یہاں پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ان درّ بے بہا کلام کو نقل کرتے ہیں کہ جو خود آپ نے اپنے بارے میں یا علمی مسائل کے سلسلہ میں بیان کئے ہیں تاکہ آپ کے شہودِ علمی کی کیفیت واضح ہوجائے۔
لیکن اِس سے پہلے اِس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی اپنی ذات کے بارے میں مدح و ثنا آپ کے منصب کے لحاظ سے عین اُس ولایت و خلافت الٰہی کی مدح و ثنا ہے جو ایک دینی امانت ہے اور اُس کی حفاظت و پاسداری کرنا ضروری ہے۔ اس کی حفاظت کے لئے متعدد رخ ہوسکتے ہیں جیسے اِس کی وضاحت کرنا، اس کی وجوہات بیان کرنا، اِسے مستحکم کرنا اِس کا دفاع یا اِس کی حمایت کرنا وغیرہ۔ یہ کبھی بھی ”تَزْکیةُ المرء ِ نَفْسَہ“([1]) (یعنی اپنے منہ اپنی تعریف کرنا) نہیں شمار کیا گیا ہے جو مذموم ہے، بہر حال حضرت علی علیہ السلام کے شہود علمی کے بارے میں خود آپ کی زبانی جو کچھ بیان ہوا ہے وہ بہت زیادہ ہے، لیکن ہم یہاں پر اُن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
جیسا حضرت علی علیہ السلام نے خود اپنی زبانی فرمایا ہے:
”اٴنَا القرآنُ النّاطق“([2]) ”اٴنا کلام اللّٰہ النَّاطق“،( [3]) ”اٴنا عِلم اللّٰہ ... ولسان اللّٰہ النَّاطق“([4])
اور جیسا کہ پہلے اشارہ ہوچکا ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے درجات ہیں کہ جن میں سے ایک عبری، عربی، سریانی اور فارسی (زبانوں) کی حدود سے پاک و منزہ ہونا ہے کیونکہ قرآن کریم <علیّ حکیم>([5]) کے درجہ پر فائز ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مراحل پر شہودی نظر رکھتا ہے ۔ پس جو شخص بھی قرآن ناطق اور وحی ممثل ہو تو وہ کائنات کے اسرار کا حضوری علم کا مالک ہوگا۔ یعنی اُن سے بھی آگاہ ہوگا اور ان سے اُس کی آگاہی بھی حضور وشہود ہی کی قسم ہوگی، نہ کہ حصولی، پس ان کے بارے میں علم الٰہی بالذات اور بالاصالة ہے، اسی وجہ سے اُس کے خلیفہ اور عبد صالح جو علم خدا کا مظہر اور علم الٰہی کی نشانی ہے، کا علم، بالعرض اور بالتبع حضوری ہی ہوگا۔
”لقد اٴُعطیتُ السبع التی لم یسبقنی إلیہا اٴحدٌ: عُلّمتُ الاٴسماء ، والحکومة بین العباد، و تفسیر الکتاب، وقسمة الحق من المغانم بین بنی آدم، فما شذّ عنّی من العلم شیء ٌ إلاّ وقد عَلَّمنیہ المبارک ولقد اٴُعطیت حرفاً یفتح اٴلف حرفٍ، ولقد اٴُعطِیَتْ زوجتی مُصحفاً فیہ من العلم ما لم یسبقہا إلیہ اٴحدٌ خاصة من اللّٰہ و رسولہ“([6])
بے شک مجھے سات چیزیں ایسی عطا ہوئی ہیں کہ جو مجھ سے پہلے کسی کوعطا نہیں ہوئیں:
۱۔ مجھے اسماء (الٰہی) کی تعلیم دی گئی ہے،
۲۔ مجھے بندوں کے درمیان حکومت عطا ہوئی ہے،
۳۔ مجھے قرآن کریم کی تفسیر کا علم عطا کیا گیا،
۴۔ مجھے انسان کے درمیان غنائم کی صحیح تقسیم کا شرف نصیب ہوا ہے،
۵۔ مجھے علم و دانش کی ہر چیز مجھے تعلیم دی گئی ہے،
۶۔ مجھے ایک ایسا حرف عطا ہوا ہے کہ جس سے ہزار باب کھولے جاتے ہیں۔
۷۔ میری زوجہ (حضرت زہرا سلام اللہ علیہا) کو مصحف (کتاب) عطا ہوئی ہے کہ جس میں ایسا علم ہے کہ اُن سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوا ہے اور یہ مخصوص عطا، خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے تھی۔
جن سات چیزوں کے بارے میں اِس حدیث میں بشارت دی گئی ہے وہ سب علم کی اقسام سے تعلق رکھتی ہیں اور اِس طرح کی تعلیم کا منشاء خود خدائے تبارک و تعالی کی ذات والا ہے۔ چونکہ رسول خدا اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کی ذوات مقدسہ، نور کی ایک منزل میں ہیں اور جوکچھ حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں بیان ہوا ہے کہ مجھے عطا کیا گیا علم کسی اور کو نہیں ملا ہے، سے دوسرے لوگ مراد ہیں، نہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور یہاں ”تعلیم اسماء“ سے مقصود وہی چیز ہے کہ جو جناب آدم علیہ السلام کے واقعہ میں بیان ہوئی ہے کیونکہ اس واقعہ میں آدمیت اور انسان کامل کے بلند مرتبہ کی بات ہوئی ہے اور حضرت آدم علیہ السلام ایک مصداق کی حیثیت رکھتے تھے، نہ کہ صرف انُہی کی ذات کی بات ہوئی تھی([7]) اور جو کچھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں بیان ہوا ہے وہ بھی خدا کے مخصوص علم کی قسم سے تعلق رکھتا ہے جو خداوندعالم کی خاص عنایت اور حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی برکت کی وجہ سے اُس انسان کامل کو نصیب ہوا ہے اور ایسا علم، شہودی ہوتا ہے نہ کہ حصولی، لہٰذا آپ علم حضوری کے ذریعہ کائنات کے حقائق سے آگاہ ہوئے، ان سات فخر و مباہات میں سے بعض بعد والی چیزوں کا ذکر ، ”ذکرعام کے بعد ذکر خاص“ کے عنوان سے یا مطلق کے بعد مقید کی طرح یا کُل کے بعد جزء کے ذکر کی طرح ہے کیونکہ وہ سب چیزیں اسمائے حسنی الٰہی کے عنوان میں شامل ہیں۔
”۔۔۔ ولقد نَظَرْتُ فی الملکوت بإذن ربّی فما غاب عنّی ما کان قبلی ولا ما یاٴتی بعدی۔۔۔“، ([8])
”بے شک میں نے خدا کے اذن سے عالم ملکوت پر نظر کی تو مجھ سے پہلی یا میرے بعد آنے والی کوئی شئے مجھ پر مخفی نہیں رہی“۔
”۔۔۔سبحانک ما اٴعظم مانری من خلقک و ما اٴصغر کل عظیمةٍ فی جنب قدرتک وما اٴہول ما نری من ملکوتک۔“([9])
” اور تیری مخلوقات بھی جو ہم دیکھ رہے ہیں، کتنی عظیم الشان ہے اور یہ تیری قدرت کے سامنے کس قدر حقیر ہے اور یہ تیری اس مملکتِ کے مقابلہ میں جو نگاہوں سے ہم دیکھ رہے ہیں ، کس قدر معمولی ہے“۔
آسمانوں اور زمین کے ملکوت میں نظر سے مراد وہ نظر ہے کہ جس کی خدائے سبحان نے انسان کو ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
<اٴو لم ینظروا فی ملکوت السموات والاٴرض>([10])
”کیا وہ لوگ آسمانوں اور زمین کے ملکوت میں نظر نہیں کرتے ہیں؟!“۔
یہاں پر نظر سے مراد، عقلی نگاہ ہے نہ کہ حسّی نظر، کیونکہ اس آیت کے ذریعہ تمام افراد کو ملکوت میں نظر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، چاہے اُس کا مخاطب بینا ہو اورچاہے نابینا۔ پس دیکھنے والا (ناظر) بینا اور نابینا دونوں کو شامل ہے، چنانچہ اگر اس سے مرادخاص ملکوت ہو جو حسّی اور ظاہری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تو ایسی نظر، ”نظریہ“ دینے کے سلسلہ میں بیان ہوتی ہے نہ ظاہری طور پر نگاہ کرنے میں۔
نظر کبھی دیکھنے اور دیدار کی منزل تک پہنچتی ہے اور کبھی اُس تک نہیں پہنچتی، لیکن بعض نظریں حتمی طور پر دیدار کے مرحلہ تک پہنچ جاتی ہے، لہٰذا جو کچھ حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں بیان ہوا ہے، اُس سے مراد نظر تک پہنچنے والی روٴیت ہے نہ کہ اُس سے الگ، کیونکہ وہ خصوصی نظر جو خدائے سبحان کی اجازت سے ہوتی ہے، وہ تمام اشیاء اور اشخاص کے حاضر ہونے کا باعث ہوتی ہے اور کوئی بھی چیز اُس نظر سے مخفی نہیں رہتی، اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلہ میں یوں فرمایا ہے: ”کوئی بھی چیز مجھ سے مخفی نہیں ہے، چاہے وہ ماضی کی ہو یا مستقبل کی“۔ یعنی نہ صرف یہ کہ مجھے کائنات کے تمام امور کا علم ہے بلکہ وہ تمام چیزیں میرے حضور و شہود میں ہیں اور کوئی بھی چیز مجھ سے غائب نہیں ہے۔ یہ اشیاء کا وہی علم شہودی ہے کہ جس سے انسان کامل بہرہ مند ہوتا ہے، جیسا کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
<وکذلک نری إبراہیم ملکوت السموات والاٴرض ولیکون من الموقنین>([11])
اس آیہٴ کریمہ میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حضرت خلیل الرحمن کی روٴیت اور دیدار ہے کہ جو خداوندعالم کے لطف و کرم کی بنا پر عالم ملکوت کا دیکھا جانا ہے، البتہ اِس طرح کے شہود و دیدار پر بہت سے آثار مرتب ہوتے ہیں کہ جن میں سے ایک یقین کا حاصل ہونا ہے یعنی ایسا پائیدار اور ثابت یقین کہ جس کے پاس ایسا یقین ہو وہ ”مُوْقِن“ کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ وقتی اور ختم ہونے والا یقین۔
اس بنا پر اگر حضرت علی علیہ السلام خود کو ”علمُ اللّٰہ“، ”قلبُ اللّٰہ“و ”لسانُ اللّٰہ الناطق“ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ([12]) اور اگر حضرت امام صادق علیہ السلام ،حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے: ”۔۔۔وعَیْبة غَیْبِ اللّٰہ وموضع سرّہ۔۔۔“( [13]) تو یہ دو مطالب کے پیش نظر ہے کہ جن میں ا یک حضرت علی علیہ السلام کے علم کی وسعت اور عالم امکان کی ہر چیز پر آپ کے علمی احاطہ اور دوسرے اِس علم کے شہودی اور حضوری ہونے متعلق ہے۔
البتہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہونے والا جملہ دراصل اُس جملہ کے بعد بیان ہوا ہے جو حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نقل ہوا ہے: ”علیٌّ عَیْبةُ علمی“([14])
چونکہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا علم، علم الٰہی ہے لہٰذا حضرت علی علیہ السلام، علم الٰہی کے خزانہ دار ہیں اور یہ وہی مفہوم ہے کہ جو حضرت امام صادق علیہ السلام کی حدیث میں بیان ہوا ہے اور چونکہ حضرت علی علیہ السلام اسرار الٰہی کے خزانہ دار ہیں اور آپ کے دل میں جو کائنات کے اسرار کا راز دار ہے، تمام چیزیں خداوندعالم کی اجازت سے قرار دی گئی ہیں، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام امام مبین کے واضح مصداق ہیں کہ جس میں خداوندعالم نے تمام چیزوں کا احاطہ کردیا ہے، جیسا کہ حضرت رسول اکرم نے بیان فرمایا ہے کہ آیہ شریفہ: <وکلّ شیء اٴحصیناہ فی إمامٍ مبین>([15])سے مراد حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں([16]) لہٰذا اس جملہ سے وہی دو گزشتہ مطلب سمجھ میں آتے ہیں کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ہر چیز کا علم رکھتے ہیں او ردوسرے یہ کہ آپ کا علم ، علم شہودی اور علم حضوری ہے کیونکہ اشیاء کے حقائق آپ کی ذات میں جمع کردئے گئے ہیں نہ کہ صرف مفاہیم اور حقائق کی صورت ذہنی میں موجود ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سب سے اہم معرفت وہ ہے کہ جو بہترین معروف (معرفت سے حاصل کی جانے والی سب سے عظیم ترین شی یا وجود ) سے تعلق رکھتی ہو اور سب سے بہترین معروف، خدائے سبحان ہے لہٰذا سب سے عالی معرفت وہ ہے کہ جو خدائے تبارک و تعالیٰ سے متعلق ہو۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
”معرفة اللّٰہ سبحانہ اٴعلی المعارف“([17])،”من عرف اللّٰہ کَملَت معرفتُہ“([18])
چونکہ معرفت کی بہترین قسم وہی معرفتِ شہودی ہے کیونکہ جو کچھ علم حصولی میں عالم کو حاصل ہوتا ہے وہ مفہوم کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہوتی، اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کو اِس بات کی کوشش تھی کہ خدا کی معرفت اور اُس کی شناخت کو اُسی شہود اور حضور کی قسم سے حاصل کریں نہ حصولی طریقہ سے۔
چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک مرتبہ جب حضرت امیر ا لمومنین علیہ السلام منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے، تو ”ذِعْلَب“ نامی ایک شخص نے کہ جس کی زبان بہت واضح او رفصیح تھی اور وہ شجاع انسان تھا ،حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا : کیا آپ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اے ذِعلب! میں ہرگز اُس خدا کی عبادت نہیں کرتا کہ جس کو میں نے نہ دیکھا ہو: ”ما کنت اٴعبد ربّاً لم اٴرہ“، ذِعلب نے سوال کیا کہ یا امیرالمومنین ! آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ذِعلب! آنکھیں اُس کے مشاہدہ کی صلاحیت نہیں رکھتیں ہیں لیکن دلوں نے حقیقت ایمان کے ذریعہ اس کا مشاہدہ کیا ہے،([19]) یعنی خداوندعالم کی ذات نہ صرف یہ کہ مادیات و طبیعیات سے پاک و پاکیزہ ہے، لہٰذا اُسے اِن حسّی اور ظاہری آنکھوں سے نہیں د یکھا جاسکتا بلکہ وہ عالم مثال اور ہر طرح کے تشبیہ سے پاک و پاکیزہ ہے، اس بنا پر وہ خیالی اور مثالی وسائل سے چاہے وہ مثال متصل (یعنی عالم ذہن) ہو یا مثال منفصل (یعنی عالم جبروت) نہیں دیکھا جاسکتا ورنہ تو اُس کی مقدار، حالت اور اس کا مقابل ہونا لازم آئے گا، اگرچہ وہ مادہ نہ رکھتا ہو، اس طرح کی صفت ”موجود مطلق“ اور ”موجود غنی محض“ کے لئے محال ہے، بلکہ خدا کی پاک و مقدس ذات کا درک صرف ”شہودقلبی“ اور ”ادراک حضوری“ کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور ایسے حضور سے اس مومن کا دل بہرہ مند ہوتا ہے کہ جس میں ایمان کی حقیقت قرار دی گئی ہو۔ یہ بات معلوم ہے کہ حقیقت ایمان کہ جو ”شہود خدائے سبحان“ کی پہلی شرط ہے نہ تو محسوس ہے اور نہ قابل خیال، اس لحاظ سے خود حقیقت ایمان کو نہ تو حسی وسائل کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ خیالی تمثّل سے اُس کی تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔
ایسے عارف کا معبود بے شک حقیقی مشہود ہے او راگر کوئی ایسی عظیم الشان بارگاہ میں حاضر نہ ہوسکے تو اُس کا معبود اس کا معقول ہے نہ کہ مشہود اور ایسی عبادت، عبادت عابدانہ اور زاہدانہ ہوگی نہ کہ عبادتِ عارفانہ، کیونکہ مستحکم عقلی یا منقولہ دلائل، مفہوم کے دائرہ سے قدم آگے نہیں بڑھاتے اور شہودِ قلبی تک نہیں پہنچتے، صرف دور سے شہود کی منزل کو دیکھتے ہیں، لہٰذا اس پر عارفانہ ادراک کے آثار بھی مرتب نہیں ہوں گے۔
بہر حال حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام خداوندعالم کو حقیقت شناخت سے مملو دل اور اپنے اُسی مشہود واقعی کے ذریعہ اپنے تمام عبادتی امور میں چاہے وہ علمی تفکر ہو یا عملی امور ، خدا کی عبادت کرتے تھے اور خداوندعالم کو ہر حسّی و ظاہری طو رپر دیکھی جانے والی چیز سے شفاف تر دیکھتے تھے، کیونکہ ظاہری آنکھیں بہت زیادہ خطا و غلطی کرتی ہیں لیکن انسان معصوم کے ایمان کی بصیرت ہر خطا و غلطی سے پاک و پاکیزہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے آپ نے اس سلسلہ میں فرمایا:
”ہو اللّہ الحقّ المبین اٴحقّ واٴبْین مما تری العیون“۔([20])
ایک بہترین نکتہ کہ جس سے غفلت نہیں کرنی چاہئے یہ ہے کہ خداوندعالم اپنے علاوہ تمام چیزوں کا اس طرح مبدا فاعلی (نقطہ آغاز) اور مبداٴغائی (نقطہٴ پایان) ہے کہ نظام علّی و معلولی، مبداء فاعلی کے لحاظ سے اُسی ذات سے شروع ہوا ہے اور مبداء غائی کے لحاظ سے اُسی ذات پر ختم ہوگا، لہٰذا وہ نزول کے لحاظ سے بھی نیز صعود (ترقی) کے لحاظ سے بھی اور اول کے لحاظ سے بھی او رآخر کے لحاظ سے بھی ”علّت العلل“ یعنی تمام علتوں کی علت ہے۔
یہ مطلب بھی ثابت اور مسلّم ہے کہ علّت کے علم کا لازمہ، معلول کا علم ہونا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں یہ کہا جاتا ہے: ”ذَوَاتُ الاٴسباب لاتُعْرَفُ إلاّ باٴسبابہا؛“([21]) یعنی نہ صرف سبب کا علم ، مسبَّب کے علم کا سبب ہوتا ہے بلکہ مسبَّب پر علم کا تنہا راستہ وہی سبب کا علم ہے، یہ قاعدہ جیسا کہ علم حصولی میں بیان ہوتا ہے، اس لحاظ سے برہان منطق میں اُس سے مدد لی جاتی ہے تاکہ ”برہان لِمّ“ سے ”برہان اِنّ“ (دونوں فلسفی اصطلاح) جدا ہوجائے اور اُس کا امتیاز دوسروں پر واضح ہوجائے، علم حضوری میں مکمل طور پر کام آتا ہے، یعنی جس کے حضور اور شہود میں علّت حاضر ہو اور وہ بھی علّت کے شہود سے آگاہ ہو تو ضروری طور پر معلول بھی اُس کے حضور میں ہوگا اور اگر یہی مطلب ”علیّت“کو ”تشاٴن“ کی طرف پلٹاتے ہوئے عرفانی رنگ پیدا کرے اور عنوانِ مصدر و صادر، عنوانِ ظاہر و مظہر تک پہنچ جائے تو شہود ظاہر تمام چیزوں کے شہود کا سبب ہوجائے گا۔ جو شخص خداوندظاہر کو دل کی ایمانی آنکھ سے مشاہدہ کرےتو وہ تمام چیزوں کو اسی عرفانی نگاہ سے دیکھے گا اور اسرار عالم کے سلسلہ میں اس کا علم، شہودی تجلی اور شہودی شاٴن رکھتا ہوگا، نہ کہ حصولی۔
اگرچہ معرفت ،مایہٴ حیات اور پایہٴ اقتدار ہے، لیکن اِس کی تاثیر، معروف کے لحاظ سے ہوتی ہے، معروف جتنا بھی طاقتور ہوگا اُس کے حیاتی آثار بھی اتنے ہی اچھے ہوں گے اور کوئی بھی معروف، خداوندسبحان کے ہم پلہ نہیں ہے اور کوئی بھی معرفت، خدا کی معرفت کے برابر نہیں ہے، اس بنا پر کوئی بھی زندگی توحیدی زندگی کے برابر نہیں ہوسکتی۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام معرفت توحید کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: ”التوحید حیاة النفس“([22]) ایسی معنی دار حیات رکھنے والے کے لئے ہی زیب دیتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے کانوں تک ”سَلُونی قبل اٴن تفقدونی“([23]) کا نعرہ پہنچائے اور تمام صاحبان عقل و فہم پر واجب ہے کہ ِاس آواز کو دل لگا کر سنیں اور اس پر توجہ دیں کیونکہ حضرت علی علیہ السلام قرآن کی طرح گفتگو کرتے ہیں کیونکہ خود آپ کی ذات، قرآن ناطق ہے اور شہود متکلم کے ذریعہ آپ اُس کے تمام الفاظ سے پردہ اٹھاتے ہیں ،اُس کے معنی و تفسیر اور وضاحت کرتے ہیں اور آپ کا علمی اقتدار آپ کی عظیم المرتبت توحیدی حیات سے حاصل شدہ ہے، لیکن اِسے بیان کرنا اس کتاب کی حد سے باہر ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے شہود علمی اور آپ کی حیاتِ عارفانہ پر مشتمل ہے۔
[1] نہج البلاغہ، نامہ ۲۸۔
[2] ینابیع المودة، جلد۱، صفحہ۲۱۴، حدیث ۲۰۔
[3] بحار الانوار، جلد۸۲، صفحہ ۱۹۹۔
[4] توحید صدوق، صفحہ ۱۶۴، حدیث ۱۔
[5] سورہ زخرف، آیت ۴۔
[6] بصائر الدرجات، ص۲۰۰، حدیث ۲؛ بحار الانوار، جلد۳۹، ص۳۴۳۔
[7] دیکھئے: تفسیر تسنیم، ج۳، سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۳۰ کے ذیل میں۔
[8] امالی شیخ طوسی، صفحہ۲۰۵، حدیث ۳۵۱۔
[9] نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۹۔
[10] سورہ اعراف، آیت ۱۸۵۔
[11] سورہ انعام، آیت ۷۵۔ترجمہ: اور اسی طرح ہم ابراہیم علیہ السلام کو آسمان و زمین کے ملکوت دکھلاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ہوجائیں ۔
[12] توحید صدوق، ص۱۶۴، حدیث ۱۔
[13] اقبال، جلد۲، صفحہ ۲۷۸۔
[14] مناقب ابن شہر آشوب، جلد۲، صفحہ ۳۲۔
[15] سورہ یٰس، آیت ۱۲، ترجمہ: اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے ۔
[16] تفسیر قمی، ج۲، صفحہ ۲۱۲؛ ینابیع المودہ، ج۱، صفحہ ۲۳۰۔
[17] غرر و درر، آمدی، حدیث۱۶۷۴۔یعنی خدائے سبحان کی معرفت ، سب سے اعلی قسم کی معرفت ہے۔
[18] غرر و درر، آمدی،، حدیث ۷۹۹۹۔یعنی جس نے خدا کی معرفت حاصل کرلی اس کی معرفت کامل ہوگئی ۔
[19] کافی، ج۱، ص۱۳۸؛ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۹۔
[20] نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۵، ۔یعنی وہ خدائے برحق و آشکار ہے اس سے زیادہ ثابت اور واضح ہے کہ جو آنکھوں سے مشاہدہ میں آتا ہے۔
[21] اسفار، جلد۱، صفحہ ۲۶۔
[22] غرر و درر، آمدی، حدیث ۵۴۰۔
[23] نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۹۔