حضرت علی علیه السلام کے چند منتخب خطبے

<  یہ خطبہ حمد و ثنائے پرودگار۔ خلقت عالم۔ تخلیق ملائکہانتخاب انبیا بعثت سرکا ر دوعالم، عظمت قرآن اور مختلف احکام شرعیہ پرمشتمل ہے۔

<ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدحت تک بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں ہے او ر اس کی نعمتوں کوگننے والے شمار نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے حق کو کوشش کرنے والے بھی ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ نہ ہمتوں کی بلندیاں اس کا ادراک کرسکتی ہیں اور نہ ذہانتوں کی گہرائیاں اس کی تہ تک جا سکتی ہیں۔ اس کی صفت ذات کے لئے نہ کوئی معین حد ہے نہ توصیفی کلمات۔ نہ مقررہ وقت ہے اور نہ آخری مدت۔اس نے تمام مخلوقات کو صرف اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے اور پھر اپنی رحمت ہی سے ہوائیں چلائی ہیں اور زمین کی حرکتکو پہاڑوں کی میخوں سے سنبھال کر رکھا ہے۔

 <دین کی ابتداء اس کی معرفت سے ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے۔ تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے‘ کہ صفت کا مفہوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے الگ کوئی شے ہے اورموصوف کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جدا گانہ کوئی ذات ہے۔اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کاعقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں ہے اور جو بے معرفت ہو گیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کیطرف اشارہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا اورجس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا( جو سراسر خلاف توحید ذات ہے)

 <جس نے یہ سوال اٹھایا کہ وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دے دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کس کے اوپر قائم ہے اسنے نیچے کا علاقہ خالی کرا لیا۔ اس کی ہستی حادث نہیں ہے اور اس کا وجودعدم کی تاریکیوں سے نہیں نکلا ہے ۔ وہ ہر شے کے ساتھ ہے لیکن مل کرنہیں ‘ اور ہر شے سے الگ ہے لیکن جدائی کی بنیاد پر نہیں۔ وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نہیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نہیں تھا۔ وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ہے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جس کو پا کر انس محسوس کرے اور کھو کر پریشان ہو جانے کا احسان کرے۔

 <اس نے مخلوقات کو از غیب ایجاد کیا اور ان کی تخلیق کی ابتدا کی بغیر کسی فکر کی جو لانی کے اور بغیر کسیتجربہ سے فائدہ اٹھائے ہوئے یا حرکت کی ایجاد کئے ہوئے یا نفس کے افکار کیالجھن میں پڑے ہوئے ۔

<تما م اشیاء کو ان کے اوقات کے حوالے کردیا اور پھر ان کے اختلاف میں تناسب پیدا کردیا سب کی طبیعتیں مقرر کر دیں اور پھرانہیں شکلیں عطا کردیں۔اسے یہ تمام باتیں ایجاد کے پہلے سے معلوم تھیں اور وہ ان کے حدود اور ان کی انتہا کو خوب جانتا تھا۔ اسے ہرشے کے ذاتی اطراف کا بھی علم تھا اوراس کے ساتھ شامل ہو جانے والی اشیاء کا بھی علم تھا۔

<اسکے بعد اس نے فضا کی وسعتیں۔اس کے اطراف واکناف اور ہواؤں کے طبقات ایجاد کئے اور ان کے درمیان وہ پانی بہا دیا جس کی لہروں میں تلاطم تھا اور جس کی موجیں تہ بہ تہ تھیں اور اسے ایک تیز و تند ہوا کے کاندھے پر لاد  دیا اور پھر ہوا کو الٹنے پلٹنے اور روک کر رکھنے کا حکم دے دیا اور اس کی حدوں کو پانی کی حدوں سے یوں ملا دیا کے نیچے ہوا کی وستعیں تھیں اور اوپر پانی کا طلاطم۔

 <اس کے بعد ایک اور ہوا ایجاد کی جس کی حرکت میں کوئیتولیدی صلاحیت نہیں تھی اور اسے مرکز پر روک کراس کے جھونکوں کو تیز کردیااور اس کے میدان کو وسیع تر بنا دیا اور پھراسے حکم دیدیا کہ اس بحر زخارکو متھ ڈالے اور موجوں کو الٹ پلٹ کردے۔ چنانچہ اس نے سارے پانی کو ایک مشکیزہ کی طف متھ ڈالا اوراسے فضائے بسیط میں اس طرح لے کرچلی کہ اول کو آخر پر الٹ دیا اور ساکن کو متحرک پر پلٹ دیا اور اسکے نتیجہ میں پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر ایک جھاگ کی تہہ بن گئی۔پھر اس جھاگ کو پھیلی ہوئی ہوا اور کھلی ہوئی فضا میں بلند کردیا اوراس سے سات آسمان پیدا کردئیے جس کی نچلی سطح ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح تھی اور اوپر کا حصہ ایک محفوظ سقف اوربلند عمارت کے مانند تھا۔ نہ اس کا کوئی ستون تھا جو سہارا دے سکے اور نہ کوئی بندھن تھا جو منظم کر سکے ۔

<پھر ان آسمانوں کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا اور ان میں تا بندہ نجوم کی روشنی پھیلا دی اور ان کے درمیان ایک ضوفگن چراغ اور ایک روشن ماہتاب رواں کردیا جس کی حرکت ایک گھومنے والے فلک اور ایک متحرک چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں تھی۔

 <پھراس نے بلند ترین آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور انہیں طرح طرح کےفرشتوں سے بھر دیا جن میں سے بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت نہیں آتی ہے اور بعض رکوع میں ہیں تو سر نہیں اٹھاتے ہیں اور بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے ہیں بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال نہیں ہوتے ہیں سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اورنہ عقلوں پر سہوو نسیان کا۔ نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

<ان میں سے بعض کو وحی کا امین اور رسولوں کی طرف قدرتکی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فصیلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیںاور کچھ اس کے بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اور بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہرنکلی ہوئی ہیں۔ان کے اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ہائے عرش کے اٹھانے کے قابل ہیں۔ان کی نگاہیں عرش الٰہی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں اوروہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ان کے اور دیر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تصور بھی نہیں کرتے ہیں اور نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات کو جاری کرتے ہیں۔ وہ نہ اسے مکان میں محدود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ ونظائر سے اشارہ کرتے ہیں۔

 تخلیق جناب آدم  کی کیفیت

<اس کے بعد پروردگار نے زمین کے سخت و نرم اور شورو شیریں حصوں سے خاک کو جمع کیا اور اسے پانی سے اس قدر بھگویا کہ بالکل خالص ہوگئی اور پھر تری میں اس قدر گوندھا کہ لسدار بن گئی اور اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ بھی تھے اور جوڑ بھی۔اعضاء بھی تھے اور جوڑ بند بھی۔پھر اسے اس قدر سکھایا کہ مضبوط ہوگئی اور اس قدر سخت کیا کہ کنکھنانے لگی اور یہ صورت حال ایک وقت معین اور مدت خاص تک برقرار رہی جس کے بعد اس میں مالک نے اپنی روح کمال پھونک دی اور اسے ایسا انسان بنا دیا جس میں ذہن کی جولانیاں بھی تھیں اورفکر کے تصرفات بھی۔کام کرنے والے اعضاء و جوارح بھی تھے اور حرکت کرنے والے ادوات و آلات بھی حق و باطل میں فرق کرنے والی معرفت بھی تھی اورمختلف ذائقوں ‘ خوشبووں‘ رنگ و روغن میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔ اسے مختلف قسم کی مٹی سے بنایا گیا جس میں موافق اجزاء بھی پائے جاتے تھے اورمتضاد و عناصربھی اور گرمی ‘ سردی‘ تری خشکی جیسے کیفیات بھی۔

<پھر پروردگار نے ملائکہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی امانت کو واپس کریں اور اس کی معہودہ وصیت پرعمل کریں یعنی اس مخلوق کے سامنے سر جھکا دیں اور اس کی کرامت کا اقرار کرلیں۔چنانچہ اس نے صاف صاف اعلان کردیا کہ آدم  کو سجدہ کرو اور سب نے سجدہ بھی کرلیا سوائے ابلیس کے کہ اسے تعصب نے گھیر لیا اور بد بختی غالب آ گئی اور اس نے آگ کی خلقت کو وجہ عزت اور خاک کی خلقت کو وجہ ذلت قراردے دیا۔مگر پروردگار نے اسے غضب الٰہی کے مکمل استحقاق ،آزمائش کی تکمیل اور اپے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے یہ کہہ کر مہلت دے دی کہ” تجھے روز وقت معلوم تک کے لئے مہلت دی جا رہی ہے“۔

<اس کے بعد پروردگار نے آدم کو ایک ایسے گھرمیں ساک کردیاجہاں کی زندگی خوش گوار اور مامون و محفوظ تھی اور پھر انہیں ابلیس اور اسکی عداوت سے بھی باخبر کردیا۔ لیکن دشمن نے ان کے جنت کے قیام اورنیک بندوں کی رفاقت سے جل کر انہیں دھوکہ دے دیا اور انہو ں نے بھی اپنے یقین محکم کو شک اور عزم مستحکم کو کمزوری کے ہاتھوں فروخت کردیا اور اس طرح مسرت کے بدلے خوف کو لے لیا اورابلیس کے کہنے میں آ کر ندامت کا سامان فراہم کرلیا۔ پھر پروردگار نے ان کے لئے توبہ کا سامان فراہم کردیا اور اپنے کلمات رحمتکی تلقن کردی اور ان سے جنت میں واپسی کا وعدہ کرکے انہیں آزمائش کی دنیامیں اتار دیا جہاں نسلوں کا سلسلہ قائم ہونے والا تھا۔

<انبیاء کرام کا انتخاب

<اس کے بعد اس نے ان کی اولاد میں سے ان انبیاء کا انتخاب کیا جن سے وحی کی حفاظت اور پیغام کی تبلیغ کی امانت کا عہد لیا اس لئے کہ آخری مخلوقات نے عہد الٰہی کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس کے حق سے ناواقف ہوگئے تھے۔اس کے ساتھ دوسرے خدا بنا لئے تھے اور شیطان نے انہیں معرفت کی راہ سے ہٹا کر عبادت سے یکسر جدا کردیا تھا۔

<پروردگارنے ان کے درمیان رسول بھیجے۔ انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرتکی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کویاد دلائیں۔ تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کوباہرلائیں اور انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں۔ یہ سروں پر بلند ترین چھت۔ یہزیر قدم گہوارہ۔ یہ زندگی کے اسباب۔ یہ فنا کرنے والی اجل۔ یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض اور یہ پے پر دپے پیش آنے والے حادثات۔

<اس نے کبھیاپنی مخلوقات کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محرومنہیں رکھا ہے۔ ایسے رسول بھیجے ہیں جنہیں نہ عدد کی قلت کام سے روک سکتی تھی اورنہ جھٹلانے والوں کی کثرت۔ان میں جو پہلے تھا اس بعد والے کا حال معلوم تھا اور جو بعد میں آیا اسے پہلے والے نے پہنچوا دیا تھا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں اور زمانے بیتتے رہے۔آباء و اجداد جاتے رہے اور اولاد و احفاد آتے رہے۔

 بعثت رسول اکرم <( ص)

<یہاںتک کہ مالک نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور اپنے نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب‘منتشر خواہشات اورمختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔کوئی اس کے ناموں کوبگاڑ رہا تھا۔اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اورجہالت سے باہر نکال لیا۔

<اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔آپ کو مصائب سے نجات دلا دی اور نہایت احترام سے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیا اور امت میں ویسا ہی انتظام کردیا جیسا کہ دیگر انبیاء نے کیا تھا کہ انہوں نے بھی قوم کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا جس کے لئے کوئی واضح راستہ اورمستحکم نشان نہ ہو۔

 قرآن اور احکام شرعیہ

<انہوں نے تمہارے درمیان تمہارے پروردگار کی کتاب کو چھوڑا ہے جس کے حلال و حرام۔ فرائض و فضائل ناسخ و منسوخ۔ رخصت و عزیمت۔ خاص و عام۔عبرت و امثال ۔ مطلق و مقید۔ محکم و متشابہ سب کو واضح کردیا تھا۔ مجمل کی تفسیر کردی تھی ۔ مجمل کی تفسیرکردی تھی گتھیوں کوسلجھا دیا تھا۔

<اس میں بعض آیات ہیں جن کے علم کا عہد لیا گیا ہے اوربعض سے نا واقفیت کومعاف کردیا گیا ہے۔ بعض احکام کے فرض کا کتاب میں ذکرکیا گیا ہے اور سنت سے ان کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوا ہے یا سنت میں انکے وجوب کا ذکرہوا ہے جب کہ کتاب میں ترک کرنے کی آزادی کا ذکرتھا۔ بعضاحکام ایک وقت میں واجب ہوئے ہیں اور مستقبل میں ختم کردئیے گئے ہیں۔اس کے محرمات میں بعض پر جہنم کی سزا سنائی گئی ہے اور بعض گناہ صغیرہ ہیں جن کی بخشش کی امید دلائی گئی ہے۔ بعض احکام ہیں جن کا مختصر بھی قابل قبول ہے اور زیادہ کی بھی گنجائش پائی جاتی ہے۔

 ذکر حج بیت اللہ

<پروردگار نے تم لوگوں پر حج بیت الحرام کو واجب قرار دیا ہے جس ے لوگوں کے لئے قبلہ بنایا ہے اور جہاں لوگ پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں اورویسا انس رکھتے ہیں جیسے کبوتر اپنے آشیانہ سے رکھتا ہے۔حج بییت اللہ کو مالک نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے ایقان کی نشانی قراردیا ہے۔اس نے مخلوقات میں سے ان بندوں کا انتخاب کیا ہے جواس کی آواز سن کرلبیک کہتے ہیں اوراس کے کلمات کی تصدیق کرتے ہیں۔انہوں نے انبیاء کے مواقف میں وقوف کیا ہے اور طواف عرش کرنے والے فرشتوں کا انداز اختیار کیا ہے۔یہ لوگ اپنی عبادت کے معاملہ میں برابر فائدے حاصل کر رہے ہیں اورمغفرت کی وعدہ گاہ کی طرف تیزی سے سبقت کر رہے ہیں۔

<پروردگار نے کعبہ کو اسلام کی نشانی اور بے پناہ افراد کی پناہگاہ قرار دیا ہے۔اس کے حج کو فرض کیا ہے اور اس کے حق کو واجب قرار دیا ہے۔تمہارے اوپر اس گھر کی حاضری کو لکھ دیا ہے اور صاف اعلان کردیا ہے کہ” اللہ کے لئے لوگوں کی ذمہ داری ہیکہ اس کے گھر کا حج کریں جس کے پاس بھی اس راہ کو طے کرنے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (2)

صفین سے واپسی پرآپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسمیں بعثت پیغمبر (ص) کے وقت لوگوں کے حالات‘ آل رسول کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔)

<میں پروردگار کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمتوں کی تکمیل کے لئے اور اس کی عزت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے۔ میں اس کی نافرمانی سے تحفظ چاہتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں کہ میں اسی کی کفایت و کفالت کا محتاج ہوں۔ وہ جسے ہدایت دیدے وہ گمراہ نہیں ہو سکتا ہے اور جس کا وہ دشمن ہو جائے اسے کہیں پناہ نہیں مل سکتی ہے۔

<جسکے لئے وہ کافی ہو جائے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔اس حمد کا پلہ ہر باوزنشے سے گراں تر ہے اور یہ سرمایہ ہرخزانہ سے زیادہ قیمتی ہے۔

<میںگواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ وہ گواہی ہے جس کے اخلاص کا امتحان ہو چکا ہے اور جس کا نچوڑ عقیدہ کا جزء بن چکاہے۔ میں اس گواہی سے تاحیات وابستہ رہوں گا اور اسی کو روز قیامت کے ہولناکمراحل کے لئے ذخیرہ بناؤں گا۔ یہی ایمان کی مستحکم بنیاد ہے اوریہی نیکیوں کا آغاز ہے اور اسی میں رحمان کی مرضی اور شیطان کی تباہی کا راز مضمر ہے۔

<اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔ انہیںپروردگار نے مشہور دین‘ ماثور نشانی‘ روشن کتاب‘ ضیاء پاش نور‘ چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل ہو جائیں اور دلائل کے ذریعہ حجت تمام کی جا سکے‘ آیات کے ذریعہ ہو شیار بنایا جا سکے اورمثالوں کے ذریعہ ڈرایا جا سکے۔

<یہ بعثت اس وقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔ یقین کے ستون ہلگئے تھے۔اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔ مشکلات سےنکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام ۔ رحمان کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت‘ ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا‘ اس کے ستون گر گئے تھے اورآثار ناقابل شناخت ہوگئے تھے‘ راستےمٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں۔ لوگ شیطان کی اطاعت میں اس کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے۔یہ لوگ فتنوں میں حیران و سر گرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار نے انہیں اس گھر ( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسائے۔ جن کی نیند بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سر زمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا

<آل <رسول اکرم <(ص)

  <یہ لوگ رازالٰہی کی منزل اورامر دین کا ملجاء و ماویٰ ہیں۔ یہی علم خدا کے مرکز اورحکم خداکی پناہ گاہ ہیں۔ کتابوں نے یہیں پناہ لی ہے اور دین کے یہی کوہ گراں ہیں۔انہیں کے ذریعہ پرورگار نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اورانہیں کے ذریعہ اس کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے ۔

<ایکدوسریقوم

 <ان لوگوں نے فجور کا بیج بویا ہے اور اسے غرور کے پانی سے سینچا ہے اور نتیجہ میں ہلاکت کو کاٹاہے۔ یاد رکھو کہ آل محمد پر اس امت میں کس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ان لوگوں کو ان کے برقرار دیا جا سکتا ہے جن پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

<آلمحمد دین کی اساس اوریقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹکرانہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آ کر ملتاہے۔ان کے پاس حق و لایت کے خصوصیات ہیں اور انہیں کے درمیان پیغمبر کی وصیت اور ان کی وراثت ہے۔ اب جب کہ حق اپنے اہل کے پاس واپس آ گیا ہے اور اپنی منزل کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔

خطبہ شقشقیہ

( آپ کے ایک خطبہ کا حصہ جسے شقشقیہکے نام سے یاد کیا جاتا ہے)

آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلات کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔ پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اوربچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔

   تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نےاپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالے کردیا۔ بقول اعشی:

”کہاں وہ دن جو گزرتا تھا میرا اونٹوں پر۔ کہاں یہدن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں “

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استغفار دے رہا تھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا۔ بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے۔اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔ لغزشوں کی کثرت ہے اور معذرتوں کی بہتات!

    اس کو برداشت کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے سرکشاونٹنی کا سوار کہ مہار کھنیچ لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے توہلاکتوں میں کود پڑے۔ تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی‘ سرکشی‘ تلون مزاجی اوربے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طیل مدت تک صبر کیا یہاں تک کہ وہ بھی اپنے راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا جب کہ میرا اس شوریٰ سے کیاتعلق تھا؟ مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کےساتھ ملایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا مگر پھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پرمجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسری دامادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اور بھی ناقابل ذکراسباب واشخاص تھے جس کے نتجیہ میں تیسرا شخص سرگین اورچارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرا دیا-

    اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجو  کی گردن کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین  کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔ یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ” یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقوی کے لئے ہیں “۔ ہاں ہاں خدا کی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوںمیں آراستہ ہوگئی اور اس کی چمک دمک نے انہیں لبھا لیا۔

آگاہ ہو جاؤ وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اوراللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کیگردن پر ڈال کر ہنکا دیتا اور اس کی آخر کواول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظرمیں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اس موقع پرایک عراقی باشندہاٹھ کھڑا ہوا اوراس نے آپ کو ایک خط دیا جس ک بارے میں خیال ہے کہ اس میںکچھ فوری جواب طلب مسائل تھے۔چنانچہ آپ نے اس خط کو پڑھنا شروع کردیا اور جب فارغ ہوئے تو ابن عباس نے عرض کی کہ حضوربیان جاری رہے؟ فرمایا کہ افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جو ابھر کر دب گیا۔

(شقشقہ اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے )

ابن عباس کہتے ہیں کہ بخدا قسم مجھے کسی کلام کے ناتمام رہ جانے کا اس قدرافسوس نہیں ہوا جتنا افسوس اس امر پرہوا کہ امیر المومنین اپنی بات پوری نہفرما سکے اور آپ کا کلام نا تمام رہ گیا۔

سید شریف رضی فرماتے ہیں کہ امیر المومنین  کے ارشاد”ان اشنقلھا……کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ناقہ پر مہارکھینچنے میں سختی کی جائے گی اور وہ سر کشی پرآمادہ ہو جائے گا تو اس کی ناک زخمی ہو جائے گی اوراگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو اختیار سے باہر نکل جائے گا۔عرب ”اشنق الناقہ“ اس موقع پر استعمال کرتے ہیں جب اس کے سر کو مہار کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے اور وہ سر اٹھا لیتا ہے۔اس کیفیت کو” شنقہا“سے بھی تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ابن السکیت نے ” اصلاح المنطق“ میں بیان کیا ہے۔لیکن امیرالمومنین  نے اس میں ایک لام کا اضافہ کردیا ہے ”اشنق لھا“ تاکہ بعد کے جملہ ” اسلس لھا “ سے ہم آہنگ ہو جائے اورفصاحت کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔

پ کے خطبہ کا ایک حصہ جو فصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیاہے۔

(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا) تم لوگوں نے ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں میں ہدایت کا راستہ پایا ہے اوربلندی کے کوہان پر قدم جمائے ہیں اور ہماری ہی وجہ سے اندھیری راتوں سے اجالے کی طرف باہرآئے ہو۔

وہ کان بہرے ہو جائیں جو پکارنے والے کی آواز نہ سن سکیں اور وہ لوگ بھلادھیمی آواز کو کیا سن سکیں گے جن کے کان بلند ترین آوازوں کے سامنے بھیبہرے ہی رہے ہوں۔ مطمئن دل وہی ہوتا ہے جویاد الٰہی اورخوف خدا میں مسلسلدھڑکتا رہتا ہے۔ میں روزاول سے تمہاری غداری کے انجام کا انتظار کر رہا ہوںاور تمہیں فریب خوردہ لوگوں کے انداز سے پہچان رہا ہوں۔ مجھے تم سے دینداری کی چادر   نے پوشیدہ کردیا ہے لیکن صدق نیت نے میرے لئے تمہارے حالات کو آئینہ کردیا ہے۔ میں نے تمہارے لئے گمرایہ کی منزلوں میں حق کے راستوں پر قیام کیا ہے جہاں تم ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن کوئی راہنما نہ تھا اور کنواں کھودتے تھے لیکن پانی نصیب نہ ہوتا تھا۔

آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہا ہوں جس میں بڑی قوت بیان ہے۔ یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہوگئی ہے جس نے مجھ سے رو گردانی کی ہے۔ میں نے روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا۔(میرا سکوت مثل موسی  ہے ۔ موسی کو اپنے نفس کے بارے میں خوف نہیں تھا۔ انہیں دربار فرعون میں صرفیہ خوف تھا کہ کہیں جاہل جادوگر اور گمراہ حکام عوام کی عقلوں پر غالب نہ آجائیں۔آج ہم سے حق و باطل کے راستہ پر آمنے سامنے ہیں اوریاد رکھو جسے پانی پر اعتماد ہوتا ہے وہ پیاسا نہیں رہتا ہے۔

جب رسول اللہ نے دنیا سے رحلت فرمائی توعباس اور ابو سفیان ابن حرب نے آپ سے عرض کیا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتےہیں جس پر حضرت نے فرمایا:

اے لوگو ! فتنہ و فساد کی موجوں کو نجاتکی کشتیوں سے چیر کر اپنے کو نکال لے جاؤ. تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنارخ موڑ لو, فخر و مباہات کے تاج اتار ڈالو. صحیح طریقہ عمل اختیار کرنے میں . کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پر وبال کے ساتھ اٹھے اور نہیں تو (اقتدار کی کرسی ) دوسروں کے لئے چھوڑ بیٹھے اور اس طرح خلق خدا کو بد امنی سے راحت میں رکھے. (اس وقت طلبِ خلافت کے لئے کھڑا ہونا ) یہ ایک گندلا پانی اور ایسا لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلو گیر ہو کر رہے گا. پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے چننے ولا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا. اگر بولتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیوی سلطنت پر مٹے ہوئے ہیں اور چپ رہتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے. افسوس اب یہ بات جب کہ میں ہر طرح کے نشیب و فراز دیکھے بیٹھا ہوں. خدا کی قسم ابو طالب کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے اتنا مانوس نہیں ہوتا. البتہ ایک علم پوشیدہ میرے سینے کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ اسے ظاہر کر دوں تو تم اسی طرح پیچ و تاب کھانے لگو جس طرح گہرے کنوؤں میں رسیاں لرزتی اور تھرتھراتی ہیں-

<جب آپ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کرنے کی نہ ٹھان لیں تو آپ نے فرمایا:

<خدا کی قسم میں اس بجوّ کی طرح نہ ہوں گا جو لگاتار کھٹکھٹائے جانے سے سوتا ہوا بن جاتا ہےیہاں تک کہ اس کا طلب گار (شکاری) اس تک پہنچ جاتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنے والا اس پر اچانک قابو پا لیتا ہے بلکہ میں تو حق کی طرف بڑھنے والوں اور گوش پر آواز اطاعت شعاروں کو لیکر ان خطاؤ شک میں پڑنے والوں پر اپنی تلوار چلاتا رہوں گا. یہاں تک کہ میری موت کا دن آ جائے . خدا کی قسم ! <جب سے اللہ نے اپنے رسول کو دنیا سے اٹھایا. برابر دوسروں کو مجھ پر مقدمکیا گیا اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا.

<جب آپ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کرنے کی نہ ٹھان لیں تو آپ نے فرمایا:

<خدا کی قسم میں اس بجوّ کی طرح نہ ہوں گا جو لگاتار کھٹکھٹائے جانے سے سوتا ہوا بن جاتا ہےیہاں تک کہ اس کا طلب گار (شکاری) اس تک پہنچ جاتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنے والا اس پر اچانک قابو پا لیتا ہے بلکہ میں تو حق کی طرف بڑھنے والوں اور گوش پر آواز اطاعت شعاروں کو لیکر ان خطاؤ شک میں پڑنے والوں پر اپنی تلوار چلاتا رہوں گا. یہاں تک کہ میری موت کا دن آ جائے . خدا کی قسم ! <جب سے اللہ نے اپنے رسول کو دنیا سے اٹھایا. برابر دوسروں کو مجھ پر مقدمکیا گیا اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا.

انہوں نے اپنے ہر کام کا کرتا دھرتا شیطان کو بنا رکھا ہے اور اس نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہے ۔ اس نے ان کے سینوں میں انڈے دیئے ہیں اور بچے نکالے ہیں اور انہیں کی گود میں وہ بچے رینگتے اور اچھلتے کودتے ہیں ۔ وہ دیکھتا ہے تو ان کی آنکھوں سے  اور بولتا ہے تو ان کی زبانوں سے ۔ اس نے انہیں خطاؤں کی راہ پر لگایا ہے اور بُری باتیں سجا کر ان کے سامنے رکھی ہیں جیسے اس نے انہیں اپنے تسلط میں شریک بنا لیا ہو اور انہیں کی زبانوں سے اپنے کلام باطل کے ساتھ بولتا ہو۔

<آپ علیہ السلام کے کلام کا ایک حصہ جس میں اپنے اور بعض مخالفین کےاوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اھل جمل ہیں ۔

<وہ رعدکی طرح گرجے اور بجلی کی طرح چمکے۔ مگر ان دونوں باتوں کے باوجود بزدلی ہی دکھائی اور ہم جب تک دشمن پر ٹوٹ نہیں پڑتے گرجتے نہیں اور جب تک (عملی طور پر) برس نہیں لیتے (لفظوں کا ) سیلاب نہیں بہاتے ۔

<آپ علیہ السلام کے خطبے کا ایک حصہ جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ ۔

 <گواہ ہو جاؤ کہ شیطان ( نے اپنے گروہ کو جمع کر لیا ہے اوراپنے سوار و پیادے سمیٹ لئے ہیں۔ میرے ساتھ یقینا میری بصیرت ہے نہ میں نے خود (جان بوجھ کر ) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا۔ خدا کی قسم میں ان کے لئے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا۔ جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں۔ انہیں ہمیشہ کے لئے نکلنے یا ( نکل کر ) پھر واپس آنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو گا۔

جب جنگ جمل میں عَلَم اپنے فرزند محمد بن حنفیہ کو دیا , تو ان سے فرمایا: پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا. اپنے دانتوں کو بھینچ لینا . اپنا کاسیہ سر اللہ کو عاریت دے دینا. اپنے قدم زمین میں گاڑ دینا. لشکر کی آخری صفوں پر اپنی نظر رکھنا اور (دشمن کی کثرت و طاقت سے ) آنکھوں کو بند کر لینا اور یقین رکھنا کہ مدد خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے.

جب خدا وند ِ عالم نے آپ کو جمل والوں پر غلبہ عطا کیا تو اس موقعہ پر آپ کے ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ میرا فلاں بھائی بھی یہاں موجود ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ اللہ نے کیسی آپ کو دشمنوں پر فتح و کامرانی عطا فرمائی ہے تو حضرت نے فرمایا کہ کیا تمہارا بھائی ہمیں دوست رکھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ، تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے پاس موجود تھا بلکہ ہمارے اس لشکر میں وہ اشخاص بھی موجود تھے جو ابھی مردوں کی صلب اور عورتوں کے شکم میں ہیں ۔ عنقریب زمانہ انہیں ظاہر کرے گا اور ان سے ایمان کو تقویت پہنچے گی۔

جس میں جنگ جمل کے بعد  اہل بصرہ  کی مذمت فرمائی ہے

<تم ایک عورت کی سپاہ اور ایک چوپائے کے تابع تھے۔ وہ بلبلایا تو تم لبیک کہتے ہوئے بڑھے اور وہ زخمی ہوا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔ تم پست اخلاق و عہد شکن ہو۔ تمہارے دین کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ تمہاری سر زمین کا پانی تک شور ہے تم میں اقامت کرنے والا گناہوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور تم میں سے نکل جانیوالا اپنے پروردگار کی رحمت کو پا لینے والا ہے ۔ وہ (آنیوالا) منظر میری آنکھوں میں پھر رہا ہے ۔ جبکہ تمہاری مسجد یوں نمایاں ہو گی ۔ جس طرح کشتی کا سینہ در آنحالیکہاللہ نے تمہارے شہر پر اس کے اوپر اور ا سکے نیچے سے عذاب بھیج دیا ہو گا۔اور وہ اپنے رہنے والوں سمیت ڈوب چکا ہو گا۔

(ایک اور روایت میں یوں ہے ) خدا کی قسم تمہارا شہر غرق ہو کر رہے گا۔ اس حد تک کہ اس کی مسجد کشتی کے اگلے حصے یا سینے کے بل بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی طرح گویا مجھے نظر آ رہی ہے ۔ ) ایک اور روایت میں اس طرح ہے جیسے پانی کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔

( ایک اور روایت میں اس طرح ہے ) تمہارا شہر اللہ کے سب شہروں سے مٹی کے لحاظ سے گندا اور بدبو دار ہے یہ (سمندر کے ) پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے ۔ برائی کے دس حصوں میں سے نو حصے اس میں پائے جاتے ہیں جو اس میں آ پہنچا وہ اپنے گناہوں میں اسیر ہے اور جو اس سے چل دیا؟ عضو الٰہی! اس کے شریک ِ حال رہا۔ گویا میں اپنی آنکھوں سے اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ سیلاب سے اسے اس حد تک ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے سمندر کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔

یہ بھی اہلِ بصرہ کی مذمت میں ہے۔  تمہاری زمین (سمندر کے) پانی سے قریباور آسمان سے دور ہے۔ تمہاری عقلیں سبک اور دانائیاں خام ہیں تم ہر تیرانداز کا نشانہ۔ ہر کھانے والے کا لقمہ اور ہر شکاری کی صید افگنیوں کاشکار ہو۔

حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں جب مسلمانوں کو پلٹا دیں، تو فرمایا۔ خدا کی قسم! اگر مجھے ایسا مال بھی کہیں نطر آتا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جا چکا ہوتا تو اسے بھی واپس پلٹا لیتا۔ چونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو  اُسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہو گی۔

<جب مدینہ میں آپ کی بیعت ہوئی تو فرمایا: میں اپنے قول کا ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں۔ جس شخص کو اس کے دیدہء عبرت نے گذشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں، اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ آج تمہارے لیے وہی آزمائشی  دور پلٹ آیا ہے جو رسول کی بعثت کے وقت تھا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا۔ تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح غلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے ہنڈیا) یہاں تک کہ تمہارے ادنےٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے و ہ پیچھے چلے جائیں گے۔ خدا کی قسم میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی، نہ کبھی کذببیانی سے کام لیا۔ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ اس سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروںکو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں اور تقویٰ رام کی ہوئی۔ سواریوں کے مانند ہے جن پران کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو۔ اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں اور وہ انہیں (باطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں۔ ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل اور کچھ حق والے ہوتے ہیں، کچھ باطل والے۔ اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے۔ اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔ علامہ رضی فرماتے ہیں کہ اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے کرنے کا یارا نہیں ۔ نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اسبات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کاپورا پورا حق  ادا کیا ہو، اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا۔

امام کے خطبے کا ایک حصہ یہ ہے۔

<جس کے پیشِ نظر دوزخ و جنت ہو، اس کی نظر کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتی، جو تیز قدم دوڑنے والا ہے، وہنجاتیافتہ ہےاور جو بلب گارہو، مگر سست رفتار اُسے بھی توقع ہوسکتی ہے۔ مگر جو (ارادةً) کوتاہی کرنے والا ہو، اُسے تو دوزخ ہی میں گرناہے۔ دائیں بائیں گمراہی کی راہیں ہیں اور درمیانی راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس راستے پر اللہ کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور نبوت کے آثار ہیں۔ اسی سے شریعت کا نفاذ و اجراء ہوا ۔ اور اسی کی طرف آخر کار بازگشت ہے جس نے (غلط) ادعا کیا وہ تباہ و برباد ہوا اور جس نے افتراء باندھا ، وہ ناکام و نامراد رہا جو حق کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ تباہ ہو جاتا ہے اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے وہ اصل و اساس، جو تقویٰ پر ہو، برباد نہیں ہوتی، اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کشت (عمل) بے آب و خشک نہیں رہتی۔ تم اپنے گھر کے گوشوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ آپس کے جھگڑوں کی اصلاح کرو، توبہ تمہارے عقب میں ہے۔ حمد کرنے والا صرف اپنے پروردگارکی حمد کرے اور بھلا برا کہنے والا اپنے ہی نفس کی ملامت کرے۔ ان لوگوں کے بارے میں جو امت کے فیصلے چکانے کے لئے مسند قضا پر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے۔

<تمام  <لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک مبغوض دو شخص ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیا ہو (یعنی اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی توفیق سلب کر لی) جس کے بعد وہ سیدھی راہ سے ہٹا ہوا بدعت کی باتوں پر فریفتہ اور گمراہی کی تبلیغ پر مٹا ہوا ہے ۔ وہ اپنے ہوا خواہوں کے لئے فتنہ اور سابقہ لوگوں کی ہدایت سے برگشتہ ہے۔ وہ تمام ان لوگوں کے لئے جو اس کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کی پیروی کریں، گمراہ کرنے والا ہے ۔ وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے اور خود اپنی خطاؤں میں جکڑا ہوا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے جہالت کی باتوں کو (ادھر ادھر سے ) بٹور لیا ہے ۔ وہ امت کے جاہل افراد میں دوڑ دھوپ کرتا ہے اور فتنوں کی تاریکیوں میں غافل و مدہوش پڑا رہتا ہے اور امن و آشتی کے فائدوں سے آنکھ بند کر لیتا ہے ۔ چند انسانی شکل و صورت سے ملتے جلتے ہوئے لوگوں نے اسے عالم کا لقب دے رکھا ہے ۔ حالانکہ وہ عالم نہیں وہ ایسی (بے سود) باتوں کے سمیٹنے کے لئے منہ اندھیرے نکل پڑتا ہے جن کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ اس گندے پانی سے سیراب ہو لیتا ہے اور لا یعنی باتوں کو جمع کر لیتا ہے تو لوگوں میں قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اور دوسروں پر مشتبہ رہنے والے مسائل کے حل کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے اگر کوئی الجھا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی رائے سے اس کے لئے بھرتی کی فرسودہ دلیلیں مہیا کر لیتا ہے اور پھر اس یقین پر بھی کر لیتا ہے ۔ اس طرح و شبہات کے الجھاؤ میں پھنسا ہوا ہے ۔ جس طرح مکڑی خود ہی اپنے جالے کے اندر ۔ وہ خود یہ نہیں جانتا کہ اس نے صحیح حکم دیا ہے یا غلط۔ اگر صحیح بات بھی کہی ہو ، تو اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط نہ ہو۔ اور غلط جواب ہو تو اسے یہ توقع رہتی ہے کہ شاید یہی صحیح ہو، وہ جہالتوں میں بھٹکنے والا جاہل اور اپنی نظر کے دھندلا پن کے ساتھ تاریکیوں میں بھٹکنے والی سواریوں پر سوار ہے ۔ نہ اس نے حقیقت علم کو پرکھا نہ اس کی تہ تک پہنچا ۔ وہ روایات کو اس طرح درہم و برہم کرتا ہے جس طرح ہوا سوکھے ہوئے تنکوں کو ۔ خدا کی قسم! وہ ان مسائل کے حل کرنے کا اہل نہیں جو اسے سے پوچھے جاتے ہیں۔ اور نہ اس منصب کے قابل ہے جو اسے سپرد کیا گیا ہے جس چیز کو وہ نہیں جانتا اس چیز کو وہ کوئی قابلِ اعتنا علم ہی نہیں قرار دیتا اور جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہے ۔ اس کے آگے یہ سمجھتا ہی نہیں کہ کوئی دوسرا پہنچ سکتا ہے اور جو بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اسے پی جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جہالت کو خود جانتا ہے ۔ (ناحق بہائے ہوئے ) خون اس کے ناروا فیصلوں کی وجہ سے چیخ رہے ہیں اورغیر مستحق افراد کو پہنچی ہوئی میراثیں چلا رہی ہیں ۔ اللہ ہی سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جہالت میںجیتے ہیں اور گمراہی میں مرجاتے ہیں۔ ان میں قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہیں جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں۔ اس وقت جب کہاس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے ۔ ان کے نزدیک نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں۔

فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآرا ہونے کی مذمت میں فرمایا :

<جب  انمیں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے ۔  پھر وہی مسئلہ بعینہ  دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہے تو وہ سب کی رایوں کو صحیح قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ہے ۔ (انہیں غور تو کرنا چاہیئے ) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کرکے اس کے حکم بجا لاتے ہیں یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کرکے عمداً اس کی نا فرمانی کرنا چاہتے ہیں ۔  یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑا دیا تھا اور ان سے تکمیل کے لئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا یا یہ کہ اللہ کے شریک تھے کہ انہیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ہو، اور اس پر لازم ہو کہ وہ اس پر رضا مند رہے یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا مگر اس کے رسول نے اس کے پہنچانے اور ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی۔ اللہ نے قرآن میں تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور اس میں ہر چیز کا واضح بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ قرآن کے بعض حصے بعض حصوں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ چنانچہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کا بھیجا ہوا ہوتا، تو تم اس میں کافی اختلاف پاتے اور یہ کہ اس کا ظاہر خوش نما اور باطن گہرا ہے ۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں ۔  ظلمت (جہالت ) کا  پردہ اسی سے چاک کیا جاتا ہے ۔

<امیرالموٴمنین علیہ السلام منبرِ کوفہ پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہاشعت  ابنِ قیس نے آپ کے کلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یا امیرالموٴمنینیہ بات تو آپ کے حق میں نہیں بلکہ آپ کے خلاف پڑتی ہے ۔ تو حضرت نے اسےنگاةِ غضب سے دیکھا اور فرمایا:

<تجھے کیا معلوم کہ کون سی چیز میرے حق میں ہے اور کون سی چیز میرے خلاف جاتی ہے۔ تجھ پر اللہ کی پھٹکار اور لعنت کرنے والوں کوئی جولاہے کا بیٹا جولاہا اور کافر کی گود میں پلنے والا منافق ہے ۔ تو ایک دفعہ کافروں کے ہاتھو ں میں اور ایک دفعہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں اسیر ہوا۔ لیکن تجھ کو تیرا مال اور حسب اس عار سے نہ بچا سکا اور جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے اور اس کی طرف موت کو دعوت اور ہلاکت کا بلاوا دے، وہ اسی قابل ہے کہ قریبی اس سے نفرت کریں اور دور والے بھی اس پر بھروسہ نہ کریں۔

<سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ایک دفعہ کفر کے زمانہ میں اور ایک دفعہ اسلام کے زمانہ میں اسیر کیا گیا تھا۔ رہا حضرت کا یہ ارشاد کہ جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے، تو اس سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو اشعث کو خالد ابنِ ولید کے مقابلہ میں یمامہ میں پیش آیا تھا کہ جہاں اس نے اپنی قوم کو فریب دیا تھا اور ان سے چال چلی تھی۔  یہاں تک کہ خالد نے ان پر حملہ کر دیا اور اس واقعہ کے بعد اس کی قوم والوں نے اس کا لقب عرف النار رکھ دیا اور یہ ان کے محاورہ میں غدار کے لئے بولا جاتا ہے ۔

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اورخدا کی طرف دوڑ کر آنے کی دعوت دی گئی ہے 

<جن چیزوںکو تمہارے مرنے والوں نے دیکھا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو گھبرا جاتے اورسراسیمہ اورمضطرب ہو جانے اور (حق کی بات) سنتے اور اس پر عمل کرتے۔ لیکنجو انہوں نے دیکھا ہے وہ ابھی تم سے پوشیدہ ہے اور قریب ہے کہ وہ پردہ اٹھادیا جائے ۔ اگر تم چشمِ بنیاد گوش شنوا  رکھتے ہو تو تمہیں سنایا اوردکھایا ہے اور ہدایت کی طلب ہے تو تمہیں ہدایت کی جا چکی ہے ۔ میں سچ کہتا ہوں کہ عبرتیں تمہیں بلند آواز سے پکار چکی ہیں، اور دھمکانے والی چیزوں سے تمہیں دھمکایا جا چکا ہے ۔ آسمانی رسولوں (فرشتوں ) کے بعد بشر ہی ہوتے ہیں جو تم تک اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں ۔ اسی طرح میری زبان سے جو ہدایتہو رہی ہے ۔ درحقیقت اللہ کا پیغام ہے جو تم تک پہنچ رہا ہے ۔

جو ایک کلمہ ہے لیکن تمام موعظت و حکمت> کو اپنے اندر سمیٹے ہوۓ ہے>

<تمہاریمنزل مقصود تمہارے سامنے ہے ۔ موت کی ساعت تمہارے عقب میں ہے ، جو تمہیںآگے کی طرف لے چل رہی ہے ۔ ہلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو۔تمہارے اگلوں کو پچھلوں کا انتظار کرایا جا رہا ہے ۔ (کہ یہ بھی ان تک پہنچ جائیں ) سید رضی فرماتے ہیں کہ کلامِ خدا و رسول کے بعد جس سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا اور ہر حیثیت سے بڑھے چڑھے رہیں گے اور آپ کا یہ ارشاد کہ تخفقو اتلحقوا اس سے بڑھ کر تو کوئی جملہ سننے ہی میں نہیں آیا جس کے الفاظ کم  ہوں اور معنی بہت ہوں۔ اللہ اکبر! کتنے اس کلمہ کے معنی بلند اور اس حکمت کا چشمہ صاف و شفاف ہے اور ہم نے اپنی کتاب خصائص میں اس فقرے کی عظمت اور اس کے معنی کی بلندی پر روشنی ڈالی ہے ۔

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑ دی ہے

<معلوم ہوناچاہیئے کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی فوجیں فراہمکر لی ہیں تاکہ ظلم اپنی انتہا کی حد تک اور باطل اپنے مقام پر پلٹ آئے۔خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نےمیرے اورا پنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطابلہ کرتے ہیں۔ جسےخود ہی انہوں نے چھوڑ دیا۔ اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں۔ جسے انہوں نے خودبہایا ہے اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی توحصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، مَیں نہیں تو پھر اس کیسزا صرف انہی کو بھگتنا چاہیئے جو سب سے بڑی دلیل وہ میرے خلاف پیش کریں گے وہ انہی کے خلاف پڑے گی۔ وہ اس ماں کا دودھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ منقطع ہو چکا ہے ۔ اور مری ہوئی بدعت کو پھر سے زندہ کر نا چاہتے ہیں۔ اُف کتنا نامراد یہ جنگ کے لئے پکارنے والا ہے ۔ یہ ہے کون جو للکارنے والی ہے اور کس مقصد کے لئے اس کی بات سنا جا رہا ہے اور میں تو اس سے خوش ہوں کہ ان پر اللہ حجت تمام ہو چکی ہے اور ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ اگر ان لوگوں نے اطاعت سے انکار کیا، تو میں تلوار کی باڑ ان کے سامنے رکھ دوں گا جو باطل سے شفا دینے اور حق کی نصرت کے لئے کافی ہے ۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں نیزہ زنی کے لئے میدان میں اتر آؤں اورتلواروں کی جنگ کے لئے جمنے پر تیار رہوں۔ رونے والیں ان کے غم میں روئیں ۔ مَیں تو ہمیشہ ایسا رہا کہ جنگ سے مجھے دھمکایا نہیں جا سکا اور شمشیر زنی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے یقین کے درجہ پر فائز ہوں اور اپنے دین کی حقانیت میں مجھے کوئی شک نہیں ہے ۔

جس میں فقراء کو زہد اور سرمایہ داروں کو> شفقت کی ہدایت دی گئی ہے 

<ہرشخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے ، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات لٰہذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وُسعت پائے تو یہ چیز اس کے لئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکتکا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے، تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچیکرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جراٴت بڑھے ۔ وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے ، جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے ، تو وہُ دور ہو جائے ۔ اسی طرح وہ مسلمان بد دیانتی سے پاک دامن ہو، وہ اچھائیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے ۔ یا اللہ کی طرف سے بلاوا آئے تو اس شکل میں اللہ کے یہاں کی نعمتیں ہی اس کے لئے بہتر ہیں اور یا للہ تعالیٰ کی طرف سے (دنیا کی ) نعمتیں حاصل ہوں تو ا س صورت میں اس کے مال بھی ہے اور اولاد بھی اور پھر اس کا دین اور عزتِ نفس بھی برقرار رہے۔ بیشک مال و اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کشتِ زار ہے اور بعض لوگوں کے لئے اللہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتا ہے ۔ جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے رہو اور اتنا اس سے خوف کھاؤ کہ تمہیں عذر نہ کرنا پڑے ۔ عمل بے ریا کرو اس لئے کہ جو شخص کسی اور کے لئے عمل کرتا ہے ۔ اللہ اس کو اسی کے حوالہ کر دیتا ہے ہم اللہ سے شہیدوں کی منزلت نیکوں کی ہمدمی اور انبیاء کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔

<اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اوراس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے ۔ تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے ۔ جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے ۔

اسی خطبہ کا ایک جزیہ ہے ۔

<دیکھو تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو اس امداد سے دُور کرنے میں پہلو تہی نہ کرے جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے ۔ تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے شریف رضی فرماتے ہیں کہ یہاں پر غفیرة کے معنی کثرت و زیادتی کے ہیں اور یہ عربوں کے قول الجم الغفیر اور الجماء الغفیر (اژدہام) سے ماخوذ ہے اور بعض روایتوں میں غفیرہ کے بجائے عفوہ ہے اور عفوہ کسی شے کے عمدہ اور منتخب حصہ کو کہتے ہیں۔ یوں کہا جاتا ہے اکلت عفو ة الطعام یعنی میں نے منتخب اور عمدہ کھانا کھایا ۔ ومن یقبض یدہ عن عشیرتہ (تا آخر کلام) کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس جملہ کے معنی کتے حسین و دلکش ہیں ۔ حضرت کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے قبیلہ سے حُسنِ سلوک نہیں کرتا س نے ایک ہی ہاتھ کی منفعت کو روکا۔ لیکن جب ان کی امداد کی ضرورت پڑے گی ۔ اور ان کی ہمدردی و اعانت کے لیے لاچار و مضطر ہو گا تو وہ ان سے بہت سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں کی ہمدردریوں اور چارہ سازیوں سے محروم ہو جائے گا۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم! میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رُو رعایت اور سستی نہیں کروں گا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کے غضب سے بھاگ کر اس کے دامنِ رحمت میں پناہ لو، اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلو اور اسکے عائد کردہ احکام بجالاؤ (اگرایسا ہو تو ) علی تمہاری نجات اُخروی کا ضامن ہے ۔ اگرچہ دنیوی کامرانی تمہیں حاصل نہ ہو۔

<جب امیر الموٴمنین (ع)  کو پے در پے یہ اطلاعات ملیں کہ مُعاویہ کے اصحاب (آپ کے مقبوضہ) شہروں پر تسلط جما رہے ہیں اور یمن کے عامل عبیداللہ ابنِ عباس اور سپہ سالارِ لشکر سعید ابن ِنمران بسر ابن ابی ارطات سے مغلوب ہو کر حضرت کے پاس پلٹ آئے تو آپ اپنے اصحاب کی جہاد میں سُستی اور رائے کی خلاف ورزی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا۔

<یہ عالمہے اس کوفہ کا، جس کا بندوبست میرے ہاتھ میں ہے (اسے شہر کوفہ) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں، تو خدا تجھے غارت کرے ۔  پھر آپ نے شاعر کا یہ شعر بطورِ تمثیل پڑھا۔

<اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم، مجھے تو اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے ) مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے ۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز ) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے ۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔ اے اللہ وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے ۔ وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے ۔ وہ مجھے سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے ۔ مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے میں انہیں کوئی اور بُرا حاکم دے ۔ خدا یا ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے ) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے ۔ خدا کی قسم میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس بنی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے یہ بیان کیا ہے کہ ) اگر تم کسی موقعہ پر انھیں پکارو، تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں اس کے بعد حضرت منبر سے نیچے آتر آئے۔

<سید رضی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس شعر میں لفظِ ارمیہ، رمی کی جمع ہے، جس کے معنی اَبر کے ہیں اور حمیم کے معنی یہاں پر موسمِ گرم کے ہیں اور شاعر نے گرمیوں کے ابر کی تخلیق اس لئے کی ہے کہ وہ سریع السیر اور تیز ہوتا ہے اور ابر سست گام اس وقت ہوتا ہے جب اس میں پانی بھرا ہوا ہو اور ویسے ابرِ <(ملک ِ عرب) عموماً سردیوں میں اٹھتے ہیں۔ اس شعر سے شاعر کا مقصود یہ ہے کہ انہیں جب مدد کے لئے پکارا جاتا ہے ا ور ان سے فریاد سی کی جاتی ہے تو وہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور اس کی دلیل شعر کا پہلا مصرع ہے ۔ ھنالک لود عوت اتاک منھم (اگر تم پکارو تو وہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے ۔

جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے

<یقینا  <اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لیۓ عذاب الہی سے ڈرانے والا اور تنزیل کا امانت دار بنا کر اس وقت بھیجا ہے جب تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے۔ کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے ۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے ۔ بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے ۔

اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے(بیعت کے ہنگام)

<میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو مجھے اپنے اہل بیت علیہ السلام کے علاوہ کوئی اپنا معین و مددگار نظر نہ آیا۔ میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں پھندے تھے مگر میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پی لئے اور گلوگر تنگی کے باوجود متطل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا ۔

<یاد رکھو! عمرو عاص نے معاویہ کی بیعت اس وقتنہیں کی جب تک کہ بیعت کی قیمت نہیں طے کر لی ۔ خدا نے چاہا تو بیعت کرنے والے کا سودا کامیاب نہ ہو گا اور بیعت لینے والے کو بھی صرف رسوائی ہی نصیب ہو گی ۔

<لہذا اب جنگ کا سامان سنبھال لو اور اس کے اسباب مہیا کر لو کہ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور لپٹیں بلند ہو چکی ہیں اور دیکھو صبر کو اپنا شعار بنا لو کہ یہ نصرت و کامرانی کا بہترین ذریعہ ہے ۔

( <جو اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ معاویہ کے لشکر نے انبار پر حملہ کر دیا ۔ اس خطبے میں جہاد کی فضیلت  کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا  گیا ہے اور اپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نافرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی  گئی ہے ۔   

<جہادجنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کے لئے کھولا ہے ۔  یہ پرہیز گاری کا لباس اللہ کی محکم زرہ اور مضبوط سپر ہے جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے ۔ خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی روا اوڑھا دیتا ہے اور ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے ۔ اور مدہوشی و غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے ۔ اور جہاد کو ضائع و بربا د کرنے سے حق اس کے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے ۔ ذلت اسے سہنا پڑتی ہے اور انصاف اس سے روک لیا جاتا ہے ۔ میں نے اس قوم سے لڑنے کے لئے رات بھی اور دن بھی علانیہ بھی اور پوشیدہ بھی تمہیں پکارا اور للکارا، اور تم سے کہا کہ قبل اس سے کہ وہ جنگ کے لئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو۔ خدا کی قسم جن افراد قوم پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے ۔ وہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پرٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے ۔ یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔ اسی بنی غامدکے آدمی (سفیان ابنِ عوف) ہی کو دیکھ لو کہ اس کی فوج کے سوار (شہر) انبارکے اندر پہنچ گئے اور حسان ابنِ حسان بکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا اور مجھے تو  یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور اس کے پیروں سے کڑے (ہاتھوں سے کنگن) او گلو بند اور گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا ۔ سوا اس کے کہ اِنّاَ لِلہِ وَ اِنّاَ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہتے صبر سے کام لیں یا خوشامدیں رک کے اس سے رحم کی التجا کریں۔ وہ لدے پھندے ہوئے پلٹ گئے ۔ نہ کسی کے زخم آیا نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مرجائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا ۔ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے ۔ تمہارا بُرا ہو ۔ تم غم و حزن میں مبتلا رہو۔ تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو، تمہیں ہلاک و تاراج کیا جا رہا ہے مگر تمہارے قدم حملے کے لئے نہیں اٹھتے ۔ وہ تم سے لڑ بھڑ رہے ہیں اور تم جنگ سے جی چراتے ہو۔ اللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں اور تم راضی ہو رہے ہو۔ اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے ۔ اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کازور ٹوٹ جائے ۔ اور اگر سردیوں میں چلنے کے لئے کہتا ہوں ۔ تو  تم یہ کہتےہو کہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا ہے، اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے ۔ یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کے لئے باتیں ہیں۔ جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو تو پھر خدا کی قسم! تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیںزیادہ بھاگو گے ۔ اسے مردوں کی شکل و صورت والے نامردو! تمہاری عقلیں بچوںکی سی، اور تمہاری حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے ۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی ۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے ۔ اللہ تمہیں مارے، تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے ۔ اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے ۔ تم نے مجھے غم و غزن کے جرعے پَے در پَے پلائے، نافرمانی کرکے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا۔ یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ علی ہے تو مردِ شجاع ۔ لیکن جنگ کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔

<اللہ ان کا بھلا کرے ، کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھے سے زیادہ جنگ کی مذلت رکھنے والا اور میدانِ و نما میں میرے پہلے سے کارِ نمایا کئے ہوئے ہو، میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھا کہ حرب و ضرب کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور اب تو ساٹھ سے اوپر ہو گیا ہوں، لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے۔

( <جو اس خطبے کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کا آغاز " <الحمد للہ غیر مقنوط من رحمتھ " سے ہوا ہے اوراس میں گیارہ تنبیہات ہیں  )

<دنیانے پیٹھ پھیر کر اپنے رخصت ہونے کا اعلان اور منزل عقبیٰ نے سامنے آ کر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے ۔ آج کا دن تیاری کا ہے اور کل دوڑ کا ہو گا ۔ جس طرف آگے بڑھنا ہے، وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاص (اپنے اعمال کی بدولت بلا اختیار پہنچ جائیں گے وہ دوزخ ہے کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں اور کیا اس روز مصیبت کے آنے سے پہلے عمل (خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں، تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگامہ ہے ۔ تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے تو یہ عمل اُس کیلئے سودمند ثابت ہوتا ہے اور موت اُس کا کچھ بگاڑ  نہیں سکتی اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے تو وہ عمل کے اعتبار سے نقصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کیلئے پیغام ضرر لے کر آتی ہے ۔ لہٰذا جس طرح اس وقت جب ناگوار حالات کا اندیشہ ہو نیک اعمال میں منہمک ہوتے ہو، ویسا ہی اس وقت بھی نیک اعمال کرو جب کہ مستقبل کے آثار مسرت افزا محسوس ہو رہے ہوں۔ مجھے جنت ہی ایسی چیز نظر آتی ہے جس کا طلب گار سویا پڑا ہو اور جہنم ہی ایسی شے دکھائی دیتی ہے جس سے دور بھاگنے والاخواب غفلت میں محو ہو، جو حق سے فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے باطل کا نقصان و ضرر متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خطرہ ہے ۔ ایک خواہشوں کی پیروی اوردوسرے امیدوں کا پھیلاوٴ۔ لہذا جب تک اس دنیا میں ہو اس دنیا سے وہ زاد راہحاصل کر لو جس کے ذریعے کل اپنے نفس کا تحفظ کر سکو ۔

<سید <رضیکہتے ہیں کہ اگر کوئی کلام گردن پکڑ کر زہد و نیوی کی طرف لانے والا اور عمل اخروی کیلئے مجبور و مضطر کر دینے والا ہو سکتا ہے تو وہ کلام ہے جو امیدوں کے بندھنوں کو توڑنے اور  وعظ و سرزنش سے اثر پذیری کے جذبات کو مشتعل کرنے کیلئے کافی و وافی ہے ۔ اس خطبے میں یہ جملہ ”الاوالیوم المصمار و غذا السباق السبعة الجنة و الغایة النار“ تو بہت ہی عجیب و غریب ہے ۔ اس میں لفظوں کی جلالت، معنی کی بلندی، سچی تمثیل اور صحیح تشبیہ کے ساتھ عجیب اسرار اور باریک نکات ملتے ہیں۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا”السبعة الجنة و الغایة النار“ میں بمعتی مقصود کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے دو جداگانہ لفظیں ”السبقة الغلیة“ استعمال کی ہیں۔ جنت کیلئے لفظ ”سبقة“(بڑھنا) فرمائی ہے اور جنہم کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ سبقت اس چیز طرف کی جاتی ہے جو مطلوب و مرعوب ہو اور یہ بہشت ہی کی شان ہے اور دوزخ میں مظلوبیت و مرغوبیت کہاں کہ اس کی جستجو و تلاش میں بڑھا جائے ۔ (نعوذ باللہ منہا ) چونکہ البقة النار کہنا صحیح و درست نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لئے والغایة النار فرمایا اور غایت صرف منزل منتہا کو کہتے ہیں۔ اس تک پہنچنے والے کو خواہ رنج و کوفت ہو یا شادمانی و مسرت ۔ یہ ان دونوں معنوں کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہر صورت اسےمصبر و مآل (باز گشت ) کے معنی میں سمجھنا چاہیے اور ارشاد قرآنی ہے ۔ ”قُلتَمَنْعُوا فَانً مَصِبْرَ کُمْ اِلَی النًار“(کہو کہ تم دنیا سے اچھی طرح حظ اٹھا لو تو تمہاری باز گشت جہنم کی طرف ہے ) یہاں مصبر کم کی بجائے سیقنکم کہنا کسی طرح صحیح و درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس میں غور و فکر کرو اور دیکھو کہ اس کا باطن کتنا عجیب اور اس کا گہراوٴ نطافتوں کو لئے ہوئے کتنی دور تک چلا گیا ہے اور حضرت امام علی علیہ السلام کا بیشتر کلام اسی انداز پر ہوتا ہے اور بعض روایتوں میں ”السبقة بصم سین“ بھی آیا ہے اور سبقة اُس مال و متاع کو کہتے ہیں جو آگے نکل جانے والے کیلئے بطور انعام رکھا جاتا ہے ۔ بہر صورت دونوں کے معنی قریب قریب یکساں ہیں اس لئے کہ معاوضہ و انعام کسی قابل مذمت فعل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی اچھے اور لائق ستائش کارنامے کے بدلے ہی میں ہوتا ہے

<جب تحکیم کے بعد معاویہ کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قافلہ پر حملہ کر دیا اور حضرت کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے یہ خطبہ ارشاد فرمایا :

<اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں جُدا جُدا ہیں تمہاریباتیں تو سخت پتھروں کو بھی نرم کر دیتی ہیں، اور تمہارا عمل ایسا ہے کہ جو دشمنوں کو تم پر دندان آز تیز کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔ اپنی مجلسوں میں تو تم کہتے پھرتے ہو کہ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے فاور جب جنگ چھڑ ہی جاتی ہے، تو تم اس سے پناہ مانگنے لگتے ہو، جو تم کو مدد کے لئے پکارے اسکی صدا بے دقعت اور جس کا تم جیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہو، اس کا دل ہمیشہ بے چین ہے ۔ حیلے حوالے ہیں غلط سلط اور مجھ سے جنگ میں تاخیر کرنے کی خواہشیں ہیں۔ جیسے نادہند مقروض اپنے قرض خواہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتا اور حق تو بغیر کوشش کے نہیں ملا کرتا۔ اس گھر کے بعد اور کون سا گھر ہے۔ جس کی حفاظت کرو گے اور میرے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کر جہاد کرو گے۔ خدا کی قسم جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو اس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور جسے تم جیسے لوگ ملے ہوں تو اس کے حصہ میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے اور جس نے تم کو (تیروں کی طرح) دشمنوں پر پھینکا ہو، اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے، جس کا سوفار لُوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو ۔ خدا کی قسم! میری کیفیت تو اب یہ ہے نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی آس مجھے باقی رہی، اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں۔ تمہیں کیا ہو گیا، تمہارا مرض کیا ہے اور اس کا چارہ کیا ہے اس قوم (اہلِ شام ) کے افراد بھی تو تمہاری ہی شک و صورت کے مرد ہیں، کیا باتیں ہیباتیں رہیں گی۔ جانے بُوجھے بغیر اور صرف غفلت و مدہوشی ہے ۔ تقویٰ و پرہیز گاری کے بغیر (بلندی کی) حرص ہی حرص ہے ۔ مگر بالکل ناحق۔

قتلِ عثمان کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا:

<اگر میں  ان کے قتل کا حکم دیتا، تو البتہ ان کا قاتل ٹھہرتا اور اگران کے قتل سے (دوسروں کو ) روکتا تو ان کا معاون و مدد گار ہوتا (میں بالکل غیر جانبدار رہا) لیکن حالات ایسے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی نصرت و امداد کی، وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم ان کی نصرت نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں، اور جن لوگوں نے ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا وہ نہیں خیال کرتے کہ ان کی مدد کرنے والے ہم سے بہتر و برتر ہیں ۔ میں حقیقت امر کو تم سے بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے (اپنے عزیزوں کی) طرف دار کی، تو طرف داری بُری طرح کی اور تم گھبرا گئے ، تو بُری طرح گھبرا گئے اور (ان دونوں فریق) بے جا طرف داری کرنے والے، گھبرا اٹھنے والے کے درمیان اصل فیصلہ کرنے والا اللہ ہے ۔

<جب جنگ ِ جمل شروع ہونے سے پہلے حضرت نے ابن عباس کو زبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں اطاعت کی طرف پلٹائیں، تو اس موقعہ پر ان سے فرمایا:

<طلحہسے ملاقات نہ کرنا۔ اگر تم اس سے ملے ، تو تم اس کو ایک ایسا سرکش بیل پاؤگے ۔ جس کے سینگ کانوں کی طرف مڑے ہوئے ہوں۔ وہ منہ زور سواری پر سوارہوتا ہے اور پھر کہتا یہ ہے کہ یہ رام کی ہوئی سواری پر سوار ہوتا ہے اورپھر کہتا یہ ہے کہ یہ رام کی ہوئی سواری ہے بلکہ تم زبیر سے ملنا اس لئے کہوہ نرم طبیعت ہے اور اس سے یہ کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں تو مجھ سے جان پہنچا ن رکھتے تھے اور یہاں عراق میں آکر بالکل اجنبی بن گئے ۔ آخر اس تبدیلی کا کیا سبب ہے ۔ علامہ رضی فرماتے ہیںکہ اس کلام کا آخری جملہ ” فما عد اممابدا“ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تبدیلیکا کیا سبب ہوُا۔ سب سے پہلے آپ ہی کی زبان سے سنا گیا ہے ۔

<اے لوگو ! ایک ایسے کج رفتار زمانہ اور ناشکر گذار دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ جس میں نیکو کار کو خطا کار سمجھا جاتا ہے , اور ظالم اپنی سرکشی میں بڑھتا ہی جاتا ہے. جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں, ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جن چیزوں کو نہیں جانتے, انہیں دریافت نہیں کرتے اور جب تک مصیبت آ نہیں جاتی, ہم خطرہ محسوس نہیں کرتے. (اس زمانے کے ) لوگ چار طرح کے ہیں. کچھ  وہ ہیں جنہیں مفسدہ انگیزی سے مانع صرف ان کے نفس کا بے وقعت ہونا, ان کی دھار کا کند ہونا. اور ان کے پاس مال کا حاکم ہونا ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جو تلواریں سونتے ہوئے علانیہ شر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کر رکھے ہیں. صرف کچھ مال بٹورنے کسی دستہ کی قیادت کرنے, یا منبر پر بلند ہونے کے لئے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے کتنا ہی بُرا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو. اور کچھ لوگ وُہ ہیں جو آخرت والے کاموں سے دنیا طلبی کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں سے بھی آخرت کا بنانا مقصود رکھیں. یہ اپنے اوپر بڑا سکون و وقار طاری رکھتے ہیں. آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں اور دامنوں کو اوپر کی طرف سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنے نفسوں کو اس طرح سنوار لیتے ہیں کہ لوگ انہیں امین سمجھ لیں. یہ لوگ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر اس کا گناہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور ساز و سامان کی نافراہمی ملک گیری کے لئے اٹھنے نہیں دیتی. ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ و عاجز کر دیا ہے. اس لئے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے کو سج لیا ہے. حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی وقت کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا. اس کے بعدتھوڑے سے وہ لوگ رہ گئے جن کی آنکھیں آخرت کی یاد اور حشر کے خوف سے جھکیہوئی ہیں. جو دنیا والوں سے الگ تھلگ تنہائی میں پڑے ہیں. اور کچھ خوف وہراس کے عالم میں ذلتیں سہہ رہے ہیں, اور بعض نے اس طرح چپ سادھ لی ہے کہگویا ان کے منہ باندھ دیئے گئے ہیں. کچھ خلوص سے دُعائیں مانگ رہے ہیں کچھغم زدہ و درد رسیدہ ہیں. جنہیں خوف نے گمنامی کے گوشہ میں بٹھا دیا ہے اورخستگی و درماندگی ان پر چھائی ہوئی ہے وہ ایک شور دریا میں ہیں. (کہ باوجود پانی کی کثرت کے پھر وہ پیاسے ہیں) ان کے منہ بند اور دل مجروح ہیں. انہوں نے لوگوں کو اتنا سمجھایا, بجھایا, کہ وہ اکتا گئے اور اتنا ان پر جبر کیا گیا کہ وہ بالکل دب گئے اور اتنے قتل کئے گئے کہ ان میں (نمایاں) کمی ہوگئی. اس دنیا کو تمہاری نظروں میں کیکر کے چھلکوں اور ان کے ریزوں سے بھی زیادہ حقیر و پست ہونا چاہیئے اور اپنے قبل کے لوگوں سے تم عبرت حاصل کر لو. اس سے قبل کہ تمہارے حالات سے بعد والے عبرت حاصل کریں اور اس دنیا کی بُرائی محسوس کرتے ہوئے اس سے قطع تعلق کرو. اس لئے کہ اس نے آکر میں ایسوں سے قطع تعلق کر لیا جو تم سے زیادہ اس کے والہ و شیدا تھے .

<سیدرضی فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی لاعلمی کی بناء  پر اس خطبہ کو معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ یہ امیر المومنین علی السلام کا کلا م ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں. بھلا سونے کی متی سے کای نسبت اور شیریں پانی کو شور پانی سے کیا ربط. چنانچہ اس وادی میں راہ دکھانے والے ماہرِ فن اور پرکھنے والے با بصیرت عمر و ابن بحر جا حظ نے اس کی خبر دی ہے, اور اپنی کتاب "البیان والتبین"  میں اس کا ذکر کیا ہے اور ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے, جنہوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب کی اہے اس کے بعد کہا ہے کہ یہ کلام علی علیہ السلام کے کلام سے ہُو بہُو ملتا جلتا ہے اور اس میں جو لوگوں کی تقسیم اور ان کی ذلت و پستی اور خوف و ہراس کی حالت بیان کی ہے, یہ آپ ہی کے مسلک سے میل کھاتی ہے. ہم نے تو کسی حالت میں بھی معاویہ کو زاہدوں کے انداز اور عابدوں کے طریقہ پر کلام کرتے ہوئے نہیں پایا.

<امیر المومنین جب اہل بصرہ سے جنگ کے لئے نکلے تو عبداللہ بن عباس کہتےہیں کہ میں مقامِ ذی قار میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپاپنا جوتا ٹانک رہے ہیں. (مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اے ابنِ عباس اس جوتے کیکیا قیمت ہو گی ؟) میں نے کہا کہ اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہو گی, تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا ہو تو تُم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے. پھر آپ باہر تشریف لائے اور لوگوں میں یہ خطبہ دیا.

<اللہ نے محمد (ص) کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار. آپ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا, اور نجاتکی منزل پر پہنچا دیا. یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے. خدا کی قسم ! میں بھی ان لوگوں میں تھا جو اس صورت حال میں انقلاب پیدا کر رہے تھے. یہاں تک کہ انقلاب مکمل ہر گیا. میں نے (اس کام میں ) نہ کمزوری دکھا ئی نہ بزدلی سے کام لیا. اور اب بھی میرا اقدام ویسے ہی مقصد کے لئے ہے تو سہی جو میں باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلے سے نکال لُوں. مجھے قریش سے وجہ نزاع ہی اور کیا ہے. خدا کی قسم! میں نے تو ان سے جنگ کی, جبکہ وہ کافر تھے اور اب بھی جنگ کروں گا جبکہ وہ باطل کے ور غلانے میں آچکے ہیں اور جس شان سے مَیں کل اُن کا مد مقابل رہ چکا ہوں, ویسا ہی آج ثابت ہو ں گا.

<لوگوں کو اہلِ شام سے آمادہ جنگ کرنے کے لئے فرمایا. حیف ہے تم پر, میںتو تمہیں ملامت کرتے کرتے بھی اُکتا گیا ہوں کیا تمہیں آخرت کے بدلے دنیویزندگی اور عزت کے بدلے ذلّت ہی گوارا ہے. جب تمہیں دشمنوں سے لڑنے کے لئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح گھومنے لگ جاتی ہیں کہ گویا تم موت کے گرداب میں ہو اور جان کنی کی غفلت اور مدہوشی تم پر طاری ہے میری باتیں جیسے تمہاری سمجھ ہی میں نہیں آتیں, تو  تم ششدر رہ جاتے ہو. معلوم ہوتا ہے. جیسے تمہاری دل و دماغ پر دیوانگی کا اثر ہے کہ تم کچھ عقل سے کام نہیں لے سکتے. تم ہمیشہ کے لئے مجھ سے اپنا اعتماد کھو چکے ہو. نہ تم کوئی قوی سہارا ہو کہ تم پر بھروسہ کر کے دشمنوں کی طرف رُخ کیا جائے. اور نہ تم عزت و کامرانی کے وسیلے ہو, کہ تمہاری ضرورت محسوس ہو, تمہاری مثال تو ان اونٹوں کی سی ہے. جن کے چرواہے گُم ہو گئے ہوں, اگر انہیں ایک طرف سے سمیٹا جائے, تو دوسری طرف سے تِتر بتر ہو جائیں گے. خدا کی قسم تم جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے ہو. تمہارے خلاف سب تدبیریں ہوا کرتی ہیں اور تم دشمنوں کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کرتے. تمہارے (شہروں کے ) حدود (دن بہ دن ) کم ہوتے جا رہے ہیں. مگر تمہیں غصہ نہیں آتا. وہ تمہاری طرف سےکبھی غافل نہیں ہوتے, اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو. خدا کیقسم ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں. خدا کی قسم میں تمہارےمتعلق یہ گمان رکھتا ہوں کہ اگر جنگ زور پکڑ لے اور موت کی گرم بازاری ہو, تو تم ابن ابی طالب سے اس طرح کٹ جاؤ گے, جس طرح بدن سے سَر ( کہ دوبارہ پلٹنا ممکن ہی نہ ہو ) جو شخص کہ اپنے دشمن کو اس طرح اپنے پر قابو دے دےکہ وہ اس کی ہڈیوں سے گوشت تک اڑا ڈالے, اور ہڈیوں کو توڑ دے, اور کھال کو پارہ پارہ کردے, تو اس کا عجز انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور سینے کی پسلیوں میں گھرا ہوا (دل) کمزور و ناتواں ہے. اگر تم ایسا ہونا چاہتے ہو تو ہوا کرو. لیکن میں تو ایسا اس وقت تک نہ ہونے دوں گا. جب تک مقام مشارف کی (تیز دھار) تو لاریں چلا نہ لوں کہ جس سے سَر کی ہڈیوں کے پرخچے اڑ جائیں, اور بازو اور قدم کٹ کٹ کر گرنے لگیں. اس کے بعد جو اللہ چاہے, وہ کرے .

<اےلوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے, اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں, جس پر تم عمل کرو اور میرا تُم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو, اور سامنے اور پسِ پشت خیر خواہی کرو, جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو, اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو.

  <یہ جملہ ایسی علٰیحدگی کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ جس کے بعد پھر مل بیٹھنے کی کوئی آس نہ رہے. صاحبِ درہ نجفیہ نے اس کی توجیہ میں چند اقوال نقل کئے ہیں:

(الف)  <ابنِ درید کا قول یہ ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح سَر بدن سے کٹ جاتا ہے, تو پھر اس کا جڑنا ناممکن ہوتا ہے. یُونہی تم ایک دفعہ ساتھچھوڑنے کے بعد پھر مجھ سے نہ مل سکو گے .

(ب)   مفضل کا قول ہے کہ راس (سَر) ایک شخص کا نام تھا اور شام کا ایک گاؤں " بیت الراس"  اسی کے نام پر ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا. اور پھر پلٹ کر اپنے گاؤں میں نہ آیا. جس سے یہ کہاوت چل نکلی, کہ تم تو یوں گئے جس طرح راس گیا تھا.

(ج)  ایک معنی یہ ہیں کہ جس طرح سر کی ہڈیوں کے جوڑ الگ الگہو جائیں تو پھر آپس میں جڑا نہیں کرتے, یُونہی تم مجھ سے کٹ کر پھر نہ جڑسکو گے .

(د)  یہ بھی کہا گیا ہے کہ جُملہ "الفرجتم عنی راسا" (یعنی تم پورے طور پر مجھے سے الگ ہو جاؤ گے ) کے معنی میں ہے. شارح معتزلی نے یہ معنی قطب الدین راوندی کی شرح سے نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ یہ معنی درست نہیں ہیں. کیونکہ راس جب کلیتہً کے معنی میں آتا ہے, تو اس پر الف لام داخل نہیں ہوا کرتا.

(ڈ)  اس کے یہ معنی بھی کئے جاتے ہیں کہ تم مجھ سے اس طرح دامن چھڑا کر چلتے بنو گے, جس طرح کوئی سر بچا رک بھاگ کھڑا ہوتا ہے. اس کے علاوہ ایک آدھ معنی اور بھی کہے گئے ہیں مگر بعید ہونے کی وجہ سے انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے.

<سب سے پہلے اس کااستعمال حکیم عرب اکثم ابنِ صیفی نے اپنے بچوں کو اتفاق و اتحاد کی تعلیمدیتے ہوئے کیا. چنانچہ اس کا قول ہے کہ :

<بیٹو! سختی کے وقت ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جانا, ورنہ پھر کبھی ایک جگہ جمع نہ ہو سکو گے . 

<تحکیم کے بعد فرمایا: (ہر حالت میں ) اللہ کے لئے حمدو ثنا رہے. گوزمانہ (ہمارے لیے ) جانکاہ مصیبتیں اور صبر آزما حادثے لے آیا ہے. میںگواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتاؤ لا شریک ہے. اس کےساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں اور محمد (ص) اس کے عبد اور رسول (ص) ہیں.

(تمہیںمعلوم ہونا چاہیئے کہ ) مہربان, باخبر اور تجربہ کار ناصح کی مخالفت کا ثمرہ, حسرت و ندامت ہوتا ہے میں نے اس تحکیم کے متعلق اپنا فرمان سُنا دیا تھا, اور اپنی قیمتی رائے کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ دیا تھا. کاش کہ "قصیر " کا حکم مان لیا جاتا. لیکن تُم تو تُند خو مخالفین اور عہد شکن نافرمانوں کی طرح انکار پر تُل گئے. یہاں تک کہ ناصح خود اپنی نصیحت کے متعلق سوچ میں پڑ گیا, اور طبیعت اس چقماق کی طرح بجھ گئی کہ جس نے شعلے بھڑکانا بند کر دیا ہو میرے اور تمہاری حالت شاعر بنی ہو از ان کے اس قول کے مطابق ہے.

<میں نے مقامِ منعرج اللوی (ٹیلے کا موڑ) پر تمہیں اپنے حکم سے آگاہ کیا ( گو اس وقت تم نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا) لیکن دوسرے دن کی چاشت کو میری نصیحت کی صداقت دیکھ لی.

  <جب اہل عراق کی خونریز تلواروں سے شامیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور لیلة الہریر کے تابڑ توڑ حملوں نے ان کے حوصلے پست اور وَلوے ختم کر دیئے تو عمرو بن عاص نے معاویہکو یہ چال سُو جھائی کہ قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے اسے حَکَم ٹھہرانے کا نعرہ لگایا جائے. جس کا اثر یہ ہو گا کہ کچھ لوگ جنگ کو  رکوانا چاہیں گے اور کچھ جاری رکھنا چاہیں گے اور ہم اس طرح ان میں صھوٹ ڈلوا کر جنگ کو دوسرے موقعہ کے لئے ملتوی کرا سکیں گے. چنانچہ قرآن نیزوں پر بلند کئے گئے. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند سر پھروں نے شور و غوغا مچا کر تمام لشکر میں انتشار و برہمی پیدا کر دی, اور دادہ لوح مسلمانوں کی سرگرمیاں فتح کے قریب پہنچ کر دھیمی پڑ گئیں اور بے سوچے سمجھے پکارنے لگے کہ ہمیں جنگ پر قرآن کے فیصلے کو ترجیح دینا چاہیئے.

<امیر المومنین علیھ السّلام نے جب قرآن کو آلہ کا ربنتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اے لوگو! اس مکر و فریب میں نہ آؤ. یہ صرف شکست کی رو سیاہیوں سے بچنے کے لئے چال چل رہے ہیں. میں ان میں سے ایک ایک کی سیرت کو جانتا ہوں. نہ یہ قرآن والے ہیں, اور نہ دین و مذہب سے انہیں کوئی لگاؤ ہے. ہمارے جنگ کرنے کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ یہ لوگ قرآن کو مانیں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں. خدا کے لئے ان کی فریب کاریوں میں نہ آؤ. عزم و ہمت کے ولولوں کے ساتھ آگے بڑھو اور دم توڑتے ہوئے دشمن کو ختم کر کے دم لو. مگر باطل کا صر ف ریب حربہ چل چکا تھا, لوگطغیان و سرکشی پر اُتر آئے. سور ابن فد کی تمیمی اور زید ابنِ حصین طائی دونوں بیس ہزار آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھے, اور امیر المومنین سے کہا کہ اے علی ! اگر آپ نے قرآن کی آواز پر لبیک نہ کہی, تو پھر ہم آ کا وہی حشر کریں گے جو عثمان کا کیا تھا. آپ فوراً جنگ ختم کرائیں اور قرآن کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کریں. حضرت نے بہت سمجھانے بجھانے کی کوشش کی, لیکن شیطان قرآن کا جامہ پہننے ہوئے سامنے کھڑا تھا. اس نے ایک نہ چلنے دی. اور ان لوگوں نے امیرالمومنین کو مجبور کر دیا کہ وہ کسی کو بھیج کر مالک اشتر کو میدان جنگ سے واپس لوٹا میںَ. حضرت نے لاچار ہر کر یزید ابنِ ہانی کو مالک کے بُلانے کے لئے بھیجا. مالک نے جب یہ حکم سنا تو وہ چکرا سے گئے اور کہا کہ ان سے کہیے کہ یہ موقعہ مورچہ سے الگ ہونے کا نہیں ہے. کچھ دیر توقف فرمائیں تو میں نوید فتح لے کر حاضرِ خدمت ہوتا ہوں. یزید ابن ہانی نے پلٹ کر یہ پیغامِ دیا تو لوگوں نے غُل مچایا کہ آپ نے چپکے سے انہیں جنگ پر جمے رہنے کے لئے کہلوا بھیجا ہے. حضرت نے فرمایا کہ مجھے اس کا موقعہ کہاں ملا ہے کہ میں علٰیحدگی میں اسے کوئی پیغام دیتا. جو کچھ کہا ہے تمہارے سامنے کہا ہے. لوگوں نے کہا آپ اسے دوبارہ بھیجیں اور اگر مالک نے آنے میں تاخیر کی, تو پھر آپ اپنی جان سے ہاتھ دھو لیں. حضرت نے ہانی کو پھر روانہ کیا اور کہلوا بھیجا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ہے. جس حالت میں ہو فوراً آؤ. چنانچہ ہانی نے مالک سے جا کر کہا کہ تمہیں فتح عزیز ہے یا امیرالمومنین کی جان! اگر ان کی جان عزیز ہے , تو جنگ سے ہاتھ اٹھاؤ اور ان کے پاس پہنچو. مالک فتح کی کامرانیوں کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حسرت و اندوہ لئے ہوئے حضرت کی خدمت میں پہنچے, وہاں ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا. آپ نے لوگوں کو بہت بُرا بھلا کہا. مگر حالات اس طرح پلٹا کھا چکے تھے کہانہیں سدھارا نہ جا سکتا تھا.

<اب یہ طے پایا کہ دونوں فریق میں سے ایک ایک حَکَم منتخب کر لیا جائے تاکہ وہ قرآن و سنت کے مطابق خلافت کا فیصلہ کریں. معاویہ کی طرف سے عمرو ابن ُ عاص قرار پایا, اور حضرت کی طرف سے لوگوں نے ابو مُوسیٰ اشعری کا نام پیش کیا. حضرت نے اس غلط انتخاب کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم نے تحکیم کے بارے میں میرا حکم نہیں مانا, تو اتنا تو کرو کہ اس (ابو موسیٰ) کو حَکَم نہ بناؤ. یہ بھروسے کا آدمی نہیں ہے. یہ عبداللہ ابن عباس ہیں, یہ مالک اشتر ہیں. ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو. مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور اسی کے نام پر اَڑ گئے. حضرت نے فرمایا کہ اچھا جو چاہو کرو. اور وُہ بدن دُور نہیں ہے کہ اپنی بے راہ رویوں پر اپنے ہاتھ کاٹو گے .

<حَکَمیں کی نامزدگی کے بعد جب عہد لکھا جانے لگا, تو علی ابنِ ابی طالب کے نام کے ساتھ امیر المومنین لکھا گیا. عمرو ابنِ عاص نے کہا کہ اس لفظ کو مٹا دیا جائے. اگر ہم انہیں امیر المومنین سمجھتے ہوتے, تو یہ جنگ ہی کیوں لڑی جاتی. حضرت نے پہلے تو اسے مٹانے سے انکار کیا اور جب وہ کسی طرح نہ مانے, تو اسے مٹا دیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ حدیبیہ کے واقعہ سے بالکل ملتا جلتا ہے کہ جب کفار اس پر اَڑ گئے تھے کہ پیغمبر (ص) کے نام کے ساتھ رسول (ص) اللہ کی لفظ مٹا دی جائے اور پیغمبر (ص) نے اسے مٹا دیا. اس پر عمر و ابن عاص نے بگڑ کر کہا کہ کیا آپ ہمیں کفار کی طرح سمجھتے ہیں. حضرت نے فرمایا کہ تمہیں کس دن ایمان والوں سے لگاؤ رہا ہے, اور کب ان کے ہمنوا رہے ہو. بہر صورت اس قرار داد کے بعد لوگ منتشر ہو گئے اور ان دونوں حکموں نے آپس میں صلاح و مشورہ کرنے کےبعد یہ طے کیا کہ علی ابن ابی طالب اور معاویہ دونوں کو معزول کر کے لوگوںکو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں. جب اس کے اعلانکا وقت آیا, تو عراق اور شام کے درمیان مقام دومة الجندل میں اجتماع ہوا اور یہ دونوں حَکَم بھی مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ سنانے کے لئے پہنچ گئے. عمر و ابن عاص نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ابو موسیٰ سے کہا کہ میں آپ پر سبقت کرنا سوء اَدب سمجھتا ہوں. آپ سنِ وصال کے لحاظ سے بزرگ ہیں لہٰذا پہلے آپ اعلان فرمائیں. چنانچہ ابوُ موسیٰ تاننے میں آگئے اور جھوُمتے ہوئے مجمع کے سامنے آ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اےمسلمانوں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ علی ابن ابی طالب اور معاویہ کو معزولکر دیا جائے اور انتخاب ُ خلافت کا حق مسلمانوں کو دیدیا جائے, وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں (اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے) اب عمر و ابنِ عاص کی باری آئی اور اس نے کہا کہ اسے مسلمانو ! تم نے سن لیا ہے کہ ابوُ موسیٰ نے علی ابنِ ابی طالب کو معزول کر دیا ہے. میں بھی اس سے متفق ہوں. رہا معاویہ تو اس کے معزول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا, لہذا میں اسے اس جگہ پر نصب کرتا ہوں. یہ کہنا تھا کہ ہر طرف شور مچ گیا. ابو موسیٰ بہت چیخے چلائے کہ یہ دھوکا ہے فریب ہے اور عمرو ابنِ عاص سے کہا کہ تم نے چالبازی سے کام لیا اور تمہاری مثال اس کتے کی سی ہے کہ جس پر کچھ لا دو. جب ہانپے گا چھوڑ دو جب ہانپے گا. عمرو ابنِ عاص نے کہا کہ تمہاری مثال اس گدھے کی سی ہے, جس پر کتابیں لدی ہوں. غرض عمرو ابنِ عاص کی چالاکی کام کر گئی اور معاویہ کے اُکھڑے ہوئے قدم پھر سے جم گئے .

<یہ تھا اس تحکیم کا مختصر سا خاکہ جس کی اساس قرآن و سنت کو قرار دیا گیا تھا. مگر کیا یہ قرآن و سنت کا فیصلہ تھا, یا ن فریب کاریوں کا نتیجہ کہ جو دنیا والے اپنے اقتدار کو برقرا رکھنے کے لئے کام میں لایا کرتے ہیں. کاش کہ تاریخ کے ان اوراق کو مستقبل کے لئے مشعلِ راہ بنایا جائے, اور قرآن و سنت کو آڑ بنا کر حصول ُ اقتدار کا زریعہ اور دنیا طلبی کا وسیلہ نہ بننے دیا جائے .

<امیرالمومنین علیہ السلام کو جب تحکیم کے اس افسوس ناک نتیجہ کی اطلاع ملی, تو آپ منبر پر تشریف لائے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس کے لفظ لفظ سے آپ کا اندوہ و قلق جھلک رہا ہے اور ساتھ ہی آپ کی صحت, فکر و نظر, اصابت رائے اور دُور رس بصیرت پر بھی روشنی ڈالتا ہے .

  <یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کسی نصیحت کرنے والے کی بات ٹھکرا دی جائے اور بعد میں پچھتایا جائے. اس کا واقعہ یہ ہے کہ حیرہ کے فرمانروا جذیمہ ابرش نے جزیرہ کے تاجدار عمرو ابن طرب کو قتل کر دیا جس کے بعد اس کی بیٹی زبار جزیرہ کی حکمران قرار پائی. اُس نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے باپ کے انتقام لینے کی یہ تدبیر کی کہ جذیمہ کو  پیغام بھیجا کہ میں تنہا امور سلطنت کیانجام دہی نہیں کر سکتی. اگر تم مجھے اپنے حبالہ عقد میں لے کر میری سرپرستی کرو تو میں شکر گزار رہوں گی. جذیمہ اس پیش کش پر صھو لا نہ سمایا, اور ہزار سوار ہمراہ لے کر جزیرہ جانے کیلئے آمادہ ہو گیا. اس کے غلام قصیرنے بہت سمجھایا بجھایا کہ یہ دھوکا اور فریب ہے. اس خطرے میں اپنے باپ کےقاتل ہی کو کیوں منتخب کیا ہے. بہر صورت یہ چل کھڑا ہوا. اور جب حدود جزیرہمیں پہنچا تو گو زباء کا لشکر استقبال کے لیے موجود تھا, مگر نہ اس نے کوئی خاص آؤ بھگت کی, نہ پر ُتپاک خیر مقدم کیا. یہ رنگ دیکھ کر قصیر کا پھر ماتھا ٹنکا, اور اس نے جذیمہ سے پلٹ جانے کا کہا. مگر منزل کے قریب پہنچ کر آتشِ شوق اور بھڑک اٹھی تھی. اس نے پرواہ نہ کی اور قدم بڑھا کر شہر کے اندر داخل ہو گیا, وہاں پہنچتے ہی قتل کر ڈالا گیا. قصیر نے یہ دیکھا تو کہا لوکان یطاع لقصیر امر (کاش قصیر کی بات مان لی ہوتی ) اور اس وقت سے یہ مثل چل نکلی .

  <شاعر بنی ہوازن سے مراد دُرید ابنِ صمّہ ہے اور یہ شعر اس نے اپنے بھائی عبداللہ ابن صمّہ کے مرنے کے بعد کہا. جس کا واقعہ یہ ہے کہ عبداللہ اپنے بھائی کے ہمراہ بنی بکر ابن ہوازن پر حملہ آور ہوا اور ان کے بیت سے اونٹ ہنکا لایا . واپسی پر جب مقام منعرج اللوی میں سستانے کا ارادہ کیا تو درید نے کہا کہ یہاں ٹھہرنا مصلحت کے خلاف ہے. ایسا نہ ہو کہ پیچھے سے دشمن ٹوٹ پڑے. مگر عبداللہ نہ مانا اور وہاں ٹھہر گیا. جس کا نتیجہ یہ ہوا صبح ہوتے ہی دشمنوں نے حملہ کیا اور عبداللہ کو وہیں پر قتل کردیا. دُرید کے بھی زخم آئے. لیکن وہ بچ نکلا اور اس کے بعد چند اشعار کہے ان میں سے ایک شعر یہ ہے جس میں اس کی رائے کے ٹھکرا دیئے جانے سے جو تباہی آئی تھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے . 

<اہلُ نہروان کو ان کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں متنبّہ کررہا ہوں کہ تم لوگ اس نہر کے موڑوں اور اس نشیب کی ہموار زمینوں پر قتل ہو ہوکر گرے ہوئے ہو گے. اس عالم میں کہ نہ تمہارے پاس اللہ کے سامنے (عذر کرنے لے لیے) کوئی واضح دلیل ہو گی نہ کوئی روشن ثبوت. اس طرح کہ تم اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے اور پھر قضائے الٰہی نے تمہیں اپنے پھندے میں جکڑ لیا. میں نے تو تمہیں پہلے ہی اس تحکیم سے روکا تھا. لیکن تم نے میرا حکم ماننے سے مخالف پیمان شکنوں کی طرح انکار کر دیا. یہاں تک کہ (مجبوراً) مجھے بھی اپنی رائے کو ادھر موڑنا پڑا جو تم چاہتے تھے. تم ایک ایسا گروہ ہو جن کے افراد کے سَر عقلوں سے خالی, اور فہم و دانش سے عاری ہیں. خدا تمہارا بُرا کرے میں نے تمہیں نہ کسی مصیبت میں پھنسایا ہے, نہ تمہارا بُرا چاہا تھا.

  <جنگِ نہر وان کی وجہ یہ ہوئی کہ جب تحکیم کی قراردادکے بعد امیرالمومنین علیھ السّلام کوفہ کی طرف پلٹ رہے تھے, تو لوگ تحکیمکے منوانے میں پیش پیش تھے, یہ کہنے لگے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو حکمٹھہرانا کفر ہے, اور معاذا للہ امیر المومنین علیھ السّلام تحکیم کو مان کرکافر ہو گئے ہیں. چنانچہ انہوں نے "لاحکم الا اللہ " (حکم اللہ کے لئے مخصوص ہے ) کو غلط معنی پہنا کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا اور امیر المومنین سے کٹ کر کوفہ کے قریب مقامِ حروراء میں ڈیرے ڈال دیئے. امیر المومنین کو ان ریشہ دوانیوں کا علم ہوا تو آپ نے صعصعہ ابنِ صوحان اور زیاد ابنِ نضر حارثی کو ابنِ عباس کے ہمراہ ان کی طرف روانہ کیا اور بعد میں خود ان کی قیام گاہ تک تشریف لے گئے, اور انہیں سمجھا بُجھا کر منتشر کر دیا.

<جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ امیرالمومنین علیھ السّلام نے تحکیم کے معاہدہ کو توڑ ڈالا ہے اور وہ پھر سے شامیوں کے مقابلہ کے لئے آماده ہیں. حضرت کو معلوم ہوا تو آپ نے اس کی تردید فرمائی جس پر یہ لوگ فتنہ انگیزی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بغداد سے بارہ میل کے فاصلہ پر نہر فاصلہ پر نہر کے نشیبی حصہ کہ جسے" نہروان"  کہا جاتا ہے پڑاؤ ڈال دیا.

<ادھر امیر المومنین علیھ السّلام تحکیم کا فیصلہ سُن کر سپاهِ شام سے لڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور خوارج کو تحریر کیا کہ حکیمین نے کتاب و سنت کے بجائے خواہشِ نفسانی سے کام لیتے ہوئے جو فیصلہ کیا ہے وہ ہمیں منظور نہیں. لہذا ہم نے ان سے لڑنے کی ٹھان لی ہے. تم بھی ہمارا ساتھ دو تاکہ دشمن کی سرکوبی کی جائے. مگر خوارج نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ آپ نے جب تحکیم مان لی تھی, تو آپ ہمارے نزدیک کافر ہو گئے تھے. اب اگر آپ اپنے کفر کا اقرار کرتے ہوئے توبہ کریں تو  ہم اس معاملہ میں غور کریں گے اور سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے. حضرت نے ان کے جواب سے سمجھ لیا کہ ان کی سرکشی و گمراہی بہت شدید ہو گئی ہے. اب ان سے کسی قسم کی امید رکھنا بیکار ہے. لہٰذا آپ نے انہیں نظر انداز کر کے شام کی طرف کوچ کرنے کے لئے وادی نخیلہ میں پڑاؤ ڈال دیا. جب لشکر ترتیب دیا جا چکا, تو حضرت کو معلوم ہوا کہ لشکر کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اہل نہروان سے نپٹ لیں اور بعد میں شام کا رخ کریں. مگر حضرت نے فرمایا کہ ابھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو, پہلے شام کی طرف بڑھو, اور پھر انہیںدیکھ لیا جائے گا. لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے ہر حکم کے لئے بدل و جان حاضر ہیں. خواہ اِدھر چلئے یا ادھر چلئے لیکن ابھی لشکر نے حرکت نہ کی تھی, کہ خوارج کی شورش انگیزیوں کی خبریں آنے لگیں اور معلوم ہوا کہ انہوں نے عامل نہروان عبداللہ ابن خباب اور ان کی کنیز کو اس بچے سمیت جو اس کے شکم تھا, ذبح کر ڈالا ہے. اور بنی طَے کی تین عورتوں اور ام سنان صیداویہ کو بھی قتل کر دیا ہے. امیر المومنین نے حارث ابن مرہ کو تحقیق ُ حال کے لیے روانہ کیا. لیکن یہ بھی ان کے ہاتھ سے مارے گئے. جب ان کی شورش انگیزیاں اس حد تک بڑھ گئیں, تو انہیں جھنجھوڑنا ضروری ہو گیا . چنانچہ لشکر نے نہروان کا رُخ کر لیا, اور وہا ں پہنچ کر حضرت نے انہیں کہلوا بھیجا کہ جن لوگوں نے عبداللہ ابن خباب اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا ہے. انہیں ہمارے حوالے کر دو تاکہ ہم اُن سے خون کا قصاص لیں.  مگر اُن لوگوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ ہم سب نے مل کر اُن کو مارا ہے, اور ہمارے نزدیک تم سب کا خون مباح ہے. اس پر بھی امیرالمومنین نے جنگ میں پہل نہ کی. بلکہ حضرت ابو ایوب انصاری کو پیغامِ امن دے کر اُن کی طرف بھیجا. چنانچہ اُنہوں نے پکار کر اُن سے کہا کہ جو شخص اس جھنڈے کے نیچے آجائے گا یا اس جماعت سے کٹ کر کوفہ یا مدائن چلا جائے گا, اس کے لیے امان ہے اور اُس سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی. چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ فردہ ابنِ نوفل اشجعی نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس بنیاد پر امیرالمومنین علیھ السّلام سے آمادہ پیکار ہوئے ہیں اور یہ کہہ کر پانچ سو آدمیوں کے ساتھ الگ ہو گئے اور یونہی لوگ گروہ در گروہ چھٹنا شروع ہو گئے اور کچھ لوگ امیرالمومنین علیھ السّلام سے آ ملے, جو لوگ باقی رہ گئے اُن کی تعداد چار ہزار تھی. (طبری کی روایت کی بنائ پر دوہزار آٹھ سو تھی). یہ لوگ کسی صورت میں دعوتِ حق کی پکار سننے کے لیے تیار نہ تھے اور مرنے مارنے پر اُتر آئے تھے. حضرت نے اپنی فوج کو پہل کرنے سے روک رکھا تھا. مگر خوارج نے کمانوں میں تیر جوڑ لیے اور تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں. حضرت علیھ السّلام نے اس موقعہ پر بھی جنگ کے ہولناک نتائج اور اس کے انجامِ بد سے انہیں آگاہ کیا, اور یہ خطبہ بھی اسی زجر و توبیخ کے سلسلہ میں ہے. لیکن وہ اس طرح جوش میں بھرے بیٹھے تھے کہ یک لخت سپاهِ امیرالمومنین علیھ السّلام پر ٹوٹ پڑے. یہ حملہ اتنا بے پناہ تھا کہ پیداوں کے قدم اُکھڑ گئے. لیکن پھر اس طرح جمے کہ تیر و سنان کے حملے انہیں اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوارج کا اس طرح صفایا کیا کہ نو آدمیوں کے علاوہ کہ جنہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچالی تھی, ایک متنفّس بھی زندہ نہ بچا. امیرالمومنین( ع) کے لشکر میں سے صرف آٹھ آدمی شہید ہوئے. یہ جنگ 9 صفر 83 ھ میں واقع ہوئی.

میں نے اس وقت اپنے فرائض انجام دیئے جبکہ اور سب اس راہ میں قدم بڑھانے کی جرات نہ رکھتے تھے. اور اُس وقت سر اٹھا کر سامنے آیا. جب کہ دوسرے گوشوں میں چھپے ہوئے تھے اور اس وقت زبان کھولی جبکہ دوسرے گنگ نظر آتے تھے اوراس وقت نورِ خدا (کی روشنی) میں آگے بڑھا, جبکہ دوسرے زمین گیر ہو چکے تھے, گو میری آواز ان سب سے دھیمی تھی. مگر سبقت و پیش قدمی میں میں سب سے آگے تھا. میرا اس تحریک کی باگ تھامنا تھا, کہ وہ اڑ سی گئی. اور میں صاف تھا جو اس میدان میں بازی لے گیا. معلوم ہوتا تھا جیسے پہاڑ جسے نہ تند ہوائیں جنبش دے سکتی ہیں, اور نہ تیز جھکڑ اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں. کسی کے لیے بھی مجھ میں عیب گیری کا موقع اور حرف گیری کی گنجائش نہ تھی. دبا ہوا میرینظروں میں طاقتور ہے. جب تک کہ میں اس کا حق دلوا نہ دوں اور طاقت ور میرے یہاں کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے دوسرے کا حق دلوا نہ لوں. ہم قضائے الہی پر راضی ہو جکے ہیں اور اُسی کو سارے امور سونپ دیئے جائیں. کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ میں رسول اللہ پر جھوٹ باندھتا ہوں. خدا کی قسم میں وہ ہوں جس نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی, تو اب آپ پر کذب تراشی میں کس طرح پہل کروں گا. میں نے اپنے حالات پر نظر کی, تو دیکھا کہ میرے لیے ہر قسم کی بیعت سے اطاعت رسول مقدم تھی اور ان سے کیے ہوئے عہد و پیمان کا جو میری گردن میں تھا.