ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل هوئی :
<وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاٴَقْرَبِیْنَ>[1]
”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لھب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ هوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خطبہ دیتے هوئے فرمایا:
”یا بنی عبد المطلب انی واللّٰہ ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومہ باٴفضل ممّا قد جئتکم بہ، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰہ تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیہ، فاٴیکم یوازرنی علی ہذا الامر علی اٴن یکون اخي ووصیي وخلیفتي فیکم؟“
(اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم، میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نھیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا هو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ھے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ هوگا۔)
چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکالیا او رکوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے هوئے اور کھا:
”انا یا نبي اللّٰہ اٴکون وزیرک علیہ ، فقال (ص) ان ہذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا لہ واطیعوا“
(یا رسول اللہ میں حاضر هوں اور میں آپ کا وزیر هوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:
یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے هوئے چلے گئے:
”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“[2]
قارئین کرام ! یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ھے:
۱۔وزیرهونا۔
۲۔وصی هونا۔
۳۔خلیفہ هونا۔
اب ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نھیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پھلے جلسہ کا انتخاب کیا؟
اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ھے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ھم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ھے:
قارئین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنے اس پھلے اعلان میں عہد جدید ، جدید معاشرے اورنئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ھیں۔
کیونکہ جب کوئی اھم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ھے تو اس رئیساور ایک نائب مقرر کیا جاتا ھے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق هوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم هوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ھے اور ھمیشہ باقی رہنے والی ھے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نھیں هوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ھے اس وقت تک یہ دین باقی ھے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا هوگا اور وہ یہ جوان ھے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)
اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح هوجاتی ھیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ھیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ هوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نھیں پاتے، اور اگر یہ طے هو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح هوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“بھی اسی طرح ھے کیونکہ اس کے معنی یہ ھیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ھیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص هوتے ھیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ھے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ھی وصی بنایا جاتا ھے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ھے۔
اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا هو تو کھا جاتا ھے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ھے)، ”وصیي“(میرا وصی) نھیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ھے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ھے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔
لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے روز اول ھی واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ هوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی هوگا تاکہ کشتی اسلام میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ هوجائے۔
اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ھمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔
امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ھے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:
”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“[3]
(اے علی تم میں اور مجھ میں وھی نسبت ھے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ (ع) کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں)
قارئین کرام ! اگرچہ یہ حدیث مختصر ھے لیکن پھر بھی بہت سے معنی کی طرف اشارہ کرتی ھے لیکن اگر کوئی طائرانہ نظر ڈالے گا تو اس پر حدیث کے معنی واضح نھیں هوں گے لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث میں غور وفکر کرے گا تو اس پر یہ معنی بہت واضح هوجائیں گے۔
چنانچہ یہ حدیث شریف حضرت علی علیہ السلام کے لئے اشارہ کرتی ھے :
۱۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ کے وزیر ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے وزیر تھے:
<وَاجعلْ لی وَزِیراً منْ اٴَھلی>[4]
”اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر بنادے“
۲۔آپ رسول اللہ کے بھائی ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے بھائی تھے:
<ہَارُوْنَ اَخِیْ>[5]
”میرے بھائی ھارون“
۳۔ آپ ھی رسول اللہ کے شریک ھیں کیونکہ جناب ھارون بھی موسیٰ کے شریک تھے:
<وَاشْرِکْہُ فِیْ اٴَمْرِیْ>[6]
”اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا“
۴۔ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ھیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے:
<وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہَارُوْنَ اخْلُفْنِی فِیْ قَوْمِی>[7]
”(اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ھارون سے کھا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین هو“
۵۔ امامت نبوت سے مشتق ھے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور یھاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ھے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ھیں تب ھی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرق کو واضح کرتے هوئے فرمایا:
”الا انہ لا نبی بعدی“ (مگر میرے بعد کوئی نبی نھیں)
اور جب جناب موسیٰ (ع)نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اھل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ھے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ نبی کی خلافت ووزارت خدا کے حکم سے هوتی ھے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نھیں۔
قارئین کرام ! جب ھم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ھیں تو یہ بھی واضح هوجاتا ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نھیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اھم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مھار کس کے ھاتھ میں دے کر جارھے ھیں۔
اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ھے کہ حضرت علی (ع)،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ شریک ھیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت او رزراعت میں نھیں ھے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ھے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اھم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نھیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم هو کہ جناب ھارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حدیث منزلت میں ایسی قید لگادی تاکہ اشکال نہ هونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے هوئے فرمایا:
اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن هوجائیں جب یہ معلوم هو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں جارھے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔
لیکن شیخ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ھیں کہ اس حدیث سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی بھی فضیلت ثابت نھیںهوتی کیونکہ جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمجنگ تبوک کے لئے نکلے ھیں تو آپ کے ساتھ تمام اصحاب اور تمام مومنین تھے او رمدینہ میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی نھیں تھا یا وہ لوگ جو جنگ میں نھیں گئے تھے چاھے وہ مجبور هوں یا منافق تو ایسے لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنانا کوئی بھی فضیلت نھیں رکھتا۔ [8]
لیکن حدیث پرغوروفکر کرنے والاشخص ابن تیمیہ کے نتیجہ سے مطمئن نھیں هوتا بلکہ ایک دوسرا نتیجہ نکالتا ھے کہ:
اس وقت مدینہ منورہ مرکز نبوت اور دار السلطنت تھا۔
جب کسی حکومت کا رئیس اپنے دار السطنت سے کسی دوسری جگہ جاتا ھے (جیسے تبوک) اور چونکہ اس وقت کا مواصلاتی نظام بہت ھی کمزور هوتا تھا تو گویا جانے والا ایک طویل مدت کے لئے وھاں سے غائب هورھا تھا اور چونکہ جنگ کے مسائل ایسے هوتے ھیں جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نھیں هوتا کہ کب ختم هوگی اور کب پلٹ کر آنا هوگا تو ایسے موقع پر کسی رئیس کا نائب بنانا اور اس کو دار السلطنت میں جانشین بناکر چھوڑنا ایک عظیم معنی رکھتا ھے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب دشمنان اسلام اور منافقین کی طرف سے ھر ممکن خطرہ موجود هو اور وہ ایک ایسی فرصت کی تلاش میں هوں کہ موقع ملنے پر اسلام اور مسلمانوں کو نابود کر ڈالیں، لہٰذایسے ماحول میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ معین کرنا ایک عظیم فضیلت ھے۔
اس حدیث کو اکثر صحابہ وتابعین نے روایت کیا ھے اور بہت سے علماء وحفاظ نے اس کو نقل کیا ھے۔ [9]
بطور اختصارھم صرف حدیث کے محل شاہد اور ان چیزوں کو بیان کرتے ھیں جو امامت وامام کی وضاحت سے متعلق ھیں۔
چنانچہ اکثر روای کہتے ھیں:
”جب ھم حجة الوداع سے واپس پلٹ رھے تھے ، اورغدیر خم میں پهونچے تو رسول اسلام نے نماز ظھر کے بعد مسلمانوں کے درمیان خطبہ دیا اورحمد باری تعالیٰ کے بعد فرمایا:
”اے لوگو ! قریب ھے کہ میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کهوں میں بھی مسئول هوں او رتم بھی مسئول هو، پس تم لوگ کیا کہتے هو؟
تب لوگوں نے کھا: ”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی، ھم کو وعظ ونصیحت کی اورجھاد کیا ، ”فجزاک اللّٰہ خیراً“
یھاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ان اللّٰہ مولای واٴنا مولی الموٴمنین ، وانا اولی بھم من انفسھم، فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ، اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ واٴدر الحق معہ حیثما دار۔“
(اللہ میرا مولا ھے او رمیں مومنین کا مولا هوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف هوں پس جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کردے جو علی کو ذلیل کرنا چاھے او رجدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑدے)
اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہ کلام تمام هوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑھے، چنانچہ حضرت عمر نے کھا:
”بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة“
(مبارک هو مبارک اے علی، آپ ھمارے اورھر مومن ومومنہ کے مولا هوگئے)
اس کے بعد جناب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل هوئے:
<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاٰمَ دِیْناً>[10]
”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا“
قارئین کرام ! یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ،اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ کی مکمل وضاحت کی گئی ھے اور یہ واضح کردیا گیا ھے کہ یہ امامت ، ولایت عام او رمطلقہ مسئولیت کی حامل ھے اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد جس امام کے بارے میں سوال کیا جارھا تھا اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے لوگوںکے سامنے پیش کردیا اور اس حدیث ودلیل کو سن کر لوگوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا جس کے نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے لگے۔
لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ چھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کھا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نھیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ھیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ھم یہ نھیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کھا ھے۔
لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور هوا وهوس کی دین ھے اور نہ ھی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ھے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:
۱۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل هونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری حج سے واپس آرھے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:
<یَاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>[11]
”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پهونچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پهونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظھر کے وقت کا انتخاب کرنا۔
۳۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر هونا:
الف: اللّٰہ مولای۔
اللہ میرا مولا ھے۔
ب: انامولی المومنین۔
میں مومنین کا مولا هوں۔
ج: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔ [12]
جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی (ع)بھی مولا ھیں۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا حضرت علی علیہ السلام کے لئے دعا کرنا:
”اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ واخذل من خذلہ وادرالحق معہ حیث دار۔[13]
پروردگارا ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے اور ذلیل کر اس کو جو علی کو ذلیل کرنا چاھے، اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی جائیں ۔
جبکہ اس دعا میں ولایت کے معنی بغیر حاکم کے مکمل نھیں هوسکتے ھیں
۵۔ آیہ اکمال کا نازل هونا: الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔[14] جو اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ یہ ایک اھم مسئلہ تھا جس وجہ سے خداوندعالم نے دین کو کامل کیا اور نعمتیں تمام کیں۔
۶۔ حاضرین غدیر خم کا حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ الفاظ میں مبارک باد پیش کرنا۔[15]
مذکورہ چھ نکات میں غور وفکر کرنے سے انسان کو یہ یقین هوجاتا ھے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی (ع) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وراث ،ناصر ،دوست او رابن عم نھیں ھیں اور نہ ھی ارث ونصرت کا مسئلہ ھے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان باتوںکاقصد کرتے توپھر غدیر کے ماحول اور ان آیات جن کو خدا نے اس موقع پر نازل فرمایا اور تبریک وتہنیت کے لئے ایسے الفاظ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر لفظ مولا سے مراد امامت وخلافت نہ هو تو پھر ان سب چیزوں کا وجود کوئی معنی نھیں رکھتا۔
اور جیسا کہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی نے حقیقت کا انکشاف کیا ھے اور جو لوگ اس حدیث کا انکارکرتے ھیں ان کے لئے بہترین جواب دیا ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:
”چونکہ اھل ظاھر(حنبلیوں) اور سلفیوں( وھابیوں)کے نزدیک معاویہ سے محبت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں تھا لہٰذا اس سے محبت کرنا ھی اپنا شعار بنارکھا ، اسی وجہ سے انھوں نے مذکورہ حدیث کے معنی اس لحاظ سے کئے تاکہ علی کی محبت کو ترک کرنے میں کوئی مضائقہ پیش نہ آئے۔ [16]
مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی امت کی قیادت ورھبری کے لئے امام کی معرفی کی ھے۔
اور مذکورہ حدیث (اگرچہ اس کے الفاظ او رمناسبت مختلف ھیں) امامت کے بارے میں صاف اور روشن ھے جو مکمل طریقہ سے ھمارے مقصود پر دلالت کرتی ھے۔
لیکن اب سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ کیا فقط امام اول کا معین هوجانا کافی ھے اور باقی ائمہ علیھم السلام کے بارے میں تعیین کی ضرورت نھیں ھے یا ان کے لئے بھی نص اور احادیث کا هونا ضروری ھے؟
یعنی باقی ائمہ (ع) کی امامت کیسے ثابت هوگی؟ اور ان کو بارہ کے عدد میں محدود کرنا (نہ کم وزیاد) کیسے صحیح ھے؟
قارئین کرام ! ائمہ (ع)کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے:
ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشهور ھیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”انتما الامامان ولامکما الشفاعة “ [17]
(تم دونوں امام هو اور دونوں شفاعت کرنے والے هو)
اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
”ہذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة “[18]
(یہ خود بھی امام ھیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی او رنو اماموںکے باپ ھیں)
اور اس طرح بہت سی روایات موجود ھیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ھیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھے۔
دوسرا طریقہ:
گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اورچونکہ گذشتہ امام کا بیان ،حجت اور دلیل هوتاھے اور اس پر یقین رکھناضروری ھے جبکہ ھم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ھیں۔[19]
اب رھا ائمہ (ع) کا بارہ هونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ھیں[20] اور ھمارے لئے یھی کافی ھے کہ اس مشهور ومعروف حدیث نبوی کو مشهور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ارشاد فرمایا:”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش“ [21]
(دین اسلام قیامت تک باقی رھے گا او رتمھارے بارہ خلیفہ هوں گے جو سب کے سب قریش سے هوں گے)
ایک دوسری حدیث میں اس طرح ھے:
”ان ہذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر“[22]
(بتحقیق یہ امر (دین) ختم نھیں هوگا یھاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) هوں گے)
اور اگر ھم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوںنے صحیح مانا ھے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کررھی ھے:
۱۔دین کا قیامت تک باقی رہنا۔
۲۔قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ھی هوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار هوں گے۔
اور یہ بات واضح ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نھیں ھیں جو شروع کی چار صدیوں میں هوئے ھیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ھے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نھیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے حقیقی خلیفہ نھیں هوسکتے۔
تو پھر انکے علاوہ هونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نھیں، یہ وہ ائمہ ھیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے او ران کا اکرام کیا کرتے تھے اور انھیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقھی مشکلات میں انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انھیں ائمہ(ع) کے پاس جایا کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)
[1] سورہ شعراء آیت ۲۱۴۔
[2] اس روایت کو خلاصہ کرکے نقل کیا ھے، تاریخ طبری ج۲ص ۳۱۹،۳۲۱۔ مطبوع دار المعارف، مصر ۱۹۶۱ء ۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر محمد حسین ھیکل نے اپنی کتاب ”حیاة محمد“ ص۱۰۴ کے پھلے ایڈیشن میں اس حدیث کو نقل کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اس حدیث کوحذف کردیا، قارئین کرام اس حدیث کے مصادر اور سندوں کو کتاب الغدیر ج۲ ص ۲۵۲تا ۲۶۰ پر ملاحظہ فرمائیں۔
[3] صحیح مسلم ج۷ص ۱۲۰، اس حدیث کی سند اور منابع کے سلسلہ میں کتاب الغدیر جلد اول ص۴۸تا ۴۹ وج۳ص ۱۷۲تا ۱۷۶ ملاحظہ فرمائیں۔
[4] سورہ طٰہ آیت ۲۹۔
[5] سورہ طٰہ آیت ۳۰۔
[6] سورہ طٰہ آیت ۳۲۔
[7] سورہ اعراف آیت۲ ۱۴۔
[8] نظریة الامامة ص ۲۲۹۔
[9] ان صحابہ، تابعین علماء ،حفاظ اور رایوں کے اسماء گرامی نیز منابع حدیث کے بارے میں کتاب الغدیر جلد اول مکمل طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
[10] سورہ مائدہ آیت ۳
[11]سورہ مائدہ آیت ۶۷، اس آیت کی شان نزول کے بارے میں تفسیر ”الدر المنثور“ ج۲ص ۲۸۹، فتح الغدیر جلد اول ص ۶۰ اور کتاب الغدیر جلد اول ص ۱۹۶ تا ۲۰۹ میں ذکر شدہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔
[12] سد الغابہ ج ۴ص۲۸، البدایة والنھایة ج۵ص ۲۰۹، ۲۱۳، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[13] سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۳ ، البدایة والنھایة ج۵ص۰ ۲۱، وفیات الاعیان ج۴ص ۳۱۸ ، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[14] اس آیت(سورہ مائدہ آیت۳) کی شان نزول کے بارے میں تاریخ بغداد ج۸ ص ۲۹۰، الدر المنثور ج۲ ص ۲۵۹، اور الغدیر کی پھلی جلدص۱۲۰تا ۲۱۷ میں بیان شدہ کتابیں۔
[15] تاریخ بغداد جلد ۸ص ۲۹۰، البدایہ والنھایة ج۵ ص ۲۱۰، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[16] نظریة الامامة ص ۲۲۱۔
[17] نزھة المجالس ج۲ص۴۷۲۔
[18] منھاج السنة ج۴ص۲۱۰۔
[19] تعیین امامت کے سلسلہ میں حدیث نبوت کوگذشتہ حوالوں کے علاوہ ارشاد مفید، المناقب شھر آشوب السروی، فصول المھمہ، ابن صباغ مالکی ،مطالب السوٴال ابن طلحہ شافعی، ینابیع المودة قندوزی حنفی وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
[20]شیخ قندوزی وغیرہ نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ھے کہ آپ نے فرمایا:
”انا سید النبیین وعلی سید الوصیین وان اوصیاي بعدي اثنا عشر“اس حدیث اور حدیث اثنا عشر کے بارے میں کتاب ینابیع المودة ص ۴۴۷، ۴۸۶،۴۸۷، ۴۸۸، ۴۹۲، ۴۹۳ ملاحظہ فرمائیں۔
[21] صحیح بخاری ج۹ ص ۱۰۱، صحیح مسلم ج۶ص ۳، سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱، وسنن ابی داوٴد ج۲ص ۴۲۱، وجامع الاصول ج۴ص ۴۴۰تا ۴۴۲۔
اس حدیث کے طُرق کے بارے میں حافظ قندوزی کہتے ھیں: صحیح بخاری میں اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا گیا ھے اور صحیح مسلم میں نو طریقوں سے، سنن ابی داؤد میں دو طریقوں سے، سنن ترمذی میں ایک طریقہ سے اور حمیدی میں تین طریقوں سے بیان کیا گیا ھے، رجوع فرمائیں ینابیع المودة ص ۴۴۴۔
یھاں پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ایک ایک حدیث نقل کردینا بہتر ھے تاکہ قارئین کرام ان دونوں حضرات کی نقل کو بھی دیکھ لیں:
,,…عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرہ ؛قال: سمعت النبی یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش“
صحیح بخاری جلد ۹، کتاب الاحکام، باب۵۲ ”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم جلد۶، کتاب الامارہ، باب۱۱ ” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“ حدیث۱۸۲۱۔
ترجمہ :۔…عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ھے کہ: میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ هوں گے، جابر کہتے ھیں کہ: دوسرا کلمہ میں نے صحیح سے نھیں سنا جس میں آنحضرت نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے هوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا کہ: وہ جملہ جو اس نے نھیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے هوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ھے، اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آیا ھے:
”جابر بن سمرہ؛ قال: انطلقتُ الی رسول اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ہذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْہَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش“ ، صحیح مسلم جلد ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱ حدیث۱۸۲۱،کتاب الامارہ کی حدیث نمبر۹۔
ترجمہ:۔…جابر بن سمرہ کہتے ھیں کہ: ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا سے مشرف هوا تو میں نے رسول سے سنا کہ آپ فرما رھے تھے کہ: یہ دین الٰھی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا ، اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حائل هوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا کہ: تمام یہ بارہ خلفاء قریش سے هوں گے۔ (مترجم)۔
[22] صحیح مسلم ج۶ص۴۔