حضرت علی(ع) کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ھو ئی ھیں ، قرآن نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد آپ(ع) کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ھے ،اللہ کی نگاہ میں آپ(ع) کی بڑی فضیلت اوربہت اھمیت ھے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ(ع) کی شان میں تین سو آیات نازل ھو ئی ھیں[1] جو آپ(ع) کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ھے۔
یہ بات شایان ذکر ھے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نھیں ھوئیں آپ کی شان میں نازل ھونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ھیں :
۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ھوئی ھیں ۔
۲۔وہ آیات جو آپ(ع) اور آپ(ع) کے اھل بیت(ع)کی شان میں نازل ھو ئی ھیں ۔
۳۔وہ آیات جو آپ(ع) اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ھو ئی ھیں ۔
۴۔وہ آیات جو آپ(ع) کی شان اور آپ(ع) کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ھو ئی ھیں ۔
ھم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رھے ھیں :
آپ(ع)کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ھوئی ھیں ھم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ھیں :
۱۔اللہ کا ارشاد ھے :”انماانت منذرولکل قوم ھاد“۔[2]
”آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ھوں اور ھر قوم کے لئے ایک ھادی اور رھبر ھے “۔
طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے کہ جب یہ آیت نازل ھو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:”اناالمنذرولکل قوم ھاد “،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:”انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي“۔[3]
”آپ ھا دی ھیں اور میرے بعد ھدایت پانے والے تجھ سے ھدایت پا ئیں گے “۔
۲۔خداوند عالم کا فرمان ھے :”وتعیھااذن واعیة“۔[4]
”تاکہ اسے تمھارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں“۔
امیر المو منین حضرت علی(ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ھیں کہ مجھ سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسلام نے فرمایا:
”سالتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَھَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شَیْئاًفنَسِیْتُہُ “۔[5]
”میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمھارا ھے لہٰذا میں نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جو کچھ سنا ھے اسے کبھی نھیں بھولا“۔
۳۔خداوند عالم کا فرمان ھے :<الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً اسباب النزول ِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰۔در منثور ،جلد ۸،صفحہ ۲۶۷۔ فَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ>۔[6]
”جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ھیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ھے اور انھیں نہ کو ئی خوف ھو گا اور نہ حزن و ملال “۔
امام(ع) کے پاس چار درھم تھے جن میں سے آپ(ع) نے ایک درھم رات میں خرچ کیا ،ایک درھم دن میں ،ایک درھم مخفی طور پر اور ایک درھم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ(ع) سے فرمایا : آپ(ع) نے ایساکیوں کیا ھے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ھوں اسی لئے میں نے ایسا کیا “اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی۔[7]
۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ھے :<إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ >۔[8]
”اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ھیںاور انھوں نے نیک اعمال کئے ھیںوہ بہترین خلائق ھیں “۔
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ھے : ھم نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی(ع) وھاں پر تشریف لائے تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “۔”خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ھیں “۔
اسی موقع پر یہ آیہ کریمہ نازل ھو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کھا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ھیں۔[9]
۵۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< فَاسْاٴَلُوا اٴَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ >۔[10]
”اگر تم نھیں جانتے ھو تو جاننے والوں سے دریافت کرو“۔
طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ھے :جب یہ آیت نازل ھو ئی تو حضرت علی(ع) نے فرمایا :”ھم اھل ذکر ھیں “۔[11]
۶۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< یَااٴَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِین>۔[12]
”اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پھنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ھدایت نھیں کرتا ھے“۔
جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حجة الوداع سے واپس تشریف لا رھے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ھوئی جب آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اپنے بعد حضرت علی(ع) کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ(ع) نے اپنا مشھور قول ارشاد فرمایا :”من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،اللّھم وال من والاہ،وعادِمَن عاداہ، وانصرمَن نصرہ،واخذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“۔
” جس کا میں مو لا ھوں اس کے یہ علی بھی مو لا ھیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر “ ۔
عمر نے کھڑے ھو کر کھا :مبارک ھو اے علی بن ابی طالب آپ(ع) آج میرے اورھر مومن اور مومنہ کے مولا ھوگئے ھیں ‘ ‘۔[13]
۷۔خداوند عالم کا ارشاد ھے :< الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا>۔[14]
”آج میں نے تمھارے لئے دین کو کا مل کردیاھے اوراپنی نعمتوںکو تمام کردیاھے اورتمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ھے“۔
یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ سن ھ کواس وقت نازل ھو ئی جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد کےلئے حضرت علی(ع) کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ھونے کے بعد فرمایا : ”اللّٰہ اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَالْوِلایَةِ لِعَلِيْبنِ اَبِیْ طَالِب“۔[15]
”اللہ سب سے بڑا ھے دین کا مل ھو گیا ،نعمتیں تمام ھو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت سے راضی ھو گیا “۔
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ھے :میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظھر پڑھ رھا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نھیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ھاتھ اٹھا کر کھا :خدا یا گواہ رھنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نھیں دیا ، حضرت علی(ع) نے رکوع کی حالت میں اپنے داھنے ھاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی(ع) کے سامنے ھاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ(ع) نے تجھ سے یوں سوال کیا : <رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔وَیَسِّرْلي اٴَمْرِي۔وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی۔یَفْقَہُوا قَوْلِي وَاجْعَلْ لِي وَزِیرًامِنْ اٴَہْلِي ہَارُونَ اٴَخي اشْدُدْ بِہِ اٴَزْرِي۔وَاٴَشْرِکْہُ فِي اٴَمْرِی >۔[16]
”خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اھل میںسے میرا وزیر قرار دے ،ھارون کو جو میرا بھا ئی بھی ھے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے “تونے قرآن ناطق میں نازل کیا :< سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاٴَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا>۔[17]
” ھم تمھارے بازؤوں کو تمھارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمھارے لئے ایسا غلبہ قراردیں گے کہ یہ لوگ تم تک پھنچ ھی نہ سکیں گے “۔
”خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ھوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اھل میںسے علی(ع)کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ‘ ‘ ۔
جناب ابوذر کا کھنا ھے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نھیں ھونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ھوئے ،اے رسول پڑھئے :<اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔۔۔>۔ [18]
اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین(ع) میں محصور کر دیا ھے ،آیت میں صیغہ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ھے ،جو جملہ اسمیہ کی طرف مضاف ھوا ھے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ھے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ھے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام(ع) کی شان میں نازل ھونے کو یوں نظم کیا ھے :
مَن ذَابِخَاتِمِہِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً
وَاَسَرَّھَافِيْ نَفْسِہِ اِسْرارا۔[19]
”علی(ع) اس ذات کا نام ھے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ(ع) نے نھایت مخفیانہ انداز میں دیا“۔
قرآن کریم میں اھل بیت(ع) کی شان میں متعدد آیات نازل ھو ئی ھیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین(ع) بھی شامل ھیں اُن میں سے بعض آیات یہ ھیں :
۱۔خداوند عالم کا ارشاد ھے :< ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاللهُ عِبَادَہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًاإِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فِیہَاحُسْنًاإِنَّ اللهَ غَفُورٌشَکُورٌ >۔[20]
”یھی وہ فضل عظیم ھے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ھے جنھوں نے ایمان اختیار کیا ھے اور نیک اعمال کئے ھیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نھیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ھم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ھے “۔
تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اھل بیت(ع) کی محبت واجب کی ھے ان سے مراد علی(ع) ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیھم السلام ھیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ھی کی محبت اور ولایت ھے اور اس سلسلہ میں یھاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنھوں نے اس محبت و مودت کی وجہ بیان کی ھے :
ابن عباس سے مروی ھے :جب یہ آیت نازل ھو ئی تو سوال کیا گیا :یارسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ھیں جن کی آپ نے محبت ھم پر واجب قرار دی ھے؟
آنحضرت نے فرمایا :”علی(ع) ،فاطمہ =اور ان کے دونوں بیٹے “۔[21]
جابر بن عبد اللہ سے روایت ھے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا :” تَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ“”تم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اھی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نھیں چا ہتا “۔
اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا : ”إِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی“۔
اعرابی نے کھا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :” میرے قرابتدار “۔اعرابی نے کھا :
میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ھوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ھے ۔۔۔نبی نے فوراً فرمایا :”آمین “۔[22]
۲۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ اٴَبْنَائَنَاوَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَاوَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ >۔[23]
”پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ھم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں “۔
مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ھے کہ یہ آیہ کریمہ اھل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ھو ئی ھے ،آیت میں ابناء( بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین عليهما السلام ھیں جوسبط رحمت اور امام ھدایت ھیں ،نساء ”عورتوں “ سے مراد فاطمہ زھرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ھیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین(ع) ھیں ۔[24]
۳۔خداوند عالم کا ارشاد ھے :<ھَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ۔۔۔> کامل سورہ ۔
مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ یہ سورہ اھل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ھوا ھے۔[25]
۴۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا >۔[26]
”بس اللہ کا ارادہ یہ ھے اے اھل بیت کہ تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے “۔
مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ھے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ھو ئی ھے [27]ان میں سرکار دو عالم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین(ع) ،جگر گوشہ رسول سیدئہ نسا ء العالمین جن کے راضی ھونے سے خدا راضی ھوتا ھے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ھے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین +جوانان جنت کے سردار ھیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خاندان میں سے اور نہ ھی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ھے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ھیںجن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ھیں :
۱۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ھیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ھو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیھم السلام مو جود تھے ،آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّھُمَّ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاذْھِبْ عنْھمْ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیرًا“”خدایا !یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جو پاکیزہ رکھنے کا حق ھے “آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رھیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ھوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ھونے کےلئے چا در اٹھائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایا : ”اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر“”تم خیر پر ھو “۔[28]
۲۔ابن عباس سے مروی ھے کہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سات مھینے تک ھر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناھے :”السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَیہ بات شایان ذکر ھے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں۱۵،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ھے کہ یہ آیت اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ھو ئی ھے ۔
بَرَکَاتُہُ اَھْلَ الْبَیْتِ:< إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>،الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰہُ“۔
” اے اھل بیت(ع)تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ھو !”بس اللہ کا ارادہ یہ ھے اے اھل بیت(ع) کہ تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے“،نماز کا وقت ھے اللہ تم پر رحم کرے“آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھر روز پانچ مرتبہ یھی فرماتے۔[29]
۳۔ابو برزہ سے روایت ھے :میں نے سات مھینے تک رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ھمراہ نماز ادا کی ھے جب بھی آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)بیت الشرف سے باھر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکے دروازے پر جاتے اور فرماتے : ”السَّلامُ عَلَیْکُمْ :< إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا >۔[30]
”تم پر سلام ھو:”بس اللہ کا ارادہ یہ ھے اے اھل بیت کہ تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے “
بیشک رسول اللہ کے اس فرمان کا مطلب امت کی ھدایت اور اُن اھل بیت(ع) کے اتباع کوواجب قرار دینا ھے جو امت کو ان کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اُن کے راستہ میں نفع پھنچانے کےلئے ان کی ھدایت کرتے ھیں۔
قرآن کریم کی کچھ آیات امام(ع) اور اسلام کے کچھ بزرگ افراد اور نیک و صالح اصحاب کے سلسلہ میں نازل ھو ئی ھیں ،جن میں سے بعض آیات یہ ھیں :
۱۔خداوند عالم کا ارشاد ھے :<۔۔۔وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّابِسِیمَاہُم۔۔>۔[31]
”اور اعراف پر کچھ لوگ ھوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے“۔
ابن عباس سے روایت ھے :اعراف صراط کی وہ بلند جگہ ھے جس پر عباس ،حمزہ ،علی بن ابی طالب(ع) اور جعفر طیار ذو الجناحین کھڑے ھوں گے جو اپنے محبوں کو ان کے چھروں کی نورانیت اور اپنے دشمنوں کو اُن کے چھروں کی تاریکی کی بنا پر پہچان لیں گے ۔[32]
۲۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوامَا عَاہَدُوا اللهَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُوَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلًا >۔[33]
”مو منین میں ایسے بھی مرد میدان ھیں جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ھے ان میں بعض اپنا وقت پورا کر چکے ھیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رھے ھیں اور اُن لوگوں نے اپنی بات میں کو ئی تبدیلی نھیں پیدا کی ھے“۔
اس آیت کے متعلق امیر المو منین(ع) سے اس وقت سوال کیا گیا جب آپ منبر پر تشریف فر ما تھے تو آپ(ع) نے فرمایا:”خدایا ! بخش دے یہ آیت میرے ، میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھا ئی عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ھو ئی ھے ،عبیدہ جنگ بدر کے دن شھید ھوئے ،حمزہ احد کے معرکہ میں شھید کر دئے گئے لیکن میں اس شقی کے انتظار میں ھوں جو میری اس ”ڈاڑھی اور سر مبارک کوخون سے رنگین کر دے گا “۔[34]
قرآن کریم کی کچھ آیات آپ(ع) کے حق اور اُن مخالفین کی مذمت میں نازل ھو ئی ھیں جنھوں نے آپ(ع) کے سلسلہ میں مروی روایات اور فضائل سے چشم پوشی کی ھے :
۱۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِر۔۔۔ >۔[35]
”کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبا دی کو اس جیسا سمجھ لیا ھے جو اللہ اورآخرت پر ایمان رکھتا ھے اور راہ خدا میں جھاد کرتا ھے ھر گز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نھیں ھو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ھدایت نھیں کر تا ھے “۔
یہ آیت امیر المو منین(ع) کی شان میں اس وقت نازل ھو ئی جب عباس اور طلحہ بن شیبہ بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان کر رھے تھے ۔طلحہ نے کھا :میں بیت اللہ الحرام کا مالک ھوں ،میرے ھی پاس اس کی کنجی ھے اور میرے ھی پاس اس کے کپڑے ھیں ۔عباس نے کھا :میںاس کا سقّہ اور اس کے امور کے سلسلہ میں قیام کرنے والا ھوں ۔امام(ع) نے فرمایا :”ماادری ماتقولون ؟لقدْ صلّیتُ الیٰ القِبْلَةِ سِتَّةَ اَشْھُرقَبْلَ النَّاسِ،واَنا صاحب الجھاد “۔”مجھے نھیں معلوم تم کیا کہہ رھے ھو ؟میں نے لوگوں سے چھ مھینے پھلے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ھے اور میں صاحب جھاد ھو ں “اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی ۔[36]
۲۔خدا وند عالم کا فرمان ھے :< اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًاکَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَوُون>۔[37]
”کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ھے اس کے مثل ھو جائے گاجو فاسق ھے ھر گز نھیں دونوں برابر نھیں ھو سکتے “۔
یہ آیت امیر المو منین(ع) اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ھو ئی ھے جب وہ اس نے امام(ع) پر فخر و مباھات کرتے ھوئے کھا :میں آپ(ع) سے زیادہ خوش بیان ھوں ،بہترین جنگجو ھوں،اور آپ سے بہتر دشمنوں کو پسپا کر نے والا ھوں “اس وقت امام(ع)نے اس سے فرمایا : ” اسکُتْ، فَاِنَّکَ فَاسِقٌ “ ”خاموش رہ بیشک تو فاسق ھے “،اس وقت دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ھوئی۔[38]
صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ھیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رھبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑھتی ھیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ھیں ۔
احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُ ن کی شھرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اس بلند مقصد سے آگاہ ھو سکتا ھے جو امام(ع)کی مر کزیت اور ان کے خلیفہ ھونے کی نشاندھی کرتا ھے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ھمیشہ کے لئے باقی رھے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُ ن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمرا ھی کا امکان نہ ھو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونہ عمل بن سکے ۔
بھر حال جب ھم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ھیں تو ھم یہ دیکھتے ھیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ھے ،روایات کا دوسرا طائفہ اھل بیت(ع) کے فضائل پر مشتمل ھے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ھیں چونکہ آپ(ع) عترت کے سید و آقا ھیں اور ان کے علم کے منارے ھیں ھم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ھیں :
یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ھیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ھوئی نظر آتی ھیں،ملاحظہ کیجئے:
امام(ع) لوگوں میں سب سے زیادہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے شھر علم کا دروازہ ،آپ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کی گئی ھے جو آپ(ع) کی محبت و مودت کی گھرا ئی پر دلالت کرتی ھے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ھیں :
آیہ مباھلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ھے کہ بیشک امام نفس نبی ھیں ،ھم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ھیں اور یہ بھی بیان کر چکے ھیں کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام(ع) ان کے نفس ھیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :
عثمان کے سوتیلے بھا ئی ولید بن عقبہ نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ھو گیا ھے ،تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غضبناک ھو کر فرمایا :”لَیَنْتَھِیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَةَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْھِمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَھُمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْھِمْ وَھُوَ ھٰذا“،”بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوں جو ان کے جنگجوؤں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ھے“،اس کے بعد امام(ع) کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ۔[39]
عمرو بن عاص سے روایت ھے :جب میں غزوئہ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ھیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ(ع) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ھے ؟آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) علی کھاں ھیں ؟تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے اصحاب سے مخاطب ھو کر فرمایا :”اِنَّ ھٰذایَسْاَلُنِيْ عن النفسِ“،[40] ”بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رھے ھیں “۔
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی(ع) آپ کے بھا ئی ھیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ھوئی ھیں ھم ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ھیں :
ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ھے :رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اصحاب کے ما بین صیغہ اخوّت پڑھا ،تو علی(ع) کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ(ع) نے عرض کیا :یارسو ل (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ آپ(ع) نے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت پڑھاھے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغہ اخوت نھیں پڑھا ھے؟تورسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:اَنْتَ اَخِيْ فَيْ الدَّنْیَاوَالآخِرَةِ “۔[41]
”آپ(ع) میرے دنیا اور آخرت میں بھا ئی ھیں “۔
امام(ع) کے لئے نبی کا صرف اس دنیامیں بھا ئی ھونا کا فی نھیں ھے بلکہ اس کا تسلسل تو آخرت تک ھے جس کی کو ئی حد نھیں ھے ۔
انس بن مالک سے روایت ھے : رسول اسلا م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دینے کے بعد ارشاد فرمایا :”علی بن ابی طالب(ع) کھاں ھیں ؟“،تو فوراً علی(ع) یوں گویا ھوئے :میں یھاں ھوںیارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ نے علی(ع) کو اپنے سینہ سے لگایا اور آپ(ع) کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی جگہ کا بوسہ لیا اور بلند آواز میں فرمایا :”اے مسلمانو!یہ میرے بھا ئی ،چچا زاد بھائی اور میرے داماد ھیں ،یہ میرا گوشت اور خون ھیں ،یہ ابوسبطین حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ھیں“۔[42]
ابن عمر سے روایت ھے :میں نے حجة الوداع میں اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یہ فرماتے سنا ھے: جب آپ ناقہ پر سوار تھے ،تو آپ(ع) نے علی(ع) کے کاندھے پر ھاتھ رکھ کر یہ فرمایا :”خدایا گواہ رھنا ۔۔ خدایا میں نے پھنچادیا کہ یہ میرے بھا ئی ،چچا زاد بھا ئی ،میرے داماد اورمیرے دونوں فرزندوں کے باپ ھیں۔خدایا ! جو ان سے دشمنی کرے اس کواوندھے منھ جھنم میں ڈال دے “۔[43]
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے یہ اعلان فرمایا کہ میں اور علی(ع) ایک شجرہ سے ھیں، اس سلسلہ میں متعدد احادیث بیان ھو ئی ھیں ھم ذیل میں بعض احادیث پیش کرتے ھیں :
جابر بن عبداللہ سے روایت ھے :میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو علی(ع) سے یہ فرماتے سنا ھے : ”اے علی لوگ مختلف شجروں سے ھیں اور میں اور تم ایک ھی شجرہ سے ھیںاس کے بعد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :<وَجَنَّاتٌ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُصِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِد>۔[44]
”اور انگور کے باغات ھیں اور زراعت ھے اور کھجوریں ھیں جن میں بعض دو شاخ کی ھیں اور بعض ایک شاخ کی ھیں اور سب ایک ھی پا نی سے سینچے جاتے ھیں“۔
رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ کا فرمان ھے : ”میں اور علی(ع)ایک ھی شجرہ سے ھیں اور لوگ مختلف شجروں سے ھیں “۔[45]
یہ شجرہ کتنا بلند و بالا ھے اس درخت کا کیا کھنا جس سے سرور کا ئنات انسانی تہذیب کے قائدنبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے شھر علم کا دروازہ امام امیر المو منین(ع) وجود میں آئے یہ وہ مبارک شجرہ ھے جس کی جڑ زمین میں ھے اور اس کی شاخ آسمان میں ھے یہ وہ درخت ھے جس کی ھر نسل نے ھر دور میں لوگوں کو فائدہ پھنچایا ھے۔
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے متعدد احادیث میں اس بات کی تاکید فر ما ئی ھے کہ امام میرے وزیر ھیں ۔
اسماء بنت عمیس سے روایت ھے کہ میں نے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یہ فرماتے سنا ھے :خدایا ! میں وھی کہہ رھا ھوں جو میرے بھا ئی مو سیٰ نے کھا تھا : ”خدایا ! میرے اھل میںسے میرا وزیر قرار دے ،علی(ع)کو جو میرا بھا ئی بھی ھے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ،تاکہ ھم تیری بہت زیادہ تسبیح کرسکیں ،تیرا بہت زیادہ ذکر کرسکیں ، یقیناتوھمارے حالات سے بہتر با خبر ھے “۔[46]
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے دعوت اسلام کے آغاز ھی میں یہ اعلان فرمادیا تھا کہ میرے بعد حضرت علی(ع) میرے خلیفہ ھیں ،یہ اعلان اس وقت کیا تھا جب قریش کے خاندان اسلام سے سختی سے پیش آرھے تھے ،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی دعوت کے اختتام میں قریش سے فرمایا:”اب یہ (یعنی علی(ع) ) تمھارے درمیان میرے بھا ئی ،وصی اور خلیفہ ھیں ،ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو “۔[47]
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ نے اپنے بعد امام(ع) کی خلافت کو اسلام کی دعوت سے متصل فرمایا ،اس کے بعد بت پرستی اور شرک کے بارے میں پر رو شنی ڈالی ،مزید یہ کہ اس مطلب کے سلسلہ میں متعدد اخبار و روایات ھیں جن میں نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد امام کی خلافت کا اعلان فرمایاان میں سے ھم کچھ احادیث ذیل میں پیش کررھے ھیں :
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے :”اے علی(ع) !تم میرے بعد اس امت کے خلیفہ ھو “۔[48]
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے :”علی بن ابی طالب تم میں سب سے پھلے اسلام لائے ،تم میں سب سے زیادہ عالم ھیں اور میرے بعد امام اور خلیفہ ھیں “۔[49]
۶۔ امام(ع)کی نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نسبت، ھارون کی مو سیٰ سے نسبت کے مانند ھے
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ایک ھی مضمون اور ایک ھی نتیجہ کی متعدد احادیث نقل ھو ئی ھیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) سے فرمایا :”تمھاری مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کی موسیٰ سے تھی ۔۔۔“اس سلسلہ میں کچھ احادیث ملاحظہ فرما ئیں :
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کےلئے فرمایا ھے : ”کیا تم اس بات پر راضی نھیں ھو کہ تمھاری مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کی موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نھیں آئے گا “۔[50] سعید بن مسیب نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے انھوں نے اپنے والد سعد سے نقل کیا ھے : رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کےلئے فرمایا ھے :” تمھاری مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کی موسیٰ سے نسبت تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نھیں آئے گا “،سعید کا کھنا ھے :میں نے بذات خود یہ حدیث بیان کر نا چاھی اور میں نے ان سے ملاقات کی اور وہ حدیث بیان کی جو مجھ سے عامر نے بیان کی تھی اس نے کھا :میں نے سنا ھے ۔میں نے پوچھا :کیا تم نے سنا ھے ؟!اس نے اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں دے کر کھا :ھاں ،اگر میں نے یہ بات نہ سنی ھو تو میرے دونوں کان بھرے ھوجائیں “۔[51]
نبی اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے امام کی عظمت و منزلت کا قصیدہ پڑھتے ھوئے ان کو اپنے شھر علم کا دروازہ قرار دیا ،یہ حدیث متعدد طریقوں سے بیان ھو ئی ھے ،قطعی السند ھے اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے متعدد مو قعوں پر نقل کی گئی ھے :
جابر بن عبد اللہ سے روایت ھے :میں نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حدیبیہ کے دن علی کے دست مبارک کو اپنے ھاتھ میں لئے ھوئے یہ فرماتے سنا ھے :”یہ نیک و صالح افراد کے امیر ، فاسق و فاجر کو قتل کرنے والے ھیں ،جو ان کی مدد کرے اس کی مدد کرنے والے ،جو ان کو رسوا کرے اس کو ذلیل کرنے والے ھیں “آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آواز کھینچ کر فرمایا :”میں شھر علم ھوں اور علی اس شھر کا دروازہ ھیں جو گھر میں آنا چاھے اس کو چاہئے کہ وہ دروازے سے آئے “۔[52]
ابن عباس سے روایت ھے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کافرمان ھے :” میں شھر علم ھوں اور علی اس شھر کا دروازہ ھیں جو شھرمیں آنا چاھے اس کو چا ہئے کہ وہ دروازے سے آئے “۔[53]
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ،فرمان ھے :”علی میرے علم کا دروازہ ھیں ،میں جو کچھ امت کےلئے لیکر آیا ھوں اس کو میرے بعد امت تک پھنچانے والے ھیں ،اُن کی محبت ایمان ھے ،ان سے بغض رکھنا نفاق ھے اور اُن کے چھرے پر نظر کرنا رافت ”مھربانی “ ھے “۔[54]
بیشک امام شھر علم نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دروازہ ھیں ، امام سے جو دینی باتیں،احکام شریعت ،محاسن اخلاق اور آداب حسنہنقل ھوئے ھیںان کو امام نے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے حاصل کیا ھے ۔
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد علم کے ایسے سر چشمے چھوڑے ھیںجن کے ذریعہ زندگی حکمت اور رونق کے ساتھ آگے بڑھتی ھے ،پیغمبر نے ان کو امام کے سپرد فرمایا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی امت اُن سے سیراب ھو تی رھے لیکن بڑے افسوس کی بات ھے کہ قریش کے امام سے بغض و کینہ رکھنے والوں نے اِن نور کے دروازوں کو بند کر دیا ،امت کو ان سے فیضیاب ھونے سے محروم کردیا اور زندگی کی گم گشتہ راھوں میں تنھا چھوڑدیا ۔
۸۔امام(ع)،انبیاء کے مشابہ
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب کے معاشرہ میں فرمایا :”اگر تم آدم کو ان کے علم ،نوح کو ان کے ھم و غم ،ابراھیم کو اُن کے خُلق ،موسیٰ کو اُن کی مناجات ،عیسیٰ کو ان کی سنت اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو ان کے اعتدال اور حلم میں دیکھنا چا ھوتو اِن کو دیکھو “جب لوگوں نے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تو وہ امیر المو منین(ع) تھے ۔
شاعر کبیر ابو عبد اللہ مفجع نے اپنے قصیدہ میں امام(ع) کے ماثورہ مناقب کو یوں نظم کیا ھے :
ایّھا اللَّا ئمی لِحُبِّی علِیّاً
قُم ذَمیماً الیٰ الجَحِیْمِ خَزِیّاً
اّ بِخَیْرِ الاَنَام عَرَّضْتَ لَازِلْتَ
مَذُوداً عَنِ الھُدیٰ وَ غَوِیّا
اشبِہ الانبیاء طِفلاً وزولاً[55]
وَفطِیماًورَاضِعاً وَغَذِیّاً
کَانَ فِیْ علمہِ کَآدَمَ اِذْ عُلِّمَ
شَر حَ الاسْمَاءِ والمکنِیّا
وَکَنُوحٍ نَجَامِنَ الھُلْکِ یَوماً
فِیْ مَسِیْرٍاِذِ اعتَلَاالجودِیّاً[56]
”حُبِّ علی(ع) کی خاطر میری ملامت کرنے والے جا ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ میں جل جا۔
کیا تونے اپنے عمل کے ذریعہ بہترین انسان یعنی علی(ع) پر تشنیع کرنا چا ھی ھے ،خدا کرے کہ تو ھمیشہ ھدایت سے دور رھے ۔
علی(ع) بچپن ،جوا نی ،شیر خوارگی غرض ھر حال میں انبیاء سے مشابہ تھے ۔
علی(ع) علم میں آدم(ع) کے مانند تھے چنانچہ آپ(ع) نے اسماء نیزمخفی امورکی تعلیم دی ۔
آپ(ع) نوح(ع) کی طرح تھے جو کوہ جودی پر پھنچنے سے غرق ھونے سے محفوظ رھے “۔
۹۔ علی(ع) کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ھے
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا ھے کہ علی(ع) کی محبت ایمان اور تقویٰ ھے اوراُن سے بغض رکھنا نفاق اور معصیت ھے، اس سلسلہ میںبعض ماثورہ اقوال درج ذیل ھیں :
حضرت علی(ع) سے روایت ھے : ”اس خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا میرے سلسلہ میں نبی امی نے یہ عھد لیا ھے کہ مجھ سے مو من کے علاوہ اور کو ئی محبت نھیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نھیں رکھے گا “۔[57]
مساور حمیری نے اپنی ماں سے روایت کی ھے :وہ ام سلمہ کے پاس گئی تو اُن کو یہ کہتے سنا: رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ، فرمان ھے :علی(ع) سے منافق محبت نھیں کرے گا اور مومن بغض نھیں رکھے گا“۔[58]
ابن عباس سے روایت ھے : رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کے چھرہ کی طرف رُخ کرتے ھوئے فرمایا : مو من کے علاوہ تجھ سے کو ئی محبت نھیں کرے گا ،اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نھیں کرے گا ، جس نے تجھ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ،جس نے تجھ سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض کیا ،میرا دوست اللہ کا دوست ھے ،میرا دشمن اللہ کا دشمن ھے اور اس پر وائے ھو جو تجھے میرے بعد غضبناک کرے ‘ ‘ ۔[59]
ابو سعید خدری سے روایت ھے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کے لئے فرمایا :آپ(ع) کی محبت ایمان ھے ،آپ(ع) سے بغض رکھنا نفاق ھے ،جنت میں سب سے پھلے آپ(ع)سے محبت کرنے والا داخل ھوگا اور دوزخ میںسب سے پھلے آپ سے بغض رکھنے والا داخل ھو گا “۔[60]
یہ حدیث اصحاب میں مشھور ھو گئی ،اور وہ اسی حدیث کے معیار پر جو علی(ع) سے محبت کرتا تھا اس کو مومن اور جو علی(ع) سے بغض رکھتا تھا اسے منافق کہتے تھے ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کہتے ھیں : ھم منافقین کو اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ،نماز سے رو گردانی اور علی بن ابی طالب(ع) سے بغض و نفاق رکھنے سے پہچان لیا کرتے تھے “۔[61]
صحابی کبیر جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ھے :ھم منافقین کو علی(ع) سے بغض رکھنے کے علاوہ کسی اور چیز سے نھیں پہچانتے تھے ۔[62]
دوسرے دستہ کی روایات
ھم بعض وہ روایات نقل کرتے ھیں جو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے حضرت علی(ع) کی شان میں منقول ھو ئی ھیں جن کوآپ(ع) کے لئے کرامت شمار کیا جاتا ھے ۔
دار آخرت میں امام(ع) کا مقام
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کچھ وہ روایات نقل ھو ئی ھیں جن کو اللہ نے دار آخرت میںعلی(ع) کےلئے کرامت شمار کیا ھے ان میں سے بعض روایات درج ذیل ھیں :
۱۔امام(ع) لواء حمد کو اٹھانے والے
صحاح میں نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے متعدد احادیث نقل ھو ئی ھیں کہ خدا وند عالم قیامت کے دن علی(ع) کو لوائے حمد اٹھانے کا شرف عطا کر ے گا ،یہ ایسا بلند مرتبہ ھے جو آپ(ع) کے علاوہ کسی اور کو نھیں عطا کیا گیا۔ ھم ان میں سے بعض روایات ذیل میں نقل کرتے ھیں :
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کےلئے فرمایا :”تم قیامت کے دن میرے امام ھو ،مجھے پرچم دیا جائے گا ، میںاسے تمھارے حوالہ کر دوں گا ،اور تم ھی لوگوں کو میرے حوض کے پاس سے دور کروگے “۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے متواتر احا دیث نقل ھو ئی ھیں کہ امام(ع) نبی کے اس حوض کے مالک ھوں گے جو اپنے گوارا میٹھے اور خو بصورت نظاروں کی وجہ سے جنت کی تمام نھروں سے عظیم ھو گی ،اس کا پانی صرف امام(ع)کے غلاموں اور چاھنے والوں کو ھی نصیب ھو گا ،ھم ذیل میں اس کے متعلق بعض روایات نقل کررھے ھیں :
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے :علی بن ابی طالب قیامت کے دن میرے حوض کے مالک ھوں گے ،اس میں آسمان کے ستاروں کی تعدادکے مانند ستارے ھیں اور وہ جابیہ اور صنعاء(پھاڑیوں) کے درمیان کی دوری کی طرح وسیع ھو گی “۔[63]
سب سے بڑی شرافت و بزرگی جس کا تاج رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے باب مدینة العلم کے سرپر رکھا وہ یہ ھے کہ امام جنت و جھنم کی تقسیم کر نے والے ھیں ۔ابن حجر سے روایت ھے کہ آپ نے شوریٰ کے جن افراد کا انتخاب کیا تھا ان سے فرمایا:”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں یہ بتاؤ کیا تم میں کو ئی ایسا ھے جس کے لئے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ھو :”اے علی(ع) قیامت کے دن آپ میرے علاوہ جنت و جھنم کے تقسیم کرنے والے ھو؟۔انھوں نے کھا : خدا کی قسم ،ایسا کو ئی نھیں ھے “۔
ابن حجر نے اس حدیث پر جو حاشیہ لگایا اس کا مطلب امام رضا علیہ السلام سے مروی حدیث سے واضح ھوتا ھے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امام علی(ع) کے لئے فرمایا ھے :تم قیامت میں جنت و جھنم کی تقسیم کر نے والے ھودوزخ خود کھے گی یہ میرے لئے اور یہ آپ(ع) کے لئے ھے “۔[64]
یہ مطلب بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ھے کہ خدا کے او لیاء میں سے اسلام سے پھلے اور اسلام کے بعد یہ مرتبہ علی(ع)کے علاوہ کسی کو نھیں ملا، اس کرامت کی کو ئی حدنھیں ھے ،اللہ نے ان کو یہ کرامت اس لئے عطا کی ھے کہ علی(ع) نے اسلام کی راہ میں بہت زیادہ جد وجھد کی اور خود کو حق کی خدمت کےلئے فنا کر دیا ھے ۔
عترت اطھار کی فضیلت ،ان سے محبت اور متمسک ھونے کے سلسلہ میں نبی سے متواتر احادیث نقل ھو ئی ھیں جن میں سے بعض احا دیث یہ ھیں :
حدیث ثقلین
حدیث ثقلین پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی دلچسپ اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح اور مشھورحدیث ھے ،مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ شائع و مشھور ھو ئی ھے ،اس کو صحاح اور سنن میں تحریر کیا گیا ھے ،علماء نے قبول کیا ھے اور یھاںپر یہ ذکرکردینابھی مناسب ھے کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس حدیث کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ھے :
زید بن ارقم سے روایت ھے کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ھے :”اِنّي تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن مَااِن تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَالَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي ،اَحَدُھُمَا اَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ:کِتَابَ اللّٰہِ،حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الاَرْضِ،وَعِتْرَتِيْ اَہْلَ بَیْتِيْ،وَلَنْ یَفْتَرِقَاحتیّٰ یَرِدَاعلَيَّ الْحَوْضَ، فَانظُرُوْا کَیْفَ تُخْلُفُوْنِيْ فِیْھِمَا“۔[65]
”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزں چھوڑے جا رھا ھوں اگر تم ان دونوں سے متمسک رھے تو ھر گز گمراہ نھیں ھوگے ،ان میں ایک دوسرے سے اعظم ھے :اللہ کی کتاب آسمان سے زمین تک کھنچی ھو ئی رسی ھے ،میری عترت میرے اھل بیت ھیں اور وہ ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ میرے پاس حوض کو ثر پر وارد ھوں ،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتاؤ کروگے “؟۔
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے یہ حدیث حج کے موقع پر عرفہ کے دن بیان فرما ئی ،جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ھے : میں نے حج کے مو قع پر عرفہ کے دن رسول اللہ کوان کے ناقہ قصواپر سوار دیکھا آپ یہ خطبہ دے رھے تھے :اے لوگو !،میں نے تمھارے درمیان اللہ کی کتاب اور اپنی عترت اوراپنے اھل بیت کو چھوڑ دیا ھے، اگر تم ان سے متمسک رھے تو ھر گز گمراہ نھیں ھو گے “۔[66]
نبی بستر مرگ پر تھے، لہٰذاآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا : ”اَیُّھَاالنَّاس یُوْشکُ اَنْ اُقْبِضَ قَبْضاًسَرِیعاًفَیُنْطَلَقَ بِيْ،وَقَدْ قَدَّ مْتُ اِلَیْکُمُ الْقَوْلَ مَعْذِرَةً اِلَیْکُمْ آلَا اِنِّيْ مُخَلِّفُ فِیْکُمْ کِتَابَ رَبِّيْ عَزَّوَجَلَّ ،وَعِتْرَتِيْ اَھْلَ بَیْتِيْ “۔
”اے لوگو!مجھے عنقریب قبض روح کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں جانا ھے میں اس سے پھلے تمھارے لئے بیان کرچکا ھوںآگاہ ھوجاؤ کہ میں تمھارے درمیان اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اھل بیت(ع)کو چھوڑ کر جا رھا ھوں “۔
اس کے بعد آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا :”یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی(ع)(ع)کے ساتھ ھے ،یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ھوں گے “۔[67]
ابو سعید خدری سے مر وی ھے کہ میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یہ فرماتے سنا ھے :بیشک ۔ تمھارے درمیان میرے اھل بیت(ع) کی مثال کشتی نوح کے مانندھے ،جو اس میں سوار ھو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے رو گردانی کی وہ ھلاک ھوگیا ،بیشک تمھارے درمیان میرے اھل بیت(ع) کی مثال بنی اسرائیل میں باب حطّہ کے مانند ھے جو اس میں داخل ھوا وہ بخش دیا گیا “۔[68]
اس حدیث شریف میں اس بات کی حکایت کی گئی ھے کہ عترتِ طاھرہ سے متمسک رھنا واجب ھے اسی میں امت کے لئے زندگی کے نشیب و فراز میں نجات اور غرق ھونے سے محفوظ رھنا ھے ،پس اھل بیت(ع) نجات کی کشتیاں اور بندوں کا ملجا و ماویٰ ھیں ۔
امام شرف الدین( خدا ان کے درجات بلند کرے ،)کا کھنا ھے :”اھل بیت(ع)کے کشتی نوح کے مانند ھونے کا مطلب یہ ھے کہ جس نے دنیا و آخرت میں اِن کو اپنا ملجا و ماویٰ قرار دیا ،اوراپنے فروع و اصول ائمہ معصومین(ع) سے حاصل کئے وہ دوزخ کے عذاب سے نجات پا گیا ،اور جس نے اُن سے روگردانی کی وہ اس کے مانند ھے جس نے طوفان کے دن اللہ کے امر سے بچنے کےلئے پھاڑ کی چوٹی پر پناہ لی اور غرق ھوگیا ، اس کی منزل آب ِ حمیم ھے جو بہت ھی گرم پا نی ھے اور جس سے ھم اللہ کی پناہ مانگتے ھیں ۔
ائمہ(ع) کو باب حطّہ سے اس لئے تشبیہ دی گئی ھے کہ باب حطّہ خدا کے جلال کے سامنے تواضع کا مظھرتھاجو بخشش کا سبب ھے ۔یہ وجہ شبہ ھے ،اور ابن حجر نے اِس اور اِس جیسی دوسری احادیث کو بیان کرنے کے بعد کھا ھے :
ائمہ(ع)کے کشتی نوح سے مشابہ ھونے کی وجہ یہ ھے کہ جس نے ان سے محبت کی اور ان کے شرف کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کےلئے ان کی تعظیم کی اور ان کے علماء سے ھدایت حاصل کی، اُس نے تاریکیوں سے نجات پا ئی اور جس نے مخالفت کی وہ کفران ِ نعمت کے سمندر میں غرق ھو گیا اور سرکشی کے امنڈتے ھوئے سیلاب میں ھلاک ھو گیا ۔یھاں تک کہ فرمایا:(باب حطّہ ) یعنی ائمہ کی باب حطّہ سے مشابہ ھونے کی وجہ یہ ھے کہ جو بھی اس باب ”دروازہ “یعنی اریحا یا بیت المقدس میں تواضع اور استغفار کے ساتھ داخل ھوگا خدا اس کو بخش دے گا ، اسی طرح اھل بیت(ع)سے مودت و محبت کواس امت کی مغفرت کا سبب قراردیا ) ۔[69]
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس امت کےلئے اھل بیت کی محبت کو واجب قرار دیا اور ان سے متمسک رھنے کو امت کےلئے ھلاک ھونے سے امان قرار دیتے ھوئے فرمایا :”ستارے زمین والوں کےلئے غرق ھونے سے امان ھیں اور میرے اھل بیت(ع)میری امت میں اختلاف نہ ھونے کےلئے امان ھیں جب عرب کا کو ئی قبیلہ ان کی مخالفت کرے تو اُن میں اختلاف ھو جا ئیگا اور وہ ابلیس کے گروہ میں ھوجائیں گے“۔[70]
[1] تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔
[2] سورئہ رعد، آیت ۷۔
[3] تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یھی مطلب درج ھے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
[4] سورئہ حاقہ، آیت ۱۲۔
[5] کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔
[6] سورئہ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔
[7] اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مولف واحدی، صفحہ ۶۴۔
[8] سورئہ بینہ، آیت ۷۔
[9] در المنثور ”اسی آیت کی تفسیر میں “جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔
[10] سورئہ نحل، آیت ۴۳۔
[11] تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔
[12] سورئہ مائدہ ،آیت ۶۷۔
[13] ا سباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔
[14] سورئہ مائدہ ،آیت ۳
[15] دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔
[16] سورئہ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔
[17] سورئہ قصص، آیت ۳۵۔
[18] تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔
[19] در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔
[20] سورئہ شوریٰ آیت ۲۳۔
[21] مجمع الزوائد، جلد ۷، صفحہ ۱۰۳۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۲۵۔نور الابصار ،صفحہ ۱۰۱۔در المنثور، جلد ۷،صفحہ ۳۴۸۔
[22] حلیة الاولیاء، جلد ۳،صفحہ ۱۰۲۔
[23] سورئہ آل عمران، آیت ۶۱۔
[24] تفسیر رازی، جلد ۲،صفحہ ۶۹۹۔تفسیر بیضاوی ،صفحہ ۷۶۔تفسیر کشّاف، جلد ۱،صفحہ۴۹۔تفسیر روح البیان، جلد ۱،صفحہ ۴۵۷۔تفسیر جلالین، جلد ۱،صفحہ ۳۵۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۴۷۔صحیح ترمذی ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۶۔سنن بھیقی ،جلد ۷،صفحہ ۶۳۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱،صفحہ ۱۸۵۔مصابیح السنّة، بغوی، جلد ۲،صفحہ ۲۰۱۔سیر اعلام النبلاء، جلد ۳،صفحہ ۱۹۳۔
[25] تفسیر رازی، جلد ۱۰، صفحہ ۳۴۳۔اسباب النزول ، واحدی صفحہ۱۳۳۔ روح البیان ،جلد ۶،صفحہ ۵۴۶۔ینابیع المودة ،جلد ۱،صفحہ ۹۳۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۲۷۔امتاع الاسماع ،صفحہ ۵۰۲۔
[26] سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔
[27] تفسیررازی، جلد ۶، صفحہ ۷۸۳۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۳۳۱۔الخصائص الکبریٰ ،جلد ۲،صفحہ ۲۶۴۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۸۸۔تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲،صفحہ ۵۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۴،صفحہ ۱۰۷۔سنن بیہقی ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۰۔مشکل الآثار ،جلد ۱،صفحہ ۳۳۴۔خصائص النسائی صفحہ ۳۳۔
[28] مستدرک حاکم، جلد ۲،صفحہ ۴۱۶۔اسدالغابہ، جلد ۵،صفحہ ۵۲۱۔
[29] در منثور ،جلد ۵،صفحہ ۱۱۹۔
[30] ذخائر عقبیٰ ،صفحہ ۲۴۔
[31] سورئہ اعراف، آیت ۴۶۔
[32] صواعق محرقہ، صفحہ ۱۰۱۔
[33] سورئہ احزاب ،آیت ۲۳۔
[34] صواعق محرقہ ،صفحہ ۸۰۔نورالابصار، صفحہ ۸۰۔
[35] سورئہ برائت ،آیت ۱۹۔
[36] تفسیر طبری ،جلد ۱۰،صفحہ ۶۸،تفسیر رازی، جلد ۱۶،صفحہ ۱۱۔در منثور،جلد ۴،صفحہ ۱۴۶۔اسباب النزول، مولف واحدی ،صفحہ ۱۸۲۔
[37] سورئہ سجدہ، آیت ۱۸۔
[38] تفسیر طبری ،جلد ۲۱، صفحہ ۶۸۔اسباب نزول واحدی ،صفحہ ۲۶۳۔تاریخ بغداد، جلد ۱۳،صفحہ ۳۲۱۔ریاض النضرہ ،جلد ۲، صفحہ ۲۰۶۔
[39] مجمع الزوائد، جلد ۷،صفحہ ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رھا تھا اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی :< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا اٴَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ۔۔۔>سورئہ حجرات، آیت ۶۔”ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ھو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پھنچ جاؤ ۔۔۔“
[40] کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔
[41] صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۲۹۹۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۱۴۔
[42] ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۹۲۔
[43] کنز العمال ،جلد ۳،صفحہ ۶۱۔
[44] سورئہ رعد ،آیت ۴۔
[45] کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔
[46] الریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۳۔
[47] تاریخ طبری، جلد ۲،صفحہ ۱۲۷۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۲۔تاریخ ابو الفدا،جلد ۱،صفحہ ۱۱۶۔مسند احمد، جلد ۱،صفحہ ۳۳۱۔ کنزالعمال، جلد ۶،صفحہ ۳۹۹۔
[48] مراجعات، صفحہ ۲۰۸۔
[49] مراجعات، صفحہ۲۰۹۔
[50] مسند ابو داؤد، جلد ۱ ،صفحہ ۲۹۔حلیة الاولیاء، جلد ۷،صفحہ ۱۹۵۔مشکل الآثار، جلد ۲،صفحہ ۳۰۹۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱، صفحہ ۱۸۲۔تاریخ بغداد، جلد ۱۱،صفحہ ۴۳۲۔خصائص النسائی ،صفحہ ۱۶۔
[51] اسد الغابہ ،جلد ۴،صفحہ ۲۶،خصائص النسائی ،صفحہ ۱۵۔ صحیح مسلم ،کتاب فضائل الاصحاب، جلد ۷صفحہ ۱۲۰۔ سکَکَ(دونوں کاف پر فتحہ) الصمم واستکّت مسامعہ :اذا صمّ۔
[52] تاریخ بغداد، جلد ۲،صفحہ ۳۷۷۔
[53] کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۴۰۱۔
[54] کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۶۔صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۳۔
[55] الزول :یعنی جوان۔
[56] معجم الادباء، جلد ۱۷،صفحہ ۲۰۰۔
[57] صحیح ترمذی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۱۔صحیح ابن ماجہ ، صفحہ ۱۲۔تاریخ بغداد، جلد ۲، صفحہ ۲۵۵۔حلیة الاولیاء ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۵۔
[58] صحیح ترمذی ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۹۔
[59] مجمع الزوائد ، جلد ۹، صفحہ ۱۳۳۔
[60] نور الابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۲۔
[61] مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
[62] استیعاب، جلد ۲، صفحہ ۴۶۴۔
[63] مجمع الزوائد، جلد ، ۱صفحہ ۳۶۷۔
[64] صواعق محرقہ، صفحہ ۷۵۔
[65] صحیح ترمذی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۸۔
[66] صحیح ترمذی ، جلد ۲، صفحہ ۳۰۸۔کنز العمال، جلد ۱، صفحہ ۸۴۔
[67] صواعق محرقہ ، صفحہ ۷۵۔
[68] مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۶۸۔مستدرک، جلد ۲، صفحہ ۴۳۔تاریخ بغداد، جلد ۲، صفحہ ۱۲۰۔حلیة ، جلد ۴، صفحہ ۳۰۶۔ذخائر ، صفحہ ۲۰۔
[69] مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۴۹۔کنز العمال، جلد ۶، صفحہ ۱۱۶۔فیض قدیر اور مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۷۴میں آیا ھے : ستارے اھل زمین کے لئے امان ھیں اور میرے اھل بیت(ع)میری امت کے لئے امان ھیں “۔
[70] ریاض النضرہ ، جلد ۲، صفحہ ۲۵۲۔تقریباً یھی روایت صحیح ترمذی جلد ۲، صفحہ ۳۱۹ میں آئی ھے ۔سنن ابن ماجہ ، جلد ۱، صفحہ ۵۲۔