بلاغۃ الحسین علیه السلام

سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین علیه السلام کے
چند فصیح و بلیغ خطبے، خطوط اور مختصر حکیمانہ کلمات
تالیف: آیۃ اللہ السید مصطفی الموسوی آل اعتماد طاب مثواہ
مترجم: حیدر مہدی

حرف مترجم

    ترجمہ کی تکمیل پر خدائے وحدہئ لاشریک کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور اس کے بندے محمد مصطفی(ص)اور آپ کی آل اطہار پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔

    اما بعد: کتاب لمعۃ من بلاغۃ الحسین(علیه السلام) کا ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ کتاب تعریف و توصیف سے بے نیاز ہے کیونکہ یہ رسول خدا حضرت محمد مصطفی(ص)کے نواسے، علی مرتضیٰ کے نور نظر، فاطمہ زہر = کے لخت جگر اور حسن مجتبیٰ (علیه السلام) کے بھائی حضرت امام حسین (علیه السلام) کے حکمت آمیز کلام کا مجموعہ ہے۔

    آپ کا کلام علم الہٰی کا پرتو ہے اور اس میں کلام نبوی(ص)کا جلوہ نمائی ہے. اور فصاحت و بلاغت میں آپ کا کلام نہج البلاغہ سے کم درجہ نہیں رکھتا۔

    اس کتاب کی مقبولیت کا اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چھ مرتبہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہے اور دنیا کی بعض دوسری زندہ زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے. اس کتاب کا جن زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور جن ممالک میں شایع ہوئی ہے ان کے نام کچھ اس طرح ہیں۔

    ١۔ چار (٤) مرتبہ فارسی زبان میں ترجمہ ہوکر متعدد مرتبہ ایران میں چھپ چکی ہے۔

    ٢۔ دو (٢) مرتبہ اردو زبان میں ترجمہ ہوکر ہندوستان، پاکستان اور ایران میں چھپ چکی ہے۔

    ٣۔ ایک مرتبہ سندھی زبان میں ترجمہ ہوکر پاکستان میں چھپ چکی ہے۔

    ٤۔ ایک مرتبہ تھائی زبان میں ترجمہ ہوکر تھائیلینڈ میں طبع ہو چکی ہے۔

    ٥۔ ایک مرتبہ اسلامبولی ترکی زبان میں ترجمہ ہوکر ترکی میں طبع ہو چکی ہے۔

    اس کتاب کے مؤلف حضرت آیۃ اللہ السید مصطفی موسوی آل اعتماد طاب مثواہ ہیں جو اپنے زمانے کے مشہور مجتہدین میں شمار ہوتے تھے. کربلائے معلی میں متولد ہوئے وہیں نشو و نما پائی اور اسی مقدس سرزمین پر تعلیم حاصل کر کے درجہئ اجتہاد پر فائز ہوئے، کتاب حاضر کے علاوہ آپ نے مختلف علوم؛ فقہ، اصول ، اور کلام وغیرہ میں کئی ضوعات پر کتابیں تحریر فرمائی ہیں، لیکن آپ نے سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین (علیه السلام) کے ارشادات کو نہج البلاغہ کے طرز پر جمع کرنے کا جو کام انجام دیا ہے وہ سید رضی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اپنی نوعیت کا منفرد کارنامہ ہے۔

    اب ہر شخص ایک ہی کتاب میں امام عالی مقام کے خطبے، خطوط اور مختصر اقوال کا مطالعہ کرسکتا ہے اردو زبان میں یہ میرا پہلا ترجمہ ہے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا کتنا مشکل کام ہے اور اس میں جو زحمتیں پیش آتی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں، عام کتابوں کے ترجمہ میں اصل متن کا حق ادا نہیں ہوپاتا، چہ جائیکہ کلام معصوم کا ترجمہ جس کا اپنی فصاحت و بلاغت اور معنوی اثرات کے ساتھ دوسری زبان میں بھر پور ترجمہ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے. پھر بھی میں ترجمہ میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا یہ قاریان کرام ہی فیصلہ کرسکتے ہیں البتہ میری ان سب سے مخلصانہ گزارش ہے کہ اگر کہیں ترجمہ میں غلطی نظر آئے تو مجھے متوجہ کر کے ثواب میں ضرور شریک ہوں۔

    اس سلسلہ میں حجۃ الاسلام مولانا سید ولی الحسن رضوی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے ترجمہ پر نظرثانی کی زحمت اٹھائی، اسی طرح عالیجناب مولانا علی اختر زیدی صاحب قبلہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے مفید ادبی مشوروں سے اردو ترجمہ میں میری راہنمائی فرمائی اور اپنے دوست عالیجناب مولانا سید مبین حیدر صاحب قبلہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ترجمہ میں میرا ساتھ دیا. اور ان سبھی احباب کا ممنون ہوں جنہوں نے ترجمہ میں میری مدد کی۔

    نیز برادر محترم جناب علی حسنین رضوی صاحب قبلہ کا تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں جنھوں نے اس کتاب کے نشر و طبع کی زحمت اپنے ذمہ لی۔ بارگاہ سید الشہداء امام حسین (علیه السلام) سے مزید جزائے خیر انھیں نصیب ہو۔

    آخر میں خدا سے دعا ہے کہ اس قلیل عمل کو اپنی بارگاہ عظیم میں قبول کر کے دین اسلام کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے۔ آمین رب العالمین ۔

خادم اہلبیت

حیدر مہدی کریمپوری

 

اھداء

 

        یہ کتاب ہدیہ کرتا ہوں

        اس کی بارگاہ میں جس نے انسانیت کو گمراہی کے چنگل سے آزاد کرایا۔

    اس کی جناب میں جس نے اپنی مقدس تحریک کی نورانیت سے کائنات کو منور کیا۔

    اس کی خدمت میں جس نے شریعت اسلام کو فرسودہ ہونے کے بعد نئی حیات عطا کی۔

    اس کے حضور میں جس نے اپنے مقدس خون سے دین محمدی کے زخموں کا علاج کیا۔

اے روح نبوت محمدی اور ولایت عظمائے علوی کی جان، آپ کی خدمت میں یہ ناچیز ہدیہ پیش کرتے ہوئے آپ کی خوشنودی اور شفاعت کا امیدوار ہوں۔

مصطفی محسن الموسوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ(علیه السلام)مؤلف کے قلم سے

    میں اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس نے اپنا شکر نعمتوں کی زیادتی، اپنے عذاب و عقاب سے امان اور اپنی خوشنودی کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

    اور صبح و شام درود و سلام ہو اس پر جو حق کی جانب دعوت کے لئے مبعوث کیا گیا، جو خلق خدا پر گواہ اور فصحائے عرب میں سب سے ممتاز تھا، اورجن کے جمال کی نورانیت سے لوگوں کی نگاہوں میں روشنی آجاتی تھیں یعنی محمد(ص)پر اور ان کے پاکیزہ اہل بیت ؑ اور معصوم جانشینوں پر جو ہدایت کرنے والے اور ہدایت یافتہ ہیں۔

    اما بعد: یہ مجموعہ جو امت اسلامیہ کے پیش خدمت ہے، یہ عظیم المرتبت نواسہئ رسول سید الشہداء حضرت امام حسین (علیه السلام) کے ان خطبات، مکتوبات اور نصیحت آموز مواعظ حسنہ پر مشتمل ہے جو کلمات آبدار و حکمت گہربارسے معمور ہیں اور اس میں محکم و روشن دلائل پر استوار بیش بہا فوائد مستور ہیں۔

    اس بحر دانش کے سامنے معانی اپنی کم مائیگی اور الفاظ اپنی بے بضاعتی کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں، جس کی نورانیت سے فضائے عالم نورانی اور خوشبو سے مشام کائنات معطر ہے۔

    خطبائے عصر و فصحائے دہر پر لازم ہے کہ ان امام عالیمقام کو اپنا قائد مانیں اور مقررین و صاحبان حکمت پر فرض ہے کہ امام ہمام کو اپنے لئے اُسوہ و نمونہ قرار دیں، کیونکہ حسین خالق نہج البلاغہ جیسے باپ کے بیٹے ہیں ان کی پرورش آغوش نبوت میں ہوئی ہے اور زبان رسالت چوس کر پروان چڑھے ہیں، اسی لئے پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا: میرا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

    محمد بن ابی طلحہ شافعی نے اس مقام پر اپنی کتاب ''مطالب السؤل'' میں کتنی اچھی بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں: یاد رکھو! ہمارے آقا و مولا حسین (علیه السلام) کے سامنے فصاحت، دست ادب جوڑے اور بلاغت سر اطاعت خم کئے رہتی تھی، کیونکہ وہ عرب و عجم میں فصیح ترین شخص کے بیٹے اور اس کے نواسے ہیں جس کو تمام کلمات و حکمت منجانب اللہ عطا ہوئے ہیں اور وہ ایسے باپ کے بیٹے ہیں جن کے علم و حکمت مطیع اور شمشیر و قلم فرمانبردار ہیں اور بے شک بیٹا وہی جو باپ کے نقش قدم پہ ہو، کیونکہ بیٹا باپ کا جزو ہوتا ہے، خدا کا درود و سلام ہو امام عالیمقام پر، انکے نانا، والد گرامی، انکی والدہئ ماجدہ اور ان کے بھائی پر۔

    امام (علیه السلام) کا وہ کلام جو (اس مجموعہ میں) پیش کیا گیا ہے کوئی بھی زبان و بیان اسے ادا کرنے پر قادر نہیں کیونکہ یہ کلمات آپ نے میدان جنگ کے خطرناک ماحول میں بیان فرمائے ہیں جبکہ ایسے روح فرسا حالات میں کسی شخص میں بولنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی، اور یہ فقط آپ کا حصہ ہے، کیونکہ آپ زمانے کے فصیح ترین شخص تھے۔

چونکہ امام (علیه السلام) کے یہ بیانات جو کسی مخصوص کتاب میں جمع نہیں ہوئے تھے اور یہ زریں اقوال کسی ایسے مخصوص مجموعے کی شکل میں نہیں آئے تھے کہ جس تک ہر شخص کی دسترسی ہوسکے، بلکہ سیرت و تاریخ کی مختلف کتابوں میں پراکندہ تھے، لہٰذا میں نے سوچا ان کو خطبوں،خطوں اور مختصر جملوں کو الگ الگ ابواب میں مرتب کرکے ایک کتاب کی صورت میں جمع کردوں اگرچہ اس راہ میں کافی مشکلات پیش آئیں لیکن مولا کی شفاعت کی امید نے میرے لئے ان تمام سختیوں کو آسان بنا دیا۔

آخر میں خدا سے مدد کا طلبگار ہوں اور اس پر توکل کرتا ہوں کیونکہ وہ بہترین حامی ہے۔

مصطفی محسن الموسوی

الباب الأوّل

خُطَب سید الشہداء الإمام الحسین (علیه السلام)

 ١ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام توحید سے متعلق

    اے لوگو! ان گمراہوںسے بچو جو خداوند عالم کو اپنے نفوس سے تشبیہ دیتے ہیں (یُضَاھِئُونَ قَولَ الَّذِینَ کَفَرُوا...)[سورہئ توبہ آیت ٣٠] ان کی یہ بات اہل کتاب کے کفار کی طرح ہے، بلکہ خدا وہ ہے (لیَسَ کَمِثلِہِ شَیئ وَ ھُوَ السَّمِیعُ البَصِیر)[سورہئ شوریٰ آیت ١١] (لاَتُدرِکُہُ الأَبصَارُ وَ ھُوَ یُدرِکُ الأَبصَارَ وَ ھُوَ الَّطِیفُ الخَبِیر) [سورہئ انعام آیت ١٠٣] جس کے مثل کوئی شے نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، اس کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے اس نے یکتائی اور عظمت و جبروت کو اپنے لئے مخصوص کیا ہے اس کی مشیت، ارادہ، قدرت اور اس کا علم تمام امور میں جاری ہے، اس سے کسی امر میں کوئی نزاع کرنے والا نہیں، اور اس کا کوئی کفو نہیں جو اس کے مد مقابل آئے اور اس کا کوئی مثل نہیں جو اس کے مشابہ ہو اور اس کا کوئی نظیر نہیں جو اس کے جیسا ہو۔

    امور خلقت اس کو متحیر نہیں کرتے،وہ حالات سے متاثر نہیں ہوتا، حوادث روزگار اس پر اثر نہیں ڈالتے ، تعریف کرنے والے اس کی عظمت کی حقیقت کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور اس کا مقام جبروت انسانی قلوب میں نہیں آسکتا، کیونکہ موجودات کے درمیان اس کا کوئی مثل نہیں۔

    علماء اپنی عقلوں اور عرفاء اپنے افکار کے ذریعہ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکتے مگر صرف اس قدر کہ غیب پر ایمان رکھتے ہوئے اس کی تصدیق کریں، کیونکہ اس کو مخلوقات کی کسی صفت سے متصف نہیں کیا جاسکتا، وہ یکتا و بے نیاز ہے (اس کے بارے میں) انسانی اوہام و افکار میں جو کچھ تصور کیا جائے وہ اس سے الگ ہے، وہ ایسا پروردگار نہیں ہے جو فکروں میں سما سکے اورنہ ہی ایسا معبود ہے جو فضاؤں میں یا اس سے باہر کسی اور جگہ موجود ہو۔

    وہ تمام چیزوں میں موجود ہے لیکن اس طرح نہیں کہ دنیا کی چیزیں اس کو گھیرے میں لئے ہوں (یعنی اس کا وجود ان چیزوں سے وابستہ ہو) اور وہ موجودات سے جدا ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ ان سے غائب ہو (یعنی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے) کسی میں اس کی ضد بننے کی طاقت نہیں، اور کسی میں اس کے مانند ہونے کی تاب نہیں ،اس کا قدیم ہونا دنیا کی قدامت کی طرح نہیں ہے اور اس کی نظر توجہ کسی خاص جانب نہیں ہوتی، وہ عقلوں سے بھی اسی طرح پنہاں ہے جس طرح آنکھوں سے اوجھل ہے، اور جس طرح زمین والوں سے مخفی ہے اسی طرح آسمان والوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے، بندوں سے قریب ہونا اس کی عظمت، اور اس کی دوری اس کی بے توجہی کی وجہ سے ہے۔

    نہ وہ کسی مکان میں محصور کیا جاسکتا، نہ کسی زمانہ میں اس کو محدود کیا جاسکتا اور نہ ہی کوئی شک و شبہ اس کو مشورہ پر مجبور کرسکتا، کوئی اس کی بلندی کا اندازہ نہیں لگا سکتا، اس کی آمد و رفت نقل مکانی کی محتاج نہیں، وہ ہرمفقود کو وجود بخشتا ہے اور ہر وجود کو فنا کرتا ہے، اس کے علاوہ کسی میں یہ دو صفتیں ایک وقت میں جمع نہیں ہوسکتیں، اس کے بارے میں فکر کرنا اس کے وجود پر ایمان لانا ہے،

اور ایمان کا ہونا کسی صفت کو ثابت نہیں کرتا، اس کے ذریعے صفات کو بیان کیا جاسکتا ہے لیکن صفات کے ذریعے اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، اور اس کے ذریعہ علوم و معارف کو پہچانا جاتا ہے علوم و معارف کے ذریعے اس کو نہیں جانا جاسکتا، وہ ایسا ہے جس کا کوئی ہمنام و نظیر نہیں، وہ پاک و منزہ ہے (لیَسَ کَمِثلِہِ شَیئ وَ ھُوَ السَّمِیعُ البَصِیر)[ سورہئ شوری آیت ١١] اس کے مثل کوئی شی نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

٢۔ امام(علیه السلام) کا کلام نافع بن ازرق کے جواب میں

    ایک دن نافع بن ازرق نے ابن عباس سے کہا: آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں اس کی توصیف کیجئے. ابن عباس سوچ میں پڑ گئے اور کوئی جواب نہ دیا، نافع حضرت امام حسین (علیه السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ سے جواب چاہا۔

    حضرت سید الشہداء (علیه السلام)نے فرمایا: اے نافع! جس نے اپنے دین کی بنیاد قیاس پررکھی وہ ہمیشہ (ہر زمانے میں) دھوکہ کھائے گا، راہ راست سے ہٹ کر بے راہ روی اختیار کرلے گا، وہ صحیح راستے سے بھٹکا ہوا ہے اور زبان پر ناشائستہ کلمات لاتا رہے گا۔

     اے ابن ازرق! میں خدا کو اسی صفت سے یاد کرتا ہوں جو اس نے اپنے لئے (خود بیان) کی ہے اور میں اس کو اسی طرح پہچنواتا ہوں جیسے اس نے اپنے کو پہچنوایا ہے، وہ محسوسات کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا، نہ ہی لوگوں پراس کا قیاس کیا جاسکتا ہے، وہ نزدیک ہے لیکن اشیاء سے ملا ہوا نہیں ہے، وہ دور ہے مگر کسی سے فاصلہ نہیں رکھتا، وہ ایک ہے لیکن اعداد کی طرح نہیں ہے، نشانیوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے اور علامتوں کے ذریعے تعریف کی جاتی ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں، جو سب سے بڑا اور سب سے بلند ہے۔

    یہ سن کر ابن ازرق رونے لگے اور کہا اے حسین ! آپ کی بات کس قدر دل کو چھوتی ہے

     حضرت نے ان سے پوچھا: میں نے سنا ہے کہ تم میرے والد، میرے بھائی اور مجھ کو کافر سمجھتے ہو؟ پھر فرمایا: میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔

    اس نے کہا : پوچھئے آپ نے اس وقت اس آیت کے متعلق سوال کیا (وَ اَمَّا الجِدَارُ فَکَانَ لِغُلاَمَینِ یَتِیمَینِ فِی المَدِینَۃ)[سورہئ کہف آیت ٨٢] اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی، کہ اے ابن ازرق! کس نے ان دونوں یتیموں کے واسطے خزانہ چھپایا تھا؟

    اس نے جواب دیا : ان کے باپ نے۔

     حضرت امام حسین (علیه السلام) نے پوچھا: ان دونوں کا باپ بہتر تھا یا رسول خدا(ص)؟ (یعنی ان یتیموں کے باپ نے تو اپنے بچوں کے لئے خزانہ چھپا رکھا تھا کہ اس کے بعد ان کو بدبختی کا منہ نہ دیکھنا پڑے، وہ اس بات کو خوب سمجھتا تھا اور اپنے بعد کے لئے انتظام کرگیا لیکن حضرت رسول خدا(ص)جو اپنی امت کے واسطے اس سے کہیں زیادہ فکر مند تھے اپنے بعد (امت کی رہبری کے لئے) کسی کو منتخب نہیں کرتے کہ ان کے بعد امتیوں کو بدبختی کا سامنا نہ ہو؟ ایک بہتر شخص سے یہ بعید ہے۔

    ابن ازرق (جو ایک بدتمیزاور سرپھرا آدمی تھا) یہ سن کر چڑھ گیا اور کہنے لگا: کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو خبر دی ہے کہ آپ لوگ جھگڑا لو قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔

٣۔ امام (علیه السلام) کے خطبے میں

اچھے کام اور لوگوں کی حاجت برآری کی ترغیب

    اے لوگو ! کرامت و بزرگواری میں ایک دوسرے پر سبقت اور اچھے کام میں جلدی کرو ، کارخیر میں جلدی کئے بغیر اس کو اچھا نہ سمجھو، نیک کام انجام دیکر دوسروں کی تعریف کے مستحق بنو اور کارخیر میں سستی کے ذریعے لوگوں کی زبانیں مذمت میں مت کھلواؤ، اگر تم نے کسی کے ساتھ نیکی کی اور اس نے تمہارا شکریہ ادا نہ کیا تو غمگین نہ ہو کیونکہ خداوند عالم کریم ہے اور تم کو لازوال نعمتوں سے نوازے گا اور یقینا خدا کا عطا کردہ اجر سب سے بہتر و عظیم ہے۔

    یاد رکھو لوگوں کی ضرورتیں تم سے وابستہ ہونا خدا کی طرف سے تمہارے لئے بہت بڑی نعمت ہے پس ہرگز ان کے سوال کرنے سے کبیدہ خاطر نہ ہونا، کیوں کہ (اگر خدا نے تمہاری طرف سے منہ موڑ لیا) تو عطائے پروردگار تمہارے لئے بلائے جان بن جائے گی۔

    آگاہ ہو جاؤ ! کار خیر لوگوں کی تعریف و ستائش اور اخروی جزا و انعام کا باعث ہے چنانچہ اگر یہ بھلائی مجسم ہو جاتی تو اسے تم لوگ ایک ایسے خوبصورت انسان کی شکل میں پاتے جو دیکھنے والوں کو مسرور کر دے ، اسی طرح اگر برائی مجسم ہو جاتی تو اسے تم لوگ ایک ایسے بدشکل آدمی کی صورت میں پاتے کہ دیکھ کر دل متنفر ہوجاتے اور آنکھیں دیکھنا پسند نہ کرتیں۔

    اے لوگو! جو شخص عطاء و بخشش سے کام لیتا سید و سردار بن جاتا ہے، اور جو کنجوسی دکھاتا ذلیل و خوار ہوجاتا ہے، سب سے بڑا سخی وہ ہے جو امید سے زیادہ عطا کرے اور لوگوں میں سب سے بڑا عفو و درگذر کرنے والا وہ ہے جو قدرت و طاقت کے باوجود معاف کر دے اور سب سے بڑا صلہئ رحمی یا رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے والا وہ ہے جورشتہ توڑنے والوں سے صلہ رحمی کرے، کیونکہ درخت کی جڑوں اورشاخوں کو غذا پہچانے سے بڑھتا اور مضبوط ہوتا ہے۔

    جو شخص اپنے مومن بھائی کی حاجت پوری کرنے میں جلدی کرے گا کل قیامت کے دن جب اس سے ملاقات ہوگی تو اس (نیکی) کو پالے گا، اور جو شخص خوشنودیئ خدا کے لئے اپنے مومن بھائی کے ساتھ احسان کرے گا خداوند عالم جس دن اس کو ضرورت ہوگی اس کی جزا عنایت کرے گا اور اس نے جتنا احسان کیا تھا اس سے زیادہ کاندھوں پہ لدی اس کی دنیاوی مصیبتوں کو دور کر دے گا۔

    اور جو شخص کسی مومن کا غم دور کرے خداوند عالم اس سے دنیا و آخرت کے غم دور کردے گا اور جو کسی مومن کے ساتھ نیکی کرے خدا اس کے ساتھ نیکی کرے گا (وَاللّٰہُ یُحِبُّ المُحسِنِین) [سورہئ آل عمران آیت ١٤٨]اور خداوند عالم کار خیر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

٤۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ صبرا ور ایفائے عہد سے متعلق

    صبر و شکیبائی زینت ہے ، وعدہ وفا کرنا مردانگی ہے دوستی و صلہئ رحمی نعمت ہے، تکبر و غرور خودستائی اور کام میں جلد بازی حماقت ہے اور حماقت کمزوری کی نشانی ہے، غلو اور بڑھ چڑھ کر بولنا ہلاکت ہے، بدسرشتوں کی ہم نشینی شرو آفت ہے اور گناہگاروں کی ہم نشینی شکی و بدگمان بنادیتی ہے۔

٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ لوگوں کو اپنے پدر بزرگوار کی ہمراہی

اور امیر شام کے خلاف جنگ کی دعوت

    حضرت کھڑے ہوئے اور خدا کی حمد اور وہ تعریفیںکیں کہ جس کا وہ مستحق ہے اور فرمایا: اے کوفہ والو! تم محترم اور ہر ایک سے زیادہ عزیز ہو تم لباس کی مانند ہر وقت کی ضرورت ہو، کملی کی طرح (اضافی چیز) نہیں ہو، اپنے درمیان فتنے کی جو آگ روشن ہوگئی ہے بجھانے کی کوشش کرو اور جو امر تم پر سخت ہے اس کو آسان بناؤ، آگاہ ہو جاؤ کہ بے رحم جنگ کا چہرہ اچانک سامنے آجانے والا شر ہے اس کا ذائقہ کڑوا ہے، مرد میدان وہی ہے جو ہر وقت جنگ کے لئے آمادہ اور اسلحے سے لیس ہو. لڑائی سے پہلے تلوار کے زخم سے نہ ڈرے اور جو شخص مناسب وقت اور موقع آنے اور اپنی قوت و طاقت کو سمجھنے سے پہلے ہی میدان جنگ میں کود پڑے وہ اپنے مورچہ کو فائدہ نہیں پہونچاسکتا. بلکہ اس نے اپنے کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو اپنی لازوال قدرت و طاقت کے سہارے فتح مند لوٹائے۔

٦۔ امام (علیه السلام) کا کلام حضرت ابو ذر غفاری سے

جب خلیفہ  سوم کے حکم سے حضرت ابوذ ر ÷ کو ''ربذہ''کے لئے شہر بدر کیا جانے لگا تو فرمایا!

    اے عم محترم! آپ جن حالات سے گذر رہے ہیں، خداوند عالم یقینا ان کو بدلنے پر قادر ہے خدا کی قسم (کُلَّ یَومٍ ہُوَ فِی شَأن) [سورہئ رحمن آیت٢٩]ہر دن اس کی عزت و جلالت کا دن ہے۔

    قوم نے اپنی دنیا کو آپ سے چھیں لی اور آپ نے اپنادین ان کے ہاتھ نہیں بیچا، آپ ان کی اس دنیا سے بے نیاز ہیں جو انہوں نے آپ سے چھینا ہے، لیکن وہ آپ کے اس دین اور طریقے کے بہت زیادہ محتاج ہیں جو آپ نے ان سے لے لیا ہے پس خدا سے صبر و نصرت کی دعا کیجئے، دنیا کی طلب اور اس کے لئے بے صبری پر خدا سے پناہ مانگئے، کیونکہ صبر دین وکرامت کا جزو ہے، دنیا کا حریص ہونا کسی کے رزق میں اضافہ نہیں کرتا اور (دنیا نہ ملنے پر) بے صبری موت کو ٹال نہیں سکتی۔

٧۔ امام (علیه السلام) کا کلام موت اور اس کی سختیوں سے متعلق

    اے لو گو! میںتمہیں تقوائے الٰہی کی و صیت کر تا ہو ںا و ر اس کے (جانکنی کے سخت) ایام سے ڈراتا ہو ں ، ان دنوں کی نشا نیا ں تم کو بتلائے دیتا ہوں، موت نے گویا ا پنی مہیب و خو فنا ک صو رت اور تلخ و ناگوار ذائقے کے ساتھ تمہا رے وجود میں پنجے گاڑ کر تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے، تمہارے اور تمہارے امور کے درمیان فاصلہ بن گئی ہے، پس عمر بھر تم جو اپنے جسموں کی صحت و سلامتی کی کوشش میں لگے رہے میں دیکھ رہا ہوں، اچانک ہی موت کا شکار ہوجاتے ہو، وہ تمہیں روئے زمین سے اٹھا کر اپنی آغوش میں کھینچ رہی اور زیرو زبر کر رہی ہے، موت تمہیں انس و محبت کی دنیا سے خوف و وحشت کی طرف، امن و روشنی سے تاریکی کی طرف اور وسعت و کشادگی سے تنگی کی طرف لے جارہی ہے، (قبر) وہ جگہ ہوگی جہاں نہ کوئی دوست اور ملاقات کرنے والا ہوگا ، نہ کوئی تیماردار اور مریض کی عیادت کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی فریادرس کسی کی فریاد رسی کو پہنچے گا. خداوند عالم اس دن کے مشکل حالات میں میری اور تمہاری مدد کرے ، اس کے عذاب سے نجات دے اور ثواب کی بے شمار نعمت سے مجھ کو اور تم کو نوازے، اے خدا کے بندو ! اگر(موت) یہی قلیل مدت ہماری راہ میں ہوتی تو مناسب تھا کہ ہمیشہ انسان اس کی فکر میں رہتا، دنیا کو بھول جاتا اور کوشش کرتا کہ اس خطرناک حالت سے بچ جائے جبکہ مرنے کے بعدبھی انسان اپنے اعمال کے گھیرے میں ہوگا، اسے اس کے اعمال کی جوابدہی کے لئے مقام حساب میں روکا جائے گا، حالت یہ ہوگی کہ نہ کوئی ایسا دوست ہوگا جو اس کی مدد کر سکے اور نہ کوئی ایسا پشت پناہ ہوگا جو حساب و کتاب (کی سختی کو اس سے) روک سکے، (وَ یَومَئِذٍ لاَیَنفَعُ نَفساً اِیمَانُھَا لَم تَکُن آمَنَت مِن قَبل اَو کَسَبَت فِی اِیمَانِھَا خَیراً قُلِ انتَظِرُوا اِنَّا مُنتَظِرُون) [سورہئ انعام آیت ١٥٩]اس دن، جو شخص پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے ایمان لانے کے بعد کوئی بھلائی نہ کی ہو، اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، (اے رسول !) کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی اس دن کا انتظار کرو اور میں بھی انتظار کر رہا ہوں۔

    اے لوگو! میں تمہیں تقوائے الہٰی کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا خدا نے ضمانت لی ہے کہ اس کی نا پسندیدہ شئے کو پسندیدہ اور عزیز شئے سے بدل دے گا (وَ یَرزُقہُ مِن حَیثُ َلایَحتَسِب)[ سورہئ طلاق آیت ٣]اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عنایت کرے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو۔ پس خبردار ہوجاؤ ! ان میں سے نہ ہو جانا جو لوگوں کے لئے ان کے گناہوں کی طرف سے ڈرتے ہیں اور خود اپنے گناہ کے عذاب سے غافل ہیں کیوں کہ (تم) خدا کو دھوکہ دیکر اس کی جنت نہیں لے سکتے اور اس کی اطاعت و بندگی کے بغیر کوئی اس کی مخصوص نعمتوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔ انشاء اللہ۔

٨۔ امام (علیه السلام) کے کلام میں زہد (علیه السلام)دنیا کی پونجی

        اے آدم کے بیٹو! کبھی اپنے آپ سے پوچھو اور بتاؤ: دنیا کے تمام بادشاہ اور امراء کہاں گئے؟ جنہوں نے دنیائے خرابات کو آباد کیا، نہریں جاری کیں، درخت لگائے، عالیشان شہر بسائے اور دنیا کو (اس حالت میں) چھوڑ کر چلے گئے کہ انہیں (یہاں سے جانا) بہت ناگوار تھا، ان کے بعد دوسرے لوگ ان چیزوں کے وارث بن گئے اور ہم بھی چند دنوں بعد ان سے ملحق ہو جائیں گے۔

    اے آدم کے فرزندو! اپنی جانکنی کے عالم اور قبر کی حالت کو یاد کرو اور اس دن کو یاد کرو جب خدا کے سامنے کھڑے کئے جاؤ گے اور تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے خلاف گواہی دیں گے، تمہارے قدم لڑکھڑا رہے ہوں گے، دل اچھل کر حلق تک پہونچ جائیں گے اور چہرے سفید پڑ جائیں گے، اسرار ظاہر ہو جائیں گے اور انصاف کی میزان قائم ہوگی۔

    اے آدم کے بیٹو! اپنے باپ داداؤںاور بیٹوں، پوتوں کی جانکنی کے عالم کو یاد کرو وہ کہاں تھے اور اب کہاں ہیں؟ گویا تم بھی ان سے ملحق ہو کر بہت جلد عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے سامان عبرت بن جاؤ گے۔

    پھر آپ نے یہ اشعارپڑھے:

کہاں ہیں وہ سلاطین جو اپنے کو موت سے نہ بچا سکے

                یہاں تک کہ ساقیئ مرگ نے انہیں جام اجل سے سیراب کیا

وہ تمام شہر دنیا کے آفاق میں خالی رہ گئے

                آبادی کے بعد دوبارہ ویران ہوگئے

اور ان کے معماروں نے موت کا مزہ چکھا

                ہم اپنے مال و اسباب اپنے ورثہ کے لئے جمع کرتے ہیں

    اور اپنے گھر یہ جان بوجھ کر بناتے ہیں کہ زمانہ

                 ایک نہ ایک دن ان کو خراب کر دے گا۔

٩۔ امام (علیه السلام) کے خطبہ میں اہل بیت(علیهم السلام)کے فضائل و مناقب اور ان کی اطاعت کا واجب ہونا

    سید الشہداء (علیه السلام) نے خدا کی حمد و ثنا سے خطبہ شروع کیا اور پھر پیغمبر اکرم(ص)پر درود سلام بھیجا:

    اسی اثناء میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا: یہ کون ہے جو خطبہ دے رہا ہے؟

    حضرت نے فرمایا: ہم خدا کے غالب آجانے والے گروہ میں ہیں ،رسول خدا(ص)کی عترت اور ان کے قریبی ترین رشتہ دار اور ان کے اہل بیت طاہرین میں ہیں، ہم ہی ثقلین میں سے ایک ہیں جسے رسول اللہ(ص)نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ثانی قرار دیا ہے، وہ کتاب جس میں ہر شئے کی تفصیل موجود ہے، (لایَأتِیہِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیہِ وَ لا مِن خَلفِہ)[ سورہئ فصلت آیت ٤٢] اس میں باطل کا گذر نہیں ،اس کی تفسیر ہمارے ذمہ ہے ہم اس کی تاویل سے نہیں تھکتے بلکہ ہمیشہ اس کے حقائق کا اتباع کرتے ہیںلہٰذا تم ہماری اطاعت کرو کیونکہ ہماری اطاعت فرض ہے اور ہماری اطاعت خدا و رسولؐ کی اطاعت سے ملی ہوئی ہے۔

    جہاں خدا نے فرمایا ہے: (اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُو االرَّسُولَ) [ سورہئ نساء آیت ٥٩]ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور فرمایا ہے:(وَ لَو رُدُّوہُ اِلٰی الرَّسُولِ وَ اِلٰی اُولِی الأَمرِ مِنھُم لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَستَنبِطُونَہُ مِنھُم وَ لَولاَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیکُم وَ رَحمَتُہُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّیطَانَ اِلَّا قَلِیلاً) [سورہئ نساء آیت ٨٣]اور اگرر سول اور صاحبان امر کی طرف (اپنے امور) پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم حاصل کر لیتے اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب کے سب شیطان کے مطیع بن جاتے۔

    اور میں تمہیں ڈراتا ہوں کہ شیطانی صداؤں پر کان نہ دھرو کیوں کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اگر تم نے اس کی آواز پر لبیک کہی تو اس کے ان دوستوں میں ہو جاؤ گے جن سے شیطان نے جنگ بدر میں کہا تھا (لاَغَالِبَ لَکُمُ الیَومَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّی جَارٌ لَکُم فَلَمَّا تَرَآئَتِ الفِئَتَانِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیہِ وَ قَالَ اِنِّی بَرِیءُ مِنکُم)[سورہئ انفال آیت ٤٨]آج تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہارا مددگار و پشت پناہ ہوں، اس کے بعد جب دونوں گروہ (مسلمین و کفار) آمنے سامنے آئے تو الٹے پاؤں بھاگ نکلا اور کہا کہ میں تم لوگوں سے بری ہوں۔

    لہٰذا اگر تم بھی اس کی آواز پر لبیک کہو گے تو تلواروں کا لقمہ بن جاؤ گے اور نیزے اور آہنی اسلحے تمہارے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے اور تم تیروں سے چھلنی کردئے جاؤ گے اور اس وقت (لَم تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَو کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِہَا خَیْراً) [سورہئ انعام، آیت ١٥٨]جو پہلے مومن نہیں تھا یا حالت ایمان میں کوئی نیکی نہیں کر پایا تھا اس کا ایمان و اسلام قبول نہیں کیا جائے گا۔

١٠۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ حضرت علی (علیه السلام) شہر ہدایت ہیں

    حضرت نے خدا کی حمد و ثنا اور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص)پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اکرم(ص)کو فرماتے ہوئے سنا ہے! بیشک علی (علیه السلام)ہدایت کا شہر ہیں جو اس میں داخل ہوگا نجات پائے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ہلاک ہو جائے گا۔

١١۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ معاویہ کے ذریعے بیعت یزید کے اہتمام پر

    حضرت نے خدا کی حمد و ثنا اور رسول اکرم(ص)پر درود و سلام کے بعد فرمایا:

    اے معاویہ! رسول ؐکے اوصاف بیان کرنے والا چاہے جتنی تفصیل سے ان کی خوبیاں بیان کرے ان کے صفات کا ایک جزو بھی نہیں بیان کرسکتا، مجھے معلوم ہے کہ تم نے پیغمبر(ص)کے بعد کیا کیا گل کھلائے ہیں اور کس طرح صفات پیغمبر(ص)کو گھٹایا اور لوگوں کے درمیان آنحضرت کی مدح و ثنا کرنے میں کوتاہی کی ہے، تف ہے تف اے معاویہ! یاد رکھو! نور صبح نے رات کی تاریکی و سیاہی کو ہمیشہ رسوا کیا ہے اور خورشید عالمتاب معمولی چراغوں کی روشنی پر غالب آیا ہے، تم نے اپنے آپ کو دوسروں پر فضیلت دی یہاں تک کہ حد سے گذر گئے، اس قدر بیت المال میں تصرف کیا کہ لوٹنا شروع کردیا، دوسروں کے حقوق پر پابندی لگائی یہاں تک کہ لوگ برا بھلا کہنے لگے اور حد سے گذر گئے، حقدار کو اس کا حق نہیں دیا، یہاں تک کہ شیطان نے اپنا بہت زیادہ حصہ نصیب بھر جمع کرلیا، اور مجھے معلوم ہے کہ تم نے امت محمدیؐ کے لئے یزید کو ایک سیاستداں اور باکمال انسان کی حیثیت سے کیوں پہچنوایا ہے؟ تم چاہتے ہوکہ لوگ یزید کو اسی طرح کا گمان کرلیں جیسے تم کسی ایسے شخص کی تعریف کر رہے ہو جو لوگوں سے چھپا رہا ہے یا تم کسی ایسے کے بارے میں خبر دے رہے ہو جس کو تم نے اپنے مخصوص علم سے ڈھونڈا ہو، حالانکہ یزید فیصلوں میں خواہشات کا پابند ہے تم یزید کے بارے میں وہی سوچو جو خود اس نے اپنے لئے سو چا ہے وہ ہمیشہ شکاری کتوں کی لڑائی کے مقابلہ، نر و مادہ کبوتروں کے ساتھ کبوتر بازی اور ناچنے گانے والیوں کے تماشے دیکھنے کا شوقین اور آلات لہو و لعب کا دلدادہ رہا ہے وہ تم کو ان امور میں ماہر نظر آئے گا۔

    اور تم جس چیز کے پیچھے پڑے ہو اس کو (یعنی یزید کے لئے بیعت لینا) چھوڑ دو کیا تمہارے لئے خدا سے اس حالت میں ملاقات کرنا کہ تم مخلوق خدا کے اس قدر حقوق اپنی گردن پر لئے ہوئے ہو کافی نہیں ہے؟ خدا کی قسم تم نے ہمیشہ ظلم و ستم روا رکھا یہاں تک کہ اس کا پیمانہ لبریز ہوگیا، حالانکہ تمہارے اور موت کے درمیان پلک جھپکنے تک کا فاصلہ نہیں رہ گیا ہے، پس تم اپنے جمع کردہ عمل کے ساتھ روز ملاقات خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگے (وَ لاَتَ حِینَ مَنَاصٍ)[سورہئ ص آیت ٣] اس وقت چھٹکارا ممکن نہ ہوگا مجھے معلوم ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا ،ہم کو ہماری میراث اور حق سے محروم رکھا جب کہ خدا کی قسم پیغمبر(ص)نے روز پیدائش سے ہی ہم کو اس کا وارث بنا دیا تھا ،رسول(ص)کی وفات کے بعد سقیفہ میں لوگوں نے (اپنی خلافت کے لئے) جو استدلال کیا تھا تم بھی (اپنی خلافت کے لئے) بعینہ وہی استدلال پیش کر رہے ہو.ابوبکر نے (اپنی خلافت کے لئے) ان دلائل کو قبول کر لیا اور اسی پر فیصلہ دیدیا نتیجہ میں تم نے علتوں کی توجیہ کی اور جو تم نے چاہا کیا، تم لوگوں نے شریعت کے مقابلے میں اپنی چلائی یہاں تک کہ زمام حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی البتہ ایسے راستے سے جس کا حقدار تمہارے علاوہ کوئی اور تھا، (فَاعتَبِرُوا یَا اُولِی الأَبصَار) [سورہئ حشر آیت٢] اے صاحبانِ نظر عبرت حاصل کرو اور تم نے جو ذکر کیا ہے کہ وہ (ابوبکر) حضرت رسول اکرم(ص)کے زمانے میں آنحضرت کی طرف سے منتخب ہوا تھا تو(بقول تمہارے) ایسا تھا بھی اور ان دنوں پیغمبر کے ساتھ رہنے اور ان کی بیعت کی وجہ سے عمرو عاص کی فضیلت تھی لیکن اس کے باوجود لوگوں نے اس کو اپنا امیر قبول نہ کیا اور اس کے ناجائز کاموں پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگے، اس وقت پیغمبر(ص)نے فرمایا: اے گروہ مہاجرین ''آج کے بعد تمہارے اوپر میرے علاوہ کوئی حکومت نہیں کرے گا'' تو تم کس طرح پیغمبر(ص)کے منسوخ کردہ عمل سے سخت حالات میں استدلال کرتے ہو اور اس کی ہمراہی و مصاحبت کو قبول کرتے ہو جو کسی لحاظ سے قابل اعتماد نہیں؟اور تمہارے حواشی ایسے ہیں جن کی ہمنشینی میں امن و اطمینان نہیں اور نہ ہی ان کے دین اور قریبی لوگوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہےتم لوگوں کو دیوانے اور بہروپئے شخص کی طرف ڈھکیل رہے ہو تاکہ یزید اپنی دنیا میں گلچھرے اڑائے اور تم اپنی آخرت کو تباہ و برباد کردو، بے شک یہ وہی کھلم کھلا نقصان ہے، میں اپنے اور تمہارے لئے خدا سے طلب مغفرت کرتا ہوں۔

١٢۔ امام (علیه السلام) کے کلام میں معاویہ کے کرتوتوں پر تنبیہ

        جب حجر بن عدی اور ان کے ساتھی شہید کر دیئے گئے تو معاویہ نے حضرت سے کہا کیا آپ کو خبر ہوئی کہ ہم نے حجر بن عدی، ان کے ساتھیوں اور آپ کے والد کے شیعوں کے ساتھ کیا کیا؟ تو حضرت نے فرمایا: نہیں، معاویہ نے کہا ہم نے ان کو قتل کیا، اور کفن پہنا کر ان پر نماز پڑھ دی، امام مسکرائے اور فرمایا:

    یہی لوگ روز قیامت تمہارے حریف ہوں گے، خدا کی قسم اگر ہم کو تمہارے پیرووں پر غلبہ ملے تو نہ ہم ان کو کفن پہنائیں گے اور نہ ان کے جنازوںپر نماز پڑھےں گے!! میں نے سنا ہے کہ تم میرے پدر بزرگوار کو برا بھلا کہتے اور بنی ہاشم کی عیب جوئی کرتے ہو؟ خدا کی قسم تم دوسرے کی کمان سے تیر چلا رہے ہو اور بلا مقصد نشانے لگا رہے ہو، یہ دشمنی تم نے اپنے قریبی لوگوں سے سیکھی ہے اور ایک ایسے شخص (عمرو بن عاص) کی اطاعت کر رہے ہو جو نہ پہلے کبھی ایمان لایا تھا اور نہ ہی اس کا نفاق نیا ہے وہ تمہارے فائدہ میں کبھی مشورہ نہیں دے گا، تم خود اپنی فکر کرو اور اگر تمہیں اپنی فکر نہیں تو حکومت سے دستبردار ہو جاؤ۔

١٣۔امام (علیه السلام) کا کلام اپنے اصحاب کے درمیان معرفت خدا کا بیان

    اے لوگو! بیشک اللہ نے، جس کا ذکر ہے اپنے بندوں کو صرف اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے لہٰذا جب بندوں نے اس کی معرفت حاصل کرلی تو اس کی عبادت کی اور جب اس کی عبادت کرنے لگے تو غیر خدا کی پرستش و بندگی سے بے نیاز ہوگئے ۔

    ایک شخص نے آپ سے عرض کی: فرزند رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں خدا کی معرفت کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کی معرفت(کا معیار) ان کے امام و رہبر کی شناخت ہے، جن کی اطاعت ان پر واجب کی گئی ہے۔

١٤۔ امام (علیه السلام) کے کلام مسجد النبی(ص)میں عائشہ سے خطاب

    جب امام حسن مجتبیٰ (علیه السلام) شہید ہوگئے اور آپ کا تابوت مصلائے رسول(ص)کے پاس لایا گیا، نماز جنازہ پڑھی گئی اور تابوت کو اٹھا کر مسجد میں لائے . رسول اللہ(ص)کی قبر کے پاس جنازہ رکھا گیا تو عائشہ کو خبر ہوئی ان سے کہا گیا کہ بنی ہاشم حسن بن علی+ کے جنازے کو لائے ہیں کہ رسول اللہ(ص)کے پہلو میں دفن کریں .یہ سنتے ہی فوراً عائشہ ایک خچر پر سوار ہو کر گھر سے باہر نکل آئیں، اسلام میں یہ پہلی خاتون ہیں جو زین دار خچر پر سوار ہوئی ہیں (اور کسی کجاوے اور پردے کے بغیر کھلے عام) بنی ہاشم کے مقابل آکر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ اپنے بیٹے کو میرے گھر سے نکال لے جاؤ ! میں اپنے گھر میں کسی کو دفن نہیں ہونے دوں گی تاکہ پیغمبر اسلام(ص)کی حرمت اور حجاب پارہ نہ ہو، تو امام حسین (علیه السلام) نے عائشہ سے کہا:

    اس سے پہلے آپ اور آپ کے باپ رسول اللہ(ص)کی حرمت کو پامال کر چکے ہیں اور آپ نے ایسے شخص کو خانہئ پیغمبر(ص)میں داخل کیا ہے جس کی ہم نشینی و ہمسائےگی پیغمبر(ص)کو ناپسند تھی. اے عائشہ! آپ کو اس عمل کے سلسلے میں خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کے باپ رسول اللہؐ کے پہلو میں دفن کروں تاکہ وہ ان سے تجدید عہد کریں، اور جان لیجئے کہ میرے بھائی ،خدا، اس کے رسول اور قرآن کی تاویل کے بارے میں سب سے بڑے عالم تھے، وہ اس سے یہ بالاتر ہیں کہ حرمت رسول(ص)کو پامال کریں، کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے:

    (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاتَدخُلُو بُیُوتَ النَّبِی اِلَّا اَن یُؤذَنَ لَکُم)[سورہئ احزاب آیت ٥٣]اے ایمان والو خبردار پیغمبر(ص)کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے۔

   جب کہ آپ نے بیگانوں کو بغیر اجازت کے پیغمبر(ص)کے گھر میں داخل کردیا اور خدا فرماتا ہے(یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَرفَعُوا أَصوَاتَکُم فَوقَ صَوتِ النَّبِی) [سورہئ حجرات آیت٢] اے ایمان والو! خبر دار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرناحالانکہ میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں آپ نے اپنے باپ اور عمر کو دفن کرنے کے لئے پیغمبر(ص)کے کان میں پھاوڑے چلائے اورجبکہ خداوند عالم فرماتا ہے:

    (اِنَّ الَّذِینَ یَغُضُونَ أَصوَاتَہُم عِندَ رَسُولِ اللّٰہِ أُولٰئِکَ الَّذِینَ امتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم لِلتَقوی) [سورہئ حجرات آیت ٣] بیشک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آواز کو نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے. اپنی جان کی قسم آپ نے اپنے باپ اور عمر کو پیغمبر(ص)کے گھر میں داخل کیا اور ان دونوں کو آنحضرت ؐکے نزدیک دفن کر کے حضور کا دل دکھایا، کیوں کہ ان دونوں نے پیغمبر(ص)کے حق کا پاس و لحاظ نہیں کیا تھا اور خدا نے زبان پیغمبر(ص)کے ذریعے جن حقوق کی ادائےگی کا حکم دیا تھا، ان دونوں نے ان حقوق کا خیال نہیں کیا تھا، یاد رکھئے جس طرح خداوند عالم، رسول(ص)کی زندگی میں ان کی عزت و حرمت کا قائل ہے اسی طرح موت کے بعد بھی، خدا کی قسم اے عائشہ ! (اگر میرے بھائی نے مجھے وصیت نہ کی ہوتی کہ میری شہادت کے بعد اگر لوگ مجھے دفن ہونے سے روکیں اور جنگ و جدال کی نوبت آجائے تو میں نہیں چاہتا کہ میرے دفن کی خاطر جنگ ہو) آپ کے سامنے یہیںاپنے بھائی کی لاش دفن کرتے، چاہے آپ کو ناک رگڑنی پڑتی (اور دشمنی کا مزہ چکھاتے)۔

    پھر محمد بن حنفیہ بولے: اے عائشہ ! نبی ہاشم سے دشمنی کی بنا پرآپ کبھی خچر پر سوار ہوتی ہیں اور کبھی اونٹ پر. آپ نہ تو اپنے کو قابو میں رکھ پاتیں نہ ایک جگہ سکون سے بیٹھتیں۔

    عائشہ نے کہا: اے محمد بن حنفیہ! یہ تو فرزندان فاطمہ ہیں، تم بیچ میں کیوں بول رہے ہو؟ اس وقت امام حسین (علیه السلام) نے عائشہ سے فرمایا:

    آپ محمد بن حنفیہ کو کیسے فاطمیوں سے جدا کرسکتی ہیں؟ جب کہ خدا کی قسم وہ تین فاطمہ کے فرزند ہیں (١) فاطمہ بنت عمران بن عائذ بن عمروبن مخزوم (٢) فاطمہ بنت اسد بن ہاشم اور (٣)فاطمہ بنت زائدہ ابن اصم بن رواحہ بن حجر بن عبد معیص بن عامر۔

١٥۔ امام (علیه السلام) کا کلام اپنے برادر بزرگوار حضرت امام حسن مجتبیٰ (علیه السلام) کی مصیبت میں

    اے ابو محمد (امام حسن مجتبیٰ) آپ پر خدا کا درود و سلام ہو، آپ ہمیشہ حق کو اس کی حقیقی صورت میں پہچانتے تھے، مقامات تقیہ کو اچھی طرح پہچان کر ان کے ذریعہ باطل سے نبرد آزما ہوتے تھے، بڑے سے بڑے دنیوی معاملات آپ کی نگاہ میں پست اور حقیر تھے، پاک و پاکیزہ ہاتھوں اور طیب و طاہر روح کے ذریعے مشکلات کی گرہیں کھولتے تھے اور نہایت آسان طریقے سے دشمنوں کے مکر و فریب کے پردوں کو چاک کر دیتے تھے، اس میں کوئے تعجب نہیں، کیونکہ آپ پیغمبر اکرم(ص)کے چشم و چراغ اور سینہئ حکمت و معرفت سے دودھ پینے والے ہیں، اے میرے عظیم بھائی آپ کو خدا کی رحمتوں اور نعمتوں سے بھری جنت میں جانا مبارک ہو۔

    خداوند عالم ہمیں اور آپ کو اس عظیم مصیبت پر صبر عطا کرے ،تسلیئ خاطر و سکون عنایت فرمائے اور ہمیں اس کی پیروی کرنے اور اس کو نمونہئ عمل بنانے کی توفیق دے۔

١٦۔ امام (علیه السلام) کا کلام مروان کی مذمت میں

جب مروان نے حضرت سے کہا: اگر آپ کے پاس حضرت فاطمہ = نہ ہوتیں تو آپ کس کے بل بوتے پر ہمارے مقابلے میں فخر و مباہات کرتے؟ حضرت نے اپنی جگہ سے ایک جست لگائی اس کی گردن کو اپنے مضبوط پنجہ میں پکڑ کر دبایا اس کے عمامہ کو اس کے سر سے اتار کر اس کی گردن میں ایسا لپیٹا کہ اس کے ہوش اڑ گئے. اس کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ کر وہاں کھڑی قریش کی ایک جماعت کی طرف مخاطب ہو کے فرمایا:

    میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کرنا کیا تم کسی اور کو جانتے ہو جو روئے زمین پر رسول خدا(ص)کو مجھ سے اور میرے بھائی سے زیادہ پیارا ہو؟ اور کیا پوری دنیا میں میرے اور میرے بھائی کے علاوہ دختر پیغمبر(ص)کا فرزند کوئی اور ہے؟ سب نے ایک زبان ہوکر کہا: بخدا نہیں۔

     حضرت ؑنے فرمایا: اور میںروئے زمین پر اس (مروان) کے اور اس کے باپ کے علاوہ کسی کو ملعون بن معلون نہیں جانتا، یہ دونوں باپ بیٹے بارگاہ رسالت سے نکالے ہوئے ہیں، پھر آپ مروان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: خدا کی قسم دو شہروں (جابرس و جابلق جن میں ایک مشرق میں ہے اور ایک مغرب میں ہے) کے درمیان تم ہی دو آدمی ہو جو خود کو اسلام کا پیرو بتاتے ہو مگر خدا و رسول(ص)اور اہل بیت(علیهم السلام)کا دشمن اگر کوئی ہے تو وہ تم ہو اور تمہارا باپ ہے اور میری بات کی سچائی کی دلیل یہ ہے کہ:     جب بھی تو غصہ میں آئے گا تیری ردا تیرے دوش سے گر جائے گی۔

    راوی کہتا ہے۔ خدا کی قسم! اسی نشست میں مروان کو غصہ آیا چنانچہ وہ اپنی جگہ سے ابھی اٹھا ہی تھا کہ اس کے کاندھے سے ردا گر پڑی

١٧ ۔ امام (علیه السلام) کی دعا ''قنوت'' میں

    خدایا! ہر کسی کو پناہ گاہ کی تلاش ہے اور میری پناہ گاہ تو ہے، ہر شخص مددگار کی تلاش میں ہے اور میرا مددگار تو ہے، اے خدا محمد و آل محمد(علیهم السلام)پر درود بھیج، میری فریاد سن، میری دعا کو قبولیت کا درجہ عطا فرما، اور میری بازگشت اور میرا ٹھکانہ اپنے پاس قرار دے ،پالنے والے تو اپنی اس عظمت کے واسطے سے جس میں نفسانی خواہشات اور فتنوں کا گذر نہیں ہوتا ، وہم و گمان کی اس میں مداخلت نہیں ہوتی. کوئی تدبیر اس کو بدل نہیں سکتی، مجھے آزمائش و امتحان (کے مراحل) میں کامیاب کر اور شیطان کے شر سے محفوظ فرما، یہاں تک کہ مجھے اپنی طرف اس حالت میں واپس بلا کہ میرے اندر کوئی شک و شبہ نہ پایا جائے کیوں کہ تو ارحم الراحمین ہے۔

١٨۔ امام (علیه السلام) کی دعا میں حفظ و امان کی خواہش

    اے وہ خدا جس کی شان تمام امور کے لئے کافی اورجس کا سایہئ رحمت رعیت پرور ہے ،اے ابتدا ! اے انتہا! اے اذیت و آزار اور گمراہی کا رخ موڑنے والے! تجھے ان نوارنی صورتوں، سریانی ناموں، یونانی قلموں اور عبرانی کلمات کا واسطہ جو واضح علم و یقین کے ساتھ نازل ہوئے، کائنات کے تمام جن و انس کے شر و آفات کو ہم سے دور فرما۔

    خدا یا مجھے اپنے گروہ ،اپنی پناہ، اپنے محکم قلعے ،اپنے مضبوط پردوں اور اپنی حفظ و امان میں رکھ، اور مجھے ہر سرکش شیطان، کمین لگائے ہوئے دشمن، کمینے شخص، ناشکرے مخالف اور حسد کرنے والے انسان کے شر سے محفوظ رکھ، میں خدا کے نام سے شفا کا طلبگار ہوں اور اسی کے نام کے ذریعے ہر ایک سے بے نیازی چاہتا ہوں، اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اور ہر ظالم کے ظلم، غاصب کے غصب، چور کی چوری اور ہر ڈرانے دھمکانے والے کے خوف سے بارگاہ الہٰی میں مدد کا طلبگار ہوں (فَاللّٰہُ خَیرُ حَافِظاً وَّ ھُوَ أرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)[سورہئ یوسف آیت٦٤] کیونکہ خدا سب سے اچھا محافظ اور تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والہے۔

١٩۔ امام (علیه السلام) کی دعا حق تعالیٰ سے پناہ طلب کرنا

    اے خدا ! ابتدا تجھ سے ہے قضا و قدر بھی تیری ہے، اور طاقت و قدرت کا راز بھی تیری ہی ذات پاک میں مضمر ہے،تو ہی ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، تونے اپنے اولیاء کے دلوں کو اپنی مشیت کا مرکز، اپنے ارادے کا مسکن اور ان کی عقلوں کو اپنے اوامر و نواہی کا محور قرار دیا ہے، لہٰذا تو جب چاہے اپنی مرضی سے ان کے باطنی اسرار کو حرکت میں لاکر ساری دنیا پر ظاہر کردے، اور جو کچھ ان کو سمجھا بجھا کر تونے انھیں سونپ رکھا ہے اسے اپنے ارادے سے ان کی زبانوں پر جاری کر دے، ایسی عقلوں کے ذریعے جو صرف تجھے پکارتی ہیں اور تیرے عطا کردہ حقائق کے ساتھ تیری طرف بلاتی ہیں اور تیری تعلیم کردہ اور دکھائی ہوئی راہ سے میں واقف ہوں اور مجھ پر اس کا شکر لازم ہے کہ تو نے اس راہ کو مجھے دکھایاہے اور مجھے اس راہ میں پناہ دی ہے۔

    خدایا ! ان تمام اوصاف کے باوجود میں تیری جناب میں پناہ لیتا ہوں، اور تیری قوت و طاقت کا سہارا چاہتا ہوں، تیرے اس حکم پر راضی ہوں جسے تونے میرے لئے اپنے علم کے مطابق جاری کیا ہے، تو میرے لئے جس راستے کو معین کرے گا میں اس پر چلوں گا اور میرے لئے جس چیز کا قصد کرے گا میں بھی اس کا پابند رہوں گا اپنی طرف سے بغیر کسی بخل کے جس چیز سے تو راضی رہے گا میں بھی راضی برضا رہوں گا اور جس چیز کی طرف تو بلائے گا (اس تک پہنچنے میں) کوتاہی نہیں کروں گا، تو جس چیز کی نشاندہی کرے گا اس کی جانب تیزی سے بڑھوں گا میں تیرے قانون کا پابند رہوں گا اور جس چیز کی تو مجھے بصیرت عطا کرے گا اس میں صاحب بصیرت رہوں گا. اور جس چےز کی رعایت کا تو حکم دے گا اس کی رعایت کو میں اپنا فریضہ سمجھوں گا. پالنے والے! تو مجھے اپنی نوازش و عنایت سے محروم نہ کر، اپنی بارگاہ سے باہر نہ نکال، اپنی قدرت سے مجھے پیچھے نہ ڈھکیل اور جس راہ سے میں تیرے ارادہ کو حاصل کرسکوں، اس سے دور نہ کر، میری ترقی و کمال کو بصیرت، میری حجت و دلیل کوہدایت، اور میری راہ و روش کونیکیوں کے راستے پر لگا دے. یہاں تک کہ مجھے میری آرزوتک پہنچا دے اور مجھے اس جگہ رکھ جس کا تونے میرے لئے ارادہ کیا ہے اور جس جگہ کے لئے تونے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی خاطر تونے مجھے پناہ دی ہے۔

    اے خدا ! اپنے ولیوں کو میرے ذریعے امتحان میں مبتلا نہ کر، ان کو اپنی رحمت کے سائے میں اس طرح آزما تا کہ وہ آزمائش ان کے برگزیدہ ہونے کا سبب بنے اور ان کو میرا راستہ ہموار کرنے میںاور میری ہمراہی کرنے میں اخلاص عطا کر (وَ اَلحِقنِی بِالصَّالِحِینَ) [سورہئ یوسف آیت١٠١] اور مجھ کو میرے نیکوکار آباء و اجداد اور قرابت داروں کے ساتھ محشور فرما۔

٢٠۔ امام (علیه السلام) کی دعا بارش کے لئے

    اے خدا ! ہم کو اپنی اس بارش رحمت سے سیراب کر جو راحت جاں ، سکون بخش ، بے ضرر اور مفید عام ہو، ایسی بارش جس سے تو ہمارے شہروں اور دیہاتوں کو سیرات کردے. ہماری روزی میں اضافہ کر اور ہمیں زیادہ شکر کی توفیق دے۔

    اے خدا ! اس بارش کو ایمان کی بخشش اور ایمان کی عطا بنا دے، کیونکہ تیری عطا لامحدودہے۔

    اے خدا ! ہماری زمینوں پر بارش کردے ، اس میں فصلیں اور باغات اور چراگاہیں تیار کردے۔

٢١۔ امام (علیه السلام) کی دعا ہدایت و توفیق کی خواہش

    بار الہا ! تجھ سے اہل ہدایت جیسی توفیق، صاحبان تقویٰ جیسے اعمال، توبہ کرنے والوں جیسی نصیحت، صبر کرنے والوں جیسا عزم، خوف خدا رکھنے والوں جیسا گناہوں سے اجتناب، اہل علم جیسی طلب، پرہیزگاروں جیسی زینت اور گریہ کرنے والوں جیسی خود داری کا سوال کرتا ہوں، تاکہ ان کے ذریعے میرے دل میں تیرا خوف پیدا ہو۔

    اے خدا ! مجھ کو ایسا خوف عطا کر جو مجھے تیری نافرمانیوں سے محفوظ رکھے، یہاں تک کہ تیری اطاعت میں ایساعمل انجام دوں کہ تیری کرامت کا مستحق بن جاؤں، اور قوت و طاقت کے وقت تیرے خوف کی بنا پر تجھ کو پیش نظر رکھوں اور تیری محبت میں وعظ و نصیحت کرنے میں خالص رہوں. اور تجھ پر حسن ظن رکھتے ہوئے ہر کام میں تجھ پر توکل کروں ،پاک و پاکیزہ ہے وہ نور کا خالق، بلند و بالا ہے وہ پروردگار جو عظیم ہے اور میں اس کی حمد و ثنا میں مشغول ہوں۔

٢٢ ۔ امام (علیه السلام) کی دعا عرفہ کے دن میدان عرفات میں

    تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا . اور اس کی عطا و بخشش کو کوئی روک نہیں سکتا ، اور کوئی بنانے والا اس جیسی چیزیں بنا نہیں سکتا ، وہ سخی ہے، وسعت عطا کرنے والا ہے اس نے عجیب و غریب مخلوقات کو پیدا کیا اور اپنی حکمت سے اپنی مصنوعات کو محکم کیا، ظاہر ہونے والی چیزیں اس سے مخفی نہیں رہتیں اور امانتیں اس کے پاس ضائع نہیں ہوتیں، وہ ہر عمل کرنے والے کو جزا دینے والا، ہر قناعت کرنے والے کو مستغنی بنانے والا، ہر نالہئ و فریاد کرنے والے پر رحم کرنے والا اور منفعتوں کی بارش کرنے والا ہے، جس نے روشن نور کے ساتھ جامع کتاب (قرآن) کو نازل کی ہے . دعاؤں کا سننے والا ہے،کرب و الم کو دور کرنے والا ہے . درجات کو بڑھانے والا اور ستمگروں اور ظالموں کا قلع قمع کرنے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور کوئی شی اس کا بدل نہیں ہوسکتی، (لَیسَ کَمِثلِہِ شَیئ وَ ھُوَ السَّمِیعُ البَصِیر، اللَّطِیفُ الخَبِیرُ، وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئ قَدِیر)[سورہئ شوری آیت ١١۔ سورہئ آل عمران آیت١٢٠] اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے، وہ ہر چیزسے باخبر ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

     اے خدا ! میں تیری طرف متوجہ ہوں اور تیرے معبود ہونے کی گواہی دیتا ہوں اس اعتراف کے ساتھ کہ تو ہی میرا پروردگار ہے اور میری بازگشت تیری ہی جانب ہے، تو نے مجھے اپنی نعمتوں سے اس وقت نوازا جب میرا نام و نشان تک نہ تھا، اس کے بعد تونے مجھے خاک سے پیدا کیا، پھر صلبوں میں اس طرح رکھا کہ حوادث روزگار اور زمانہ کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہ سکوں، میں گذشتہ صدیوں میں، ہر آنے والے دور میں ہمیشہ باپ کے صلب سے رحم مادر میں منتقل ہوتا رہا. اور چونکہ تیرا لطف و کرم اور احسان میرے شامل حال تھا لہٰذا تو نے مجھے ان کافروں کے دور حکومت میں دنیا میں نہیں بھیجا جنہوں نے تیرے احکام کی خلاف ورزی کی، تیرے عہد و پیمان کو توڑا اور تیرے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

     بلکہ تونے مجھے پہلے سے طے شدہ ہدایت کے زمانے میں پیدا کیااس دور میں جس میں میرے لئے آسانی تھی اس میںتونے مجھے وجود عطا کیا اس سابقہ مہربانی اور نوازش کی وجہ سے جو تیری جانب سے ہمیشہ مجھ پر رہی ہے۔

اور اس سے پہلے اپنی بہترین کاریگری اور بے انتہا نعمتوں سے مجھ پر مہربانی کی اور معمولی قطرے سے میری تخلیق کا آغاز کیا، اور مجھے تین طرح کی تاریکیوں؛ خون ،گوشت اور پوست کے درمیان ٹھہرایا، نہ مجھے خلقت کے راز سے آگاہ کیا اورنہ ہی میرے اپنے کسی امر کو مجھ پر چھوڑا، پھر میرے لئے پہلے سے طے شدہ زمانہئ ہدایت میں کمالِ صحت و سلامتی کے ساتھ دنیا میں بھیجا، جب میں محض بچہ تھا تو گہوارہ میں میری حفاظت کی اور دودھ جیسی مناسب غذا کا میرے لئے انتظام فرمایا، اور حفاظت کے جذبہ سے معمور دلوں (ماں باپ) کو میری طرف جھکا دیا، اور رحم کرنے والی ماؤوں کو میرا کفیل و مربی قرار دیا، مجھے جنوں کی شرارتوں سے محفوظ رکھا اور کمی و زیادتی سے بچائے رکھا، پس تو کس قدر بلند ہے.اے رحیم و رحمان! یہاں تک کہ میں بولنے کے لائق ہوگیا اور تو نے میرے اوپر نعمتوں کی بارش کردی اور ہر سال مجھے پہلے سے بڑا کرتا رہا، یہاں تک کہ جب میری فطرت و خلقت کامل ہوگئی اور میری طاقت میں اعتدال آگیاتب تونے اپنی حجت اس طرح میرے اوپر تمام کی کہ مجھ پر اپنی معرفت الہام کردی، اور اپنی حکمت کے عجائب سے مجھے مبہوت کر دیا، پھر زمین و آسمان میں اپنی خلقت کے کرشمے دکھا کر مجھے بیدار کیا، مجھے اپنے شکر کی ادائیگی اور ذکر کی انجام دہی کے طریقے سے آگاہ کیا، اپنی اطاعت و عبادت میرے اوپر لازم کردی اور جو کچھ تیرے رسول لائے تھے وہ سب تونے مجھے سمجھایا. اپنی رضاؤں کا قبول کرنا میرے لئے آسان کر دیا اور ان تمام مراحل میں اپنی مدد اوراپنے لطف و کرم سے مجھ پر احسان کیا، پھرجب تو نے مجھے بہترین مٹی سے پیدا کیا تو میرے حق میں کسی ایک نعمت پر اکتفا نہ کی بلکہ مجھے ہر طرح کی روزی اور ہر رنگ کے لباس سے نوازا (اور یہ سب کچھ) میرے اوپر تیرے قدیم اور عظیم احسان کی بنا پر ہے۔

یہاں تک کہ جب تونے اپنی ساری نعمتیں میرے اوپر تمام کر دیں اور ہر طرح کی عقوبت کو مجھ سے دور کردیا تب بھی میری نادانیوں اورجسارتوں نے تجھے نہیں روکا کہ تو میری ان چیزوں کی طرف راہنمائی نہ کرے جو مجھے تجھ سے قریب کرنے والی ہیں اور ایسے کاموں کی توفیق عطا کرے جو مجھے تجھ سے نزدیک کرتے ہیں پس میں جب بھی تجھے پکارتا ہوں تو جواب دیتا ہے اور جب بھی کچھ مانگتا ہوں عطا کرتا ہے ، جب تیری اطاعت کرتا ہوں تو تو مجھے سراہتا ہے اور جب بھی میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں توتو نعمت میں اضافہ کرتا ہے، یہ تمام چیزیں میرے اوپر تیری نعمتوں کے اکمال اور تیرے لطف و احسان کا نتیجہ ہیں۔

    پس تو پاک و پاکیزہ، آشکارا پیدا کرنے والا اور واپس بلانے والا ہے، لائق حمدہے اور بزرگ و برتر ہے، تیرے سب نام مقدس اور تیری تمام نعمتیں عظیم ہیں پس اے میرے خدا !تیری کن کن نعمتوں کو شمار کروں یا بیان کروں یا تیری کن کن عطاؤں اور بخششوں کا شکر ادا کروں. اے پالنے والے ! تیری نعمتیں اور عطائیں تو اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ شمار کرنے والے انھیں شمار کریں یا یاد رکھنے والے انھیں اپنے حافظے میں یاد رکھ سکیں اس کے علاوہ تو نے مجھ سے جو اَن دیکھے نقصانات دور کئے ہیں وہ اس عافیت و مسرت سے کہیں زیادہ ہیں، جو نمایاں طور پر تونے مجھے عطا کی ہے ۔

    اے خدا ! میں گواہی دیتا ہوں اپنے ایمان کی حقیقت کے ساتھ، اپنے عزم و یقین کی مضبوطی کے ساتھ، اپنے خالص و آشکار جذبہئ وحدانیت کے ساتھ، اپنے ضمیر کی پوشیدہ گہرائیوں سے، میری آنکھ تک روشنی پہونچانے والے راستوں کے سکوتوں کے ساتھ اپنی پیشانی کی لکیروں کے اسرار و رموز کے ساتھ، اپنی سانس کے راستوں کے منفذوں کے ساتھ، اپنی ناک کے نازک پردوں کے ساتھ، اور اپنے کان کی آواز کے زیروبم پہچاننے والی راہوں کے ساتھ، اور اس چیز کے ساتھ جو میرے ہونٹوں کو بند کرتی ہے، اور میری زبان سے لفظ پیدا کرنے والے حرکات کے ساتھ ، میرے دہن اور جبڑوں کے گردن میں محل اتصال کے ساتھ، دانتوںکے اگنے کی جگہوں کے ساتھ ، چکھنے اور کھانے پینے والی جگہوں کے ساتھ، مغز سر کی ہڈی کے ساتھ ،اپنی گردن کے اعصاب کی شہ رگوں کے ساتھ، ان تمام چیزوں کے ساتھ جو میرے سینے کے اندر موجود ہیں، اپنے قلب کی رگوں اور پردوں کے ساتھ، اپنے جگر کے اطراف کے ان ٹکڑوں کے ساتھ جن کے ساتھ جگر متصل ہے۔ پہلو کی ہڈیوں اور پسلیوں کے ساتھ اور جوڑوں کے بند کے ساتھ،اپنے بدن کے عضلات کے جوڑوں کے ساتھ،اپنی انگلیوں کی پوروں کے ساتھ، گوشت، خون، بال، کھال، اعصاب، ہڈیوں اور اپنے پورے اعضا اور جوارح کے ساتھ اور زمانہئ شیر خوارگی میں اپنی نشو و نما کے ساتھ ، زمین پراپنے پورے وجود کے ساتھ،اپنی نیند، اپنی بیداری، اپنے سکون و آرام اور اپنے رکوع و سجود کی حرکتوں کے ساتھ، تیری نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کا شکر ادا کرنے کی کوشش اور جد و جہد زمانے کی وسعتوں اور صدیوں تک کرتا رہوں، بشرطیکہ مجھے اتنی عمر دی جائے تب بھی تیری کسی ایک نعمت کا شکر ادا نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ تیری توفیق شامل حال ہو جو ہمیشہ نئے شکر اور نئی حمد و ثنا اور پائدار تعریف کی موجب ہے ، ہاں اگر میںیا تیری مخلوق میں کوئی شمار کرنے والا تیری گذشتہ و آئندہ نعمتوں کا شمار کرنا چاہے، تو نہ ان کی تعداد شمار کرسکتا ہے اور نہ وسعتوں کا اندازہ لگا سکتا، یہ کیسے ممکن ہے جب کہ تو نے اپنی کتاب ناطق (قرآن مجید) اور سچی آیت میںفرمایا ہے کہ:

(وَ اِن تَعُدُّوا نِعمَۃَ اللّٰہِ لاَ تُحصُوہَا) [سورہئ ابراہیم آیت ٣٤] اگر تم لوگ اللہ کی نعمتوں کا شمار کرناچاہو تو تمہارے امکان میں نہیں ہے. پالنے والے تیری کتاب سچی ہے اور تیرا پیام حق ہے، تو نے اپنے پیغمبروں پر جو وحی و شریعت نازل کی اور ان کے ذریعے جو پیغام لوگوں تک پہنچایا اس کو انھوں نے پہونچا دیا۔ اس کے علاوہ میں اپنی تمام تر سعی و کوشش اور ایمان و یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہوں اور کہتا ہوں (اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَم یَتَّخِذ صَاحِبَۃً وَ لَا وَلَدا)[سورہئ اسراء آیت١١] کہ تمام تعریفیں اس خدائے وحدہ لاشریک کے لئے ہیں جس کی نہ کوئی شریک حیات ہے نہ بیٹا کہ وہ خدا کا وارث بن سکے، اور اس کی حکومت و سلطنت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں جو خدا کی تخلیق میں اس کا مقابلہ کر سکے. اورمخلوق میں اس کا کوئی دوست نہیں جو اس کی صنعت و خلقت میں اس کا ہاتھ بٹائے، پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات. (لَو کَانَ فِیھِمَا آلِھَۃ اِلاَّ اللّٰہُ لَفَسَدَتَا) [سورہئ انبیاء آیت ٢٢] اگر زمین و آسمان میں کئی خدا ہوتے تو وہ تباہ و برباد اور پاش پاش ہو جاتے۔

    پاک و منزہ ہے وہ خدا جو واحد اور أحد ہے، وہ ایسا بے نیاز ہے جو (لَم یَلِد وَ لَم یُولَد وَ لَم یَکُن لَہُ کُفُواً أحَد)،ہے [سورہئ توحید آیت٤] یعنی وہ نہ کسی کا بیٹا ہے نہ باپ، اور نہ کوئی اس کا کفو ہے، حمد و ثنا صرف خدا سے مخصوص ہے وہ ایسی حمد جو ملائکہئ مقربین اور انبیاء و مرسلین کی حمد جیسی ہے اور خدا کا درود و سلام ہو اس کے برگزیدہ محمد، خاتم النبین پر اور ان کی پاک و پاکیزہ اور برگزیدہ آل(علیهم السلام)پر۔

     اس مقام پر امام (علیه السلام) نے خدا سے سوال کرنا شروع کیا اور دعا میں اس طرح مشغول ہوگئے کہ آپ کے دونوں رخسارمبارک آنسوؤں سے تر ہوگئے، آپ نے خدا سے عرض کی:

    خدا یا! مجھے ایسا خوف عطا کرکہ گویا میں تجھ کو دیکھ رہا ہوں، اور مجھ کو اپنے تقوے کی سعادت نصیب فرما، اپنی معصیت و نافرمانی کی بدبختی میں نہ ڈال، اپنی قضا و قدر کو میرے واسطے مایہئ خیر و برکت بنا دے تاکہ تیری تاخیر میں عجلت اور تیری عجلت میں تاخیر کو اچھا نہ سمجھوں۔

    خدا یا ! میرے نفس میں بے نیازی، دل میں یقین، عمل میں اخلاص، آنکھوں میں نور اور میرے دین میں مجھے بصیرت عطا کر، اور میرے اعضاء و جوارح میرے لئے فائدہ مند بنادے، میری سماعت و بصارت (آنکھ، کان) کو میرا وارث بنادے اور مجھ پر ظلم کرنے والے کے خلاف میری مدد فرما، اور میرا انتقام (لینے والے کو) مجھے دکھا دے اور اس کے (دیدارکے) ذریعے مجھے میری آنکھیں ٹھنڈی کردے۔

    خدا یا میرا غم دور کردے، میرا پردہ قائم رکھ ، میری خطا معاف کردے، شیطان کو مجھ سے دور رکھ اور مجھے قید سے رہائی عطا کر ،اور اے میرے معبود! مجھے دنیا و آخرت میں بلند درجات عنایت فرما۔

    خدایا تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں کہ تو نے مجھے پیدا کیا، تو سننے اور دیکھنے والا بنایا، اور حمد و ثنا تجھ سے مخصوص ہے ،کیونکہ تونے مجھے پیدا کیا تو اپنی رحمت سے میری خلقت کو کامل بنایا جب کہ تو میری خلقت سے بے نیاز تھا.

    پروردگارا ! تیری حمد بجالاتا ہوں کہ تو نے مجھ کو پیدا کیا اور میری طبیعت میں اعتدال رکھا، تونے مجھکو خلق کیا اور میری صورت کو اچھا اور مناسب بنایا۔

    پروردگارا ! تیری حمد بجا لاتا ہوں کہ تو نے مجھ پر احسان کیا اور عافیت نفس عطا کی۔

    پروردگارا !تیری حمد بجا لاتا ہوں کہ تونے مجھے بچایا اور توفیق عنایت کی۔

    پروردگارا ! چونکہ تو نے مجھے نعمت دی پس میری ہدایت فرمائی ۔

    پروردگارا ! چونکہ تو نے مجھے اولویت بخشی اور مجھے ہر چیز میں سے کچھ نہ کچھ عطا کیا۔

    پروردگارا ! تیری حمد بجا لاتا ہوں کہ تونے مجھے کھلایا اور سیراب کیا۔

    پروردگارا ! تیری حمد بجا لاتا ہوں کہتو نے مجھے مالدار کیا اور میری حفاظت فرمائی۔

    پروردگارا ! تیری حمد بجا لاتا ہوں کہتو نے میری مدد کی اور مجھ کو عزت دی۔

    پروردگارا ! تیری حمد بجا لاتا ہوں کہتو نے مجھ کو خاص کرامت کا لباس پہنایا اور کافی حد تک مصنوعات کو میری دسترس میں رکھا، محمد و آل محمد(علیهم السلام)پر درود نازل فرما، حوادث روزگار و تبدیلیئ شب و روز کے اثرات سے مجھے محفوظ رکھ. خدایا! جس چیز سے مجھے خوف محسوس ہو اس کے مقابلہ میں میری مدد فرما، اور جس چیز سے بچنا چاہوں اس سے بچا، میرے نفس اور میرے دین میں میری حفاظت کر ، سفر میں مجھے محفوظ رکھ، میرے اہل میں اور میرے مال میں میرا اچھا جانشین بنادے، اور جو رزق تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا کر ، مجھے میرے نفس کے تئیں ذلیل رکھ، اور لوگوں کی نگاہوں میں مجھے عظمت عطا فرما، اور جن و انس کے شر سے مجھ کو بچالے، اور میرے گناہوں کی وجہ سے مجھ کو ذلیل نہ کرنا، مجھے میرے باطنی خیالات کی بنا پر رسوا، اورمیرے اعمال کی وجہ سے مجھ کو آزمائش میں مبتلانہ کرنا، اپنی نعمتیں مجھ سے نہ چھیننا، اور اپنے علاوہ مجھ کو دوسروں پر نہ چھوڑ دینا۔

    خدا یا!مجھے کس کے حوالے کرے گا؟ اس قریبی عزیز کے جو قطع تعلق کر لے یا اس دور کے رشتہ دار کے، جو مجھ سے سختی سے پیش آئے یا ان لوگوںکے جو مجھ کو کمزور بنا دیں؟ جب کہ تو ہی میرا ربّ ہے اور میرے امر کا مالک ہے. میں تجھ سے اپنی غربت، گھر سے دوری اور اس کی نظر میں ذلت و رسوائی کی شکایت کرتا ہوں کہ جس کو تونے میرے امر کا مالک بنا یا ہے، خدا یا! مجھ پر اپنا قہر نازل نہ کر، کیوں کہ اگر تو غضبناک نہ ہو تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں، تو پاک و منزہ ہے، تیری عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے. اے پالنے والے! میں تجھ سے تیرے اس نور کا واسطہ دیکر سوال کرتا ہوں کہ جس سے زمین و آسمان روشن ہوئے ہیں، اور جس کے ذریعے تاریکیاں دور کی گئی ہیں اور اولین و آخرین کے امور کی اصلاح ہوئی ہے کہ مجھ پر غضبناک ہوکر مجھے موت نہ دینا اور نہ ہی مجھ پر اپنی ناراضگی ڈھانا، عذاب سے پہلے تو میری سرزنش کر، یہاں تک کہ تو راضی ہو جائے، سوائے تیرے کوئی خدا نہیں ہے، تو محترم شہر مکہ، مشعر الحرام اور بیت عتیق کا پروردگار ہے جسے تو نے برکت سے معمور کردیا ہے اور لوگوں کے لئے جائے امن قرار دیا ہے۔

     اے وہ کہ جس نے اپنے حلم سے بڑے بڑے گناہوں کو معاف کیا ،اور اے وہ کہ جس نے اپنے فضل و کرم سے نعمتوں کو مکمل کیا، اے وہ کہ جس نے اپنے کرم سے بے شمار عطا کیا، اے میری سختی میں میرے مددگار، اے میری تنہائی میں میرے غمخوار، اے میری مصیبت میں میرے فریاد رس، اے میری نعمتوں کے مالک ۔

    اے میرے خدا اور میرے آباء طاہرین، ابراہیم و اسماعیل و اسحق اور یعقوب ٪کے خدا، اور اے جیرئیل و میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار، اور اے خاتم النبین حضرت محمد(ص)اور آپ کی منتخب آل پاک کے پروردگار، اے توریت و انجیل و زبور و قرآن کے نازل کرنے والے، اور اے کھٰیٰعص، طٰہٰ، یٰس اور قرآن حکیم کے نازل کرنے والے تو ہی میرا حامی ہے، (اس وقت بھی) جب زندگی کی راہیں اپنی وستعوں کے ساتھ مجھ پر تنگ ہو جائیں اور زمین اپنی پہنائیوں کے ساتھ چھوٹی پڑجائے، اگر تیری رحمت نہ ہوتی تو میں ہلاک ہو جانے والوں میں ہوتا. تو ہی لغزش سے درگذر کرنے والا ہے، تو نے اگر میرا پردہ نہ رکھا ہو تا تو میں رسوا ہو جانے والوں میں ہوتا، تو میرے دشمنوں کے مقابلے میں میرا مددگار ہے. اور اگر تیری مدد میرے شامل حال نہ ہوتی تو میں مغلوب ہو جانے والوں میں ہوتا۔

     اے وہ کہ جس نے رفعت و بلندی کو اپنے لئے مخصوص رکھا ہے اور اس کی عزت سے اس کے اولیاء کو عزت حاصل ہے، اے وہ کہ جس کی بارگاہ میں بڑے بڑے بادشاہ طوق ذلت اپنی گردنوں میں ڈالے ہوئے ہیں، اور اس کی ہیبت و شوکت کے سامنے خائف رہتے ہیں. (یَعلَمُ خَائِنَۃَ الأَعیُنِ وَ مَا تُخفِی الصُّدُور)[ سورہئ غافر آیت ١٩] وہ نگاہوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ اسرار سے آگاہ ہے اور زمانہ کے اندر پوشیدہ تمام اسرار کو جانتا ہے۔

    اے وہ کہ جس کے بارے میں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیسا ہے؟ اے وہ کہ جس کے بارے میں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اے وہ کہ جس نے زمین کا فرش پانی پر بچھایا، اور ہوا کو آسمان کے ذریعے روک دیا ، اے وہ کہ جس کا نام سب ناموں سے بڑا ہے . اے ایسی خوبیوں کے مالک جس کی خوبیاں کبھی ختم نہیں ہوئیں، اے یوسف (علیه السلام)کے واسطے قافلے کو بیابان میں روکنے والے، اور ان کو کنویں سے نکالنے والے، اور غلامی کے بعد ان کو بادشاہت عطا کرنے والے، اے یوسف (علیه السلام) کو یعقوب (علیه السلام)کے پاس اس وقت واپس کرنے والے جب (ابیَضَّت عَینَاہُ مِنَ الحُزنِ فَہُوَ کَظِیم) [ سورہئ یوسف آیت٨٤] یعقوب (علیه السلام)کی آنکھیں غم و اندوہ سے سفید ہوگئیں تھیں باوجودیکہ وہ اپنے غم و اندوہ کو ضبط کئے ہوئے تھے. اے ایوب (علیه السلام)سے رنج والم دور کرنے والے، اے ابراھیم (علیه السلام)کو بڑھاپے میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹے کو ذبح کرنے سے روکنے والے! اے وہ خدا جس نے زکریا (علیه السلام) کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ (علیه السلام)جیسا فرزند عطا کیا اور انہیں اکیلا نہیں رہنے دیا ، اے وہ خدا جس نے یونس (علیه السلام) کو شکم ماہی سے نکالا، اور اے وہ کہ جس نے بنی اسرائیل کے واسطے دریا کے سینے کو شگافتہ کیا اور انہیں نجات دیدی اور فرعون کو مع لشکر کے اس میں ڈبو دیا، اے وہ خدا جس نے رحمت کی بشارت دینے کے لئے ہواؤں کو چلایا، اے وہ کہ جس نے اپنی مخلوق کی معصیت پر ان کے عذاب میں جلدی نہیں کی، اے وہ کہ جس نے (موسیٰؑ کے مقابلے میں آنے والے) جادوگروں کو ان کے طویل کفر و انکار کے بعد نجات دیدی حالانکہ وہ نعمتوں میںرہ کر اس کا رزق کھاتے اوراس کے بجائے غیر کی عبادت کیا کرتے تھے، ان لوگوں نے خدا سے دشمنی کی، اس کا شریک ٹھہرایا اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا۔

    اے خدا ! اے خدا ! اے (خلقت کی) ابتدا کرنے والے، اے ایجاد کرنے والے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے. اے وہ ذات دائم، جس کے لئے انتہا نہیں ہے اے وہ حیّ جو اس وقت بھی تھا جب کوئی نہیں تھا ، اے مردوں کو زندہ کرنے والے۔

     اے وہ جو ہر نفس کے اعمال پر نظر رکھتا ہے ، اے وہ کہ جس کا میری طرف سے شکر کم بھی ہوا تو اس نے مجھ کو محروم نہیں کیا اور مجھ سے عظیم خطا بھی ہوئی تو اس نے مجھ کو رسوا نہیں کیا، اور مجھے گناہوںمیں آلودہ دیکھا تو بھی اس نے مشہور نہیں کیا. اے وہ کہ جس نے بچپن میں میری حفاظت کی، اے وہ کہ جس نے بڑھاپے میں مجھ کو رزق عطا کیا، اے وہ کہ جس نے مجھے اتنی نعتیں دیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا، اور اس کی نعمتوں کا بدلہ بھی نہیں چکایا جاسکتا، اے وہ کہ جس نے میرے ساتھ نیکی اور مجھ پر خیر و احسان کیا اور میں اس کے ساتھ عصیان و نافرمانی سے پیش آیا، اے وہ کہ جس نے اس وقت ایمان کی طرف میری رہنمائی کی جب میں شکر و سپاس کے طور طریقے سے ناواقف تھا. اے وہ کہ جس کو میں نے بیماری میں پکارا تو اس نے مجھ کو شفا دی، برہنگی میں آواز دی تو اس نے مجھے لباس عطا کیا، بھوک کی حالت میں پکارا تو مجھے سیر کیا، پیاس کی حالت میں بلایا تومجھے سیراب کیا، عالم ذلت میں بلایا تو مجھے عزت دیدی، جہالت میں بلایا تو مجھے عارف بنادیا،اکیلے میں پکارا تو مجھے کثیر ساتھی دیئے، وطن سے دور غربت میں آواز دی تو مجھے (وطن) واپس لوٹا دیا. فقیری میں بلایا تو مجھے مالدار بنادیا، (ظلم میں) امداد کے لئے بلایا تو میری مدد کی، مالدار ہوکر بلایا تو (دیا ہوا مال) مجھ سے نہیں چھینا اور اگر میں(مانگتے مانگتے) میں کسی وجہ سے رک گیا تو از خود مجھے عطا کرنا شروع کردیا۔

    پس تو ہی حمد کے لائق ہے اور تیرا ہی شکر بجا ہے . اے وہ کہ جس نے میری لغزشوں سے درگذر کی، میری مصیبت کو دور کیا اور میری دعا کو قبول کیا، میری مخفی گاہوں کو چھپایا اور میرے گناہوں کو بخش دیا، میری حاجت کو پورا کیا اور میرے دشمن کے خلاف میری مدد کی، چنانچہ میں تیری نعمتوں ، تیرے احسانات، تیرے کرموں اور بخششوں کا شمار کرنا بھی چاہوں تو کبھی شمار نہیں کرسکتا۔

    اے میرے مالک! تو نے ہی احسان کیا، تو نے ہی نعمت دی، تو نے ہی نیکی سے نوازا، تونے ہی فضل و کرم کیا، تو نے ہی بھرپور نعمتیں دیں،تو نے ہی رزق عطا کیا، تونے ہی توفیق دی، تونے ہی امداد کی، تونے ہی غنی بنایا، تونے ہی خاص انعام سے نوازا، تونے ہی پناہ عطا کی، تونے ہی ہرجگہ کفایت کی، تو نے ہی ہدایت کی، تو نے ہی محفوظ رکھا، تو نے ہی پردہ پوشی کی، تو نے ہی مغفرت کی ،تو نے ہی درگذر کی، تو نے ہی قدرت دی، تونے ہی عزت دی، تو نے ہی مدد کی، تو نے ہی اعانت کی، تو نے ہی تائید کی، تو نے ہی نصرت کی، تونے ہی شفادی، تو نے ہی عافیت دی، تو ہی وہ ہے جس نے بزرگی عطا کی، تو بلند ہے، بابرک ہے، تیرے لئے حمد دائم ہے، اور تیرے لئے شکر مسلسل ہے۔

    پس میں اے میرے معبود ! اپنے گناہوں کا معترف ہوں لہٰذا میرے لئے ان کو بخش دے، میں نے ہی بدی کی ہے ، میں نے ہی خطا کی ہے، اور میں نے ہی گناہ کا ماحول فراہم کیا، میں ہی جہالت سے پیش آیا، میںنے ہی غفلت برتی، میں نے ہی سہو کیا، میں نے ہی خود پر اعتماد کیا، میں نے ہی عمداً غلط اقدام کئے، میں نے ہی وعدے کئے اور میں نے ہی مخالفت کی، میں نے ہی عہد شکنی کی، میں نے ہی اقرار کیا، اور میں نے ہی اپنے لئے اور اپنے اوپر تیری نعمت کا اعتراف کیا اور پھر گناہوں کا رخ کرلیا، پس اے خدا ! میرے لئے ان گناہوں کو بخش دے۔

     اے وہ کہ جس کو بندوں کے گناہ نقصان نہیں پہنچاتے اور وہ بندوں کی اطاعت سے مستغنی ہے، اور عمل صالح انجام دینے والے کو خدا اپنی رحمت و اعانت سے توفیق دینے والا ہے. پس حمد تیرے لئے ہے. اے میرے معبود ! اے میرے سردار ! اے میرے معبود! تو نے حکم دیا تو میں نے اس کی نافرمانی کی، تو نے مجھے روکا تو میں اس کا مرتکب ہوا، اب میری حالت ایسی ہے کہ میرے پاس کوئی وجہ نہیں جو میں عذر کے طور پر پیش کروں، اور نہ کوئی یاور کہ جس سے مدد طلب کروں، پس اے میرے مولا! اب کس چیز کے سہارے تیرے سامنے آؤں، اپنی سماعت کے ذریعے یا اپنی بصارت کے ذریعے، اپنی زبان کے ذریعے یا اپنے ہاتھ کے ذریعے پھر اپنے پیر کے ذریعے؟ کیا یہ سب میرے پاس تیری نعمتیں نہیں ہیں؟ اور کیا ان سب سے میں نے تیری نافرمانی نہیں کی ہے؟ اے میرے مولا ! تیرے پاس میرے خلاف تیری حجت و دلیل موجود ہے. اے وہ کہ جس نے میری کمیاں میرے ماں باپ سے بھی مخفی رکھی اور ان کی زجر و توبیخ سے بچایا، قبیلہ والوں اور بھائی بندوں کے طعنوں سے محفوظ رکھا اور بادشاہوں کے عقاب سے مجھ کو بچائے رکھا، چنانچہ اے میرے مالک!اگر ان ساری باتوں کا ان سب کو پتہ چل جاتا کہ جس سے تو مطلع ہے تو وہ مجھ کو مہلت نہ دیتے، مجھ کو نظر انداز کردیتے اور مجھ سے قطع تعلق کر لیتے.

     پس اے میرے خدا! اے میرے سردار ! میں تیرے حضور حاضر ہوں، گردن جھکائے ہوئے، ذلیل و عاجز، ناتواں اور حقیر کی طرح ہوں ،نہ کوئی دلیل ہے کہ جس کو پیش کر سکوں، اور نہ کوئی مددگار ہے کہ جس سے مدد طلب کرسکوں ،اور نہ کوئی حجت رکھتا ہوں کہ تیرے سامنے لاسکوں ،اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہ گناہ نہیں کیا ہے، یا یہ برائی انجام نہیں دی ہے۔

    اور انکار ممکن بھی نہیں ہے. اے میرے مولا! اگر انکار کروں بھی تو وہ میرے لئے کیوں کر فائدہ مند ہوسکتا ہے؟ در آنحالیکہ اعضاء و جوارح سب کے سب میرے خلاف گواہی پر تیار ہیں، کسی شک کے بغیر میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ تو مجھ سے ان بڑے بڑے کاموں کے بارے میں سوال کرنے والا ہے. تو وہ حاکم عادل ہے، جو کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا، لیکن تیری عدالت ہی میرے لئے ہلاک کن ہے، اور میں تیرے عدل و انصاف سے ہراساں ہوں، پس اے معبود ! اگر تو مجھے عذاب میں مبتلا کرے تو یہ مجھ پر تیری حجت قائم ہونے کے بعد میرے گناہوں کی وجہ سے ہوگا. اور اگر تو معاف کردے گا تو یہ تیرے حلم اور جود و کرم کی وجہ سے ہوگا (لاَ اِلٰہَ اِلا أَنتَ سُبحَانَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِین)[ سورہئئ انبیاء آیت ٨٧]

    تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے بے شک میںہی اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں ہوں. تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و منزہ ہے، بیشک میں استغفار کرنے والوں میں ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے بے شک میں تیری وحدانیت کا اقرار کرنے والوں میں سے ہوں۔

    تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و پاکیزہ ہے، بے شک میں تجھ سے ڈرنے والوں میں ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و منزہ ہے، بیشک میں تیری سطوت سے ہراساں رہنے والوں میں ہوں۔

تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک بے نیاز ہے، بے شک میں تجھ سے امید لگانے والوں میں ہوں ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے. بے شک میں تیرا اشتیاق رکھنے والوں میں سے ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک و بے نیاز ہے بے شک میں تیرا کلمہ پڑھنے والوں میں ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک و بے نیاز ہے، بے شک میں سوال کرنے والوں میں ہوں۔

    تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو پاک و منزہ ہے بے شک میں تیری تسبیح کرنے والوں میں ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے، بے شک میں تکبیر کہنے والوں میں سے ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک و بے نیاز ہے، تو میرا اور میرے تمام آباء و اجداد کا رب ہے۔

    خدا یا ! یہ میری حمد و ثنا تیری بارگاہ میں تیری بزرگی کے اعتراف کے ساتھ ہے، اور تیرے ذکر میں میرا اخلاص تیری وحدانیت پر مبنی ہے اور تیری نعمتوں کے سلسلہ میں میرا اقرار انھیں شمار (کرنے سے عاجز ہونے) کے بعد ہے ،اگر چہ مجھ کو اعتراف ہے کہ تیری نعمتوں کا احصا ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ بہت زیادہ اور فراوان ہیں کامل بھی ہیں اور آشکار بھی، قدیم بھی ہیں اور جدید بھی، تیری نعمتوں کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے، تو نے جس وقت سے مجھ کو پیدا کیا ہے ہمیشہ سے ان کو میرے ساتھ رکھا ہے، مجھے میری ابتدا ء عمر سے نعمتیں دیکر میری فقیری کو غنا ء سے بدلا ،اور مجھ سے رنج و الم کو دور رکھا، آسانی کے اسباب مہیا کئے، سختی کو دور کیا اور غم سے نجات دی ، جسم کو عافیت دی ،اور میرے دین کو سلامتی عطا کی، اور اگر اولین و آخرین کے تمام لوگ تیری بے پایان نعمتوں کو شمار کرنا چاہیں تو نہ میں اس پر قادر ہوں اور نہ وہ لوگ ایسا کرسکتے ہیں۔

     تو پاک و پاکیزہ اور بزرگ و بالا، رب کریم و عظیم و رحیم ہے، تیری نعمتوں کا شمار نا ممکن ہے اور تیری ثنا کا حق ادا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے، تیری نعمتوں کا کوئی بدل نہیں ہے، محمد و آل محمد(علیهم السلام)پر درود نازل فرما اور ہم پر اپنی نعمتوں کو مکمل کر دے اور ہم کو اپنی طاعت کے ذریعے خوش بخت بنادے، تو پاک و منزہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

    خدا یا تو پریشاں حال کی دعا کو قبول کرتا ہے، اس کے رنج و الم کو دور کرتا ہے اور غم زدہ کی فریاد کو پہنچتا ہے، مریض کو شفا دیتا ہے، فقیر کو مالدار بناتا ہے، ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ تا ہے، بچہ پر رحم کرتا ہے، بوڑھے کی مدد کرتا ہے، تیرے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے اور تجھ سے بالاتر کوئی قادر نہیں ہے . اور تو سب سے بزرگ و برتر ہے۔

    اے جکڑے ہوئے قیدی کو رہائی دلانے والے، اے چھوٹے بچہ کو رزق عطا کرنے والے، اے خوف زدہ پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے والے ، اے وہ کہ جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ وزیر، محمد و آل محمد(علیهم السلام)پر درود نازل کر، اور آج کی رات مجھ کو اس سے بہتر نعمت عطا کر جو تو نے اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو عطا کی ہے، ان ظاہری نعمتوں میں سے جو تو بندوں کو دیتا ہے اور ان باطنی نعمتوں میں سے جن کی تو تجدید کرتا ہے، اور ان مصیبتوں میں سے جنھیں دور کرتا ہے اور ان زحمتوں میں سے جن کو تو ختم کرتا ہے اور ان خطاؤں میں سے جن کو تو سنتا ہے اور وہ نیکی جس کو تو قبول کرتا ہے اور وہ برائی جس کو تو چھپاتا ہے، بے شک تو لطیف ہے جس چیز سے چاہے باخبر رہتا ہے، اور ہر شے پر قادر ہے۔

    خدایا! تو پکارے جانے والوں میں سب سے قریب ہے اور قبول کرنے والوں میں سب سے جلدی قبول کرنے والا ہے، اور معاف کرنے والوں میں سب سے زیادہ کریم ہے، عطا کرنے والوں میں سب سے زیادہ وسیع ہے، اور جن سے سوال کیا جائے ان میں سب سے زیادہ سننے والا ہے، اے دنیا و آخرت کے رحمن و رحیم تیرے جیسا کوئی نہیں جس سے سوال کیا جائے، اور تیرے سوا کوئی نہیں جس سے امید لگائی جائے، میں نے تجھ سے دعا کی تو نے اسے قبول کیا، میں نے تجھ سے سوال کیا تونے عطا کیا، میں نے تیری جانب توجہ دی تونے رحم کیا، میں نے تجھ پر اعتماد کیا تو تو نے مجھے نجات دی اور میں نے تجھ سے فریاکی توتیری مدد میرے لئے کافی ہوگئی۔

    خدا یا! پس درود نازل فرما اپنے بندہ اور اپنے رسول اور اپنے نبی محمد(ص)پر اور ان کی طیب و پاکیزہ تمام کی تمام آل پر اور ہمارے لئے اپنی نعمتوں کو مکمل کر دے، اپنی ہر عطا کو ہمارے لئے گوارا بنا دے، ہمارا نام اپنے شکر گذاروں میں لکھ دے، اور ہمیں اپنی نعمتوں کو یاد کرنے والوں میں شمار فرما، اے عالمین کے پالنے والے میری یہ دعا قبول کر لے۔

     خدا یا ! اے وہ جو مالک ہے تو قادر بھی ہے اور قادر ہے تو غالب بھی ہے، جب اس کی نافرمانی کی گئی تو اس نے چھپایا، اور جب اس سے مغفرت طلب کی گئی تو اس نے بخش دیا، اے طلبگاروں اور شوق رکھنے والوں کی آخری منزل، اے امید لگانے والوں کی انتہا، اے وہ کہ جس کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے اور اس کی مہربانی، رحمت اور اس کا حلم، تمام عذر خواہوں پر وسیع ہے، خدا یا! میں اس شام تیری طرف متوجہ ہوں جس کو تو نے شرافت و عظمت عطا کی ہے اس محمد(ص)کے ذریعے جو تیرے نبی و رسول ہیں اور تیری مخلوق میں بہترین اور تیری وحی کے امین ہیں، بشارت دینے والے، ڈرانے والے ،روشن چراغ ہیں، جن کے ذریعے سے تو نے تمام مسلمانوں کو نعمتوں سے نوازا ہے، اور جن کو عالمین کے لئے رحمت قرار دیا ہے۔

     خدا یا! پس محمد و آل محمد٪ پر اسی طرح درود نازل فرما کہ جس کے محمد(ص)تیرے نزدیک اہل ہیں، اے صاحب عظمت! پس ان پر اور ان کی تمام پاک و پاکیزہ، نجیب آل پر درود نازل فرما، اور اپنی عفو کے دامن میں ہم کو چھپالے، تیری ہی جانب مختلف زبانوں میں آواز و فریاد بلند ہے، پس اے خدا میرے لئے اس شام ہر اس نیکی میں حصہ قرار دے جو کو تو اپنے بندوں میں تقسیم کر رہا ہے اور اس نور کا حصہ جس سے تو ہدایت کررہا ہے، اور اس رحمت کا حصہ جس کو تو پھیلارہا ہے، او راس برکت کا حصہ جس کو تو نازل کررہا ہے، اور اس عافیت کا حصہ جسے تو پھیلا رہا ہے، اور اس رزق کا حصہ جس میں تو وسعت دے رہا ہے، اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے!

    خدایا !ہم کو اس وقت ایسا منقلب کردے کہ ہم کامیاب، رستگار، نیکوکار اور فائزالمرام واپس جائیں ، اور ہم کو مایوس لوگوں میں قرار نہ دینا نہ ہمارادل اپنی رحمت سے خالی کرنا، ہم تیرے جس فضل و کرم کی امید لگائے بیٹھے ہیں،اس سے ہم کو دور نہ فرمانا، ہمیں ایسا نہ بنانا کہ تیری رحمت سی محروم ہوجائیں اور تجھ سے جس بخشش کی امید رکھتے ہیں اس سے ناامید ہو جائیں ، اور تیری عطا سے بے بہرہ ہو جائیں، اور تیرے دروازے سے دھتکار دیئے جائیں، اے سب سے زیادہ سخی اور سب سے بڑے کرم کرنے والے ! ہم تیری بارگاہ میں یقین کے ساتھ آئے ہیں، اور تیرے محترم گھر کا ارادہ و قصد کیا ہے پس تو ہمارے ارکان کی ادائیگی میں ہماری مدد کر، ہمارے لئے حج کو مکمل فرما، گناہوں سے درگذر کر اور ہمیں عافیت عطا کر ، ہم نے تیری طرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہیں جس پر ذلت اور اعتراف گناہ کے ٹھپے لگے ہوئے ہیں۔

    خدایا! پس ہم کو اس شام وہ چیز عطا کردے جس کا ہم نے تجھ سے سوال کیا ہے، اور جس کام کے لئے ہم نے پکاراہے اس میں ہماری کفایت کر کیونکہ تیرے سوائے ہمارا کوئی مددگار نہیں، اور تیرے سوا ہمارا کوئی پروردگار نہیں ہے، تیرا حکم ہم پر نافذ ہے، تیرا علم ہم پر محیط ہے اور تیرا فیصلہ ہمارے لئے عدل ہے، اپنے فیصلے میں ہمارے لئے خیر کو مقدر فرما اور ہم کو خیر والوں کے ساتھ رکھ ۔

    خدایا ! ہمارے لئے اپنے جود و سخاسے عظیم اجر، بہترین ذخیرہ اور دائمی آسانی پیدا کر، ہمارے تمام گناہوں کو بخش دے اور ہم کو ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک نہ کر، اور اپنی مہربانی اور رحمت کو ہم سے دور نہ کر، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

    خدا یا ہم کو اس وقت ان لوگوں میں قرار دے جنھوں نے تجھ سے سوال کیا تو تو نے ان کو عطا کیا، تیرا شکر ادا کیا تو تو نے ان کو اور زیادہ دیا، تجھ سے توبہ کی تو تو نے ان کی توبہ قبول کرلی، اور اپنے ہر طرح کے گناہوں سے الگ ہوگئے توتو نے ان کو بخش دیا، اے صاحب جلال وا کرام ۔

     اے اللہ! ہم کو پاکیزہ بنا دے، اور ہمیں استحکام عطا کر ،او رہمارے گریہئ و زاری کو قبول کر، اے وہ بہترین ذات کہ جس سے سوال کیا جائے اور اے وہ سب سے بڑے رحیم کہ جس سے رحم کی درخواست کی جائے. اے وہ کہ جس سے پلکوں کی حرکت چھپی ہے اور نہ آنکھوں کے اشارے پوشیدہ ہیں نہ دلوں کی باتوں سے وہ بے خبر ہے نہ قلوب کے اسرار اس سے مخفی ہیں. یقینا تیرے علم نے ان سب کو اپنے احاطے میں لے رکھا ہے اور تیرا حلم ان کو گھیرے ہوئے ہے، تو بلند و بالا اور پاک و منزہ ہے ان باتوں سے جو ظالمین تیرے بارے میں کہتے ہیں. ساتوں آسمان اور زمینیں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب تیری پاکی کا قصیدہ پڑھتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیںہے جو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح نہ کرتی ہو پس تجھ کو زیبا ہے ہر تعریف، بزرگی اور برتری؛ اے جلال و اکرام، اور فضل و احسان اور بلند ترین نعمتوں والے، تو سب سے بڑا سخی، کرم کرنے والا، مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

     خدایا! مجھ پر اپنے حلال رزق میںوسعت فرما،مجھے میرے جسم اور میرے دونوں دین میں عافیت سے نواز دے، میرے خوف کو امن میں بدل دے اور جہنم سے میری گلو خلاصی کردے۔

     خدا یا اپنی تدبیرمجھ پر نہ آزما مجھے مہلت دے کر عذاب میں مبتلا نہ کرنا، مجھ کو دھوکہ میں نہ رہنے دینا اور مجھ کو جن و انس کے فاسقوں کے شر سے محفوظ رکھنا۔

    (پھر امام ؑ نے اپنا سر آسمان کی جانب بلند کیا اور با چشم گریاں بلند آواز سے بارگاہ رب العزت میں عرض کی)

    اے سننے والوں میں سب سے زیادہ سننے والے، اے دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ دیکھنے والے، اے حساب کرنے والوں میں سب سے تیز حساب کرنے والے، اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ! محمد و آل محمد(علیهم السلام)پر درود نازل فرما ،جو تمام انسانوں کے سردار اور بڑی برکتوں والے ہیں، اور اے خدا میں تجھ سے اس حاجت کا سوال کرتا ہوں کہ اگر تونے اس کو مجھے عطا کر دیا تو باقی جس حاجت سے بھی محروم کر دے کوئی نقصان نہ ہوگا اور اگر تونے اس کو پورا نہ کیا، تو پھر جو بھی عطا کرے گا اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، میں تجھ سے چاہتا ہوں کہ مجھے جہنم سے نجات عطا کردے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، تیرے لئے بادشاہت ہے، تیرے لئے حمد ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے، اے رب اے رب؛ اے رب اے رب اے رب؛ اے رب اے رب اے رب (امام ؑ نے ایک پوری سانس تک اس کی تکرار کی)

    محدث قمیؒ فرماتے ہیں کہ کفعمی نے بلد الامین میں اور علامہ مجلسی نے زاد المعاد میں اس دعا کو یہیں تک نقل کیا ہے، لیکن سید بن طاؤس نے اقبال میں یا رب یا رب کے بعد اس اضافہ کو بھی نقل کیا ہے:

    خدا یا! میں مالدار ہونے کے بعد بھی فقیر ہوں تو فقر کی حالت میں کیوں کر فقیر نہ ہوں گا، خدایا! میں عالم ہوتے ہوئے بھی جاہل ہوں، تو اپنی جہالت میں کیوں کر جاہل نہ ہوں گا، میرے مالک ! بے شک تیری تدبیر کی تبدیلی اور تیرے مقدرات میں تیزی سے آنے والے تغیرّات نے تیرے عارف بندوں کو تیری بخشش سے پرسکون ہو جانے اور مصیبت میں نا امید ہوجانے سے روک رکھا ہے۔

     میرے معبود! مجھ سے ایسا عمل سرزد ہوتا ہے جو میری سرزنش کے لائق ہے جبکہ تیری جانب سے ایسا امر ہونا چاہئے جو تیرے کرم کا سزاوار ہے. میرے معبود! جب میں ضعیف نہیں تھا اس وقت تونے اپنے کو لطف و مہربانی سے موصوف کیا، تو کیا اب میرے ناتواں ہو جانے کے بعد ان دونوں سے مجھ کو محروم کر دے گا؟

    اے میرے خدا ! اگر مجھ سے نیکیاں ظاہر ہوئی ہیں تو یہ تیرے فضل کی وجہ سے ہے. اور تیرا مجھ پر احسان ہے اور اگر مجھ سے برائیاں ظاہر ہوئی ہیں تو یہ تیرے عدل کی وجہ سے ہے اور تیری حجت مجھ پر قائم ہے۔

     خدایا! تو مجھے کیسے چھوڑ دے گا جب کہ تو میرا کفیل ہے اور کوئی کیسے مجھ پر ظلم کرسکتا ہے جب کہ تو میرا ناصر ہے. یا میں کیسے نقصان اٹھا سکتا ہوں جب کہ تو مجھ پر مہربان ہے. ہاں اب میں تجھ سے متوسل ہوتا ہوں کیوں کہ میں تیری بارگاہ کا فقیر ہوں اور ایسی چیز سے توسل کرسکتا ہوں جس کا تجھ تک پہنچنا محال ہے یا کیسے میں اپنی حالت کی تیری بارگاہ میں شکایت کرسکتا ہوں جب کہ وہ تیرے اوپر مخفی نہیں ہے ؟اور کیسے میں اپنی بات کی ترجمانی کرسکتا ہوں جب کہ وہ تیرے سامنے ظاہر ہے یا کیوں کر تو میری امیدوں کو نا امیدی میں بدل سکتا ہے جب کہ وہ تیری کریم بارگاہ میں پہنچی ہوئی ہیں؟ یا کیسے تو میرے حالات کو بہتر نہ بنائے گا جب کہ میرے حالات کی تبدیلی تجھ پر منحصر ہے ۔

     میرے معبود میری عظیم جہالت کے باوجود تو نے کتنا مجھ پر لطف کیا ہے اور میرے کالے کرتوتوں کے باوجود تو نے کتنا مجھ پر رحم کیا ہے. خدایا! تو مجھ سے کتنا قریب ہے اور میں تجھ سے کتنا دور ہوں اور کتنی تو نے مجھ پر مہربانی کی ہے،پس وہ کون سی چیز ہے جو مجھ کو تجھ سے دور رکھے گی!؟

     میرے مالک ! آثار کی تبدیلی اور حالات کے اختلاف سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تو چاہتا ہے کہ ہر چیز میں اپنا جلوہ مجھے دکھائے تاکہ ہر چیز میں مجھے تو ہی نظر آئے، میرے معبود ! جب بھی میری برائیوں سے میری زبان بند کی تو تیرے کرم نے مجھ کو بولنا سکھا دیا، اور جب بھی میری بری عادتوں نے مجھ کو مایوس کیا تو تیرے احسانات نے مجھ کو امیدوار بنادیا۔

میرے معبود! جس کی نیکیاں ہی برائیاں ہوں! اس کی برائیاں کیوں کر برائیاں نہ ہوں گی اور جس کے حقائق محض کھوکھلے دعوے ہوں تو اس کے باطل دعوے کیوں کر کھوکھلے دعوے نہ ہوں گے۔

     پالنے والے تیرے نافذ و محکم اور غالب ارادے نے کسی بولنے والے کے لئے بولنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی اور نہ کسی صاحب حال کو اس کے حال پر رہنے دیا۔

     خدا یا! میں نے کتنی ہی عبادتیں کیں اور اپنے اندر خوشی کی حالت پیدا کی مگر تیرے عدل نے ان پر اعتماد ختم کردیا پھر تیرے فضل نے مجھ کو ان کی طرف سے سہارا دیدیا، خداوندا ! تو جانتا ہے اگرچہ میرے یہاں تیری اطاعت و بندگی میں دوام نہیں رہا مگر تیری اطاعت و بندگی سے لگاؤ اور اس کا عزم ہمیشہ میرے دل میں رہا ہے۔

     میرے معبود! میں کیسے (تیرا) عزم کروں جب کہ تو قھّار ہے اور کیسے تیرا عزم نہ کروں جب کہ تو حاکم و آقا ہے، میرے معبود! میں تیرے آثار قدرت میں جس قدر تجھے ڈھونڈتا ہوں اتنا ہی تجھ سے دور ہوتا جاتا ہوں ، پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ میں ایسی خدمت کی توفیق دے جو مجھ کو تجھ تک پہونچادے، جو چیز اپنے وجود میں خود تیری محتاج ہے اس سے تیرے وجود پر کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے؟ کیا تجھ سے الگ کوئی اور اتنا ظاہر و آشکار ہے کہ وہ تجھے ظاہر و آشکار کرسکے؟ تو کب ہم سے غائب تھا کہ جسے ظاہر کرنے کے لئے کسی کی ضرورت پڑے، جو تجھ پر دلالت کرے؟ اور تو کب دور ہوا کہ تیرے آثارتجھ تک پہونچانے کا سبب بنیں، وہ آنکھ اندھی ہے جو تجھ کو اپنا نظارہ گر نہ سمجھے اوربندہ کا اس میں سراسر نقصان ہے جس میں تیری محبت کا حصہ نہ ہو۔

     خدا یا! تو نے لوگوں کو کائنات کے آثار کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، تو مجھ کو اپنے لباس نور اور ہدایت کے ساتھ اپنی طرف موڑ دے ،یہاں تک کہ میں تیری طرف اسی طرح پلٹ آؤں جس طرح ان کے ذریعے تجھ تک پہونچا ہوں، میرا باطن ان آثار کی طرف دیکھنے کا محتاج نہ ہو، اور میری ہمت اس سے کہیں بلند ہو کہ میں اس دنیا پر اعتماد کروں،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

میرے معبود! میری رسوائی تجھ پر ظاہر ہے اور میری حالت تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے، میں تجھ تک پہنچنے کا خواہاں ہوں اور تیرے ہی ذریعے تجھ تک پہونچنا چاہتا ہوں، پس اپنی طرف اپنے نور سے میری ہدایت کر ،اور اپنے حضور مجھ کو خالص بندگی کے ساتھ قائم رکھ۔

     خدایا مجھ کو اپنے خزانہئ علم سے علم عطا کر اور اپنے محفوظ پردے سے میری حفاظت فرما، میرے خدا مجھ کو مقربین کے حقائق سے آگاہ کر اور مشتاقین کے راستے پر چلا، میرے خدا مجھ کو اپنی تدبیر کے ذریعہ میری اپنی تدبیر سے اور اپنے اختیار کے مقابلہ میں میرے اپنے اختیار سے بے نیاز کر دے اور مجھ کو میرے اضطراب کے مواقع سے آگاہ فرما۔

    خدایا مجھ کو میرے نفس کی ذلت سے نکال دے اور مجھ کو میرے شک اور میرے شرک سے قبر میں جانے سے پہلے ہی پاک کر دے، تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں تو میری مدد کر، اور تجھ پر توکل کرتا ہوں تو مجھ کو نہ چھوڑ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تو مجھ کو مایوس نہ کر، اور میں تیرے فضل کی جانب راغب ہوں، تو مجھ کو محروم نہ کر ،تیری بارگاہ سے نسبت رکھتا ہوں تو مجھ کو دور نہ کر، اور تیرے دروازہ پر کھڑا ہوں، تو مجھ کو نہ دھتکار۔

     میرے معبود! تیری رضا و خوشنودی اس سے بھی زیادہ منزہ ہے کہ وہ تیری طرف سے کسی سبب کی محتاج ہو تو بھلا میری مرضی کسی سبب کی بنا کیوں کر ہوسکتی ہے. میرے خدا! تو اپنی ذات میں اتنا بے نیاز ہے کہ تجھے خود تجھ سے کسی نفع کی ضرورت نہیں تو بھلا مجھ سے کیوں کر بے نیاز نہیں ہوگا۔

     خدایا! قضا و قدر مجھ کو امیدوار بناتے ہیں، جبکہ خواہش نفس نے چاہت کی زنجیروں میں مجھ کو اسیر کر رکھا ہے، پس تو میرے لئے مددگار بن کر میری مدد کر، مجھ کو بصیرت عطا کر اور اپنے فضل سے مجھ کو مستغنی کر دے، یہاں تک کہ تیری وجہ سے سوال اور طلب سے مستغنی ہو جاؤں۔

     تو نے ہی اپنے اولیاء کے دلوں میں انوار کو چمکایا، یہاں تک کہ انہوں نے تجھ کو پہچانا اور تیری وحدانیت کا اقرار کیا ، اور تو نے ہی اپنے دوستوں کے دلوں سے غیروں کو محو کیا، یہاں تک کہ انہوں نے سوائے تیرے کسی اور سے محبت نہ کی اور نہ تیرے علاوہ کبھی اور کی پناہ قبول کی، جب تمام عوالم نے ان کو وحشت میں مبتلا کر دیا تو تو ان کا مونس بنا، اورجب ساری نشانیاں ان پر واضح ہوگئیں تو تو نے ہی ان کی ہدایت کی۔

    اس نے کیا پایا جس نے تجھ کو کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھ کو پالیا؟ جس نے تیرا بدل کسی اور میں تلاش کیا وہ مایوس ہوا اور جس نے تجھ سے منہ موڑا وہ گھاٹے میں رہا۔

     تیرے علاوہ کسی سے کیسے امید کی جاسکتی ہے جب کہ تو نے احسان کا سلسلہ ختم نہیں کیا، اور تیرے علاوہ کسی سے کیسے طلب کیا جاسکتا ہے جب کہ تو نے احسان کی عادت کو نہیں بدلا؟

    اے وہ ذات جس نے اپنے دوستوں کو اپنے سے مانوس ہونے کا وہ مزہ چکھایا کہ وہ تیرے سامنے منت و سماجت کے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوگئے، اور اے وہ ذات کہ جس نے جب اپنے دوستوں کو اپنی ہیبت کا لباس پہنایا تو وہ اس کے سامنے استغفار کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے، قبل اس کے کہ بندے تجھ کو یاد کریں تو بندوں کو یاد کرتا ہے، اور عابدوں کی توجہ سے پہلے تو ان پر احسان کی ابتدا کرتا ہے، تو طلبگاروں کی طلب سے پہلے سخاوت کرتا ہے،اور تو بے شمار عطا کرتا ہے پھر لطف یہ ہے جو توہمیں دیتا ہے اسی میں سے ہم سے قرض لیتا ہے۔

     میرے معبود !مجھ کو اپنی بارگاہ رحمت میں طلب کرتا کہ میں تجھ سے مل جاؤں اور مجھ کو اپنے احسان سے اپنا گرویدہ بنالے تاکہ تیری طرف توجہ کروں۔

     میرے معبود! میری امید تجھ سے منقطع نہیں ہوتی چاہے میں تیری کتنی ہی معصیت کروں اسی طرح میرا خوف نہیں ختم ہوتا چاہے میں کتنی ہی تیری اطاعت کروں، ہر عالم مجھ کو تیری طرف بلاتا ہے اور تیرے کرم کے بارے میں میرا علم مجھے تیری جانب کھینچتا ہے۔

     میرے معبود میں کیسے ناکام ہوسکتا ہوں جب کہ تو میری امید ہے، یا میں کیسے رسوا ہوسکتا ہوں جب کہ تجھ پر میرا توکل ہے؟

     خدا یا! میں کس طرح عزت کا دعویٰ کرسکتا ہوں جب کہ تونے مجھ کو ذلت میں ڈال دیا ہے یا میں کیسے عزت محسوس نہ کروں جب کہ تونے مجھ کو اپنی طرف نسبت دی ہے، خدا یا میں کیسے اپنے کو فقیر نہ سمجھوں جب کہ تو نے مجھ کو فقرا میں رکھا ہے یا میں کیسے فقیر رہوں جب کہ تو نے اپنے جود وعطا سے مجھ کو غنی بنا دیا ہے؟

     تو ایسا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو نے ہر ایک کو اپنی پہچان کرادی ہے ، پس کوئی چیز تجھ سے جاہل نہیں ہے تو ہی وہ ہے جس نے ہر چیز میں مجھ کو پہچنوایا تو میں ہر چیز میں تجھ کو ظاہر دیکھتا ہوں اور تو ہر شے کے لئے ظاہر ہے۔

     اے وہ خدا جو اپنی رحمانیت کے ساتھ قائم ہے یہاں تک کہ عرش اس کی ذات میں غائب ہے، تو نے آثار کو آثار کے ذریعے نابود کیا ہے اور اغیار کو افلاک انوار کے احاطہ میں لے کر محو کردیا ہے۔

     اے وہ خدا جو اپنے عرش کے پردوں میں اس طرح چھپا ہے کہ نگاہیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں، اے خدا جو کمال نور کے ساتھ روشن ہوا تو اس کی عظمت کا غلبہ متحقق ہوا ،توکیوں کر مخفی ہوسکتا ہے جب کہ تو ہر شیئ میں ظاہر ہے؟ یا کیوں کر غائب ہوسکتا ہے جب کہ تو ہر ایک کے اعمال کا نگہبان اور حاضر و ناظر ہے ؟بے شک تو ہر شے پر قادر ہے ،اور تمام حمد اس خدا سے مخصوص ہے جو اکیلا ہے۔

    ٢٣۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ منیٰ کے میدان میں

    حضرت کا یہ خطبہ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب ٭ کے ایسے فضائل و مناقب پر مشتمل ہے جو کسی دوسرے خطبے میں نہیں ہیں۔

    امام نے بنی ہاشم کے مردوں او رعورتوں، ان کے شیعوں، اصحاب رسول خدا ؐ، ان کے بیٹوں اور تابعین او انصار کے سات سو افراد جو نیکی و شایستگی میں مشہور تھے اور تابعین کے دوسو آدمیوں کو ایک بڑے خیمے میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا ،جب سب جمع ہوگئے تو حضرت نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا، سب سے پہلے خدا کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا:

     اما بعد: یقینا اس سرکش (معاویہ) نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اسے تم نے دیکھا ہے اور چشم دیدگواہ ہو ،میں آج تم سے ایک چیز کے بارے میں پوچھوں گا پس اگر سچ کہوں تو تم میری تصدیق کرنا اور اگر غلط کہوں تو مجھے جھٹلا دینا، میں تم سے تمہارے اوپر خدا و رسول کے حق،اور ان سے اپنی قرابت کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کہ آج کے حادثہ کو پنہاں نہ کرنا اور میرا پیغام تمام شہروں اور قبیلوں کے ان افراد تک پہنچا دینا جنہیں تم امین سمجھتے ہو اور ہمارے حق کی طرف دعوت دینا۔

    اور دوسری روایت میں اس قول ''اگر میں غلط کہوں تو مجھے جھٹلا دینا'' کے بعد اس طرح آیا ہے:

     میری تقریر سنو اور میری باتیں لکھ لو، اس کے بعد اپنے شہروں اور قبیلوں میں واپس جاؤ اور جن افراد کو قابل اطمینان و وثوق سمجھو ان کو ہمارے حق کی طرف دعوت دو کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ حق (مسئلہ ولایت) کہنہ نہ ہو جائے، مٹ نہ جائے، مغلوب نہ ہو جائے (وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَ لَو کَرِہَ الکَافِرُون)[سورہئ صف آیت٧] اور اللہ اپنے نور کو تمام کر کے رہے گا چاہے کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے۔

    راوی کہتا ہے امام (علیه السلام) نے وہ تمام آیتیں جو اہل بیت پیغمبر(ص)کے بارے میں نازل ہوئیں تلاوت فرمائیں. اور ان آیات کی تفسیر بیان فرمائی اور اسی طرح جو کچھ پیغمبر(ص)نے آپ کے والد، والدہ، بھائی اور خود آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا سب بیان کیا، ان تمام باتوں کے جواب میں اصحاب کہہ رہے تھے خدا کی قسم ایسا ہی ہے، اور تابعی کہہ رہے تھے کہ: مجھ سے رسول خدا(ص)کے ان اصحاب نے روایت کی ہے جن کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور جو ثقہ اور امین ہیں۔

     اس وقت امام (علیه السلام) نے فرمایا: میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں ! میری باتیں صرف ان لوگوں کو بتانا جو خود دین و ایمان کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔

    سلیم کہتے ہیں امام (علیه السلام) نے جن بعض امور کی نسبت انہیں قسم دلائی اور بیان فرمایا وہ اس طرح ہیں:

تمہیں خدا کی قسم ،کیا تم جانتے ہو کہ جب پیغمبر خدا(ص)نے اپنے اصحاب کے درمیان عقد مؤاخات قائم کیا تو علی بن ابی طالب (علیه السلام) رسول خدا(ص)کے بھائی قرار پائے؟ پیغمبر(ص)نے اپنے اور علی (علیه السلام) کے درمیان عقد مؤاخات جاری کیا اور فرمایا: تم میرے بھائی ہو اور میں دنیا و آخرت میں تمہارا بھائی ہوں۔

     سب نے کہا ہاں خدا کی قسم ایسا ہی تھا۔

     آپ نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص)نے اپنے گھر اور مسجد کی جگہ کو خریدا ،پھر اس کی تعمیر کی اور اس میں دس کمرے بنائے، نو (٩) کمرے اپنے واسطے اور دسواں کمرہ میرے والد گرامی کے لئے اس مکان کے بیچ میں بنایا، اس کے بعد میرے بابا کے حجرے کے دروازے کے علاوہ ان سارے دروازوں کو بند کر دیا جو مسجد میں کھلتے تھے، اس پر لوگوں نے خوب چہ میگوئیاں کیں، تو رسول خدا(ص)نے فرمایا: میں نے نہ تمہارے دروازوں کو بند کیا ہے اور نہ علی کے دروازہ کو کھولا ہے ،بلکہ خدا نے مجھے تمہارے حجروں کے دروازوں کو بند کرنے اور علی کے حجرہ کے دروازہ کو کھلا رکھنے کا حکم دیا ہے، پھر علی (علیه السلام)کے علاوہ سب کو مسجد میں سونے سے منع کیا، علی (علیه السلام) مسجد میں سوتے تھے مسجد میںہی مجنب ہوتے تھے اور آپ کا گھر رسول خدا(ص)کے گھر میں تھا جہاں آپ کے اور علی ؑ کے بچوں کی پیدائش ہوئی۔

    سب نے کہا ہاں خدا کی قسم ایسا ہی تھا۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ ان کے گھر سے مسجد میں ایک آنکھ کے دیکھنے بھر کا سوراخ کھلا رہے لیکن رسول خدا(ص)نے انہیں اس کی بھی جازت نہیں دی، پھر آپ(ص)نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ایک پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں جس میں میرے، میرے بھائی اور ان کی اولاد کے علاوہ کوئی دوسرا سکونت اختیار نہ کرے۔

    سب نے کہاں ہاں خدا کی قسم ایسا ہی تھا۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں! کیا تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ(ص) نے علی (علیه السلام) کو روز غدیر خم امامت پر منصوب فرمایا اور لوگوں کو ولایت علی (علیه السلام) کی دعوت دی اور فرمایا جو لوگ یہاں حاضر ہیں وہ (اس امر ولایت) کو غائب تک پہنچائیں؟

     سب نے کہا ہاں خدا کی قسم ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں! کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول اللہ(ص)نے جنگ تبوک میں علی (علیه السلام) کے لئے فرمایا: تم میرے لئے ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰؑ کے لئے تھے اور تم میرے بعد ہر مومن کے سرپرست ہو؟

     سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں! کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب رسول اللہؐ نے نصاریٰ نجران کو مباہلہ کی دعوت دی تو رسول اللہ(ص)نصاریٰ نجران سے مباہلہ کے لئے صرف علی، ان کی زوجہ اور ان کے دونوں بیٹوں کو لے کر گئے تھے؟

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ خیبر میں رسول اللہؐ نے علم علی ؑ کو دے کر فرمایا: کہ میں ایسے شخص کو علم دے رہا ہوں جس سے اللہ اور اس کے رسول دونوں محبت کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے جو کرار یعنی بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے، فرّار یعنی پیٹھ پھیر کر میدان جنگ سے بھاگنے والا نہیں، خداوند عالم اس کے ہاتھوں اسلام کو فتح دے گا۔

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا(ص)نے میرے والد کو سورہئ برائت دے کر مشرکین کے درمیان تبلیغ کے لئے بھیجا اور فرمایا کہ اس پیغام کو میرے یا میرے اہلبیت کے علاوہ کوئی دوسرا نہ پہنچائے ؟

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا کو کوئی مشکل پیش آتی تھی تو علی (علیه السلام) کو اس کے مقابلے کے لئے بھیجتے تھے، اور یہ صرف آپ پر مکمل بھروسہ کی وجہ سے تھا، اور یقینا تم لوگ جانتے ہو کہ میرے باپ کو کبھی رسول خدا(ص)نے نام لیکر نہیں بلایا بلکہ فرماتے تھے اے میرے بھائی یا فرماتے تھے میرے بھائی کو میرے پاس بلاؤ؟

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

     آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا(ص)نے میرے بابا اور جعفر و زید کے درمیان فیصلہ کیا اور فرمایا: یاعلی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور تم میرے بعد ہر مومن کے ولی اور سرپرست ہو؟

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میرے بابا ہر روز رسول خدا(ص)کے ساتھ بلاشرکت غیرے راز دارانہ گفتگو کرتے تھے اور ہر شب ان کی رسول اللہ(ص)کے ساتھ خصوصی نشست ہوتی تھی، اس طرح کہ جب میرے بابا رسول خدا(ص)سے سوال کرتے تھے تو نبی اکرم(ص)اس کا جواب دیتے تھے اور جب میرے والد خاموش ہوجاتے تھے تو نبی خدا اپنی طرف سے کلام کا آغاز کرتے تھے؟ سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول اللہ ؐنے جعفر و حمزہ پر میرے بابا کو فوقیت و فضیلت بخشی. جب فاطمہ زہرا٭ سے فرمایا: اے فاطمہؐ! میں نے تمہاری شادی اپنے اہلبیت ؑکی سب سے اچھی ہستی سے کی ہے جو سب سے پہلے اسلام لانے والا، حلم و بردباری میں سب سے عظیم اور علم و دانش کے لحاظ سے سب سے بلند ہے ؟

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو رسول خدا(ص)نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سید و سردار ہوں، اور میرا بھائی علی سید عرب ہے اور فاطمہ بہشت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔

اور میرے دونوں بیٹے حسن و حسین ٭ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا.

آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول خدا(ص)نے حکم دیا تھا کہ مجھے علی غسل دیں اور رسول اللہ(ص)نے میرے والد کو خبر دی تھی کہ جبرئیل غسل دینے میں ان کی مدد کریں گے۔

    سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے کہ رسول خدا(ص)نے اپنی حیات کے آخری خطبہ میں فرمایا تھاکہ میں نے تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑی ہیں، کتاب خدا اور میرے اہلبیت(علیهم السلام)، لہٰذا اگر تم ان دونوں سے متمسک رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے؟

     سب نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔

    راوی کہتا ہے کہ حضرت سید الشہداء (علیه السلام) نے اہلبیت(علیهم السلام)، خصوصاً علی (علیه السلام) کے فضائل بیان کئے، آپ نے علی و اہلبیت(علیهم السلام)کے فضائل کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا جو ان کے سامنے بیان نہ کیا ہو اور لوگوں کو اس پر گواہ نہ بنایا ہو، اور اصحاب بھی کہتے تھے خدا کی قسم ہاں ہم نے ایسے ہی سنا ہے اور تابعین کہتے تھے فلاں بن فلاں نے جو ہمارے معتمد و معتبر ہیں ہم سے اسی طرح حدیث نقل کی ہے

    حضرت نے لوگوں کو گواہ بنا کے پوچھا ،کیا تم لوگوں نے پیغمبر(ص)کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اس زعم میں ہو کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور علی (علیه السلام) سے کینہ و عداوت رکھتا ہے تو اس کا دعوائے محبت جھوٹا ہے، جو شخص علی (علیه السلام) سے بغض و عناد رکھے وہ مجھ سے محبت نہیں کرسکتا، کسی نے ایسے حساس موقع پر رسول اللہ(ص)سے سوال کیا.یا رسول اللہ اس کا راز کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: کیونکہ علی ؑ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں، جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھے دوست رکھا اس نے خدا کو دوست رکھا اور جو علی ؑ کو دشمن رکھے اس نے مجھے دشمن رکھا اور جس نے مجھے غضبناک کیا یقینا اس نے خدا کو غضبناک کیا؟

    سب نے کہا ہاں، ہم نے رسول خدا(ص)سے اسی طرح سنا ہے۔

    اس کے بعد حضرت نے خطبہ تمام کیا اور مجمع متفرق ہوگیا۔

٢٤ ۔ امام (علیه السلام) کی دعا (بارش کے لئے)

    جب کوفہ والے مولائے کائنات کے پاس بارش کی کمی کی شکایت لیکر آئے اور کہا مولا ! ہمارے لئے خدا سے نزول باراں کی دعا کیجئے تو آپ نے اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) سے فرمایا: بیٹے اٹھو اور ان کے لئے خدا سے بارش کی دعا کردو تو امام حسین (علیه السلام) اٹھے خدا کی حمد و ثنا کی اور نبی رحمت پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا:

     الے اللہ! اے خیرات عطا کرنے والے اور اے برکتوں کے نازل کرنے والے ! ہمارے اوپر باران رحمت نازل کر، اور ہمیں پانی کے چھلکتے وسیع و عریض بادل سے سیراب کر تاکہ تیرے ضعیف بندے راحت کی سانس لیں اور تیری مملکت کی مردہ زمینوں میں جان پڑ جائے۔

آمین یا رب العالمین

٢٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرسے متعلق

    اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے اولیاء کو علمائے یہود کی سرزنش کرتے ہوئے جو نصیحت کی ہے اس سے عبرت حاصل کرو، وہ فرماتا ہے: (لَولاَ یَنھٰھُم الرَّبَّانِیُّونَ وَ الأَحبَارُ عَن قَولِھِم الأثم)[سورہئ مائدہ آیت ٦٣] آخر اللہ والے اور علماء ان کو جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے، اور ارشاد فرمایا: (لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن بَنِی اِسرَائِیل ...لَبِئسَ مَاکَانُوا یَفعَلُون)[سورہئ مائدہ آیت٧٨و٧٩]بنی اسرائیل میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر جناب داؤد اور جناب عیسیٰ کی زبان سے لعنت کی جاچکی ہے کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور ہمیشہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے، انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے، اور خدا نے ان کے اس کرتوت پر انہیں معیوب ٹھہرایا کہ وہ ظالموں کو گناہ کرتے اور فساد کرتے ہوئے دیکھتے تھے مگر ان کے مال و اسباب کی لالچ، ان کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ان کو ظلم و ستم کرنے سے روکتے نہیں تھے. حالانکہ خدا نے حکم دیا ہے: (فَلاَ تَخشَوُو النَّاسَ وَ اخشَون)ِ[سورہئ مائدہ آیت ٤٤] تم ان لوگوں سے نہ ڈرو صرف ہم سے ڈرو. اور ارشاد فرمایا: (وَ المُومِنُونَ وَ المُومِنَاتِ بَعضُھُم اَولِیاءُ بَعضٍ یَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَ یَنہَونَ عَنِ المُنکَر)[سورہئ توبہ آیت ٧١] مومن مرد اور مومنہ عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کیونکہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں. پس خداوند عالم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ابتدا اپنا فریضہ قرار دیتے ہوئے خود فرمائی ،کیونکہ خدا کو معلوم ہے کہ اگر یہ دونوں فریضے ادا ہو جائیں تو تمام واجبات ادا ہو جائیں گے خواہ مشکل ہوں یا آسان، حقیقت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی دعوت کے ساتھ دوسروں کے حقوق کی ادائے گی، ظالم کی مخالفت، مال غنیمت و بیت المال کی تقسیم، مواضع زکات سے زکات کی جمع آوری اور مستحقین تک ان کے حقوق ادا کرنے کو کہتے ہیں۔

    پھر اے وہ صاحبان علم جو علم میں شہرت یافتہ ہو، کار خیر میں معروف ہو، وعظ و نصیحت کرنے میں مشہور ہو، تمہاری ہیبت لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے اور یہ ہیبت خدا کی عطا کردہ ہے جس سے شریف انسان متاثر ہوتے ہیں اور ضعیف و ناتواں افراد تمہاری عزت کرتے ہیں، اور تمہیں اس پر ترجیح دیتے ہیں جن پر تمہیں کوئی فضیلت نہیں ہے، لوگوں کی وہ مانگیں جن کو مسؤلین پورا کرنے سے کتراتے ہیں تم ان سے سفارش کرکے دلواتے ہو، تمہاری چال بادشاہوں اور بزرگوں کی طرح ہوتی ہے، کیا یہ سب چیزیں جن تک تم پہنچے ہو ایسی نہیں ہیں کہ جن کے بعد تم سے امید کی جائے کہ تم حقوق اللہ کو پورا کرو گے؟ اگر چہ تم اکثر حقوق الہٰی کی ادائےگی میں کوتا ہی کرتے ہو، تم نے ائمہ کے حقوق کو ہلکا سمجھا، کمزور و ناتواں افراد کے حقوق کو پامال کر ڈالا اور اپنے زعم ناقص میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرلیا نہ تم نے کوئی مال خرچ کیا، نہ راہ خدا میں جان کا نذرانہ دیا اور نہ ہی اپنے قبیلہ اور خاندان والوں کو خدا کے لئے خطرہ میں ڈالا۔

    تم خدا سے جنت، اس کے رسول کی ہمسائے گی اور اس کے عذاب سے امان کی تمنا لگائے بیٹھے ہو جب کہ اے خدا سے امید لگانے والو! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر عذاب الہٰی نازل نہ ہو جائے کیوں کہ عنایات پروردگار کے طفیل تم ایسی منزل پر پہنچے ہو جس کے ذریعے خدا نے تمہیں فضیلت بخشی ہے، اور کتنے ہی ایسے اللہ والے ہیں جن کی تم عزت نہیں کرتے ،جب کہ تم بفضل خدا بندگان خدا میں محترم ہو، تم اپنی آنکھوں سے عہد و پیمان الہٰی ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں ذرہ برابر خوف نہیں ہے! جبکہ تم اپنے آباء و اجداد کے بعض عہد و پیمان کے ٹوٹنے پر خوف زدہ ہواور رسول(ص)کے عہد و پیمان کو حقیر سمجھا جا رہا ہے؟ اندھے، گونگے، اپاہچ اور زمیں گیر افراد شہروں میں بے یاور و مددگار ہوکر رہ گئے ہیں جن پر کوئی رحم کھانے والا نہیں ہے، تم نہ تو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہواور نہ ہی کسی کام کرنے والے کی مدد کرتے ہو، بلکہ ظالموں کی چاپلوسی اور خوشامد کے ذریعے خود کو آسودہ رکھتے ہو۔

    یہ وہ باتیں ہے جن سے خدا نے تمہیں باز رہنے اور دوسروں کو بھی باز رکھنے کا حکم دیا ہے جب کہ تم اس سے غافل ہو، تمہاری سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ تم نے سلاطین زمانہ اور حکام وقت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور ان کے تابع ہوگئے جبکہ یہ علماء کے شایان شان نہیں ہے، علماء کا مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے. اے کاش تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے کہ تمام امور و احکام ان علما کے ذمہ ہوتے ہیں جو حلال و حرام خدا کے امین ہوتے ہیں. لیکن تم سے یہ مقام اور عہد ہ چھین لیا گیا ہے. اور یہ عہدہ تم سے اس لئے سلب کیا گیا ہے کہ تم حق کو چھوڑ کر متفرق ہوگئے ہو، اور واضح دلیل کے ہوتے ہوئے سنت پیغمبر(ص)میں اختلاف کا شکار ہوگئے ہو، اگر تم راہ خدا میں شدائد و مشکلات میں صبر کرتے تو امور پروردگار پھر تمہارے پاس واپس آجاتے اور تمہاری جانب سے صادر ہوتے، اور تم تمام لوگوں کے مرجع بن جاتے، لیکن تم نے اپنی مسند پر ان ظالموں کو بٹھایا اور امور الہٰی کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیدی جو لاپروائی سے شبہات پر عمل کرتے ہیں، شہوتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، موت سے فرار اور تمہاری دنیا سے وابستگی کہ جس سے عنقریب تمہارا دل اوب جائے گا، سبب بنی کہ تم نے کمزور لوگوں کو ان کے حوالے کر دیا تاکہ وہ لوگ بعض کو اپنا غلام، اور بعض کو ایک لقمہ روٹی کی خاطر اپنا نوکر بنالیں.

جو حکومت چلانے میں اپنی من مانی کرتے ہیں اور اشرار و گنہگاروں کی طرح ہوس رانی کا شکار ہیں، اور خدا کے سامنے گناہ کرنے میں جری ہیں.ہر شہر میں ان کا ایک خطیب ہوتا ہے جس کا اثر پوری سر زمین اسلامی پر قائم ہے، ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور بے حساب خرچ کرتے ہیں اور لوگ ان کے ایسے غلام ہیں کہ ان کے خلاف بولنے تک کی جرأت نہیں کرتے، ناتواں اور کمزور لوگوں پر بعض ایسے جابر و ظالم حکمراں مسلط ہیں جو نہ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں اور نہ ہی معاد سے ڈرتے ہیں۔

    تعجب ہے ان حالات پر اور میں کیونکر نہ تعجب کروں ،جب کہ اسلامی سرزمین ،مکار ظالم، ٹیکسوں میں سخت گیری کرنے والے اور بے رحم حکام کی زد میں ہے، ان معاملات میں خدا ہی ہمارے اور ان کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے۔

    بار الہٰا! تو خود جانتا ہے کہ ہمارا قیام بادشاہوں سے دنیاوی رقابت اور دنیا داری کی بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ دنیا میں تیرے دین کی نشانیاں دیکھیں، تیری زمین پر اصلاح و خوشبختی کو رواج دیں اور تیرے مظلوم بندے آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کریں. اور تیرے فرائض و واجبات اور اسلامی سنتوں پر عمل ہو، لہٰذا تم لوگ ہماری مدد کرو اور ہمارے ساتھ ہو جاؤ ،اب بھی ستمگاروں کا تسلط تمہارے اوپر ہے اور وہ تمہارے نبی ؐکے نور کو بجھا دینا چاہتے ہیں (اگر تم ہماری مدد نہیں کرو گے) تو خدا ہمارا یارو مددگار ہے اور ہم اس پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اسی کی طرف ہماری بازگشت ہے (وَ اِلَیہِ المَصِیر)[سورہئ مائدہ آیت ١٨] اورتمام امور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں۔

٢٦۔ امام (علیه السلام) کا کلام حضرت عمر بن خطاب سے احتجاج کرتے ہوئے

    یہ اس موقع کی بات ہے کہ جب عمر، منبر رسول(ص)پر بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے تو انہوں نے اپنے خطبے میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ وہ مومینن کے نفسوں پر ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہیں (ان کے مولا ہیں) تو حضرت سید الشہداء (علیه السلام) گوشہئ مسجد سے اٹھے اور فرمایا:

    اے جھوٹ بولنے والے ! میرے نانا کے منبر سے اترو یہ تمہارے باپ کا منبر نہیں ہے۔

    تو عمر نے کہا اے حسین ! یقینا یہ منبر تمہارے باپ کا ہے میرے باپ کا نہیں ہے مگر یہ بتاؤ کہ یہ تم کو کس نے سکھایا، کیا تمہارے باپ علی (علیه السلام) نے سکھایاہے؟

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: اگر میں اپنے بابا کے فرمان کی اطاعت کروں تو یقینا ان کا حکم میرے لئے مشعل راہ ہے جس کے ذریعہ میں راہ ہدایت پر گامزن ہوں، اور میرے پدر بزرگوار ہی ہیں جن کی لوگوں نے زمانہئ پیغمبر(ص)میں بیعت کی تھی، ان کا حق بیعت اب بھی لوگوں کی گردنوں پر ہے، جبرئیل بیعت کا حکم اللہ کی طرف سے لائے تھے اس کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا سوائے اس کے جو کتاب خدا کا منکر ہو جائے، لوگ اپنے دلوں کی گہرائیوں سے اس کو جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن زبان سے انکار کرتے ہیں۔ پس ہم اہل بیتؑ کے حق کا انکار کرنے والوں پر وائے ہو، یہ لوگ روز قیامت رسول خدا(ص)سے کیسے ملاقات کریں گے جب کہ حضرت(ص)ان لوگوںسے ناراض اور سخت غضبناک ہوں گے!

    عمر نے کہا اے حسین ! جو شخص تمہارے باپ کے حق کا انکار کرے اس پر خدا کی لعنت ہو، یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں اپنا امیر بنایا تو ہم ان کے امیر بن گئے، چنانچہ یہ لوگ اگر تمہارے کے پدر بزرگوار کو امیر بناتے تو ہم ان کی اطاعت کرتے۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! کن لوگوں نے تمہیں اپنا امیر بنایا ہے؟ تم نے ابوبکر کو اپنا امیر بنایا تاکہ وہ تم کو اپنے بعد بے چون و چرا لوگوں کا امیر مقرر کر دے، جب کہ تمہاری امارت سے نہ اہل بیت(علیهم السلام)راضی تھے اور نہ اس پر پیغمبر(ص)کی کوئی دلیل تھی، کیا تمہاری موافقت و رضایت سے پیغمبر(ص)راضی ہو جائیں گے؟ اور کیا اہل بیت ٪کی خشنودی ان کی نارضگی کا باعث ہوگی؟

    خدا کی قسم اگر بولنے والی زبان اور مومنین کی پشتپناہی ہمارے ساتھ ہوتی تو تمہاری مجال نہ تھی کہ تم اہلبیت ٪کے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیتے ،اور ان پر نازل ہونے والی کتاب سے حکم لگاتے ،وہ کتاب ایسی ہے کہ جس کے نہ پیچیدہ مطالب تمہاری سمجھ میں آسکتے ہیں اور نہ اس کی تاویل، تم صرف اس کو سن سکتے ہو، خطا کار اور صحیح راستے پر چلنے والے تمہارے نزدیک برابر ہیں. پس خدا تمہیں اس کا بدلہ دے اور تم سے سخت باز پرس کرے۔

    یہاں مولا کا کلام تمام ہوگیا۔

    پھر راوی نے اس مقام پرحضرت علی (علیه السلام) اور حضرت عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا ہے جس کو یہاں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے. جو مزید اطلاعات و معلومات حاصل کرنا چاہتا ہو وہ ابن عساکر کی تاریخ کبیر یا احتجاج طبرسی کی طرف رجوع کرے۔

٢٧۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ عراق کی جانب روانگی کے موقع پر

    آپ خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں، کوئی ارادہ اور کوئی قوت خدا کے علاوہ نہیں ہے، اولاد آدم کے لئے موت جوان عورت کے گلوبند کی طرح ہے، مجھے اپنے آباء او اجداد کے دیدار کا شوق، یعقوب (علیه السلام)کے یوسف (علیه السلام)کے دیدار کے شوق کی طرح ہے. میرے مقتل کا انتخاب ہوچکا ہے جس کا میں منتظر ہوں، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ نوامیس و کربلا کے درمیان میں جنگلی بھیڑیئے میرے اعضاء بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں تاکہ اپنے بھوکے پےٹ کو سیر کر سکیں. کاتب تقدیر نے انسان کے واسطے جو مقدر کر دیا ہے اس سے گریز ممکن نہیں۔

    خدا کی مرضی ہم اہل بیت ٪کی مرضی ہے، ہم امتحان الہٰی میں صبر کرتے ہیں اور روز قیامت وہ ہمیں جزا عطا فرمائے گا، پیغمبر(ص)کا پارہئ تن کبھی بھی ان سے جدا نہیں ہوگا بلکہ جنت میں ان سے ملحق ہو جائے گا، رسول خدا(ص)کی آنکھ ان کے اہل بیت(علیهم السلام)سے ٹھنڈی ہوگی اور اپنے اہلبیت سے کئے وعدے پورے کریں گے، ہاں! آگاہ ہو جاؤ جو شخص ہماری راہ میں اپنے خون کا نذرانہ دینے اور اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے کے لئے آمادہ ہے وہ ہمارے ساتھ آئے کیونکہ میں کل صبح عراق کی جانب کوچ کرنے والا ہوں انشاء ا...

٢٨ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام عراق کی جانب روانگی کے موقع پر

    حضرت نے ابن عباس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:

    اس قوم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو، جس نے اپنے نبی(ص)کی دختر کے بیٹے کو اس کے وطن اور اس کے نانا کے حرم سے دور کر دیا، اور ان کو خوفزدہ اور دہشت کے عالم میں چھوڑ دیا اور ان کی جان لینے اور ان کا خون بہانے کے درپے ہوگئے جب کہ اس نے نہ خدا کا کسی کو شریک قرار دیا اور نہ ہی کسی گناہ کا مرتکب ہوا۔

    جناب ابن عباس نے حضرت (علیه السلام) سے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! اے حسین! اگر آپ کا کوفہ کی طرف جانا ناگزیر ہی ہے تو کوئی حرج نہیں آپ جائیے لیکن کم از کم بچوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ نہ لے جائیے۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: اے ابن عم! میں نے اپنے نانا رسول خدا(ص)کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اہل بیت کو ساتھ لیجاؤں. لہٰذا اس کی مخالفت مجھ سے ممکن نہیں ہے۔

٢٩۔ امام (علیه السلام) کا کلام فرزدق سے

    فرزدق نے حضرت سید الشہداء (علیه السلام) سے پوچھا کہ آپ نے حج کئے بغیر نہایت عجلت میں مکہ کو کیوں چھوڑ دیا؟

    تو حضرت نے فرمایا: اگر میں حج سے منصرف ہونے اور مکے سے نکلنے میں جلدی نہ کرتا تو گرفتار کر لیا جاتا۔

     پھر آپ نے کوفہ کے لوگوں کے حالات دریافت کئے تو فرزدق نے کہا ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں اس پر آپ نے فرمایا:

 (لِلّٰہِ الأَمرُ مِن قَبلُ وَ مِن بَعد)[سورہئ روم آیت٤] یعنی گذشتہ اور آئندہ کے تمام امور خداوند عالم کے ہاتھ میں ہیں ''اور اس کے قبضہئ قدرت میں ہیں'' اور ہرروز ہمارے پروردگار کی نئی شان ہے، اگر قضا و قدر الہٰی ہماری محبوب و دلخواہ چیزوں پر سایہ فگن ہے تو ہم اس کی نعمتوں کے مقابلے میں شکر ادا کرتے ہیں، وہ ادائے شکر پر بندوں کی مدد کرتا ہے اور اگر قضا و قدر پروردگار ہماری امید و خواہشات کے خلاف بھی ہو تو جس کی نیت حق پر، اور سیرت تقویٰ پر استوار ہو وہ اپنی خواہشات کے سبب ہرگز اپنے پروردگار سے دور نہیں ہوسکتا۔

    پھر فرزدق نے حضرت کو سلام کیا اور دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔

٣٠۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ (منزل ذی حسم میں)

    آپ نے یہ خطبہ ''ذی حسم'' نامی جگہ پر اس وقت ارشاد فرمایا: جب حر بن یزید ریاحی اور اس کے ساتھیوں نے امام (علیه السلام) کو کوفہ میں داخل ہونے اور مدینے واپس جانے سے روکا تو حضرت نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

    اے لوگو! میں خدا کے حضور اور تم لوگوں کے سامنے معذور ہوں، میں خود تمہارے پاس نہیں آیا ہوں، بلکہ تمارے ان خطوط کی بنا پر آیا ہوں جو تم نے میرے پاس ارسال کئے تھے اور جس میں تم نے لکھا تھا کہ ہمارا کوئی امام اور پیشوا نہیں ہے لہٰذا آپ تشریف لائیں تاکہ شاید خداوند متعال آپ کے ذریعہ ہمیں ہدایت دے، اب میں تمہارے درمیان آگیا ہوں اگر اپنا کیا وعدہ پورا کرو گے تو تمہارے پاس رہوں گا اور اگر اپنا وعدہ پورا نہیں کرو گے یا میرا آنا تمہیں ناپسند ہے تو میں مدینے واپس چلا جاؤں گا کہ جہاں سے آیا ہوں۔

٣١۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ منزل ''ذی حسم'' میں

    ''ذی حسم'' نامی پہاڑی پر حضرت کا یہ دوسرا خطبہ ہے جو آپ نے نماز ظہر کے بعد ارشاد فرمایا کہ جس میں حر او ران کے ساتھیوں نے آپ کی اقتدا کی تھی ،حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

    اما بعد: اے لوگو! اگر تم تقوائے الہٰی اختیار کرو گے اور اہل حق سے حق کی معرفت حاصل کروگے تو خشنودی خدا کا باعث ہوگا ، اور جان لو کہ ان یزیدیوں اور بنی امیہ کے مقابلہ میں، جو لوگوں پرزبردستی حکومت کر رہے ہیں، کہ جس کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، ہم اہلبیت پیغمبر ؐزیادہ بہتر اور مناسب ہیں، چنانچہ اگر تم ہمارے آنے سے ناخوش ہواور ہمارے حق کے بارے میں جہالت کے شکار ہو، اور اب اپنے خطوط میں لکھی ہوئی باتوں کے سلسلے میں تمہارا نظریہ بدل گیا ہے تو میں واپس چلا جاؤں گا۔

٣٢ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام''رہیمہ میں ''

    منزل ''رہیمہ'' پر ایک مشہور آدمی ''ابوہرم'' نے حضرت سے سوال کیا کہ اے فرزند رسولؐ! کس بنا پر آپ اپنے جد بزرگوار کے حرم سے نکل رہے ہیں؟تو حضرت نے جواب دیا۔

     اے ابوہرم!حقیقت یہ ہے کہ بنی امیہ نے میرے اموال و اسباب

لوٹ لئے، میری عزت کا خیال نہ کیا ،اس کے باوجود میں نے صبر کیا ،

یہ لوگ میرا خون ناحق بہانا چاہتے تھے مگر میں نے ان کے چنگل سے اپنے کو آزاد کر لیا، اور خدا کی قسم ! مجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور خدا انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، ننگی او رتیز کاٹنے والی تلوار، ان کے سر پر مسلط کرے گا اور ان کے اوپر ایسے لوگوں کو مسلط کرے گا جو ان کو قعر مذلت میں ڈالدیں گے یہاں تک کہ یہ لوگ قوم سبا سے زیادہ ذلیل و رسوا ہوں گے کہ جس قوم پر عورت حکومت کرتی تھی اور ان کے جان و مال پر اس کی پوری حکمرانی تھی۔

٣٣۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ''منزل زبالہ'' پر کوفہ والوں کی غداری کے بارے میں

     حضرت زبالہ میں لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے خدا کی حمد و ثنا کی اور پیغمبر(ص)پر درود بھیجا پھر فرمایا:

    اے لوگو! تم سوچتے ہو میں نے تمہیں اس لئے اکٹھا کیا ہے کہ عراق کی حکومت میرے قبضے میں ہے حالانکہ میرے چچا زاد بھائی مسلم ابن عقیل کی شہادت کی ناگوار خبر مجھ تک پہنچ چکی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے گروہ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے لہٰذا جو تلواروں کی گرمی اور نیزوں کی سختی برداشت کرسکتا ہو وہ میرے ساتھ آئے ورنہ واپس چلا جائے۔

٣٤۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ ایک مقام پر جس کا نام بیضہ ([1]) ہے

منزل ''بیضہ'' پر آپ نے حر اور اس کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے خطبہ دیا، حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

    اے لوگو! یقینا رسول خدا(ص)نے فرمایا ہے ''جو شخص ظالم و جابر حاکم کو اس حال میں دیکھے کہ وہ حرام الہٰی کو حلال کر رہا ہو، عہد و پیمان الہٰی کو توڑ رہا ہو، سنت پیغمبر(ص)کا مخالف ہو، اور بندگان خدا کے درمیان گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہو تا ہو اور وہ شخص اس حاکم کا اپنے قول و فعل کے ذریعہ مقابلہ نہ کرے تو خداوند عالم کو حق ہے کہ اس کو اسی حاکم کے ساتھ جہنم میں ڈال دے۔

    آگاہ ہو جاؤ! بنی امیہ شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں، اور اطاعت رحمن کو چھوڑ دیا ہے، فساد پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے حدود و احکام الہٰی کو معطل کر دیا ہے، اور بیت المال کو اپنی جاگیر بنا لیا ہے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر رہے ہیں ،میں دوسروں کی بہ نسبت اپنے کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا مقابلہ کروں جنہوں نے احکام الہٰی کو بدل ڈالا ہے مجھے تمہارے خطوط ملے اور تمہارے نمائندے بھی میرے پاس آئے، تم نے مجھ سے بیعت کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی کہ مجھ کو تنہا نہ چھوڑو گے، چنانچہ اگر تم (مجھ سے) اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کرو گے تو کمال و سعادت کی منزل پر فائز ہوگے، کیونکہ میں حسین ابن علی ،رسول خدا(ص)کی دختر حضرت فاطمہ زہرا (س) کا بیٹا ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں اور میرا خاندان بھی تمہارے خاندان کے ساتھ ہے، میں تمہارے لئے بہترین نمونہ اور اسوہ ہوں، چنانچہ اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیا اور مجھ سے اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ دیا اور میری بیعت کے قلادہ کو اپنی گردنوں سے اتار دیا

تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی کیونکہ تم نے میرے بابا علی بن ابی طالب (علیه السلام) اور میرے بھائی حسن اور میرے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ٪سے بھی عہد شکنی کی ہے، جو شخص تم پر اعتماد کرے وہ دھوکے میں ہے پس تم نے اپنی خوشبختی و سعادت کو بدبختی سے بدل دیا ہے اور اپنا نصیب کھو دیا ہے، (وَمَن نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہِ) [سورہئ فتح آیت ١٠] ''جو شخص عہد شکنی کرتا ہے در واقع وہ اپنے کو نقصان میں ڈالتا ہے'' اور خدا مجھے تمہاری مدد سے بے نیاز کر دے گا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

٣٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ دنیا کی بے وفائی سے متعلق

    حضرت نے حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

     جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے تم اس کا مشاہدہ کر رہے ہو، بیشک دنیا بدل گئی ہے اور اس نے اپنا بھیس بھی بدل ڈالا ہے، دنیا کی نیکیوں نے اپنا منہ موڑ لیا ہے، ان میں سے جو کچھ بچا ہے وہ برتن میں بچے ہوئے جھوٹے پانی سے زیادہ نہیں ہے. کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے؟ ایسے حالات میں مومن کو لقائے پروردگار کا مشتاق ہونا چاہئے اور یقینا ایسے حالات میں میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو بدبختی سمجھتا ہوں۔

٣٦۔ امام (علیه السلام) کی دعا (بنی امیہ کی شکایت میں)

    حضرت سید الشہداء (علیه السلام) جب کربلا میں وارد ہوئے تو اپنے بیٹوں، بھائیوں اور اہل بیت(علیهم السلام)کو جمع کیا اور انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر کچھ دیر روئے پھر فرمایا:

    خدا یا ! ہم تیرے نبی محمد مصطفی(ص)کی عترت ہیں، ہم کو زبردستی ہمارے نانا رسول خدا(ص)کے حرم سے نکالا گیا، اور بزور ہم سے ہمارا وطن چھڑا یا گیا، اور بنی امیہ نے ہم پر ظلم و ستم کیا، خدا یا ! تو ان سے ہمارا حق لے اور ظالم قوم کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔

٣٧۔ امام (علیه السلام) کا کلام اپنے اصحاب سے اپنی شہادت و رجعت کو بیان کرتے ہوئے

    حضرت نے فرمایا: رسول خدا(ص)نے مجھ سے فرمایا ہے: کہ بیٹا تمہیں عراق کی طرف لے جایا جائے گا، یہ وہ سر زمین ہے جس کو انبیاء اور ان کے اوصیاء نے دیکھا ہے، اس کو ''عمورا'' کہا جاتا ہے اور یہاں تم کو شہید کر دیا جائے گا، اور تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے ان اصحاب با وفا کو جو تیروں اور تلواروں سے نہیں ڈریں گے شہید کیا جائے گا. اور حضرت نے اس آیہئ کریمہ کی تلاوت کی (قُلنَا یَا نَارُ کُونِی بَرداً وَ سَلاَماً عَلَی اِبرَاھِیم) [سورہئ انبیاء آیت٦٩] ہم نے کہا اے آگ ابراھیم کے لئے ٹھنڈی ہو جا تاکہ ابراہیم سلامت رہیں، جنگ تم پر اور تمہارے ساتھیوںپر سلامتی و امن کا پیغام ہوگی۔

    تمہیں مبارک ہو ! خدا کی قسم اگر ان ظالموں نے ہمیں شہید کر دیا تو ہم اپنے نبی(ص)کے پاس پہنچ جائیں گے، پھرجب تک خدا کا ارادہ ہوگا حضور(ص)کے ساتھ رہیں گے اور میں پہلا شخص ہوں گا جو اسی طرح قبر سے نکل کر قیام کروں گا جس طرح میرے پدر بزرگوار امیر المومنین (علیه السلام) نے قیام کیا اور جس طرح ہمارا قائــم (امام زمانہ عج) قیام کرے گا اور اپنے نانا رسول خدا(ص)کی طرح زندگی بسر کروں گا. پھر میرے پاس خدا کی طرف سے آسمان سے فرشتوں کا ایک گروہ آئے گا جو اس سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا اور میرے لئے جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اور فرشتوں کی ایک فوج نازل ہوگی۔

    پھر آپ نے فرمایا:

    ہمارا کوئی شیعہ ایسا نہ ہوگا جو قبر سے نہ اٹھایا جائے اور خداوند عالم ہر شیعہ کے پاس ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کے چہرے سے مٹی صاف کرے گا اور جنت میں ان کی بیویوں اور گھروں کو پہچنوائے گا اور روئے زمیں پر کوئی اندھا، لولا لنگڑا اور دیگر امراض میں مبتلا باقی نہ بچے گا کیونکہ خداوند عالم ہم اہلبیت کے صدقے میں تمام امراض و مشکلات کو ختم کردے گا. اور آسمان سے زمین پر برکتیں نازل ہوں گی، یہاں تک کہ تمام درخت پھل دار بن جائیں گے اور سردیوں کے پھل گرمی میں اور گرمیوں کے پھل سردی کے زمانے میں کھائے جاسکیں گے، اور یہ خدا کے اس قول کے مطابق ہے (وَ لَو اَنَّ اَہلَ القُریٰ آمَنُوا وَ اتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیہِم بَرَکَاتِ مِنَ السَّمَاءِ وَ الأَرضِ وَ لٰکِن کَذَبُوا فَاَخَذنَاھُم بِمَا کَانُو یَکسِبُونَ) [سورہئ اعراف آیت٩٤] اگر شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والے ایمان لے آئیں اور تقویٰ الہٰی اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیں گے لیکن انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کے عذاب میں گرفتار کر دیا. پھر خداوند عالم ہمارے شیعوں کو ایسی کرامت عنایت کرے گا جس سےروئے زمین کی کوئی چیزاور جو کچھ اس میں ہے ان سے پوشیدہ نہ رہے گی، یہاں تک کہ کوئی شخص اگر اپنے گھر والوں کے اسرار و رموز سے واقف ہونا چاہے گا تو انہیں ان کے دل کی باتوں سے آگاہ کر دے گا۔

٣٨۔ امام (علیه السلام) کا کلام (اپنے اصحاب سے)

    اے لوگو! جان لو میرے ساتھ یہ سمجھ کر نکلے ہو کہ میں ایسی قوم کی طرف جا رہا ہوں کہ جس نے اپنی زبان اور اپنے دل سے میری بیعت کی، لیکن اب سب الٹا ہوگیا ہے. شیطان ان پر غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں یاد خدا سے غافل کر دیا ہے اور اب ان کا مقصد مجھے اور میرے اصحاب کو قتل کرنے اور اہل حرم کو لوٹنے کے بعد انہیں اسیر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا ہے، اور میں ڈرتا ہوں کہ تم حالات سے باخبر ہونے کے باوجود ہمارا ساتھ چھوڑنے میں شرم محسوس کر رہے ہو، حالانکہ ہم اہل بیت کے نزدیک دھوکہ بازی حرام ہے، چنانچہ تم میں سے جو ہماری ہمراہی کو ناپسند کرتا ہو وہ ابھی سے واپس چلا جائے، رات تاریک اور راستہ بے خطر ہے، اور واپس جانے کے لئے وقت بھی کافی ہے، لیکن جو شخص زحمات و مشکلات کو برداشت کر کے ہمارے ساتھ رہے گا وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا اور غضب پروردگار سے نجات پائے گا، میرے نانا رسول خدا(ص)نے ارشاد فرمایا: میرا بیٹا حسین کربلا کے میدان میں وطن سے دور تنہا اور پیاسا قتل کیا جائے گا جو اس کی مدد کرے گا، گویا اس نے میری اور حسین کے فرزند قائم آل محمد(ص)کی مدد کی ہے اور جوصرف زبان سے ہماری مدد کرے گا وہ روز قیامت ہمارے گروہ میں ہوگا۔

٣٩ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام دنیا کے متغیر اور فنا ہوجانے کے بارے میں

    اے لوگو! جان لو کہ بیشک دنیا دار فنا و زوال ہے، دنیا اپنے بسنے والوں کو مختلف حالات کا مزہ چکھاتی ہے، اے لوگو! تم نے احکام اسلامی کو پہچانا ، قرآن کی تلاوت کی اور یہ بھی جان گئے کہ محمد مصطفی(ص)خدا کے فرستادہ ہیں، یہ سب جانتے ہوئے بھی تم ان کے نواسے پر بے رحمانہ ظلم وستم کے ساتھ قتل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے، اے لوگو! کیا تم فرات کو نہیں دیکھتے کہ اس کا پانی اس طرح موجیں لے رہا ہے جس طرح مچھلیاں پانی میں لوٹ پوٹ ہوتی ہیں اس کے پانی کو یہود و نصاریٰ اور کتّے اور خنزیر پی رہے ہیں جبکہ آل رسولؐ کی شدت سے ہلاک ہو رہی ہے؟

٤٠ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام (جس میں ظہور حضرت مہدی (ع)کی علامتوں کا ذکر ہے)

    حضرت نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! میں اس دن کو جانتا ہوں جس دن یہ لوگ مجھ پر مصائب کے پہاڑ توڑیں گے. اسی بنا پر میں تم لوگوں کو جانے کی اجازت دیتا ہوں، تم آزاد ہو۔

     سب نے عرض کی معاذ اللہ (ہم فرزند رسول(ص)کو تنہا نہ چھوڑیں گے)۔

    اس وقت حضرت نے فرمایا: قائم آل محمد(ص)کے ظہور سے پہلے خدا کی جانب سے مومنین کے واسطے علامتیں ظاہر ہونگی اور یہ خداوند عالم کے اس قول سے ثابت ہے (وَ لَنَبلُوَنَّکُم) اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے یعنی ہم قائم آل محمد(ص)کے ظہور سے پہلے مومنین کو آزمائیں گے (بِشَیٍئ مِنَ الخَوْفِ) خوف کے ذریعے سے یعنی حضرت قائم کے آنے سے پہلے بنی عباس کے آخری دور حکومت میں (خوف) سے آزمائیں گے.(وَالجُوعِ) یعنی مہنگائی کے باعث بھوک سے آزمائیں گے (وَ نَقصٍ مِنَ الأَموَالِ) یعنی اموال کی کمی، تجارت میں نقصان، پھلوں کی کمی، اچانک موت آنے، اچھی فصل نہ ہونے، اور کھیتوں کی فصل کی زکوٰۃ نہ نکالنے سے آزمائیں گے. (وَ بَشَّرِ الصَّابِرِین)، [سورہئ بقرہ آیت ١٥٥] ایسے موقع پر صبر کرنے والوں کو بشارت دیدو کہ حضرت قائم جلد ظہور کریں گے، تمہارے نبی(ص)کے اہل بیت کی حکومت کی چند علامتیں ہیں. اس وقت تک منتظر رہو تاکہ وہ نشانیاں دیکھ سکو، وہ ایسا وقت ہوگا جب رومی اور ترک تم پر چڑھائی کریں گے، تمہارے خلاف لشکر آراستہ کئے جائیں گے اور جو خلیفہ تمہارے اموال جمع کرتا تھا وہ مر جائے گا، اس کی جگہ پر ایک صالح شخص خلیفہ بنے گا وہ بھی دوسال کے بعد مسند خلافت سے ہٹا دیا جائے گا، اور جہاں انہوں نے اسے معزول کر کے حکومت شروع کی تو ان کی حکومت کے زوال کا آغاز ہو جائے گا۔

٤١۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ اپنے اصحاب کی وفاداری کے بیان میں

    میں خدا کی بہترین ثنا کرتا ہوں اور خوشی و غمی میں اس کی حمد کرتا ہوں، با رالہٰا میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے اپنے پیغمبر(ص)کے ذریعے ہمیں کرامت بخشی، قرآن کی تعلیم دی اور دین میں فقیہ بنایا ،ہمیں سننے والے کان، دیکھنے والی آنکھیں اور صاحب بصیرت دل عطا کیا، پس ہمیں اپنے شکر گذار بندوں میں قرار دے۔

    اما بعد: میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اور بہترین اصحاب کسی کے نہیں دیکھے، اور اپنے خاندان سے زیادہ نیک و خدا رسیدہ کسی خاندان کو نہیں پایا، خداوند عالم تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔

    آگاہ ہو جاؤ! میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جس دن یہ دشمن مجھ سے برسر پیکار ہوں گے۔

     آگاہ رہو! بیشک اسی وجہ سے میں نے تم سے کہا کہ چلے جاؤ اور میری طرف سے تمہاری گردن پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔

    تم اس مسئلہ میں آزاد ہو، یہ رات کا وقت ہے اس تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ایک تیز رو سواری سمجھ کے سوار ہو جاؤ (یعنی مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ)

٤٢۔ امام (علیه السلام) کا کلام اپنے لشکر اور خاندان والوں سے متعلق

    حضرت نے اپنے لشکر سے فرمایا:

     تم میری بیعت کے سلسلے میں آزاد ہو، اپنے اہل خاندان اور قبیلہ والوں کی طرف چلے جاؤ

    اور اپنے خاندان کے افراد سے فرمایا:

    تم مجھے چھوڑ کر یہاں سے جانے میں آزاد ہو، کیوں کہ ان کی تعداد اور جنگی آمادگی تم سے کہیں زیادہ ہے اس لئے تم ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے، یہ لوگ میرے علاوہ کسی سے متعرض نہ ہوں گے، لہٰذا مجھے اور اس قوم کو اپنے حال پر چھوڑ دو، بیشک خداوند عالم میری مدد فرمائے گا، وہ ہمارے طیب و طاہر آباء و اجداد پر ہمیشہ حسن نظر رکھتا تھا اور میرے اسلاف کی طرح مجھ پر بھی حسن نظرر کھے گا۔

    آپ کے لشکر والوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ لیکن آپ کے خاندان کے افراد اور آپ کے با وفا ساتھی پروانے کی طرح آپ کے اوپرنثار ہوتے رہے اور کہتے رہے ہم کبھی آپ سے جدا نہ ہوں گے، جو مشکلات و مصائب آپ پر پڑیں گے ہم ان میں آپ کے برابر کے شریک رہیں گے اور آپ کے ساتھ رہکر خدا سے زیادہ قربت حاصل کریں گے۔

    آپ نے ان سے فرمایا:

     جس طرح میں نے خود کو موت کے لئے آمادہ کیا ہے اسی طرح اگر تم نے بھی اپنے کوموت کے لئے آمادہ کر لیا ہے تو جان لو! کہ جو لوگ مصائب و آلام پر صبر کرتے ہیں خداوند عالم صرف انہیں کو ان کے صبر کی وجہ سے بلند و بالا مقام عطا فرتا ہے۔

    اور بیشک خدائے رحمن نے مجھ پر میرے گذشتگان کی طرح کہ دنیا میں جن کی میں آخری فرد ہوں، یہ خاص عنایت فرمائی ہے کہ دنیا کی سختیوں اور مصیبتوں کا تحمل میرے لئے آسان بنا دیا ہے اور اس خاص عنایت کا کچھ حصہ تمہیں بھی نصیب ہوگا۔

     اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کی شیرینی اور تلخی صرف ایک خواب و خیال ہے اصلی آگاہی تو آخرت میں نصیب ہوگی، کامیاب وہ ہے جو آخرت میں کامیاب ہواور بدبخت وہ ہے جو آخرت میں بدبخت ہو۔

    اے ہم سے متمسک رہنے والو! اے ہمارے چاہنے والو! کیا میں تمہیںاپنے آغاز خلقت اور تمہارے آغاز خلقت سے آگاہ نہ کروں؟ تاکہ جس چیز کا تم کو سامنا ہے اس کا تحمل تمہارے لئے آسان ہو جائے۔

    سب نے کہا! بیشک فرمائیے اے فرزند رسول خدا ؐ۔

    حضرت نے فرمایا: جب اللہ نے حضرت آدم (علیه السلام) کو پیدا کر کے انھیں ٹھیک ٹھاک کیا، اور انہیں تمام اسماء کی تعلیم دی اور انہیں ملائکہ کے سامنے پیش کیا تو حضرت محمد مصطفی(ص)علی مرتضیٰ (علیه السلام) ، فاطمہ =اور حسن و حسین + کی پانچ روحوں کو صلب آدم (علیه السلام)میں قرار رکھا جن کے انوار آسمانوں کے آفاق، پردوں، جنتوں اور عرش و کرسی میں نور افشانی کر رہے تھے، اس وقت خدا نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کے احترام و اکرام میں ان کا سجدہ کریں، خدا نے حضرت آدم (علیه السلام) کو یہ فضیلت بخشی کہ جن انوار سے سارا عالم روشن ہے ان کے ارواح طیبہ کا ظرف و مسکن حضرت آدم (علیه السلام)کو قرار دیا۔

    تمام ملائکہ نے آدم (علیه السلام) کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے خدا کی عظمت و جبروت اور ہم اہل بیت کے انوار کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا جب کہ تمام ملائکہ تعظیم کی خاطر سجدے میں گر پڑے

ابلیس نے تکبر کیا، اپنے کو بڑا سمجھا، اور سجدہ سے انکار کیا تو وہ کافرین میں سے ہوگیا۔

٤٣ ۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ جس میں اہل عراق کو وعظ و نصیحت کی گئی ہے

    تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جس نے دنیا کو پیدا کیا اور اس کو دار فنا و زوال قرار دیا، ایسا گھر اور منزل جو اپنے اہل کو مختلف حالات سے دوچار کرتا ہے، دھوکے میں وہ ہے جس کو دنیا دھوکا دے اور بدبخت وہ ہے جس کو دنیا گمراہ کر دے. ہوشیار رہو! کہیں دنیا تم کو دھوکا نہ دیدے کیونکہ جو دنیا کی طرف مائل ہوگا یہ دنیا اس کی امیدوں کو قطع کر دے گی ،اور جو اس سے دل لگائے گا وہ نقصان میں رہے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ایسی بات پر اجتماع کئے بیٹھے ہو جس نے خدا کو ناراض کردیا ہے ،اور خدا نے بھی تم سے اپنی نظر عنایت ہٹالی ہے، اپنا عذاب تمہارے لئے آمادہ کر لیا ہے اور اپنی رحمت تم سے دور کر دی ہے، ہمارا پروردگار کتنا اچھا ہے اور تم اس کے کتنے برے بندے ہو، تم نے زبان سے اطاعت خداوندی کا اقرار کیا اس کے پیغمبر حضرت محمد مصطفی(ص)پر ایمان لائے پھر اس کے بعد ان کی عترت پر حملہ کرکے ان کے قتل کے درپے ہوگئے ہو، یقینا شیطان تم پر غالب آگیا ہے جس کے نتیجے میں تم نے خدائے عظیم کے ذکر کو بھلا دیا ہے، تم اور تمہارے ارادہ پر خدا کی مار ہو. (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون)َ[ سورہئ بقرہ آیت ٥٦] بیشک ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جائیں گے، یہ وہ قوم ہے جو اس آیہئ کریمہ کی مصداق ہے: (کَفَرُوا بَعدَ اِیمَانِہِم)[سورہئ آل عمران آیت ٨٦] جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے، (فَبُعداً لِلقَومِ الظَّالِمِینَ) [سورہئ مومنون آیت ٤١] رحمت خد ا ظالم قوم سے بہت دور ہے۔

    اتنے میں شمر ملعون نے آگے بڑھکر کہا: آپ جو کہہ رہے ہیں اس کی وضاحت کیجئے! امام (علیه السلام) نے فرمایا:

     خدا کا خوف کرو اور میرے قتل سے باز آجاؤ میرا قتل اور میری ہتک حرمت تمہارے لئے جائز نہیں ہے، کیونکہ میں تمہارے نبی(ص)کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور میری نانی (حضرت خدیجہ =) تمہارے نبی ؐکی بیوی ہیں. اور شاید تم نے قول پیغمبر(ص)بھی سنا ہوگا کہ آپ نے فرمایا: حسن و حسین + جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

٤٤ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام اپنے اصحاب کو جنت اور اس کے محلوں کی بشارت دیتے ہوئے

    حضرت نے فرمایا:

ٍٍ    یہ جنت ہے جس کے دروازہ کھلے ہوئے ہیں اور اس کی نہریں جاری ہیں، اس کے پھل جلوہ دکھا رہے ہیں، محل آراستہ ہیں، حور و غلمان اظہار محبت اور خدمت کے لئے آمادہ ہیں یہ رسول خدا(ص)اور یہ وہ شہداء ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ رہ کر جام شہادت نوش کیا، میرے ماں باپ جنت میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں، تم پر فخر کرتے ہیں اور تمہارے دیدار کے مشتاق ہیں لہٰذا اپنے دین کی حمایت اور حرم رسول خدا(ص)کا دفاع کرو، اپنے امام (علیه السلام) اور اپنے نبی(ص)کے نواسے کی پشت پناہی کرو، کیونکہ خدا نے ہمارے ذریعے تمہارا امتحان لیا ہے تم ہمارے نانا ، ہمارے بزرگوں اور چاہنے والوں کے جوار میں ہو لہٰذا ہمارا دفاع کرو خدا تمہیں برکت عنایت فرمائے گا۔

٤٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ کوفیوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے

    حضرت نے با آواز بلند فرمایا: اے اہل عراق! جبکہ سب حضرت کی آواز سن رہے تھے میری بات سنو اور میرے قتل میں عجلت سے کام نہ لو تاکہ میں تمہیں ایسا موعظہ کروں جس سے تم پر میری حجت تمام ہو جائے اور اس کے بعد کسی کا بہانہ نہ رہ جائے، اگر تم نے میرے ساتھ انصاف سے کام لیا تو سعادت مند ہو جاؤ گے اور اگر انصاف نہ کیا تو جو تمہاری سمجھ میں آئے وہ کرو۔

    پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: (ثُمَّ لاَیَکُن أَمرُکُم عَلَیکُم غُمَّۃ ثُم اقضُوا اِلَیَّ وَ لاَتنظرون) [سورہئ یونس آیت ٧١] اور تمہاری کوئی بات تمہارے اوپر مخفی بھی نہ رہے، پھر جو چاہے کر گذرو اور مجھے کسی طرح کی مہلت نہ دو. (اِنَّ وَلِیِیَ اللّٰہُ الَّذِی نَزَلَ الکِتَابَ وَ ھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِین) [سورہئ اعراف آیت ١٩٤] یقینا میرا ولی خدا ہے جس نے کتاب (قرآن) نازل فرمائی اور وہ صالحین کا ولی اور سرپرست ہے۔

    پھر حمد و ثنائے الٰہی بجا لائے اور ذکر خدا کیا جو اس کے شایان شان ہے اور نبی و ملائکہ اور انبیاء پر درود بھیجا

    چنانچہ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی سے ایسا بلیغ اور اچھا کلام نہیں سنا گیا، پھر فرمایا:

    اما بعد: لوگو! مجھے دیکھو میں کون ہوں ، مجھ سے اچھا حسب و نسب کس کا ہے؟ پھر اپنے ضمیر سے پوچھو، اور اپنے نفس کو ملامت کرو، کیا میرا قتل اور میری ناموس کی ہتک حرمت تمہارے لئے جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا میں ان کے وصی اور چچا زاد بھائی کا بیٹا نہیں ہوں جنہوں نے مومنین میں سب سے پہلے رسول اللہ(ص)پر اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی تمام چیزوں کی تصدیق کی؟

    کیا حمزہ سید الشہداء (علیه السلام) میرے چچا نہیں ہیں؟

    کیا جنت میں دو پروں سے پرواز کرنے والے جعفر طیار (علیه السلام) میرے چچا نہیں ہیں؟

    کیا میرے اور میرے بھائی کے سلسلے میں رسول خدا(ص)کا یہ فرمان تم تک نہیں پہونچا کہ ''یہ دونوں(بھائی) حسن و حسین +جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تم میرے قول کی تصدیق کرتے ہوجو حق ہے تو تم فائدے میں ہو، خدا کی قسم میں نے اب تک کبھی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ خدا جھوٹوں پر غضبناک ہوتا ہے اور اگر تصدیق نہیں کرتے تو تمہارے درمیان بہت سے ایسے ہیں جن سے اگر اس بارے میں پوچھو گے تووہ میری تصدیق کریں گے، جابر ابن عبد اللہ انصاری، ابو سعید خدری، اور سہل ابن سعد ساعدی، زید ابن ارقم، انس ابن مالک جیسے افراد سے پوچھو وہ بتائیں گے کہ انہوں نے پیغمبر(ص)سے ان احادیث کو سنا ہے، کیا یہ سب باتیں (تمہارے لئے) میرے قتل سے باز رہنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟

    پھر حضرت (علیه السلام)نے فرمایا:

    اگر میرے قول میں تمہیں شک ہے تو کیا اس میں بھی شک ہے کہ میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں؟

خدا کی قسم مشرق و مغرب میں تمہارے یا دوسروں کے درمیان میرے علاوہ پیغمبر(ص)کا کوئی نواسہ نہیں ہے. وائے ہو تم پر! کیا میں نے تم میں سے کسی کو قتل کیا ہے جس کے عوض تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟ کیا میں نے تمہارا مال لوٹا ہے؟ کیا میں نے کسی کو زخمی کیا ہے جس کا مجھ سے قصاص لینا چاہتے ہو؟

    پورے مجمع پر عجیب سناٹا چھا گیا، کسی کے بولنے کی آواز نہیں آئی ،اس وقت امام (علیه السلام) نے فرمایا:

     اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابجر، اے قیس بن اشعث، اور اے یزیدبن حارث! کیا تم لوگوں نے مجھے خط نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے ہیں، کھیتیاں لہلہا رہی ہیں، اور آپ کے چاہنے والوں کا ایک زبردست لشکر آپ کے انتظار میں ہے؟۔

    قیس ابن اشعث نے کہا! ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنے ابن عم یزید کے پرچم تلے آجائیں تو آپ ان لوگوں کو اپنی مرضی کے موافق پائیں گے۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا:

     نہیں ہرگز نہیں خدا کی قسم ذلت کے ساتھ اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دینے والا نہیں ہوں اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار کرنے والا ہوں. پھر آپ نے آواز دی اے اللہ کے بندو! (اِنِّی عُذتُ بِرَبِّی وَ رَبِّکُم اَن تَرجمُون) [سورہئ دخان آیت ٢٠] میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں تم رحمت الہٰی سے محروم نہ ہو جاؤ اور اپنے اور تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں ہر تکبر اور غرور کرنے والے سے جو روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتا پناہ مانگتا ہوں۔

٤٦ ۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ (صبح عاشور اتمام حجت کے لئے)

    حضرت نے اپنی تلوار پر ٹیک لگاتے ہوئے بلند آواز سے ارشاد فرمایا:

    میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟

    سب نے کہا: کیوں نہیں، آپ رسول(ص)کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔

    فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں تم لوگ جانتے ہو کہ میرے نانا رسول خدا(ص)ہیں؟

    سب نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔

    فرمایا: تمہیں خدا کی قسم ہے کیا تم جانتے ہو میری ماں حضرت فاطمہ زہرا = رسول(ص)کی بیٹی ہیں؟

    سب نے کہا: ہاں۔

    فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے میرے بابا علی بن ابی طالب ہیں؟

    سب نے کہا : ہاں ہم جانتے ہیں۔

    فرمایا : تمہیں خدا کی قسم ہے کیا تمہیں معلوم ہے میری نانی حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں؟ کہ جو امت کی عورتوں میں سب سے پہلی مسلمان ہیں؟

    سب نے کہا : ہاں ہمیں معلوم ہے۔

    میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ حضرت حمزہ سید الشہداء ؑ میرے باپ کے چچا ہیں؟

    سب نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔

    فرمایا: تمہیں خدا کی قسم ہے کیا تم کو معلوم ہے کہ جعفر طیار جو جنت میں ہیں میرے چچا ہیں؟

    سب نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔

    فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے یہ تلوار جو میرے ہاتھ میں ہے میرے نانا رسول خدا(ص)کی ہے؟

    سب نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔

    فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو یہ عمامہ جو میرے سرپر ہے رسول خدا ؐکا ہے؟

    سب نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔

    فرمایا : تمہیں خدا کی قسم ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ علی بن ابیطالب + سب سے پہلے مسلمان، سب سے زیادہ جاننے والے اور سب سے بڑے صابر تھے اور وہ ہر مومن مرد و عورت کے ولی ہیں؟

    سب نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔

    فرمایا : سب کچھ جاننے کے باوجود تم لوگ کیوں میرا خون بہانا چاہتے ہو؟ جب کہ قیامت کے دن میرے بابا حوض کوثر پر ہوں گے اور کچھ لوگوں کو سیراب ہونے سے روک دیں گے، جس طرح پیاسے اونٹ کو پانی سے روک دیا جاتا ہے، اور لوائے حمد میرے بابا کے ہاتھ میں ہوگا۔

    سب نے کہا: یہ سب باتیں ہم جانتے ہیں مگر ہم اس وقت تک آپ کو نہ چھوڑیں گے جب تک اسی پیاس کی حالت میں آپ کو قتل نہ کر دیں۔

٤٧۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ روز عاشور نماز صبح کے بعد

    اصحاب کو جہاد کی ترغیب دلاتے ہوئےآپ نے حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

    بیشک آج کے دن خداوند عالم نے تم سب کو اور مجھے جنگ اور شہادت کی اجازت عطا فرما دی ہے لہٰذا میں تمہیں صبر اور جہاد کی دعوت دیتا ہوں۔

٤٨۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ سر زمین ''طف'' پر

    حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

    اے بندگان خدا! تقوائے الہٰی اختیار کرو اور دنیا سے اپنا منہ موڑ لو، اگر دنیا کسی کے لئے دار بقا ہوتی اور کسی کے لئے اس دنیا میں بقا ہوئی تو انبیاء کرام اس دنیا میں باقی رہنے کے زیادہ حقدار، رضائے الہٰی کے زیادہ مستحق او رقضا و قدر الہٰی پر سب سے زیادہ راضی رہنے والے تھے جبکہ خداوند عالم نے اس دنیا کو آزمائش و امتحان کے لئے اور اہل دنیا کو فنا و نابودی کے لئے پیدا کیا ہے اس کی ہر تازگی کو زوال ہے اور ہر نعمت کو ختم ہو جانا ہے دنیا کی تمام خوشیاں غم و آلام کا پیش خیمہ ہیں، دنیا منزل نہیں گذر گاہ ہے گھر نہیں سرائے ہے، (فَتَزَوَّدُوا فَاِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقویٰ) [سورہئ بقرہ آیت ١٩٧] پس توشہئ آخرت کو توشہئ راہ قرار دو کیونکہ بہترین توشہ(زاد سفر) تقویٰ الہٰی ہے۔

    (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُم تُفلِحُون) [سورہئ بقرہ آیت ١٨٩] اور تقوائے الہٰی اختیار کرو تو شاید کامیاب ہو جاؤ۔

٤٩۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ(جس میں آپ نے اپنے اصحاب کو صبر کی تلقین اور آخرت کی طرف ترغیب دلائی ہے)

    مولا نے یہ خطبہ روز عاشورا اس وقت ارشاد فرمایا جب جنگ کا بازار گرم ہوگیا ،اصحاب کی نگاہ حضرت کے چہرے پر پڑی تو انہوں نے حضرت کو اپنے برخلاف پایا کیونکہ جتنی مصیبتیں بڑھتی جاتی تھیں ان (اصحاب) کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتا جاتا تھا، بدن میں کپکپی اور دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی تھی، اس کے برخلاف حضرت اور ان کے ہمراہ بعض ساتھیوں کے چہرے کی تابناکی میں اضافہ ہوتا جاتا تھا، ان کے اعضا و جوارح پرسکون اور دل مطمئن تھے یہاں تک کہ بعض اصحاب ایک دوسرے سے کہتے تھے: امام (علیه السلام) کو دیکھو لگتا ہے انہیں موت کا بالکل خوف نہیں ہے۔

    امام عالیمقام نے فرمایا: اے فرزندان عزت و کرامت ! صبر کرو، موت کی ایک پل سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں ہے جو تمہیں شدائد و مشکلات سے نکال کر کشادہ جنت اور لازوال نعمت کی وادی میں پہنچا دیتا ہے. تم میں سے کون ہے جس کو زندان سے محل کی طرف جانا ناگوار ہو اور یہی موت تمہارے دشمنوں کو قصر عالیشان سے نکال کر قید با مشقت میں مبتلا کر دے گی. میرے بابا نے رسول خدا ؐسے نقل کیا ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے اور موت اس پل کے مانند ہے جو مومنین کو جنت تک اور دشمنوں کو جہنم تک پہنچاتا ہے اور یاد رکھو کہ نہ میں جھٹلایا گیا ہوں اور نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے۔

٥٠۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ اہل کوفہ کی مذمت میں

    یہ خطبہ امام (علیه السلام) کے آباء اجداد اور آپ کی ذاتی عظمت کا مظہر ہے، جس میں امام (علیه السلام) نے حمد و ثنائے الٰہی بجالانے کے بعد خدا کے شایان شان اس کا ذکر کیا، اس کے بعد رسول خدا ؐ، ملائکہ اور انبیاء و مرسلین پر درود بھیجا، پھر ایسا خطبہ پڑھا کہ آپ جیسا بلیغ متکلم نہیں دیکھا گیا۔

    فرماتے ہیں: اے اہل کوفہ! خدا تمہیں غارت کرے، تم ہی تھے جو ہم سے فریاد کرتے تھے کہ چلے آئیے اور محبت و الفت کے اظہار کے ساتھ پکار رہے تھے. ہم تمہارے بلانے سے آگئے، تم لوگ قسم کھائے ہوئے تھے کہ اپنی تلواروں سے ہمارے دشمنوں کا مقابلہ کرو گے، لیکن اب انہیں تلواروں سے ہمارے مقابلے پہ آگئے ہو اور جو آگ تمہیں ہمارے اور اپنے دشمنوں کے خلاف بھڑکانا تھی وہ تم ہمارے لئے آمادہ کر رہے ہو، اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف دشمنوں کے ساتھ ہم آواز ہوگئے ہو جب کہ انہوں نے تمہارے ساتھ نہ عدل سے کام لیا اور نہ معاشرہ میں عدالت کی کوئی امید باقی رکھی. وائے ہو تم پر! تم نے ہمیں چھوڑ دیا جب کہ تلوار نیام میں، دل پرسکون اور ذہن مطمئن تھا. لیکن تم نے اس واقعہ میں جلد بازی سے کام لیا، اور تم نے جنگ کرنے میں اس طرح جلدی کی جس طرح ٹڈیاں کھیت پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور پروانے آگ میں جل جاتے ہیں: خدا تمہیں غارت کرے. اے کنیز زادوں کے غلامو! اور معاشرہ کے پست لوگو! اے قرآن سے دور ہو جانے والو! اور وقائع اور حقائق کی تحریف کرنے والو اور نافرمانی کرنے والو.

اے شیطان کی پیروی کرنے والو! اور سنت پیغمبر(ص)کو بھلا دینے والو. کیا تم یزید کے ساتھ رہ کر اس کی مدد کرو گے اور ہم سے دور ہو جاؤ گے؟ہاں خدا کی قسم. مکرو حیلہ تمہاری پرانی عادت ہے اور تمہاری (فریب کی) جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں اور شاخیں رشد پاچکی ہیں، تم اس گندہ پھل کی طرح ہو جو ہر دیکھنے والے کے لئے ناگوار اور غاصب کے لئے لقمہئ تر ہوتا ہے۔

    جان لو! ایک ایسے زنا زادہ نے جو زنا زادہ کا بیٹا ہے مجھے دو چیزوں (ذلت و مرگ) کے درمیان مجبور کر دیا ہے، حیف کہ ہم ذلت کو قبول کریں. خدا و پیغمبر(ص)اور مومنین ایسی ذلت برداشت نہیں کرسکتے، ہماری عفت و پاکدامنی، خاندانی شرافت، بلند ہمتی اور غیرت و حمیت ہمیں ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ ہم پست افراد کی اطاعت کو عزت کی موت پر ترجیح دیں. جان لو۔ ! افراد کی قلت اور مددگار کی کمی کے باوجود میں صرف چند اصحاب کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہوں۔

    پھر آپ (علیه السلام) نے فروہ بن مسیک مرادی نامی شاعر کے اشعار کو بطور مثال پیش کیا۔

    اگر دشمن کو ہم نے بھاگنے پر مجبور کر دیا تو یہ ہمارا پرانا شیوہ ہے

     اور اگر شکست کھا گئے تو ہم نے شکست نہیں کھائی بلکہ جو حق کے مقابل آیا اس نے شکست کھائی

             جنگ میں خوف و ہراس ہماری شان نہیں، مگر

             دوسروں کے لئے دولت و حکومت کا حصول ہمارے قتل کے بغیر ناممکن ہے

    ایسی صورت میں موت صرف ایک گروہ پر اکتفا نہیں کرے گی

     بلکہ دوسرے بھی اس کی زد میں جائیں گے

            موت نے قوم کے بزرگ افراد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے

            جس طرح گذشتہ قوموں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا تھا

     اگر شاہان وقت و سلاطین زمانہ ہمیشہ باقی رہتے تو ہم بھی رہتے

     اگر ہم سے پہلے والے افراد باقی رہتے تو ہم بھی باقی رہتے

            ہم پر ملامت کرنے والوں سے کہو ہوش میں آ جائیں

             جو ہم نے دیکھا ہے ملامت کرنے والے بھی عنقریب اسے دیکھ لیں گے

    پھر امام (علیه السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم اس میدان کے بعد تمہیں زندگی سے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے، تمہارا فائدہ گھوڑے سواری کے اس چکر کی طرح ہے جو چکی کے چکر کی طرح گھومتا رہتا ہے اور واپس پھر وہیں آ جاتا ہےیہ بات میرے بابا نے میرے نانا سے نقل کی ہے.(فَاَجمِعُوا اَمرَکُم وَ شُرَکَائَکُم ثُمَّ لاَیَکُن اَمرُکُم عَلَیکُم غُمَّۃُ، ثُمَّ اقضُوا اِلَیَّ وَ لَاتَنظُرُونَ)[سورہئ یونس آیت ٧١] تم بھی اپنا ارادہ پختہ کر لو اور اپنے شریکوں کو بلا لو اور تمہاری کوئی بات تمہارے اوپر مخفی بھی نہ رہے پھر جو جی چاہے کر گذرو اور مجھے کسی طرح کی مہلت نہ دو۔

    (اِنِّی تَوَکَّلتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّی وَ رَبِّکُم مَا مِن دَابَّۃٍ اِلاَّ ھُوَ آخِذُ بِنَاصِیَّتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُستَقِیم) [سورہئ ہود آیت ٥٦] میرا اعتماد پروردگار پر ہے جو میرا اور تمہارا سب کا خدا ہے اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جس کی پیشانی اس کے قبضے میںنہ ہو، میرے پروردگار کا راستہ بالکل سیدھا ہے۔

    پروردگارا ! ان کے اوپر سے باران رحمت کو روک دے اور حضرت یوسف (علیه السلام)کے زمانے جیسا قحط ان پرنازل فرما اور ثقیف کے جوان کو ان کے اوپر مسلط کر جو ان کو اذیت و آزار میں مبتلا کر دے جو ان سے ہم اہل بیت(علیهم السلام)اور ہمارے دوستوں پر کئے گئے مظالم کا بدلہ لے کیونکہ انہوں نے ہمیں جھٹلایا اور چھوڑ دیا ہے اور تو ہمارا پالنے والا ہے۔

(عَلَیکَ تَوَکَّلنَا وَ اِلَیکَ اَنَبنَا وَ اِلَیکَ المَصیر)ِ [سورہئ ممتحنہ آیت ٤] ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع کیا ہے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت بھی ہوگی.

٥١ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام پیادہ جنگ کی حالت میں اہل کوفہ کو خطاب کرتے ہوئے

    کیا واقعاً تم کو مجھے قتل کرنے کی جلدی ہے؟ آگاہ ہو جاؤ! خدا کی قسم میرے قتل کے بعد میرے علاوہ تم کسی ایسے کو قتل نہیں کرو گے کہ مجھ سے زیادہ جس کے قتل سے خدا تم پر غضبناک ہو،

اور خدا کی قسم مجھے امیدہے کہ خدا مجھے بزرگی اور کرامت سے نوازے گا اور تمہیں ذلیل و رسوا کرے گا۔

    پھر تم سے میرے خون کا ایسا انتقام لے گا جس کا تمہیں گمان بھی نہ ہوگا، خدا کی قسم اگر تم مجھے قتل کرو گے تو اللہ تمہیں آپسی اختلافات میں مبتلا کر دے گا اور تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاؤ گے، اور پھر پروردگار تم سے کبھی بھی راضی نہیں ہوگا اور آخرت میں بھی تمہیں سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔

٥٢۔ امام (علیه السلام) کا استغاثہ( اصحاب کی یاد میں)

    جب امام (علیه السلام) نے میدان جنگ پر نگاہ دوڑائی اور اپنے زیادہ تر اصحاب کو خاک و خون میں غلطاں دیکھا تو اپنی ریش مبارک پکڑ کر فرمایا:

    قوم یہود پر خدا کا غضب شدید ہوگیا کیوں کہ وہ خدا کے بارے میں اس کے فرزند کے قائل تھے، اور قوم نصاریٰ پر خدا کا غضب شدید ہوگیا، کیوں کہ وہ خدا کے سلسلے میں ''تثلیث'' کے قائل تھے، اور مجوسیوں پر خدا کا غضب شدید ہوگیا کیوں کہ وہ خدا کو چھوڑ کر چاند سورج کی پرستش کرتے تھے، اور جگر گوشہئ رسول کے قاتلوں پر غضب الہٰی شدید ہوگیا کیوں کہ مسلمان اپنے نبی کی دختر کے بیٹے کو قتل کرنے پر متحد ہوگئے۔

    آگاہ ہو جاؤ! خدا کی قسم میں کبھی ان کے ارادے کو پورا نہ ہونے دوں گا یہاں تک کہ میں اپنے پروردگار سے اپنے خون میں غلطاں ہو کر ملاقات کروں ۔

    پھر امام (علیه السلام) نے بآواز بلند پکارا: کیا کوئی ہے جو رضائے الہٰی کی خاطرہماری فریاد رسی کرے؟

کیا کوئی ہے جو حرم رسول خدا(ص)کا دفاع کرے؟

    امام (علیه السلام) کی فریاد کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں کے نالہ و شیون کی آوازیں بلند ہوگئیں۔

٥٣ ۔ امام (علیه السلام) کی دعا

    محرم کے دسویں روز جب عمر سعد کے لشکر نے حملہ کیا تو امام (علیه السلام) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے عرض کی :

     اے میرے خدا ! تو ہرمصیبت میں میری پناہ گاہ ہے اور ہر سختی و مشکل میں میری امید ہے ، تو ہر شدت و مصیبت میں میرے لئے امن و امان اور بھروسہ کے قابل ہے، کتنے ہی غم و اندوہ ہیں جن سے دل کمزور ہو جاتے ہیں، قوت تدبیر کم ہو جاتی ہے، دوست ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن برا بھلا کہنے لگتے ہیں، میں ان تمام مصائب و آلام کے باوجود تیری بارگاہ میں آیا ہوں، تجھ سے ان کی شکایت کرتا ہوں اور صرف تیری ہی طرف راغب ہوں، لہٰذا مجھ سے ان مصیبتوں کو دور کردے اور مجھے نجات دیدے، تو تمام نعمتوں کا ولی، تمام نیکیوں کا مالک اور ہر امید کی انتہا ہے۔

٥٤۔ امام (علیه السلام) کا کلام جس میں آپ نے اہل حرم سے وداع ہوتے ہوئے ان کو صبر کی تلقین فرمائی

    اور آپ نے فرمایا: بلا و مصیبت کے لئے آمادہ رہو اور جان لو کہ خداوند کریم تمہارا حافظ و حامی ہے، وہ دشمنوں کے شر سے تمہیں نجات دلائے گا اور تمہارے انجام کو بخیر کرے گا، تمہارے دشمنوں کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کرے گا، اور تمہیں ان مصائب و شدائد کے عوض میں بہترین نعمتوں سے نوازے گا پس حرف شکایت زبان پر نہ لانا، اور اپنی زبانوں سے کوئی ایسی بات نہ کہنا جو تمہاری حیثیت و منزلت کو کم کرنے کا باعث بنے۔

٥٥۔ امام (علیه السلام) کی طرف منسوب خطبہ

    جس میں امام (علیه السلام) نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے دین اسلام کو اپنی طرف منسوب کرنے والو! اے بدترین لوگوں کی پیروی کرنے والو! یہ میرا آخری کلام ہے جو تم تک پہنچا رہا ہوں اور اس کے ذریعے تم پر اتمام حجت کر رہا ہوں کیا تم خیال کرتے ہو کہ میرے قتل کے بعد اپنی دنیا سے بہرہ مند ہو پاؤ گے؟ اور اپنے محلوں میں آرام و سکون کے ساتھ رہ پاؤ گے؟ افسوس ہے افسوس ،عنقریب تم پر بعض ایسے (اشرار) لوگ مسلط ہو جائیں گے جن سے تمہارے جسم کا بند بند کانپنے لگے گا، اور تمہارا دل اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا، یہاں تک کہ تمہارے لئے جائے فرار نہ ہوگی اور تمہیں کبھی امن و امان کا سایہ نصیب نہ ہوگا۔

    تم دنیا کے سب سے ذلیل و رسوا ترین انسانوں میں ہو جاؤ گے اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ تم رسول اللہ(ص)کا خون بہانے، ان کی اولاد کو قتل کرنے، ان کے بچوں کو پیا سا رکھنے اور ان کی عورتوں کو اسیر بنانے پر تلے ہوئے ہو، (اور جان لو کہ) میں نے تمہیں تین چیزوں کے درمیان اختیار دیا تو تم نے انکار کر دیا اور تم اپنی ظاہری شان و شوکت کے دھوکے میں آگئے، معاذ اللہ میں ہرگز یزید جیسے ملحد ظالم کی بیعت نہیں کرسکتا، اللہ کی پناہ ! کہ یہ پاکیزہ روحیں اور باغیرت نفوس ہمیں اس بات پر آمادہ کریں کہ ہم عزت و غیرت سے دستبردار ہو جائیں، مجھے کتنا اشتیاق ہے کہ ان جوانوں سے ملحق ہوجاؤں! آپ نے (بنی ہاشم اور اپنے دوستوں کی قتل گاہ کی طرف اشارہ کیا) اور اپنے پروردگار سے کئے عہد و پیمان کو پورا کروں لیکن تم اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو، جو مکر کرنا چاہتے ہو کرو اور ہرگز مجھے مہلت نہ دو۔ [2]

    یہاں تک حضرت سید الشہداء کے خطبات و کلمات کا پہلا باب تمام ہوا انشاء ا... دوسرے باب میں آپ کے ان مکتوبات و خطوط کو ذکر کریں گے جو آپ نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو لکھے تھے

دوسراباب

 

سید الشہداء امام حسین (علیه السلام)کے خطوط

سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین (علیه السلام) کے خطوط :

١۔امام (علیه السلام) کا خط اہل بصرہ کے نام

( یہ خط اہل بصرہ کے اس خط کے جواب میں ہے جس میں انہوں نے آپ سے صمد کے معنی پوچھے تھے)

    اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے، اما بعد: قرآن میں عقلی گدے لگانے اور بحث و مجادلہ کرنے کی کوشش نہ کرو اس کے بارے میں علم کے بغیر کچھ نہ کہا کرو کیونکہ میں نے اپنے جد رسول خدا(ص)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو کوئی قرآن کے سلسلہ میں بغیر علم کے اظہار نظر کرے تو اسے جہنم میں اپنے ٹھکانہ کے لئے تیار رہنا چاہئے، خدا نے صمد کی تفسیر یوں بیان فرمائی ہے. اَللّٰہُ اَحَدُ، ، اَللّٰہُ الصَّمَد، خدا یکتا و یگانہ ہے، اور خدا بے نیاز ہے، پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایاہے: (لَم یَلِد وَ لَم یُولَد وَ لَم یَکُن لَّہُ کَفَواً اَحَدُ،) اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد اور نہ کوئی اس کا کفو و ہمسر ہے. ( لَم یَلِد) یعنی اولاد کی مانند اس سے کوئی جسمانی چیز صادر نہیں ہوتی، وہ تمام کی تمام اشیاء جو مخلوقات سے صادر ہوتی ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی لطیف شیئ خارج ہوتی، جیسے جان اور روح اور نہ ہی اس کی ذات سے خواب و خیال، بیداری، غمی، خوشی، ہنسی مذاق، گریہ، خوف، آس و امید، ناراضگی، بھوک و پیاس، اور اسی جیسی حالتوں کی مانند ''بدوات'' ہوتے اور وہ اس سے منزہ و بری ہے کہ کوئی لطیف اور مادی چیز اس سے خارج ہو یا اس کی ذات سے متولد ہو، ''و لم یولد'' وہ کسی سے متولد بھی نہیں ہوا ہے، اور کسی چیز سے خارج بھی نہیں ہوا ہے، جیسا کہ مادی اشیاء جو اپنے عناصر سے وجود میں آتی ہیں۔

    جیسے ایک شے سے دوسری شے، یا ایک حیوان سے دوسرا حیوان ، پیڑ پودے زمین سے، پانی چشموں سے،اور پھل پھول درختوں سے وجود میں آتے ہیں ، اور نہ ہی اس طرح کسی چیز سے نکلا ہے جیسے لطیف اشیاء اپنے مراکز سے نکلتی ہیں ، جیسے بینائی آنکھ سے، سماعت کانوں سے، استشمام ناک سے، ذائقہ منھ سے، گفتگو زبان سے، شناخت اور تمیز قلب سے اور آگ چنگاری کے پتھر سے نکلتی ہے؛ بلکہ ''ہو اللّٰہ الصمد'' وہ خدائے بے نیاز ہے. یعنی نہ کسی چیز ''سے'' ہے نہ کسی چیز ''میں'' ہے اور نہ کسی چیز''پر'' ہے ''وہ'' تمام چیزوں کی شروعات کرنے والا اور سب کا خالق ہے اپنی قدرت سے تمام چیزوں کو وجود عطا کرتا ہے اس کے ارادہ و قوت سے ہی جو چیزیں فنا کے لئے خلق ہوتی ہیں وہ فنا ہوتی ہیں اور اس کے علم سے ہی جو چیزیں بقا کے لئے خلق کی گئی ہیں، باقی رہتی ہیں ، پس وہ ہے ''اللہ الصمد'' بے نیاز، الذی ''لم یلد و لم یولد'' جو نہ ہی کسی کا باپ ہے اور نہ ہی کسی کا بیٹاہے (عَالِمُ الغَیبِ وَ الشَّہَادَۃِ الکَبِیرُ المُتَعَال)[ سورہئ رعد آیت ٩] وہ باطن و ظاہرتمام اشیاء کا جاننے والا ہے، وہ بزرگ اور بلند و برتر ہے(وَ لَم یَکُن لَّہُ کُفُواً اَحَدُ،) [سورہئ توحید آیت ٤] اور اس کا کوئی ساتھی اور ثانی نہیںہے۔

٢۔ امام (علیه السلام) کا خط حسن بصری کے نام

حسن بصری کے اس خط کے جواب میں جس میں انھوں نے امام (علیه السلام) سے'' قدر کے معنی پوچھے تھے''

    خدا کی جانب سے ہم اہل بیت ٪پر، خاص عنایات ہیں لہٰذا ''قدر'' کے بارے میں جو کچھ ہم بیان کر رہے ہیں اس کا اتباع کرو. جوشخص قدر کے تحت خیر و شر کے ہونے پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے. اور جو شخص اپنے گناہوں کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرائے وہ فاجر ہے اور اس نے خدا کے سلسلے میں عظیم افترا پردازی سے کام لیا ہے. بیشک خدا کی عبادت جبر و اکراہ سے نہیں کی جاتی اور نہ زور زبردستی سے اس کی نافرمانی کرائی جاسکتی ہے. اور نہ ہی وہ اپنے بندوں کو ہلاکت میں ڈالتا ہے. لیکن وہ لوگوں کی ہر چیز کا مالک ہے اور جس چیز کی اس نے لوگوں کو قدرت دی ہے وہ اس پر بھی قادر ہے پس اگر لوگ اطاعت کے تحت اس کا حکم مانیں گے تو وہ ان کی اطاعت میں رکاوٹ اور تاخیر کا سبب نہیں بنے گا. اور اگر گناہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو اگر وہ چاہے تو ان پر احسان کر کے ان کے اور گناہ کے بیچ حائل ہوسکتاہے. اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو بھی وہ نہ تو لوگوں کو گناہ پر اکساتا اور نہ ہی ان کو گناہ کرنے پر مجبور کرتا، بلکہ اس نے تو لوگوں کو متوجہ کردیا، انھیں ڈرا دیا اور اتمام حجت کردی ہے اور اس نے بندوں کو طاقت اور قدرت عطا کردی ہے. اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان پر چلنے اور جن سے روکا ہے ان سے باز رہنے کا راستہ ان کو دکھا دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی قوت بھی عطا کی ہے. کہ وہ احکام خداوندی جس کی اطاعت پر تمہارا دل تیار نہیں ہے انجام دو اور وہ منکرات الہٰی جن پر تمہارا نفس راضی ہے ان کو انجام نہ دو. تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے ہیں جس نے اپنے احکام کی اطاعت کے لئے اپنے بندوں کو قوی اور مضبوط بنایا ہے تاکہ اس قوت سے کام لیکر اس کے احکام کی بجا آوری اور ممنوعات سے دوری اختیار کرسکیں. اور ان لوگوں کے عذر کو قبول کرتا ہے جو پوری کوشش کے باوجود احکام و نواہی کی پیروی پر قادر نہیں ہو پاتے۔

٣۔ امام (علیه السلام) کا خط معاویہ کے نام

    امام حسین (علیه السلام) کا یہ خط معاویہ کے اس خط کے جواب میں ہے جس میں اس نے امام (علیه السلام) کی ان کی اپنی آزاد کردہ کنیز سے شادی کرنے پر ملامت کی تھی ۔ اما بعد:

    تمہارا ارسال کردہ خط ملا اور تمہاری طرف سے یہ سرزنش بھی (موصول ہوئی) ہے کہ میں نے اپنی آزاد کردہ کنیز سے نکاح کیوں کیا اور ہمسروں کے سلسلہ میں قریش کو اہمیت کیوں نہیں دی؟ پس یہ بات جان لو کہ رسول ؐسے بڑھ کر نہ کسی کا شرف ہے اور نہ کسی کا نسب. اور ہاں وہ کنیز میری تھی میں نے رضائے خدا کی خاطر اس کو آزاد کرد یا تھا اس کے بعد سنت رسول ؐکا اتباع کرتے ہوئے اس سے نکاح کر لیا. اللہ نے اسلام کے ذریعہ کمزور لوگوں کو بلندی عطا کی ہے اور اسلام کی وجہ سے خسارہ اور نقصان کو ہم سے دور رکھا ہے. لہٰذا کسی مسلمان کے لئے کوئی سرزنش نہیں مگر یہ کہ وہ کوئی گناہ کرے اور تیری یہ سرزنش تو سراسر جاہلیت ہے۔

٤۔ امام (علیه السلام) کا خط معاویہ کے نام

(حضرت کا یہ خط معاویہ کے اس خط کے جواب میں ہے جس میں اس نے امام (علیه السلام) کے کچھ عمومی مسائل پر اعتراض کیا تھا)

    اما بعد: تمہارا خط ملا تم نے لکھا ہے کہ میرے اعمال و رفتار کی کچھ خبریں تم تک پہونچی ہیں جس نے تم کو کبیدہ خاطر کیا ہے لہٰذا بھلائی اسی میں ہے کہ میں ان افعال سے باز آجاؤں۔

    یہ بات سن لو ! کہ نیک افعال کی انجام دہی صرف حکم خدا پر موقوف ہے اور اس کی اجازت نہ ہو تو ناممکن ہے. رہی یہ بات جو تم نے لکھی ہے کہ میرے متعلق تم تک کچھ باتیں پہونچی ہیں تو یہ ساری افواہیں تمہارے بدبیں خبرچینوں اور چاپلوسیوں نے تمہارے کانوں میں بھری ہیں. نہ میں نے جنگ کا ارادہ کیا ہے اور نہ ہی تمہارے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہے، لیکن خدا کی قسم یاد رکھو! میںتم سے ڈر کر ایسا نہیں کر رہا ہوں. ڈر صرف خدا کا ہے، کیونکہ میرے خیال میں خدا بھی ایسا کرنے یعنی جنگ کرنے پر راضی نہ ہوگا (کیونکہ اس کا ابھی وقت نہیں ہے) ورنہ کوئی عذر نہیں ہے کہ میں تم سے اور تمہارے قاسطین و ملحدین گمراہ ساتھیوں اور اولیاء شیاطین، اور ھوا خواہوں سے جنگ نہ کروں۔

    کیا تم حجربن عدی کندی کے قاتل نہیں ہو؟ بتاؤ! کیا تم ان دیندار، نماز گذاروں کے قاتل نہیں ہو جو ہمیشہ ظالموں کے خلاف رہے ہیں، بدعتوں کے سخت مخالف رہے ہیں اور جنھوں نے کبھی راہ خدا میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں کی ہے؟ تم ہی وہ ہو جس نے ان پر ظلم کیا اور دشمنی کے سبب انھیں قتل کرڈالا، جب کہ تم نے ان لوگوں کو بڑی بڑی قسمیں کھا کر اور ان سے وعدے کر کے امان دی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس سے پہلے تمہارے اور ان کے درمیان جو کچھ ہوچکا ہے تم اسے بھلا دوگے اور اپنے دل سے ان کی دشمنی نکال دوگے؟

    کیا تم عمرو بن حمق کے، جو صحابیئ رسول تھے، ان کے قاتل نہیں ہو؟ وہ خدا کا نیک بندہ جس کا جسم عبادت کی وجہ سے لاغر اور چہرے کا رنگ زرد ہوگیا تھا. جس کو تم نے ایسا امان نامہ لکھ کر دیا تھا کہ اگر کسی پرندہ کو دیا جاتا تو وہ پہاڑ کی چوٹی سے اڑ کر تمہارے پاس سیدھا چلا آتا. مگر تم نے حکم خدا کی خلاف ورزی اور عہد شکنی کرتے ہوئے ان کو قتل کر ڈالا۔

    سچ بتاؤ! کیا تم وہ نہیں ہو جس نے فرزند سمیہ (ابن زیاد) کو جو غلام ثقیف کے ساتھ زنا کا نتیجہ ہے اپنے باپ کا بیٹا ثابت نہیں کیا؟. جب کہ رسول خدا(ص)نے فرمایا ہے(( الولد للفراش و للعاہر الحجر)) بچہ بستر کے مالک کا ہے اور زنا کار کی سزا اس کو سنگسار کردینا ہے۔

    تم نے جان بوجھ کر سنت رسول(ص)کی مخالفت کی ہے اور راہ خدا کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی ہے. پھر ستم بالائے ستم یہ کہ تم نے اسی شخص کو عراقیوں کے سروں پر مسلط کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ کاٹ ڈالے ،ان کی آنکھیں نکلوا دے، اور ان کو کھجور کے درخت پر سولی دے. (تم نے یہ سب یوں کیا ہے) گویا تم اس امت سے نہیں ہو اور نہ ہی وہ تم سے ہیں۔

    بتاؤ! کیا تم وہ نہیں ہو کہ جس کو جب فرزند سمیہ (ابن زیاد) نے حضرمیین کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ لوگ علی (علیه السلام) کے دین پر ہیں تو اس کو تم نے یہ لکھ بھیجا تھا کہ جو لوگ بھی دین علی پر ہوں ان سب کو قتل کردو. اور اس نے تمہارے حکم سے سب کو قتل کر کے ان کا مثلہ (اعضاء بدن کاٹ دیا) بنا دیا.

    خدا کی قسم، دین علی (علیه السلام) وہی دین پیغمبر(ص)ہے جس کی خاطر انہوں نے تیرے باپ سے اور تجھ سے جہاد کیا تھا، اور اسی دین کی خاطر آج تم اس مسند پر بیٹھے ہو، اگر یہ دین نہ ہوتا تو تمہاری تمہارے باپ کی جھوٹی شرافت کب کی ختم ہو چکی ہوتی. اے معاویہ! تم مجھ سے کہہ رہے رہو کہ اپنے نفس اور دین کا خیال کروں اور ساتھ ہی دین محمدی ؐکا بھی دھیان رکھو ںاور اس امت میں تفرقہ اور اختلاف سے پرہیز کرو ںکہیں ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کی فتنہ کی جانب راہنمائی کر بیٹھوں جبکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری حکومت سے بڑھ کر اس امت کے لئے کوئی اور فتنہ میری نظر میں نہیں ہے. میرے نفس اور میرے دین اور امت محمدیہ کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ میں تم سے جہاد کروں اگر میں نے ایسا کیا تو یہ قرب الہٰی کا سبب ہوگا. اور اگر اس جہاد سے دستبردار ہو جاؤں تو خدا سے مجھے طلب مغفرت کرنا چاہئے اور مجھے چاہئے کہ خدا سے توفیقات میں اضافہ کا سوال کروں تاکہ وہ میری رہنمائی فرمائے۔

    تم نے لکھا ہے کہ اگر میں تم سے دوری اختیار کوں گا تو تم مجھ سے دوری اختیار کرو گے ،اور اگر میں نے دشمنی کی تو تم بھی کوئی کسر نہیں چھوڑو گے.تو سن لو! تم جتنی دشمنی کرسکتے ہو کرو. مجھے پورا یقین ہے کہ تمہاری عیاریوں کا اثر میرےاوپر ذرہ برابر نہ ہوگا بلکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان تم ہی کو ہوگا کیونکہ تم جہالت کے مرکب پر سوار ہو اور عہد شکنی کے حریص ہو. میری جان کی قسم! تم کبھی بھی کسی عہد و پیمان کے پابند نہیں رہے، تم نے ان لوگوں کا بہیمانہ قتل کر ڈالا جن سے عہد و پیمان کیا تھا.جبکہ ان کے ساتھ مصالحت کی تھی اور ان کو امان دی تھی، تم نے ان لوگوں کو قتل کیا جنہوں نے تمہارے ساتھ اعلان جنگ بھی نہیں کیا تھا. اور تم یہ کام بالکل نہ کرتے مگر چونکہ یہ (مردان خدا) ہمارے فضائل بیان کرتے تھے اور ہمارے مراتب کے سلسلہ میں تعظیم کے قائل تھے. تم نے ان لوگوں کواس ڈر کی وجہ سے قتل کر ڈالا اور ان کی زندگی کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی بھر پور کوشش کی کہ اگر تم نے ان کو قتل نہیں کیا ان سے پہلے تم خود مر جاؤ گے یا وہ تمہارے ہاتھ آنے سے پہلے ہی مر جائیں گے۔

    اے معاویہ ! قصاص کے لئے تیار رہوجاؤ، اور حساب و کتاب پر ایمان لے آؤ. اور جان لو کہ خدا کے پاس ایک دفتر ہے(لاَ یُغَادِرُ صَغِیرَۃً وَ لاَ کَبِیرَۃً اِلَّا اَحصَیٰہ)َ[سور ہئ کہف آیت ٤٩] اور کوئی چھوٹی بڑی چیز نہیں ہے جو اس میں محفوظ نہ ہو. خدا اس بات کو قطعی نہیں بھولے گا کہ تم نے صرف گمان پر لوگوں کو قید کیا، اور اتہام پر قتل کر ڈالا ہے. اور اولیائے خدا کو شہر بدر کردیا ہے. اور تم نے اپنے شرابی اور کتوں سے کھیلنے والے بیٹے کے لئے بیعت لی ہے۔

    مجھے تمہارے بارے میں کچھ علم نہیں مگر یہ کہ تم یقینا خسارے میں ہو اور تم نے اپنے دین کو پامال کر ڈالا ہے. تم نے عوام کو بہکایا ہے، امانتوں میں خیانت کی ہے اور نادانوں اور بہروپیوں کی باتوں پر کان دھراہے اور صاحبان ورع و تقوا کو ذلیل و پست کیا ہے۔

٥۔ امام (علیه السلام) کا ایک اور خط معاویہ کے نام

    حسین ابن علی (علیه السلام) کی جانب سے معاویہ بن ابی سفیان کے نام:

    امابعد: یمن کا ایک کارواں ہمارے پاس سے گذر رہا تھا جو اموال، ملبوسات، عنبر و عطریات لادے ہوئے تھا اور خزانہئ دمشق کے حوالہ کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ آل ابوسفیان کے حریصوں کو سیراب کرسکے ! مجھے ان اشیاء کی ضرورت تھی لہٰذا میں نے ان چیزوں کو لے لیا ہے. فقط والسلام ۔

٦۔ امام (علیه السلام) کا خط ایک کوفی کے نام

    (حضرت کا یہ خط کوفہ کے اس شخص کے جواب میں ہے جس نے آپ کو خط لکھ کر چاہا تھا کہ اے مولا مجھے دنیا و آخرت کے خیر سے آگاہ کیجئے)

    بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم . اما بعد: جو شخص رضائے خدا کا طالب ہو چاہے اس سلسلہ میں لوگ اس سے ناراض ہی ہو جائیں تو خدا اس کو لوگوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور جو شخص لوگوں کی خوشنودی حاصل کرتا ہے چاہے اس سلسلہ میں خدا اس سے ناراض ہو جائے توخدا بھی اس کو لوگوں پر چھوڑ دیتا ہے۔ والسلام

٧۔ امام (علیه السلام) کا خط ایک خیرخواہ کے نام

    حضرت کا یہ خط اس شخص کے جواب میں ہے جس نے لکھا تھا کہ مجھے ایسے دوجملوں میں موعظہ کیجئے جس میں دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہو۔

    امام ؑ لکھتے ہیں: ''جو شخص ایسے کام کے پیچھے بھاگے جس میں خدا کی نافرمانی ہو، تو جس چیز کے امید لگائے بیٹھا ہے اس سے کوسوں دور ہو جائے گا اور جس چیز سے ڈرتا ہے؛ بہت تیزی کے ساتھ اس سے قریب ہوجائے گا''

٨۔ امام (علیه السلام) کا خط امام حسن (علیه السلام) کے نام

حضرت ؑنے یہ خط اپنے بھائی امام حسن (علیه السلام) کے خط کے جواب میں شاعروں کو کچھ دیدینے کی طرف اشارہ کیا تھا، لکھتے ہیں:

    ''آپ خود مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ بہترین مال وہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی آبرو کی حفاظت کرسکے''

٩ ۔ امام (علیه السلام) کا خط عمروبن سعید کے نام

    یہ خط عمروبن سعید[3] کے خط کے جواب میں آپ نے اس وقت لکھا تھا جب آپ عراق کی طرف جارہے تھے۔

    اما بعد: (مَن دَعَا اِلیٰ اللّٰہِ وَ عَمِلَ صالِحاً، وَ قَالَ اِنَّنِی مِنَ المُسلِمِینَ) [سورہئ فصلت آیت ٣٣] جو شخص خدا کی جانب دعوت دے اور عمل صالح انجام دے اور اس بات کا مدعی ہوکہ میں مسلمان ہوں تو ایسا شخص یقینا خدا و رسول کا مخالف نہیں ہوسکتاتم نے امان، نیکی اور عطا و بخشش کی بات کی ہے لہٰذا یاد رکھو! کہ بہترین امان ، امان الہٰی ہے . اور جو شخص دنیا میں خدا کا خوف نہیں رکھتا وہ روز قیامت خدا پر ہرگز ایمان نہیں لائے گا، لہٰذا ہم خدا سے دنیا میں ہی خوف خدا کے طلبگار ہیں جو قیامت کے دن ہمارے لئے امان کا سبب بنے۔

    لہٰذا اگر تمہارے خط لکھنے کا مقصد میرے سلسلہ میں نیکی کا ارادہ تھا.تو ا خدا تمہیں دنیا و آخرت میں جزائے خیر عنایت کرے۔ والسلام

١٠۔ امام (علیه السلام) کا خط محمد بن حنفیہ کے نام

    یہ خط، جو وصیت نامہ کی شکل میں اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے نام امام ؑ نے اس وقت تحریر کیا جب آپ عراق کی طرف جارہے تھے۔

    اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے.

    بیشک حسین اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کوئی خدا نہیں سوائے وحدہ لاشریک کے، اور بیشک محمد(ص)اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں حق کی جانب سے حق پر مبعوث کئے گئے ہیں اور یہ کہ جنت و جہنم حق ہیں (بیشک قیامت آنے والی ہے، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. اور یہ کہ خدا اس دن مردوں کو زندہ کرے گا)اور یہ حقیقت ہے کہ میں لہو و لعب اور ظلم و ستم کے لئے نہیں اٹھا ہوں، بلکہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں. میرا مقصد نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہے اور اپنے نانا او رپدر بزرگوار علی بن ابی طالب ؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہوں لہٰذا جو کوئی میری حق بات کو قبول کرے، کیونکہ خدا قبول حق کے لئے زیادہ حقدا رہے اور جس کو میری اس بات کا انکار کرے، میں اس بات پر صبر کروں گا یہاں تک کہ خدا میرے اور اس قوم کے بیچ حق کے ذریعہ فیصلہ کرے اور خدا بہترین حاکم ہے. میرے بھائی تمہارے لئے یہ میرا وصیت نامہ ہے میرے پاس کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہے خدا کا دیا ہوا ہے، میں نے اس پر بھروسہ کیا، اور اسی سے لو لگائے ہوئے ہوں)

    پھر خط کو تہہ کیا مہر لگائی اور محمد حنفیہ[4] کے حوالہ فرمایا اور ان سے رخصت ہوئے اورنصف شب میں مدینہ سے کوچ فرما گئے۔  

١١۔ امام (علیه السلام) کا خط اہل مدینہ کے نام

     کچھ لوگوں نے امام ؑکے پاس یزید کے کچھ اشعار لکھ بھیجے تھے اور یہ نہیں ظاہر کیا تھا کہ یہ یزید کے ہیں آپ نے جیسے ہی اس کو دیکھا فوراً سمجھ گئے کہ یہ کلام یزید کا ہے. لہٰذا ان کے جواب میںیہ آیہئ کریمہ کو لکھی اور بھیج دی:

    بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰن الرَّحِیم. (فَاِن کَذَّبُوکَ فَقُل لِی عَمَلِی وَ لَکُم عَمَلُکُم أنتُم بَرِیئُونَ مِمَّا أعمَلُ وَ اَنَا بَرِیئ مِمَّا تَعمَلُون)َ [سورہئ یونس آیت ٤١]

    اے پیغمبر! اگر انہوں نے تم کو جھٹلا یا تو کہدو کہ میرا عمل میرے ساتھ ہے اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ ، میں تمہارے کرتوتوں سے کنارہ کش ہوں. اور تم میرے عمل سے سروکار نہ رکھو۔

١٢ ۔ امام (علیه السلام) کا خط چند اشراف بصرہ کے نام

(حضرت نے اس خط میں بصرہ کے معززین کو اپنی نصرت کے لئے دعوت دی تھی)        

    بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم.حسین ابن علی کی طرف سے مالک بن مسمع

ا ور احنف بن قیس اور منذر بن جارود، مسعود بن عمرواور قیس بن ھیثم کے نام

    سلام علیکم ، اما بعد: میں آپ لوگوں کو حق کی نشانیوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو مٹا دینے کی دعوت دیتا ہوں اگر آپ لوگوں نے مثبت جواب دیا تو گویا ہدایت کے راستوں کو پا لیا۔والسلام

١٣۔ امام (علیه السلام) کا خط بنی ہاشم کے نام

    بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم. حسین بن علی کی جانب سے بنی ہاشم کے نام، اما بعد: تم میں سے جو کوئی بھی میرے ہمراہ ہوگا وہ شہید کیا جائے گا اور جو مجھ سے روگردانی کرے گا وہ قطعی کامیاب نہ ہوگا۔

١٤۔ امام (علیه السلام) کا خط کربلا سے محمد بن حنفیہ کے نام

    بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم.

    حسین بن علی کی طرف سے محمد بن علی اور ان کے ہمراہ بنی ہاشم کے تمام افراد کے نام.

    اما بعد: یوں سمجھو کہ، گویا دنیا تھی ہی نہیں اور آخرت فنا ہونے والی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔

١٥۔ امام (علیه السلام) کا خط اہل بصرہ کے نام

اہل بصرہ کے نام یہ امام ؑ کا دوسرا خط ہے، اس خط میں آپ نے بصرہ والوں کو اپنی مدد کی دعوت دی ہے)

    بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم.حسین ابن علی کی جانب سے، اما بعد: بیشک خدا نے محمد(ص)کو تمام مخلوقات عالم پر منتخب کر کے فوقیت عطا کی اور نبوت کے باعث انھیں عزت عطا کی، اور اپنی رسالت کے لئے ان کا انتخاب کیا. اس کے بعد ان کی روح قبض کی در آنحالیکہ آپ نے بندگان الہی کو موعظہ و نصیحت فرما دی تھی اور جو کچھ احکام الہٰی پہنچانے تھے وہ پہونچا دیئے تھے. ان کے اہل بیت(علیهم السلام)اور اوصیاء ان کے بعد ان کی قائم مقامی کے زیادہ حقدار تھے. جب کہ دیگر افراد ہم پر حاکمیت کا رعب دکھانے لگے تو ایسے وقت ہم (اہل بیت ٪) نے (مصلحتاً) خاموشی اختیار کرلی کیونکہ فتنہ ئو فساد ہم (اہلبیت) کا شیوہ نہیں، میں نے آپ لوگوں کے پاس اپنا خط بھیج دیا ہے اور آپ سب کو کتاب خدا اور سنت نبیؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں، اگر آپ نے میری بات سنی اور حکم مانا تو صراط مستقیم کی جانب ہدایت کروں گا. والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

١٦ ۔ امام (علیه السلام) کا خط عبد اللہ بن جعفر طیار +کے نام

(حضرت نے یہ خط اپنے چچیرے بھائی عبد اللہ بن جعفر طیار [5]کے خط کے جواب میںلکھا تھا)

    اما بعد: آپ کا خط موصول ہوا اور میں نے اس کو پڑھا او رجو کچھ اس میں مرقوم تھا اس کو اچھی طرح درک کیا۔

    آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میںنے اپنے جد رسول اکرم(ص)کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے، جس کام کے لئے میں نکلا ہوں، اس کے بارے میں خبر دی ہے، چاہے وہ میرے حق میں ہو یا میرے خلاف، خدا کی قسم ۔۔ اے ابن عم اگر میں زمین کے اندر رہنے والے کیڑوں کے سوراخوں میں بھی پناہ لے لوں تو یہ لوگ وہاں سے بھی نکال کر مجھے قتل کردیں گے، خدا کی قسم، یہ لوگ اسی طرح مجھ پر ظلم کریں گے جس طرح یہودی روز شنبہ کے سلسلہ میں ظلم کے مرتک ہوئے تھے۔ والسلام

١٧۔ امام (علیه السلام) کا خط مسلم بن عقیل کے نام

(حضرت نے یہ خط مسلم بن عقیل ؑ کے خط[6] کے جواب میںلکھا تھا)

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم. اما بعد: مجھے خوف ہے کہ آپ کوفہ والوں کے نام خط نہ لے جائیں بلکہ مجھ سے معذرت طلب کریں، لہٰذا جس کام کی خاطر آپ کو بھیجا ہے اسے انجام دیجئے۔ والسلام

١٨ ۔ امام (علیه السلام) کا خط کوفہ والوں کے نام

     بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم. حسین بن علی کی طرف سے کوفہ کے مسلمین و مومنین کے نام:

    سلام علیکم !میں تمہیں اس خدا کی حمد و ثنا کی یاد لاتا ہوں جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے. امابعد: مجھے مسلم بن عقیل کا خط ملا ہے، جس میں انہوں نے تمہارے اچھے خیالات اور ہماری مدد پر تمہارے اجتماع اور ہمارے حق کے مطالبے کے جذبے کی خبر دی ہے. خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کرے اور ہم لوگوں کو اس اتحاد و اتفاق کے عوض اجر عظیم عنایت کرے. میں مکہ سے روز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ روز ترویہ نکل چکا ہوں، جب میرا قاصد تمہارے پاس پہنچے تو تم اپنے ارادہ کو پنہاں رکھنا اور آمادہ رہنا کیونکہ میں ان ہی چند دنوں میں پہنچنے والا ہوں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

١٩۔ امام (علیه السلام) کا خط اہل کوفہ کے نام

(حضرت نے یہ خط [7] اہل کوفہ کے خط کے جواب میں لکھا )

     بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم. حسین بن علی کی طرف سے کوفہ کے مسلمانوں اور مومنوں کے نام، امابعد: ہانی اور سعید دونوں میرے پاس آپ لوگوں کے خطوط لیکر حاضر ہوئے اور یہ دونوں آخری فرد تھے، جو آپ حضرات کے خطوط لیکر میرے پاس آئے ہیں، آپ کے ارادوں سے میں باخبر ہوا اور جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کو محسوس کیا (آپ لوگوں نے لکھا ہے کہ) ہمارا کوئی امام نہیں ہے، آپ آئیے تاکہ خدا آپ کے توسط سے ہمیں حق و حقیقت کی طرف ہدایت کرے. میں نے اپنی جانب سے اپنے چچازاد بھائی اور اہل بیت ٪کی معتمد شخصیت مسلم بن عقیل + کو آپ کی طرف روانہ کر رہا ہوں. اگر انہوں نے آپ کے اتحاد فکر اور ارباب حل و عقد کے اتفاق اورحسین بن علی کے نام ان کے مومن و مسلمان شیعوں کی طرف سے ۔

    بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم.اما بعد: آپ جلد از جلد، تشریف لائیے، چونکہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں آپ کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے، لہٰذا آپ جلدی کیجئے جلدی کیجئے .... والسلام

آپ کے ارسال کردہ خطوط کے مطالب کی تائید کی تو میں پہلی فرصت میں ان شاء اللہ نکل پڑوں گا. میری جان کی قسم، امام وہی ہے جو کتاب خدا کے مطابق فیصلہ کرے. حق و انصاف قائم کرے، دین الہٰی کا پابند ہو اور اپنی جان کو خدا کے لئے وقف کردے۔ والسلام

٢٠ ۔ امام (علیه السلام) کا خط حبیب بن مظاہر ؑ کے نام

    جب آپ عازم کوفہ تھے راستے میں مسلم ابن عقیل ؑکی شہادت اور اہل کوفہ کی بے وفائیوں کی خبر ملی، تو آپ نے بارہ علم بنائے اور ان کو اٹھانے کا حکم دیا. سارے علم اٹھا لیئے گئے صرف ایک بچا، بعض اصحاب نے عرض کی مولا اس کی بھی اجازت فرمائیں کہ ہم اٹھالیں. آپ نے فرمایا : خدا تم سب کو جزائے خیر دے اس کا اٹھانے والا آر ہا ہے اس کے بعد آپ نے تحریر فرمایا: حسین ابن علی بن ابیطالب(علیهم السلام)کی جانب سے مرد فقیہ حبیب ابن مظاہر کی طرف، امابعد:

    اے حبیب تم رسول اکرم(ص)سے ہماری قرابت کے بارے میں بہتر جانتے ہو اور ہمارے حقوق کے سلسلہ میں غیروں کی بہ نسبت زیادہ باخبر ہو . تم غیور اور بہادر ہو لہٰذا ہمارے ساتھ اپنی جان کی بازی لگانے میں بخل سے کام نہ لینا۔

 (تمہیں روز قیامت میرے جد رسول اللہ(ص)جزا دیں گے۔

    یہاں تک دوسرا باب ختم ہوگیا، میں اس کے خاتمہ پر حمد خدا بجا لاتا ہوں اور یہاں سے اب تیسرا باب شروع ہوگا جو سید الشہداء (علیه السلام) کے مختصر جملوں پر مشتمل ہے۔

 

تیسرا باب

امام حسین (علیه السلام)کے مختصر ارشادات

   

سرکار سید الشہداء (علیه السلام)کے مختصر اقوال کے بیان میں جو اخلاق و آداب، نصیحتوں اور حکیمانہ رہنمائیوں پر مشتمل ہیں

   

    ١۔ مولا نے فرمایا: جو شخص اللہ کی عبادت اوربندگی اس کے شایان شان کرے گا، خدا اس کو اس کی امیدوں سے زیادہ اور خواہش سے بڑھ کر عطا کرے گا۔

    ٢ ۔ مولا نے فرمایا: جس نے اپنے با فضیلت آباء ، محمد و علی + کی حقیقی معرفت حاصل کرلی اور ان کی اطاعت کا حق ادا کیا، اس سے کہا جائے گا جنت کے جس حصہ میں چاہو رہ سکتے ہو۔

    ٣ ۔ مولا نے فرمایا: بندگان خدا کا ایک گروہ جنت کے شوق میں عبادت کرتا ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے، ایک گروہ جہنم کے خوف سے عبادت کرتا ہے یہ غلاموں کی عبادت ہے، اور ایک گروہ نعمتوں کے شکر کے لئے عبادت کرتا ہے یہ آزاد منشوں کی عبادت ہے اور یہی بہترین عبادت ہے۔

    ٤ ۔ کسی نے امام (علیه السلام) کی خدمت میں عرض کی : فرزند رسول!آپ نے کس حالت میں صبح کی؟

     آپ نے فرمایا: میں نے اس حال میں صبح کی کہ میرا ایک ہی پروردگار ہے جو مجھ سے مافوق اور برتر ہے. آگ میرے روبرو ہے اور موت مجھے تلاش کر رہی ہے حساب قیامت میری تاک میں ہے اور میرے لئے صرف میرا عمل ضامن ہے جس چیز کی تلاش میں ہوتا ہوں وہ مل نہیں پاتی. اور جن چیزوں سے نفرت کرتا ہوں ان کودور نہیں کرپاتا. میرے امور کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے، کہ اگر وہ چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو دامن عفو میں جگہ دیدے. لہٰذا کون فقیر ایسا ہے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔

    ٥ ۔ مولا نے فرمایا: اگر تین چیزیں فرزند آدم میں نہ ہوتیں تو یہ کسی کے سامنے سر نہ جھکاتا :

    ١ ۔۔۔۔۔۔ فقر ٢ ۔۔۔۔۔۔ مرض ٣ ۔۔۔۔۔۔ موت

    ٦ ۔ مولا نے فرمایا: جو کوئی ہمارے پاس آئے گا وہ چار خصلتوں سے فیضیاب ہوگا: محکم دلیل، منصفانہ فیصلہ، ہمدرد برادر اور علماء کی ہمنشینی۔

    ٧ ۔ ایک شخص نے آپ کے سامنے کسی کی غیبت کی تو آپ نے اس سے فرمایا:

    اے شخص ! غیبت سے باز آجا، کیونکہ یہ جہنم کے کتّوں کی غذا ہے۔

    ٨ ۔ مولا نے فرمایا: خداوند سبحانہ کسی بندے کو مہلت صرف اس لئے دیتا ہے کہ اس کو کثرت نعمت سے نوازے، لیکن شکر کی توفیق اس سے سلب کرلے۔

    ٩۔ مولا نے فرمایا: کنجو س وہ ہے جو سلام میں کنجوسی کرے۔

    ١٠ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر نیکی نااہل کے ساتھ کی جائے تو کیا ضائع ہوجاتی ہے؟

     آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے. بلکہ نیکی اس تیز بارش کے مانند ہے جو نیک و بد ہر ایک کے حصہ میں آتی ہے۔

    ١١۔ ایک شخص نے آپ سے ملاقات کی اور بات کی ابتدایوں کی، خدا آپ کو سلامت رکھے آپ کیسے ہیں؟

     آپ نے فرمایا: گفتگو شروع کرنے سے پہلے سلام کرنا چاہئے. خدا تمہیں بھی سلامت رکھے. کسی کو بھی بات کی اجازت نہ دو جب تک وہ سلام نہ کرلے۔

    ١٢ ۔ ایک شخص نے آپ کے پاس کر آیا آپ سے کچھ مانگا تو آپ نے فرمایا: کسی سے سوال کرنے میںبھلائی نہیں ہے مگر جب سخت مشکل کا سامنا ہو، انسان بالکل نادار ہو یا خون بہا ادا کرنے کی طاقت نہ ہو اس نے کہا: مولا انہیں میں سے ایک مسئلہ کے پیش نظرمیں آپ کے پاس آیا تھا. آپ نے حکم دیا کہ اس کو سو دینار دیئے جائیں۔

    ١٣ ۔ ایک شخص نے خدا کے اس قول (و اَمَّا بِنِعمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث) [سورہئ ضحیٰ آیت١١] (اور اے پیغمبر آپ اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کیجئے) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبرؐ کو اس نعمت کی خبر لوگوں تک پہونچانے کا حکم دیا ہے جو خدا نے دین میںانھیں عطا کی ہے۔

    ١٤۔ مولا نے اپنے فرزند علی (علیه السلام) سے فرمایا: اے بیٹا! ایسے شخص پر ظلم کرنے سے پرہیز کرناکہ جس کی فریاد رسی کرنے والا خدا کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو۔

    ١٥۔ انصار میں سے ایک شخص آپ کے پاس حاجت لے کر آیا 

  . آپ نے فرمایا: میرے بھائی اپنی آبرو کی حفاظت کرو اور جو بھی مشکل ہے اس کو ایک کاغذ پر لکھ دو. انشاء اللہ میں تمہاری حاجت پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔

     اس نے لکھا: یا ابا عبداللہ ! میں فلاں شخص کے پانچ سو دینار کا مقروض ہوں وہ مجھ سے طلب کر رہا ہے آپ اس سے سفارش کر دیجئے کہ مجھے کچھ مہلت دیدے۔

    مولا نے اس رقعہ کو پڑھا ،بیت الشرف میں تشریف لے گئے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی لاکر اس کو عطا کردی۔

     اس کے بعدآپ (علیه السلام) نے فرمایا: پانچ سو دینار سے قرض ادا کر دینا اور بقیہ پانچ سو دینار کو اپنے بقیہ امور میں خرچ کرنا، اور سنو! صرف تین افراد سے اپنی حاجت بیان کیا کرو. ١)دیندار ٢) باوقار ٣)شریف النسب. اس لئے کہ دیندار اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور باوقار اس بات سے شرمندگی محسوس کرے گا کہ تم کو خالی ہاتھ واپس کردے اور شریف خاندان والا جانتا ہے کہ تم اپنی عزت کو یوں ہی نیلام نہیں کرو گے (یعنی بغیر حاجت کے لئے زبان نہیں کھولو گے) لہٰذا وہ تمہیں رسوا ہونے سے بچالے گا.اس طرح کہ تمہاری حاجت پوری کئے بغیر تم کو واپس نہیں کرے گا۔

    ١٦۔ مولا نے فرمایا: انسان کے ہر دلعزیز ہونے کی پہچان اس کا صاحبان عقل کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے اوراسباب جہالت کی علامت غیر کفار سے کٹ حجتی کرنا ہے۔

    اور عالم کی نشانی، اس کا اپنے کلام پر تنقید کرنا اور مختلف نظریات کے حقائق سے واقف ہونا ہے۔

    ١٧۔ مولا نے فرمایا: مومن خدا کو اپنے بچاؤ کا وسیلہ بناتا ہے اور کلام خدا کو اپنا آئینہ قرار دیتا ہے کبھی مومنین کی خوبیوں کو اس میں دیکھتا ہے اور کبھی ظالموں کے حالات پر نگاہ ڈالتا ہے آئینہ مومن کے لئے کئی طرح سے لطیف شے ہے . مومن کو اپنے نفس کی پوری معرفت حاصل ہوتی ہے وہ اپنی فطانت میں یقین کی منزل میں ہوتا ہے اور پارسائی و تقدس کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیتا ہے۔

    ١٨ ۔ مولا نے فرمایا: ایسا کام نہ کرو کہ جس کے بعد عذر خواہی کرنا پڑے، مومن کبھی ایسی حرکت نہیں کرتا جس سے وہ عذر خواہی پر مجبور ہو، لیکن منافق روزانہ غلطی کرتا ہے اور عذر خواہی کرتا ہے۔

    ١٩ ۔ مولا نے فرمایا:     سلام کے ستر ثواب ہیں، انہتر (٦٩) سلام کرنے والے کے اور ایک جواب دینے والے کا۔

    ٢٠ ۔مولا نے فرمایا: حاجت مند نے تم سے سوال کر کے اپنی عزت داؤ پر لگادیتا ہے پس تم اس کو با مراد لوٹا کر اس کی عزت رکھ لو۔

    ٢١ ۔ مولا نے فرمایا: جو شخص ہم (اہلبیت ٪) کو خدا کی خوشنودی کے لئے خاطر چاہے گا وہ ہمارے ساتھ پیغمبر(ص)سے اس طرح ملاقات کرے گا ،یہاں آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا اور اگر کوئی حُبِّ دنیا کے لئے ہم سے محبت کرے گا تو پھر دنیا تو ہر نیک و بد کے لئے ہے۔

    ٢٢ ۔ مولا نے فرمایا: جو شخص اپنی کوئی رائے نہ رکھتا ہو اور لوگوں کے حیلے اور مکاریاں اس کو عاجز کردیں، تو ایسے شخص کی نجات کسی اچھے دوست کی دوستی و ہمراہی میں ہے۔

    ٢٣ ۔ مولا نے فرمایا: جو شخص ہمارے اس یتیم کی کفالت کرے جو لوگوں سے کنارہ کش رہنے کی ہماری کوشش کی بنا پر ہم سے دور ہوگئے ہیں اور ہمارے وہ علوم ان کو سکھائے جو اس تک پہونچے ہیں تاکہ وہ ان علوم سے ان کی ہدایت و رہنمائی کرے تو خدائے عزوجل ایسے بندہ سے کہے گا اے میرے کریم و مہربان بندے ! میں ایسا کرم کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں پس اے میرے فرشتو! اس کے ہر تعلیم کردہ حرف کے بدلے میں دس لاکھ قصر؛ جنت میں تیار کرو اور نعمات جنت میں سے جو چیز اس کے شایان شان ہو اس کو عطا کرو۔

    ٢٤۔ مولانے فرمایا: اگر تقیہ نہ ہوتا تو ہمارے دوست و دشمن کی شناخت نہ ہو پاتی اور اگر بھائیوں کے حقوق کی معرفت نہ ہوتی تو برائی کی پہچان نہ ہو پاتی، یہاں تک کہ سب پر عذاب الہٰی آجاتا، لیکن خدا فرماتا ہے . (وَ مَا اَصَابَکُم مِن مُصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَت اَیدِیکُم وَ یَعفُوَ عَن کَثِیر) [سورہئ شوری آیت ٣٠] جوبھی مصیبت تم پر آتی ہے اس کے ذمہ دار تم خود ہو اور اللہ بہت ساری خطاؤں کا معاف کرنے والا ہے۔

    ٢٥ ۔ مولا نے فرمایا: ایک شخص نے کہا اے فرزند رسول! میں آپ کے شیعوں میں سے ہوں۔

     تو آپ نے فرمایا: ایسے دعوے سے پر ہیز کرو جس کے بارے میں خدا تم سے کہے کہ تم جھوٹے ہو اور غلط دعویٰ کر رہے ہو. (سنو) میرے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر طرح کے کینہ، خیانت اور چال بازی سے پاک ہوں (ہاں) تم یہ کہو کہ میں آپ کے دوستوں اور چاہنے والوں میں سے ہوں۔

    ٢٦ ۔ ایک شخص نے مولا سے کہا : فرزند رسولؐ ! میں ایک گنہگار آدمی ہوں اور گناہ سے اپنے آپ کو روک نہیں پاتا، آپ مجھے نصیحت فرمائیں

     امام نے فرمایا: پہلے پانچ امور انجام دے لینا پھر جتنا چاہے گناہ کرنا ۔

    پہلی چیز۔ رزق خدا نہ کھانا پھر جتنا چاہو گناہ کرنا۔

    دوسری چیز ۔ اللہ کی حکومت سے نکل جانا پھر جتنا چاہو گناہ کرنا۔

    تیسری چیز ۔ ایسی جگہ تلاش کرنا جہاں خدا تمہیں نہ دیکھ پائے پھرجتنا چاہو گناہ کرنا ۔

    چوتھی چیز ۔ جب ملک الموت تمہاری قبض روح کے لئے آئیں تو ان کو اپنے پاس نہ آنے دینا پھر جتنا چاہنا گناہ کرنا۔

    پانچویں چیز ۔ جب داروغہئ جہنم تم کو جہنم میں ڈالے تو اس میں نہ جانا پھر جتنا چاہنا گناہ کرنا۔

    ٢٧۔ مولا نے فرمایا: بھائی چار طرح کے ہوتے ہیں:

    ١ ۔ وہ بھائی جو اپنے اور تمہارے لئے سود مند ہو۔

    ٢ ۔ وہ بھائی جو صرف تمہارے لئے فائدہ مندہ ہو۔

    ٣ ۔ وہ بھائی جو تمہارے لئے ضرر رساں ہو۔

    ٤ ۔ وہ بھائی جو نہ اپنا بھلا چاہے اور نہ ہی تمہارا۔

    مندرجہ بالا جملوں کی آپ سے وضاحت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا:

    ١ ۔ وہ بھائی جو تمہارے اور اپنے لئے سودمند ہے وہ ایسا بھائی ہے جوبھائی چارگی کے ذریعے بھائی چارگی کی حیات چاہتا ہے نہ کہ بھائی چارگی کی موت، یہ بھائی تمہارا بھی بھلا چاہتا ہے اور اپنا بھی، کیونکہ اگربھائی چارگی کی گرہ مضبوط ہوگی تو دونوں کی زندگی خوشحال ہوگی اور اگر بھائی چارگی میں دراڑ پڑ جائے تو دونوں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔

    ٢۔ وہ بھائی جو صرف تمہارا بھلا چاہتا ہے اس نے اپنے نفس کو حرص کے دام سے نکال کر محبت کے جال میں جکڑ لیا ہے. وہ بھائی چارگی کے بہانے دنیا کی لالچ نہیں رکھتا. بلکہ ہر طرح سے تمہارا خیر خواہ ہے۔

٣ ۔ وہ بھائی جو تمہارے لئے نقصان دہ ہے وہ ا س چیز کی تاک میں رہتا ہے کہ تم پر کوئی افتاد آن پڑے،

اور وہ تمہارے ساتھ خلوت و جلوت میں یکساں نہیں ہے، وہ دوستوں اور اقرباء کے درمیان تمہارے اوپر جھوٹی تہمتیں لگاتا ہے، او رتمہارے اوپر حاسدوں کی سی نگاہ رکھتا ہے، پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

    ٤۔ وہ بھائی جو نہ تمہاری بھلائی اور نہ اپنی ہی بھلائی کے لئے ہے، وہ ہے کہ خدا نے اس کے وجود کو حماقت سے مملو اور اپنی رحمت سے دور رکھا ہے؛ اس کو تم دیکھو گے کہ وہ ہمیشہ اپنے کو دوسروں پر مقدم رکھتا ہے، اور جو چیزیں تمہارے پاس ہیں ان میں طمع رکھتا ہے۔

    ٢٨۔ مولانے ایک شخص سے فرمایا: کون سا عمل تمہارے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور زیادہ مطلوب ہے؟ کیا وہ شخص جو کسی بیچارہ کو قتل کرنا چاہتا ہے اور تم اس بیچارہ کو اس کے ہاتھ سے چھٹکارا دلانا چاہتے ہو، یہ بہتر ہے؟ یا وہ دشمن اہلبیت ؑ جو ہمارے کمزور شیعہ مومن کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور تم اس شیعہ کو جو کہ دلیل و برہان کے ذریعہ استدلال کی قدرت نہیں رکھتا، اسے گمراہی سے نجات دلادو، یہ بہتر ہے؟

    اس کے بعد امام ؑ نے فرمایا:

    اس شیعہ مومن کی نجات، جو دشمن اہلبیت ؑ کے ذریعہ گمراہی کے درپے ہے زیادہ قیمتی ہے ، چونکہ خدائے متعال ارشاد فرماتا ہے: ''جو کوئی ایک نفس کو زندہ کرے ، تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا ہے'' یعنی جس نے زندہ کیا اور کفر سے ایمان کی طرف ہدایت کی، تو گویا اس نے ان کو تلوار کے ذریعہ قتل ہونے سے نجات بخشی ہے۔

    ٢٩۔ مولا نے فرمایا: بادشاہوں اور حکام کی تین خصلتیں بہت بری ہیں:

    ١۔ دشمن سے خوف، ٢ ۔ ضعیفوں اور کمزوروں پر سختی کرنا، ٣۔ عطا و بخشش میں کنجوسی کرنا۔

    ٣٠ ۔ مولا نے فرمایا: جو چیز تمہارے بس میں نہیں ہے اس کے سلسلے میں خود کو تکلف میں مبتلا نہ کرو، جس چیز کو تم پا نہیں سکتے اس کی جانب ہاتھ نہ بڑھاؤ اور جس چیز پر تم قادر نہیں اس کے حصول کی باربار کوشش نہ کرو، جتنا کماتے ہو اسی کے مطابق خرچ کرو، جس قدر عمل کرتے ہو اتناہی اس کی جزا کے لئے تیار رہو، تمہاری خوشی اطاعت پروردگار کے مطابق ہونی چاہئے او رجس چیز کے تم اہل ہو اسی کو حاصل کرو۔

    ٣١ ۔ مولا نے فرمایا: جس کے پاس امانت ہو اس کو اطمینان ہوتا ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو وہ کسی سے نہیں ڈرتا، اور خیانت کار، ہمیشہ خائف رہتا ہے اور برائی کرنے والا وحشت زدہ رہتا ہے، اور جب کسی عقلمند انسان پر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے تو اپنی ذہانت سے حزن و غم کو برطرف کر دیتا ہے. اور اپنی عقل کوچارہ جوئی اور تدبیر کے لئے استعمال کرتا ہے۔

    ٣٢ ۔ مولا نے فرمایا: کسی بادشاہ کے لئے دواء تشخیص نہ دو کیونکہ اگر وہ کارگر ہوئی تو تمہارا شکریہ ادا نہیں کرے گا اور اگر نقصان دہ ثابت ہوئی تو وہ تم کو متہم کرے گا. (تم کو خطا وار ٹہرائے گا)

    ٣٣۔ آپ کے سامنے عبد اللہ بن عمرو کی جانب سے جنگ صفین میں (امیر شام کے ساتھ) شرکت کرنے کی بابت عذر خواہی کی گئی۔

    تو آپ نے فرمایا: بسا اوقات گناہ عذر گناہ سے بہتر ہوتا ہے۔

    ٣٤ ۔ مولا نے فرمایا: اگر تمہارا مال تمہارا کام نہ ہوسکا تو تم اس کے اسیر ہو جاؤ گے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے زندہ نہیں رہوگے اور نہ ہی مال تمہارے لئے باقی رہے گا. لہٰذا اس سے پہلے کہ وہ تمہیں کھاجائے تم اس سے فائدہ اٹھالو۔

    ٣٥ ۔ مولا نے فرمایا: جس نے تمہارا ہدیہ قبول کیا گویا اس نے بزرگواری حاصل کرنے میں تمہاری مدد کی۔

    ٣٦ ۔ مولا نے عرض کی : خدا یا! مجھ پر احسان کر کے اپنے حضور شرفیاب ہونے کی توفیق مجھ سے سلب نہ کر اور بلاء و آزمائش میں مبتلا کر کے میری تنبیہ نہ کر۔

    ٣٧ ۔ مولا نے فرمایا: سچائی، عزت ہے ، جھوٹ ،ناتوانی ہے، راز امانت ہے اور ہمسائیگی رشتہ داری ہے. مدد کرنا دوستی کی نشانی ہے اور عمل ایک تجربہ ہے.حسن خلق عبادت ہے اور سکوت زینت ہے. حرص و طمع فقر و ناداری ہے اور سخاوت، بے نیازی ہے اور نرمی عقلمندی ہے۔

    ٣٨ ۔ مولا نے حسن بصری سے مخاطب ہو کر فرمایا: (اس وقت حسن بصری آپ کو پہچانتے نہیں تھے)

    اے شیخ ! کیا تم روز جزا کے سلسلے میں اپنے نفس سے راضی ہو؟

    حسن بصری نے کہا: نہیں۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: تو پھر تم اپنے نفس سے کہتے ہو گے کہ اس کام کو ترک کردے کہ جس کی انجام دہی کے سبب تم روز قیامت اپنے نفس سے راضی نہیں ہو؟۔

    انھوں نے کہا: ہاں میں ایسا کرتاہوں۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: قیامت اور روز جزا کے سلسلہ میں تم سے بڑھ کر اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرنے والا اور کون ہوگا،جبکہ تم اپنے نفس کو ترک گناہ پر آمادہ کرسکتے ہو، مگر ایسا نہیں کرتے؟ اس کے بعد امام (علیه السلام) وہاں سے چلے گئے تو حسن بصری نے پوچھا یہ کون تھا؟ کسی نے کہا حسین بن علی +، اس نے کہا اب مجھے سکون ملا۔

    ٣٩ ۔ مولا نے ایک روز ابن عباس سے مخاطب ہو کر فرمایا: ابن عباس ! اس گفتگو سے پرہیز کروجو تمہارے واسطے کسی رخ سے فائدہ مند نہ ہو. کیوں کہ مجھے خوف ہے کہیں تمہارے گناہوں کا بار زیادہ نہ ہو جائے .اور بے موقع و محل کوئی بات زبان پر مت لاؤ جب تک اس کا موقع نہ ہو، کیوں کہ بسا اوقات حق بات بھی اس کے کہنے والے کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوتی۔

    اور دیکھو کسی حلیم و بردبار یا کسی احمق سے کٹ حجتی نہ کرو کیوں کہ جو حلیم ہے وہ تم پر غالب آجائے گا. اور جو بے وقوف ہے تم کو کبیدہ خاطر کردے گا، اپنے مومن بھائی کے بارے میں اس کی عدم موجودگی میں کوئی ایسی بات نہ کرو جسے وہ تم سے چھپانا چاہتا ہو، مگر صرف وہی بات کرو جس کو تم اپنی عدم موجودگی میں اپنے بارے میں سننا چاہتے ہو اور اس شخص کے مانند عمل کرو جو جس کو برے کام کی سزا اور نیک کام کا ثواب ملنے کا یقین ہو۔ والسلام

    ٤٠ ۔ مولا نے فرمایا: ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔

    ٤١۔ ایک شخص نے مولا سے کہا: آپ مجھے متکبر (گھمنڈی)لگتے ہیں ۔

    مولا نے فرمایا: کبریائی صرف خدا سے مخصوص ہے، اس کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتی کہ لیکن خدا فرماتا ہے: (لِلّٰہِ العِزَّۃُ وَ لِرَسُولِہِ وَ لِلمُومِنِین) [سورہئ منافقون آیت ٨] عزت اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے۔

    ٤٢ ۔ مولا نے فرمایا: تمہارا مال تمہیں اس وقت فائدہ دے گا جب تم اسے خرچ کرو گے، تم اس کو اپنے بعد کے لئے نہ چھوڑو کیوں کہ وہ دوسروں کی جاگیر بن جائے گا جبکہ تم کو اس کا حساب دینا ہوگا. اور یہ اچھی طرح جان لو کہ تم مال کے لئے زندہ نہ رہ سکو گے اور نہ ہی تمہارا مال تم سے وفا کرے گا. لہٰذا اس کو خرچ کر ڈالو قبل اس کے کہ وہ تم کو کھاجائے۔

    ٤٣ ۔ مولا نے فرمایا: علم کا حصول ،معرفت کا پہلا زینہ ہے اور زیادہ تجربہ عقل کی افزائش کا باعث ہے. شرف، خود ایک قسم کا تقویٰ ہے. اور قناعت، راحت جسم کا سامان ہے (اور یادرکھو) جو تمہارا دوست ہوگا وہ تم کو غلطیوں پر ٹوکے گا اور جو تمہارا دشمن ہوگا. وہ تم کو خلاف ورزیوں پر ورغلاتا رہے گا۔

    ٤٤ ۔ اما م (علیه السلام) سے سوال کیا گیا کہ خدا نے اپنے بندوں پر روزہ کیوں فرض کیا ہے؟

    امام (علیه السلام) نے ارشاد فرمایا: تاکہ مالدار افراد بھوک کے مزے سے واقف ہوسکیں اور اس کے نتیجہ میں غریبوں اور مسکینوں کی حاجتوں کو پورا کریں۔

    ٤٥ ۔ مولا نے فرمایا: جب تمہیں پتہ چلے کہ کوئی شخص لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کر رہا ہے توکوشش کرو کہ وہ تم کو نہ پہچان سکے کیونکہ وہ جس سے جتنا آشنا ہوگا اتنی ہی اس کی توہین کرے گا۔

    ٤٦ ۔ امام (علیه السلام) سے کہا گیا کہ آپ کے دل میں اپنے پروردگار کا کتنا خوف ہے!؟

     امام (علیه السلام) نے فرمایا: قیامت کے دن صرف وہی شخص بے خوف ہوگا جو دنیا میں خدا سے بہت ڈرتا رہا ہو۔

    ٤٧ ۔ امام (علیه السلام) سے سوال کیا گیا کہ جہاد مستحب ہے یا واجب؟

     فرمایا: جہاد کی چارصورتیں ہیں.دو صورتوں میں جہاد واجب ہے. تیسری صورت میں لازم ہے جو صرف امام کی اجازت پر موقوف ہے. اورچوتھی صورت میں مستحب ہے۔

    دو واجب جہادوں میں سے ایک انسان کا اپنے نفس کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں کے مقابلہ میں جہاد ہے اور یہ جہاد اکبر ہے اور دوسرا واجب جہاد سرحدی کفار کے مقابلہ میں ہے، تیسرا جہاد جو اذن امام کے بغیر نہیں ہوسکتا، دشمنوں کے خلاف کیا جاتا ہے اور یہ جہاد امت کی ہر فرد پر لازم ہے اگر امت اس کو ترک کردے تو عذاب الہٰی اس کو اپنی گرفت میں لے لیگا اور یہ امت کے لئے عذاب ہے اور یہ جہاد امام کی سنت ہے. اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام (علیه السلام) امت کے ہمراہ دشمنوں پر چڑھائی کریں اور ان سے جہاد کریں۔

جہاد کی چوتھی صورت جو مستحب ہے.کسی شخص کا سنت کے احیاء اور اس کی تبلیغ و ترویج کے لئے کمر بستہ ہونا ہے، اور اس راہ میں جد و جہد کرنا بہترین اعمال میں سے ہے۔

    رسول اکرم(ص)نے فرمایا ہے: جو شخص کسی سنت حسنہ کو رائج کرے اس کو اس سنت کے رائج کرنے کا ثواب اور اس پر عمل کرنے والے کا ثواب قیامت تک دیا جائے گا.جب کہ اس کے انجام دینے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔

    ٤٨ ۔ ایک شخص نے سوال کیا. یابن رسول اللہ (یَومَ نَدعُو کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِم) [سورہئ اسراء آیت ٧١] قیامت کے دن ہم ہر شخص کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے، کے کیا معنی ہیں؟

    امام ؑ نے فرمایا: امام سے مراد ایک تو وہ شخص ہے جو لوگوں کو حق کی دعوت دے اور لوگ اس کی آواز پر لبیک کہیں. اور دوسرا وہ شخص ہے جو لوگوں کو گمراہی کی جانب بلائے اور لوگ اس کی طرف دوڑے چلے جائیں.پہلا گروہ جنتی ہے. اور دوسرا گروہ جہنمی ہے. خداوند متعال نے بھی یہی ارشاد فرمایا ہے: (فَرِیقُ، فِی الجَنَّۃِ وَ فَرِیقُ، فِی السَّعِیر) [سورہئ شوری آیت ٧] ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا گروہ جہنم میں۔

    ٤٩ ۔ اے فرزند آدم تم سب دنوں کے مانند ہو جوں ہی ایک دن کم ہوتا ہے تمہاری عمر کا کچھ حصہ کم ہو جاتا ہے۔

     ٥٠ ۔ امامؑ نے فرمایا:کتاب خدا چار چیزوں پر مشتمل ہے.عبارتیں ،اشارے ، لطائف اور حقائق۔

    عبارتیں عوام کے لئے، اشارے خواص کے لئے، لطائف اولیاء کے لئے، اور حقائق انبیاء(علیهم السلام)کے لئے ہیں۔

    ٥١ ۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا کہ تشریف رکھئے تاکہ ہم دین کے سلسلہ میںمناظرہ کریں۔

     آپ نے ارشاد فرمایا کہ : اے شخص میں اپنے دین کے سلسلے میں بہتر جانتا ہوں اور راہ ہدایت سے واقف ہوں، اگر تم اپنے دین سے ناآشنا ہو تو جاؤ اور آشنائی حاصل کرو، مجھے بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے. شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے. اور کانا پھونسی کے انداز میں کہتا ہے کہ دین کے سلسلہ میں مناظرہ کرو تاکہ لوگ تمہارے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ تم جاہل ہو، لوگوں کی حالت چار صورتوں سے خالی نہیں ہوتی۔

    تم او رتمہارا مخاطب یا تو معلوم اشیاء کے بارے میں مجادلہ کرتے ہیںایسی صورت میںتم نے نصیحت کا پہلو چھوڑ کر رسوائی کا پہلو اختیار کیا ہے. اور علم کو برباد کردیا ہے. یا تم دونوں جاہل ہو، ایسی صورت میں تم دونوں نے جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور جہالت کی بنا پر ایک دوسرے سے دشمنی کی ہے، یا یہ کہ تم تو عالم ہو لیکن اپنے مخاطب پر غلبہ حاصل کر کے اس کو رسوا کرنا چاہتے ہو، یا تم نادان ہو اور تمہارا ساتھی عالم ہے ایسی صورت میں تم نے اس کا احترام نہ کر کے اس کو اس کا مقام نہیں دیا اور یہ چاروں صورتیں میرے لئے محال ہیں. اس لئے کہ کوئی بھی انصاف پسند اور حق پرست انسان اگر مجادلہ سے پہلو تہی اختیار کرے تو گویا اس نے اپنے ایمان کو تقویت بخشی اور اپنے دین اور اپنی عقل کی حفاظت کی ہے۔

    ٥٢ ۔ مولا نے فرمایا: جس کسی بندے کی آنکھ سے ہمارے لئے آنسو ٹپکے یا اس کی آنکھوں میں آنسو آجائے ، تو خدا اس کو بہشت میں جگہ دے گا۔

    ٥٣ ۔ مولا نے فرمایا: صرف ایسے شخص سے بے خوف رہو جو خدا کا خوف رکھتا ہو ۔

    ٥٤ ۔ مولا نے فرمایا: خوف خدا میں گریہ، نار جہنم سے امان کا ذریعہ ہے۔

    ٥٥۔ مولا نے فرمایا: آنکھوں کا گریہ اور دلوں کا خوف رحمت خدا کی نشانی ہے ۔

    ٥٦ ۔ مولا نے فرمایا: جو شخص دوسروں کی عیب جوئی نہیں کرتا وہ ان کے ہر عیب کا بہانہ نکال لیتا ہے ۔

    ٥٧۔ مولا نے فرمایا: اگر تم گذشتہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو آئندہ نعمتوں میں اضافہ ہوگا۔

    ٥٨ ۔ مولا نے فرمایا: طاقت، تحفظ کو مٹا دیتی ہے. او رہر انسان اپنے بارے میں اچھی طرح واقف ہوتا ہے ۔

    ٥٩۔ مولا نے فرمایا: وہ حقائق جن کو تم ناپسند کرتے ہو ان کو برداشت اور صبر کرو، وہ چیزیں جن کی طرف ھوا وھوس تم کو دعوت دے ان کے سلسلہ میں ضبط نفس سے کام لو۔

    ٦٠۔ ابان ابن تغلب کہتے ہیں: امام شہید (علیه السلام)نے فرمایا ، ہم سے محبت کرنے والا ہم اہلبیت ٪میں سے ہے۔

    ابان کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: آپ اہل بیت ٪سے ہے؟ !

    آپ نے فرمایا: ہاں ہم اہل بیت سے ہے اور اس فقرے کو تین دفعہ دہرایا اس کے بعد فرمایا: کیا تم نے عبد صالح کی اس بات کو نہیں سنا ہے کہ (فَمَن تَبِعَنِی فَاِنَّہُ مِنِّی) [سورہئ ابراہیم آیت ٣٦] (جو میرا اتباع کرے گا وہ ہم میںسے ہوگا)۔

    ٦١ ۔ روایت میں آیا ہے کہ منذربن جارود سید الشہداء (علیه السلام)کی خدمت میں آئے اور عرض کی: فرزند رسول! میری جان آپ پر فدا ہو جائے، آپ نے کس حال میں صبح کی؟آپ نے فرمایا: میں نے اس حال میں صبح کی کہ عرب، عجم پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ؐان میں سے تھے اور عجم،عرب کے اس افتخار کو قبول کو تسلیم کرتے تھے. ہماری اور قریش کی حالت یہ ہے کہ قریش ہماری فضیلتوں سے واقف ہیں، لیکن وہ ہماری فضیلتوں کا اعتراف نہیں کرتے اور امت مسلمہ کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر تم ان کو دعوت حق دیں تو وہ قبول نہیں کرتے اور اگر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ ہمارے بغیر راہ ہدایت نہیں پاسکتے۔

    ٦٢۔ اخطب کے ایک وفدکا آپ کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: کہ نہ معلوم کیوں یہ لوگ (بنی امیہ) ہم سے دشمنی رکھتے ہیں جبکہ ہم خاندان رحمت،شجر نبوت اور معدن علم ہیں؟۔

    ٦٣ ۔ امام (علیه السلام) کے کسی فرزند کا انتقال ہوگیا اس وقت آپ کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں نہ ہونے کے باعث آپ پر اعتراض کیا گیا۔

تو آپ نے فرمایا: ہم اہل بیت جب خدا سے کوئی چیز طلب کرتے ہیں تو وہ ہم کو عطا کردیتا ہے اور جب وہ ہم اہل بیت کے لئے ایسی چیز کا ارادہ کرے جو ہمارے لئے خوش آیند نہ ہو تو ہم راضی بہ رضا رہتے ہیں۔

    ٦٤ ۔ ایک شخص امام (علیه السلام) کی خدمت میں آیا اور سلام کیا. امام حسین ؑ نے اس کے سلام جواب دیا تو اس نے عرض کی!فرزند رسولؐ! ایک سوال پوچھنا ہے۔

    آپ نے فرمایا: پوچھو۔

    اس نے کہا : ایمان و یقین کے بیچ کتنا فاصلہ ہے؟

    آپ نے فرمایا: چار انگلیوں کا۔

    اس نے کہا: کیسے؟

    آپ نے فرمایا: ایمان وہ ہے جس کو ہم نے کان سے سنا ہو اور یقین وہ ہے جس کو آنکھ سے دیکھا ہو اور آنکھ کان کے بیچ چار انگلیوں کا فاصلہ ہے۔

    اس نے کہا: زمین اور آسمان کے بیچ کتنا فاصلہ ہے؟

    آپ نے فرمایا: مقبول دعا کے برابر۔

    اس نے سوال کیا: مشرق و مغرب کے بیچ کتنا فاصلہ ہے ؟

    آپ نے فرمایا: سورج کے ایک دن کے سفر کے برابر۔

    اس نے کہا: ایک شخص کی عزت کا راز کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: لوگوں سے بے نیازی۔

    اس نے کہا : کون سی چیز سب سے زیادہ بری ہے؟

    آپ نے فرمایا: ایک بوڑھے کے لئے فسق و فجور قبیح ہے، سلاطین کے لئے تند مزاجی قبیح ہے، نجیب الطرفین کے لئے غلط بیانی بری چیز ہے، متمول افراد کے لئے بخل اور ایک صاحب علم کے لئے حب دنیا قبیح ہے۔

    اس نے کہا: مولا آپ نے سچ فرمایا.اب آپ مجھے رسول(ص)کے بعدائمہ ٪کی تعداد بھی بتا دیں۔

    آپ نے فرمایا: بارہ ،جو بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد ہے۔

    اس نے کہا : مولا اسماء سے بھی متعارف کرادیں. امام (علیه السلام) نے سر مبارک کو جھکایا پھر سر اقدس کو بلند کر کے فرمایا: اے برادر عرب میں تم کو بتا تا ہوں. رسول کے جانشین . امیر المومنین علی بن ابی طالب ؑ اور حسن ؑ اور میں اور میرے نو فرزند ہیں میرے بعد میرے فرزند علی ؑان کے بعد محمد جو علی ؑ کے فرزند ہیں . ان کے بعد جعفر بن محمد ہیں.ان کے بعد موسی بن جعفر ہیں. ان کے بعد علی بن موسی ہیں. ان کے بعد محمد بن علی ہیں. ان کے بعد علی بن محمد ہیں. ان کے بعد حسن بن علی(علیهم السلام)اور ان کے بعد خلف صالح مہدی (عج)ہیں.

وہ میرے نویں فرزند ہیں جو آخری زمانہ میں دین کے لئے قیام کریں گے۔

    ٦٥ ۔ روایت میں ہے کہ امیرالمومنین علی (علیه السلام) نے اپنے فرزند امام حسین (علیه السلام) سے سوال کیا. بیٹا یہ بتاؤ کہ سیادت کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: اپنے خاندان اور قبیلہ کے ساتھ نیکی کرنا اور لوگوں کی خطا کے وقت تحمل و بردباری سے کام لینا۔

    امیر المومنین علی (علیه السلام) نے پوچھا: بے نیازی کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: امیدیں کم کرنا اور جتنی ضرورت ہو اس پر راضی رہنا۔

    امیرالمومنین علی (علیه السلام) نے پوچھا: بیٹا فقر و نیاز مندی کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: لالچ کرنا اور لطف الہٰی سے بالکل مایوس ہوجانا ۔

    جناب امیر (علیه السلام) نے پوچھا: بیٹا بد نفسی (پستی) کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: انسان اپنے آپکو گناہ اور خواہشات نفسانی سے بچائے مگر اپنی شریک حیات کو اس کے حوالہ کر دے ۔

    جناب امیر (علیه السلام) نے فرمایا: پردہ دری کیا ہے؟

    آپ نے فرمایا: تمہاری اپنے امیر اور اس شخص سے دشمنی، جو تمہیں نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے ۔

    اس کے بعد جناب امیر (علیه السلام)، حارث اعور سے مخاطب ہوئے اور کہا: حارث ان گہر بار نصیحتوں اور حکمتوں کو اپنی اولاد کو سکھاؤ کیونکہ ان سے عقل، خود اعتمادی اورفکری استقلال میں اضافہ ہوگا۔

    ٦٦۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں عرض کی میں نے نیا گھر بنایا ہے میری خواہش ہے کہ آپ اس میں قدم رنجہ فرماکر خدا سے دعا فرمادیں. آپ تشریف لے گئے اور (عالی شان عمارت پر) ایک نظر ڈالنے کے بعد فرمایا: تم نے اپنا گھر (دار آخرت) تباہ کیا اور دوسرے کے گھر کو بسایا ہے، اہل زمین تمہاری عزت کریں گے اور اہل آسمان تم سے نفرت۔

    ٦٧۔ مولا نے فرمایا: زیادہ قسم کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ انسان صرف چار مواقع پر قسم کھاتا ہے یا اس وقت جب وہ کمتری کا احساس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ قسم کھانے سے لوگ اس کی تصدیق کردیں گے یا اس وقت جب وہ کوئی برہان اور دلیل پیش کرنے سے عاجز ہو تو قسم کھاتا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنا مدعا حاصل کرلے۔

    یاانسان پر کوئی تہمت لگی ہو تو قسم کھاتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ لوگ اس کے بغیر اس کی بات کو نہیں مانیں گے یا اس نے عادت بنا رکھی ہو کہ ہر بات کے ساتھ قسم کھاتاہو ۔

    ٦٨ ۔ مولا نے فرمایا: روز قیامت ایک منادی ندا دے گا کہ اے لوگو! جو کوئی بھی خدا سے اپنے اجر کا طلبگار ہے وہ کھڑا ہو. اس وقت صرف اہل خیر ہی اٹھیں گے۔

    امام (علیه السلام) اکثر اس شعر کو مثل کے طور پر پیش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے۔

اے دنیا سے لطف اندوز ہونے والو! دنیا باقی رہنے والی نہیں ہے

بیشک جلد ختم ہو جانے والے سایہ سے دھوکہ کھانا سراسر حماقت ہے

    ٦٩ ۔ مولا نے فرمایا: لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین ان کی زبان کی چاشنی ہے ، وہ اپنے دنیاوی مقاصد پورے کرنے کے لئے دین کو استعمال کرتے ہیں، چنانچہ اگر کسی بلا اور مشکل کے ذریعہ ان کا امتحان لے لیا جائے تو دیندار افراد کی تعداد انگلیوں پر گننے کے برابر ہوگی۔

    ''مولا کا یہ کلام نہایت بیش قیمت ہے جس کا کوئی کلام مقابلہ نہیں کرسکتا اور یہ کلام ایک دانشمند مفکر کے لئے نصیحت بھی ہے، حکمت بھی ہے اور عبرت آموز بھی ہے''

    ٧٠ ۔ مولا نے فرمایا: قرآن کا ظاہر حسین اور باطن عمیق ہے۔

    ٧١ ۔ ایک شخص امیر المومنین (علیه السلام) کے پاس آیا اور عرض کی کہ اگر آپ ناس، اشباہ ناس اور نسناس کے بارے میں جانتے ہیں تو مجھے بتائیں؟ امیرالمومنین (علیه السلام) امام حسین (علیه السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا حسین اس کا جواب دو۔

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: تم نے ''ناس'' کے بار ے میں جاننا چاہا ہے تو ناس سے مراد ہم اہلبیت ہیں اسی لئے خدا نے اس کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے (ثُمَّ اَفِیضُوا مِن حَیثُ اَفَاضَ النَّاسُ) [سورہئ بقرہ آیت ١٩٩] ''پھر تم بھی کوچ کرو جیسے لوگوں نے کوچ کیا ہے'' چنانچہ وہ رسولؐ تھے، لوگوں نے جن کے ساتھ کوچ کیا تھا. تمہارا دوسرا سوال ہے کہ اشباہ ناس کون ہیں. تو وہ ہمارے شیعہ ہیں ، ہمارے چاہنے والے ہیں اور وہ ہم میں سے ہیں کیونکہ ابراہیم (علیه السلام) نے فرمایا : (فَمَن تَبِعَنِی فَاِنَّہُ مِنِّی) [سورہئ ابراہیم آیت ٣٦] جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا۔

    اور تم نے نسناس کے بارے میں پوچھا ہے. تو وہ لوگوں کا ایک بڑا گروہ ہے (اس وقت آپ نے دست مبارک سے ایک گروہ کی جانب اشارہ کیا) اور اس آیہئ شریفہ کی تلاوت کی (اِنْ ہُمْ اِلَّا کَاْلاَنعَامِ بَل ہُم اَضَلُّ سَبِیلاً) [سورہئ فرقان آیت ٤٤] یہ حیوانات کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے ہیں۔

    ٧٢ ۔ ایک نشست جس میں معاویہ بھی شریک تھا عقل کے موضوع پر گفتگو ہورہی تھی تو آپ نے فرمایا: عقل کی تکمیل اتباع حق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

    ٧٣ ۔ ایک شخص نے سوال کیا: مولا کب بچہ کو دودھ دینا کب واجب ہوتا ہے؟

    آپ نے فرمایا: جب اس کے گریہ کی آواز بلند ہو جائے تو اس کو دودھ اور غذا دینا واجب ہے۔

    ٧٤ ۔ مولا نے فرمایا: جس نے ہم سے محبت کی اس نے میرے جد رسول ؐسے محبت کی اور جس نے ہم سے نفرت کی اس نے میرے جد رسول ؐسے نفرت و عداوت کی۔

    ٧٥۔ مولا نے فرمایا: بیشک ہم اور بنی امیہ صرف خدا کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں. اور ہمارے درمیان قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، چونکہ جبرئیل جو لوائے حق لے کر آئے انھوں نے اسے ہمارے لشکر کے درمیان لہرایا تھا اور شیطان، جس پرچم باطل کو لایا تھا اسے اس نے ان کے درمیان نصب کیا تھا اور سب سے پہلا قطرہئ خون جو روئے زمین پر گرا وہ مذبذبین میں سے عثمان بن عفان کا تھا۔

    ٧٦ ۔ مولا نے فرمایا: ابن عفان کی حیثیت صراط مستقیم پر اس مردار کی سی ہے جو اس کی سمت جائے گا وہ واصل جہنم ہوگا اور جو کوئی اس سے گذر جائے گا وہ داخل بہشت ہوگا۔

    ٧٧۔ حبیب ابن مظاہر نے امام (علیه السلام) سے سوال کیا فرزند رسول! خدا نے جس وقت آدمؑ کو پیدا کیا اس سے قبل آپ کیا تھے؟

    امام (علیه السلام) نے فرمایا: ہم نور انی صورتوں میں ، عرش الہی کے گرد گردش کر رہے تھے اور ملائکہ کو تسبیح و تہلیل اور حمد الہٰی کی تعلیم دے رہے تھے۔

    ٧٨ ۔ مولا نے فرمایا: در حقیقت ابوبکر اور عمر نے جان بوجھ کر خلافت پر قبضہ کیا تھا جبکہ وہ ہمارا حق تھا. ان دونوں نے ہم کو صرف ایک جدہ (دادی) کی میراث کے برابر حصہ دیا۔

    خدا کی قسم ا س دن جب لوگ ہم سے طلب شفاعت کریں گے تو یہ ان لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے۔

    ٧٩ ۔ مولا نے فرمایا: ملت ابراہیم پر صرف ہم اور ہمارے شیعہ قائم ہیں اور بقیہ تمام افراد اس سے دور ہیں۔

    ٨٠ ۔ نظر بن مالک راوی ہیں کہ میں نے امام حسین (علیه السلام) سے خواہش کی کہ قول پروردگار (ہٰذَانِ خَصمَانِ اِختَصَمَا فِی رَبِّہِم)[سورہئ حج آیت ١٩] (یہ دو ایسے دشمن ہیں جو اپنے رب کے لئے دشمنی کرتے ہیں) کی تشریح فرما دیں

     آپ نے فرمایا: ہم اور بنی امیہ نے خدا کے مسئلہ پر اختلاف کیا. ہم کہتے ہیں کہ خدا نے سچ فرمایا: اور وہ کہتے ہیں کہ خدا نے دروغ گوئی سے کام لیا ہے. لہٰذا ہم اور یہ تا قیام قیامت ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں گے۔

    ٨١ ۔ حارث اعور کہتے ہیں کہ میں نے امام حسین (علیه السلام) سے عرض کی فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں خداکے اس قول (وَالشَّمسِ وَ ضُحٰہَا) کی تشریح فرمادیں۔

    تو آپ نے فرمایا: حارث وای ہو تجھ پر. وہ سورج ،محمد(ص)ہیں۔

    اعور کہتا ہے: میں نے عرض کی.(وَالقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا) کا کیا مطلب ہے؟

    آپ نے فرمایا: وہ ماہتاب امامت، امیر المومنین (علیه السلام) ہیں . جو محمد(ص)کے ساتھ ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔

    اعور نے عرض کی: (وَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰہَا) سے کیا مراد ہے۔

    آپ نے فرمایا: وہ قائم آل محمد (عج)ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

    ٨٢ ۔ مولا نے فرمایا: ہمارے خاندان میں بارہ مہدی ہیں جن کی پہلی فرد امیر المومنین علی بن ابی طالب + ہیں اور آخری فرد میرا نواں بیٹا قائم آل محمد ہے .جس کے ذریعہ سے خدا بنجر زمینوں کو زرخیز بنادے گا اور اسی کے ہاتھوں خدا دین حق کو تمام ادیان عالم پر غلبہ عطا کرے گا (وَ لَو کَرِہَ المُشرِکُون)َ [سورہئ صف آیت ٩] چاہے کفار اس سے کراہت ہی کیوں نہ کریں اس (مہدی آخر الزمان) کے لئے غیبت کا زمانہ ہے جس میں کچھ لوگ مرتد ہو جائیں گے جبکہ کچھ حق پر قائم رہیں گے ان کو یہ کہہ کر اذیت دی جائے گی کہ (مَتَی ہَذَا الوَعدُ اِن کُنتُم صَادِقِینَ)[سورہئ یونس آیت٤٨] اگر تم سچے ہو تو تم سے کیا گہا. وعدہ کب پورا ہوگا؟ لیکن اس دوران اذیت برداشت کرنے اورجھٹلائے جانے پر صبر و تحمل کرنے والوں کی منزلت ان مجاہدوں کی سی ہے جنہوں نے رسول ؐکی رکاب میں رہکر جہاد کیا۔

    ٨٣ ۔ مولا نے فرمایا: میری ذریت سے میرا نواں فرزند سنت یوسف و سنت موسیٰ بن عمران کا حامل ہوگا. وہ قائم آل محمد(عج) ہے اللہ ایک رات میں اس کے ظہور کا انتظام کردے گا۔

    ٨٤ ۔ مولا نے فرمایا: اس امت کا قائم میرا نواں فرزند ہے اس کے لئے غیبت ہوگی، وہ ایسا ہے جس کی حیات میں لوگ اس کی میراث کو بانٹ لیں گے۔

        ٨٥ ۔ مولا نے فرمایا: جس ظہور کا تم لوگ انتظار کر رہے ہو اس کا تحقق اس وقت ہوگا جب تم میں سے ایک گروہ، دوسرے سے دوری اختیار کر لے گا.اور ایک گروہ، دوسرے پر کیچڑ اچھالے گا اور دونوںایک دوسرے کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہوئے ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔

    راوی کہتا ہے، میں نے سوال کیا کہ کیا اس زمانے میں خیر و خوبی کا وجود ہی نہیں ہوگا؟

     آپ نے فرمایا: تمام خیر و برکت اسی زمانہ میں ہوگی جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور تمام مشکلات کو ختم کردے گا۔

    ٨٦ ۔ حارث بن مغیرہ نضری راوی ہے کہ میں نے ابا عبد اللہ سے سوال کیا ،کہ آقا امام مہدی کی شناخت کیونکر ہوگی؟

    تو آپ نے فرمایا: اس کے سکون و اطمینان کے سبب۔

     میں نے کہا اور کس چیز کے ذریعہ .

     آپ نے فرمایا: وہ حلال و حرام خدا کو پہچانتا ہوگا، لوگ اس کے محتاج ہوں گے اور وہ کسی کا محتاج نہ ہوگا۔

    ٨٧ ۔ مولا نے فرمایا: کہ صاحب العصر کے لئے دو غیبتیں ہیں ایک طولانی غیبت یہاں تک کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ وہ مر گئے، بعض کہیں گے قتل کر دئے گئے، بعض ان کے کوچ کر جانے کے بارے میں قیاس آرائی کریں گے اور جبکہ ان کی اقامتگاہ سے سوائے خدا کے دوست و دشمن کوئی باخبر نہ ہوگا۔

    ٨٨۔ محمد بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے امام حسین (علیه السلام) سے عرض کی مولا،امام عصر کے ظہور کی کوئی علامت ہے؟آپ نے فرمایا : ہاں ۔

     میں نے عرض کی وہ کیاہے؟

     آپ نے فرمایا: بنی عباس کی تباہی، سفیانی کا خروج اور سرزمین بیدا کا دھنسنا۔

     میں نے عرض کی: مولا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں ڈرتا ہوں یہ زمانہ طولانی نہ ہو۔

    تو آپ نے فرمایا: ظہور کی علامتیں تسبیح کے دانوں کی طرح ہیں جو ایک کے بعد ایک آتے رہتے ہیں۔

    ٨٩ ۔ مولا نے فرمایا: امام مہدی عج کے ظہور کی پانچ علامتیں ہیں .

    ١ ۔ سفیانی اور یمانی کا خروج۔

    ٢ ۔ آسمان سے وحشتناک آواز کا آنا۔

    ٣ ۔ سرزمین بیدا کا دھنس جانا۔

    ٤۔ اور نفس زکیہ (پاکیزہ روح والے انسان) کا قتل۔

     ٩٠ ۔ مولا نے فرمایا: جب مہدی (عج) قیام کریں گے تو لوگ ان کو پہچاننے سے انکار کریں گے کیونکہ وہ کڑیل جوان کی صورت میں ظہور کریں گے اور لوگوں کے لئے سخت امتحان کی منزل ہوگی ،کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہونگے کہ آپ کو کافی بوڑھا ہونا چاہئے۔

    ٩١ ۔ مولا نے فرمایا: جب امام مہدی عج کا قیام ہوگا تو عرب اور قریش میں صرف تلوار کا زور چلے گا، وہ لوگ ان کے ظہور کے سلسلے میں جلدی نہیں چاہتے۔

    قسم بخدا ان کا لباس صرف موٹا کپڑا، کھانا جو کی روٹی، اور ساتھ صرف تلوار ہوگی اور موت تلوار کے سائے میں ہوگی۔

    ٩٢ ۔ عیسیٰ خشاب راوی ہے کہ میں نے حسین ابن علی + سے کہا آقا: کیا آپ صاحب امر ہیں؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ صاحب امر وہ ہوگا جس کو (مجبوراً) لوگوں سے دور، گمنامی کی زندگی گذارنی پڑے گی وہ اپنے باپ کے خون کا بدلہ لے گا اس کی کنیت اپنے چچا کی کنیت ہوگی اور وہ آٹھ مہینے تک اپنی تلوار کو بے نیام رکھے گا۔

    ٩٣ ۔ بنی امیہ کا ایک گروہ مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ امام حسین (علیه السلام) کا وہاں سے گذر ہوا۔

     تو آپ نے ان لوگوں کو دیکھ کر فرمایا: قسم ہے پروردگارکی کہ یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ خدا میری ذریت میں سے ایک فرد کو ان پر مسلط نہ کر دے جو ان میں سے لاکھوں کروڑوں کو فی النار کر دے گا۔

     راوی کہتا ہےـ میں آپ پر قربان جاؤں مولاـ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ یہ فلاں فلاں کی اولاد ہیں اور ان کی کل تعداد بھی اتنی نہیں ہے.

     آپ نے فرمایا: وائے ہو تم پر اس زمانے میں ان میں سے ہر ایک کی نسل اتنی تعداد میں ہوگی اور ہر قوم کا رئیس اسی قوم میں سے ہوتا ہے۔

    ٩٤ ۔ مولا نے فرمایا: مہدی عج انیس سال اور کچھ مہینہ حکومت کریں گے۔

    ٩٥ ۔ بشر بن غالب اسدی راوی ہے کہ مجھ سے امام حسین (علیه السلام) نے فرمایا: اے بشر! جب ہمارا مہدی قیام کرے گا تو قریش اور بنی امیہ سے کوئی شخص باقی نہ رہے گا، قریش کے پانچ سو افراد کو آگے بلاکر ان کی گردن اڑا دے گا اور پھر پانچ سو افراد کو باہر کھینچ کر لائے گا اور ان کی گردن بھی اڑا دے گا اور پھر پانچ سو افراد کے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔

     بشر کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا ،مولا! خدا آپ کے امور کی اصلاح کرے کیا یہ اتنی تعداد کو پہونچ پائیں گے۔

    تو حضرت نے فرمایا: ہر قوم کا رئیس اسی قوم میں سے ہوتا ہے ۔

    ٩٦۔ مولا نے فرمایا: قسم اس خدا کی جس کے قبضہئ قدرت میں حسین کی جان ہے بنی امیہ کی حکومت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ یہ مجھے قتل نہ کر ڈالیں یہ مجھے قتل کر کے رہیں گے .لیکن اس کے باوجود یہ اپنی مراد حاصل نہ کر پائیں گے اور راہ خدا میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اس امت کا پہلا مقتول میں اور میرا خاندان ہے اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ جس کے ہاتھ میں حسین کی جان ہے جب تک روئے زمین پر ایک بھی ہاشمی رہے گا قیامت نہیں آسکتی۔

٩٧۔ مولا نے فرمایا: مجھے رُلا رُلا کر مارا گیا جب بھی کوئی مومن میرا تذکرہ کرے گا روپڑے گا۔

    ٩٨ ۔ مولا نے فرمایا: کچھ ایسے کلمات ہیں کہ اگر میں ان کو اپنی زبان پر جاری کرلوں توچاہے تمام جنات اور انسان میرے خلاف اکٹھے ہو جائیں تب بھی مجھے کوئی خوف نہیں ہوگا. وہ کلمات یہ ہیں:

    خدا کے نام سے، خدا کے لئے ،خدا کی طرف، خدا کی راہ میں ،اور ملت رسول اللہ(ص)پر شروع کرتا ہوں۔

    بِسمِ اللّٰہِ وَ بِاللّٰہِ وَ اِلَی اللّٰہِ وَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ وَ عَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہ(ص)اَللّٰہُمَّ اکفِنِی بِقُوَّتِکَ وَ حَولِکَ وَ قُدرَتِکَ مِن شَرِّ کُلَّ مُغتَالٍ وَ کَیدِ الفُجَّارِ فَاِنِّی اُحِبُّ الاَبرَارَ وَ اُوَالِی الاَخیَارَ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِی وَ آلِہِ وَ سَلَّمَ۔

    خدایا! اپنی قوت و طاقت اور قدرت کے ذریعہ مجھے ہر دھوکہ باز کے شر اور ہر فریبی کے فریب سے اپنی امان میں رکھ میں نیک اور صاحبان خیر افراد کو دوست رکھتا ہوں خدایا ! محمد(ص)اور ان کی آل ٪پر درود و سلام بھیج۔

    ٩٩۔ امام حسین (علیه السلام) عبد اللہ بن عمرو بن عاص کے پاس سے گذرے تو وہ بولا جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ اہل زمین پر اس شخص کو دیکھے جس کو اہل آسمان سب سے زیادہ دوست رکھتے ہیں تو وہ اس گذر نے والے کو دیکھ لے میں نے جنگ صفین کی راتوں کے بعد سے اب تک اس سے گفتگو نہیں کی ہے ابو سعید خدری اس کو آپ کے پاس لائے۔

تو آپنے فرمایا: تو نے یہ جانتے ہوئے بھی مجھ سے اور میرے والد سے جنگ کی ہے کہ میں اہل زمین میں سے اہل آسمان کے لئے سب سے زیادہ محبوب ہوں. بخدا میرے والد بزرگوار مجھ سے بھی بہتر ہیں۔

اس نے معذرت کی اور بولا، نبی(ص)نے مجھے تمہارے والد کی پیروی کا حکم دیا تھا۔

     امام حسین (علیه السلام) نے اس سے کہا: کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا: (وَ اِن جَاھَدَاکَ عَلَی اَن تُشرِکَ بِی مَا لَیسَ لَکَ بِہِ عِلمُ، فَلاَ تُطِعہُمَا)[سورہئ لقمان آیت ١٥]

    ہم نے انسانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر تمہارے والدین کسی ایسی شے کو میرا شریک بنانے پر مجبور کریں جس کا تمہیں علم نہیں ہے تو خبر دار ان کی اطاعت نہ کرنا. اور رسول اکرم(ص)کی یہ حدیث تم تک نہیں پہنچی کہ ''انما الطاعۃ فی المعروف'' اطاعت صرف نیک اعمال میں کی جاتی ہے یا یہ قول کہ ''لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق'' خداوند عالم کی نافرمانی کے سلسلے میں مخلوق کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔

    ١٠٠ ۔ کسی نے امام حسین (علیه السلام) سے کوئی حاجت طلب کی۔

    تو آپ نے اس سے فرمایا: تیری حاجت کو پورا کرنا میرے لئے سخت ہے تم اس سے کہیں زیادہ کے حقدار ہو اور جس کے تم حقدار ہو اتنا دینے سے میں عاجز ہوں. اور پھر خداوند عالم کی راہ میں جتنا بھی دیا جائے کم ہے. میرے پاس اتنا نہیں ہے کہ میں تمہارا حق ادا کر کے تمہارا مشکور قرار پاؤں .اگر میری اس تھوڑی سی عطا کو قبول کرلو تو تمہارے لئے جو میں چارہ اندیشی کر رہا ہوں اور تمہارے واجب حق کو پورا کرنے کی کوشش میں ہوں اس کے خیال اور اس کی تلخی کو گویا تم مجھ سے دور کردو گے ۔

     اس شخص نے کہا: یابن رسول اللہ(ص)میں اسی کو شکریہ کے ساتھ قبول کرلوں گا آپ (علیه السلام) نے اپنے وکیل کو بلایا اور اس کے حساب کی اچھی طرح چھان بین کی۔

     پھر فرمایا: ان تین لاکھ میں سے بچی ہوئی رقم لاؤ.

    تو اس نے پچاس ہزار لاکر دیئے۔

    آپ نے فرمایا: وہ پانچ سو دینار تم نے کیا کئے؟

    اس نے کہا: وہ میرے پاس ہیں۔

     آپ نے فرمایا: ان کو لاؤ وہ مرد کہتا ہے ، آپنے وہ سب درہم و دینار اس مستحق کو دیدئے، اورکہا تم اس کو کیسے لے جاؤ گے۔

     وہ شخص سامان ڈھونے والوں کو لے آیا تو امام (علیه السلام) نے اپنی ردا ان لوگوں کو اجرت کے طور پر دیدی، آپ کا غلام بولا بخدا ہمارے پاس ایک درہم بھی باقی نہیں رہا۔

     آپ نے فرمایا: لیکن میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے یہاں اس کے بدلے ہم کو بہت بڑا اجر ملے گا۔

    ١٠١ ۔ مولا نے فرمایا: اے ابو عبد الرحمن: خداوند عالم کے مقابلہ میں دنیا کی پستی کا یہ عالم ہے کہ جناب یحییٰ کا سر بنی اسرائیل کے ایک فاسق و فاجر کو بطور تحفہ پیش کیا گیا. اور کیا جانتے ہوکہ ، بنی اسرائیل صبح سے شام تک ستر(٧٠) نبیوں کا قتل کر دیتے تھے اور اس کے باوجود بازاروں میں ایسے خرید و فروش کیا کرتے تھے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں؟ خدا نے ان کو مہلت دی اور پھر ان سے سخت انتقام لیا. اے ابو عبدالرحمن! خدا سے ڈرتے رہواور ہرگز میری نصرت ترک نہ کرو۔

    ١٠٢ ۔ آپ سے سوال کیا گیا: فضیلت کیا ہے؟

    آپ نے جواب دیا: اپنی زبان پر قابو رکھنا اور بہت زیادہ احسان کرنا۔

    پوچھا گیا: نقصان کیا ہے؟

     جواب دیا اس چیز کا ہم و غم جو تمہارے لئے فائدہ مند نہ ہو۔

    ١٠٣ ۔ آپ نے فرمایا: ہمارے تمام شیعہ صدیق ہیں اور شہید ہیں. راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: مولا! یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ہم ان کو اپنے بستر پر اس دنیا سے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں؟

     آپ نے فرمایا: کیا تم نے سورہ حدید کی اس آیت کو نہیں پڑھا (وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہِ اُولٰئِکَ ہُمُ الصِّدِّیقُونَ وَ الشُّہَدَاءُ عِندَ رَبِّہِم) [سورہئ حدید آیت ١٩] اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی خدا کے نزدیک صدیق اور شہید کا درجہ رکھتے ہیں۔

     راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کی مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں نے کبھی اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی تھی۔

    آپ نے فرمایا: اگر شہداء صرف وہی لوگ ہوتے کہ جن کو تم کہتے ہو تو پھران کی تعداد بہت کم ہوتی۔

    ١٠٤ ۔ مولا نے فرمایا: اس امت کے تمام اعمال ہر صبح پروردگار کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔

    ١٠٥۔ مولا نے فرمایا: جو شخص اپنی نماز میں قیام کی حالت میں ایک آیت کی تلاوت کرتاہے،

اس کے نامہئ اعمال میں ہرحرف کے بدلے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اگر کوئی نماز کے علاوہ تلاوت کرتا ہے تو اس کے لئے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ثبت ہوتی ہیں، اور جو تلاوت کو سنتا ہے اس کو ہر حرف کے بدلے ایک نیکی عطا کی جاتی ہے، جو شخص رات مین قرآن ختم کرے تو ملائکہ صبح تک اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور جو دن میں تمام کرے تو اس کے اوپر شام تک معین دو فرشتے درود بھیجتے ہیں، اس کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ خیر ہے وہ سب اس کے لئے ہے۔

یہ وہ روایات و احادیث تھیں جو سید الشہداء سے مروی

ہیںخدا کا شکر کہ ان کو جمع کرنے میں

کامیاب ہوا خدا کا درود و سلام ہو محمد ؐ

اور آپ کی آل پاک پر جو ہدایتوں کے

چراغ اور مضبوط سہارا ہیں۔

فہرست

عنوان                             صفحہ نمبر

................................................................................................................

مقدمہئ مترجم ......................................................................................٥

اھداء ...............................................................................................٩

مقدمہ ئمؤلف ......................................................................................١١

پہلا باب

حضرت امام حسین (علیه السلام) کے خطبوں کے بیان میں ...............................................١٥

١ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

توحید سے متعلق ..................................................................................١٧

٢۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

نافع بن ازرق سے متعلق .........................................................................٢١

٣۔ امام (علیه السلام) کاخطبہ:

اچھے کام اور لوگوں کی حاجت برآری کی ترغیب ..............................................٢٥

٤۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ :

صبرا ور وفائے عہد سے متعلق...................................................................٢٧

٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

لوگوں کو اپنے پدر بزرگوار کے ہمراہی اور امیر شام کے خلاف جنگ کی دعوت ...............٢٩

٦۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

ابو ذر غفاری سے .................................................................................٢٩

٧۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

موت اور اس کی سختیوں سے متعلق..............................................................٣١

٨۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

زہد دنیا کی پونجی ..................................................................................٣٥

٩۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

اہل بیت(علیهم السلام)کے فضائل و مناقب اور ان کی اطاعت کا واجب ہونا........................٣٧

١٠۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

حضرت علی (علیه السلام) شہر ہدایت ہیں .................................................................٤١

١١۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

معاویہ کے ذریعہ بیعت یزید کے اہتمام پر ...................................................٤١

١٢۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

معاویہ کے کرتوتوں پر تنبیہ ....................................................................٤٧

١٣۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

اپنے اصحاب کے درمیان معرفت خدا کا بیان ...............................................٤٩

١٤۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

مسجد النبی(ص)میں عائشہ سے خطاب ......................................................٥١

١٥۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

اپنے برادر بزرگوار حضرت امام حسن مجتبیٰ (علیه السلام) کی مصیبت میں .................................٥٥

١٦۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

مروان کی مذمت میں ..........................................................................٥٧

١٧ ۔ امام (علیه السلام) کی دعا:

قنوت میں ......................................................................................٥٩

١٨۔ امام (علیه السلام) کی دعا:

حفظ و امان کی خواہش ............................................................................٦١

١٩۔ امام (علیه السلام) کی دعا :

حق تعالیٰ سے پناہ طلب کرنا ....................................................................٦١

٢٠۔ امام (علیه السلام) کی دعا:

بارش کے لئے ...................................................................................٦٥

٢١۔ امام (علیه السلام) کی دعا:

ہدایت و توفیق کی خواہش .......................................................................٦٧

٢٢ ۔ امام (علیه السلام) کی دعا :

عرفہ کے دن میدان عرفات میں..............................................................٦٧

٢٣۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

میدان منیٰ میں ................................................................................١١٧

٢٤ ۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

بارش کے لئے .................................................................................١٢٩

٢٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

امر بالمعروف و نہی عن المنکرسے متعلق.....................................................١٣١

٢٦۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

حضرت عمر بن خطاب سے احتجاج کرتے ہوئے ......................................١٣٩

٢٧۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

عراق کی جانب روانگی کے موقع پر ..........................................................١٤٣

٢٨ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

عراق کی جانب روانگی کے موقع پر ..........................................................١٤٥

٢٩۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

فرزدق سے .............................................................م.......................١٤٥

٣٠۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

منزل ''ذی حسم'' میں........................................................................١٤٧

٣١۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

منزل ''ذی حسم'' میں........................................................................١٤٩

٣٢ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

''رہیمہ میں'' .................................................................................١٤٩

٣٣۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

''منزل زبالہ'' پر کوفہ والوں کی غداری کے بارے میں ....................................١٥١

٣٤۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

ایک مقام پر جس کا نام بیضہ ہے ............................................................١٥٣

٣٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

دنیا کی بے وفائی سے متعلق..................................................................١٥٥

٣٦۔ امام (علیه السلام) کی دعا:

بنی امیہ کی شکایت میں ......................................................................١٥٧

٣٧۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

اپنے اصحاب سے اپنی شہادت و رجعت کو بیان کرتے ہوئے ..........................١٥٧

٣٨۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

اپنے اصحاب سے ............................................................................ ١٦١

٣٩ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

دنیا کے حقیر اور فنا ہوجانے کے بارے میں ...............................................١٦٣

٤٠ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

(جس میں حضرت مہدی (عج) کی روایتوں کا ذکر ہے) ................................١٦٣

٤١۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

اپنے اصحاب کی وفاداری کے بیان میں .................................................. ١٦٧

٤٢۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

اپنے لشکر اور خاندان والوں سے متعلق..................................................١٦٩

٤٣ ۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

جس میں اہل عراق کو وعظ و نصیحت کی گئی ہے ...........................................١٧٣

٤٤ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

اپنے اصحاب کو جنت اور اس کے محلوں کی بشارت دیتے ہوئے .....................١٧٥

٤٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

کوفیوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے ..................................................١٧٧

٤٦ ۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

(صبح عاشور اتمام حجت کے لئے) .....................................................١٨٣

٤٧۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

روز عاشور نماز صبح کے بعد .............................................................١٨٧

٤٨۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

سر زمین ''طف'' پر ....................................................................١٨٧

٤٩۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

جس میں اپنے اصحاب کو صبر کی تلقین و آخرت کی طرف ترغیب دلائی ہے ........١٨٩

٥٠۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

اہل کوفہ کی مذمت میں ...................................................................١٩١

٥١ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

پیادہ جنگ کی حالت میں اہل کوفہ کو خطاب کرتے ہوئے ............................١٩٥

٥٢۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

اصحاب کی یاد میں ........................................................................ ١٩٧

٥٣ ۔ امام (علیه السلام) کا کلام:

محرم کے دسویں روز جب عمر سعد نے حملہ کیا ............................................. ١٩٩

٥٤۔ امام (علیه السلام) کا کلام :

جس میں آپ نے اہل حرم سے وداع ہوتے ہوئے ان کو صبر کی تلقین فرمائی ........ ٢٠١

٥٥۔ امام (علیه السلام) کا خطبہ:

جس میں آپ نے فرمایا: ... ............................................................... ٢٠١

دوسراباب

سید الشہداء امام حسین (علیه السلام) کے خطوط ......................................................٢٠٥

١۔امام (علیه السلام) کا خط:

اہل بصرہ کے نام ..........................................................................٢٠٧

٢۔ امام (علیه السلام) کا خط:

حسن بصری کے نام ........................................................................٢١١

٣۔ امام (علیه السلام) کا خط :

معاویہ کے نام .............................................................................٢١٣

٤۔ امام (علیه السلام) کا خط :

معاویہ کے نام .............................................................................٢١٥

٥۔ امام (علیه السلام) کا خط :

معاویہ کے نام.............................................................................٢٢١

٦۔ امام (علیه السلام) کا خط:

ایک کوفی کے نام ..........................................................................٢٢٣

٧۔ امام (علیه السلام) کا خط:

ایک خیر خواہ کے نام .......................................................................٢٢٣

٨۔ امام (علیه السلام) کا خط:

امام حسن (علیه السلام) کے نام .....................................................................٢٢٥

٩ ۔ امام (علیه السلام) کا خط:

عمروبن سعید کے نام ....................................................................٢٢٥

١٠۔ امام (علیه السلام) کا خط:

محمد بن حنفیہ کے نام .....................................................................٢٢٧

١١۔ امام (علیه السلام) کا خط:

اہل مدینہ کے نام ........................................................................٢٣١

١٢ ۔ امام (علیه السلام) کا خط :

چند اشراف بصرہ کے نام ................................................................٢٣١

١٣۔ امام (علیه السلام) کا خط:

بنی ہاشم کے نام.........................................................................٢٣٣

١٤۔ امام (علیه السلام) کا خط:

کربلا سے محمد بن حنفیہ کے نام ...................................................... ٢٣٣

١٥۔ امام (علیه السلام) کا خط:

اہل بصرہ کے نام ......................................................................٢٣٥

١٦ ۔ امام (علیه السلام) کا خط:

عبد اللہ بن جعفر طیار (علیه السلام)کے نام ....................................................... ٢٣٧

١٧۔ امام (علیه السلام) کا خط :

مسلم بن عقیل کے نام..................................................................٢٣٩

١٨ ۔ امام (علیه السلام) کا خط:

کوفہ والوں کے نام ....................................................................٢٣٩

١٩۔ امام (علیه السلام) کا خط:

اہل کوفہ کے نام .........................................................................٢٤١

٢٠ ۔ امام (علیه السلام) کا خط:

حبیب بن مظاہر نام .................................................................... ٢٤٣

تیسرا باب

سرکار سید الشہداء کے مختصر اقوال ...................................................... ١٤٩



[1] . بیضہ نامی جگہ سرزمین حزن میں( عذیب )اور (واقصہ) کے درمیان واقع ہے جو بنی یربوع بن حنظلہ کے علاقہ میں آتی ہے۔ معجم البلدان

 [2]  . میں نے اس خطبہ کا مدرک (حوالہ) کسی چھپی کتاب میں نہیں پایا بلکہ اس خطی نسخہ میں اس کو دیکھا ہے جو خطیب مرحوم شیخ محمد حسن ابی الحب کی کربلا کی لائبریری اور خطیب سید صالح بغدادی کی بغداد کی لائبریری میں موجود ہے۔

[3] . عمروبن سعید نے امام کو یوں خط لکھا تھا (بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم: یہ خط عمر بن سعید کی طرف سے ، حسین بن علی (علیه السلام) کے نام ہے. امابعد: میں خدا سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ کو پیش آنے والے حوادث کے بارے میں آگاہ اور خبردار کردے. مجھے خبر ملی ہے کہ آپ عراق جانا چاہتے ہیں، میں آپ کے دشمنوں سے آپ کے لئے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپ اس میں مارے نہ جائیں، میں نے عبد اللہ بن جعفر اور یحییٰ بن سعید کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس آجائیں، کیونکہ آپ میرے پاس امن و سکون، صلہئ رحم اور آرام و سکون سے زندگی بسر کرسکیں گے. خدا ان تمام حالات پر ناظر، کفیل، محافظ اور ذمہ دار ہے۔ والسلام علیک

[4] . آپ کے ابن حنفیہ کہے جانے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کے والد امیرالمومنین (علیه السلام) کے تین بیٹے (محمداکبر، محمد اوسط اور محمد اصغر) کے نام سے تھے ، چھوٹے بیٹے کی کنیت ابوبکر تھی جن کی ماں لیلیٰ بنت مسعود تھیں وہ اپنے بھائی محمد اوسط کے ساتھ جو اسی نام سے معروف تھے ، واقعہ کربلا میں شہید کئے گئے. اور بڑے بیٹے کا لقب ان کی ماں خولہئ حنفیہ کے لقب کی مناسبت سے تھا تاکہ ان کو اپنے دونوں بھائی محمد اوسط، اور محمد اصغر سے الگ پہچانا جائے (اجوبۃ المسائل الدینیہ، ثفافۃ الدینیہ کربلا ج ٣ ص ٨٥)

[5] . عبد اللہ بن جعفر نے خط حسین بن علی (علیه السلام) کے نام یہ خط لکھا تھا. بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم. حسین بن علی ؑ کے لئے عبد اللہ بن جعفر کی طرف سے اما بعد: میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ آپ مکہ سے خارج نہ ہوں کیوں کہ آپ کے اس اقدام کی وجہ سے میں پریشان ہوں جس پر آپ اٹل ہیں اس لئے کہ اس میں آپ کی موت بھی ہوسکتی ہے اور آپ کے اہل بیت کی تاراجی بھی ،اور اگر خدا نخواستہ آپ قتل کر دیئے گئے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں نور الہٰی خاموش نہ ہو جائے. آپ ہدایت یافتگان کے لئے نشان اور حجت ہیں مومنین کی امید ہیں ،آپ عراق کی جانب کوچ کرنے میں جلدی نہ کیجئے میں یزید اور تمام بنی امیہ سے آپ کے مال، اولاد اور جاں نثاروں کے لئے امان نامہ طلب کروں گا۔ والسلام

[6].مسلم بن عقیل نے قیس بن مسہر کے ہمراہ مقام ''مضیق'' پر پہنچ کر امام حسین (علیه السلام) کو خط لکھا:

    اما بعد: میں شہر سے دو(٢) راہنماؤں کے ساتھ آیا تھا وہ دونوں چلتے چلتے راستہ بھٹک گئے اور ان پر پیاس کا اسقدر غلبہ ہوا کہ دونوں موت کی آغوش میں چلے گئے، لیکن ہم لوگ چلتے رہے ، یہاں تک کہ پانی تک پہنچ گئے جس سے ہماری جان میں جان آئی. اور وہ پانی خبت کی وادی ''مضیّق'' ایسی حالت میں اس سفر کو جاری رکھنا کہیں فال بد نہ ہو اس جسارت پر مجھے معاف کریں اور مناسب سمجھیں تو میری جگہ کسی اور کو معین فرما دیں۔ والسلام.

[7] .کوفہ والوں نے امام حسین (علیه السلام) کو خط میں لکھا تھا۔