بحث امامت کی شروعات

 واضح رھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے فوراً بعد ھی آپ کی خلافت کے سلسلہ میں گفتگو شروع ھوگئی تھی ، چنا نچہ ایک گروہ کا کھنا تھا کہ آنحضرت (ص)نے اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ یا جانشین نھیں بنایا ھے، بلکہ اس چیز کو امت پر چھوڑ دیا ھے لہٰذا امت خود اپنے لئے کسی رھبر اور خلیفہ کا انتخاب کرے گی ، جو اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے اور لوگوں کی نمائندگی میں ان پر حکومت کرے، لیکن وفات رسول کے بعد نمائندگی کی صورت پیدا ھی نھیں ھوئی بلکہ چند اصحاب نے بیٹھ کر پھلے مرحلہ میں خلیفہ معین کرلیا اوردوسرے مرحلہ میں خلافت انتصابی ھو گئی، اور تیسرے مرحلہ میں انتخاب کا مسئلہ چھ لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپر د کیا گیاتاکہ وہ آئندہ خلافت کے مسئلہ کو حل کریں۔

چنانچہ اس طرز فکر رکھنے والوں کو ”اھل سنت“ کھا جاتا ھے۔

لیکن اس کے مقابل دوسرے گروہ کا کھنا تھا کہ پیغمبر (ص)کے جانشین کو خدا کی طرف سے معین ھونا چاہئے، اور وہ خود پیغمبر اکرم (ص)کی طرح ھر خطا اور گناہ سے معصوم اور غیر معمولی علم کا مالک ھونا چاہئے، تاکہ مادی اور معنوی رھبری کی ذمہ داری کو نبھاسکے، اسلامی اصول  کی حفاظت کرے، احکام کی مشکلات کو برطرف کرے ، قرآن مجید کے دقیق مطالب کی تشریح فرمائے اور اسلام کو داوم بخشے۔

 اس گروہ کو ”امامیہ“ یا ”شیعہ“ کہتے ھیں اور یہ لفظ پیغمبر اکرم (ص)کی مشھور و معروف حدیث سے اقتباس کیا گیا ھے۔

تفسیر الدر المنثور (جس کا شمار اھل سنت کے مشھور منابع میں ھوتا ھے) میں آیہٴ شریفہ <ِاٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ > کے ذیل میں جابر بن عبد اللہ انصاری(رہ) سے اس طرح نقل کیا ھے:

”ھم پیغمبر اکرم (ص)کے پاس بیٹھے ھوئے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے، اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: یہ اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ھیں، اور اس موقع پر یہ آیہٴ شریفہ نازل ھوئی:

<إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ >[1] ([2])

حاکم نیشاپوری (یہ چوتھی صدی کے مشھور و معروف سنی عالم ھیں)بھی اسی مضمون کو اپنی مشھور کتاب ”شواھد التنزیل“ میں پیغمبر اکرم (ص)سے مختلف طریقوں سے نقل کرتے ھیں جس کے راویوں کی تعداد ۲۰ سے بھی زیادہ ھے۔

منجملہ ابن عباس سے نقل کرتے ھیں کہ جس وقت یہ آیہٴ شریفہ <إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ >[3] نازل ھوئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ“ ( اس آیت سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ھیں۔)[4]

ایک دوسری حدیث میں ابوبرزہ سے منقول ھے کہ جس وقت پیغمبر اکرم (ص)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو فرمایا:”ہُوَ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ یَاعَلِیّ“ (وہ تم اور تمھارے شیعہ ھیں[5]

اس کے علاوہ بھی اھل سنت کے دیگرعلمااور دانشوروں نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ھے جیسے صواعق محرقہ میں ابن حجراور نور الابصار میں محمد شبلنجی نے۔[6]

لہٰذا ان تمام روایات کے پیش نظر خود پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کے پیرووٴں کا نام ”شیعہ“ رکھا ھے، لیکن اس کے باوجود بھی بعض لوگ اس نام سے خفا ھوتے ھیں اور اس کو بُرا سمجھتے ھیں نیز اس فرقہ کو رافضی کے نام سے یاد کرتے ھیں، کیا یہ تعجب کا مقام نھیں کہ پیغمبر اکرم تو حضرت علی علیہ السلام کے فرمانبرداروں کو ”شیعہ“ کھیں اور دوسرے لو گ اس فرقہ کو برے برے ناموں سے یاد کریں!!۔

بھر حال یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ لفظ شیعہ کا و جود پیغمبر اکرم (ص)کی وفات کے بعد نھیں ھوابلکہ خود آنحضرت  (ص)کی زندگی میں ھی ھو چکا تھا، اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اور پیرووٴں پر اس نام کا اطلاق کیا ھے، جو لوگ پیغمبر اکرم (ص)کو ”خدا کا رسول“ مانتے ھیں اور یہ جانتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص)اپنی مرضی سے کلام نھیں کرتے بلکہ وھی کہتے ھیں جو وحی ھوتی ھے،

<وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ.إنْ ھُوَ إلاَّ وَحیٌ یُوحیٰ>[7]

 لہٰذا اگر آنحضرت (ص)فرمائیں کہ اے علی آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت، کامیاب ھیں تو یہ ایک حقیقت ھے۔[8]


[1] سورہٴ بینہ ، آیت ۷ ۔

[2] الدر المنثور ، جلد ۶، صفحہ ۳۷۹ (ذیل آیہ ۷ سورہٴ بینہ)

[3] سورہ بینہ، آیت ۷۔

[4] شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۷۔

[5] شواھد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۹

[6] صواعق محر قہ، صفحہ ۹۶،نور الابصار، صفحہ ۷۰ و۱۰۱، اس حدیث کے راویوں کی تعداد اور جن کتابوں میں یہ حدیث بیان ھوئی ھے، اس سلسلہ میں مزید معلوما ت کے لئے احقاق الحق ،جلد سوم، صفحہ ۲۸۷، اور جلد۱۴، صفحہ ۲۵۸ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

[7] سورہ نجم آیت ۶، و ۷۔

[8] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۲۲۔