مقدمہ:
جب انسان معیار انسانیت سے گرا اور اس حد تک گرا کہ اس نے اپنے فطری پدری و مادری شفقت و محبت کے جذبہ کو پس پشت ڈال کر اپنی ہی بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا شروع کر دیا ، تاکہ کسی کو اپنا داماد نہ بنانا پڑے ، یا جائداد میں کو ئی نیا حصہ دار نہ بن جائے ۔ حد تو اس وقت ہو گئی کہ جب کسی کے یہاں ولادت کا وقت قریب آتا تھا تو عورت ایک گڑھا کھود کر بیٹھ جایا کرتی تھی ، اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو اسی گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دیا کرتی تھی اور اگر لڑکے کی ولادت ہوتی تھی تو اس کو محفوظ کر لیا کرتی تھی ۔
عرب کے لوگوں کو جب کبھی لڑکی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو ان کا چہرہ شب تاریک کی مانند سیاہ ہو جاتا اور وہ ''ظل و جھہ مسوداً'' کا مصداق بن جایا کرتا تھا۔
جہالت اس منزل پر تھی کہ قتل و غارتگری ، چوری ، دوسروں کا مال غصب کرنا ، زنا کرنا ، اما نت میں خیانت ...و غیرہ باعث فخر سمجھا جانے لگا تھا ۔ ہر وقت شراب و شباب میں مست رہتے تھے ، قرابتداروں سے قطع تعلق ان کا شیوہ بن چکا تھا ، اصنام ان کے درمیان نسب تھے ، ایک ایک اونٹ کے لئے چالیس چالیس سال تک لڑا کرتے تھے ۔
اس دور جاہلیت اور پر آشوب ماحول میں خدا وند عالم نے اپنے حبیب خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیه و آله وسلم) کو مبعوث کیا ۔ جب لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور فتنوں میں ہاتھ پائوں مار رہے تھے ، خواہشات نے ان بہکار رکھا تھا ،غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی ، جاہلیت نے ان کو سبک سر بنا دیا تھا و غیر یقینی حالات اور جہالت کی گمراہیوں میں سر گرداں تھے ۔
اور جب آپ ایسے پر آشوب ماحول میں مبعوث ہوئے تو آپ نے بھی نصیحت اور موعظہ کا حق ادا کر دیا اور لوگوں کو راہ راست پر لانے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی نہیں کی اس کا م میں جب کبھی کسی نے آپ پر کوڑا پھینکا تو آپ اس کی عیادت کو پہونچ گئے ، راہوں میں کانٹے بچھائے گئے لیکن منہ سے اف تک نہ نکلا ، ساحرومجنون کیا گیا لیکن کبھی کسی کو پلٹ کر جواب تک نہ دیا ۔ آپ کو اس قدر مصیبت و آلام کا سامنا کرنا پڑا کہ آپ کو کہنا پڑا ''دین کے سلسلہ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔ ''
جب رحمة للعالمین (صلی الله علیه و آله وسلم) نے تبلیغ کرنا شروع کی تو یہ ان کی تبلیغ کا ہی اثر تھا کہ کل تک جو جاہل ترین معاشرہ تھا اور جس کو بد ترین معاشرہ تصور کیا جاتا تھا آج اس منزل عروج پر پہونچ چکا تھا کہ ساری دنیا کے لوگ اسلامی تعلیمات کو حاصل کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کرنے لگے تھے ، اور کل تک جو افراد بد ترین کردار کے مالک تھے آج وہ دوسروں کو تہذیب نفس کا درس دے رہے تھے اوران کو مہذب ترین معاشرہ سمجھا جانے لگا تھا۔
انسان اس رحمة للعالمین (صلی الله علیه و آله وسلم) کے کردار کی بلندی اور عظمت کی رفعت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے اور زبانیں بیان کرنے سے معذور ، اگر اس کا صحیح ادراک کرنا ہے تو اس کے در پر آنا پڑے گا جو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے ''میں رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) کے پیچھے پیچھے اس طرح سے چلتا تھا جس طرح سے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ''اور اپنے بچپنے سے لیکر آخر وقت تک رسول کے ہمراہ رہا ''رسول (صلی الله علیه و آله وسلم)اس وقت دینا سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کا سر میرے سینہ پر تھا اور ان کی روح اقدس میرے ہاتھوں پر جدا ہوتی ہے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ پر مل لیا ۔ میں نے ہی آپ کو غسل دیا جب ملائکہ میری مدد کر رہے تھے اور گھر کے اندر و باہر کہرام برپا تھا۔ ملائکہ کا ایک گروہ نازل ہورہا تھا اور ایک واپس جا رہا تھا سب نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کی آواز یں سن رہا تھا ۔یہاں تک کہ میں نے ہی حضرت (صلی الله علیه و آله وسلم) کو سپرد لحد کیا ''(١)
اور ہم کو اسی شخصیت کی اس عظیم الشان اور بے نظیر کتاب کا سہارا لینا ہوگاجس کے بارے میں مشہور ہے ''تحت کلام الخالق فوق کلام المخلوق''
نہج البلاغہ وہ مقدس کتاب ہے جس کے مطالب ربانی کا عطیہ ہیں تو اس کے الفاظ لسان اللہ کے تکلم کا اثر ۔ یہ وہ الہامی کتاب ہے جس کے حقائق و معارف بہ بانگ دہل آواز دے رہے ہیں کہ جس کا متکلم علم لدنی کا مالک اور علمہ البیان کا مصداق ہے۔ ہم اسی کتاب سے سیرہ رسول کے کچھ گوشے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
١۔زہد رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم):
قد حقر الدنیا و صغرھا (٢)
''آپ نے اس دینا کو ہمیشہ صغیر و حقیر اور ذلیل و پست تصور کیا ہے اور سمجھا ہے کہ پر وردگار نے اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور دوسروں کے لئے فرش کر دیا ہے تو یہ آپ کی عزت اور دنیا کی حقارت ہی کی بنیاد پر ہے لہٰذا آپ نے اس سے دل سے کنارہ کشی اختیار کی اوراس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی زینتیں نگاہوں سے اوجھل رہیں تاکہ نہ عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور نہ کسی خاص مقام کی امید کریں''
پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کا بھی یہی زہد تھا کہ جب بعثت کی شروعات ہی میں بزرگان قریش اور سران عرب نے جناب ابوطالب سے کہا کہ اپنے بھتیجے کو ہمارے خدائوں کی توہین کرنے سے روکو ! اگر وہ کسی لڑکی شادی کرنا چاہتاہے تو عرب کی سب سے خوبصورت لڑکی سے اس کی شادی کر دی جائے گی ، اگر وہ مال دنیا چاہتے ہیں تو ہم ان کو اتنی دولت دیں گے کہ پورے عرب میں کوئی ان سے زیادہ ثروتمند نہ رہ جائگا اور اگر بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم ان کو اپنا امیر تسلیم کر لیں گے ، صرف وہ تبلیغ اسلام سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں ۔ تو پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) نے یہی کہا تھا کہ اے چچا جان ان سے کہہ دیجئے :''اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیا جائے تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آئوں گا۔''
یعنی رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تمہاری اس دولت کی میری نظر میں اوقات ہی کیا ہے اگر تم پوری کائنات میرے حوالے کر دو (جو کہ تمہارے بس میں نہیں ہے ) تو اس کی بھی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
زہد رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے سلسلہ میں عاصم بن حمید الحناط کی کتاب میں جناب ابو بصیر امام محمد باقر ـ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں: ایک فرشتہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : اے محمد ! آپکا پر وردگار آپ پر سلام بھیج رہا ہے اور فرماتاہے : اگر تم چاہو تو مکہ کی پوری زمین کو ہم سونے سے بھر دیں ؟ تو آپ نے اپنے سر کو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا: پروردگار ا ! میں تجھ سے چاہتا ہوں کہ میں ایک روز غذا سے سیر ہوں اور تیرا شکر ادا کروں اور دوسرے دن پھر تیری بارگاہ میں ہاتھ پھیلائوں(٣)
رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کے زہد کو بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات ـایک دوسرے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
''.....انھوں نے دنیا سے صرف غذا حاصل کی اور اسے نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم اور شکم تہی میں زندگی بسر کرنے والے وہی تھے ان کے سامنے دینا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ دیکھ لیا کہ پر ور دگار اسے پسند نہیں کرتا ہے تو خود بھی ناپسند کیا اور خدا حقیر سمجھتا ہے تو خود بھی حقیر سمجھا اور اس نے چھوٹا بنا دیا ہے تو خود بھی چھوٹا ہی قرار دیا ۔ اور اگر ہم میں اس کے علادہ کوئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا و رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا و رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) کی نگاہ میں صغیر و حقیر کو عظیم لگے ہیں تو یہی عیب خدا کی مخا لفت اور اس کے حکم سے انحراف کے لئے کافی تھا۔
پیغمبر اکرم ۖہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ، غلاموں کے انداز میں بیٹھتے تھے ، اپنے ہاتھ سے اپنی جوتیاں ٹانکتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اپنے کپڑوں کو پیوند لگاتے تھے ، بغیر چار جامہ کی سواری پر سوار ہوتے تھے اور کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھا بھی لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے گھر کے دروازہ پر ایسا پردہ دیکھا جس پر تصویر یں بنی ہوئی تھیں تو ایک زوجہ سے فرمایا کہ خبر دار اسے ہٹائو، میں اس کی طرف دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئے گی ۔ آپ نے دنیا سے دل کی گہرائیوں سے کنارہ کشی فرمائی اور اس کی یاد کو دل سے محو کر دیا اور یہ چاہا کہ اس کی زینت نگاہوںسے دور رہے تا کہ نہ بہترین لباس بنائیں اور نہ اسے اپنے دل میں جگہ دیں اور نہ اس دنیا میں کسی مقام کی آرزو کریں ۔ آپ نے دنیا کو نفس سے نکال دیا اور دل سے دور کر دیا اور نگاہوں سے بھی غائب کر دیا''(٤)
دیلمی نے روائت کی ہے کہ: پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)خود لباس میں پیوند لگاتے تھے ، خود جوتیوں کو سلتے اور گوسفند کا دودھ دھتے تھے ، غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے اور زمین پر بیٹھتے تھے بازار سے آزوقہ خریدنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی .....(٥)
یقینا رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) کی زندگی میں وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو دنیا کے عیوب اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کرسکتی ہیں کہ آپ نے اپنے گھر والوں سمیت بھوکا رہنا گوارا کر لیا اور خدا کی بارگاہ میں انتہائی تقرب کے باوجود دنیا کی زینتوں اور لذتوں کو اپنے آپ سے الگ رکھا ہے۔
اب ہر انسان کو نگاہ بصیرت سے دیکھنا چاہئیے اور یہ سوچنا چاہئیے کہ اس صورت حا ل اور اس طرح کی زندگی دے کر پروردگار نے اپنے اپنے محبوب پیغمبر کو عزت عطا کی ہے یا ان کو (معاذ اللہ )ذلیل کیا ہے ۔اگر وہ اس بات کا اقرار کر تا ہے (اور کرے گا بھی) کہ اللہ نے انھیں عزت بخشی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ اگراللہ نے ان کے لئے دنیا کو فرش بنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے دنیا کو ذلیل بنا دیاہے اور اسی لئے اپنے قریب ترین بندہ سے اسے دور رکھا ہے ۔
٢۔رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی سادگی :
اما م علی ـ نہج البلاغہ میں ایک ایسا جملہ پیش کرتے ہیں جو آپ کی سیرت کو بیان کرنے والااور بہت ہی تعجب انگیز ہے۔آپ موسی ـ اور ہارون ـکے قصہ کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ جب یہ لوگ مبعوث بہ رسالت ہوئے تو چرواہوں کا لباس پہنے ہوئے فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے ''و علیھما مدارع الصوف'' دونوں پشمینہ کا لباس پہنے ہوئے تھے جو کہ اس زمانے کا معمولی ترین لباس تھا، ''و بایدھما العصی''اور دونوں کے ہاتھ میں ایک عصا تھا ، اور یہی ان کا کل سرمایہ تھا۔
فرعون کا وہ جلال اور شوکت ، اور ایسی حالت میں دو شخص پشمینہ کا لباس پہنے ہوئے ، ہاتھوں میں ایک عصا لئے ہوئے ، پورے یقین اور الوہی قدرت کے ساتھ اس سے مخاطب ہوتے ہیں کہ :ہم رسول ہیں اور اسی رسالت کی تبلیغ کے لئے یہاں آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ : اگر تو اپنی فرعونیت سے باز آجائے اور اور واقعاً اسلام کو قبول کر لے تو ہم تیری حکومت کی ضمانت لیتے ہیں ۔
فرعون ادھر ادھر دیکھتا ہے اور کہتاہے : ''الا ترون ھذین؟''ان دونوں کو دیکھ رہے ہو؟ کہ اس پھٹے پرانے لباس اور دو لکڑی(عصا) لے کر آئے ہیں ! یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کامیاب ہیں ، اور مجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ اگر میں عزیز رہنا چاہتا ہوں ، اور ذلیل نہیں ہونا چاہتا ہوں تو اسلام لے آئوں ،یہ کتنی مزحقہ خیز بات ہے!۔
اس کے مقا بل میں فرعون کی کیا دلیل ہے؟ وہ کہتاہے:
''فھلا القی علیھا اساور من ذھب '' اگر وا قعاًان کا مستقبل اتنا تابناک ہے ، تو یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ؟ ان کے سونے چاندی کہاں ہیں ؟ ان کی صفوف اور تشکیلات کہاں ہیں ؟
امام علی ـ فرماتے ہیں :''اعظاما للذھب و جمعہ واحتقارا للصوف و لبسہ'' اس کی نگاہ میں سونا چاندی پڑے ہوگئے اور معمولی لباس چھوٹا ہو گیا۔
وہ یہ سوچتاہے کہ اگر یہ سچ کہہ رہے ہیں ، اور خدا ئی نمائندہ ہیں ، تووہ خداان کو انہیں اس کے دس برابر سو نا چاندی اور رعب و دبدبہ دے سکتاہے ۔ تو اس نے ایسا کیوں نہیں کیا ، اور ان کو کچھ نہیں دیا؟
پھر آپ اس کی وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کیوں خدا پیغمبروں کو اس طرح مبعوث کرتاہے اور ان کو دنیاوی دولت ،سونا چاندی ، وغیرہ نہیں دیتاہے ۔ آپ فرماتے ہیں: اگر خدا ان کو یہ سب دے دے تو اختیار ختم ہو جائے گا ،اور اگر جبرا ً ہی مومن بنانا ہوتا تو سارے لوگ ایمان لے آئے ہوتے ، لیکن تب وہ ایمان ، ایمان نہ رہ جاتا ،ورنہ اگر ایسا کرنا ہوتا تو خود امیرالمومنین ـ کی تعبیر ہے کہ اگر خدا چاہتاتو حیوانوں کی ان کا تابع اور پرندوں کو انکا مطیع بنادیتا (جیسا کہ جناب سلیمان ـکے سلسلہ میں کیا)، اور جب یہ لوگ فرعون کے دربار میں آتے تو پرندے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہوتے ، اورجانور بھی ان کی تعظیم کرتے ، تا کہ کسی بھی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی ، اور اختیار اختم ہو جاتا ۔
آپ فرماتے ہیں لیکن اس صورت میں ''لا لزمت الاسماے معانیھا'' ایمان ایمان نہ رہ جاتا کیونکہ ایمان وہ ہے جو اختیار کے ساتھ لایا جائے نہ کہ جبر سے معجزہ اور کرامت صرف اس پر ایک دلیل ہیں ، اور جب تک یہ دلیل کے عنوان سے ہوتی ہیں ، تب قرآن انھیں ، نشانی ، معجزہ کہتا ہے ، لیکن جب دلیل کی حد سے خارج ہو جائیں تو یہی قرآن کہتا ہو نظر آتا ہے کہ پیغمبر معجزہ کا کارخانہ نہیں لایا ہے ، وہ صرف اس لئے آیا ہے کہ اپنے ایما ن کو لوگوں کے سامنے پیش کرے ،اور اس کی رسالت و نبوت کی سچائی کے گواہ کے طو ر پر خدا وند عالم نے انہیں معجزہ عطا کیا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک معجزہ یہاں ، ایک معجزہ وہاں دکھاتے پھریں کوئی کہے یہ معجزہ دکھائو ، کوئی کہے کہ وہ دکھائو......امام علی ـ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جاتاتو ایمان ایمان نہ رہ جاتا۔
امام کا دوسرا جملہ جو کہ ہمارا شاہد مثال بھی ہے اس میں آپ فرماتے ہیں: خدا نے پیغمبروں کو اس طرح کی تشکیلات ، دبدبہ اور طنطنہ عطا نہیں کیا ہے ،اور ایسی طاقت جو کہ لوگوں کے ذہن کو باندھ دے عنایت نہیں کی ہے ، اور پیغمبر بھی اس روش سے استفادہ نہیں کرتے ہیں۔بلکہ''و لٰکن اللہ سبحانہ جعل رسلہ اولی قوة فی عزائمھم'' خدا نے پیغمبروں کی ہمت ، ان کے ارادہ ، اور عزم میں طاقت عطا کی ہے اور ایسی طاقت دی ہے کہ پشمینہ کا لباس پہن کر اور ہاتھ میں عصا لے کر فرعون زمانہ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح کلام کرتے ہیں''و غعفة فیما تری الاعین من حالاتھم''
پھر آپ فرماتے ہیں :''مع قناعة تملا القلوب و العیون غنی ، و خصاصة تملا الابصار و الاسماع اذی'' (٦)خدا وند عالم نے ان کے ضمیر میں عزم و ارادہ کی عظیم قوت عطاکی ہے اور ان کو قناعت عطا کی ہے جس کے بارے میں امام علی ـ فرماتے ہیں کہ پیغمر بھی اپنی آنکھو کو پر کرتے ہیں اور لیکن اس طرح سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن ہم پھر بھی بے نیا ز ہیں ، اور نہایت ہی سادگی سے اپنی زندگی گذارتے ہیں ۔(٧)
اور یہی سادگی ہم کو پیغمبر اسلام ـ کی زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپ کے پا س کچھ نہیں ہے پھر بھی بے نیاز ہیں ، اور جب کفار مکہ آپ کو اسلام کے مقابل میں مال و دولت کی لالچ دیتے ہیں تب بھی آپ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر میرے ایک ہاتھ پرچاند اور دوسرے پر سورج رکھ دیا جائے تب بھی میں تبلیغ اسلام سے باز نہیں آئوں گا۔
٢۔ اما نت رسول اکرم ۖ:
امین و حیہ (٨) امینہ الرضی(٩)
امیر المومنین ـ نے حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کو امین کے لقب سے یا د فرمایا ہے اور ہم کو بتا یا ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی سیرت میں سے ایک ان کا امین ہونا بھی ہے۔ امانت کی مختلف قسموں میں سے سب سے بڑی قسم وحی الٰہی کا امین ہونا ہے اور خدا وند عالم نے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کو اپنی وحی کا امیں بنا کر اس دنیا میں مبعوث کیا ہے ۔ ایک امین کے لئے ضروری ہے کہ وہ امانت میں کسی طرح کا تصرف نہ کرے اور وہ جس طرح سے ہے اسی صورت میں اسے پہونچا دے ، اور رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) نے وحی الٰہی کے امین ہونے کی ذمہ داری سنبھالی تو اس کو پوری طرح سے بغیر کسی کمی و زیادتی کے بنحو احسن پہنچا دیا ،اور اس ذمہ داری میں اس حد تک ایماندا ری کا مظاہرہ کیا کہ خدا وند عالم نے ان کو امین وحی الٰہی کا تمغہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
''و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیٰ'' (١٠) میرا حبیب تو اپنی خواہشات سے کچھ بولتا بھی نہیں ہے وہ وحی کہتا ہے جو وحی کہتی ہے ۔
قرآن مجید کو ''زمین و آسمان کے درمیان کی رسی '' کہا گیا ہے(قال النبی ۖ: کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض)(١١)
شاید یہ اس لئے ہے کہ قرآن علم قدس اور ارواح کے درمیان معنوی واسطہ ہے اور اسی وجہ سے معصومین کے کلمات کو ''حبل ممدود'' کہا جاتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ وہ جو بھی فرماتے ہیں وہ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے علم لدنی سے حاصل کیا ہو اہوتاہے اور خود رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کا کلام صراحتاً علم ربانی اور الٰہی ہوتا ہے اور قیاس ، تصرفات اور خرافات وغیرہ سے پاک ہوتاہے کیونکہ:''وما ینطق عن ...''(١٢)
اس آیت اور امیر المومنین ـ کے کلام سے رسول اسلام کے امین ہونے کا پتہ چلتاہے ، رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی اما نت کا یہ عالم تھازمان جاہلیت میں ہی کہ جب آپ نے اعلان رسالت بھی نہیں کیاتھا تب ہی اہل عرب آپ کو ''امین'' کہنے لگے تھے ۔
جہاں آپ کی ذات مقدسہ میں مختلف صفات حسنہ پائی جاتی تھیں انہیں میں سے ایک آپ کی زندگی میں صداقت و امانت کا ہونا بھی ہے ، کھبی بھی خلوت ، جلوت ، امور مال اور غیر مالی مردوں یا عورتوں کے ساتھ معاشرت میں ، آپ کے اندر تھوڑا سا بھی اخلاقی انحراف یا خیانت دیکھنے کو نہیں ملی ۔
یہاں تک کہ ابھی آپ جوان ہی تھے کہ ''محمد امین '' کے لقب سے معروف ہو گئے تھے اور مکہ کے لوگ آپ کو امین کے لقب سے یاد کرنے لگے تھے اور جہاں بھی آپ کو دیکھتے کہتے تھے ''امین'' آ رہا ہے(١٣)
آپ کی امانت اس درجہ پر تھی کہ آپ کے شدید دشمن اور کفار بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوا کی مطمئن ہو جایا کرتے تھے ،اور آپ نے کبھی بھی کسی کی امانت میں ذرہ برابر بھی خیانت نہ کی ،یہاں تک کہ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانے لگے تب بھی تمام امانتیں حضرت علی ـ کے سپرد فرمایا اور کہا کہ ان کو ان کے مالکوں تک پہونچا دینا۔
٣۔ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)رحمت للعالمین :
و بشیر رحمتہ(١٤)
خدا وند عالم نے ان کو اپنی رحمت کی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا ہے ، جس طرح سے خداند عالم بندوں پر اپنی رحمت کا سایہ کئے ہوئے ہے ، یہ نیلا آسمان ، یہ وسیع زمین ، بلند پہاڑ ، یہ بہتے دریا ، درخت،درختوں پر چہچہاتی ہوئی چڑیاں ، یہ شکوفے اور ان پر منڈلاتی ہوئی تتلیاں ،غرض کہ اس دنیا کا چپا چپا اور اس کی ہر شئی اس کی رحمت وا سعہ کی نشانی ہے ،ا ور ان سب میں سب سے بڑا نمونہ حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات گرامی ہے ،۔
خدا وند عالم اتنا رحیم و کریم ہے کہ جب بندے گناہ کرنے کے بعد اس کی رحمت سے مایوس ہو گئے تو فرمایا :
''اے رسول ان لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے وہ رحمت الٰہی سے مایوس نہ ہوں خدا وند تمام گنا ہوں کو بخشنے والا ہے '' اور رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کو اسی رحمت کا نمونہ ہیں یہی وجہ ہے کہ جب آپ کسی سوکھے درخت کے نیچے سے گذر جاتے تھے تو وہ ہرا بھرا ہو جاتا تھا ، کسی کنویں میں لعاب دہن ڈال دیتے تو وہ پانی سے بھر جاتا ۔
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی اسی رحمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولائے کائنات ـ ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
:''پر وردگار نے ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنایا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھیلا دئے اور راحتوں کے دریا بہا دئے شریعت نے انھیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا ۔ وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میں مزے اڑانے لگے ۔ ایک مضبوط حاکم حاکم کے زیر سایہ سازگار ہو گئے اور حالات نے غلبہ اور بزرگی کے پہلو میں جگہ دلو ا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعا دتیں ان کی طرف جھک گیئں ....''(١٥)
آپ کے رحمت للعالمین (صلی الله علیه و آله وسلم)ہونے کا ایک نمونہ کو بچپنے میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، جب آپ کے صرف منہ لگانے سے دائی کے پستان سے شیر جاری ہو گیا ۔اور دوسرا نمونہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب آپ کی عمر صرف بارہ سال تھی اور آپ پہلی بار جناب ابو طالب ـ کے ہمراہ تجارتی قافلہ کے ساتھ چلے ابھی قافلہ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اہل قافلہ نے محسوس کیا یہ سفر پہلے کے سفروں کی بہ نسبت زیادہ آرام وہ ہے ۔ پہلے کے سفروں میں سورج کی جو گرمی بھی وہ اس بار نہیں ہے اور پہلے جو گرمی پریشان کرتی تھی وہ اس بار نہیں ہے ۔ سبھی اس بات سے بہت تعجب میں تھے حتی کہ ان میں سے ایک نے یہ بھی کہہ دیا کہ :''یہ سفر کتنا مبارک ہے۔''
دھیرے دھیرے سب متوجہ ہوئے کہ دن میں جب آپ سفر کرتے ہیں تو بادل کا ایک ٹکڑا مسلسل ان کے سر پر سایہ فگن رہتا ہے اور ان کو سورج کی دھوپ اور گرمی سے بچاتاہے۔ لیکن شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ ان پریہ رحمت خدا وندی اس بارہ سال کے بچے کی وجہ سے ہے جو اس کاروان کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔(١٦)
اور صحیح بھی ہے کہ جس قافلہ کا ہمسفر رحمت للعالمین (صلی الله علیه و آله وسلم)ہو بھلا سورج کی گرمی اس کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔
٤۔رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)اور بھائی چارہ:
الف بہ اخواناً (١٧)
امیر المومنین ـ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے مقر اور مستقر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
''نیک کرداروں کے دل آپ کی طرف جھکا دئے گئے اور نگاہوں کے رخ آپ کی طرف موڑ دئے گئے ، اللہ نے آپ کے ذریعہ کینوں کو دفن کر دیا ہے اور عداوتوں کے شعلہ بجھا دئے ہیں ، لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا ہے، اور کفر کی برادری کو منتشر کر دیا ہے.....''
تاریخ گواہ ہے کہ عرب اپنی کینہ توزی اور فتنہ پروری کے لئے مشہو ر رہے ہیں اور رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) کے وجود اقدس کے ذریعہ جو بہت سے انقلا بات آئے ہیں ان میں سے ایک ان کینوں کو ختم کر بھی ہے جو عرب کی رگ رگ میں بس چکا تھا اور ان کے جسم میں خون کی طرح دوڑ رہا تھا۔
جیسا کہ تاریخ میں ہے کہ آپ کی مدینہ ہجرت ہے پہلے وہاں کے دو قبیلہ ''اوس''و ''خزرج'' ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن تھے اور وہ ایک دوسرے کی جان کے درپے رہا کرتے تھے ، ان کے درمیان قتل و غارتگری ، کشت و کشتار کا بازار گرم رہا کرتاتھا۔ چھوٹی سی بات پر ایک دوسرے سے لڑ جایا کرتے تھے ۔
ان دو قبیلوں کے ساتھ ہی وہاں بعض یہودی طوائف مثلاً ''بنی قینقاع''''بنی نضیر''''بنی قریظہ''''بنی ثعلبہ'' رہتے تھے ،اور انہوں نے مدینہ اور اس کے اطراف کی زمینوں کو خرید کر وہاں کے اقتصادیات کو اپنے قبضہ میں کر رکھا تھا اور اپنے مفاد کے لئے ان دو قبیلوں کو آپس میں لڑواتے رہتے تھے ۔
جیسا کہ آج کے یہودیوں کا بھی یہی طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ عالمی اقتصاد پر حاوی ہیں اور انہوں نے پوری دنیا کے اقتصاد پر قبضہ کر رکھا ہے دنیا کی ہر بڑی اقتصادی طاقت انہیں کے قبضہ میں ہے ، انھیں کی اگلیوں پر پو ری دنیا کا اقتصاد گرش کر رہا ہے ، اسی لئے وہ کہ کوئی ان کی اس قوت اور قدرت کے آڑے نہ آئے وہ دوسرے قوموں خصوصاً مسلمانوں کو آپس میں مختلف طرح کے بہانوں سے لڑواتے رہتے ہیں ، کیونکہ اگروہ لڑتے ہی رہیں گے تو کبھی ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکیں گے اور دنیا پر ان کا اک چھتر راج قائم رہے گا۔
تمام مسلما نوں کو چاہئے کہ وہ تاریخ سے سبق لیں اور آپس کے بیجا اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بن کر رہیں اسی سے ان کی شان بھی ہے اور یہی ان کا ایمان بھی ہے کیوں کہ مسلمان وہی ہے جس سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ''المسلم من سلم المسلمون بیدہ ولسانہ''
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) نے ان دو قبیلوں کے درمیان اختلاف اور یہودیوں کی بالا دستی کو ختم کرنے کے لئے و حی الٰہی سے کچھ قرار داد پیش کیں اور یہ ان قرار دادوں کا ہی نتیجہ تھا کہ کچھ مدت کے بعد وہی مختلف العقیدہ اور ناتوان افراد ایک امت واحداور طاقت ور قوم کی صورت میں سامنے آئے اور شہر مدینہ جزیرة العرب کی بہت بڑی سیاسی اور نظامی چھاونی بن گیا، اور ان کی قدرت و طاقت اس حد تک پہونچ گئی کی ایران و روم کے باشکوہ تخت کو ہلا دیا اور ان کی حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا ۔
انھیں قرار دادوں میں ایک پیمان اخوت اور برادری تھا جس کو آپ نے مہا جر ین اور انصار کے درمیان باندھا اور اس کے ذریعہ مہاجرین جو کہ غربت کا احساس کر رہے تھے ان کو اس سے نجات دلائی اور ''اوس و خزرج''کے دیرینہ کینہ اور فتنہ کو بھی خاموش کردیا۔
جہاں آپ نے دوسرے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا وہیںہمیشہ اپنا سایہ نبے رہنے والے وارث نبوت حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا اور کہا:
''انت اخی'' تم میرے بھائی ہو۔(١٨)
٥۔ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)طبیب تھے :
طبیب دوار بطبہ قد....(١٩)
حضرت علی ـ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کے بارے میں نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
''آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کے ساتھ چکر لگا رہا ہو ، اپنے مرہم کو درست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو ....اپنی دوا کولئے ہوئے غفلت کے مراکز اور حیرت کے مقامات کی تلاش میں لگا ہو ا ہو''(٢٠)
امیر المومنین ـ نے آپ کو طبیب کے عنوان سے یاد فرمایا ہے اورہم جانتے ہیں کہ طبیب دو طرح کے ہوتے ہیںایک وہ جو اپنے مطب میں بیٹھا رہتاہے اور اس بات کا انتظار کرتاہے کہ کوئی مریض آئے تو اس کا علاج کروں ، یعنی اس کا علاج موقوف ہے مریض کے آنے پر ، لیکن اسی کے مقابل میں ایک دوسرا طبیب بھی ہے جو اپنے مطب میں بیٹھا نہیں رہتاہے بلکہ وہ ڈاکٹری کے تمام آلات کے ساتھ جگہ جگہ گھومتا رہتاہے ،اور جہاں بھی کوئی مریض مل جاتاہے وہیں اس کا علاج شروع کر دیتاہے وہ اس بات کا انتظار نہیں کرتاہے کہ مریض اس تک آئے بلکہ وہ خود مریض تک پہونچ جاتا ہے ۔اور امیر المومنین ـ نے رسول اکرم ۖکو اسی صنف کا طبیب کہا ہے جو خو د مریض تک جا کر اس کا علاج کرتاہے ۔
امیر المومنین ـ نے جو آپ کو طبیب سے تشبیہ دی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اس سے مراد طبیب بدنی نہیں ہے جو کہ لوگوں کے لئے نسخہ لکھتاہے ، بلکہ اس سے مراد طبیب روح و روان اجتماع ہے ،طبیب دوار بطبہ ، مولا بتانا چاہتے ہیں کہ تبلیغ دین میں آپ کی روش ایک طبیب کی بیماروں کے ساتھ جیسی ہے ، ایک طبیب اپنے مریضوں کے ساتھ کیسے پیش آتاہے ؟ وہ کس طرح سے ان کا علاج کرتاہے؟۔
طبیب کی مختلف خصوصیات میں سے ایک خصو صیت یہ ہے کہ وہ اپنے بیماروں کے حال پر رحکم کرتاہے ،ا ور ان کی ترحم کی نگاہ سے دیکھتاہے،اور ہمیشہ ان کا خیر خواہ ہوتاہے ۔ پھر آپ خود ہی نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
''و انما ینبغی لاھل العصمة و المصنوع الیھم فی السلامة ان یر حموا اھل الذنوب و المعصیة.....''(٢١) دیکھو جو لوگ گناہوں سے محفوظ ہیں اور خدا نے ان پر اس سلامتی کا احسان کیا ہے ان کے شایان شان یہی ہے کہ گناہگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں۔
گناہ گار لائق ترحم ہیں اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کچھ نہ کہا جائے؟کیا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے ؟
یا نہیں اگر مریض لائق ترحم ہے تو اس کو برا بھلا نہ کہا جائے ، اس کو اس کے حال پر نہ چھوڑ دیا جائے بلکہ اس کا علاج کیا جائے۔
پیغمبر اسلا م کی روش ایک طبیب کی تھی ، لیکن اس طبیب کے جیسی جو فقط اپنے مطب میں نہین بیٹھا رہتاہے بلکہ خو د اپنے مریضون تک پہونچ کر ان کا علاج کرتاہے ۔اور پیغمبر اسلا م بھی ایک ایسے ہی طبیب تھے وہ اخلاقی اور معنوی مریضوں کی تلاش میں جاتے تھے ،ان کو تلاش کرتے تھے ، اور ان کے مرض کے مطابق ان کا علاج کیا کرتے تھے ۔ پوری زندگی آپ کا یہی ایک کام تھا۔
طائف کی طرف آپ کا سفر کس لئے تھا؟مسجد الحرام میں کبھی اس کے پاس کبھی اس کے پاس جانا ، قرآن کی تلاوت کرنا، اسلام کی دعوت دینا یہ سب کس لئے تھا؟ حرام مہینوں میں جب قبائل عرب اپنی جاہلیت والی رسم پر حج کرنے آئے ، عرفات میں جمع ہوئے ،آپ ان کے پاس جاتے ، ابو لہب بھی آپ کے پیچھے ہوتا ار کہتا: اس کی باتوں کو نہ سنو ، یہ میرا بھتیجا ہے ، یہ معاذاللہ دروغگو ہے ، دیوانہ ہے ، ایسا ہے ویسا ہے، لیکن اس کے باجود آپ اپنے کام میں لگے رہے۔ یہ سب کس لئے تھا؟
امیر المومنین ـ فرماتے ہیں :
پیغمبر (صلی الله علیه و آله وسلم) کی روش ایک طبیب کے جیسی تھے لیکن اس طبیب کے جیسی نہیں جو کہ بیٹھ جاتاہے اب جو آکر پو چھے اس کا جواب دے دیا اور جس نے سوال نہ کیا اس سے کوئی مطلب نہیں ۔
پیغمبر اسلام ۖاپنی ذمہ داری کو اس سے بہت بلند سمجھتے تھے ، اور اسی وجہ سے اپنی طرف سے ہر طرح کو کوشش کرتے تھے کہ پیغام الٰہی لوگوں تک پہونچ جائے لوگ راہ ہدایت پر آجائیں ، مطیع پروردگار بن جائیں ، شیطان کی عبادت کوچھوڑ دیں۔
روایت میں ہے کہ عیسیٰ مسیح ـ کو دیکھا کہ آپ ایک بد کار عورت کے گھر سے باہر تشریف لا ئے ، لوگوں نے پوچھا : یا روح اللہ آپ یہاں؟ جواب دیا طبیب مریض کے گھر آیا ہے ۔
''طبیب دوار بطبہ'' پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی روش کے بارے میں امام علی ـ ذکر کرتے ہیں ۔
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی روش کیسی تھی ؟ آیا آپ کی روش نرمی والی تھی یا خشونت آمیز اور سختی لئے ہوئے؟آپ لطف اور مہبانی سے پیش آتے تھے یا قوت اور زور کے بل پر عمل کرتے تھے ؟
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ، دونوں طریقہ آپ کی روش میں شامل تھے ، لیکن آپ دونوں کے محل کو اچھی طرح سے جانتے تھے ، آپ کے پاس رحم بھی تھا اور آلات جراحی بھی یہ خود امیر المومنین ـ کی تعبیر ہے ۔ آپ کے ایک ہاتھ میں رحم اور دوسرے میں آلات جراحی تھے ، جب ایک زخم کو مرحم سے آہستہ آہستہ علاج کر رہے ہوتے اسی وقت دوسرے ہاتھ میں جراحی کے آلات ہوتے ، جہاں مرہم سے کام چلتا وہاں مرحم لگاتے ار جہاں مرحم کا م نہ آتا تو ایسی صورت میں اب جب کہ مرحم کا م نہیں آ رہا ہے تو مریض کو اس کی حالت پر چھوڑ نہیں دیتے تھے بلکہ اگر جسم کے ایک فاسد حصہ کو مرحم کے ذریعہ علاج نہ کیا جا سکے تو اس کو داغ دیا جاتاہے ، یا کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے (٢٢)
اسی طرح سے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی روش تھی جو نرمی کے ساتھ راہ راست پر آگیا وہ کے ساتھ نرمی والا برتائو کیا ، کہ جب فتح مکہ کے بعد آپ مکہ میں تشریف لائے اور اہل مکہ سے پوچھا کہ تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو تو انھوں نے یہی کہا کہ ہم رحم کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے ہیں تو آپ نے کہا کہ جائو''انتم الطلقائ''تم سب آذاد ہو ، یعنی تم جب ایسے ہی راہ راست پر آگئے ہو تو اب سختی کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہا ں یہ اور بات ہے کہ پیغمبر اسلا م (صلی الله علیه و آله وسلم) نے پہلے یہی کوشش کی کہ نرمی سے بات بن جائے اور سختی کی نوبت نہ آئے اسی لئے رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد کے اولین سالوں میں اور مدینہ ہجرت کے بعد بھی کافی عرصہ تک آپ صرف زبانی تبلیغ کرتے رہے لیکن جب ان سے بات نہ بنی تو حکم جہاد دیا کہ اب یا تو دائرۂ اسلام میں آ جائو یا پھر جزیہ دے کر اپنی جان بچا لو ۔
رسول اسلام ۖکی سیرت کے اور بھی بہت سے مختلف پہلوئوں کی طرف مولائے کائنات ـ نے نہج البلاغہ میں اشارہ کیا ہے جن کا تذکرہ اس مختصر سے مقالہ میں نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن پھر بھی ہم ان کو مختصراً یہاں پر بیان کر رہے ہیں۔
٦۔رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)قاری قرآن :
....یقرأکتابا ً....(٢٣)
امیر المومنین ـ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس دور مبعوث کیا گیا جب عرب میں کو پڑھنا لکھنا نہیں جانتاتھا ،اور نہ کوئی نبوت اور وحی کا ادعا کرنے والا تھا ۔
تاریخ عرب کا مطالعہ کر نے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس دور میں پانچ یا زیادہ سے زیادہ سات آدمی ایسے تھے جن کو پڑھنا اور لکھنا آتا تھا ، ان کے علاوہ باقی سب بے بہرہ اور ان پڑھ تھے ، علم و آگہی کا دور دور تک کہیں کوئی پتہ نہ تھا اور پورا عرب جاہلیت کے ہولناک سناٹے میں گم تھا ، کوئی نہیں تھا جو کہ چراغ علم و ہدایت جلاتا ، ایسے دور میں آپ کو ایک کتاب کے ساتھ مبعوث کیا گیا ، جو لوگوں کی ہدایت کی علم بردار تھی ، اور اسی طرف سو رہ جمع کی دوسری آیت بھی اشارہ کر رہی ہے
''ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ''اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے ۔
یہ آیت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ عرب کے اس ماحول میں جب کوئی پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتاتھا تب وہ رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات اعلٰی صفات تھی جو کتاب ہدایت کو ہاتھ میں لے کر ان کو ہدایت و انسانیت کا درس سے رہی تھی ، اور کتاب خدا کی تلاوت کر رہی تھی۔
٧۔شجاعت رسول اکرم ۖ:
.......اذا احمر الباس ...(٢٤)و کنا اذا احمر الباس اتقینا برسول اللہ....(٢٥)
''رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ کے شعلہ بھڑک اٹھتے تھے اور لوگ پیچھے ہٹنے لگتے تھے تو آپ اپنے اہلیبیت کو آگے بڑھا دیتے تھے اور وہ اپنے کو سپر بنا کر اصحاب کو تلوار اور نیزوں کی گرمی سے محفوظ رکھتے تھے''
اور امیر المومنین ـ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں :''جب جنگ شدید ہو جاتی اور جنگ کے شعلہ بھڑکنے لگتے تو ہم لو گ رسول اکرم کی پناہ میں رہا کرتے اور کوئی بھی شخص آپ سے زیادہ دشمن سے قریب نہیں ہوتاھتا''(٢٦)
یہ جملہ اگر کوئی ایسا ویسا شخص کہہ دیتاتو شاید اس کی عظمت اس حد تک نہ ہوتی ، لیکن ایک ایسا شخص کہہ رہا ہے کہ جس کی شجاعت کا لوہا پورا عرب مانتاہے ، جس نے خیبر و خندق ، حنین و بدر میں وہ عظیم الشان کارنامے انجام دئے کہ کوئی اس کا ثانی نہیں ہے ۔ اس کی شجاعت اس منزل پر پہونچی کہ خو د رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) نے کہا :''ضربة علی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین''وہ رسول اکرم کے بارے میں کہہ رہاہے ''جنگ کے شعلہ بھڑکنے لگتے تو ہم لو گ رسول اکرم کی پناہ میں رہا کرتے ''اس سے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی حقیقی شجاعت کا اندازہ ہوتاہے ۔پوری دنیا جس کی شجاعت کا قصیدہ پڑھتی ہے وہ رسول اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی شجاعت کا قصیدہ پڑھ رہاہے۔
جناب سید رضی اس کے ضمن میں فرماتے ہیں :''اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ کی کاٹ شدیدہو جاتی تھی تو مسلمان میدان میں رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی پناہ تلاش کیا کرتے تھے اور آپ پر نصرت الٰہی کا نزول ہو جایا کرتا تھا ، اور مسلمانوں کو امن و آمان حاصل ہو جاتاتھا''۔
یہ نہج البلاغہ میں پائے جانے والے سیرة النبوی کے بہت سے پہلوئوں میں سے بعض تھے جن کوہم نے ذکر کیا ہے ۔
اور آخر میں ہم پروردگار عالم سے دست بدعا ہیں کہ ہم کو پیغمبر اسلام ۖاور اہلیبیت اطہار ٪ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرما،اور ان کے وصی برحق اور خلیفہ اول کے نورانی کلمات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عنایت فرما اور ان کو دنیا و آخرت میں ہمارا شفیع قرار دے۔ (آمین)
والسلام علی من اتبع الھدی
حوالے
١۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٧
٢۔گذشتہ حوالہ، خطبہ ١٠٩
٣۔سنن النبی ،ص٨١
٤۔نہج البلاغہ ،خطبہ ١٦٠
٥۔سنن البنی ،ص٩٥
٦۔نہج البلاغہ، صبح صالح ، خطبہ ١٩٢
٧۔سیرہ در سیرہ نبوی ،ص٩٦
٨۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣
٩۔گذشتہ حوالہ، خطبہ ١٨٥
١٠۔سورہ نجم آیت ٣۔٤
١١۔بحار الانوار ،ج٢٣،ص١٠٨، کتاب الامامہ باب ٧ حدیث ١١۔١٢۔تفسیر و شواہد قرآنی در آثار امام خمینی ص٧٨٠۔
١٢۔تفسیر و شواہد قرآنی در آثار امام خمینی ص٧٨١۔
١٣۔زندگانی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)ص٨٧
١٤۔نہج البلاغہ خطبہ ١٧٣
١٥۔گذشتہ حوالہ، خطبہ ١٩٢
١٦۔زندگانی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)ص٨١
١٧۔نہج البلاغہ خطبہ ٩٦
١٨۔زندگانی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله وسلم)ص٢٧٣
١٩۔نہج البلاغہ خطبہ ١٠٨
٢٠۔ترجمہ نہج البلاغہ علامہ جوادی ،ص٢٠٩
٢١۔نہج البلاغہ خطبہ ١٤٠
٢٢۔نظری دیگر درنہج البلاغہ (شہید مطہری)ص٧٤،٧٦
٢٣۔نہج البلاغہ خطبہ ١٠٤
٢٤۔نہج البلاغہ مکتوب ٩
٢٥۔گذشتہ حوالہ، مکتوب ٩
٢٦۔ ترجمہ نہج البلاغہ زیر نظر آیتہ اللہ مکارم شیرازی ،ص٥٧٥