حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظھور کا انتظار اسلامی تعلیمات میں کسی دوسرے دین سے نھیں آیا بلکہ قطعی ترین مباحث میں سے ھے، جو خود پیغمبر اکرم (ص)کی زبان سے بیان ھوا ھے، اور تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ھیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ھیں۔
اب ھم اس انتظار کے نتائج اور اسلامی معاشروں کی موجودہ حالت کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں کہ کیا اس طرح کے ظھور کا انتظار انسان کو اس منزل فکر تک لے جاتا ھے کہ وہ اپنی حالت کو بھول جاتا ھے اور ھر طرح کے شرائط کو قبول کرنے کے لئے تیار ھوجاتا ھے؟
یا یہ کہ در اصل یہ عقیدہ انسان کو اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دیتا ھے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کے اندر تحرک ایجاد کرتا ھے یا اس میں انجماد پیدا کردیتا ھے۔
اور کیا یہ عقیدہ اانسان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ کرتا ھے یا ذمہ داریوں سے آزاد کردیتا ھے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کو خواب غفلت کی دعوت دیتا ھے یا انسانیت کو بیدار کرتا ھے؟
لیکن ان سوالات کی تحقیق اور وضاحت سے پھلے اس نکتہ پر توجہ کرنا بہت ضروری ھے کہ اگر بلند ترین مفاھیم اور اصلاح کے بہترین قوانین کسی نااھل یا ناجائز فائدہ اٹھانے والے کے ھاتھوں میں پھنچ جائے تو ممکن ھے کہ وہ ان سے غلط فائدہ اٹھائے یا ان کے بالکل برعکس مقاصد تک پھنچائے، جیسا کہ اس سلسلہ میں ھمیں بہت سے نمونے ملتے ھیں، ”انتظار“ کا مسئلہ بھی اسی طرح ھے جیسا کہ ھم بعد میں بیان کریں گے۔
بھر حال اس طرح کی گفتگو میں ھر طرح کی غلط فھمی سے بچنے کے لئے پانی کو اس کے سرچشمہ سے لیا جائے تاکہ نھروں اور راستوںکی گندگی اس میں اثر نہ کر سکے، یعنی ھمیں ”انتظار“ کے مسئلہ میں اصلی اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور ”انتظار“ کے سلسلہ میں بیان ھونے والی مختلف روایات کو غور و فکر سے پڑھنا چا ہئے تاکہ ان کے اصلی مقصد سے آگاھی حاصل ھو سکے ۔
محترم قارئین ! اب یھاں پر بیان ھونے والی چند روایات پر غور کیجئے:
۱۔ کسی شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ھیں کہ ائمہ علیھم السلام کی ولایت کا اقرار کرتا ھو اور ”حکومت حق“ کے ظھور کا انتظار کرتا ھو، اور اسی حال میں اس دنیا سے چل بسے؟
امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:
”ھُوَ بِمَنزلةِ مَن کَانَ مَعَ القَائِمِ فِي فِسطاطُہُ ثُمَّ سَکَتَ ھَنِیّئة ثُمَّ قَالَ ھُوَ کَمَنْ کَانَ مَعَ رَسُولِ الله!“[1]
”وہ اس شخص کی مانند ھے جو حضرت کے ساتھ ان کی رکاب ( محاذ) پر حاضر ھوا ھو، (اس کے بعد حضرت تھوڑی دیر خاموش ر ھے) اور فرمایا: وہ اس شخص کی مانند ھے جس نے پیغمبر اکرم (ص)کی رکاب میں جھاد کیا ھو“۔
بالکل یھی مضمون دوسری بہت سی روایات میں بھی بیان ھوا ھے۔
۲۔ بعض روایات میں بیان ھوا ھے کہ ”بِمنزلةِ الضَّارِبِ بِسَیْفِہِ فِي سَبِیْلِ الله“یعنی راہ خدا میں تلوار چلانے والے کی مانند ھے۔
۳۔ بعض دوسری روایات میں یہ بیان ھوا ھے کہ ”کَمَنْ قَارعَ مَعَ رسُولِ الله بِسَیْفہ“یعنی اس شخص کی مانند ھے جس نے پیغمبر اکرم (ص)کے ساتھ دشمن کے سر پر تلوار چلائی ھو۔
۴۔ بعض روایات میں یہ بیان ھوا ھے کہ ”بِمَنْزِلَةِ مَنْ کَانَ قَاعِداً تَحْتَ لَوَاءِ القَائِمِ“ یعنی اس شخص کی مانند ھے جو حضرت قائم (عج) کے پرچم کے نیچے ھو۔
۵۔ اور دوسری روایات میں یہ بیان ھوا ھے کہ ”بِمَنْزِلَةِ المُجَاھدِ بَین یَدي رَسُولِ الله‘ِ‘ یعنی اس مجاھد جیسا ھے جس نے پیغمبر اکرم (ص)کے حضور میںجھاد کیا ھو۔
۶۔ بعض دیگر رویات میں بیان ھوا ھے کہ ”بِمَنْزِلَةِ مَن إسْتَشْہَدَ مَعَ رَسُولِ الله“ اس شخص کی مانند ھے جو پیغمبر اکرم (ص)کے ساتھ شھید ھوا ھو۔
حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار کے سلسلہ میں ان چھ روایات میں یہ سات طرح کی شباہتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ھیں کہ مسئلہ انتظار ایک طرف اور دوسری طرف دشمن ِ (اسلام) سے جھاد اور اس سے مقابلہ میں ایک خاص رابطہ پایا جاتا ھے۔ (غور کیجئے )
۷۔ بہت سی روایات میں اس طرح کی حکومت کے انتظار کے ثواب کو سب سے بڑی عبادت کے عنوان سے یاد کیا گیا ھے۔
پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی علیہ السلام سے منقول بعض احادیث میں یہ مضمون ملتا ھے ، درج ذیل حدیث پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ھے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:
”اٴَفْضلُ اٴعْمَالِ اُمَّتِی إنْتِظَارِ الفَرَجِ مِنَ الله عَزَّوَجَلَّ“ [2]
”میری امت کا سب سے بہترین عمل ”انتظار فرج“ (کشادگی)ھے“۔
پیغمبر اکرم (ص)سے ایک دوسری حدیث میں بیان ھوا ھے: ”اٴفضلُ العبادةِ إنتظار الفَرج“[3] یعنی انتظار فرج بہترین عبادت ھے۔
اس حدیث میں انتظار فرج کے معنی چا ھے عام اور وسیع لیں یا امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظھور کے انتظار کے معنی لیں انتظار کے مسئلہ کی اھمیت واضح اور روشن ھوجاتی ھے۔
یہ تمام الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ھیں کہ اس طرح کے انقلاب کا انتظار کرنا ھمیشہ وسیع پیمانہ پر جھاد کاتصور لئے ھوئے ھے، ھم یھاں پھلے انتظار کا مفھوم اور پھر اس کے تمام نتائج پیش کریں گے۔
”انتظار “عام طور پر اس حالت کو کھا جاتا ھے کہ جس میںانسان پریشان ھو اور اس سے بہتر حالت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
مثال کے طور پر ایک بیمار اپنی شفاکا انتظار کرتا ھے، یا کوئی باپ اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا ھے، جس سے دونوں پریشان ھیں اور بہتر حالت کے لئے کوشش کرتے ھیں۔
اور جیسے کوئی تاجر بازار کی ناگفتہ بہ حالت سے پریشان ھو اور وہ اقتصادی بحران کے خاتمہ کا انتظار کرتا ھے ، لہٰذا اس میں یہ دو حالتیں پائی جاتی ھیں:
۱۔ اپنی موجودہ حالت سے پریشانی۔
۲۔ حالت بہتر بنانے کے لئے کوشش۔
اس بنا پر امام مھدی (عج) کی حکومت عدالت اور آنحضرت کے قیام کا انتظار دو عنصر سے مرکب ھے: عنصر ”نفی“ اور عنصر ”اثبات“ عنصر نفی یعنی موجودہ حالت سے غمگین اور پریشان رھنا، اور عنصر اثبات یعنی حالات بہتر ھونے کے لئے سعی و کوشش کرنا ۔
اگر یہ دونوں پھلو اس کی روح میں جڑ کی طرح ثابت ھوجائیں تو پھر اس کے اعمال میں قابل توجہ تبدیلی پیدا ھوجائے گی۔
اور انسان ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ھم آھنگی سے پرھیز کرے گا ،اپنے نفس کی اصلاح کرے گاتاکہ جسمی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ سے حضرت امام مھدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیار ھوجائے۔
اگر ھم مزید غور و فکر کریں تو معلوم ھوجائے گا کہ یہ دونوں چیزیں انسان کی اصلاح اور اس کی بیداری کے لئے بہت مفید ھیں۔
(قارئین کرام!)اب اگر ”انتظار“ کے اصلی مفھوم کے پیش نظر مذکورہ روایات دیکھیں تو ان میں بیان ھونے والا ثواب صاف سمجھ میں آتا ھے، اور ھم سمجھ جاتے ھیں کہ ایک حقیقی انتظار کرنے والے کا مرتبہ اتنا کیوں بلند ھے جیسا کہ وہ خود حضرت امام زمانہ (عج) کے پرچم کے نیچے ھو یا جس نے راہ خدا میں جھاد کیا ھو یا اپنے خون میں نھایا یا شھید ھوگیا ھو۔
کیا یہ سب راہ خدا میں جھاد کے درجات کے مختلف مراحل نھیں ھیں جو انتظار کرنے والوں کے لحاظ سے پائے جاتے ھیں۔
یعنی جس طرح سے راہ خدا میں جھاد کرنے والوں میں قربانی کا جذبہ مختلف ھوتا ھے اور ان میں ادب و اخلاق نیز آمادگی ایک دوسرے سے مختلف ھوتی ھے ، اگرچہ یہ دونوں ”مقدمات“ اور ”نتیجہ“ کے لحاظ سے مشابہ ھو تے ھیں، کیونکہ دونوں جھاد ھیں اور دونوں میں اصلاح نفس اورآمادگی کی ضرورت ھوتی ھے،لہٰذا ایسی عالمی حکومت کے فوجی کو بے خبر وغافل نھیں ھو نا چا ہئے ایسے لشکر میںھر کس و نا کس شامل نھیں ھو سکتا؟
اسی طرح جو شخص اسلحہ لئے ھوئے ھے اور اس رھبرانقلاب کے دشمنوں سے جنگ کررھا ھے، اور صلح و عدالت کی حکومت کے دشمنوں سے مقابلہ کررھا ھے، تو اس کے لئے وسیع پیمانہ پر روحی ، فکری اور جنگی تیاری کی ضرورت ھے۔
ظھور امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے انتظار کے واقعی اثر سے مزید آگاھی کے لئے درج ذیل مطلب پر توجہ فرمائیں:
میں اگر ظالم و ستمگر ھوں تو پھر کسی ایسی حکومت کا انتظار کرنا کیسے ممکن ھے جس کی تلوار ظالم و جابرلوگوں کے سر پر چمکے گی۔
میں اگر گناھوں سے آلودہ اور ناپاک ھوں تو پھر کس طرح ممکن ھے کہ کسی ایسے انقلاب کا انتظار کروں جس کا پھلا شعلہ گناھوں سے آلودہ لوگوں کو جلاکر راکھ کردے گا۔
عظیم الشان جھاد کے لئے آما دہ فوج کے افراد ھمیشہ اپنی طاقت و قوت بڑھاتے رہتے ھیں، اور ان میں انقلابی روح پھونکتے رہتے ھیں اور ھر طرح کے ضعف اور کمزوری کو دور کرتے رہتے ھیں۔
کیونکہ ”انتظار“ ھمیشہ اسی لحاظ سے ھوتا ھے کہ جس چیز کا انسان انتظار کر رھاھے۔
ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار۔
ایک بہت ھی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔
لیکن ھر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ھو تی ھے، ایک انتظار میں مھمان نوازی کا سامان فراھم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل جیسے لگّی اور درانتی کی ضرورت ھوتی ھے۔
اب آپ غور کیجئے کہ جو لوگ ایک عالمی عظیم الشان اصلاح کرنے والے کا انتظار کرتے ھیں، وہ لوگ در اصل ایک بہت بڑے انقلاب کا انتظار کرتے ھیں جو تاریخ بشریت کا سب سے بڑا انقلاب ھوگا۔
یہ انقلاب گزشتہ انقلابات کے برخلاف کوئی علاقائی انقلاب نہ ھوگا بلکہ ایک عام انقلاب ھوگا جس میں انسانوں کے تمام پھلوؤںپر نظر ھوگی اور یہ انقلاب سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ھوگا۔
پھلا فلسفہ۔ اصلاح نفس
اس طرح کے انقلاب کے لئے ھر دوسری چیز سے پھلے مکمل طور پر آمادگی کی ضرورت ھوتی ھے تاکہ اس طرح کی اصلاحات کے بھاری بوجھ کو اپنے شانوں پر اٹھاسکے، اس چیز کے لئے سب سے پھلے علم واندیشہ ،روحانی فکر اور آمادگی کی سطح کو بلند کیا جاتا ھے تاکہ اس کے اھداف و مقاصد تک پھنچا جاسکے، تنگ نظری، کج فکری، حسد، بچکانا اختلافات، بیھودہ چیزیں اور عام طور پر ھر طرح کا نفاق اور اختلاف”سچے منتظرین“ کی شان میں نھیں ھے۔
ایک اھم نکتہ یہ ھے کہ حقیقی طور پر انتظار کرنے والا شخص ایک تماشا ئی کا کردار ادا نھیں کرسکتا، بلکہ سچا منتظر وہ ھے جو ابھی سے انقلابیوں کی صف میں آجائے۔
اس انقلاب کے نتائج پر ایمان رکھنا ھرگز اس کو مخالفوں کی صفوں میں رھنے کی اجازت نھیں دیتا اور موافقین کی صف میں آنے کے لئے ”نیک اعمال، پاک روح، شجاعت و بھادری اور علم و دانش“ کی ضرورت ھے۔
میں اگر گنھگار اور فاسد ھوں تو پھر کس طرح اس حکومت کا انتظار کروں جس میں نااھل اور گنھگاروں کا کوئی کردار نہ ھوگا، بلکہ ان کو قبول نہ کیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی۔
کیا یہ انتظار انسان کی فکر و روح اور جسم و جان سے آلودگی کو دور کرنے کے لئے کافی نھیں ھے؟!
جو فوج آزادی بخش جھاد کا انتظار کررھی ھو اور بالکل تیار ھو، تو اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ھوتی ھے جو اس جھاد کے لئے مناسب اور کارگر ھو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔
لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ھر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نھیں ھے تو وہ منتظر نھیں ھے اور اگر فوج آمادگی کا دعویٰ کرتی ھے تو جھوٹی ھے۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ھيں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رھے، اس وقت سوچیں کہ اس طرح کی یہ آمادگی اور تیاری کس طرح انسان ساز اور اصلاح کناں ھوگی۔
پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی مذاق کام نھیں ھے، یہ عظیم مقصد ایک آسان کام نھیں ھوسکتا، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ھونی چاہئے۔
ایسا انقلاب لانے کے لئے بہت ھی عظیم انسان، مصمم، بہت بھادر، غیر معمولی طور پر طیب و طاھر، بلند فکر اور گھری نظرکے ساتھ مکمل طور پر آمادگی رکھنے والا ھونا چاہئے۔
ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ھے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یھی مطلب ھے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ھے کہ ایسا انتظار اصلاح کرنے والا نھیں ھے؟!
صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نھیں ھے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جا ئے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ھوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ھوگی،کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررھے ھیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نھیں ھے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ھے جس میں تمام پھلووٴں سے انقلاب آنا ھے، جس کے لئے پورے معاشرہ کے لئے کام کرنا ھوگا، سب کی سعی و کوشش میں ھم آھنگی ھو، اس انقلاب کے لئے کوشش اسی عظیم الشان پیمانہ پر ھو جس کا ھم انتظار کررھے ھیں۔
ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نھیں ھوسکتا، بلکہ ھر فو جی کی یہ ذمہ داری ھوتی ھے کہ وہ جھاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ھو اس کا سدّ باب کرے اور ھر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسو ئی اور ھم آھنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نھیں ھے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائدھوتی ھے۔
فلسفہ انتظار کا ایک دوسرا ثمرہ یہ ھے کہ انسان اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرے جس پر مذکورہ روایات میںاس قدر ثواب کا وعدہ دیا گیا ھے۔
تیسرا فلسفہ: حقیقی منتظرین برے ماحول میں رنگے نھیں جاتے
حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے انتظار کا ایک اھم فلسفہ یہ ھے کہ انسان ،گناھوں اور بُرے ماحول میں گم نہ ھونے پائے، اور اپنے کو گناھوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھے۔
وضاحت: یعنی جب ظلم و ستم اور گناھوں کا بازار گرم ھو، اکثر لوگ گناھوں اور برائیوں میں پھنسے ھوئے ھوں، تو ایسے ماحول میں نیک کردار افراد (بھی) فکری بحران کا شکار ھوجاتے ھیں ، اور ایسا اس لئے ھوتا ھے کہ وہ عوام الناس کی اصلاح سے مایوس ھوجاتے ھيں۔
کیونکہ کبھی کبھی ایسے افراد یہ سوچتے ھیں کہ اب تو کام ختم ھوچکا ھے اور اصلاح کا کوئی راستہ ھی باقی نھیں رہ گیا ھے، اور اپنے کو پاک و پاکیزہ رکھنے کا کوئی فائدہ ھی نھیں ھے، چنانچہ یھی نا امیدی اور مایوسی ان کو آھستہ آھستہ گناھوں اور برائیوں کی طرف کھینچتی ھے اور ان پر ماحول کا اثر ھونے لگتا ھے، وہ آلودہ اکثریت کے مقابلہ میں صحیح و سالم اقلیت کے عنوان سے اپنے کو محفوظ نھیں کرپاتے، اورماحول کے رنگ کو نہ اپنانے کو ایک ذلت و رسوائی سمجھتے ھیں!
ایسے موقع پر فقط ایک ھی چیز ان کے لئے ”امید کی کرن“ ھوتی ھے اور پرھیزگاری کی دعوت دیتی ھے، نیز ان کو برے ماحول سے محفوظ رھنے کی دعوت دیتی ھے اور وہ آخری صورت میں اصلاح کی امید ھے ، صرف اسی صورت میں انسان اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے سعی و کوشش سے ھاتھ نھیں روکتا۔
اگر ھم دیکھتے ھیں کہ اسلامی تعلیمات میں گناھوں کی بخشش سے مایوسی کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ھے اور ممکن ھے کہ بعض لوگ تعجب کریں کہ کیوں رحمت خدا سے مایوسی کو اس قدر عظیم اور اھم شمار کیا گیا ھے، یھاں تک کہ بہت سے گناھوں سے بھی اھم قرار دیا گیا ھے تو در اصل اس کا فلسفہ یھی ھے کہ رحمت خدا سے مایوس گنھگار ھرگز اپنی اصلاح کی فکر نھیں کرتا، یا کم از کم وہ اپنے گناھوں میں مزید اضافہ کرنے سے نھیںرکتا، اس کی دلیل یہ ھوتی ھے کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا ھے چاھے ایک بالشت ھو یا سو بالشت؟! میں تو بدنام زمانہ ھوگیا ھوں اب مجھے دنیا کا کوئی غم نھیں ھے!! سیاھی سے زیادہ تو کوئی رنگ نھیں ھے، آخر کار جھنم ھے، جھنم تو میں نے خرید ھی لیا ھے اب اور کسی چیز کا ڈر کیا ھے؟ وغیرہ وغیرہ
لیکن جب اس کے لئے امید کی کرن پھوٹتی ھے، رحمت پروردگار کی امید، موجودہ حالت کے بدلنے کی امید ، تو پھر اس کی زندگی میں ایک نیا رخ آجاتا ھے ، اوریہ امید اس کو گناھوں کے راستہ پر چلنے سے روک دیتی ھے اور اسے اپنی اصلاح ، توبہ اور پاکیزگی کی دعوت دیتی ھے۔
اسی وجہ سےبرے لوگوں کے لئے ”امید کی کرن“ کوایک تربیتی سبب شمار کیا جاتا ھے، اسی طرح نیک اور صالح افراد جو بُرے ماحول میں پھنسے رہتے ھیں وہ بھی بغیر امید کے اپنی اصلاح نھیں کرسکتے۔
خلاصہ یہ ھے کہ ایسے اصلاح کرنے والے کے ظھور کے انتظار کی بنا پر دنیا جتنی زیادہ فاسد ھوتی جارھی ھے امام زمانہ ﷼کے ظھور کی امید بھی زیادہ ھوتی جارھی ھے، اور انتظار کرنے والوں کے لئے موثر ھے، جو ماحول کی تیز آندھیوں کے مقابل محفوظ کردیتی ھے، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ معاشرے میں ظلم و فساد اور برے ماحول سے نا امید نھیں ھوتے بلکہ جس طرح وعدہ وصال جب نزدیک ھوجاتا ھے تو آتش عشق مزید بھڑک جاتی ھے اسی طرح جب انسان اپنے مقاصد کو نزدیک دیکھتا ھے تو اصلاح معاشرہ نیز ظلم و فساد سے مقابلہ کے لئے کوشش میں مزید عشق پیدا ھوجاتا ھے۔
(قارئین کرام!) ھماری گزشتہ بحث و گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ انتظار کا غلط اثر اسی صورت میں ھوتا ھے جب اس کو مسخ کردیا جائے، یا اس میں تحریف کردی جائے جیسا کہ بعض مخالفین نے اس میں تحریف کی ھے اور موافقین نے اس کو مسخ کردیا ھے، لیکن اگر واقعی طور پر معاشرہ اور خود انسان میں انتظارِ ظھور کا صحیح مفھوم پیدا ھوجائے تو یہ اصلاح، تربیت اور امید کا بہترین سبب ھے۔
اس موضوع کے واضح کرنے کے لئے بہترین دلیل درج ذیل آیہٴ شریفہ ھے، ارشاد خداوندی ھے:
< وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاٴَرْضِ۔۔۔>[4]
”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ھے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پھلے والوں کو بنایا ھے“۔
اس آیہٴ شریفہ کے ذیل میں معصومین علیھم السلام سے نقل ھوا ھے کہ اس سے مراد ”ہُوَ القَائِمُ وَاٴصحابِہ“ ”قائم آل محمد اور آپ کے اصحاب وانصار ھیں“۔[5]
ایک دوسری حدیث میں بیان ھوا ھے کہ ”نَزَلَتْ فِي المَہْدِیّ علیہ السّلام) یہ آیہٴ شریفہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔
اس آیت میں حضرت امام مھدی (عج) اور آپ کے اصحاب ”الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “ کے عنوان سے یاد کئے گئے ھیں، لہٰذا یہ عالمی انقلاب، مستحکم ایمان ( جس میں کسی طرح کا ضعف اور کمزوری نہ پائی جاتی ھو، ) اور اعمال صالح (جس سے دنیا بھر کی اصلاح کا راستہ کھل جاتا ھو) کے بغیر ممکن نھیں ھے، اور جو لوگ اس انقلاب کے انتظار میں ھیں ان کو چاہئے کہ اپنے علم و ایمان کی سطح کو بھی بڑھائیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرتے رھیں۔صرف اسی طرح کے افراد اپنے کو اس حکومت کی بشارت دے سکتے ھیں ، نہ کہ ظلم و ستم کی مدد کرنے والے! اور نہ ھی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح سے دور ھیں۔
اور نہ ھی وہ بزدل انسان جوایمان کی کمزوری کی وجہ سے اپنے سایہ سے بھی ڈرتے ھیں۔
اور نہ ھی سست ،کاھل اور ناکارہ انسان جو فقط ھاتھ پر ھاتھ رکھے معاشرہ میں پھیلنے والے گناہ و فساد پر خاموشی اختیار کئے ھوئے ھیں، اور معاشرہ میں موجودہ برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ایک قدم بھی اٹھانے کے لئے تیار نھیں ھیں۔
اسلامی معاشرہ میں حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظھور کے انتظار کا یھی فلسفہ ھے۔[6]
[1] محاسن برقی ،بحار الانوار کے نقل کے مطابق طبع قدیم ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۶۔
[2] کافی میں بحار سے نقل کیا ھے ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۷۔
[3] کافی میں بحار سے نقل کیا ھے ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۶۔
[4] سورہ نور ، آیت ۵۵۔
[5] بحار الانوار ،قدیم ، جلد ۱۳،صفحہ ۱۴۔
[6] تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ ۳۷۸۔