تاریخ سے عبرت نہج البلاغہ کی روشنی میں

 

سید عابد رضا نوشاد رضوی گوپالپوری

 

تاریخ یعنی سر گذشت ،انفرادی و اجتماعی سرگذشت، قومی و قبائلی سرگذشت ،تلخ و شیریں سرگذشت!ایک ایسی سرگذشت، جسکا ہر پیچ و خم عصر حاضر کی نسلوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے کہ آؤ میرے سنہرے اوراق کی ورق گردانی کرو ،مجھ میں غور وفکرکرو !میں تمہارے لئے مکنونات ومستورات کو ہویدا کردوں گا جس کے ذریعہ تم با طل اور اس کی حیلہ گری سے واقف ہو جا ئو گے اور حق اور اس کے حسن و جمال سے آشنا ! اب نہ تمہیں کو ئی نا تجربہ کار کے لقب سے ملقب کرے گا ،نہ ہی تمہارے استحصال کی کوشش !میرا دامن عبرت اتنا وسیع ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر موڑ پر اس طرح سایہ فگن رہے گا کہ ضلالت و گمرہی کی دھوپ تمہیں چھو بھی نہ پا ئیگی  اگر تم نے میرے دامن عبرت کواپنے سروں پر شامیانہ بنا لیا تو استکبا ری نظام اور سامراجی طاقتیں تمہارے مقابل طفل میداں نظر آئیں گی ،ہدف حیات معین اور راہ ہدایت ہموار ہو جائیگی ۔میں تمہیں سعادت کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہوں ۔

 تم مجھے اپنا استاد بنا لو ، میری با توں کو دھیان سے سنو اور اس پر عمل پیرا ہوجائو!  جیسے جیسے تم میری گفتار پر عمل کرو گے ویسے ویسے اپنے کمال کی منزل سے نزدیک ہو تے جا ئو گے اور ایک واقعی اور حقیقی انسان بنتے جا ئو گے اور اگر تمہیں اس بات پر یقین نہ ہو تو قلب ختمی مرتبت ۖپر نا زل ہو نے والی کتاب سے پوچھ لو ! تم جب اس سے میری بات کی تصدیق چاہو گے تو وہ جواب دے گی : ہاں ہاں !تاریخ کا کہنا بالکل درست ہے وہ تمہارے کمال و تکامل میں مداخلت رکھتی ہے اسی لئے تو میرے اندر ایک سوم تاریخ پائی جا تی ہے ۔یہی نہیں خدا وند منان نے میرے اندر ایسی آیتوں کو قرار دیا ہے جو مستقیم طور پر انسانوں کو حکم د ے رہی ہیں کہ تاریخ سے عبرت حاصل کرو ، مثال کے طور پر قصہ حضرت یوسف  کے بیان کے بعد ارشاد ہوتا ہے:(ولقد کا ن فی قصصہم عبرة لاولی الاباب )١ ''اور بتحقیق ان کے قصوں میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے '' اسی طرح  سورۂ آل عمران میں جنگ  بدر میں کفار کے کثیر لشکر کی شکست اور مسلمانوں کی قلیل تعداد کی ان پر فتح و ظفر کا تذکرہ کرنے کے بعد ارشادہوتا ہے: (انّ فی ذٰلک لعبرة لاولی الابصار)٢ '' اور اس میں صاحبان نظر کے واسطے ساما ن عبرت و نصیحت ہے'' سورۂ مومن میں حضرت موسیٰ اور فرعون کے تذکرہ کے بعد ارشاد رب العزت  ہوتاہے کہ(افلم یسیروافی الارض فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلہم کانوااکثر منھم و اشد قوة ًوآثاراًفی الارض فما اغنیٰ عنھم ما کانوا یکسبون )٣  '' کیاان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا جو ان کے مقابلے میں اکثریت میں تھے اور زیادہ طاقت ور بھی تھے اور زمین میںآثار کے مالک بھی تھے لیکن جو کچھ بھی کمایا تھا کچھ کام نہ آیا اور مبتلائے عذاب ہو گئے ''

اسی طرح متعدد مقامات پر خدا وند عالم انسانوں کو تاریخ میں غور و فکر اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی طرف دعوت دے رہاہے۔ یہ تھی تاریخ ،انسان اور قرآن کی باہمی گفتگو جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ سے عبرت ضرورحاصل کرنا چا ہیئے ، لیکن یہ عبرت ہے کیا ؟

عبرت کے معنیٰ

عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کے تلخ و شیریں حوادث و واقعات کو مستقبل کا آئینہ قراردینا ۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کو مستقبل کے لئے مشعل راہ بنانا  عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کو ایک درس کے عنوان سے دیکھنا  عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کے مردہ  واقعات کو عصر حاضر میں بھی زندہ سمجھنا ۔ عربی لغت میں عبرت ''عبور'' سے اخذ کیاگیا ہے۔ جسکا معنی ٰ ہے کہ ''کسی چیز سے گذرنا '' اسی لئے آنسو کو عربی میں ''عبرہ'' کہتے ہیں کیونکہ آنسو آنکھوں سے عبور کرتاہے اور اسی  مناسبت سے جو حوادث وواقعات انسان کے لئے با عث و عظ و نصیحت ہوں انکو بھی 'عبرت'' کہتے ہیں۔ ٤

لہٰذا عبرت حاصل کرنا یعنی حال سے ماضی کی طرف سفر کرنا اور تحقیق و تحلیل کے بعد اس سے نصیحت حاصل کرنا یا بہ الفاظ دیگر تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان خود کا اور اپنے معاشرے اور سماج کا اس تاریخ سے مقایسہ کرے تاکہ وہ خوبیوں اور بدیوں کو سمجھ سکے اور موجودہ مشکلات اور اس کی چارہ اندیشی کرسکے ۔

ہو جس تاریخ میں عبرت وہی تاریخ ہے مطلوب

 

نہ ہو تاریخ میں عبرت تو پھر تاریخ ہی کیا ہے

 

عبرت حضرت علی کی نظر میں

  اقوال حضرت امیر میں ایسی نصیحتیںپائی جا تی ہیںجن پر عمل پیرا ہوکر انسان سعادت کی منزلوں پر فائز ہو سکتا ہے ،انہیں وعظ ونصیحت کا ایک عنصر عبرت حاصل کرناہے جو آپ کے گراں بہا اقوال میں کثرت کے ساتھ پایاجاتا ہے ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے عبرت کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی ہے جنکو ہم آئندہ سطور میں مختلف عناوین کے تحت ذکر کریں گے۔ ان میں سے بعض نورانی کلمات میں عبرت کے شیریں نتائج کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا خلا صہ یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والے، حوادث تاریخ کو پیش نظر رکھ کر زندگی کی صحیح راہ کو انتخاب کر سکتے ہیں اور اس دام آفت و مصیبت سے محفوظ رہ سکتے ہیں جس کے گذشتگان شکار ہو ئے، آپ  فرما  تے ہیں:                         الاعتبار منذر ناصح  ٥'' عبرت حاصل کرناہوشیاراور نصیحت کرنے والی ہے ''

               الاعتبار یثمر العصمة  ٦  ''عبرت حاصل کرنا خطاؤں سے امان کا باعث ہے ''

                   من کثر اعتبارہ قل عثارہ ٧ ''جو شخص جتنازیادہ عبرت حاصل کریگا اس قدر ہی لغزشوں سے محفوظ رہیگا ''

اب اس مقام پر نہج البلاغہ میں موجود حضرت امیر المومنین  کے گہر بار بیانات اور عبرت کے مختلف  پہلؤوں کو متفرّق عناوین کے تحت پیش کیا جا رہا ہے ۔

تاریخ سے عبرت کیوں حاصل کریں؟

اگر چہ بعض لوگوں نے تاریخ  سے عبرت حاصل کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے ٨ لیکن ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ اسلامی نقطہ ء نظر سے عبرت کافی اہمیت کی حامل ہے ۔

حضرت امیر المومنین حارث ہمدانی کے نام ایک مکتوب میں عبرت حاسل کرنے کی علّت اور اس کے سبب کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''و اعتبربما مضیٰ من الدّنیا لما بقی منہا فانّ بعضھا یشبّہ بعضاََ وآخرھالاحق باوّلھا ٩''دنیا کے ماضی سے اس کے مستقبل کے لئے عبرت حاصل کرو کیونکہ اس کا ایک حصہ دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے اور آخر اوّل سے ملحق ہونے والا ہے ۔''

اس گرا نقدر جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ دنیاکے حوادث و واقعات ایک دوسرے سے کافی حد تک مشابہت رکھتے ہیں اور انسانی معاشرہ تاریخ دہراتا رہتا ہے لہٰذا اس سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت بالکل واضح و آشکار ہے ۔ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :''ذمّتی بما اقول رہینة و انا بہ زعیم انّ من صرّحت لہ العبر عمّا بین یدیہ من المثلات حجزتہ التقوی عن تقحم الشبھات ''١٠  '' میں اپنے قول کا خود ذمّہ داراور اس کی صحت کا ضامن ہوں کہ جس شخص پر گذشتہ اقوام کی سزاؤں نے عبرتوں کو واضح کر دیا ہو اسے تقویٰ شبہات میںوارد ہونے سے یقینا روک دیگا ''

حضرت امیر اس کلام میں اپنی پوری ذمّہ داری و ضمانت کا اظہار کرتے ہوئے عبرت کے فوائدوآثارکو بیان فرما رہے ہیںاور آپ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کے اندر ایک طرح کا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ان گنہگار قوموں کی تاریخ و سر گذشت پر نظر ڈالیگا جنہوں نے خدا کے سامنے سرکشی اختیار کی اور اپھر ان کے انجام کا مطالعہ کریگا تو ظاہر ہے کہ اس کے قلب میں تقویٰ اور خشیت الہی کی کرن پھوٹ  پڑیگی لیکن اگر اس کے بر عکس اس پر یہ تاریخ اثر انداز نہ ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غفلت کی تاریک نگری میں تحیر و سرگردانی کا شکار ہے۔

 

آباء و اجداد اور فانی دنیا سے عبرت

حضرت امیر  انسانوں کو اپنے آباء و اجداد کی سرگذشت کی طرف متوجہ ہونے کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''او لیس لکم فی آثار الاوّلین مزدجرو فی آبائکم الماضین تبصرة و معتبران کنتم تعقلون او لم تروا الیٰ الماضین منکم لا یرجعون و الیٰ الخلف الباقین لا یبقون''  ١١   ''کیا تمہارے لئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء و اجداد کی داستانوں میں بصیرت و عبرت نہیں ہے ؟اگر تم عقل سے کام لیتے ہو تو کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ جانے والے  پلٹ کر نہیں آتے ،اور بعد میں آنے والے رہ نہیں پاتے ؟

امام  کا یہ کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم اور ہماری نسلوں میں آنے والے،اپنے آبا ء و اجداد کی طرح ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جائیں گے ،لہٰذا اس دنیا سے دل لگی اچھی بات نہیں ،کیونکہ یہ ایک ایسی عروس زیبا کی مانند ہے جس نے کبھی کسی سے وفا نہ کی اور جو بھی اس کی زرق و برق کے دام مہلک میںگرفتار ہوا اسے ذلّت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔

دنیا تو ایک ایسی موقّت جگہ ہے جہاں ہم بذر ِ اعمال بونے آئے ہیں تاکہ اس کی لہلہاتی ہوئی ہریالی فصل سے  دنیا ئے آخرت میں بہرہ مند ہوں ۔اسی لئے تو حدیث ِ شریفہ میں وارد ہوا ہے''انّ الدّنیا مزرعة الآخرة''''دنیا آخرت کی کھیتی ہے'' کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا اور انسان کی مثال در حقیقت دریا اور کشتی کی مثال ہے یعنی جب تک کشتی سینہ ٔدریا پر سوار رہتی ہے اس وقت تک وہ صحیح و سالم اپنا سفر برقراررکھتی ہے ،لیکن جب دریا کا پانی کشتی میں داخل ہو جاتا ہے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے ۔اسی طرح انسان جب اس دنیا کو اپنے قدموں تلے رکھتا ہے اور اسے اپنے اوپر مسلّط نہیں ہونے دیتا تو اس کی سعادت و نجات کا سفر جاری رہتا ہے لیکن جب یہی دنیا انسان کے اوپر مسلّط ہو جاتی ہے تو پھر انسان ضلالت و گمراہی کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔

اس فانی و  فریبی دنیا سے دوری اختیار کرنے کی نصیحت اور گذشتگان کی پر پیچ و خم داستان بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت امیر المومنین  ارشاد فرماتے ہیں :''اعتبروا بما قد رایتم من مصارع القرون قبلکم قد تزایلت اوصالہم  و زالت ابصارھم و اسماعھم وذھب شرفھم و عزھم وانقطع سرورھم  فبدلوا بقرب الاولاد فقد ھا وبصحبةالازواج مفارقتھا لا یتفا خرون ولا یتناسلون ولا یتزاورون ولا یتحاورون '' ١٢  '' اور عبرت حاصل کرو ان مناظر کے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ہیں کہ گذشتہ نسلیں ہلاک ہو گئیں ، ان کے جوڑ بند الگ الگ ہو گئے ، ان کی آنکھیں اور ان کے کان زائل ہو گئے ،ان کی شرافت اور عزت چلی گئی، ان کی نعمت و مسرت کا خاتمہ ہو گیا ، اولاد کا قرب فقدان میں تبدیل ہو گیا  اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی، اب نہ با ہمی مفاخرت رہ گئی اور نہ نسلوں کا سلسلہ ، نہ ملاقاتیں رہ گئی ہیں نہ با ت چیت ''

شیطان سے عبرت  !!

عبرت کے مقا مات میں سے ایک مقام ان با غی و سرکش افراد کی داستانیں ہیں جنہوں نے پروردگا عالم کے سامنے پرچم طغیان بلند کیا اوراس وحدہ لا شریک کے مقابلہ میں اپنا قد علم کرنے کی کوشش کی ، جنہوں نے چراغ ہدایت سے منھ پھیر لیا اور تاریکی ضلالت کے پجاری بن بیٹھے جس کے نتیجہ میں انہیں اسی دنیا میں سزا و عقاب الٰہی میں گرفتار ہو جا نا پڑا۔ ان طاغیان حق میں سر فہرست اس شیطان خبیث کا نام نظر آتا ہے جس نے ایک لمحہ میں اپنی ہزار ہا برس کی عبادت و بندگی پر پانی پھیر دیا ۔ وہ بھی خدا کی وحدا نیت کا قائل تھا ، وہ بھی معاد و قیامت پر ایمان رکھتا تھا ، وہ بھی چھ ہزار سال خدا کی عبادت میں مشغول رہا لیکن ان تمام فضیلتوں کے با وجود صرف ایک تکبر نے اسے رفعت عبودیت سے پستیٔ طغیان کی طرف ڈھکیل دیا۔

 حضرت امیر المومنین  اس سلسلہ میں ارشاد فرما تے ہیں : '' فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس اذا احبط عملہ الطویل و جھدہ الجھید و کان قد عبد اللہ ستة آلاف سنة لا یدری امن سنی الدنیا ام من سنی الآخرة عن کبر ساعة واحدة فمن ذا بعد ابلیس یسلم علی اللہ بمثل معصیتہ  ١٣  '' تو اب تم سب پروردگا رکے ابلیس کے ساتھ برتاؤ سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جد وجہد کو تباہ و برباد کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا ، جس کے با رے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ  وہ دنیا کے سال تھے یا آخرت کے ،مگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کو ملیا میٹ کردیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ ''

سامراجیت کے انجام سے عبرت

 گذشتہ عنوان کے تحت بیان ہوا کہ سر کش اور سامراجی طاقتوں کے انجام سے بھی عبرت حاصل کرنا اشد ضروری ہے اس لئے کہ کتنی ہی ایسی استکبا ری اور سامراجی طاقتیں تاریخ کے اوراق پر ثبت و ضبط ہیں جن کے برے انجام کو دیکھ کر ہر دور کے مستضعفین کے قلوب میں امید کی کرنیں پھوٹ پڑ تی ہیں اور پاک و پاکیزہ کتاب قرآن مجید میں بھی مستضعفین سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ آخر کارزمین کے ورثہ دار وہی ہونگے اور استکبار و سامرا جیت قبر تاریخ میں دفن ہو کر رہ جا ئیگی (و نرید ان نمّن علیٰ الذین استضعفوا فی الارض و نجعلہم ائمة و نجعلہم الوارثین )١٤  '' اور ہم یہ چا ہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمین کا وارث قرار دیں ''

مستکبروںاور سامراجی طاقتوں سے عبرت حاصل کرنے کے سلسلے میں مو لا ئے کا ئنات  ارشادفرما تے ہیں'' فاعتبروا  بما اصاب الامم المستکبرین من قبلکم من بأس اللہ و صولاتہ و وقائعہ و مثلاتہ و اتعظوا بمثا ویٰ خدودہم ومصارع جنوبھم و استعیذوا باللہ من لواقح الکبر کما تستعیذونہ من طوارق الدھر ''١٥  '' دیکھو تم سے پہلے استکبار کر نے والی قوموں پر جو خدا کا عذاب ، حملہ ، قہر اور عتاب نازل ہو ا ہے اس سے عبرت حاصل کرو ، ان کے رخساروں کے بھل لیٹنے اور پہلوؤں کے بھل گرنے سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی بارگاہ میں تکبر کی پیدا وار منزلوں سے اس طرح پناہ مانگو جس طرح زمانے کے حوادث سے پناہ مانگتے ہو ''

ایک مقام پر حضرت امیر نے نمونہ کے طور پر بعض سر کش قوموں کے نا م بھی بیان فرما ئے ہیں '' وانّ لکم فی القرون السالفة لعبرة، این العمالقة و ابناء العمالقة ؟ این الفراعنة و ابن الفراعنة ؟ این اصحاب مدائن الرس الذین قتلوا النبیین واطفئوواسنن المرسلین و احیوا سنن الجبارین، این الذین ساروا بالجیوش و ھزموا بالالوف و عسکرو ا  العساکر و مدّ نوا المدائن ١٦ '' کہاںہیں(شام وحجاز ) کے عمالقہ اور ان کی اولاد ؟ کہاں ہیں(مصرکے) فرعون اور ان کی اولاد ؟ کہاں ہیں (آذر بائیجان کے) اصحاب الرس جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا ، مرسلین کی سنتوں کو خاموش کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کیا ۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ہزار ہا ہزار کو شکست دے دی ؟ لشکر کے لشکر تیار کئے اور شہروں کے شہر آبادکر دئے ''

امام نے خطبہ کے اس طلائی جملہ میں ایسی مستکبر قوموں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے دین سے مقا بلہ کیا جس کے نتیجہ میں خدا وند عالم نے انہیں ہلاک کر دیا لیکن افسوس صد افسوس کہ عصر حاضر کا انسان ان کھلی ہو ئی نشانیوں سے عبرت حاصل نہیں کرتا ، وہ بھی انہی قومو ں کے نقشہ قدم پر گامزن ہے ، اسے انبیاء  نہیں ملتے تو وہ انبیاء  کے پیروکاروں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہے ،دینی مقدسات کی توہین اس کا مشغلہ بن چکا ہے ،سنتیںمعاشروں سے ختم کی جا رہی ہیں اور بدعتوں کو رواج بخشا جا رہا ہے، فرعونیت نے سر اٹھا رکھا ہے ، اصحاب الرس کی سنتیں زندہ ہو چکی ہیں، قوم لوط کی سیرت اپنا ئی جا رہی ہے٠٠٠٠٠

لیکن کیا کوئی ہے جو سسکتی ہوئی انسانیت کے آنسؤں کو خشک کر سکے ؟کوئی ہے جو نالہ ٔ و شیون میں مبتلا ء انسانیت کی صدائے استغاثہ  پر لبّیک کہہ سکے ؟کیا اس دنیا میں اب ایسا کوئی موجود نہیں جوغفلت کے شکار ان انسانوں کے خفتہ ضمیروں کو جھنجھوڑ سکے ؟کیا کوئی ہے جو صدائے علی کو ان کے کانوں تک پہنچا سکے ؟!!

کیوں یہ انسان عبرت حاصل نہیں کرتا ؟کیوں یہ انسان نصیحتوں پر عمل نہیں کرتا ؟''کجاست آن گوش شنوا؟''

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا درد خود حضرت امیر المومنین اپنے سینۂ اقدس میں لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔آپ فرماتے ہیں''ما اکثر العبر و اقل الاعتبار ''١٧''عبرتیں کتنی زیادہ ہیںاورا س کے حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں''

 

حضرت علی کی وصیت

عبرت حاصل کرنے کی اہمیت و منزلت اس وقت بہتر طور پر معلوم ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں حضرت امیر المومنین  نے صفین سے واپسی کے موقع پر مقام ''حاضرین'' میں اپنے فرزند ارجمند حضرت امام حسن کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں تاکید فرمائی :''ای بنی ّانّی و ان لم اکن عمّرت عمر من کان قبلی فقد نظرت فی اعمالھم و فکّرت فی اخبارھم و سرت فی آثارھم حتّیٰ عدت کاحدھم بل کانّی بما انتھیٰ الیّ من امورھم قد امرت مع اوّلھم الیٰ آخرھم ''١٨''اے میرے بیٹے !اگر چہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جیسی مجھ سے پہلے والوں کی ہوا کرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور کیا ہے ،ان کی باتوں میں فکر کی ہے اورانکے آثار میں سیرو سیاحت کی ہے ،اس طرح کہ گویا میں انہیں میں سے ایک ہو گیا ہوں بلکہ ان کے بارہ میںجانکاری کی وجہ سے میں اس طرح ہو گیا ہوں جیسے پہلے سے آخر تک میں ان کے ساتھ رہا  ہوں''

اس گراں بہا وصیت نامہ کے ان مقدس جملوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عبرت حاصل کرنے اور گذشتگان کی تاریخ ،ان کے آثار اور ان کی باتوں میں غور و فکر کے ذریعہ انسان اپنے اندر اتنے تجربوں کو سمو سکتا ہے کہ گویا وہ گذشتہ لوگوں کے ساتھ مختلف زمانوں میں رہا ہو۔اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ عبرت حاصل کرنے سے انسان کی عمر بڑھ جاتی ہے اور وہ یوں کہ ممکن ہے انسان کی ظاہری عمرساٹھ یا ستّر سال کی ہو لیکن جب وہ تاریخ سے عبرت حاصل کر لیتا ہے تو اس کی حقیقی عمر میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے ،وہ جس قدر تاریخ سے عبرت حاصل کرتا ہے ،اتنا ہی عمر دراز ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی حقیقی عمر ،ظاہری عمر کے بر خلاف  ساٹھ ستّر ہزار سال ہو جاتی ہے ،اس لئے کہ اب وہ اکیلا انسان نہیں رہ جاتا ،بلکہ ہزاروں سال کی تاریخ اور اس میں موجود انسانوں کی تجربیات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے ۔

مسلماں لیتا گر عبرت …!!

کاش کہ مسلمان تاریخ سے عبرت لے لیتا !کاش کہ مسلمان قرآن کی عبرت آموز باتوں پر عمل پیرا ہو جاتا !کاش یہ مسلمان حضرت امیر کی نصیحتوں پر کان دھر لیتا !کاش یہ مسلمان گوش شنوا رکھتا !تو عالم اسلام کی شان و شوکت نہ چھنتی،اسلامی عزّت و اقتدار پامال نہ ہوتا ،آتش تفرقہ سے عالم اسلام نہ سلگتا ، اندلس کی سیکڑوں سالہ اسلامی حکومت کا تختہ پلٹ نہ ہوتا،مسلمین ظلم کا شکار نہ ہوتے ،جہالت ان کا مقدّر

نہ بنتی، پسماندگی ان کا نصیبہ نہ ہوتی، کوئی اسلامی مقدّسات کی توہین کی جرأت نہ کرتا،قرآن نہ جلائے جاتے ،ہتّاکی رسالت نہ ہوتی،فلسطین کی عوام آزادی کے لئے نہ ترستی ،عراق کی سر زمین پر لہو کے دریا نہ بہتے ،امّت مسلماںمقتدر ہوتی ،ملّت اسلامیہ سر بلند جیتی …اے کاش !اے کاش ! بس یہ مسلمان عبرت لے لیتا …

 

حُسن ِختام ایک نظم

''صبح قریب''

 

 

زمانہ ہو گیا دشمن کچھ ایسا تھا مرام اپنا

 

نہ بدلا پر قعود قہقرائی میں قیام اپنا

تجھے اے عزم راسخ ،قلب محکم ہو سلام اپنا

 

نہ توڑا  ا ندھیوں کے در سے تونے انسجام اپنا

ہزاروں آتشیں خاروں بھر ے رستوں کو کاٹا ہے

 

مگر دشمن کے حربے ڈگمگا پائے نہ گام اپنا

مگر افسوس اس دور ستم پرور کے مسلم پر

 

کہ کھوتا جا رہا ہے دھیرے دھیرے احترام اپنا

تدئن بھول بیٹھا ہے نہیں معلوم ہے اسکو

 

مباح و مستحب اپنا حلال اپنا حرام اپنا

مسلماں متحد ہوں گر قسم مولود کعبہ کی

 

دوبارہ ہوگا سب سے اعلیٰ و ارفع مقام اپنا

وہ رعب ودبدبہ اور شان و شوکت ہو گی دنیا میں

 

کہ یو ۔ان ۔او میں ہوگا حرف آخر ہر کلام اپنا

یہ اسرائیل و امریکا کو کہنا ہوگا بالآخر

 

چلو بھاگیں یہاں سے اب نہ پیڑ اپنا نہ آم اپنا

ألیس الصبح کی آیت نے عابدکو دیا مژدہ

کہ لکھا ہوگا ہر فتح و ظفر پر صرف نام اپنا

 

 

 

 

حوالہ جات     

                  

 

                             (١ )  سورہ یوسف ١١١                    (٢) آل عمران ١٣

                              (٣) غافر  ٨٢                      (٤) مجمع البحرین  ،ج ٢ ، ص ١١٥٦ ،

                                                                     تفسیر نمونہ  ج ٢٣،ص ٤٩١                                        (٥) بحار الانوار ج ٧٨ ،ص ٩٢      (٦)فہرست غرر  ص ٢٢٩

                             (٧)  فہرست غرر  ص ٢٣١        (٨) فلسفہ تاریخ شہید مطہری ج ١ ،ص ١٣

                             (٩)نہج البلا غہ مکتوب ،٦٩              (١٠)نہج البلا غہ خطبہ  ١٦

                             (١١)نہج البلا غہ خطبہ٩٩               (١٢)نہج البلا غہ خطبہ١٦١

                             (١٣)نہج البلا غہ خطبہ١٩٢            (١٤) سورہ قصص  ٥ 

                             (١٥)نہج البلا غہ خطبہ١٩٢              (١٦)نہج البلا غہ خطبہ١٨٢

                             (١٧)نہج البلا غہ حکمت ٢٩٧         (١٨)نہج البلا غہ مکتوب ٣١