مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اھم ھے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاھے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاھے:
”وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ان اللہ ےحب المتوکلین“ (1)
یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔
خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاھے:
”والذین استجابوالربھم واقامواالصلوٰةوامرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون“ (2)
یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کھتے ھیںاورنمازقائم کرتے ھیںاوران کے فیصلوںاور کاموںکی بنیادان کاآپسی مشورہ ھے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاھے اس میں سے انفاق کرتے ھیں۔
لھٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اھمیت کو واضح کیا ھے اور کیا اچھا ھو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ھے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاھے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نھیں ھواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ھم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یھیں سے واپس ھوجائےں ؟مھاجرین وانصار کی اھم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔ (3)
اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ھی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باھر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یھاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔ (4) جنگ خندق میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔ (5)
طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ (6)
لیکن اس بات پر توجہ ھونی چاھئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہٴ خیالات ھی مشکلات کاحل ھے یا یہ کہ پھلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ھو۔
معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ھیں اور ھرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ھوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ھے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ھے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ھی ختم ھو جائے گا۔
اتفاق سے وہ پھلی ھی آیت جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ھے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ھے :”فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔اس خطاب سے مراد یہ ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کھی جا رھی ھے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ھے لھٰذا پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ھی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاھئے۔
جمعیت کا پیشوا و رھبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پایا ھے ممکن ھے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بھتر ھو۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پھلووٴں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نھیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔
اسلام میں مشورہ اور جمھوری حکومتوں کے مشورہ جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ دونوں مجلسوں کے اختیار میں ھے اور حکومت کا صدر صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا اجرا کرنے والا ھے - میںزمین آسمان کا فرق ھے۔یھاں حکومت کارئیس وحاکم جوخود پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نھیں ھے ۔بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلہ کا اظھار ،چاھے وہ اھل مجلس کی رائے کے ،موافق ھو یا مخالف ،خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوپر ھے۔اور یہ پھلے عرض کیا جاچکا کہ مشورہ کے بعد قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو حکم دیتاھے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں ،فیصلہ کریںاور آگے بڑھیں۔
دوسری آیت کا مطلب بھی یھی ھے۔دوسری آیت تبادلہٴ خیال کو بایمان معاشرہ کی ایک بھترین خوبی شمار کرتی ھے ۔لیکن یہ باایمان معاشرہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں ھرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نھیں تھا اور عقل یہ کھتی ھے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی بایمان معاشرہ کو ایسی شخصیت سے خالی نھیں رھنا چاھئے ۔یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کررھی ھے جنھوں نے حاکم ورھبر کے تعین کامرحلہ طے کرلیا ھے اور اب دوسرے مسائل میں مشورہ یا تبادلہٴ خیال کرتے ھیں ۔
اس بیان سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ بعض علمائے اھل سنت کا ان آیات سے مشورہ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نھیں ھے ۔کیونکہ جیسا کہ ھم عرض کرچکے ھیں مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ھےں جن میں حاکم کے تعین کی شکل پھلے سے حل ھوچکی ھے اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ھیں تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ ٴخیال کریں ، خاص طور سے پھلی آیت جو صاف طورسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے جومسلمانوں کے رھبر ھیں۔خطاب کرتی ھے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرلو اور اس کے مطابق عمل کرو۔
اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلہ میں ھے جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ھو۔ایسے میں مسلمان تبادلہ ٴخیال کے ذریعہ اپنا فریضہ معلوم کرسکتے ھیں،لیکن جس امر میں نص کے ذریعہ سب کا فریضہ معین کیا جاچکا ھے اس میں مشورہ کی ضرورت ھی نھیں ھے۔
یھی وجہ ھے کہ جب ”حباب منذر“پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاٴخر عن حصنھم“ (7)یعنی اگر اس سلسلہ میں کوئی الٰھی حکم ھے تو ھم تسلیم ھیں اور اگر ایسی بات ھے کہ ھم اس میں اپنی رائے دے سکتے ھیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو دشمن کے قلعہ سے دورمیں ھی بھلائی ھے۔
حضرت علی ںکی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ھے جسے بھت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کردیا ھے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے بھت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار ،غدیر خم، اوربیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کردیاھے۔پھر اب مشورہ کے ذریعہ آنحضرت کی جانشینی کی تعیین کا مسئلہ حل کیا جانا ھے کیا معنی رکھتا ھے۔کیا یہ عمل نص کے مقابلہ میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظھار نھیں ھے؟
قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاھے : جب پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کرلی تو یہ بات مسلمانوں کو بھت بری لگی کیونکہ جاھلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی نا روا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔
مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ھمارے نظریات کے پیرو ھوں گے اور ھمارے خیالات کا احترام کریں گے ۔جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے یہ عمل خدا وند عالم کے حکم سے اور جاھلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا ۔ اور ظاھر ھے کہ خدا کے حکم کے ھوتے ھوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نھیں رکھتا ۔
یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعہ ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظھار کو شدت سے محکوم کیا ھے ، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ھو ۔قرآن فرماتا ھے :
”وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرة من امرھم ومن یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا“ (8)
”یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلہ میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نھیں ھے (انھیں بھر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ھوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ھوا گمراہ ھے“
____________________________
(1) آل عمران /159
(2) شوریٰ /3۸
(3) سیرہ ابن ھشام ، ج/1ص/615 ،مغازی واقدی ص/4۸
(4) سیرہ ابن ھشام ، ج/2،ص/63 ،مغازی واقدی،ج / ،1 ص/209
(5) تاریخ کامل ،ج/2ص/122
(6) مغازی واقدی ،ج/3ص/925
(7)مغازی ،واخدی،ج/3 ص/925
(8) احزاب /36
یکطرفہ فیصلہ نہ کریں
اسلام میں وہ تنھا خلیفہ، جو مھاجر و انصار کی قریب با اتفاق اکثریت سے منتخب ھوا ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام تھے ۔ اسلامی خلافت کی تاریخ میں یہ امر بالکل بے نظیر تھا اور اس کے بعد بھی اس کی کوئی مثال نظر نھیں آتی ۔
اس دوران جب معاویہ ( جس نے مدتوں پھلے شام میں اپنی بادشاھت اور مطلق العنانیت کی داغ بیل ڈالی تھی اور خاندان رسالت کے ساتھ دیرینہ اور عمیق بغض و عداوت رکھتا تھا ) اس امر سے آگاہ ھوا کہ مھاجرین و انصار نے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرلیا ھے ،تو سخت برھم ھوا اور امام(ع)سے بیعت کرنے کےلئے تیار نہ ھوا ۔ اس نے نہ صرف امام(ع)کی بیعت کرنے سے انکار کیا بلکہ حضرت(ع)پر حضرت عثمان کے قتل اور اس کے قاتلوں کی حمایت کی تھمت بھی لگادی!
امام (ع)، معاویہ کو خاموش کرنے اور اس کےلئے ھر قسم کے عذر کے راستوں کو مسدود کرنے کےلئے اپنے ایک خط میں اسے تحریر فرماتے ھیں کہ :
”وھی لوگ جنھوں نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، میری بھی بیعت کرچکے ھیں، اگر ان کی خلافت کو اس لحاظ سے قابل احترام سمجھتے ھو کہ مھاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی تھی تو یہ شرط میری خلافت میں بھی موجود ھے“۔
امام(ع) کے خط کا متن :
”انہ بایعنی القوم الّذین بایعوا اٴبابکر و عمر و عثمان علی ما بایعوھم علیہ فلم یکن للشاھد اٴن یختار و لا للغائب اٴن یرد و إنّما الشوریٰ للمھاجرین و الاٴنصار اجتمعوا علی رجل و سموہ إماماً کان ذلک (لله) رضا“ (نھج البلاغہ ، خط نمبر/6)
” جن افراد نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی ، وہ میرے ساتھ بھی بیعت کرچکے ھیں اس صورت میں مدینہ میں حاضر شخص کو کسی اور کو امام منتخب کرنے اور مرکزِ شوریٰ سے دور کسی فرد کو ان کا نظریہ مسترد کرنے کا حق نھیں ھے ۔ شوریٰ کی رکنیت صرف مھاجر و انصار کا حق ھے۔ اگر انھوں نے کسی شخص کی قیادت و امامت پر اتفاق نظر کیا اور اسے امام کھا ، تو یہ کام خدا کی رضا مندی کا باعث ھوگا۔
امام علیہ السلام کے اس خط کا مقصد ، معاویہ کو خاموش کرنے ، اس کی ھر قسم کی بھانہ تراشی اور خود غرضی کا راستہ بند کرنے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں”مجادلہ احسن“ کے سوا اور کچھ نھیں تھا۔ کیونکہ معاویہ شام میں حضرت عمر اور اس کے بعد حضرت عثمان کی طرف سے مدتوں گورنر رہ چکا تھا اور انھیں خلیفہ رسول اور اپنے آپ کو ان کا نمائندہ جانتا تھا ۔ ان حضرات کی خلافت کا احترام اسی جھت سے تھا کہ وہ مھاجر و انصار کی طرف سے منتخب ھوئے تھے ، اور بالکل یھی انتخاب واضح اور مکمل صورت میں امام علیہ السلام کے حق میں بھی انجام پایا تھا س لئے کوئی وجہ نھیں تھی کہ ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کیا جائے۔
امام علیہ السلام نے قرآن مجید میں حکم شدہ مجادلہٴ کے ذریعہ (1) اپنی خلافت کے بارے میں معاویہ کی مخالفت کی مذمت کرتے ھوئے فرمایا :
”جنھوں نے ابو بکر اور عمرو عثمان کی بیعت کی تھی ، وھی میری بیعت بھی کرچکے ھیں، لھذا اب تم میری خلافت کو جائز کیوں نھیں سمجھتے ھو؟“
مجادلہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ اور نھیں ھے کہ جس چیز کو مخالف مقدس اور محترم جانتا ھو اسے استدلال کی بنیاد قرار دیکر مخالف کو اسی کے اعتقاد کے ذریعہ شکست دی جائے۔ اس لحاظ سے ، یہ خط ھرگز اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ امام علیہ السلام مھاجرین و انصار کی شوریٰ کے ذریعہ خلیفہ کے انتخاب کو سو فیصد صحیح جانتے تھے اور امام(ع)کا عقیدہ بھی یھی تھا کہ خلیفہ کا انتخاب مھاجرین و انصار کی مشورت کے ذریعہ ھی انجام پانا چاھئے اور مسئلہ امامت ھرگز ایک انتصابیمسئلہ نھیں بلکہ انتخابی مسئلہ ھے۔
اگر امام علیہ السلام کا مقصد یھی ھوتا ، تو انھیں اپنے خط کو گذشتہ تین خلفاء کی بیعت کی گفتگو سے شروع نھیں کرنا چاھئے تھا ، بلکہ انھیں ان خلفاء کی خلافت کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی بات کویوں شروع کرنا چاھئے تھا :
”مھاجرین و انصار نے میری بیعت کی ھے اور جس شخص کی وہ بیعت کرلیں وہ لوگوں کا امام و پیشوا ھوگا “
یہ جو امام بعد والے جملوں میں فرماتے ھیں :” فان اجتمعوا علی رجل و سموہ اماماً، کان ذلک (لله) رضا“ تو یہ احتجاج بھی مخالف کے عقیدہ کی روشنی میں ھے اور کلمہ ”الله“ نھج البلاغہ کے صحیح نسخوں میں موجود نھیں ھے بلکہ مصر میں چھپے نسخوں میں بریکٹ کے اندر پایا جاتا ھے (اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ امام(ع)کے خط میں اس کلمہ (الله) کے ھونے میں شک پا یا جاتا ھے ) حقیقت میں امام(ع)فرماتے ھیں کہ : اگر مسلمان اپنے پیشوا کے انتخاب میں ایک فرد پر اتفاق کریں ، تو ایسا کا م پسندیدہ ھے ، یعنی تم لوگوں کے عقیدہ کے مطابق یہ کام پسندیدہ اور رضا مندی کا باعث ھے اور یھی کام تو میرے بارے میں انجام پایا ھے ، اب کیوں میری بیعت کرنے میں مخالفت کرتے ھو؟
سب سے پھلا شخص ، جس نے اس خطبہ سے اھل سنت کے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں استدلال کیا ھے ، شارح نھج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ھے ۔ اس نے اس خط میں اور نھج البلاغہ کے دیگر خطبوں میں موجود قرائن کے سلسلہ میں غفلت کے سبب اس سے اھل سنت کے نظریہ کی حقانیت پر استدلال کیا ھے اور امام(ع)کے فرمائشات کو ایک سنجیدہ امر سمجھتے ھوئے اسے آپ(ع)کا عقیدہ تصور کیا ھے(2)۔ شیعہ علما ء جب بھی اس خطبہ کی شرح پر پھنچتے ھیں تو انھوں نے وھی مطلب بیان کیا ھے جس کا ھم اوپر اشار کرچکے ۔
تعجب ھے کہ احمد کسروی نے اپنی بعض تحریروں میں اس خطبہ کو بنیاد بنا کر اسے شیعوں کے عقیدہ کے بے بنیاد ھونے کی دلیل قرار دیا ھے اور اس سے بڑہ کر تعجب ان لوگوں پر ھے جو ان دو افراد کی باتوں کو نیا روپ دیگر اسے دھوکہ کھانے والوں کے بازار میں ایک نئی چیز کے طور پر پیش کرتے ھیں اور یہ نھیں جانتے کہ ھر زمانے میں مذھب تشیع کے ایسے محافظ موجود ھوتے ھیں جو خودغرضوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیتے ھیں ۔
یک طرفہ فیصلہ نہ کریں !
کسی فیصلہ کےلئے خود سری سے کام نھیں لینا چاھئے اور ” نھج البلاغہ “ میں موجود امام (ع)کے دوسرے ارشادات سے چشم پوشی نھیں کرنا چاھئے ، بلکہ امام علیہ السلام کے تمام بیانات سے استفادہ کرکے ایک نتیجہ اخذ کرناچاھئے ۔
یھی امام جو اس خط میں لکھتے ھیں :
” جن لوگوں نے گذشتہ تین خلفا کی بیعت کی تھی ، انھوں نے میری بھی بیعت کی ھے اور جب کبھی مھاجر و انصار کسی کی امامت کے بارے میں اتفاق رائے کا اظھار کریں ، تو وہ لوگوں کا پیشوا ھوگا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نھیں ھے“۔
خلافت خلفاء کے بارے میں خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ھیں :
” خدا کی قسم ! فرزند ابو قحافہ نے پیراھن خلافت کو کھینچ تان کر پھن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا خلافت کی چکی میرے وجود کے گرد گردش کرتی ھے اور میرا خلافت میں وھی مقام ھے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ھوتا ھے ۔ میں وہ (کوہ بلند ) ھوں جس سے علوم و معارف کا سیلاب نیچے کی طرف جاری ھے اور کسی کے وھم و خیال کا پرندہ بھی مجھ تک نھیںپھنچ سکتا ۔ لیکن میں نے جامہ خلافت کو چھوڑ دیا اور اس سے پھلو تھی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ھوئے ھاتھوں (کسی ناصر و مددگار کے بغیر ) سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں ، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ھوجاتا ھے اور مؤمن اس میں رنجیدہ ھو تا ھے یھاں تک کہ وہ اپنے پروردگارکے پاس پھنچ جاتا ھے مجھے اس اندھیر پر صبر ھی قرین عقل نظر آیا۔ لھذا میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھوں میں ( غم و اندوہ کے تنکے کی) خلش تھی اور حلق میں ( غم و رنج کی ) ھڈی پھنسی ھوئی تھی ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکہ رھا تھا ، یھاں تک کہ پھلے ( ابو بکر ) نے اپنی راہ لی اور وہ اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔ تعجب ھے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ھونا چاھتا تھا ۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کےلئے استوار کرتا گیا۔ ان دونوں نے خلافت کو دو پستانوں کے مانند آپس میں بانٹ لیا اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت جگہ قرار دے دیا ۔
آپ نے مزید فرمایا :
” یھاں تک کہ دوسرا (عمر ) بھی اپنی راہ لگا ، اور اس نے خلافت کا معاملہ ایک جماعت کے حوالے کردیا ۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد قرار دیا ۔ اے الله ! میں تجہ سے اس شوریٰ کی تشکیل اور اس کے مشورہ سے پناہ مانگتا ھوں جبکہ انھوںنے مجھے بھی اس کا ھم ردیف قرار دے دیا ۔ ۔(3)
امام علیہ السلام اپنے ایک خط میں اپنی مظلومیت اور آپ(ع)سے بیعت لینے کے طریقے پر سے پردہ اٹھاتے ھوئے معاویہ کے ایک خط کے جواب میں__جس میں اس نے حضرت(ع)کو لکھا تھا کہ انھیں اونٹ کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچنے کی صورت میں ابو بکر کی بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لے گئے تھے__لکھتے ھیں :
” تم نے لکھا تھا کہ : مجھے اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالکر کھینچنے کی صورت میں بیعت کرنے کےلئے کھینچ کر لئے گئے تا کہ میں بیعت کروں ۔ خدا کی قسم تم نے چاھا کہ میری ملامت کرو لیکن اس کے بجائے تم میری ستائش کر گئے ھو اور مجھے رسوا کرنا چاھتے تھے لیکن خود رسوا ھوگئے ھو ( کیونکہ تم میر ی مظلومیت کا واضح طور پر اعتراف کرگئے ھو ) کیونکہ مسلمان کےلئے__ جب تک اس کے دین میں شک اور یقین میں خلل نہ ھو __مظلومیت اور ظلم و ستم سھنے میں کوئی عار نھیں ھے “ (4)
کیا امام(ع)کی اپنی مظلومیت کے بارے میں اس صراحت کے باوجود کہ آپ(ع)سے زورز بردستی اور جبراً بیعت لی گئی ھے ، یہ تصور کیا جاسکتا ھے کہ آپ(ع) نے خلفاء کی خلافت کی تائید کی ھوگی اور ان کو امت کے امام و پیشوا کے طور پر تسلیم کیا ھوگا ؟ ھر گز نھیں ، لھذا اس سے ثابت ھوتا ھے کہ زیرِ بحث خط میں آپ(ع)کا مقصد مجادلہ اور طرف کو لاجواب کرنا تھا ۔
امام علیہ السلام اپنے ایک اور خط میں __جسے آپ(ع)نے اپنے گورنر مالک کے ھاتہ مصر بھیجا تھا __لکھتے ھیں :
” خدا کی قسم ! میں کبھی سوچ بھی نھیں سکتا تھا کہ عرب پیغمبر کے بعد خلافت کو آپ کے خاندان سے نکال کر کسی دوسرے کو سونپ دیں گے اور ھمیں اس سے محروم کردیں گے ۔ ابو بکر کی بیعت کےلئے لوگوں کی پیشقدمی نے ھمیں رنج و مصیبت میں ڈالدیا “ (5)
__________________
1۔(وجادلھم بالتی ھی احسن )(نحل/ 125)
2۔1۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 14، ص 36
3شرح نھج البلاغہ ، ج1 ، خطبہ شقشقیہ ۔
4۔ و قلت إنّی کنت اقاد کما یقاد الجمل المخشوش لا بایع ، و لعمر الله لقد اٴردت اٴن تذم فمدحت ، و اٴن تفضح فافتضحت و علی المسلم من غضاضة فی ان یکون مظلوماً ما لم یکن شاکاً فی دینہ و لا مرتاباً بیقینہ “ ( نھج البلاغہ ، خط 28)
5۔”و لا یخطر ببالی انّ العرب تزعج ھذا الاٴمر من بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن اٴھل بیتہ ولا انّھم منحوہ عنی من بعدہ فما راعنی إلا انثیال الناس علی فلان یبایعونہ..․“ (نھج البلاغہ ، خط 62)
سقیفہ بنی ساعدہ کی غم انگیر داستان
پیغمبرکی تشویش کھیں امت جاھلیت کی طرف پلٹ نہ جائے !
قرآن مجید کی آیات اور تاریخی قرائن اس امر کے شاھد ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلامی معاشرے کے مستقبل کے بارے میں سخت فکر مند تھے ۔ اور ( غیبی الھامات سے قطع نظر ) بعض سلسلہ وار ناگوار حوادث کو دیکھتے ھوئے آپ کے ذھن میں یہ احتمال تقویت پارھا تھا کہ ممکن ھے ایک گروہ یا بھت سے لوگ آپ(ع)کی رحلت کے بعد جاھلیت کے زمانے کی طرف پلٹ جائیں اور سنن الھی کو پس پشت ڈال دیں اس احتمال اور خدشہ نے اس وقت آپ(ع)کے ذھن میں اور زیادہ قوت پائی جب آپ(ع)نے جنگ اُحد میں ( جب دشمن کی طرف سے پیغمبر اسلام کے قتل ھونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی ) اس بات کا عینی مشاھدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت نے بھاگ کر پھاڑوں اور دور دراز علاقوں میں پناہ لے لی۔ اور بعض لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ منافقوں کے سردار ” عبدالله ابن ابی “ کے ذریعہ ابو سفیان سے امان حاصل کریں ۔ اتنا ھی نھیں بلکہ ان لوگوں کا مذھبی عقیدہ اتنا کمزور اور متزلزل ھوا تھا کہ وہ خدا کے بار ے میں بد گمان ھو کر جاھلانہ افکار کے مرتکب ھوگئے تھے ۔ قرآن مجید نے اس راز کا یوں پردہ چاک کیا ھے :
(وَ طاَئِفةٌ قَدْاٴَھَمَّتْھُمْ اٴَنْفُسُھُمْ یِظُنُّونَ بَاللهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّةِ یَقُولُونَ ھَلْ لَّنٰا مِن َ الاٴَمْرِ شَیْءٌ ) (1)
( اصحاب پیغمبر میں سے ایک گروہ کو ) اپنی جان کی اس قدر فکر تھی کہ وہ خداکے بارے میں دور ان جاھلیت کے جیسے باطل خیالات کے مرتکب ھوگئے تھے اور وہ یہ کھہ رھے تھے کہ آیا (مسلمین پر حاکمیت ) جیسی کوئی چیز ھم پر ھے ؟
قرآن مجید ایک اور آیہ کریمہ میں اصحاب رسول خدا کے آپسی اختلافات کے بارے میں اشارتاً خبر دیتے ھوئے فرماتا ھے :
( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہ الرُّسُلُ اٴَفَإِنْ مَاتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اٴَعْقَٰبِکُمْ وَ مَنْ یَنقَلِبْ عَلَٰی عَقِبَیْہ فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شیْئاً وَ سَیَجْزِی اللهُ الشَّٰکِرِینَ) (2)
” اور محمد تو صرف خدا کی جانب سے ایک رسول ھیں جن سے پھلے بھت سے رسول گذر چکے ھیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ھوجائیں تو تم الٹے پیر پلٹ جاؤ گے ؟ تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نھیں کرے گا اور خدا عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا “۔
یہ آیہٴ شریفہ اصحاب رسول خدا کو دو حصوں یعنی عصر جاھلیت کی طرف لوٹ جانے والے اور ” ثابت قدم و شکر گزار “ گروہ میں تقسیم کرکے اشارتاً یہ بیان کرتی ھے کہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمان افتراق و اختلاف کے شکار ھو کر دو گروہ میں بٹ جائیں گے ایک گروہ عصر جاھلیت کی طرف پلٹ جائے گااور دوسرا گروہ ثابت قدم و شکر گذار رھے گا ۔
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ پیغمبر اسلام ایک ایسی امت کو جو اختلاف و افتراق سے دو چارھو ، اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کےلئے ایک امام و پیشوا اور حاکم و فرمان روا مقرر نہ فرمائیں؟
پیغمبر کےلئے یاقومی اتحاد کے قائل افراد کےلئے بھی یہ ھر گز جائز نھیں کہ ایک ایسے لوگون کی اجتماعی و سیاسی زندگی کی باگ ڈورخود ان کے ھاتہ میں دیدیں ، بلکہ حالات پر قابو رکھنے کےلئے لازم بن جاتا ھے کہ ایک لائق اور قابل شخص کو امت کے امام و پیشوا کی حیثیت سے مقرر کیا جائے تا کہ حتی الامکان اختلاف و افتراق اور ناامنی سے معاشرے کو بچایا جاسکے ۔
پیغمبر اسلام جانتے تھے کہ آپ کی امت میں اختلاف و افتراق پایا جاتا ھے اور یہ امت بھی گزشتہ امتوں کی طرح مختلف گروھوں میں بٹ جائے گی ، حتی آپ نے اپنی امت کے بارے میں پیشینگوئی کے ذریعہ فرمایا ھے :
” ستفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة ، فرقة ناجیة و الباقون فی النار“
عنقریب میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے صرف ایک گروہ اھل نجات ھوگا اور باقی فرقے جھنمی ھوں گے“(3)
یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اطلاع و آگاھی رکھنے کے باوجود کہ امت کی رھبری کا انتخاب بھت سے اختلافات کا سد باب بن سکتا ھے کس طرح اس اھم امر کو ایک متلون مزاج جمعیت کے سپرد کیا ، جس کے نتیجہ میں امت میں یہ وسیع اختلافات و شگاف پیدا ھوگیا ؟!
اسلامی سماج ، ان دنوں مختلف گروھوں میں بٹ گیا تھا اور ھر گروہ ایک آرزو اور مقصد رکھتا تھا: انصار دو معروف گروھوں یعنی ” اوس“ و ” خزرج“ پر مشتمل تھے ، اور مھاجر ، بنی ھاشم اور بنی امیہ کے علاوہ قبائل ” تیم “ اور ” عدی “ پر مشتمل تھے ۔ ھر گروہ چاھتا تھا معاشرے کی قیادت اس کے ھاتہ میں آجائے اور ان کے قبیلہ کا سردار اس عھدہ کا مالک بنے ۔
کیا ان متضاد گروھوں کے ھوتے ھوئے امت میں اتحاد و یکجھتی اور دین کے سلسلے میں مسلمانوں کے استحکام و پائیداری کی امید کی جاسکتی ھے یا سب سے پھلے اختلاف و افتراق کے اسباب کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاھیے تب ایسی امید رکھنی چاھئے ؟
پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں جوسب سے بڑی دراڑ پیدا ھوئی اور جس سے ان کے اتحاد و یکجھتی پر کاری ضرب لگی وہ اسلامی قیادت کے بارے میں اختلاف نظر کا سبب تھا ۔ اگر مسلمان اس موضوع پر اختلاف و افتراق کے شکار نہ ھوتے تو بھت سے اختلافات قیادت کے مسئلہ میں اتفاق نظر اور اتحاد کی وجہ سے حل ھوجاتے ۔ لیکن اسی اھم اور بنیادی امر پر اختلاف ھی بعد والے اختلافات ، جنگوں اور فتنوں کا سبب بنا نتیجہ کے طور پر امت مختلف گروھوں اور جماعتوں میں تقسیم ھوگئی اور بعض گروہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ٹکراؤ پر اتر آئے ۔
اھل سقیفہ کی منطق
قرآن مجید یاران پیغمبر کو تنبیہ کرتا ھے کہ مبادا آپ کی رحلت کے بعد وہ زمانہ جاھلیت کے افکار کی طرف پلٹ جائیں۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ھوئے گروہ کی سرگزشت کی تحقیقات اورمطالعہ سے بخوبی معلوم ھوتا ھے کہ کس طرح اس دن پوشیدہ اسرار اور کینہ و عداوت سے پردے اٹہ گئے اور اصحاب رسول کی گفتگو میں ایک بار پھر قومی اور قبیلہ ای تعصبات اور جاھلیت کے افکار رونما ھوئے اور واضح ھوگیا کہ اسلامی تربیت نے ابھی بھت سے اصحاب رسول کے دلوں کی گھرائیوں تک رسوخ نھیں کیا تھا اور اسلام ، جاھلیت کے منحوس چھرے پر ایک نقاب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
اس تاریخی واقعہ کے مطالعہ اور تحقیق سے بخوبی معلوم ھوتا ھے کہ اس اجتماع کا مقصد کیا تھا،جھگڑالوں تقریروں ،ایک دوسرے پر حملوں کا مقصد ذاتی منفعت طلبی اور سود جوئی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ھر شخص خلافت کا لباس شائستہ ترین شخص کو پھنانے کے بجائے اپنے بدن پر زیب تن کرنے کی کوشش میں تھا ، اور جو موضوع اس مجلس میں زیر بحث نہ آیا وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ یا اس منصب کےلئے ایک شائستہ ترین فرد کی تلاش کرنا تھا ، جو عقلمندانہ تدبیر ، وسیع علم ، عظیم روح اور پسندیدہ اخلاق سے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پھنچانے میں قیادت کے فرائض انجام دیتا ۔
حادثہ سقیفہ کے مطالعہ و تجزیہ سے بخوبی پتا چلتا ھے کہ سقیفہ کے ھدایت کار اپنے اور اپنے منافع کے علاوہ کوئی اور فکر نھیں رکھتے تھے اور ھر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں تھا۔
تاریخی المیہ !
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا جسداطھر ابھی زمین پر تھا ، بنی ھاشم اور آنحضرت کے بعض سچے اصحاب ، پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین کے مقدمات میں مصروف تھے کہ اچانک انصار کا گروہ پیغمبر اسلام کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ” سقیفہ بنی ساعدہ'' نام کے ایک سائبان کے نیچے جمع ھوا تا کہ پیغمبر اکرم کا خلیفہ و جانشین مقرر کرے۔ گویا ان لوگوں کی نظر میں خلیفہ کا تقرر پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین و تدفین سے انتھائی فوری اوراھم مسئلہ تھا !۔
جس وقت حضرت علی علیہ السلام بنی ھاشم اور مھاجرین کے ایک گروہ کے ھمراہ گھر کے اندر اور اس کے باھر پیغمبر اسلام کی نماز جنازہ اور تدفین کی تیاریوں میں مصروف تھے ، اچانک حضرت عمر نے جو گھرکے باھر تھے ، انصار کے سقیفہ میں جمع ھونے کی خبر سنی ۔ کسی کے ذریعہ فوراً حضرت ابو بکر کو اطلاع دی کہ جتنی جلد ھوسکے گھر سے باھر آئے ۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر کے بلاوے کے سبب سے آگاہ نہ تھے اس لئے عذر خواھی کے ساتھ جواب دیا کہ : ” میں یھاں پر کام میں مصروف ھوں لیکن آخر کار حضرت عمر کے اصرار پر مجبور ھوکر گھر اور پیغمبر کے جسد اطھر کو چھوڑ کر باھر آئے ۔ جب وہ بھی حضرت عمر کی طرح ماجرا سے آگاہ ھوئے توانھوں نے بھی سب کچھ چھوڑ کر سقیفہ کی راہ لی ۔دونوں سقیفہ کی طرف چلے اور ابو عبیدہ ابن جراح کو بھی اپنے ساتھ لئے گئے ۔اب ذرا غور سے طرفین کے مناظرہ اور استدلال کو سنیے کہ یہ لوگ کس منطق کے تحت خود کو اور اپنے قبیلہ کو خلافت کےلئے دوسرے سے لائق و شائستہ سمجھتے تھے۔
اس جلسہ میں انصار کے ترجمان سعد بن عبادہ اور حباب بن منذر تھے اور مھاجرین کی ترجمانی کا فریضہ ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ انجام دے رھے تھے ، آخر میں انصار کی طرف سے بھی دو افراد نے سعد بن عبادہ کے کام میں روڑے اٹکانے کےلئے تقریریں کی ۔ اب پورا قضیہ ملاحظہ ھو :
سعد ( انصار سے مخاطب ھوکر ) : تم لوگ ایسی فضیلت اور برتری کے مالک ھو کہ دوسرے اس سے محروم ھیں ، پیغمبر گرامی نے سالھا سال اپنے لوگوں کو توحید کی دعوت دی ، لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی آپ پر ایمان نہ لایا اور وہ بھی آپ کا دفاع کرنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے۔ لیکن تم لوگ انصار ! آنحضرت پر ایمان لائے آنحضرت اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ۔ آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی جس کے نتیجہ میں لوگوں نے آپ کا دین قبول کیا ۔ یہ تم لوگوں کی تلواریں تھیں جس کی وجہ سے عرب آنحضرت کے سامنے ھتھیار ڈالنے پر مجبور ھوئے ۔ جب پیغمبر اسلام اس دنیا سے رخصت ھوئے تو تم لوگوں سے راضی اور پر امید تھے اس لحاظ سے ضروری ھے کہ امر خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لو کیونکہ تم لوگ اس امر میں تمام لوگوں سے شائستہ اور بھتر ھو ۔(4)
سعد کی منطق یہ تھی ، چونکہ ھم نے پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو پناہ دی ھے ، آپ اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ھے اور آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی ھے اس لئے ھم قیادت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لینے میں دوسروں سے سزاوار اور لائق ھیں ۔
اب دیکھئے کہ اس کے مقابلے میں مھاجرین کی منطق کیا تھی؟
حضرت ابو بکر :مھاجرین اولین گروہ ھیں جو دین پیغمبر پر ایمان لائے اور اس فضیلت پر
افتخار کرتے ھیں ۔ انھوںنے مشکلات اور سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیا ھے ، افراد کی کمی پر نھیں ڈرے ھیں ، دشمنوں کی اذیتوں کو برداشت کیا ھے اور آنحضرت پر ایمان اور آپ کے دین سے منہ نھیں موڑا۔ ھم ، آپ ، انصار کے فضائل اور خدمات سے ھر گز انکار نھیں کرتے اور بے شک مھاجرین کے بعد دیگر لوگوں پر آپ فضیلت اور برتری رکھتے ھیں ۔ اس لئے قیادت و رھبری کی باگ ڈور مھاجرین کے ھاتہ اور وزارت آپ لوگوں کے ھاتہ میں ھوگی اور ھم حاکم ھوں گے اور آپ وزیر اور کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر انجام نھیں پائے گا (5)
مھاجرین کی برتری کا استدلال یہ تھا کہ وہ سب سے پھلے پیغمبر پر ایمان لائے ھیں اور آپ کے دین کو قبول کیا ھے ۔
حباب بن منذر : اے جماعت انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ھاتہ میں لے لو۔ دوسرے لوگ تمھاری ھی قدرت کے سائے میں زندگی بسر کرتے ھیں اور کوئی تمھارے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جراٴت نھیں کرسکتا تم لوگ صاحب قدرت ھو اور تعداد میں بھی زیادہ ھو۔اپنی صفوں میں ھر گز اختلاف و تفرقہ پیدا نہ ھونے دو، اختلاف کی صورت میں تباھی اور بردباری کے سوا کوئی نتیجہ نہ ھوگا۔ اگر مھاجرین نے اقتدار پر قبضہ کرنے پر اصرار کیا تو ھم مسئلہ کو ” دو امیر“ کے طریقے سے حل کریں گے اور ایک قائد اور حاکم ھم میں سے اور ایک حاکم ان میں سے مقرر ھوگا (6)
اس مناظرہ میں انصار کی منطق افراد کی کثرت اور ان کے دھڑے کی طاقت پر منحصر ھے ۔ وہ کھتے ھیں چونکہ ھم طاقتور ھیں اس لئے حاکم ھم میں سے ھونا چاھئے ۔
حضرت عمر: ایک غلاف میں ھرگز دو تلواریں نھیں سما سکتی ھیں۔ خدا کی قسم عرب تم لوگوں کی فرمانروائی کے سامنے ھرگز تسلیم نھیں ھوں گے کیونکہ ان کا پیغمبر آپ لوگوں میں سے نھیں ھے۔ لیکن اگر حکومت پیغمبر کے کسی رشتہ دار کے ھاتہ آئے تو عرب کو اس پر اعتراض نھیں ھوگا ۔ کس کی جراٴت ھے کہ اس حکومت کے بارے میں ھمارا مقابلہ کرے اور ھم سے لڑے جس کی داغ بیل حضرت محمد نے ڈالی ھے ، جب کہ ھم آپ کے رشتہ دار ھیں ۔
اس گفتگو میں حضرت عمر نے زمام حکومت کو ھاتہ میں لینے کا معیار پیغمبر کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور قرابت کو قرار دیا اور اس طرح مھاجر اور ان میں قبیلہ قریش کو خلافت کےلئے شائستہ و حقدار جتلایا ھے (۔7)
” حباب بن منذر“ نے ایک بار پھر انصار کی طاقت کا سھارا لیتے ھوئے کھا:
اے انصار کی جماعت ! عمر اور اس کے ھم فکروں کی بات پر کان نہ دھرو وہ تم لوگوں سے قیادت اور فرمان روائی چھیننا چاھتے ھیں ۔ اگر انھوں نے ھماری بات نہ مانی تو ان سب کو اس سرزمین سے نکال باھر کرو تم لوگ اس کام (فرمانروائی) کےلئے دوسرے لوگوں سے زیادہ شائستہ ھو ۔ تم ھی لوگوں کی تلواروں کی جھنکار کے نتیجہ میں لوگوں نے یہ دین قبول کیا ھے ۔
عمر : خدا تجھے موت دے
حباب : خدا تجھے موت دے۔
ابو عبیدہ نے گویا انصار کو ایک رشوت دیتے ھوئے مھاجرین کو حکومت دیئے جانے کی یوں تائید کی :
اے انصار کی جماعت ! تم لوگ وہ پھلے افراد تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام کی حمایت اور مدد کی اب یہ ھر گز سزاوار نھیں ھے کہ تم ھی لوگ سب سے پھلے پیغمبر کی سنت کو بھی بدل دو۔
یھاں پر انصار میں سے سعد بن عبادہ (جو خلافت کےلئے انصار میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا امیدوار تھا )کا چچیرا بھائی بشیر بن سعد ، اٹہ کھڑا ھوا ، امیدتھی وہ انصار کے حق میں بول کر قضیہ کو ختم کردے گا لیکن اس نے اس کے برخلاف ، سعد بن عبادہ کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت کی وجہ سے حضرت عمر کے استدالال کی تائید کی اور اپنے رشتہ داروں کی طرف مڑکر کھا:
محمد قریش میں سے ھیں اور آپ کے رشتہ دار خلافت کےلئے دوسروں سے اولیٰ اور شائستہ ھیں ، میں یہ ھرگز نھیں دیکھنا چاھتا کہ آپ لوگ اس مسئلے میں ان سے ٹکرائیں طرفین نے اپنی اپنی بات سنادی اور کوئی دوسرے کو مطمئن نہ کرسکا تو حضرت ابو بکر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے ایک تجربہ کار سیاستداں کی طرح ایک نئی تجویز پیش کی اور ایک قدم آگے بڑھاتے ھوئے یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمیوں کو پیش کرے تا کہ لوگ ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کرلیں ، خاص کر انھوں نے مشاھدہ کیا کہ انصار میں اتفاق رائے نھیں ھے اور بشیر بن سعد ، سعد بن عبادہ ( قبیلہ خزرج کے سردار ) کا مخالف ھے ۔
اس لئے ایک خاص انداز میں بحث و مباحثہ کو ختم کرتے ھوئے بولے:
” میری درخواست ھے کہ مھربانی کرکے اختلاف و تفرقہ سے پرھیز کیجئے میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ھوں ، بھتر ھے بات کو مختصر کیجئے اور عمرو ابو عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیجئے“
عمرو ابوعبیدہ دونوں نے کھا:
ھمارے لئے ھرگز یہ مناسب نھیں ھے کہ آپ جیسی شخصیت کے ھوئے ھوئے حکومت و خلافت کی باگ ڈور ھم اپنے ھاتہ میں لے لیں ۔ مھاجرین میں سے کوئی بھی آپ کے برابر نھیں ھے ۔ آپ غار ثور میں پیغمبر کے ھمنشین تھے ،آپ نے پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائی ھے اور آپ کی مالی حالت بھی بھتر ھے ، اپنے ھاتہ کو آگے بڑھائے تا کہ ھم آپ کی بیعت کریں۔
یھاں پر حضرت ابو بکر نے بلاکسی تکلف کے بغیر کچھ کھے اپنا ھاتہ پھیلادیا اور دل میں موجود راز سے پردہ اٹھادیا ، اور یہ بات کھل گئی کہ عمر اور ابو عبیدہ کو آگے بڑھانے کا مقصد اپنے لئے راہ ھموار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔
لیکن اس سے پھلے کہ عمر ، ابو بکر کے ھاتہ پر بیعت کرے ، بشیر بن سعد نے سبقت کی اور حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر دوسروں سے پھلے بیعت کی۔ اس کے بعد عمر اور ابو عبیدہ نے بھی جانشین رسول کی حیثیت سے حضرت ابو بکر کی بیعت کی۔ اسی وقت گروہ انصار میں وہ گھری دراڑ پڑگئی جس کا امکان بشیر کی تقریر کے بعد پیدا ھوچکا تھا ۔ اس طرح انصار کی ناکامی قطعی ھوگئی۔
حباب بن منذر ، بشیر کی بیعت ( جو خود انصار میں سے تھا ) پر آگ بگولا ھوگیا اور فریاد بلند کرتے ھوئے بولا: بشیر ! تم نے نمک حرامی کی اور اپنے چچیرے بھائی سے رشک کی بنا پر اسے حاکم بننے نھیں دیا۔
بشیر نے کھا:
ھر گز ایسا نھیں ھے بلکہ میں یہ نھیں چاھتا تھاکہ خدا نے جو حق گروہ مھاجر کےلئے مخصوص کیا تھا ، اس پر جھگڑا برپا کروں۔
” اسید بن حضیر“ قبیلہ اوس کا سردار__جس کے دل میں ابھی بھی خزرج کے سردار کی طرف سے کینہ تھا__ اٹھا اور اپنے قبیلہ سے مخاطب ھوکر بولا :
اٹھوا اور ابو بکر کی بیعت کرو ، کیونکہ اگر سعد حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتہ میں لے لے گا تو قبیلہ خزرج ھم پر ایک قسم کی برتری پیدا کرلے گا اس پر قبیلہ اوس نے بھی اپنے سردار کے حکم سے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔
اس موقع پر سیدھے سادھے لوگوں کی جماعت جن میں فکری شعور نھیں پایا جاتا اور جو اپنے سردار کے حکم کی پیروی کرتے ھوئے حضرت ابو بکر کی بیعت کےلئے اس طرح آگے بڑھے کہ سعد قدموں تلے روند ڈالا گیا۔
ایک نامعلوم شخص نے پکارتے ھوئے کھا:
خزرج کا سردار پیروں تلے روند ڈالا گیا ! اس کا خیال کرو!
لیکن حضرت عمر اس بے احترامی سے خوش ھوئے اور کھا :
خدا اسے موت دے ، کیونکہ ھمارے لئے ابو بکر کی بیعت سے بالاتر کوئی چیز نھیں ھے !
خود حضرت عمر جب بعد میں سقیفہ کا ماجرا بیان کرتے تھے تو حضرت ابو بکر کے حق میں اپنی بیعت کی وضاحت یوں کرتے تھے :
اگر ھم اس دن نتیجہ حاصل کئے بغیر جلسہ کو ترک دیتے تو ممکن تھا ھمارے چلے جانے کے بعد انصار اتفاق رائے پیدا کرلیتے اور اپنے لئے کسی قائد کا انتخاب کرلیتے ۔
بالآخر سقیفہ کا جلسہ بیان شدہ صورت میں خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کے انتخاب کے اوپر ختم ھوا اور حضرت ابو بکر مسجد رسول کی طرف بڑھے جبکہ حضرت عمر ، ابو عبیدہ اور قبیلہ اوس کا ایک گروہ انھیں اپنے درمیان میں لئے ھوئے تھا اور سعد بھی اپنے تمام ساتھیوں کے ھمراہ اپنے گھر کی طرف روانہ ھوگیا (8)
___________________
1۔آل عمران /154۔
2۔آل عمران : 144
3۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔
4۔الامامة و السیاسة ج 1، ص 5
5۔ الامامة و السیاسة ج 1 ، ص 5۔
6۔انصار نے دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوھن ، یہ تجویز ھماری کمزوری کی نشانی ھے
7۔ آیندہ بحث میں اس سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ھوگی۔
8۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج3،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج1، اور شرح ابن ابی الحدید ج2 ص 22 ۔60 سے نقل کیا گیا ھے ۔
انصار اور مھاجرین کی منطق کیا تھی؟
سقیفہ کے واقعہ کے بغور مطالعہ کے بعد اب مناسب ھے کہ اس کے قابل توجہ نکات اور اسے وجود میں لانے والوں کی منطق پر غور کیا جائے ۔ اس ”جلسہ “ کے قابل توجہ نکات کا خلاصہ ذیل کے چند امور میں کیا جا سکتا ھے :
1۔ قرآن مجید کا حکم ھے کہ مؤمن آپس میں جمع ھو کر اپنے مشکلات کی گتھیوں کو تبادلہ خیال کے ذریعہ سلجھائیں۔ اس کے اس گراں بھا حکم کا مقصد یہ ھے کہ عقلمند اور حق پسند لوگوں کی ایک جماعت ایک پر سکون جگہ پر جمع ھوں اور حقیقت پسندانہ نیز تعصب سے عاری غور و فکر کے ذریعہ زندگی کی راہ کو روشن کریں اور مسائل کو حل کریں۔
کیا سقیفہ کے جلسہ میں ایسا رنگ ڈھنگ پایا جاتا تھا؟ اور کیا حقیقت میں اسلامی معاشرے کے عقلا وھاں پر جمع ھوئے تھے کہ خلافت کی گتھی کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں؟ یا مطلب اس کے بالکل بر عکس تھا؟
اس جلسہ میں مھاجرین میں سے صرف تین افراد حاضر تھے اور ان تین افراد نے دیگر مھاجرین کو اس امر سے مطلع نھیں کیا تھا کہ وہ یہ کام انجام دینے جارھے ھیں ۔ کیا ایسے جلسہ کو جس میں عالم اسلام کی عظیم شخصیتیں ، جیسے علی (ع)ابن ابیطالب ، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد ، حذیفہ ، ابی بن کعب ، طلحہ و زبیر اور ان جیسی دسیوں شخصیتیں موجود نہ ھوں عالم اسلام کےلئے صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیا کا جلسہ کھا جاسکتا ھے ؟
کیا یہ صحیح تھا کہ ایک ایسے اھم موضوع کے لئے ایک چھوٹی سی میٹینگ پر اکتفا کی جاتی جس میں چیخ و پکار اور داد و فریاد بلند کی گئی اور انصار کے امیدوار کو قدموں تلے کچل ڈالا گیا ؟! یا یہ کہ ایسے اھم موضوع کے بارے میںکئی جلسے منعقد کرنا ضروری تھا جن میں عالم اسلام کی اھم مدبر اور شائستہ شخصیتیں بیٹہ کر اس اھم مسئلہ پر صلاح مشورہ کریں اور بالآخر اتفاق نظر یا اکثریت آراء سے مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا جاتا ؟
اس جلد بازی کے ساتھ حضرت ابو بکر کو خلافت کےلئے منتخب کرنا اس قدر ناپختہ اور خلاف اصول تھا کہ ، بعد میں خود حضرت عمر اس سلسلے میں کھتے تھے:
”کانت بیعة ابی فلتة وقی الله شرّھا فمن دعاکم الی مثلھا فاقتلوہ“ (1)
”یعنی خلافت کےلئے ابو بکر کا انتخاب ایک اتفاق سے زیادہ نھیں تھا او یہ کام صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال کی بنیاد پر انجام نھیں پایا ، اب جو کوئی بھی تم لوگوں کو ایسے کام کی دعوت دے، اسے قتل کرڈالو“
2۔دوسرا قابل توجہ نکتہ خود اھل سقیفہ کی منطق ھے ۔
گروہ مھاجر کا استدلال غالباً دو چیزوں کے گرد گھوم رھا تھا : ایک ان کا خدا و پیغمبر اسلا م پر ایمان لانے میں پیش قدم ھونا اور دوسرا پیغمبر اسلام سے ان کی قرابت و رشتہ داری! اگر ان کی برتری کا معیار یھی دو چیزیں تھیں تو خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کو حضرت عمر و ابو عبیدہ کا ھی سھارا نھیں لینا چاھئے تھا، کیونکہ مدینہ میں اس وقت ایسے افراد بھی موجود تھے جو ان دو افراد سے بھت پھلے دین اور توحید پر ایمان لا چکے تھے اور پیغمبر اسلام سے نزدیکی قرابت بھی رکھتے تھے۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پھلے شخص تھے اور پیدائش کے دن سے ھی آپ کے دامن مبارک میں تربیت پائے ھوئے تھے اور رشتہ داری کے لحاظ سے بھی آپ کے چچیرے بھائی اور داماد تھے ۔ اس کے باوجود کس طرح ان تین افراد نے خلافت کی گیند کو ایک دوسرے کی طرف پاس دیتے ھوئے بالآخر اسے حضرت ابو بکر کے حوالے کر دیا؟! عمر نے ابو بکر کی برتری کی توجیہ ان کی دولت مندی ،غار ثور میں رسول اللہ کی ھمراھی ، اور پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھنے کے ذریعھکی۔
دولت مند ھونے کے بارے میں کیا کھا جائے ، یہ وھی ایام جاھلیت کی منطق ھے جب دولت اور ثروت کو برتی و فضیلت کا سبب جانتے تھے ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یھی تھا کہ یہ قرآن مجید کیوں ایک دولتمند فرد پر نازل نھیں ھوا (2)
اگر رسول خدا کے ساتھ غار ثور میں ھمسفر ھونا خلافت کےلئے شائستگی اور معیار ھوسکتا ھے تو امیرالمؤمنین(ع)کو خلافت کےلئے اس سے بھی زیادہ شائستہ و حقدار ھونا چاھئے۔کیونکہ آپ(ع)شب ھجرت اپنی جان پر کھیل کر پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے تھے مفسرین کا اتفاق ھے کہ درج ذیل آیت آپ(ع)کے بارے میں نازل ھوئی ھے :
(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ وَاللهُرَءُ وفٌ بِالْعِباَدِ)
اور لوگوں میں وہ بھی ھیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ھیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مھربان ھے ۔ (3)
آنحضرت کی بیماری کے دوران پیغمبر کی جگہ حضرت ابو بکر کا نماز پڑھانا ، بذات خود ایک نامشخص اور مبھم داستان ھے اور یہ بات ثابت ھی نھیں کہ وہ نماز پڑھانے میں کامیاب بھی ھوئے کہ نھیں؟اور یہ کام پیغمبر کی اجازت سے انجام پایا تھا یا ایک من مانی حرکت تھی اور پیغمبر کی بعض بیویوں کے اشارہ پر نماز میں پیغمبر کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ؟! ( اس بحث کی تفصیل آیندہ فصلوں میں ملاحظہ فرمائیں)
بھر حال اگر یھی امر امت اسلامیہ کی خلافت کی شائستگی کےلئے دلیل ھو ، تو پیغمبر بارھا مسافرت کے وقت اپنی جانشینی کی ذمہ داری من جملہ نماز کی امامت بعض افراد کو سونپتے رھے ھیں ۔ ایسے افراد کا سراغ حیات پیغمبر کی تاریخ میں ملتا ھے ، یہ کیسے ممکن ھے کہ ان سب جانشینوں میں سے صرف ایک آدمی ، وہ بھی صرف ایک نماز پڑھانے کی وجہ سے باقی لوگوں پر پیغمبر کی جانشینی کا حقدار بن جائے ؟
3۔ شریعت کے اصول و فروع کا علم رکھنا ، اسلامی معاشرے کی تمام ضرورتوں سے باخبر ھونا اور گناہ و خطا سے پاک ھونا ، امامت و رسول خدا کی جانشینی کی دو بنیادی شرطیں ھیں ، جبکہ سقیفہ کے جلسہ میں اگر کسی چیز پر گفتگو نھیں ھوئی تو وہ یھی دو موضوع تھے۔
کیا یہ مناسب نھیں تھا کہ یہ لوگ قومیت ، رشتہ داری اور دیگر بیھودہ معیاروں پر انحصار کرنے کے بجائے علم و دانش اور عصمت اور پاک دامنی کے موضوع کو معیار قرار دے کر اصحاب پیغمبر میں سے امت کی زعامت کےلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین کے اصول و فروع سے بخوبی واقف ھو اور ابتدائے زندگی سے اس لمحہ تک اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ھوئی ھو ؟ اس طرح خود خواھی کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا جاتا ؟
4۔ ان دونوں گروھوں کے استدال کے طریقے سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ لوگ پیغمبر کی خلافت و جانشینی سے ظاھری حکومت اور لوگوں پر فرماں روائی کے علاوہ کوئی اور مقصد نھیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کے دیگر منصبوں سے چشم پوشی کر رکھی تھی اور ان کی طرف کوئی توجہ نھیں رکھتے تھے ۔ یھی وجہ تھی کہ انصار ، افراد کی کثرت اوراپنے قبیلہ کی طاقت پر ناز کرتے ھوئے اپنے کو دوسروں پر فضیلت دیتے اور حقدار سمجھتے تھے۔
یہ صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام مسلمانوں کے حاکم اور فرماں روا تھے ، لیکن آپ اس مقام و منزلت کے علاوہ کچھ دوسرے فضائل اور منصبوں کے بھی مالک تھے کہ مھاجر و انصار کے امیدوارں میں ان کا شائبہ تک نھیں ملتا تھا ۔ پیغمبر اسلام شریعت کی تشریح کرنے والے ، اصو ل و فروع کو بیان کرنے والے ، اور گناہ و لغزش کے مقابلے میںمعصوم تھے۔ ان افراد نے پیغمبر کی جانشینی کا انتخاب کرتے وقت پیغمبر اسلام کی ان معنوی فضیلتوں کو کیسے نظر انداز کردیا جن کی وجہ سے آپ اسلامی معاشرہ میں برتر اور حکمراں قرار پائے تھے بلکہ اسے ظاھری و سیاسی حکومت کے زاویہ سے دیکھا جو عموماً دولت ، قدرت اور قبائلی قرابت کی بنیادوں پر قائم ھوتی ھے ۔
اس غفلت یا تغافل کی وجہ واضح ھے ، کیونکہ اگر اسلامی خلافت کو اس زاویہ سے دیکھتے تو انھیں اپنے آپ کو خلافت سے محروم کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نھیں ملتا۔ اس لئے کہ دین کے اصول و فروع سے ان کی آگاھی بھت محدود تھی، حتی حضرت ابو بکر کا مجوزہ امیدوار (حضرت عمر) سقیفہ کی میٹینگ سے تھوڑی ھی دیر پھلے پیغمبر اسلام کی وفات کا منکر ھوچکا تھا اور اپنے ایک دوست کی زبانی قرآن مجید کی آیت 1# سننے کے بعد خاموش ھوا تھا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے دوران اور اس سے پھلے بھی ان لوگوں کی بے شمار غلطیاں اور خطائیں کسی سے پوشیدہ نھیں ھیں ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈال سکیں جس کی بنیاد علم و دانش ، تقویٰ و پرھیزگاری ، معنوی کمالات اور عصمت پر مستحکم ھو؟!
اصحاب سقیفہ کی منطق پر امیر المؤمنین کا تجزیہ
امیر المؤمنین علیہ السلام نے سقیفہ میں موجود مھاجرین و انصار کی منطق پر یوں تنقید فرمائی :
جب ایک شخص نے امام(ع)کی خدمت میں آکر سقیفہ کا ماجرا بیان کیا کہ : مھاجر و انصار کے دو گروہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھ رھے تھے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:
1۔( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہ الرُّسُلُ اٴَفَإِنْ مَاتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اٴَعْقَٰبِکُمْ)( آل عمران 144)
”تم نے انصارکوجواب کیوںنہ دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھم سے کھا ھے کہ ھم ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی کریںاور ان کے خطاکاروں کی تقصیر معاف کردیں“۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے پوچھا : قریش کس اصول پر اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا : وہ کھتے تھے ھمارا تعلق رسول خدا کے خاندان سے ھے اور ھمارا اور آپ کا قبیلہ ایک ھی ھے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انھوں نے درخت سے اپنے لئے استدلال کیا اور اس کے پھل اور میوہ کو ضایع و برباد کردیا ۔ اگر وہ اسی لحاظ سے خلافت کے حقدار ھیں تو وہ ایک درخت کی ٹھنیاں ھیں اور میں اس درخت کا پھل اور آنحضرت کا چچیرا بھائی ھوں ، پھرخلا فت کا حقدار میں کیوں نھیں ھوں (4)
امیر المؤمنین کی خلافت کےلئے خود شائستہ ھونے کی منطق
سقیفہ کا ماجر انتھائی ناگفتہ بہ حالت میں اختتام کو پھنچا اور حضرت ابو بکر ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ سے باھر نکلے ، کچھ لوگ انھیں اپنے گھیرے میں لئے ھوئے تھے اور لوگوں سے کھتے تھے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کی بیعت کرواور بیعت کو عمومی بنانے کےلئے لوگوں کے ھاتہ پکڑ پکڑ کر حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر رکھتے تھے۔
ان ناگفتہ بہ حوادث کے تحت کہ یھاں پرھم ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ھیں ، حضرت علی کو مسجدمیں لایا گیا تا کہ وہ بھی بیعت کریں ۔
امام علیہ السلام نے خلافت کےلئے اپنی شائستگی اور سنت رسول سے متعلق اپنے وسیع علم اور عدالت کی بنیادوں پر حکومت کرنے کی اپنی روحی توانائی و صلاحیت کے ذریعہ خلافت کےلئے اپنی لیاقت و شائستگی پر استدلال کرتے ھوئے فرمایا:
” اے گروہ مھاجر ! جس حکومت کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنیاد ڈالی ھے ، اسے آنحضرت کے خاندان سے خارج کرکے اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ ۔ خدا کی قسم ھم اھل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ھیں ۔ ھمارے درمیان ایسے افراد موجود ھیں جو قرآن مجید کے مفاھیم کا مکمل علم رکھتے ھیں ۔ دین کے اصول اور فروع کو اچھی طرح جانتے ھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے اچھی طرح آگاہ ھیں ، اور اسلامی سماج کو بخوبی ادارہ کرسکتے ھیں ۔ برائیوں کی روک تھام کرسکتے ھیں اور غنائم کو عادلانہ تقسیم کرسکتے ھیں ۔
جب تک معاشرے میں ایسے افراد موجود ھیں دوسروں کی باری نھیں آتی ، ایسا شخص خاندان نبوت سے باھر کھیں نھیں مل سکتا ۔ خبردار ! ھویٰ و ھوس کے غلام نہ بنو کیونکہ اس طرح راہ خدا سے بھٹک جاؤ گے اور حق و حقیقت سے دور ھوجاؤ گے ! (5)
شیعہ روایات کے مطابق ، امیر المؤمنین بنی ھاشم کے ایک گروہ کے ھمراہ حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے مذکورہ صورت میں قرآن و سنت سے متعلق اپنے علم ، اسلام میں سبقت اور جھاد میں ثابت قدمی ، بیان میں فصاحت و بلاغت ، شھامت اور شجاعت کو دلائل کے طور پر پیش کرکے اپنی شائستگی کو ثابت کیا اور فرمایا :
” میں پیغمبر اسلام کی حیات اور آپ کی وفات کے بعد منصب خلافت کا مستحق اور سزاوار ھوں ، میں اسرار کا خزانہ اور علوم کا مخزن ھوں ۔ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم ھوں ۔
میں پھلا شخص ھوں جو پیغمبر پر ایمان لایا اس راہ میں آپ کی تصدیق کی ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ و جھاد کے دوران سب سے زیادہ ثابت قدم ، کتاب و سنت کےعلم سے سب سے زیادہ آگاہ ، دین کے اصول و فروع سے سب سے زیادہ واقف ، بیان میں سب سے زیادہ فصیح اور ناخوشگوار حالات میں سب سے زیادقوی اور بھادر فرد ھوں ، تم لوگ اس وراثت میں میرے ساتھ جنگ و جدال پر کیوں اتر آئے ھو ۔ (6)
اسی طرح امیر المؤمنین اپنے ایک خطبہ میں خلافت کا حقدار ایسے شخص کو سمجھتے ھیں جو امت میں حکومت چلانے کےلئے سب سے بھادر حکم الٰھی کو سب سے زیادہ جاننے والا ھو :
”ایھا الناس انّ احق الناس بھذا الامر اقواھم علیہ و اعلمھم بامر الله فیہ فان شغب شاغب استعتب فان بی قوتل “ (7)
یعنی اے لوگو! حکومت کےلئے سب سے شائستہ فرد وہ ھے جو ، سماج کا نظام چلانے میں سب سے زیادہ طاقت ور اور حکم الھی کو جاننے میں سب سے زیادہ عالم ھو۔ اگر کوئی شخص فساد کو ھوا دے اور وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ھو تو اس کی تنبیہ کی جائے گی اور اگر اپنی غلطی کو جاری رکھے تو قتل کیا جائے گا- ۔
یہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی منطق نھیں ھے بلکہ آپ(ع)کے بعض مخالفین بھی جب بیدار ضمیر کے ساتھ بات کرتے ھیں تو خلافت کےلئے حضرت علی(ع)کی شائستگی کا اعتراف کرتے ھیں کہ آپ کا حق چھین لیا گیا ۔
جب ابو عبیدہ جراح حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کے بارے میں آگاہ ھوئے تو امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے بولے :
” حکمرانی کو ابو بکر کےلئے چھوڑ دیجئے ، اگر آپ زندہ رھے اور طولانی عمر آپ کو نصیب ھوئی تو آپ حکمرانی کےلئے سب سے شائستہ ھیں کیونکہ آپ کی فضیلت ، قوی ایمان ، وسیع علم ، حقیقت پسندی ، اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی اور پیغمبر اسلام کے ساتھ آپ کی قرابت کسی سے پوشیدہ نھیں ھے(8)
_____________________
1۔سیرہ ابن ھشام ، ج4، 308۔ ارشاد شیخ مفید ، ص 260
2۔( لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ) ( زخرف / 31) و نیز رجوع کریں اسراء /90 ۔91)
3۔ بقرہ / 207۔
4۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ 64)
5۔الله الله یا معشر المھاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن دارہ و قعر بیتہ الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اٴھلہ عن مقامہ فی الناس و حقّہ ، فو الله یا معشر المھاجرین لنحن اٴحق الناس بہ ، لاٴنا اٴھل البیت و نحن اٴحقّ بھذا الاٴمر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع باٴمر الرعیة ، المدافع عنھم الاٴُمور السیئّة ․ القسم بینھم با لسویة، و الله انّہ لفینا ، فلا تتبعو الھوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج1 ، ص 12 ، احتجاج طبرسی ، ج1 ، ص 96)
6۔ اٴنا اٴولی برسول الله حیاً و میّتاً و اٴنا وصیّہ و وزیرہ و مستودع سرّہ و علمہ ، و اٴنا الصّدیق الاٴکبر و الفاروق الاٴعظم، اٴوّل من آمن بہ و صدّقہ ، واٴحسنکم بلاءً فی جھاد المشرکین، و اٴعرفکم بالکتاب و السنة ، اٴفقھکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الاٴمور و اٴذر بکم لساناً و اٴثبتکم جناناً فعلام تنازعو فی ھذا الاٴمر ( احتجاج طبرسی ، ج 12 ، ص 95)
7۔ نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ 168۔
8۔لامامة و السیاسة، ج 1 ص 12
نماز کی امامت ، خلافت کےلئے دلیل نھیں!
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں سے عقائد اور مذاھب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رھا ھے ، لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نھیں ھوا جو یہ توجیہ کرے کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اسلام کی نص کے مطابق عمل میں آئی ھے اور یہ کھے کہ پیغمبر خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔
حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مھاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ھیں اور یہ امر کہ حضرت ابو بکر کی خلافت پیغمبر اکرم کی نص کے مطابق نھیں تھی ، یہ بات خود سقیفہ میں حضرت ابو بکر اور ان کے ھمفکروں کے بیانات سے بالکل ظاھر اور واضح ھوجاتی ھے ۔ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر کی طرف سے کوئی نص موجود ھوتی تو وہ خود سقیفہ میں حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ھاتہ پکڑ کر ھر گز یہ نہ کھتے کہ : ” قد رضیت لکم ھذین الرجلین “ میں ان دو افراد کو خلافت کےلئے صالح اور شائستہ جانتا ھوں اور ان دونوں کے انتخاب پرراضی ھوں۔
اس کے علاوہ اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰھی نص موجود ھوتی ، تو سقیفہ میں قریش کی پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے قرابت اور ان کی اسلام میں سبقت کے ذریعہ استدلال نھیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ھم فکر کبھی حضرت ابو بکر کے پیغمبر کے ساتھ غار ثور میں ھم سفر ھونے اور نماز میں پیغمبر کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔
خود حضرت ابو بکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ھوئے کھا:
”ان العرب لا تعرف ھذا الامر الّا القریش اوسط العرب داراً و نسباً “، عرب معاشرہ قریش کے علاوہ __جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتے ھیں __کسی کو خلافت کےلئے شائستہ نھیں جانتا ۔
اگر حضرت ابو بکر کی خلافت کے حق میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک لفظ بھی بیان ھوا ھوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سھارا لیکر خود حضرت ابو بکر کھتے : اے لوگو! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ھے۔
یہ کیسے کھا جاسکتا کہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو پیغمبر نے معین فرمایا ھے جب کہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام سےیہ پوچہ لیا ھوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ھے؟
عالم اسلام کے مشھور مؤرخ ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ھوئے لکھتے ھیں :
” جب ابو بکر بیمار ھوئے اور قریش کا ایک معروف سرمایہ دار عبد الرحمان بن عوف ان کی عیادت کیلئے آیا تومقدماتی گفتگو کے بعد ابو بکر نے انتھائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کھا:
میری تکلیف کی پھلی وجہ وہ تین چیزیں ھیں جن کو میں نے انجام دیا ھے ، کاش میں نے انھیں انجام نہ دیا ھوتا ! اور تین چیزیں اور ھیں کہ کا ش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا ھوتا ۔
وہ تین چیزں جنھیں کاش میں نے انجام نہ دیا ھوتا حسب ذیل ھیں :
1۔ کاش فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ھوتا چاھے جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ۔
2۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ھوتی اور اسے عمر یا ابو عبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عھدہ پر رھتا ۔
3۔ کاش ایاس بن عبد الله کو جو راھزنی کرتا تھا ، آگ میں جلانے کے بجائے تلوار سے قتل کرتا۔
اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش میں نے پیغمبر اکرم سے پوچہ لیاھوتا یہ ھیں :
1۔ کاش میں نے پوچہ لیا ھوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ھے ؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ھے؟
2۔ کاش میں سوال کرلیا ھوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ھے؟
3 کاش میں نے پھوپھی اور بھن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام سے دریافت کرلیا ھوتا! (1)
نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی
اھل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاھے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کھنا چاھا کہ جب پیغمبر نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ھوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ھونا چاھئے جو ایک دنیوی امر ھے ۔
جواب :یہ استدلال کئی جھتوں سے قابل رد ھے :
1۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نھیں ھے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر کی اجازت سے انجام پائی ھو ۔ بعید نھیں ھے کہ انھوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر یہ کام انجام دیا ھو۔ اس امر کی تائید اس واقعہ سے ھوتی ھے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ھوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔
اھل سنت کے مشھور محدث امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ھیں : ایک دن پیغمبر قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ھوگیا ابو بکر پیغمبر کی جگہ پر کھڑے ھوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر مسجد میں پھنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ھوچکی ھے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ھوئے محراب تک پھنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ھٹ کر بعد والی صف میںکھڑے ھوئے۔ (2)
2۔ اگر ھم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ھوگی تو نماز میں امامت کرنا ھرگز حکومت اور خلافت جیسی انتھائی اھم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نھیں بن سکتا ۔
نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ھونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نھیں ھے ( اور اھل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نھیں ھے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ھیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نھیں سمجھا جاتا ھے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاھی رکھنا۔
احکام اور حدود الٰھی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ۔
گناہ اور خطا سے مبرّا ھونا
اس استدلال سے پتا چلتا ھے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ھے اور اس سے پیغمبر کی جانشینی کوایکعام حکمرانی کے سوا کچھ اور نھیں سمجھا ھے اسی لئے وہ کھتا ھے کہ : جب پیغمبر نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ھے کہ ھم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ھوں ، جو ایک دنیوی امر ھے۔
اس جملہ سے معلوم ھوتا ھے کہ کھنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وھی معنی مراد لیا ھے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ھے ۔ جبکہ پیغمبر کا خلیفہ ظاھری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ھوتا ھے جو عام حکمراں میں نھیں پائے جاتے اور ھم اس سلسلے میں اس سے پھلے مختصر طور پر بحث کرچکے ھیں۔
3۔ اگر نماز کیلئے حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر اکرم بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ھاتہ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ھاتہ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکہ کر مسجد میں کیوں داخل ھوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ھوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نھیں کھاتا۔اگر چہ اھل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ھیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر اکرم کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی (3)
واضح ھے کہ یہ توجیہ بھت بعید اور ناقابل قبول ھے ، کیونکہ اگر یھی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سھارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ھوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاھتے تھے۔
4۔ بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ھوئی ھے اور ان سب کا پیغمبر کی اجازت سے ثابت کرنا بھت مشکل اور دشوار ھے کیونکہ پیغمبر اکرم نے اپنے بیماری کے آغاز میں ھی اسامہ بن زید کے ھاتہ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :
”جھّزو جیش اسامة “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔
اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ھونے سے انکار کررھے تھے ، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ھونے کی دعا فرماتے تھے (4)
ان حالات میں پیغمبر ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!
5۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ھے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاھتے تھے ، پیغمبر اکرم نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ھو جنھوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“اب دیکھنا چاھئے کہ اس جملہ کا مفھوم کیا ھے، اور اس سے پیغمبر کا مقصد کیا تھا؟
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ حضرت عائشہ پیغمبر اکرم کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ھوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ھوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔
جس خیانت کے بارے میں یھاں پر تصور کیا جاسکتا ھے ، وہ اس کے سوا کچھ نھیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرم کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔
اھل سنت کے علماء ، پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ھیں اور کھتے ھیں :
پیغمبر اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نھیں تھیں ، کیونکہ وہ کھتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “
کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام کے عمل ( مسجد میں حاضر ھوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ھے؟!!
یھاں پر میں اپنی بات تمام کرتے ھوئے اس قضیہ کی صحیح نتیجہ گیری کا فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتا ھوں۔
_________________
1۔ تاریخ طبری ،ج3 ، ص 234 ۔
2۔ صحیح بخاری ج 2، ص 25۔
3۔ صحیح بخاری ، ج 2، ص 22۔
4۔ شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید ، ج 6، ص 52 ، نقل از : کتاب السقیفہ ، تالیف ابو بکر احمد بن عبد العزیز جوھری۔
حکومت ،روحانی قیادت سے جدا نھیں
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے حاکم و فرماں روا ھونے کے ساتھ معنوی اور روحانی پیشوا بھی تھے۔ قرآنی آیات ، اسلامی متون اور معتبر تاریخ اس امر کے شاھد ھیں کہ پیغمبر اسلام نے مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے ابتدائی لمحات سے اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور حقیقی حکمرانی کی تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھائیں اور اسلامی معاشرے کے بعض سیاسی ، سماجی اور اقتصادی امور کو اپنی سرپرستی میںبعض شائستہ اور لائق افراد کو سونپا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدا کی طرف سے فرماں روا اور حاکم ھونے کی بھت سی مثالیں ھیں یھاں ھم قارئین کرام کی توجہ کے لئے ذیل میں صرف چند مثالیں پیش کرتے ھیں :
1۔ قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلمانوں کی جانوں سے اولیٰ قرار دیتے ھوئے فرماتا ھے :
(النَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اٴَنْفُسِھِمْ )(1)
بیشک نبی تمام مؤمنین پر ان کی جانوں سے زیادہ اولیٰ ھے ۔
2۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کوحاکم و قاضی قرار دیتا ھے کہ مسلمانوں کے درمیان الٰھی قوانین کے تحت فیصلے کرے ، چنانچہ اس سلسلے میں فرماتا ھے :
(فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اٴَنْزَلَ اللهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اٴَھْوَآئَھُمْ )(2)
” آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خدا کی طرف سے آئے ھوئے حق سے الگ ھوکر ان کے خواھشات کا اتباع نہ کریں“
3۔ پیغمبر اکرم لوگوں میں نہ صرف خود فرماں روائی اور حکمیت کے فرائض انجام دیتے تھے بلکہ ھر علاقے کو فتح کرنے کے بعد، وھاں پر خود ایک شائستہ شخص کو بعنوان حاکم، دوسرے کو قاضی کی حیثیت سے اور تیسرے کو قرآن و احکام الٰھی کی تعلیم دینے کےلئے دینی معلم کی حیثیت سے مقرر فرماتے تھے اور بعض اوقات یہ تینوں عھدے ایک ھی فرد کو سونپتے تھے۔
پیغمبر اکرم کے زمانے میں ھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام عبد الله ابن مسعود، ابی ابن کعب اور زید بن ثابت وغیرہ قضاوت اور حکمیت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔(3)
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ اور یمن کو فتح کیا تو ” عتاب بن اسید“ کو مکہ کا گورنر اور ”بازان“ کو یمن کا حاکم منتخب فرمایا:
کتاب ”التراتیب الاداریہ“ کے مؤلف ” عبد الحی کتانی “ نے اپنی کتاب میں ان مسلمان گورنروں کی فھرست ذکر کی ھے ، جنھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے زمانے میں مختلف علاقوں کے سماجی ، سیاسی اور اقتصادی امور کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے منتخب فرمایا تھا ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے پیغمبر اسلام کے ذریعہ تشکیل دی گئی اسلامی حکومت کے طریقہ کار کا اشارہ ملتا ھے(4)
اسلام نے جھاد کی دعوت دے کر اور دینِ الٰھی کو پھیلانے کیلئے جھاد کے خصوصی قوانین بیان کئے اور مسلمانوں میں جنگی اور دفاعی تربیت کو وسیع پیمانے پر رائج کیا۔ ساتھ ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 27 جنگوں میں بذات خود حصہ لیا اور 55 ”سریہ“ (5) میں لشکر کے سردار معین کئے۔ اس طرح سے اسلامی حکومت کا چھرہ لوگوں کے سامنے نمایاں فرمایا اور یہ ثابت کردیا کہ آپ(ع)کی دعوت حضرت عیسی علیہ السلام کی دعوت کے مانند فقط روحانی ، معنوی دعوت نھیں ھے آپ کی رھبری احکام بیان کرنے اور تبلیغ دین کے لئے صرف وعظ و نصیحت تک محدود نھیں ھے بلکہ آپ کی دعوت و معنوی رھنمائی ایک طاقتور حکومت کی تشکیل کے ھمراہ تھی تا کہ اپنے پیروؤں کو دشمنوں کے گزند سے محفوظ رکہ سکیں ، کتاب خدا اور دین اسلام کو ان سے بچا سکیں اور یہ حکومت انسانی سماج میں الٰھی قوانین کے نفاذ کی ضامن بن سکے۔
اسلام کا اقتصادی نظام ، حکومتی آمدنی ، جیسے انفال وغیرہ اور عوامی آمدنی جیسے زکات و خمس وغیرہ اس امر کی واضح دلیل ھے کہ اسلام ایک جامع و کامل نظام ھے جس نے انسانو ں کی سماجی زندگی کے تمام پھلوؤں میں ایک مکمل اور ھمہ گیر نظریہ پیش کیا ھے اور صرف محدود پیمانے پر خشک مذھبی مراسم ، وہ بھی ھفتہ میں ایک روز کی عبادت پر اکتفاء نھیں کیا ھے ۔
لیکن اس جملے کا ھرگز یہ مطلب نھیں ھے کہ حقیقی عیسائی دین کی بنیاد یھی تھی ، بلکہ مسیحیت کے خود غرض مدعیوں نے قیصر و پاپ کے روپ میں دین مسحیت کو رفتہ رفتہ اس صورت میں تبدیل کیا ھے اور حضرت عیسی(ع)کے دین کو سماجی میدان سے خارج کرکے رکہ دیا ھے جب کہ بھت سے پیغمبر اس مقام و منصب کے مالک تھے۔
قرآن مجید بالکل واضح طور پر حضرت لوط اور حضرت یوسف علیھما السلام کے بارے میں کھتا ھے :
” کہ ھم نے انھیں حکومت اور فرمان روائی دی “(6)
خود حضرت یوسف بارگاہ الٰھی میں حمد و ثنا کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
( رَبِّ ءَ اتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْکِ )
پروردگارا ! تو نے مجھے ملک عطا کیا (7)
قرآن مجید نے حضرت داؤد کی قضاوت اور ان کی حکومت ، اور حضرت سلیمان و طالوت کی فرمان روائی اور حکومت کےلئے ان کی امتیازی حیثیتوںکا ذکر کیا ھے ۔ اس طرح پیغمبروں کو الٰھی حکومت کے بانی اور حکم الٰھی نافذ کرنے والوں کی حیثیت سے پھچنوایا ھے ۔
امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے وسیع ابواب جو حکومت اسلامی کے نفاذ کی عملی بنیادوں میں سے ایک ھیں اور اسی طرح معاملات ، حدود ، دیات اور فقہ کے دیگر ابواب کے تمام قوانین کے مطالعہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے قائم کی گئی حکومت کا طریقہ کار ھر شخص کےلئے واضح و روشن ھوتا ھے ۔
یہ مسئلہ اس قدر واضح ھے اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اور خلفاء کی حکومت ، خصوصاً امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی الٰھی حکومت کے دور اس امر کے اتنے نمایاں گواہ ھیں کہ ھم اس سلسلے میں مزید وضاحت سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ھیں ۔
بیان احکام اور لوگوں کی رھنمائی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حکومت اور سیاسی فرمان روائی کے علاوہ احکام الٰھی کو بیان کرنے والے الٰھی قوانین کے مفسر اور قرآن مجید کی آیات کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے عھدہ دار بھی تھے۔
قرآن مجید آپ کو مندرجہ ذیل آیہ شریفہ میں کتابِ خدا کے عالی مفاھیم بیان کرنے والے کی حیثیت سے پھچنوایا ھے :
( وَاٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ)
اور آپ کی طرف ذکر ( قرآن ) کو نازل کیا ھے تا کہ لوگوں کےلئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ھیں ۔(8)
آیہ شریفہ میں کلمہ ” لِتُبَیِّنَ“ تا کہ آپ بیان کریں ) سے واضح ھوتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے علاوہ اس امر پر بھی ماٴمور تھے کہ ان آیات کے مفاھیم اور مضامین کی وضاحت فرمائیں ۔ اگر آپ کا فریضہ صرف آیات الٰھی کو پڑھنا ھوتا تو کلمہ ” لِتُبَیّنَ “ کے بجائے ”لِتُقْرَاٴ“ یا ”لِتُتْلٰی“ ھوتا ۔
بیشک قرآن مجید کے حکم کے مطابق آنحضرت کتابِ خدا اوراس کے حکیمانہ احکام کے معلّم ھیں ، جیسا کہ فرماتا ھے :
(ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاُمِیِّینَ رَسُولاً مِنْھُمْ یَتْلُوا عَلَیھِمْ آیَاتِہ وََ یُزَکِّیھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ)
” اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“ (9)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی کے دوران ان دو عھدوں ( حاکمیت اور الٰھی احکام کے نفاذ) نیز احکام کی رھنمائی و تبلیغ پر فائز تھے اور یقینا آپ کی رحلت کے بعد بھی ، اسلامی معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان دو منصبوں کا حامل ھو۔
اب ھمیں دیکھنا چاھئے کہ ان خصوصی شرائط کا حامل کون شخص ھے جو ان دو امور میں معاشرے کی باگ ڈور سنبھال سکے؟
واضح ھے کہ احکام بیان کرنا اور لوگوں کو حلال و حرام بتانا، اخلاقی فضائل اور ان کی فطری خوبیوں کی راھنمائی کرنا یعنی ایک جملہ میں یوں کھا جائے کہ : دینی رھبری اور معنوی امور کی قیادت کےلئے عصمت اور خطا و گناہ سے پاک ھونے اور وسیع علم کا مالک ھونے کی ضرورت ھے کیونکہ لوگوں پر مکمل قیادت ، جس میں پیشوا کا قول و فعل لوگوں کے لئے ھادی و رھنما ھو ، اس کی مکمل پرھیزگاری (جسے عصمت کھتے ھیں ) اور وسیع علم پر منحصر ھے ۔
دوسرے الفاظ میں : اسلامی معاشرے کے قائد کو احکام اور اصول و فروع دین پر مکمل دسترس ھونی چاھئے ، اس کے بغیروہ لوگوں کےلئے مکمل راھنما اور الٰھی رھبر نھیں بن سکتا ، اگلے صفحات میں ھم ثابت کریں گے کہ ھمہ گیر رھبری و رھنمائی عصمت کے بغیر ممکن نھیں ھے ۔
قرآن مجید خدائے تعالیٰ کی طرف سے طالوت کو فرمان روائی کے عھدے کیلئے منتخب کرنے کا سبب دو چیزیں بیان فرماتا ھے:
1۔ علم و دانش میں برتری
2۔ جسمانی لحاظ سے طاقتور ھونا ، جس کی وجہ سے دن رات ، وقت بے وقت قوم کےلئے کام کرسکے اور قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے (حکام کے لئے دوسری شرط زمانہ قدیم سے تجربہ کے ذریعہ ثابت ھوچکی ھے ، حتی یہ بات ضرب المثل بن گئی ھے کہ : صحیح عقل و فکر صحت مند بدن میں ھوتی ھے)اب یہ آیہ شریفہ ملاحظہ ھو :
(اِنَّ اللهَ اصْطَفَٰ-ہ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ )
” انھیں ( طالوت کو ) الله نے تمھارے لئے منتخب کیا ھے اور ان کے علم و جسم میں وسعت فرمائی ھے “ (10)
امیر المؤمنین علیہ السلام جب اپنے سپاھیوں اور افسروں کو خطاب فرماتے تھے اور انھیں خدا کی راہ میں جھاد کرنے کی ترغیب و دعوت دیتے تھے تو اسلامی معاشرے کو ھر جھت سے ادارہ کرنے کی اپنی صلاحیت اور شائستگی بیان کرنے کےلئے اسی آیہ شریفہ سے استدلال کرتے تھے اور فرماتے تھے :
لوگو! اس قرآن مجید کی پیروی کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو جسے خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا ھے ھم قرآن مجید میں پڑھتے ھیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسیٰ (ع)کی وفات کے بعد اپنے پیغمبر سے درخواست کی کہ خداوند عالم ان کےلئے ایک حاکم و فرماں روا منتخب کرے جس کی رھبری میں وہ خدا کی راہ میں جھاد کریں ۔ خدائے تعالیٰ نے حضرت طالوت کو ان کی فرماں روائی کیلئے منتخب فرمایا، لیکن بنی اسرائیل نے ان کی اطاعت نھیں کی ، اور اس کام کےلئے ان کی صلاحیت اور شائستگی میں شک کرنے لگے ۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کھدو کہ اس منصب کےلئے طالوت کے انتخاب کا سبب علمی لحاظ سے ان کی برتری اور جسمی توانائی ھے۔
لوگوا ! ان قرآنی آیات میں تم لوگوں کےلئے پند و عبرت پوشیدہ ھے ۔ خدا ئے تعالی نے اس لئے طالوت کو ان کےلئے حاکم اور فرمانروا قرار دیا تھا کہ وہ علم و جسمی توانائی میں ان سے برتر تھے اور وہ ان خصوصیات کی بنا پر جھاد و جد و جھد کرسکتے تھے(11)
حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع)بھی اھل بیت رسول کی خلافت و امامت کےلئے شائستگی ثابت کرنے
کے لئے تمام الھٰی احکام اور امت کی تمام ضرورتوں کے بارے میںان کے علم پر تکیہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
لوگو! امت کے پیشوا ھمارے خاندان سے ھیں اور پیغمبر کی جانشینی کی صلاحیت ھمارے علاوہ کوئی نھیں رکھتا ، خدا ئے تعالی ٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر کے ذریعہ ھمیں اس منصب کےلئے شائستہ قرار دیا ھے ، کیونکہ علم و دانش ھمارے پاس ھے ، اور ھم قیامت تک رونما ھونے والے ھر حکم ، حتی بدن پر لگی ایک معمولی خراش کے حکم سے بھی آگاہ ھیں(12)
دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا صحیح نھیں
حاکمیت کو معنوی قیادت کے منصب سے جدا کرنا ایسی چیز نھیں ھے جو اھل سنت علماء کی تازہ فکری پیداوار ھو بلکہ یہ بھت پرانی تاریخ ھے۔
اس کی وضاحت یہ ھے کہ سقیفہ کا ماجرا ختم ھوا اور حضرت ابو بکر نے امور اپنے ھاتہ میں لئے اور ظاھراً حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں میں ایک گروہ ایسا تھا ، جو امیر المؤمنین کو خلافت کے عھدے سے محروم کرنے پر سخت ناراض تھا ، کیونکہ جنگ تبوک (13)
کےلئے مدینہ سے باھر نکلتے وقت ، غدیر(14)کے دن اور اپنی بیماری (15) کے ایام میں پیغمبر اسلام کے ارشادات بھی ان کے کانوں میں گونج رھے تھے۔
اس لئے کچھ حق پسند افراد اس ڈرامائی اندازمیں خلافت کے غصب کرنے پر سخت غصے میں آئے ، یہ لوگ کسی فریق کی طرفداری کئے بغیر خلیفہ کے پاس جاکر علی(ع)کے بارے میں سوال کرتے تھے ، خلیفہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نھیں تھا کہ دو منصبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ضروری ھے وہ کھتے تھے کہ ” منصب حکومت اور معنوی قیادت ھرگز ایک ساتھ ایک خاندان میں جمع نھیں ھوسکتے “
رسول خدا کا ایک صحابی بریدہ بن خصیب ، پیغمبر کی رحلت کے وقت مدینہ سے باھر ماموریت پر گیا تھا ۔ وہ پیغمبر کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آیا اور اس نے حالات کو دگرگوں پایا، تو ایک پرچم حضرت علی(ع)کے دروازے پر نصب کرکے غصہ کی حالت میں مسجد میں داخل ھوا اور خلیفہ اور ان کے ھمفکروں کے ساتھ بحث کرتے ھوئے کھنے لگا :
’ ’ کیا تم لوگوں کو یاد نھیں ھے کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھم سب کو حکم دیا تھا کہ حاکم اور امیر المؤمنین کی حیثیت سے حضرت علی علیہ السلام کو سلام کرو اور کھو:” السلام علیک یا امیر المؤمنین (16) اب کیا ھوا ھے کہ تم لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت اور سفارش کو فراموش کر بیٹھے ؟
خلیفہ نے ”بریدہ“ کے سوال کے جواب میں دونوں منصبوں کو جدا کرنے کا اپنا نظریہ بیان کرتے ھوئے کھا: خدائے تعالیٰ ھر دن ایک کام کے بعد دوسرا کام انجام دیتا ھے اور ایک خاندان میں نبوت (معنوی قیادت ) اور حکمرانی کو جمع نھیں کرتا ۔
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت(ع)یا امت کے معنوی پیشوا ھوں گے تا کہ احکام و شریعت الٰھی کو بیان کریں یا حکمراں ، یہ دونوں منصب ایک ساتھ جمع نھیں ھوسکتے ،
خلیفہ کی بات پر ذرا دقت سے غور کریں ان کا مقصد یہ نظر نھیں آتا کہ یہ دو منصب ھر گز کبھی ایک ساتھ جمع نھیں ھوسکتے ، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں منصبوں کے مالک تھے۔ آپ مسلمانوں کے حاکم بھی تھے اور معنوی قائد بھی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ حضرت سلیمان (ع)جیسے دوسرے پیغمبر بھی ان دونوں عھدوں پر فائز تھے ۔
یقینا ان کا مقصد یہ تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد یہ دو مقام اور منصب آنحضرت کے خاندان میں جمع نھیں ھوں گے ، لیکن یہ نظریہ بھی گزشتہ نظریہ کی طرح باطل اور بے بنیاد ھے ۔ لھذا جب حضرت امام باقر علیہ السلام اصحاب سقیفہ کے اس نظریہ ”جدائی“ کونقل کرتے تھے تو فوراً مندرجہ ذیل آیہ شریفہ ،__جو فرزندان ابراھیم میں ان دونوں منصبوں کے جمع ھونے کی حکایت کرتی ھے__ سے اس نظریہ کو باطل قرار دیتے تھے۔
(اٴَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلٰی مَا ءَ اتَ-ٰ-ھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہ فَقَدْ آتَیْنٰا ءَ الَ إِبْرَاھِیمَ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ آتَیْنَا ھُمْ مُلکاً عَظِیماً ) (17)
یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ھیں جنھیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بھت کچھ عطا کیا ھے تو پھر ھم نے آل ابراھیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم ( بڑی فرمانروائی ) سب کچھ عطا کیا ھے “
امام باقر علیہ السلام نے مذکور آیہ شریفہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
” فکیف یقرّون فی آل ابراھیم و ینکرونہ من آل محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم“
پس یہ لوگ کس طرح ان دونوں منصبوں کے خاندان ابراھیم(ع)میں جمع ھونے کا اعتراف کرتے ھیں ، لیکن اسی چیز کے خاندان محمد میں جمع ھونے کا انکار کرتے ھیں “
عیسائی تفکر
حقیقت میں ان دونوں منصبوں کا ایک دوسرے سے جدا ھونا ، ایک قسم کا عیسائی تفکر ھے جو اس نظریہ کے ھمفکروں کی زبان پر جاری ھوا ھے ۔ کیونکہ یہ موجودہ تحریف شدہ عیسائی دین ھے جو یہ کھتا ھے کہ میں اس امر پر ماٴمور ھوں کہ امور قیصر کو خود قیصر کو سونپ دوں ، لیکن دین اسلام کے تمام قوانین ایک مکمل مادی و معنوی ضابطہ حیات کی حکایت کرتے ھیں کہ جو بشر کی تمام سماجی ، اخلاقی ، سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ھے ۔
دین اسلام ، جس کی بنیاد اور احکام و قوانین کے تانے بانے انسانی سیاست یعنی اسلامی سماج کے امور کی تدبیر کو تشکیل دیتے ھیں اس میں معنوی رھبری کو حکومت اور فرماں روائی سے جدا نھیں کیا جاسکتا ھے۔
بیشک اسلام میں لوگوں پر حکومت و فرماں روائی بذات خود مقصد نھیں ھے بلکہ اسلامی حاکم اس لحاظ سے اس منصب کو قبول کرتا ھے کہ اس کے سائے میں حق کو زندہ کرسکے اور باطل کو نابود کرے۔
امیر المؤمنین علیہ السلام حکومت کو احیائے حق کا وسیلہ جاننے کے بجائے خود حکومت کو مقصد قرار دئےے جانے پر اعتراض کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
” و انّ دنیاکم ھذہ ازھد عندی من عفطة عنز“ (18)
یعنی تم لوگوں کی دنیا اور یہ حکومت جس کےلئے ھاتہ پاؤں ماررھے ھو ، میری نظر میں بکری کی ناک سے بھنے والے پانی کے برابر بھی قدر و قیمت نھیں رکھتے ۔
ماضی اور حال کے کچھ روشن خیال افراد یہ سوچتے ھیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کا طریقہ یہ ھے کہ ان دو منصبوں کو خلفاء اور اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تقسیم کردیا جائے ، حکومت اور فرماں روائی کو خلفاء کا حق اور معنوی قیادت کو اھل بیت علیھم السلام کا حق جان لیں ۔ اس طرح اس چودہ سو سالہ جھگڑے کو ختم کردیں اور مسلمانوں کو مشرق و مغرب کی دو سامراجی طاقتوں کے خلاف متحد و طاقتور بنائیں۔
لیکن یہ نظریہ بھی غلط ھے کیونکہ اس طرح اس اتحاد کی بنیاد ایک غلط نظریہ پر قائم ھوگی جس سے ایک قسم کی عیسائیت اور سیکولرزم کی بو آتی ھے ۔ ھم قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف ان دو منسبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے اسے قربانی کے گوشت کی طرح کیوں تقسیم کریں ؟!
مسلمانوں کے درمیاں اتحاد و یکجھتی کےلئے دوسرا راستہ موجود ھے اوروہ ایسے مشترکات ھیں جو دونوں فرقوں میں پائے جاتے ھیں ۔ کیونکہ سب ایک کتاب ، ایک پیغمبر اور ایک قبلہ کی پیروی کرتے ھیں اور بھت سے اصول و فروع میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ، لھذا دوسرے مسائل میں اختلاف آپس میں ٹکراؤ اور خوں ریزی کا سبب نھیں ھونا چاھیے ۔لیکن سیاسی اتحاد و یکجھتی کے تحفظ کے ساتھ ھر فرقہ کو اپنے عقائد کے صحیح اور منطقی دفاع کا پورا پورا حق ھونا چاھئے اور اپنے عقائد کے دفاع کے ساتھ ساتھ اپنے مشترک دشمن ( سامراج اور صیھونزم) کے خلاف دیگر مسلمانوں کے ساتھ اتحاد و یکجھتی کی ضرورت کو فراموش نہ کرنا چاھئے ۔
__________________
1۔ احزاب /6
2۔ مائدہ /48
3، التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔
4۔ التراتیب الاداریة ، ج1 ،ص 285۔
5۔ سریہ اس جنگ کو کھتے ھیں جس میں آنحضرت شامل نہ تھے۔
6۔ انبیاء / 72 ، یوسف / 22۔
7۔ یوسف / 101
8۔نحل /44
9۔جمعہ /2
10۔ بقرہ / 247
11۔ احتجاج طبرسی ، ج 1، ص 353 ، تلخیص کے ساتھ
12۔”ان الاٴئمة فینا و ان الخلافة لا تصلح الّا فینا و انّ الله جعلنا اھلہ فی کتابہ وسنة نبیہ و ان العلم فینا و نحن اھلہ و انہ لا یحدث شیٴ الی یوم القیامة حتی ارش الخدش الّا وھو عندنا“ ( احتجاج طبری ، ج 3 ص 6)
13 جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک کی جنگ پر جانے کا فیضلہ کیا تو، حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرکے فرمایا” انت منی بمنزلة ھارون من موسی الّا انہ لا نبی بعدی“ تم میرے لئے ویسے ھی ھو جیسے ھارون موسی کےلئے تھے ، فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا ، پیغمبر اسلام نے اس جملہ سے ، نبوت کے علاوہ تمام منصبوں کو علی(ع)کےلئے ثابت کردیا
14۔ حدیث غدیر کی تفصیل انیسویں فصل میں آئے گی ۔
15۔ یھاں مقصود حدیث ثقلین ھے کہ اس کے بارے میں بائیسوں فصل میں گفتگو آئے گی ۔
16۔ پیغمبر نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سلّموا علی علیّ بامرة المؤمنین ۔
17۔ نساء / 54
18۔ نھج البلاغہ ، خطبہ سوم
اسلامی احکام سے خلفاء کا ناآشنا ہونا
گزشتہ گفتگو سے یہ پوری طرح ثابت ھوا کہ ایک مکمل مذھبی قیادت کےلئے دین کے اصول و فروع سے متعلق وسیع علم اور اسلامی معاشرہ کی ضرورتوں سے مکمل آگاھی ضروری ھے اور اس طرح کی مکمل آگاھی کے بغیر مذھبی قیادت ممکن نھیں ھے ۔
کیونکہ بشر کی تخلیق کا مقصد یھی ھے کہ وہ شریعت الٰھی پر عمل کرتے ھوئے اور ارتقاء و کمال تک پھنچنے اورپیغمبروں کے بھیجے جانے اور شرعی وقوانین کے نفاذ کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نھیں کہ انسان کو گمراھیوں سے بچا لیا جائے اور اسے کمالات و فضائل کی طرف رھنمائی کی جائے۔ الٰھی قوانین پر عمل کرتے ھوئے ترقی کی منزلیں طے کرنا اس صورت میں ممکن ھے جب الٰھی فرائض و احکام بندوں کی دسترس میں ھوں تا کہ کمال کی راہ طے کرنے والوں کےلئے کوئی عذرو بھانہ باقی نہ رھے یا ان کی راہ سے رکاوٹیں دور کی جائیں۔
تمام احکام تک رسائی حاصل کرنے کےلئے شرط ھے کہ پیغمبر کے بعد لوگوں میں کوئی ایسا شخص موجود ھو جو سماج کی دینی ضرورتوں سے پوری طرح آگاہ ھو۔ تا کہ لوگوں کو ارتقاء و کمال کا راستہ اور صراط مستقیم دکھائے اور تخلیق کے مقاصد کو صحیح ثابت کرنے میں ذرا بھی غفلت سے کام نہ لے ۔
خلفائے ثلاثہ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے واضح ھوتا ھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا اور احکام و لوگوں کی دینی ضروریات کے بار ے میں ان کے معلومات بھت ضعیف تھے۔
قرآن مجید کے بعد اسلامی معاشرہ کو ارتقاء بخشنے کا واحد راستہ سنن و احادیث پیغمبر سے آگاھی ھے کہ ان کا اعتبار اور حجیت تمام مسلمانوں کی نظر میں مسلّم ھے ۔ قرآن مجید نے بھی بھت سی آیات میں سنّت اور احادیث پیغمبر پر عمل کو ضروری قرار دیا ھے مثال کے طور پر درج ذیل آیہ شریفہ ملاحظہ ھو:
(مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہ فَانْتَھُوا ) (1)
” جو رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ“
لیکن مذکورہ خلفاء اسلامی احکام کے بارے میں کوئی نمایاں آگاھی نھیں رکھتے تھے اور ان ناقص اور معمولی معلومات کے ذریعہ انسانی قافلہ کو ھرگز کمال کی منزل تک نھیں پھنچایا جاسکتا ھے ، جس کےلئے خود اسلامی احکام پر عمل پیرا ھونا لازم ھے۔
احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں جو روایتیں حضرت ابو بکر سے نقل کی ھیں ان کی کل تعداد 80 احادیث سے زیادہ نھیں ھے (2) جلال الدین سیوطی نے انتھائی کوشش کرکے ان کی تعداد 104 تک پھنچائی ھے (3)
سر انجام حضرت ابوبکر سے نقل کی گئی روایتوں کی آخری تعداد 142 بتائی گئی ھے (4) ان میں سے بھی بعض روایتیں نھیں ھیں بلکہ یہ باتیں ھیں جو ان سے نقل کی گئی ھیں مثلا ایک حدیث جو ان سے نقل کی گئی ھے اور انھی 142 احادیث میں شمار ھوتی ھے یہ جملہ ھے :
” ان رسول اللّٰہ اھدی جملاً لاٴبی جھل“
یعنی پیغمبر نے ابو جھل کو ایک اونٹ ھدیہ کے طور پر دیا “
اس کے علاوہ ان سے نقل کی گئی کئی احادیث قرآن مجید اور عقل کے منافی ھیں مثلاً درج ذیل دو حدیثیں ملاحظہ ھوں:
1۔ ”ان المیت ینضح علیہ حمیم ببکاء الحی “
یعنی ، زندہ لوگوں کے رونے سے مردے پر گرم پانی ڈالا جاتا ھے ۔
واضح ھے کہ اس حدیث کا مضمون چند لحاظ سے مردود ھے :
اولاً: میت پر معقول رونا ، انسانی جذبات کی علامت ھے اور پیغمبر اکرم نے اپنے بیٹے حضرت ابراھیم (ع)کے سوگ میں شدت سے آنسو بھائے تھے اور فرماتے تھے :
” پیارے ابراھیم ! ھم تیرے لئے کچھ نھیں کرسکتے ، تقدیر الٰھی ٹالی نھیں جاسکتی ، تیری موت پر تیرے باپ کی آنکھیں اشک بار ھیں اور اس کا دل محزون ھے ، لیکن میں ھرگز ایسی بات زبان پر جاری نھیں کروں گا قھر خدا کا سبب بنے ۔(5)
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”جنگ مؤتہ “ میں ” جعفر ابن ابو طالب “ کی شھادت کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو آپ اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک پر آنسو جاری ھوگئے تھے (6)
دوسرے یہ کہ ھم فرض بھی کرلیں کہ اس قسم کا رونا صحیح نہ ھوگا، تو آخر کسی ایک کے عمل سے دوسرا کیوں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔ قرآن مجید فرماتا ھے :
(وَ لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وَزْرَ اُخْرَیٰ ) (7) اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجہ نہ اٹھائے گا ۔
پھر ابو بکر کے نقل کے مطابق پیغمبر اکرم نے یہ کیسے فرما دیا کہ کسی کے رونے سے ، ایک بے بس مردہ عذاب میں مبتلا ھوگا؟!
2۔ ”انما حرّ جھنمّ علی امتی مثل الحمّام“
یعنی ، میری امت کےلئے جھنم کی گرمی حمام کی گرمی کے مانند ھے۔
یہ بیان گناھگاروں کے گستاخ ھونے کا سبب بننے کے علاوہ ، جھنم کے بارے میں قرآن مجید میں بیان شدہ نصوص کے بالکل خلاف ھے ۔ جیسے ” وقودھا الناس و الحجارة “ اس کا ایندھن پتھر اور انسان ھیں اور اس آگ کے کوہ پیکر شعلے بیدار دلوں کو پگھلادیتے ھیں
بھر حال جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، جو احادیث حضرت ابو بکر سے نقل ھوئی ھیں وہ یا ان کے معمولی بیانات ھیں یا وہ چیزیںھیں جو عقل و قرآن مجید سے ٹکراؤ رکھتی ھیں ۔ اور جسے حدیث کا نام دیا جائے ان میں بھت کم ملتی ھے۔
ظاھر ھے کہ ایسا شخص ، ان ضعیف اور ناچیز معلومات کے ساتھ اسلامی معاشرے کو ارتقا اور کمال کی طرف رھنمائی نھیں کرسکتا اور امت کی ضروریات کو پورا نھیں کرسکتا ۔
خلیفہ ، خود اپنے ایک بیان میں اپنی معلومات سے پردہ اٹھاتے ھوئے کھتے ھیں :
”انّی ولیت و لست بخیرکم و ان راٴیتمونی علی الحق فاٴعینونی و ان راٴیتمونی علی الباطل فسدونی (8)
اے لوگو ! تمھارے امور کی باگ ڈور میرے ھاتہ میں دیدی گئی ھے ، جبکہ میں تم میں سے بھترین فرد نھیں ھوں ، اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو“
دین و مذھب کے قائد کو جس کے نقش قدم پر اسلامی معاشرے کو چلنا ھے دینی مسائل میں امت سے مدد کا محتاج نھیں ھونا چاھئے ۔ یہ ھرگز مناسب نھیں ھے کہ دینی قائد بجائے اس کے کہ امت کو تخلیق کے مقصد کی طرف راھنمائی کرے اپنی غلطیاں اور گمراھیاں سدھارنے کےلئے امت سے مدد مانگے ۔
خلیفہ اول کی لاعلمی کے چند نمونے
یھاں پر ھم خلیفہ کے معلومات سے متعلق چند نمونے پیش کرتے ھیں جو بذات خود دینی مسائل کے بارے میں ان کے معلومات کی سطح کے گواہ ھیں ۔ یہ نمونے اس امر کی حکایت کرتے ھیں کہ وہ بھت سے روز مرہ کے مسائل کے جواب سے بھی ناواقف تھے:
1۔ ”دادی“ کی وراثت کا مسئلہ عام مسائل میں سے ھے خلیفہ اس کے بارے میں آگاھی نھیں رکھتے تھے ۔ ایک عورت کا پوتا فوت ھوگیا تھا اور اس نے اس سلسلے میں ان سے حکم خدا پوچھا ، انھوں نے جواب دیا کہ : کتاب خدا اور پیغمبر کے ارشادات میں اس بارے میں کچھ بیان نھیں ھوا ھے ۔ اس کے بعد اس عورت سے کھا: تم جاؤ ، میں رسول خدا کے صحابیوں سے پوچھوں گا کہ کیا انھوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ سنا ھے ؟! مغیرة بن شعبہ جو اسی مجلس میں موجود تھا ، اس نے کھا : میں پیغمبر خدا کی خدمت میں تھا، آپ نے دادی کےلئے میرا ث میں سے 3/1 حصہ مقرر فرمایاتھا ۔ (9)
خلیفہ کی لاعلمی زیادہ تعجب خیز نھیں ھے بلکہ تعجب اس بات پر ھے کہ اس نے مغیرہ جیسے آلودہ اور بد کردار شخص سے حکم الھی سیکھا ۔
2۔ ایک ایسا چور خلیفہ کے پاس لایا گیا جس کا ایک ھاتہ اور ایک پاؤں کاٹا جاچکا تھا ، انھوں نے حکم دیا اس کا پاؤں کاٹ دیا جائے ، خلیفہ دوم نے اشارہ کیا کہ ایسے موقع پر سنت پیغمبر یہ ھے کہ ھاتہ کاٹا جائے ، اس پرخلیفہ نے اپنا نظریہ بدل دیا اور خلیفہ دوم کے نظریہ کی پیروی کی (10)
ان دونمونوں سے فقہ اسلامی کے بارے میں خلیفہ کی معلومات کے کمی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ھے اور واضح ھے کہ اس قدر معلومات کے فقدان اور مغیرہ جیسے افراد سے رجوع کرنے والے شخص کے ھاتھوں میںمعاشرے کی معنوی قیادت کی باگ ڈور ھرگز نھیں دی جاسکتی ھے جس کی بنیادی شرط اسلامی احکام سے متعلق وسیع معلومات کا حامل ھونا ھے۔
خلیفہ دوم کی معلومات کا معیار
حضرت عمر نے جن احادیث کو پیغمبر سے نقل کیا ھے ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نھیں ھے ۔ درج ذیل داستان خلیفہ دوم کے فقھی معلومات کی سطح کی صاف گواہ ھے :
1۔ ایک شخص نے حضرت عمر کے پاس آکر ان سے دریافت کیا: مجنب ھوں اور پانی تک رسائی نھیں حاصل کرسکا۔ ایسے میں میرا فریضہ کیا ھے ؟
حضرت عمر نے جواب دیا: تم سے نماز ساقط ھے ، خوشبختی سے ” عمار “ اس جگہ موجود تھے انھوںنے خلیفہ کی طرف رخ کرکے کھا: یاد ھے کہ ایک جنگ میں ھم دونوں مجنب ھوئے تھے اور پانی نہ ھونے کی وجہ سے ، میں نے مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھی تھی ، لیکن تم نے نماز نھیں پڑھی تھی ؟ جب پیغمبر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کافی تھا اپنے ھاتھوں کو زمین پر مارکر چھرے پر ملتے یعنی تیمم کرتے ۔
خلیفہ نے عمار کی طرف رخ کرکے کھا: خدا سے ڈرو ؟ ( یعنی اب اس بات کو بیان نہ کرنا )
عمار نے کھا: اگر آپ نھیں چاھتے تو میں اس واقعہ کو کھیں بیان نھیں کروں گا (11)
یہ واقعہ اھل سنت کی کتابوں میں مختلف صورتوں میں نقل ھوا ھے اور یہ تمام صورتیںاس امر کی حکایت کرتی ھیں کہ خلیفہ دوم مجنب کے بارے میں جس کے پاس پانی نہ تھا حکم الٰھی سے بے خبر تھے۔
قرآن مجید نے دو سوروں (12) میں ایسے شخص کا فریضہ بیان کیا ھے ۔ لیکن ایسا لگتا ھے کہ قرآن مجید کی یہ دو آیتیں خلیفہ کے کانوں تک نھیں پھنچی تھیں !
ایسا شخص جو بارہ سال تک کوشش کے بعد صرف سورہ بقرہ یاد کر سکے اور اس کے شکرانہ کے طور پر قربانی کرے(13) ، بھلا وہ کس طرح ان آیات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ھے ؟!
2۔ شکیات نماز کے احکام ایسے احکام ھیں جن کی ھر مسلمان کو ضرورت ھوتی ھے ، بھت کم ایسے متدین افراد پیدا ھوں گے جو ان احکام سے آشنائی نہ رکھتے ھوں اب ذرا دیکھئے کہ اس سلسلے میںخلیفہ کی معلومات کس سطح کی تھی ؟
ابن عباس کھتے ھیں : ایک دن حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنی نماز کی تعداد کے بارے میں شک کرے تو اس کا فریضہ کیا ھے ؟ میں نے خلیفہ کو جواب دیا کہ : میں بھی اس مسئلہ کے حکم سے واقف نھیں ھوں ، اسی اثنا میںعبد الرحمان بن عوف آئے اور انھوں نے اس سلسلے میں رسول خدا کی ایک حدیث بیان کی (14)
شاید اس سلسلے میں ابن عباس کاجواب سنجیدہ نہ تھا ، اور اگر رھا بھی ھو تو بھی خلیفہ کی ایسے موضوع کے سلسلہ میں نا آگاھی واقعاً حیرت انگیزھے !!
3۔مستحب ھے کہ عورتوں کا مھر چار سو دینار سے زیادہ نہ ھو ، حتی حدیث کی اصطلاح میں فقھا اسے ” مھر السنة“ کھتے ھیں ، لیکن اس کے باوجو د ھر فرد اپنی شریک حیات کی رضا مندی حاصل کرنے کےلئے اس سے زیادہ مھر مقرر کرسکتا ھے۔
ایک دن خلیفہ نے منبر سے مَھر زیادہ ھونے کے خلاف تنقید کی اور اس مخالفت کا اس حد تک اظھار کیا کہ اعلان کردیا کہ مھر کی زیادتی منع ھے ۔ جب خلیفہ منبر سے نیچے اترے تو ایک عورت نے سامنے آکر ان سے سوال کیا : آپ نے عورتوں کے مھر میں اضافہ پر پابندی کیوں لگا دی ، کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نھیں فرمایا ھے :
(وَ آتَیْتُمْ اِحْدیٰھُنَّ قِنطَاراً ) (15)
اگر عورتوں میں سے ایک کو زیادہ مال دیدیا ھے تو حرج نھیں ھے “
اس وقت خلیفہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور بارگاہ الٰھی میں رخ کرکے کھا : ” خدا یا ! مجھے بخش دے اور اس کے بعد کھا: تمام لوگ احکام الٰھی کے بارے میں عمر سے زیادہ واقف ھیں (16) اس کے بعد دوبارہ منبر پر جا کر اپنی بات کی تردید کردی (17)
4۔ شاید ھی کوئی ایسا شخص ھوگا جو یہ نہ جانتا ھو کہ الٰھی فرائض کی انجام دھی کےلئے عقل ، طاقت اور بلوغ شرط ھے ۔ اس کے باوجود ، حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں ایک پاگل عورت کو بد0 کاری کے جرم میں خلیفہ کے حضور میں لایا گیا اور انھوں نے حکم صادر کردیا کہ اسے سنگسار کیا جائے ۔ خوشبختی سے جب ماٴمور اسے سنگسار کرنے کےلئے لے جارھے تھے ،حضرت علی(ع)سے ملاقات ھوگئی ۔ امام جب حقیقت سے آگا ہ ھوئے تو انھیں واپس لوٹنے کا حکم دیا ۔ جب خلفیہ کے پاس پھنچے تو ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: کیا تمھیں یاد نھیں ھے پیغمبر اکرم نے فرمایا ھے : نابالغ ، پاگل اور .. پر سے فرائض معاف کردیے گئے ھیں ؟
اس پر حضرت عمر نے ایک تکبیر کھی اور اپنا حکم واپس لے لیا ۔
اس قسم کے ناحق فیصلے خلیفہ دوم کی زندگی کی تاریخ میں بھت ملتے ھیں ۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی چھٹی جلد میں احکام اسلام کے بارے میںخلیفہ کی نا آگاھی کے سو واقعات مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کئے ھیں اور ان کا نام ” نوادر الاٴثر فی علم عمر “ رکھا ھے ۔
ان امور کے جائزہ سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ اسلامی معاشرے کی قیادت ھرگز ایسے فرد کے ھاتھوں میں نھیں دی جا سکتی ھے جو کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کے سلسلے میں اتنا بھی نھیں جانتا ھو کہ دیوانہ اور پاگل پر کوئی فریضہ عائد نھیں ھوتا۔
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ لوگوں کی ناموس اور اسلامی سماج کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ھاتھوں میں دے دی جائے جو عاقل اور دیوانہ میں فرق نہ کرسکتا ھو؟
کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ خدائے عادل لوگوں کی جان و مال کو ایک ایسے شخص کے سپرد کردے جو یہ بھی نہ جانتا ھو کہ عورت چہ ماہ میں بچے کو جنم دے سکتی ھے اور ایسی عورت پر بدکاری کی تھمت نھیں لگائی جاسکتی اور نہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا جا سکتا ھے ؟ (18)
خلیفہ ٴ سوم کے معلومات کا معیار
الٰھی احکام کے بارے میں تیسرے خلیفہ کے معلومات بھی گزشتہ دو خلفاء سے زیادہ نھیں تھے ۔ ان کے ذریعہ پیغمبر سے نقل کی گئی احادیث کی کل تعداد 146 سے زیادہ نھیں ھے (19)
اسلام کے اصول و فروع کے سلسلے میں حضرت عثمان کی آگاھی بھت کم اور ناچیز تھی قارئین کرام کی آگاھی کےلئے اسلامی تعلیمات سے ان کی بے خبری کے سلسلہ میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی جاتی ھے :
اسلام کے واضح احکام میں سے ایک حکم یہ ھے کہ مسلمان اور کافر کا خون برابر نھیں ھے اور پیغمبر اسلام نے اس سلسلے میں فرمایا ھے :
”لا یقتل مسلم بکافرٍ“
کافر کو قتل کرنے پر مسلمان کو قتل نھیں کیا جاسکتا ، بلکہ قاتل دیت ادا کرے گا ۔
لیکن افسوس ھے کہ خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران جب ایک ایسا واقعہ پیش آیا تو خلیفہ نے قاتل کو قتل کرنے کا حکم صادر کردیا پھر بعض اصحاب رسول کی یاد دھانی پر اپنے حکم کو بد لا (20)
خلیفہ سوم کی زندگی میں ایسے بھت سے نمونے ملتے ھیں ۔ بیان کو مختصر کرنے کیلئے ھم ان کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ھیں اور ایک بار پھر بحث کے نتیجہ کی طرف آتے ھیں:
امت اسلامیہ کی مذھبی قیادت کےلئے الٰھی احکام سے متعلق وسیع علم اور معلومات کا مالک ھونا شرط ھے اور ایسا علم عصمت یعنی گناھوں سے محفوظ رھے بغیر ممکن نھیں ھے اور افسوس ھے کہ پھلے تینوں خلفاء اس لطف الٰھی سے محروم تھے۔
______________________
1۔ حشر / 7۔
2۔ مسند احمد ، ج 1، 2۔14۔
3۔ تاریخ الخلفاء ، ص 59 ۔ 66۔
4۔ الغدیر ج 7 ص 108
5۔ سیرہ حلبی ، ج 3 ، ص 34، بحار ج 22، ص 157۔
6۔ مغازی واقدی ، ج2، ص 766 ، بحار ، ج21، ص 54 ۔
7۔ انعام / 164
8۔ طبقات ابن سعد، ج 3،ص 151۔
9۔ موطاٴ ابن مالک ص 335۔
10۔ سنن بیھقی ، ج8 ص 273۔
11۔ سنن ابن ماجہ ، ج 1، ص 200۔
12۔ نساء ․ 43، مائدھ/ 6۔
13۔ الدر المنثور ج1،ص 21۔
14۔ مسند احمد ، ج 1 ،ص 192۔
15۔ نساء/ 20
16۔ ”کل الناس افقہ من عمر”
17۔ الغدیر ، ج 6․ ص 87 ( اھل سنت کی مختلف اسناد سے منقول)
8۔ اس کی تفصیل پانچویں فصل میں گزری ھے ۔
19۔ الاٴضواء ، ص 204
20۔ سنن بیھقی ، ج 8 ص 33۔
پیغمبر کے صحابی ، گناہ و خطا سے معصوم نھیں
شاید مھاجرین و انصارکے ایک گروہ پرھماری تنقید سُنی برادری کے بعض افراد کیلئے تعجب کا سبب بنے اور یہ سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ھے ان حضرات کے قول و فعل کی عیب جوئی کرکے ان کو خطاکار قرار دیاجائے جبکہ قرآن مجید نے دو موقعوں پر ان کی ستائش کی ھے :
( وَالَسَّابِقُونَ الاٴَوَّلُونَ مِنَ المُھٰاجِرِینَ وَ الْاٴَنْصَارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِإِحْسَٰنٍ رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَ رَضُوا عَنْہ وَ اٴَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الاٴَنْھَارُ خٰلِدِینَ فِیھٰآ اٴَبَداً ذٰلِکَ الْفَوزُ الْعَظِیمُ)
” اور مھاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ھے ، ان سب سے خدا راضی ھوگیا ھے اور یہ سب خدا سے راضی ھیں اور خدا نے ان کےلئے وہ باغات مھیّا کئے ھیں جن کے نیچے نھریں جاری ھیں اور یہ ان میں ھمیشہ رھنے والے ھیں اور یھی بھت بڑی کامیابی ھے“ (1)
2۔ ایک دوسر ے سورہ میں ان افراد کے بارے میں ، جنھوں نے سرزمین ” حدیبیہ پر ایک درخت کے سایہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی تھی ، یوں فرمایا ھے :
(لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبٰایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِھِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْھِمْ وَ اٴَثَابَھُمْ فَتْحاً قَرِیباً)
” یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ھوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررھے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکہ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان سب پر سکون نازل کردیا اور انھیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی“ (2)
خلاصہ : پھلی آیہ کریمہ میں خدائے تعالیٰ مھاجرین و انصار میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ھے جو دوسرے لوگوں سے پھلے اسلام لائے اس کے بعد ان افراد کی بھی تعریف کرتا ھے جنھوں نے ان میں سے کسی ایک کی پیروی کی ھو۔
دوسری آیہ شریفہ میں ، خداوند کریم ان افراد کے بارے میں رضا مندی اور خوشنودی کا اظھار کرکے انھیں آرام و سکون اور فتح مکہ کی بشارت دیتا ھے ، جنھوں نے ساتویں ھجری کو سرزمین ” حدیبیہ“ پر پیغمبر کی بیعت کی تھی۔
خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس ستائش اور اظھار خوشنودی کے ھوتے ھوئے کس طرح ممکن ھے کہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد رسول کے اصحاب اپنے فیصلوں میں خطا یا گناہ کے مرتکب ھوتے ھوں ؟!
مذکورہ بالا آیات کے مقاصد کی وضاحت کرنے سے پھلے ایک مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے اور وہ یہ ھے کہ اھل سنت کے علماء نہ فقط ان دو گروھوں ( مھاجرین و انصار اور تابعین) کو __جن کے بارے میں ان دو آیتوں میں اشارہ ھوا ھے__عادل اور پاک دامن جانتے ھیں بلکہ ان کی اکثریت کا اعتقاد یہ ھے کہ تمام اصحابِ رسول عادل ، منصف ، متقی اورپرھیزگار تھے ۔ مگر یہ کہ کسی ایک کے بارے میں کسی واقعہ میں فسق و انحراف ثابت ھوجائے ۔
مختصر یہ کہ جس کسی نے پیغمبر اسلام کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ھے اسے عادل اورپاک دامن جاننا چاھئے ، مگر یہ کہ اس کے برخلاف کچھ ثابت ھوجائے۔
اس جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں جن کی تعدا د ایک لاکہ سے زیادہ ھے ، کے تانے بانے ھی جدا ھیں ، یعنی جوں ھی کوئی فرد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور مشرف ھوتا تھا ، ایک روحانی انقلاب پیدا کرکے اس لمحہ کے بعد اپنی پوری زندگی میں صحیح ، عادل اور پاک دامن ھونے کی سند حاصل کرلیتا تھا۔
صحابیوں کے بارے میں ایسی بات کھنا ، ان میں سے ایک گروہ کی بد کرداری پر پردہ ڈالنے کے مترادف ھے ، کیونکہ ایسے افراد کا ضعیف عمل اور بعض مواقع ، جیسے ، جنگ احد و جنگ حنین میں ان کا فرار کرنا ان کے ایمان میں کمزوری خود رسالت مآب اور آپ کے عالی مقاصد کے تئیں ان کی بے توجھی کی واضح دلیل ھے قارئین کرام جنگ ” احد“ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی بے وفائی کے بارے میں نازل شدہ آیات کی تحقیق کرکے حقیقت کو بخوبی محسوس کرسکتے ھیں ۔
یہ کس طرح کھا جاسکتا ھے کہ تمام صحابی عادل اورپاک دامن تھے ، جبکہ قرآن مجید ان کے ایک گروہ کے حلقہ منافقین میں ھونے کے بارے میں یوں فرماتا ھے :
(وَ اِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُہ إلَّا غُرُوراً )
” اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا ، یہ کھہ رھے تھے کہ خدا اور اس کے رسول نے ھم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سراسر دھوکہ ھے “ (3)
کیا ایسی بات کھنے والوں کو عادل و منصف کھا جاسکتا ھے ؟ جبکہ ایسا کھنے والے کو حقیقی مسلمان بھی نھیں کھا جاسکتا ھے۔
قرآن مجید صحابہ کے ایک گروہ کا تعارف ” سمّاعون“ کی حیثیت سے کراتا ھے ۔
اس لفظ سے مراد و ہ افراد تھے جو منافقین کی باتوں کو فوراً قبول کرلیا کرتے تھے ، فرماتا ھے :
( لَوْ خَرَجُوا فِیکُمْ مٰا زَادُوکُمْ إِلَّا خَبَالاً وَلاََوْضَعُوا خِلَٰ-لَکُمْ یبْغُونَکُمُ الْفِتْنَةَ وَ فِیکُمْ سَمَّٰعُونَ لَھُمْ وَ اللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ)
اگر یہ ( منافقین ) تمھارے ساتھ نکل بھی پڑتے تو تمھاری وحشت میں اضافہ ھی کرتے اور تمھارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڈاتے پھرتے اور تم میں ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی باتوں کو خوب سننے والے تھے اور الله تو ظالمین کو اچھی طرح جانتا ھے ۔ (4)
اس گروہ کے تمام افراد کو کیسے عادل و پاک دامن جانا جاسکتا ھے ،جبکہ خالد بن ولید ( بعض اھل سنت مصنفین کے عقیدہ کے مطابق اس نے پیغمبر سے ” سیف اللہ “ کا لقب حاصل کیا تھا ) فتح مکہ کے سال ایک خطر ناک جرم کا مرتکب ھوا اور قبیلہ ” بنی خزیمہ'' کی ایک جماعت کو ضمانت اور عھد وپیمان کے بعد دھوکہ و فریب سے قتل عام کرڈالا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس مجرمانہ حرکت کی خبر سنی تو قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ھوئے اور اپنے ھاتھوں کو بلند کرکے ”استغاثہ'' کی حالت میں فرمایا :
” اللھم انّی اٴبرءُ الیک ممّا صنع خالد بن ولید“
خدا ! جو کچھ خالد بن ولید نے انجام دیا ھے ، میں اس سے بیزار ھوں ۔ (5)
اس نام نھاد ” سیف اللہ “ کے کارناموں کی سیاہ فائل یھیں پر بند نھیں ھوتی بلکہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مالک بن نویرہ اور اس کے قبیلہ کے ساتھ کئے گئے اس کے بھیمانہ جرائم تاریخ کے صفحات میں ضبط ھوچکے ھیں ۔ اس نے مالک کو__جو ایک مسلمان تھا__قتل کرڈالا اور اس کی بیوی کے ساتھ اسی شب اپنا منہ کالا کیا۔
حق و باطل پھچاننے کا راستہ
اصولی طور پر یہ سب سے بڑی غلطی ھے کہ ھم حق و باطل کو افراد کے ذریعہ پھچانیں اور ان کی رفتار و گفتار کی حقانیت کےلئے ان کی شخصیت کو معیار قرار دیں ، جبکہ ایک شخص کا عقیدہ اور قول و فعل اس کی حقانیت کی علامت ھوتا ھے ، نہ کہ بر عکس۔
” بریٹنڈرسل “ علم ریاضی کا ایک بڑا دانشور ھے اور ریاضیات میں اس کے نظریے نمایاں اور علماء کے لئے قابل قبول ھیں ، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملحد ھے اور خدا و الھی مقدسات کا منکر شمار ھوتا ھے ، وہ اپنی کتاب ” میں کیوں عیسائی نھیں ھوں“ میں خدا پرستوں کے دلائل سے ناواقفیت کے سبب صراحت کے ساتھ لکھتا ھے :
” میں ایک زمانے میں خدا پرست تھا اور اس کی بھترین دلیل ” علة العلل“ جانتا تھا لیکن بعد میں اس عقیدہ سے پھر گیا ۔ کیونکہ میں نے سوچا اگر ھر چیز کےلئے ایک علت اور خالق کی ضرورت ھے تو خدا کےلئے بھی ایک خالق ھونا چاھئے “ (6)
کیا عقل ھمیں اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ ” رسل“ کی شخصیت کو خدا کے بارے میں اس کے فاسد فلسفی نظریہ__جبکہ کائنات کے تمام ذرات خدا کے وجود کی گواھی دیتے ھیں__ کے صحیح ھونے کی بنیاد قرار دیں ؟ واضح ھے کہ ھمیں اپنے فیصلوں میں افراد کی علمی و سیاسی شخصیت سے متاٴثر نھیں ھونا چاھئے اور ان کے افکار و اعتقادا اور قول و فعل کو ھر طرح کے حب و بغض سے اوپر اٹھ کر صرف عقل و منطق کے معیار پر تولنا چاھئے۔
یھاں مناسب ھے کہ ھم اس موضوع کے بارے میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے پائیدار اور مستحکم نظریہ کی طرف بھی اشارہ کردیں۔
جنگِ جمل میں کچھ لوگ حضرت علی(ع)کے طرفدار اور کچھ لوگ طلحہ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ کے طرفدار تھے ۔ اس حالت میں دو دلی کا شکار ایک آدمی جو حضرت علی(ع)کی عظیم شخصیت سے بھی آگاہ تھا، آگے بڑھا اور بولا :
کیسے ممکن ھے کہ یہ لوگ باطل پر ھوں ، جبکہ ان کے درمیان طلحہ ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ جیسی شخصیتیں موجود ھیں ، کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ان افراد نے باطل کا راستہ اختیار کیا ھوگا ؟!
امیر المؤمنین(ع)نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات بیان فرمائی کہ مصر کا مشھور دانشور ڈاکٹر طہٓ حسین اس کے بارے میں کھتا ھے :
” وحی کا سلسلہ بند ھونے کے بعد انسان کے کانوں نے اب تک ایسی با عظمت بات نھیں سنی ھے “
امام(ع)نے فرمایا:
”انک لملبوس علیک، ان الحق و الباطل لا یعرفان باٴقدار الرجال ، اعرف الحق تعرف اھلہ ، اعرف الباطل تعرف اٴھلہ “
یعنی ، تم نے حق و باطل کو پھچاننے کے معیار میں غلطی کی ھے ۔ حق و باطل ھرگز افراد کے ذریعہ نھیں پھچانے جاتے ، بلکہ پھلے حق کو پھچاننا چاھئے پھر اھل حق کو پھچانا جاسکتا ھے ، پھلے باطل کو پھچاننا چاھئے پھر اھل باطل کی تمیز دی جاسکتی ھے ۔
امیر المؤمنین کی یہ عظیم فرمائش __ کہ بقول ڈاکٹر طھٓ حسین ، وحی الٰھی کے بعد انسان کے کانوں نے ایسا کلام نھیں سنا ھے__ بعض سنی علماء کے اس اصول کو پوری طرح بے بنیاد ثابت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام کے تمام اصحاب عادل ھیں ۔
اب ھم یھاں پر قرآن مجید کی مذکورہ بالا دو آیتوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ھیں۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ پھلی آیت اس امر کی حکایت کرتی ھے کہ خدائے تعالیٰ دو گروھوں سے راضی ھوا ھے اور اس نے اپنی بھشت کو ان کےلئے آمادہ کیا ھے ۔ یہ دو گروہ حسب ذیل ھیں :
1۔ مھاجریں و انصار کا ایک گروہ ، جنھوں نے ایمان اور اسلام لانے میں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل کی ھے اور نازک لمحات میں دین کی راہ میں قربانیاں دی ھیں ۔
2۔ وہ لوگ جنھوں نے شائستہ طورپر مھاجریں و انصار کی پیروی کی ھے ۔
قرآن مجید نے پھلے گروہ کے بارے میں ( السَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ) اور دوسرے گروہ کے بارے میں (وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسان ) کی اصطلاح استعمال کی ھے ۔
لیکن قابل غور امر یہ ھے کہ کیا ، جو چیز ان سے خدا کی خوشنودی و رضا مندی کا سبب بنی صرف ان کی اسلام اور پیغمبر پر ایمان لانے میں سبقت تھی ، اور کیا اس خوشنودی و رضا مندی کی بقاء و دوام بلا قید و شرط ھے ؟
واضح تر الفاظ میں : کیا اگر یہ افراد بعد والے زمانوں میں فکری یا اختلافی انحراف کا شکار ھوکر ظلم و جبر کے مرتکب ھوجائیں ، تو کیا پھر بھی وہ خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کے حقدار ھوں گے اور قھر و غضب ان کے شامل حال نھیں ھوگا؟ یا یہ کہ اسلام لانے میں ان کی سبقت کےلئے خدا کی رضا مندی اور خوشنودی کا باقی رھنا اس امر پر مشروط ھے کہ ان کا ایمان و عمل صالح ان کی زندگی کے تمام ادوار میں باقی رھے ، اور اگر ان دو شرائط ،،میں ان کی زندگی میں کبھی خلل پیدا ھوجائے تو ان کی اسلام میں سبقت اور مھاجر و انصار کے عنوان کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا؟
قرآن مجید کی دیگر آیات کی تحقیق سے قطعی طور پر دوسرے نظریہ کی تائید ھوتی ھے کہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کےلئے کامیابی اور خوشنودی کی بقا اسی شرط پر ھے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ایمان اور عمل صالح پر قائم و دائم رھیں ۔ ملاحظہ ھوں اس قسم کی چند آیات کے نمونے :
قرآن مجید سورہ حشر (7) میں مھاجرین کی ایک جماعت کی اس بات پر ستائش کرتا ھے کہ انھوں نے اپنا سب مال و منال چھوڑ کر مدینہ ھجرت کی تھی ، اس کے بعد ان کی ستائش کا سبب مندرجہ ذیل عبارتوں میں بیان فرمایا ھے ۔
(یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً وَ یَنْصُرُونَ اللهَ وَ رَسُولَہ)
وہ لوگ ھمیشہ خدا کے فضل و کرم اور اس کی مرضی کے طلبگار رھتے ھیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ھیں ۔
یہ آیہ شریفہ اس بات کی حکایت کرتی ھے کہ انسان کی نجات کےلئے ھجرت کرنا گھر بار اور مال و منال کو چھوڑنا ھی کافی نھیں ھے بلکہ خدا کی خوشنودی کے اسباب فراھم کرنے کی مسلسل کوشش کرنا اور اپنے نیک اعمال کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کی مدد کرنا بھی ضروری ھے ۔
قرآن مجید فرماتا ھے : فرشتے ، جو عرش کے اطراف میں خدائے تعالیٰ کی تسبیح کرتے ھیں ، با ایمان افراد کےلئے اس طرح دعائے مغفرت کرتے ھیں :
( فَاغْفِر لِلَّذِین تٰابُو وَ اتَّبَعُوا سَبِیلَک)
” خدایا ! جو تیری طرف لوٹ آئے ھیں اور تیرے دین کی پیروی کرتے ھیں ، انھیں بخش دے “
قرآن مجید اصحاب پیغمبر میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ھے جو کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ھیں اور آپس میں مھربان ھیں ، رکوع و سجود بجالاتے ھیں ، خدا کے کرم و خوشنودی کے طالب ھیں اور ان کے چھروں پر سجدوں کی نشانیاں نمایاں ھیں (8)
اس کے علاوہ قرآن عفو و بخشش اور عظیم اجر کا حقدار ان اصحاب رسول کو جانتا ھے جو خدا پر ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیتے ھیں (9)
مذکورہ آیات او ران کے علاوہ دیگر آیات اس بات کی گواہ ھیں کہ مھاجرین و انصاریا سابقین و تابعین کے عنوان ، سعادت مند و نجات یافتہ ھونے کے لئے کافی شرط نھیں ھیں بلکہ اس فضیلت کے ضمن میں دیگر فضائل ، جیسے نیک اعمال کی انجام دھی اور بُرے کاموں سے پرھیز کی شرط بھی ضروری ھے ، ورنہ یہ لوگ درج ذیل آیات کے زمرے میں شامل ھوں گے :
1۔ (فَإِنَّ اللهَ لاَ یَرْضیٰ عَنِ القَوْمِ الفَاسِقٖینَ)
خدائے تعالیٰ فاسقوں کے گروہ سے راضی نھیں ھوتا ۔(10)
2۔ (وَ اللهُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمینَ )
خدائے تعالیٰ ظالموں کو دوست نھیں رکھتا ۔(11)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایمان کے بلند ترین مقام پرفائز اور فضیلت و اخلاق کا نمونہ تھے ، لیکن پھر بھی خدائے تعالیٰ واضح الفاظ میں آپ(ع)کو خبردار کرتے ھوئے فرماتا ھے :
(لِئِنْ اٴَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُونَنَّ مِنَ الخَاسِرِینَ) (12)
اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد ھو جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ھوگا “
بیشک پیغمبر اکرم کا قوی ایمان اور آپ کی عصمت ایک لمحہ کےلئے بھی آپ کو شرک کی طرف مائل نھیں کرسکتی ، لیکن یھاں پر قرآن مجید آپ سے مخاطب ھوکر در حقیقت دوسروں کو خبردار کرتا ھے کہ چند نیک اعمال کے دھوکے میں نہ رھیں بلکہ کوشش کریں کہ زندگی کی آخری سانس تک اسی نیک حالت پر باقی رھیں ۔
اس بنا پر ھمیں ھرگز یہ تصور نھیں کرنا چاھئے کہ پیغمبر کا صحابی ھونا اور سابقین و تابعین کے زمرے میں شمار ھونا کسی کو ایسا تحفظ بخش دے گا کہ اگر وہ بعد میں کوئی غلط قدم بھی اٹھائے ، پھر بھی خدا کی خوشنودی کا مستحق قرار پائے گا۔
ان ھی مھاجرین اور انصار یا سابقین و تابعین میں سے بعض افراد خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ھی مرتد ھوگئے تھے اور پیغمبر خدا کی جانب سے انھیں سخت ترین سزا کا حکم سنا دیا گیا ، اس وقت کسی نے بھی اعتراض نھیں کیا کہ : اے پیغمبر ! خدا وند کریم ان سے راضی ھوگیا ھے ، آپ انھیں کیوں یہ سخت سزا سنارھے ھیں ؟
اس سیاہ فھرست کے چند نمونے ملاحظہ ھوں:
1۔ عبد الله بن سعد بن ابی سرح : وہ مھاجرین میں سے تھا اور کاتب وحی تھا اس کے بعد مرتد ھوگیا اور اس نے کھا:
(سَاٴُنْزِلُ مِثْلَ مٰا اَنْزَ لَ اللهُ ) (13)
میں بھی خدا کی طرح کی باتیں نازل کرسکتا ھوں!
فتح مکہ میں پیغمبر اسلام نے چند افراد کے قتل کا حکم دیدیا اور فرمایا: جھاں کھیںوہ ملیں انھیں فوراًقتل کردیا جائے ، ان میں سے ایک یھی ” عبدالله“ تھا ، لیکن فتح مکہ کے بعد اس نے حضرت عثمان کے وھاں پناہ لے لی ، کیونکہ وہ حضرت عثمان کا رضاعی بھائی تھا حضرت عثمان کی سفارش اور اصرار کے سبب پیغمبرا کرم نے اسے چھوڑدیا ۔
پیغمبر اس شخص سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اس کو معاف کرنے کے بعد آنحضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا : جب تم لوگوں نے دیکھا کہ میں اسے معاف کرنے سے انکار کررھا ھوں اس وقت تم لوگوں نے اسے قتل کیو ں نھیں کرڈالا؟ (14)
2۔ عبید اللہ بن جحش : وہ اسلام کے سابقین اور مھاجرین حبشہ میں سے تھا ، لیکن حبشہ ھجرت کرنے کے بعد اسلام چھوڑ کراس نے عیسائی دین قبول کر لیا ۔
3۔ حکم بن عاص : وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام نے چند وجوھات کی بنا پر اسے طائف جلا وطن کردیا۔
4۔ حرقوص بن زھیر : اس نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی ، لیکن غنائم کی تقسیم پر اس نے پیغمبر اسلام سے تند کلامی کی اس پر رحمة للعالمین پیغمبر برھم ھوگئے اور فرمایا: وائے ھو تم پر ، اگر میں انصاف و عدالت کی رعایت نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا ؟! اس کے بعد اس کے خطر ناک مستقبل کے بارے میںفرمایا : حرقوص ایک ایسے گروہ کا سردار بنے گا جو دین اسلام سے اسی طرح دور ھوجائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل کر دور جاتا ھے“ (15)
پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی آپ کی رحلت کے سالھا بعد حقیقت ثابت ھوئی ۔ یہ شخص خوارج کا سردار بنا اور جنگ نھروان میں حضرت علی(ع)کی تلوار سے قتل ھوا ۔
یہ اس سیاہ فھرست کے چند نمونے تھے جس میں بھت سے اصحاب پیغمبر (مھاجر و انصار ) موجود ھیں ۔ پیغمبر اسلام کے صحابیوں کی تحقیق کے دوران ھمیں چند دوسرے افراد بھی نظر آتے ھیں : جیسے :حاطب بن ابی بلتعہ ، جو اسلام کے خلاف جاسوسی کرتا تھا یا ولید بن عقبہ ، جسے قرآن مجید نے سورہ حجرات (16) میں فاسق کھا ھے یا خالد بن ولید ، جس کا نامہ اعمال اس کے کالے کرتوتوں سے بھرا پڑا ھے (17)
کیا صحابیوں میں ایسے افراد کی موجودگی کے باوجود بھی یہ کھا جاسکتا ھے کہ خدائے تعالیٰ سابقین اور تابعین سے راضی ھوچکا ھے اب کسی کو بھی ان کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کا حق نھیں ھے ؟!
مختصر یہ کہ خداکی رضا و خوشنودی ، ان کے عمل سے مربوط ھے ، یعنی خدائے تعالیٰ ان افرادسے راضی و خوشنود ھوا ھے ، جنھوں نے غربت کے زمانے میں اسلام اور رسول خدا کی حمایت و مدد کی ھے لیکن اس قسم کی خوشنودی کا اظھار اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ان کی یہ خوشنودی ان افراد کی زندگی کی آخری سانس تک باقی رھے گی ۔ بلکہ اس کی بقا کی شرط یہ ھے کہ ان کا ایمان اسی حال میں باقی رھے اور وہ ایسا کوئی کام انجام نہ دیں جو ان کے کفر ، ارتداد ، فسق اور اعمال صالح کے برباد ھوجانے کا سبب بنے۔
دوسرے الفاظ میں ، مھاجر ین وانصار کا ایمان و اخلاص ، بھی دوسرے نیک اعمال کی طرح اس پر مشروط ھے کہ بعد میں کوئی ایسا کام انجام نہ دیں جو ان کے اس عمل کو بے اثر بنا کردے ورنہ ان کا یہ نیک عمل باقی نہ رھے گا ۔ علماء کی اصطلاح میں جس پاداش کا اس آیت میں ذکر ھوا ھے ( رضا مندی و بھشت) یہ ایک ” نسبی “ پاداش ھے ۔ یعنی وہ اس لحاظ سے ایسی پاداش کے حقدار ھیں لیکن اس سے بھی انکار نھیں ھے کہ اگر یھی لوگ بعد میں خدا کی نافرمانی کے کام انجام دیں گے تو غضب الھی اور جھنم کے مستحق ھوجائیں گے ۔ اس قسم کی آیات کا ھرگز یہ مطلب نھیں ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سابق صحابیوں کو تحفظ بخش دیں چونکہ خداوند تعالیٰ ان سے خوشنود ھوگیا ھے ، لھٰذا وہ جو چاھیںا نجام دیں یا ان میں سے اگر کوئی کسی غیر شرعی کام کا مرتکب ھوگیا ھو تو ھم اس آیت کے حکم کی تاویل و تحریف پر مجبور ھوں کیونکہ اس آیت نے ان کے سلسلے میں قطعی حکم صادر کردیا ھے !
نھیں ایسی ضمانت انبیاء اور اولیاء میں بھی کسی کو نھیں ملی ھے حتی خود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ایسی ضمانت نھیں ملی ھے ۔
قرآن مجید حضرت ابراھیم (ع)اور ان کے فرزند وں جیسے اسحاق (ع)، یعقوب (ع)، موسی (ع)و ھارون (ع)وغیرہ کے بارے میں فرماتا ھے :
( وَ لَو اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْھم مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) (18)
اگر یہ لوگ شرک اختیار کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ھوجاتے “
______________________
1۔توبہ / 100۔
2۔ فتح /18۔
3۔احزاب / 12
4۔توبہ / 47۔
5۔ سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 430۔
6۔ چرا مسیحی نیستم
7۔ حشر / 8۔
8۔ (مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَ الَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّآءُ عَلَٰی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تَرٰیھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَاناً سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِمْ مِنْ اٴَثَرِ السُّجُودِ)( فتح/ 29)
9۔( وَعَدَ اللهُ الّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْھُمْ مَغْفِرَةً وَ اٴَجْراً عَظِیماً) (فتح/ 29)
10۔توبہ/ 96۔
11آل عمران /57۔
12۔زمر /65
13۔ نعام / 93۔
14۔ الاصابة ، ج 2، ص 38
15۔ ان افراد میں سے ھر ایک کی زندگی کے حالات علم رجال کی کتابوں ، جیسے : الاستیعاب ،الاصابة ، اسد الغابة وغیرہ میں درج ھیں
16۔ حجرات / 6۔
17۔ مذکورہ افرادا ن منافقوں کے گروہ کے علاوہ ھیں جن کی داستان مفصل ھے ۔
18۔ انعام / 88۔
حضرت علی(ع)کی پیشوائی کے نقلی دلائل
گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت ھو اکہ خد ا کی طرف سے امام کا تعین دنیاوی” مطلق العنان “ نظام سے بالکل مختلف ھے ، لوگوں میں قوانین الٰھی کی روشنی میں حکم کرنے اور انصاف قائم کرنے کےلئے جو حاکم خدا کی طرف سے معین ھوتا ھے ، اس کی حکومت روئے زمین پر قابل تصور حکومتوں میں سب سے زیادہ عادل اور مستحکم حکومت ھے ۔
اس قسم کی حکومت میں ، حاکم و فرماں روا خدا کی طرف سے منتخب ھوتا ھے ۔ خدا بھی اپنے حکیمانہ ارادہ سے ھمیشہ بھترین وشائستہ ترین فرد کو رھبر کے عنوان سے منتخب کرتا ھے اور خدا کے علم و تشخیص میں کسی بھی قسم کی غلطی و خطا یا غیر منطقی میلان کا امکان نھیں پایا جاتا ۔
خدائے تعالیٰ انسان کے بارے میں مکمل آگاھی رکھتا ھے اور اپنے بندوں کے بارے میں ان کی مصلحتوں اور ضرورتوں سے ان سے زیادہ واقف ھے ۔ جس طرح خدا کے قوانین اور احکام بھترین اور عالی ترین قوانین و احکام ھیں اور کوئی بھی قانون خدا کے قانون کے برابر نھیں ھے ، اسی طرح خدا کی طرف سے معین شدہ پیشوا اور رھبر بھی بھترین پیشوا اور شائستہ ترین و رھبر ھوگا ایک ایسا قائد و فرمان روا جس کی زندگی دسیوں سھو و خطا اور نفسانی خواھشات سے آلودہ ھو وہ خدا کی طرف سے منتخب شدہ رھبر وقائد کا ھم پلہ ھرگز نھیں ھوسکتا ھے۔
گزشتہ بحثوں میں یہ بھی ثابت ھوا کہ اسلامی معاشرہ ھمیشہ ایک ایسے معصوم امام کا محتاج ھے جو الٰھی قوانین اور احکام سے آگاہ ھوتا ھے،کہ امت کےلئے فکری اور علمی پناہ گاہ بن سکے ۔
اصولی طور پر اسلامی معاشرہ فکری اور علمی لحاظ سے ارتقا ء کی اس حد تک نھیں پھنچا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اپنا نظم و نسق خود سنبھال سکے اور اس قسم کے ایک الٰھی رھبر سے بے نیا ھوجائے۔
اب ھم غور کریں اور دیکھیں کہ ان تمام حالات کے تناظر میں پیغمبر الٰھی نے اسلامی امت کی قیادت کےلئے کس کو معین فرمایا تھا اور اس مسئلہ کو ھمیشہ کےلئے حل کردیا تھا ۔
یھاں پر ھم ایسے نقلی دلائل کا سھارا لیتے ھیں وہ دلائل جو قطعی طور سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صادر ھوئے اور اصطلاحاً متواتر ھیں اور ان میں جھوٹ اور جعل سازی کا ھرگز امکان نھیں ھے ۔ اس کے علاوہ ایسی روایتوں کا مفاد یہ ھے کہ ان ، کی دلالت کسی خاص فرد یا افراد کی امامت و پیشوائی کے بارے میں اتنی واضح اور روشن ھو کہ ھر قسم، کے شک و شبھہ کو دلوں سے نکال دے اور کسی بھی انصاف پسند انسان کےلئے سوال اور تذبذب کی گنجائش باقی نہ رھے۔
لھذا ھم یھاں پر چند ایسے نقلی دلائل کی طرف اشارہ کریں گے جن کی روایت پیغمبرا کرم سے قطعی اور مقصود کے بارے میں ان کی دلالت بھی واضح ھے۔ کتاب کے صفحات اور قارئین کرام کے وقت کی کمی کے پیش نظر ھم یھاں لوگوں پر امیر المؤمنین(ع)کی پیشوائی و ولایت کے سلسلے میں نقل ھوئے دلائل کی ایک بڑی تعداد میں سے حسب ذیل کا انتخاب کرتے ھیں :
1۔ حدیث منزلت
شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ھزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے حضرت علی(ع)کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
جب منافقین حضرت علی علیہ السلام کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی علیہ السلام مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لھذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی(ع)اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر نے علی(ع)کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!
مدینہ میں حضرت علی(ع)کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی(ع)اور آپ(ع)کے دوستوں کےلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لھذا حضرت علی(ع)اس افواہ کی تردید کےلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ (ع)نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے آپ کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:
” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی، انّہ لا ینبغی ان اذھب الّا و انت خلیفتی “
” یعنی کیا تم اس پر راضی نھیں ھو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جیسی ھارون(ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بس فرق یہ ھے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا؟ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تم ھی میرے جانشین اور خلیفہ ھوگے “
یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔
مرحوم محدث بحرانی نے کتاب ” غایة المرام“ میں ان افراد کا نام ذکر کیا ھے ، جنھوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ایک دقیق و صحیح تحقیق سے ثابت کیا ھے کہ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو 150 طریقوں سے نقل کیا ھے جن میں 100 طریقے اھل سنت علماء و محدثین تک منتھی ھوتے ھیں
مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی کتاب ” المراجعات “ میں اس حدیث کے اسناد کو اھل سنت محدثین کی کتابوں سے نقل کیا ھے اور ثابت کیاھے کہ یہ حدیث ان کی دس حدیث اور رجال کی کتابوں میں نقل ھوئی ھے “
اس حدیث کے صحیح ھونے کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ اھل سنّت کے صحا ح لکھنے والوں ”بخاری“ اور ” مسلم “ نے بھی اسے اپنی صحاح میں ذکر کیا ھے (1) اس حدیث کے محکم ھونے کے بارے میں یھی کافی ھے کہ امیر المؤمنین کے دشمن ” سعد و وقاص “ نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کی تین نمایاں فضیلتوں میں سے ایک فضیلت شمار کیا ھے ۔
جب معاویہ اپنے بیٹے ” یزید“ کے حق میں بیعت لینے کےلئے مکہ میں داخل ھوا ، اور ” الندوة“ کے مقام پر ایک انجمن تشکیل دی جس میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے بعض شخصیتیں جمع ھوئیں۔ معاویہ نے اپنی تقریر کا آغاز ھی حضرت علی(ع)کو بر ابھلا کھنے سے کیا، اسے امید تھی ، کہ ” سعد و وقاص“ بھی اس کی ھاں میں ھاں ملائے گا ۔ لیکن سعد نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کھا: جب بھی مجھے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشان کارنامے یاد آتے ھیں تو صدق دل سے کھتا ھوں کہ کاش ! ان تین فضیلتوں کا مالک میں ھوتا! اور یہ تین فضیلتیں حسب ذیل ھیں :
1۔ جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے کھا:
” تمھیں مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھاون کو موسیٰ(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا“
2۔ (پیغمبر اکرم نے ) جنگ خیبر کے دوران ایک دن فرمایا:
” کل میں علم ایسے شخص کے ھاتہ میں دوںگا جسے خدا و رسول دوست رکھتے ھیں اور وہ فاتح خیبر ھے ۔ فرار کرنے والا نھیں ھے“ ( اس کے بعد آنحضرت نے علم علی(ع)کے ھاتہ میں دیدیا )۔
3۔ ” نجران“ کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ کے دن پیغمبر اکرم نے علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع)، و حسین(ع)کو اپنے گرد جمع کیا اور فرمایا:
”پروردگارا ! یہ میرے اھل بیت(ع)ھیں “ (2)
لھذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاھئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑہ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاھئے ۔
پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“ قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔
اس حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ذات سے حضرت علی علیہ السلام کی نسبت کو حضرت ھارون (ع)کو ، حضرت موسی(ع)سے نسبت کے مانند بیان فرمایا ھے، اور صرف ایک منصب کو استثناء قرار دیا ھے ، وہ یہ ھے کہ حضرت ھارون(ع)پیغمبر تھے لیکن پیغمبر اسلام چونکہ خاتم النبیین ھیں لھذا آپ (ع)کے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا ۔ اور علی(ع)پیغمبری کے مقام پر فائز نھیں ھوں گے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حضرت ھارون(ع)کے پاس وہ کون سے منصب تھے کہ حضرت علی(ع)( بجز نبوت کے کہ خود پیغمبر نے اس حدیث کے ضمن میں اسے استثناء قرار دیا ھے ) ان کے مالک تھے ۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ حضرت موسیٰ نے خدائے تعالی سے حضرت ھارون کےلئے درج ذیل منصب چاھے تھے اور خد ا نے حضرت موسی(ع) کی درخواست منظور فرما کر وہ تمام منصب حضرت ھارون(ع)کو عطا فرمائے تھے:
1۔ وزارت کا عھدہ : حضرت موسیٰ بن عمران(ع) نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو ان کا وزیر قراردے :
(وَاجْعَلْ لِی وَزِیراً مِنْ اٴَھْلِی ، ھَا-ٰرُون اٴَخِی)
” پروردگارا! میرے اھل بیت میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر قرار دیدے “ (3)
2۔ تقویت و تائید: حضرت موسیٰ (ع)نے خدا سے درخواست کی کہ ان کے بھائی حضرت ھارون(ع)کے ذریعہ ان کی تائید و تقویت فرمائے :
(اُشْدُدْ بِہ اٴَزْرِی )
اس سے میری پشت کو مضبوط کردے (4)
3۔ رسالت کا عھدہ : حضرت موسی (ع)بن عمران نے خدائے تعالی سے درخواست کی کہ حضرت ھارون(ع)کو امر رسالت میں ان کا شریک قرار دے :
( وَ اَشْرِکہ فِی اٴَمْرِی ) (5)
اسے امر رسالت میں میرا شریک قرار دیدے ۔
قرآن مجید اشارہ فرماتا ھے کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت موسی(ع) کی تمام درخواستوں کا مثبت جواب دیکر یہ تمام عھدے حضرت ھارون (ع)کو عطا کئے :
( قَدْ اُوتِیتَ رسُوْلَکَ یَٰمُوسَیٰ ) (6)
یعنی اے موسی (ع)! بیشک تمھارے تمام مطالبات تمھیں عطا کردیے گئے اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (ع)نے اپنی غیبت کے دوران بنی اسرائیل میں حضرت ھارون(ع)کو اپنا جانشین مقرر کرتے ھوئے فرمایا:
(وَ قَالَ مُوسیٰ لِاٴَخِیہ ھَٰرُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی )
یعنی ، موسی نے ھارون سے کھا: تم قوم میں میرے خلیفہ و جانشین ھو۔ (7)
مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے پر ھارون(ع)کے منصب اور عھدے بخوبی معلوم ھوتے ھیں اور حدیث منزلت کی رو سے مقام نبوت کے علاوہ یہ سب منصب اور عھدے حضرت علی علیہ السلام کےلئے ثابت ھونے چاھئیں۔
اس صورت میں حضرت علی(ع)، امام ، وزیر ،ناصر و مدد گاراور رسول خدا(ع)کے خلیفہ تھے اورپیغمبر کی عدم موجودگی میں لوگوں کی رھبری و قیادت کے عھدہ دار تھے۔
ایک سوال کا جواب :
ممکن ھے یہ کھا جائے کہ حضرت علی علیہ السلام کےلئے پیغمبر اکرم کی جانشینی انھیں ایام سے مخصوص تھی جب آپ مدینہ سے باھر تشریف لے گئے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد آپ کے مطلق خلیفہ اور جانشین تھے۔
لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا ایک سرسری مطالعہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ھے۔
ایک : حضرت علی علیہ السلام پھلے اور آخری شخص نھیں تھے۔ جنھیں پیغمبر اکرم نے اپنی عدم موجودگی میں مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا ھو ۔ بلکہ پیغمبر اکرم مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران ، جب کبھی مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی شخص کو اپنی جگہ پر جانشین مقرر کرکے ذمہ داریاں اسے سونپتے تھے اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جملہ کے ذریعہ امام(ع)کو ھارون سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف آپ(ع)کے مدینہ میں عدم موجودگی کے دوران امام(ع)کی جانشینی تھا ، تو پیغمبر اسلام نے یہ جملہ اپنے دیگر جانشینوں کےلئے کیوں نھیں فرمایا ، جبکہ وہ لوگ بھی جب پیغمبر جھاد یا حج خانہ خدا کےلئے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے ، آپ کے جانشین ھوا کرتے تھے ؟پھر اس فرق کا سبب کیا تھا؟
دو: ایک مختصر مدت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی صورت میں پیغمبر کو اس طرح تفصیلی جملہ بیان کرکے منصب رسالت کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی ضرورت ھی نھیں تھی!
اس کے علاوہ اس قسم کی جا نشینی کسی خاص فخر کا سبب نہ ھوتی اور اگر فرض کرلیں کہ یہ ایک اعزاز تھا تو اس صورت میں یہ چیز حضرت علی(ع)کے خاص فضائل میں شمار نھیں ھوتی کہ برسوں کے بعد سعد و قاص اس فضیلت کو سیکڑوں سرخ اونٹوں کے عوض خریدنے کی تمنا کرتا ! اور خو د حضرت علی(ع)کے انتھائی اھم فضائل ( فاتح خیبر اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ میں نفس پیغمبر اور آپ کے اھل بیت(ع))کے مقام تک پھنچنے کی آرزو کرتا !!
تین : اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف جنگ تبوک کےلئے جانے کے موقع پر اس تاریخی جملہ کو بیان فرمایا ھوتا تو کسی کے ذھن میں ایسا سوال پیدا ھونا بجا تھا ۔ لیکن پیغمبر اسلام نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ اھم جملہ دیگر مواقع پر بھی فرمایا ھے اورتاریخ اور حدیث کے صفحات میں یہ واقعات ثبت و ضبط ھوچکے ھیں ۔ ھم یھاں پر اس کے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں (وَجَعَلْنَا مَعَہ اَخَاہ ھَٰرُونَ وَزِیراً )
ھم نے موسی کے بھائی ھارون کو ان کا ویزر قرار دیا“ (8)
1۔ ایک دن حضرت ابو بکر ، عمر اور ابو عبیدة بن جراح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پر رکہ کر فرمایا:
” یا علی انت اول المؤمنین ایماناً و اوّلھم اسلاماً ، و انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ “ (9)
” اے علی ! تم وہ پھلے شخص ھو جو مجھ پر ایمان لائے اور دین اسلام کو قبول کیا اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی“
2۔ ھجرت کے ابتدائی ایام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار کو جمع کیا اور انھیں آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا صرف حضرت علی علیہ السلام کو کسی کا بھائی قرار نہ دیا۔ حضرت علی(ع)کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، آپ(ع)نے پیغمبر سے عرض کی: یا رسول اللہ ! کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ھوئی ھے کہ آپ نے ھر فرد کےلئے ایک بھائی معین فرمایا، اور میرے لئے کسی کا انتخاب نھیں کیا؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یھاں پر صحابیوں کے مجمع میں اپنا وھی تاریخی جملہ دھرایا:
” وَ الَّذی بعثنی بالحق ما اخرتک الا لنفسی و انت منی بمنزلة ھارون من موسی غیر انہ لا نبیّ بعدی و انت اخی و وارثی “ (10)
” قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ھے ، میں نے تمھیں صرف اپنا بھائی بنانے بنانے کیلئے یہ تاخیر کی ھے ، اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون (ع)کو موسی(ع)سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا ، تم میرے بھائی اور میرے وارث ھو“(11)
حضرت علی(ع)ان تمام عھدوں اور منصبوں کے مالک تھے جو حضرت ھارون (ع)کو ملے تھے اس بات کی ایک اور دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اسلام خدا کے حکم سے مختلف طریقوں سے کوشش فرماتے تھے کہ لوگ اس سے آگاہ ھوجائیں کہ حضرت علی(ع)کی حیثیت آپ کی نسبت وھی ھے جو ھارون (ع)کی موسی (ع)کی بنسبت تھی اور نبوت کے علاوہ اس میں کسی اور قسم کی کمی نھیں ھے۔
لھذا جب حضرت زھرا علیھا السلام سے حضرت علی علیہ السلام کے دو بیٹے پیدا ھوئے ، تو پیغمبر نے علی(ع)کو حکم دیا کہ ان کے نام ” حسن (ع)و حسین (ع)“ رکھیں جیسا کہ ھارون(ع)کے بیٹوں کے نام ” شبر وشبیر “ تھے کہ عربی زبان میں ان کا مطلب حسن و حسین ھوتا ھے ۔
ان دو جانشینوں (یعنی حضرت علی (ع)اور حضرت ھارون (ع))کے بارے میں تحقیق و جستجو سے چند دیگر مشابھتوں کا سراغ بھی ملتا ھے ھم یھاں پر ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ھیں ، مرحوم شرف الدین نے کتاب ” المراجعات “ میں اس سلسلے میں مفصل بحث کی ھے۔ (12)
______________________
119۔ غایة المرام ، ص 107 ۔ 152۔
120۔ المراجعات ، ص 131۔ 132
1۔ صحیح بخاری ج 3، ص 58 ، صحیح مسلم ج 2 ص 323۔
2۔ صحیح مسلم ، ج 7 ص 120۔
3۔ طٓہ / 29۔30۔
4۔ طٓہ / 31۔
5۔ طٓہ / 32
6۔ طہ/ 36اس کے علاوہ قرآن مجید ایک دوسری آیت میں حضرت ھارون (ع)کی نبوّت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے :
(وَوَھَبْنَا لَہ من رَحْمَتِنَآ اٴَخاَہ ھَٰرُونَ نَبِیًّا)(مریم / 53)
7۔ اعراف / 142۔ ایک اور آیت میں حضرت ھارون کی وزارت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے:
8 (فرقان / 35 )
9۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملہ کو مختلف مواقع پر سات بار بیان فرمایا ھے ، لیکن ھم اختصار کی وجہ سے یھاں پر صرف دو مورد کا ذکر کرتے ھیں۔
10۔ کنز العمال ، ج 6، ص 395 ، حدیث نمبر 6032 ۔
11۔ منتخب کنزل العمال ( مسند کے حاشیہ میں ) ج 5، ص 31
12۔ المراجعات / ص 141 ، 147
حدیث غدیر (پھلا حصہ)
اسلام کی عالمی تحریک ، ابتداء سے ھی قریش بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے عام بت پرستوں کی طرف سے جنگ اور مخالفتوں سے روبرو ھوئی ۔ جو گوناگوں سازشوں کے ذریعہ اس شمع الٰھی کو بجھانے کے در پے تھے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص کا میابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کی آخری خیالی امید یہ تھی کہ اس عظیم تحریک کے پائے اس کے پیشوا اور بانی کی وفات کے بعد اس طرح ڈھہ جائیں گے جس طرح پیغمبر سے پھلے بعض لوگوں کی یکتا پرستی کی دعوت (1) ان کی وفات کے بعد خاموش ھوگئی۔
قرآن مجید جس نے اپنی بھت سی آیات میں ان کی سازشوں اور منصوبوں سے پردہ اٹھایا تھا اس دفعہ بت پرستوں کی آخری خیالی امید یعنی وفات پیغمبر کے بارے میں درج ذیل آیت میں اشارہ فرماتا ھے :
(اٴَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہ رَیْبَ الْمَنُونِ { قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِینَ{ اٴَمْ تَاٴْمُرُھُمْ اٴَحْلَامُھُمْ بِھَذَا اٴَمْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ) (2)
” یا یہ لوگ یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر شاعر ھے اور ھم اس کی موت کا انتطار کررھے ھیں ۔ تو آپ کھہ دیجئے کہ بیشک تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ھوں! کیاان کی خام عقلیںانھیں اس بات پر آمادہ کرتی ھیںیا وہ واقعاً سرکش قوم ھیں “
مناسب ھے کہ یھا ںپر بت پرستوں کی طرف سے رسالتماب کے ساتھ چھیڑی گئی بعض خائنانہ جنگوں اور روڈے اٹکانے کی منحوس حرکتوں کی ایک فھرست بیان کی جائے اور اس کے بعد دیکھا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کی آخری امیدوں کو کیسے ناکام بنایا اور آغوش پیغمبر میں حضرت علی(ع)جیسے لائق و شائستہ شخص کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے منتخب کرکے ان کی سازشوں کو خاک میں ملادیا ۔
1۔ تھمت کا حربہ
کفار مکہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شاعر ، کاھن ، دیوانہ اور جادوگر ھونے کی تھمتیں لگا کر یہ کوشش کی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کے اثرات کم کریں ، لیکن سماج کے مختلف طبقوں میں اسلام کی نمایاں ترقی نے ثابت کردیا کہ آپ کی مقدس ذات ان تھمتوں سے بالاتر تھی ۔
2۔ آپ کے پیروؤں کو آزار پھچانا
کفار مکہ کا ایک اور منصوبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرؤوں کو آزار پھنچانا اور انھیں جسمانی اذیتیں دینا اور قتل کرنا تھا تاکہ آپ کے ارشادات و ھدایت کے وسیع اثرات کو روک سکیں ۔ لیکن پیغمبر کے حامیوں کی ھر ظلم و جبر اور اذیت و آزار کے مقابلے میں استقامت و پامردی نے قریش کے سرداروں کو اپنے منحوس مقاصد تک پھنچنے میں ناکام بنادیا ۔ آنحضرت کے حامیوں کی آپ کے تئیں والھانہ عقیدت و اخلاص نے دشمنوں کو حیرت زدہ کردیا ، حتی ابو سفیان کھتا تھا، ” میں نے قیصر وکسریٰ کو دیکھا ھے لیکن ان میں سے کسی کو اپنے پیرؤوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا با عظمت نھیں دیکھا جن کے پیرؤوں نے ان کے مقاصد کی راہ میں اس قدر جاںبازی اور فداکاری کا ثبوت دیا ھے (3)
3۔ عرب کے بڑے داستان گو کو دعوت
قرآن مجید کے روحانی اور جذباتی اثرات سے کفار قریش حیرت زدہ تھے اور تصور کرتے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو سننے کےلئے لوگوں کا پروانہ وار دوڑنا اس سبب سے ھے کہ قرآن مجید میں گذشتہ اقوام کی داستانیں اورکھانیاں بیان ھوئی ھیں ۔ اس لئے کفار مکہ نے دنیائے عرب کے سب سے مشھور داستان گو ” نصر بن حارث “ کو دعوت دی کہ وہ خاص موقعوں پر مکہ کی گلی کوچوں میں ’ ایران “ اور ” عراق“ کے بادشاھوں کے قصے سنائے تا کہ اس طرح لوگوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مائل ھونے سے روک سکیں ! یہ منصوبہ اس قدر احمقانہ تھا کہ خود قریش یہ داستانیں سننے سے تنگ آچکے تھے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔
4۔ قرآن مجید سننے پر پابندی
قریش کا ایک اور منحوس منصوبہ قرآن مجید سننے پر پابندی عائد کرنا تھا اس شمع الٰھی کے پروانوں کی استقامت سے ان کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ قرآن مجید کی زبر دست شیرینی اور دلکشی نے مکہ کے لوگوں کو اس قدر فریفتہ بنا دیا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکل کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ جاتے تھے تا کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز شب اور تلاوت قرآن مجید کےلئے اٹھیں تو وہ قرآن کی تلاوت سن سکیں ۔ قریش کے کفار صرف لوگوں کو قرآن سننے سے ھی منع نھیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو پیغمبر سے ملنے جلنے سے منع کرتے تھے ۔ جب عرب کی بعض بزرگ شخصیتیں جیسے ، اعشی و طفیل بن عمر پیغمبر سے ملنے کےلئے مکہ میں آئے تو قریش نے مختلف ذرایع سے ان کو پیغمبر تک پھنچنے سے روک دیا (4)
5۔اقتصادی پابندی
کفار قریش نے ایک دستور کے ذریعہ لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ کسی کو بنی ھاشم یا محمد کے طرفداروں کے ساتھ لین دین کرنے کا حق نھیں ھے ۔ جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھیوں اور اعزّہ کے ساتھ ” شعب ابی طالب (ع)“ میں پورے تین سال تک انتھائی سخت اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ھوئے ۔ لیکن قریش کے بعض سرداروں کے اقدام اور بعض معجزات کے رونما ھونے کی وجہ سے یہ بائیکاٹ ختم ھوگیا۔
6۔ پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کی سازش
قریش کے سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے قریش کے چالیس جوان رات کے اندھیرے میں پیغمبر کے گھر پر حملہ آور ھوں اور آپ کو آپ کے بسترہ پر ھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔ لیکن خداوند کریم (جو ھر وقت آپ کا حافظ و نگھبان تھا )نے پیغمبر کو دشمنوں کی اس سازش سے آگاہ کردیا اور پیغمبر خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی(ع)کو اپنے بسترہ پر سلا کر خود مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ھجرت اور اوس و خزرج جیسے قبیلوں کا اسلام کی طرف مائل ھونا اس کاباعث ھوا کہ مسلمانوں کو ایک امن کی جگہ مل گئی اور پراکندہ مسلمان ایک پر امن جگہ پر جمع ھوکر دین کا دفاع کرنے کے لائق ھوگئے۔
7۔ خونین جنگیں
مسلمانوں کے مدینہ منورہ میں اکٹھا ھونے اور حکومت اسلامی کی تشکیل کو دیکھتے ھوئے جزیرہ نمائے عرب کے بت پرست خوفزدہ ھوگئے اور اس دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ ھدایت کی شمع فروزاں کو جنگ اور قتل و غارت کے ذریعہ ھمیشہ کےلئے بجھادیں ۔ اسی غرض سے کفار نے مسلمانوں سے بدر، احد ، خندق اور حنین کی خونین جنگیں لڑیں ۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے یہ جنگیں مسلمانوں کی فوجی طاقت میں اضافہ کا باعث بنیں اور انھوں نے بت پرستوں کو عرب میں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔
8۔پیغمبر اسلام کی وفات
دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کے سلسلے میں آخری امید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے باندھی تھی ۔ وہ سوچ رھے تھے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ھی اس تحریک کی بنیادیں اکھڑ جائیں گی اور اسلام کا بلند پایہ محل زمین بوس ھوجائے گا ۔ اس مشکل کو دور کرنے اور اس سازش کو ناکام بنانے کےلئے دو راستے موجود تھے :
1۔ امت اسلامیہ کی فکری و عقلی نشو و نما اس حد تک پھنچ جائے کہ مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کی اس نئی تحریک کی عھد رسالت کے مانند ھدایت و رھبری کرسکیں اور اسے ھر قسم کے انحراف سے بچاتے ھوئے ” صراط مستقیم“ پر آگے بڑھائیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت کی ھمہ جھت قیادت کی سخت ضرورت تھی کیونکہ ابھی جو بد قسمتی سے امت کے افراد میں سازگار حالات نھیں پائے جاتے تھے ۔ اس وقت یہ مناسب نھیں ھے کہ ان حالات کے ھونے یا نہ ھونے پر مفصل بحث کریں ، لیکن مختصر طور درج ذیل چند اھم نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے :
الف) ایک ملت کی مختلف میدانوں میں ترقی اور بنیادی انقلاب کا پیدا ھونا چند روز یا چند سالوں میں ممکن نھیں ھوتا اور مختصر مدت میں ایسے مقاصد تک نھیں پھنچا جاسکتا ھے بلکہ انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے اور اسے لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں میں اتارنے کیلئے ایسے ممتاز اور غیر معمولی فرد یا افراد کی ضرورت ھوتی ھے جو اس تحریک کے بانی کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور سنبھال سکیں اور انتھائی ھوشیاری اور پیھم تبلیغ کے ذریعہ سماج کو ھر قسم کے غلط رجحانات سے بچا سکیں تا کہ پرانی نسل کی جگہ ایک ایسی نئی نسل لے لے جو ابتدا ء سے ھی اسلامی آداب و اخلاق کے ماحول میں پلی ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں تحریک کے بانی کی وفات کے ساتھ ھی بھت سے لوگ اپنی پرانی روش کی طرف پلٹ جائیں گے ۔
اس کے علاوہ تمام الٰھی تحریکوں میں اسلام ایسی خصوصیت کا حامل تھا جس میں اس تحریک کے استحکام کےلئے ممتاز افراد کی اشد ضرورت تھی ۔ دین اسلام ایسے لوگوں کے درمیان وجود میں آیاتھا جو دنیا کی پسماندہ ترین قوم شمار ھوتے تھے اور اس معاشرہ کے لوگ سماجی و اخلاقی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے انتھائی محرومیت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے مذھبی آداب و رسوم کے طور پر وہ اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ھوئی ( جو خرافات اور برائیوں سے بھری تھیں ) کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں جانتے تھے ۔ حضرت موسی (ع)اور حضرت عیسی (ع)کے دین نے ان کی سرزمین پر کوئی اثر نھیں ڈالا تھا اور حجاز کے اکثر لوگ اس سے محروم تھے اور اس کے مقابلہ میں جاھلیت کے عقائد اور رسم و رواج ان کے دلوں میں راسخ ھوکر ان کی روح میں آمیختہ ھوچکے تھے۔
ممکن ھے کہ ایسے معاشروں میں مذھبی اصلاح زیادہ مشکل نہ ھو لیکن اس کا تحفظ اور اس کی بقا، ایسے لوگوں میں جن کی روح میں منفی عوامل نفوذ کرچکے ھوں ، انتھائی مشکل کام ھوتا ھے اس کےلئے مسلسل ھوشیاری اور تدبیر کی ضرورت ھوتی ھے تا کہ ھر قسم کے انحرافات اور رجعت پسندی کو روکا جاسکے ۔
” احد“ اور ” حنین“ کے دل دوز حوادث کے مناظر ، جب گرما گرم جنگ کے دوران تحریک کے حامی رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میدان کارزار میں تنھا چھوڑ کر باگ کھڑے ھوئے تھے اس بات کے واضح گواہ ھیں کہ تحریک کے مؤمن افراد ، جو اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے پر حاضر تھے ، بھت کم تھے اور معاشرے کے زیادہ تر لوگ فکری و عقلی رشد و بلوغ کے لحاظ سے اس مقام پر نھیں پھنچے تھے کہ پیغمبر اسلام نظام کی باگ ڈور ان کے ھاتہ میں دیدیتے اور دشمن کی آخری امید یعنی پیغمبر کی رحلت کے انتظار، کو ناکام بنادیتے ۔
یہ وھی امت ھے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اختلاف و تفرقہ کا مرکز بن گئی اور رفتہ رفتہ 72 فرقوں میں بٹ گئی۔
جو باتیں ھم نے اوپر بیان کیں اس سے یہ واضح ھوجاتا ھے کہ پیغمبر کی رحلت کے وقت فکری اور عقلی رشد کے لحاظ سے امت اسلامیہ اس حد تک نھیں پھنچی تھی کہ دشمنوں کے منصوبے ناکام ھوجاتے اسلئے کسی دوسری چارہ جوئی کی ضرورت تھی کہ ھم ذیل میں اس کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
2۔ تحریک کو استحکام بخشنے کےلئے آسان اور سادہ طریقہ یہ ھے کہ تحریک کے اصول و فروع پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے پیغمبر جیسا ایک لائق و شائستہ شخص تحریک کی قیادت و رھبری کےلئے خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے انتخاب کیا جائے اور وہ قوی ایمان ، وسیع علم اور عصمت کے سائے میں انقلاب کی قیادت کو سنبھال کر اس کو استحکام اور تحفظ بخشے۔
یہ وھی مطلب ھے جس کے صحیح اور مستحکم ھونے کا دعویٰ شیعہ مکتب فکر کرتا ھے ۔ اس سلسلے میں بھت سے تاریخی شواھد بھی موجود ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجة الوداع سے واپسی کے دوران 18 ذی الحجة کو خدا کے حکم سے اس گتھی کو سلجھادیا اور خدا کی طرف سے اپنا جانشین اور ولی مقرر فرما کر اپنی رحلت کے بعد اسلام کو استحکام اور تحفظ بخشا۔اس کا واقعہ یوں ھے ، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 10 ہ ء میں حج بجالانے کےلئے مکہ کی طرف عزیمت فرمائی ، چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج کا یہ سفر آپ کی زندگی کا آخری سفر تھا اس لئے یہ حجة الوداع کے نام سے مشھور ھوا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شوق سے یاا حکام حج کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھنے کےلئے جن لوگوں نے اس سفر میں آپ کا ساتھ دیا ان کی تعداد کے بارے میں مؤرخین نے ایک لاکہ بیس ھزار کا تخمینہ لگایا ھے ۔
حج کی تقریبات ختم ھوئیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم راھی مدینہ ھوئے جوق در جوق لوگ آپ کو الوداع کررھے تھے لیکن مکہ میں آپ سے ملحق ھونے والوں کے علاوہ سب آپ کے ھمسفر تھے ۔ کاروان ، جحفہ سے تین کلو میٹر کی دوری پر ” غدیر خم“ کے ایک صحرا میں پھنچا ، اچانک وحی الٰھی نازل ھوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رکنے کا حکم ملا۔ پیغمبر نے بھی حکم دیا کہ سب حجاج رک جائیں تا کہ پیچھے رھنے والے لوگ بھی پھنچ جائیں ۔
پیغمبر کی طرف سے ایک تپتے ریگستان میںد وپھر کو تمازتِ آفتاب میں رکنے کے حکم پر لوگ تعجب میں تھے۔ اور سرگوشیاں کررھے تھے کہ ضرور خدا کی طرف سے کوئی خاص حکم پھنچا ھے اور اس کی اھمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبر کو امر ھوا ھے کہ وہ ان نامساعد حالات میں لوگوں کو روک کر فرمان الٰھی پھنچائیں۔
پیغمبر اکرم کو یہ فرمان الٰھی درج ذیل آیہ شریفہ کے ذریعہ ملا ۔
( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) (5)
” اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا آپ خدا کی رسالت کو نھیں بجا لائے اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
اس آیہ شریفہ کے مضمون پر غور کرنے سے ھمیں مندرجہ ذیل نکات کی طرف ھدایت ملتی ھے :
اولاً: جس حکم الھٰی کو پھنچانے کی ذمہ داری پیغمبر اسلام کو ملی تھی وہ اتنا اھم اور عظیم تھا کہ اگر پیغمبر اکرم ( بفرض محال ) اسے پھنچانے سے ڈرتے اور نہ پھنچاتے تو گویا آپ نے اپنی رسالت کا کام ھی انجام نھیں دیا ھوتا ، بلکہ -( آیندہ اس کی وضاحت کریں گے کہ ) اس ماٴموریت کو بجالانے سے ھی آپ(ع)کی رسالت مکمل ھوتی ھے ۔
دوسرے الفاظ میں ( مَا اٴُنْزِلَ اِلَیْکَ ) ( جو آپ پر نازل کیا گیا ھے ) کا مقصود قرآن مجید کی تمام آیات اور احکام اسلامی نھیں ھوسکتے ھیں ،کیونکہ یہ بات بالکل واضح ھے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احکام الٰھی نہ پھنچاتے تو اپنی رسالت کو انجام ھی نہ دیا ھوتا اور اس قسم کے بدیھی امر کے بارے میںکچھ کھنے اور آیت نازل کرنے کی ضرورت ھی نھیںتھی ، بلکہ اس کا مقصد ایک خاص موضوع کو پھنچانا ھے کہ اس کا پھنچانا رسالت پھنچانے کے برابر شمار ھوتا ھے اور جب تک اسے نہ پھنچا یا جائے ، رسالت کی عظیم ذمہ داری اپنے کمال تک نھیں پھنچتی۔
اس بنا پر اس ماٴموریت کا مسئلہ اسلام کے اھم اصولوں میں سے ایک ھونا چاھئے جو اسلام کے دوسرے اصول و فروع سے پیوستہ ھو اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی طرح یہ بھی ایک اھم مسئلہ ھو ۔
ثانیاً : سماجی حالات اور ان کے محاسبات کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ گمان کرتے تھے کہ اس ماٴموریت کو انجام دینے کی صورت میں ممکن ھے لوگوں کی طرف سے آپ کو کوئی نقصان پھنچے ، اس لئے خدائے تعالیٰ نے آپ کے ارادہ کو قوت بخشنے کےلئے فرمایا:
( و َ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)
” خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
اب یہ دیکھنا ھے کہ مفسرین اسلام نے اس آیت کے موضوع کے بارے میں جو احتمالات (5) بیان کئے ھیں ان میں سے کون سا احتمال اس آیہ شریفہ کے مضمون سے قریب تر ھے ۔شیعہ محدثین کے علاوہ اھل سنت محدثین کے تیس 1# افراد نے لکھا ھے کہ یہ آیہ شریفہ غدیر کے دن نازل ھوئی ھے ، جس دن خدا نے پیغمبر کو مامور کیا کہ علی(ع)کو ”مؤمنین کے مولا “ کے طور پر پھچنوائیں۔
امت پر پیغمبر کی جانشینی کے عنوان سے امام(ع)کی قیادت کا مسئلہ ھی اتنا ھی اھم اور سنجیدہ تھا کہ اس کا پھنچانا رسالت کی تکمیل کا باعث اور نہ پھنچانا رسالت کے نقصان اور رسول کی زحمتوں کے تباہ ھوجانے کا سبب شمار ھوتا۔
اسی طرح پیغمبر اکرم کا اجتماعی محاسبات کے پیش نظر خوف و تشویش سے دوچار ھونابجا تھا، کیونکہ حضرت علی(ع)جیسے صرف 33 سالہ شخص کا جانشین اور وصی قرار پانا اس گروہ کےلئے انتھائی سخت اور دشوار تھا جو عمر کے لحاظ سے آپ(ع)سے کھیں زیادہ بڑے تھے (6)
اس کے علاوہ ایسے افراد بھی مسلمانوں کی صفوں میں موجود تھے جن کے اسلاف مختلف جنگوں میں حضرت علی(ع)کے ھاتھوں قتل ھوچکے تھے اور قدرتی طور وہ کینہ توز ایسے شخص کی حکومت کی شدید مخالف کرتے ۔
اس کے علاوہ حضرت علی(ع)پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے، اور تنگ نظر لوگوں کی نظر میں ایسے شخص کو خلافت کے عھدہ پر مقرر کرنا اس کا سبب ھوتا کہ وہ اس عمل کو کنبہ پروری تصور کرتے۔
لیکن ان تمام ناسازگار حالات کے باوجود خدائے تعالی کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ رسول کا جانشین مقررفرما کر اسلامی تحریک کو تحفظ بخشے اور اپنے نبی کی عالمی رسالت کا رھبر و راھنما مقرر کرکے اسے تکمیل تک پھنچائے۔
اب اس تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
۔جیسے ، ورقةبن نوفل جس نے عیسائی کتابوں کے مطالعہ کے بعد بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذھب قبول کرلیا تھا۔
______________________________
1۔طور/ 30 ۔32
2۔سیرہ ابن ھشام ، ج 2 ، ص 172
3۔ سیرہ ابن ھشام ، ج1 ص 386، 410
4۔ مائدہ /67
5۔ فخرر ازی نے اپنی تفسیر (ج3، ص 635) میں پیغمبر کی اس ماموریت کے بارے میں دس احتمالات بیان کئے ھیں جب کہ ان میں سے ایک احتمال بھی __ جبکہ ان کا کوئی صحیح ماخذ بھی نھیں ھے __ مذکورہ دو شرائط کا حامل نھیں ھے ، جنھیں ھم نے مذکورہ آیت سے اس کے موضوع کے تحت بیان کیا ھے ، ان میں سے زیادہ تر احتمالات ھرگز اس قدر اھم نھیں ھیں کہ ان کے نہ پھنچانے پر رسالت کو کوئی نقصان پھنچتا یا پیغامات کا پھنچانا خوف و وحشت کا سبب بن جاتا یہ احتمالات حسب ذیل ھیں :
1۔ یہ آیت ، گناھگار مردوں اور عورتوں کو سنگسار کرنے کے بارے میں ھے ۔
2۔یہ آیت ، یھودیوں کے پیغمبر پر اعتراض کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔
3۔ جب قرآن مجید نے پیغمبر کی بیویوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ دنیا کے زر و زیور کو چاھیں گی تو پیغمبر ا ن کو طلاق دیدیں گے ، پیغمبر اس حکم الھی کو پھنچانے سے ڈرتے تھے کہ کھیں وہ دنیا کو ترجیح نہ دیں۔
4۔ یہ آیت ، پیغمبر کے منہ بولے بیٹے زید کے واقعہ سے متعلق ھے کہ پیغمبر کو خدا کی طرف سے حکم ھوا کہ وہ زید کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کرلیں۔
5۔ یہ آیت لوگوں اور منافقین کو جھاد کی طرف دعوت دینے سے مربوط ھے ۔
6۔ بتوں کی برائی کرنے سے پیغمبر کی خاموشی سے مربوط ھے۔
7۔یہ آیت حجة الوداع میں اس وقت نازل ھوئی ھے جب پیغمبر شریعت اور مناسک بیان فرمارھے تھے۔
8۔ پیغمبر قریش ، یھود اور نصاری سے ڈرتے تھے اس لئے یہ آیت آپ کے ارادے کو قوت بخشنے کےلئے نازل ھوئی ھے۔
9۔ ایک جنگ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں آرام فر مارھے تھے ، ایک عرب ننگی تلوار لے کر پیغمبر پر حملہ آور ھوا اور آپ سے مخاطب ھوکر کھا: ” اب تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ھے“ ، پیغمبر نے جواب میں فرمایا: ” خدا “ اس وقت دشمن پر خوف طاری ھوا وہ پیچھے ھٹ گیا اور اس کا سر درخت سے ٹکرا کر پھٹ گیا ، اس وقت یہ آیت نازل ھوئی (والله یعصمک من الناس) آیہ شریفہ کے مفاد کا مذکورہ احتمالات کے مطابق ھونا ( مثلا ً آخری احتمال) بھت بعید ھے جب کہ غدیر خم کے واقعہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے ۔
1۔ مرحوم علامہ امینی نے ان تیس افراد کے نام اور خصوصیات اپنی تالیف ، الغدیر ، ج 1، ص 196 ۔ 209۔میں مفصل بیان کئے ھیں ان میں ، طبری ، ابو نعیم اصفھانی ، ابن عساکر ، ابو اسحاق حموینی اور جلال الدین سیوطی وغیرہ جیسے افراد بھی شامل ھیں کہ انھوں نے ابن عباس، ابو سعید خدری اور براء بن عازب سے یہ حدیث نقل کی ھے ۔
6۔ خاص طور پر عرب قوم میں ھمیشہ بڑے عھدوں کو قبیلہ کے عمر رسیدہ لوگوں کے سپرد کرنے کی رسم تھی اور جوانوں کو اس بھانے سے ایسے عھدے سونپنے کے قائل نہ تھے کہ جو ان زمانہ کا تجربہ نھیں رکھتے ھیں ۔ لھذا جب پیغمبر نے ” عتاب بن ولید“ کو مکہ کا گورنر اور اسامہ کو سپہ سالار مقرر فرمایا تو عمر رسیدہ لوگوں نے آپ پر اعتراض کیا پھر لوگ اس امر کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ حضرت علی(ع)دیگر جوانوں سے مختلف ھیں ، یہ لائق اور شائستہ شخص الھی عنایتوں کے سایہ میں ایسے مقام تک پھنچا ھوا ھے کہ ھر قسم کی خطا اور لغزشوں سے محفوظ ھے اور ھمیشہ عالم بالا سے امداد حاصل کرتاھے۔
انیسویں فصل
حدیث غدیر(دوسراحصہ)
غدیر کا تاریخی واقعہ ایک ابدی حقیقت
18 ذی الحجة کی دوپھر کا وقت تھا ، سورج کی تمازت نے غدیر خم کی سرزمین کو جھلسا رکھا تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد__جس کے بارے میں 70 ھزار سے 120 ھزار تک لکھا گیا__ پیغمبر کے حکم سے وھاں پر پڑاؤ ڈالے ھوئے تھی اور یہ لوگ اس دن رونما ھونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کررھے تھے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ، لوگوں نے اپنی ردائیں تہ کرکے آدھی سر پر اور آدھی پاؤں کے نیچے رکھی تھیں ۔
ان حساس لمحات میں اذان ظھر کی آواز سے تمام صحرا گونج اٹھا ، اور لوگ نماز ظھر کےلئے آمادہ ھوئے ، پیغمبر اکرم نے اس عظیم اور پرشکوہ اجتماع __ کہ سرزمین غدیر پہ ایسا عظیم نھیں ھوا تھا__کے ساتھ نماز ظھر ادا کی ۔ اس کے بعد آپ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور اونٹوں کے پالان سے بنے ایک بلند منبر پرجلوہ افروز ھوکر بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا:
” حمد و ستائش تنھا خدا کے لئے ھے ، ھم اسی سے مدد چاھتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں ، اور اسی پر توکل کرتے ھیں ، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رھنے کےلئے اس خدا کی پناہ لیتے ھیں ، جس کے سوا گمراھوں کی ھدایت و راھنمائی کرنے والا کوئی نھیں ھے ۔ ھم گواھی دیتے ھیں کہ جس کی خداوند کریم ھدایت کرے کوئی اسے گمراہ نھیں کرسکتا ھم اس خدا کی گواھی دیتے ھیں جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ۔
اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ھے کہ ھر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پھلے کی رسالت کی آدھی ھوتی ھے ، اور میں جلدی ھی دعوت حق کو لبیک کھنے والا اور تم سے رخصت ھونے والا ھوں ، میں ذمہ دار ھوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ھو ، میرے بارے میں کیا سوچتے ھو؟
اصحاب رسول نے کھا: ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ھمارے بارے میں خیر خواھی کی اور ھماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خدائے تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔
مجمع پر خاموشی چھاگئی تو پیغمبر نے فرمایا: کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ، جنت ، جھنم اور موت حق ھے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خدائے تعالیٰ زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟
اصحاب رسول : جی ھاں ! جی ھاں ! ھم گواھی دیتے ھیں ۔
پیغمبر : میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رھا ھوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟
ایک شخص : یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ھیں ؟
پیغمبر : ثقل اکبر خدا کی کتاب ھے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمھارے ھاتہ میں ھے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رھو تا کہ گمراہ نہ ھواور ” ثقل اصغر“ میری عترت اور اھل بیت(ع)ھیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی۔
خبردار، اے لوگو: خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رھنا تا کہ نابودی سے بچے رھو۔
اس موقع پر پیغمبر نے علی(ع)کا ھاتہ پکڑ کر انھیں اس قدر بلند کیا کہ آپ کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ھوگئی اور تمام لوگوں نے علی(ع)کو پیغمبر کے پھلومیں دیکھا اور انھیں اچھی طرح سے پھچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی(ع)سے مربوط کوئی اعلان ھے ۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر کی بات سننے کے منتظر تھے۔
پیغمبر : اے لوگو! مؤمنوں پر ، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ھے ؟
اصحاب پیغمبر : خدا اور اس کا پیغمبر بھتر جانتے ھیں ۔
پیغمبر : ” خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر ، خود ان سے زیادہ اولی و سزاوار ھوں ۔ اے لوگو ! ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' یعنی جس جس کا میں مولا ---__ خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار __ ھوں اس کے علی(ع)بھی مولا ھیں “ اور پیغمبر نے اس جملہ کو تین بار فرمایا(1)
اس کے بعد فرمایا: پروردگارا! اس کو دوست رکہ ، جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکہ جو علی(ع)سے دشمنی کرے۔ خدایا ! علی(ع)کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندا ! علی کو مرکز حق قرار دے “
اس کے بعد پیغمبر نے فرمایا: ضروری ھے کہ اس جلسہ میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پھنچادیں اور دوسروں کو بھی اس واقعہ سے باخبر کریں۔
ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتہ وحی تشریف لایا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتا ھے : میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اس پر راضی ھو اکہ یہ کامل شدہ اسلام تمھارا دین ھو (2)
یھاں پر پیغمبر اسلام نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ھوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ھوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع)کی ولایت پر خوشنود ھوا۔
اس کے بعد پیغمبر اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے ، آپ کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (ع)کو مبارکباددی اور انھیں اپنے اور تمام موٴمنین و مومنات کا مولا کھا۔
اس موقع پر رسول خدا کا شاعر ” حسان بن ثابت “ اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا۔ اس کے اس قصیدہ سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یھاں پر ذکر کرتے ھیں :
” پیغمبر نے علی(ع)سے فرمایا : کھڑے ھوجاؤ! میںنے تمھیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راھنمائی کےلئے منتخب کیا ھے ۔(3) جس کا میں مولا ھوں ، اس کے علی(ع)بھی مولا ھیں ۔
لوگو! تم لوگوں پر لازم ھے کہ علی(ع)کے سچے اور حقیقی دوست رھو ۔
اوپر بیان شدہ روداد غدیر کے واقعہ کا خلاصہ ھے جو اھل سنت علماء کے اسناد و مآخذمیں ذکر ھوا ھے ۔ شیعوں کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔
مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب ” احتجاج“ میں پیغمبر خدا سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ھے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ھیں (4)
غدیر کا واقعہ لافانی و جاویدانی ھے
خدائے تعالیٰ کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ غدیر کا تاریخی واقعہ تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رھے تا کہ ھر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ھوں اور ھر زمانے میں اسلام کے اھل قلم تفسیر ، حدیث ، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذھبی مقررین ، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ھوئے اس کو امام (ع)کے ناقابل انکار فضائل میں شمار کریں ۔ ادباء و شعراء بھی اس واقعہ سے الھام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو اس واقعہ سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بھترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔
یہ بات بلا سبب نھیں کہ انسانی تاریخ میں بھت کم ایسے واقعات گزرے ھیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین ، فلاسفہ ، مقررین ، شعراء ، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ھیں ان سب نے اس واقعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ھیں ۔
بیشک اس واقعہ کے لافانی اور جاویدانی ھونے کا ایک سبب یہ بھی ھے کہ اس واقعہ سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں(5) نازل ھوئی ھیں ۔چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ھے اس لئے یہ واقعہ بھی لافانی ھوگیا ھے اور ھر گز ختم ھونے والا نھیں ھے۔
اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ اس روز کو مذھبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ھے اور اس مناسبت سے ھر سا ل با شکوہ تقریبات منعقد کرتا ھے لھذا قدرتی طور پر غدیر کے تاریخی واقعہ نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ھے اور کبھی فراموش ھونے والا نھیں ھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ 18 ذی الجة الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عید غدیر کے طور پر معروف تھا ، یھاں تک کہ ” ابن خلکان “ فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ھے :
” سن 487ء ہ عید غدیر کے دن ، کہ 18 ذی الحجة الحرام ھے ، لوگوں نے اس کی بیعت کی (6) المستنصر بالله کے بارے میں ” العبیدی“ لکھتا ھے:
” وہ سن 487 ھء میں جب ماہ ذی الحجة میں 12 شبیں باقی بچی تھیں ، فوت ھوا ، یہ شب وھی 8 اویں ذی الحجة کی شب ھے ، اور شب عید غدیر ھے“ (7)
ابن خلکان نے ھی اس شب کو عید غدیر کی شب کا نام نھیں دیا ھے بلکہ ” مسعودی“ (8 # اور ”ثعالبی“ (9) نے بھی اس شب کوامت اسلامیہ کی مشھور و معروف شبوں میں شمار کیا ھے۔
عید غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر کے عمل سے شروع ھوا ھے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی(ع)کے پاس جاکر انھیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔
زید بن ارقم کھتے ھیں : مھاجرین میں سے سب سے پھلے جن افراد نے علی(ع)کے ھاتہ پر بیعت کی ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکبادکی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رھی۔
واقعہ کی لافانیت کے دیگر دلائل
اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کےلئے اتنا ھی کافی ھے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف 110 راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکہ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بھت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نھیں ھوئی ھے ، یا اگر نقل ھوئی بھی ھو تو ھم تک نھیں پھنچی ھے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیا ھے تو تاریخ ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نھیں ھوئی۔
دوسری صدی ھجری میں -- __جو عصر تابعین کے نام سے مشھور ھے __ نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔
بعد والی صدیوں میں حدیث کے بھت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹہ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ان میںسے بھت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ھونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔
تیسری صدی ھجری میں 92 (بانبے) سنی علماء نے ، چوتھی صدی میں تینتالیس( 43) ، پانچویں صدی میں جوبیس (24) ، چھٹی صدی میں بیس (20)، ساتویں صدی میں اکیس (21) ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ (18) ، نویں صدی میں سولہ (16) ، دسویں صدی میں (14) چودہ ، گیارھوں صدی میں بارہ (12) ، بارھویں صدی میں تیرہ (13) ، تیرھویں صدی میں بارہ (12) اور چودھویں صدی میں بیس (20) سنی علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔
مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ھی اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ اس کے اسناد اور مفھوم پر مخصوص کتابیں لکھی ھےں۔
عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ، طبری نے ” الولایة فی طرق حدیث الغدیر “ کے موضوع پر کتاب لکھی ھے اور اس میں اس حدیث کو ستر(70) سے زیادہ طریقوں سے ، پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ھے۔
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ” ولایت“ میں اس حدیث کو ایک سو پچاس (10) افرادسے نقل کیا ھے۔
جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ھیں ، ان کی تعداد چھبیس (26) ھے ۔ ممکن ھے اس سے زیادہ افراد ھوں جنھوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ھیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نھیں ھوا ھے یا ھماری رسائی ان تک نھیں ھے۔
شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بھا کتابیں لکھی ھیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاھد مرحوم آیت اللہ امینی ۺ کی کتاب ” الغدیر“ ھے ۔
ھم نے امام (ع)کی زندگی کے اس پھلوکے بارے میں ان کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ھے۔
______________________
1۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر نے اس جملہ کو چار بار فرمایا
2۔ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا )(مائدہ/ 3)
3۔فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
4۔ احتجاج طبرسی ، ج 1 ص 71 تا 74 طبع ، نجف ۔
5۔ آیہ ، ( یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ") (مائدہ / 67 )، اور آیہ شریفہ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی") (مائدہ /3)
6۔ وفیات الاعیان ، ج1، ص 60 ۔
7۔ وفیا ت الاعیان ، ج1، ص 223۔
8۔ التنبیہ و الاشراف ، ص 22 ۔
9۔ ثمارة القلوب ، ص 511۔
10۔حدید/ 15
حدیث غدیر(تیسرا حصہ)
غدیر کے با شکوہ اجتماع کا مقصد ؟
گزشتہ بحثوں سے اچھی طرح واضح اور ثابت ھوگیا کہ غدیر کا واقعہ قطعی اور یقینی طور پر ایک تاریخی واقعہ ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبھہ کرنا بدیھی امور میں شک کرنے کے مترادف ھے ۔ اسلامی احادیث میں شاید ھی کوئی ایسی حدیث ھو جو متواتر اور قطعی ھونے کے لحاظ سے اس حدیث کی برابری کر سکے ۔
اس لئے ھم اس کی سند کے بارے میں مزید بحث و گفتگو نھیں کریں گے بلکہ اب اس کے مفاد و مفھوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کو سمجھنے کی کنجی یہ ھے کہ جملہ ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' میں وارد شدہ لفظ ”مولیٰ“ کو سمجھ لیں اس لفظ کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث کا مفھوم بھی واضح ھوجائے گا ۔
سب سے پھلے یہ امر قابل غور ھے کہ قرآن مجید میں لفظ ”مولیٰ“ ، اولی“ اور ” ولی“ کے معنی میں استعمال ھو ا ھے ، جیسے:
1۔( فاَلْیَومَ لاَ یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاٴْوَاکُمُ النّارُ ھِیَ مَولَ-ٰک-ُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیرُ)
تو آج ( قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے ، تم سب کا ٹھکانا جھنم ھے وھی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ھے اور تمھارا بدترین انجام ھے۔ (1)
اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں کھتے ھیں : اس آیت میں ”مولیٰ“ کا لفظ ” اولی“ کے معنی میں ھے ، کیونکہ یہ افراد ، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ھوئے ھیں تو ان کےلئے ان اعمال کے عوض جھنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نھیں ھے(2)
2۔( یَدْعُوا لَمَنْ ضَرَّہ اٴَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہ لَبِئْسَ الْمَولٰی وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ)
”یہ اس بت کو پکارتا ھے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ھے وہ اس کا بدترین سرپرست ( ولی ) اور بدترین ساتھی ھے “۔(3)
یہ آیہ شریفہ اپنے مضمون اور گزشتہ آیات کے قرینہ کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ھے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار ( ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست ( ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور ” ولی“ کی حیثیت سے ھی ان کو پکارتے تھے۔
ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات _ جن کے ذکر سے ھم صرف نظر کرتے ھیں _ سے اجمالی طور سے ثابت ھوتا ھے کہ ”مولیٰ“ کے معنی وھی ” اولیٰ“ اور ” ولی“ کے ھیں ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ جملہ ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ'' کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد وھی نفوس پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ھونا ھے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ھے یا حدیث کا مفھوم کچھ اور ھے جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ھے کہ حدیث غدیر میں ”مولیٰ“ دوست اور ناصر کے معنی میں ھے۔
بے شمار قرائن اس کے گواہ ھیں کہ ” مولیٰ“ سے مراد وھی پھلا معنی ھے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ھے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ھے:
(اَلنَّبِیُّ اَوْلَٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مَنْ اٴَنْفُسِھِمْ ) (4)
بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ھے۔
اگر کوئی شخص ( تسلط اور تصرف کے لحاظ سے ) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ھو تو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یھی اختیار رکھتا ھوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف ھو ، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ھے۔
اس بنا پر انسان کو اس( ولی) اس کے تمام احکام کی موبمو اطاعت کرنی چاھئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے با ز رھنا چاھئے۔
یہ عھدہ اور منصب ، خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا تھا ۔ آپ خود ذاتی طور پر ھرگز اس منصب و مقام کے حامل نھیں تھے۔
واضح تر الفاظ میں یوں کھا جائے گا کہ یہ خدائے تعالیٰ ھے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوںکی جان و مال پر مسلط فرمایا ھے ۔ آپ کو ھر قسم کے امر و نھی کے اختیارات دئے ھیں اور آپ کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ھے ۔
چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ھو چکا ھے کہ اس حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی وھی ھیں جو آیہ شریفہ میں ” اولیٰ“ کے ھیں ، لھذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی(ع)اسی منصب و مقام کے حامل ھوئے جس کے آیہ شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ، یعنی اپنے
زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رھبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی وبالتصرف کا اختیار رکھنے والے اور امامت کا یھی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ھے جسے ولایت الھیہ سے تعبیر کیا جاتا ھے ( یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطا ھوتی ھے )
اب ھم وہ قرائن و شواھد بیان کرتے ھیں جن سے پوری طرح ثابت ھوتا ھے کہ اس حدیث میں لفظ ” مولیٰ“ کے معنی تمام امور میں ( اولی بالتصرف) اور صاحب اختیار ھونے کے علاوہ کچھ اور نھیں ھے۔
ذیل میں ایسے چند شواھد ملاحظہ ھوں:
1۔ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ھوئے اورپیغمبر اکرم کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ۔ یھاں قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس فصیح ، بلیغ ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ ”مولیٰ“ کی جگہ پر امام و ھادی کا لفظ استعمال کیا ھے ، ملاحظہ ھو:
فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی (ع)کی طرف رخ کرکے ان سے فرمایا: اٹھو کہ میں نے تمھیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ھادی مقرر کردیا ھے “
واضح رھے کہ حسّان نے پیغمبر کے کلام میں موجود لفظ ” مولیٰ“ سے امت کی امامت ، پیشوائی اور ھدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نھیں لئے ھیں (5)
صرف حسّان ھی لفظ” مولیٰ“ سے یہ نھیں سمجھے ، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا __جن میں سے اکثراعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ھوتے تھے__ نے بھی اس لفظ سے وھی معنی لئے ھیں جو حسان نے سمجھے تھے ، یعنی امت کی امامت و پیشوائی۔
2۔ امیر المؤمنین(ع)نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ھے:
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول الله یوم غدیر خم
” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ھے “
علی(ع)سے بھتر کون ھوسکتا ھے جو ھمارے لئے حدیث کے حقیقی مفھوم کو واضح کر سکے ؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ(ع)کے علم ،امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ۔ چنانچہ ھم دیکھتے ھیں کہ حضرت (ع)حدیث غدیر سے استدلال کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
” پیغمبر خدا نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا“
کیا اس وضاحت سے یہ مطلب نھیں نکلتا ھے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت (ع)کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رھبری کے علاوہ کوئی اورمفھوم نھیں سمجھا تھا؟
خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ھیں جو اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ پیغمبر اسلام کے اس جملہ کا وھی مطلب ، یعنی حضرت علی(ع)کا ” اولی بالتصرف“ و صاحب اختیار ھوناھے ۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ” من کنت مولاہ “ فرمانے سے پھلے یوں فرمایا تھا :
”الست اولیٰ بکم من انفسکم“
کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفوس سے زیادہ اختیار نھیں رکھتا ھوں ؟
اس جملہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” اولی بکم من انفسکم “ سے استفادہ فرمایا ھے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ھے ۔
اس کے فوراً بعد فرماتے ھیں : ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“
ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد یہ نھیں ھے کہ علی(ع)بھی میر ی طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ھےں جسے آپ نے پھلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ : ” اے لوگو! وھی منصب و مقام جس کا میں حامل ھوں ، علی(ع)بھی اسی منصب کے حامل ھیں “ اگر پیغمبر کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پھلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ھی نھیں تھی۔
4۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تقریر کی ابتدا ء میں لوگوں سے اسلام کے تین اھم اصول ( توحید، نبوت ، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ھوئے فرمایا:
”اٴَلَسْتمُْ تَشْھُدُون َ اٴَنَّ لاإِلہ إِلَّا اللهَ و َ اٴَنَّ مُحمّداً عَبْدُہ وَ رَسُولُہ وَ اٴَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌ وَ النَّارَ حَقٌ“
یعنی ، کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نھیں ھے ، محمد اس کا بندہ اور رسول ھے اور بھشت و جھنم حق ھیں۔
یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھے کہ پیغمبر اسلام لوگوں کے ذھنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاھتے تھے کہ علی کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ھیں وہ انھی اصولوں کے مانند اھم ھے ، اور لوگ جان لیں کہ آپ کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ھے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ھے ؟ اگر ”مولیٰ“ کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ھی ٹوٹ جاتا ھے اور پیغمبر کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ھوجاتی ھے ۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ھٹ کر حضرت علی (ع)خودایسے عظیم مسلمان تھے جنھوں نے ایسے معاشرہ میں پرورش پائی تھی جھاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نھیں تھی چہ جائیکہ علی (ع)جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر اس اھتمام و شاٴن کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے ! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اھم بھی نھیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا ۔
5۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خطبہ کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
” انہ یوشک ان ادعی فاجیب “
” قریب ھے کہ میں دعوت حق کو لبیک کھوں“
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رحلت کے بعد کےلئے کوئی اھتمام و اقدام کرنا چاھتے تھے تا کہ اپنے بعد پیدا ھونے والے خلاٴ کو پر کریں۔
اور بلاشبہ واضح ھے کہ جو چیز اس خلاٴ کو پر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی(ع)کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی(ع)اپنے ھاتہ میںلے لیں ، نہ کہ علی(ع)کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد !
6۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ”من کنت مولا ہ''کے بعد یوں فرمایا:
الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بن ابی طالب
میں خدا کی طرف سے تکمیل دین ، اتمام نعمت ، اپنی رسالت اور علی(ع)ابن ابیطالب کی ولایت پر تکبیر کھتا ھوں۔
7۔ اس سے واضح اور بھتر کیا گواھی ھوسکتی ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی(ع)کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رھا؟
مزے کی بات یہ ھے کہ شیخین پھلے افراد تھے جنھوں نے امام(ع)سے کھا:
”ھنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبت و امسیت مولی کل مؤمن و مومنة“
” مبارک ھو آپ کو یہ منصب ، اے علی (ع)! کہ آپ ھر مومن زن و مرد کے مولیٰ ھوگئے“
حقیقت میں حضرت علی(ع)اس روز امت کی سرپرستی و رھبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نھیں بنے تھے جبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسے کی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اھتمام کیا گیا ۔
8۔ اگر مقصد صرف علی(ع)کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نھیں تھا کہ پیغمبر اسلام ایسے موسم گرما میں حجاج کے ایک لاکہ کے مجمع کو رکوا کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد ا س مسئلہ کو پیش کرتے ۔
کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نھیں پکارا ھے ؟ جیسا کہ فرمایا ھے :
(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ )(6)
” با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسر کے بھائی ھیں“
کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نھیں کرایا ھے جیسا کہ فرماتا ھے :
( و َ المُؤمِنُونَ وَ المُؤْمِنَٰتُ بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیاءُ بَعْضٍ)
”با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ھیں “
علی(ع)بھی تو اسی با ایمان معاشرے کی ایک فرد تھے ، اس لئے اس کی ضرورت ھی نھیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ سے اور وہ بھی اس اھتمام کے ساتھ علی(ع)کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے !!
جو کچھ ھم نے بیان کیا اس سے بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ، کہ حدیث غدیر کا مقصد علی(ع)کی دوستی یا ان کی نصرت و مدد کو ضروری قرار دینا تھا اور پیغمبر کے خطبہ میں لفظ ”مولیٰ“ دوست یا ناصر کے معنی میں ھے ، در حقیقت تعصب پر مبنی ایک قسم کی غیر منصفانہ تفسیر اور بھت بچگانہ باتیں ھیں ۔ گزشتہ قرائن اور اس خطبہ کے اول سے آخر تک بغور مطالعہ کے بعد یہ ناقابل انکار حقیقت معلوم ھوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ میں ”مولیٰ“ کا ایک ھی معنی ھے ، یعنی ” صاحب اختیار“ (اولی بالتصرف) ھونا۔ اور اگر یہ کھا جائے کہ اس کا مقصد سیادت اور آقائی ھے اور مولیٰ ” سید “ کے معنی میں ھے تو اس سیادت کا مقصد وہ دینی والٰھی سیادت ھے جو امام کی اطاعت کو لوگوں پر واجب اور ضروری قرار دیتی ھے۔
_______________________
1۔ ای اولی لکم ما اسلفتم من الذنوب۔
2۔ حج / 13۔
3۔ احزاب 6
4۔ مناقب خوارزمی ص 80 وغیرھ۔
5۔ حجرات / 15
6۔توبہ / 71