کیا هے اور خود قرآن مجید بھی احسن شیوه بیانی سے مزین هے مولائے کائنات نے بھی اپنے بیان کو شیوه ادبی و زیور فصاحت و بلاغت سے مزین جس کی وجه سے مخاطبین و سامعین کو تھکاوٹ محسوس نهیں هوسکتی نھج البلاغه سھل ممتنع کی مالک هے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نھج البلاغه ج ۶ ص ۱۴۵ پر رقمطراز هیں که فصاحت کو دیکھو کیسے اس نے اپنی بھار علی کے حوالے کردی هے اور خود زیان علی کی تابع بن گئی هے اور الفاظ کے نظم کو دیکھو که کس طرح یکه بعد دیگرے علی کرم الله وجھه کے اختیار میں هیں جیسے یه احساس هی نهیں هوتا که آیا کتاب سیاست هے یا کتاب ھدایت آیا یه کتاب فلسفی هے یا تاریخی بلکه مطالعه کرنے کے بعد یه بات واضح هوجاتی هے که نھج البلاغه رشد وھدایت و سعادت اخروی و دنیوی کے تمام رموز کو رکھتی هے شاعر و خطیب فصیح و بلیغ افراد کے علاوه فقھاء و متکلمین و مفسرین و فلاسفه و جامعه شناس و اعلاء اخلاق و دیگر دانشمند حضرات نھج البلاغه سے فیض یاب هوتے رهے هیں ۔
نھج البلاغه اخلاقی تعلیمات کا سر چشمه هے اس کے ایک ایک فقرے میں قرآن کی روح اور اسلام کی صحیح تعلیم مضمر هے جب تک معلم اسلام کے حکمت آمیز کلمات کے آئینه میں اسلام کے خدو خال کو پهچاننے کی کوشش نه کی جائے گی اس وقت تک اسلام کے بلند معیار اخلاق سے بیگانه رهیں گے لذا اس مکرو فریب کی دنیا میں ضروری هے که ماقاله المرتضی المرتضی کی روشنی میں اسلام کے خدو خال کو پهچنوایا جائے یه کلام علوی وه معجزه قولی که جس سے هر زمانے میں مختلف مکتب خیال کے افراد استعفاده کرتے رهے هیں جس طرح قرآن پیامبر اسلام معجزه قولی هے اسی طرح نھج البلاغه وصی پیامبر کا معجزه قولی هے اس معجزه کے سدامنے سبھی عاجز و ناتواں نظر آتے رهے هیں آنحضرت (ع) کے کلام کی نورانیت اتنی هی زیاده که هر مکتب خیال کے علماء و فضلاء نے زمان تالیف سے لیکر آج تک اس کے مطالب و حقائق کو بقدر امکان واضح کرنے کے لئے شرحیں لکھی هیں علامه بزرگ تهرانی نے اپنی کتاب الذریعه ج ۱۴ ۔ ص ۱۱۳ ۔ پر حدودا نھج البلاغه کی سو شرحوں کا تذکره کیا هے ۔
علامه امینی نے اپنی عظیم کتاب الغدیر ج ۴ ص ۱۸۶ پر نھج البلاغه کی ۸۱ شرحوں کا تذکره کیا هے سید عبد الزهراء خطیب نے مصادر نھج البلاغه ج ۱ ص ۲۴۷ پر نھج البلاغه کی ۱۴۳ شرحوں کا تذکره فرمایا آیة الله رضا استادی نے کتابنامه نھج البلاغه میں ۳۷٠ شرحوں و ترجموں کو لکھا هے اتنی شرحیں و ترجمے و تعلیقات و مستدرکات اسی کتاب نھج البلاغه سے هی قلمبند هوئے هیں تبیین معارف میں شیوه نھج البلاغه مثل قرآن هے ۔ نھج البلاغه خود اپنی ضیا پاشی هی کی وجه سے هر دانشمند کے لئے ایک ارزشمن کتاب هے اور تحریف و اسرائیات بھی محفوظ هیں چونکه نھج البلاغه کی علمی و ادبی اهمیت اور اس کے حقایق آگیں مضامین و اخلاق مواعظ کا وزن نا قابل انکار هے اور فقها و علماء اسلام کی مسلسل نظارت و تفسیر سے یه کتاب محفوظ هے کسی بھی کتاب کے باقی رهنے کے اسباب و علل پائے جاتے هیں اور جس قدر اسباب و علل قوی هونگے کتاب کی ارزش و قیمت بھی زیاده هوگی اور نسبت و نابودی سے بھی محفوظ رهے گی :
چند اسباب حسب ذیل هیں :
۱) راویاں نھج البلاغه کی کثرت
۲) حفاظ کی کثرت
۳) نھج البلاغه کی کثرت نسخه برداری
۴) راویوں کا تسلسل
۵) سید رضی سے پهلے دانشمندان شیعوں کی جمع آوری
۶) آثار علوی کے تحفظ میں علماء شیعه کی ایثار گری
: انھیں اسباب و علل کی وجه سے یه اثر علوی محفوظ و مصون هے انشاء الله تا ظهور یوسف زھراء (س) یه کتاب چمکتی و دمکتی رهے گی ۔
نوشته شده توسط: ميرشاعرعلي