امام کے صفات

 عصمت

          نبی کی طرح امام کو بھی احکام دین اور اس کی تبلیغ و ترویج میں خطا و غلطی، سھو و نسیان سے منزہ ھونا ضروری ھے ، تاکہ دینی احکام کسی کمی اور زیادتی کے بغیر کامل طور پر اس کے پاس موجود رھے اور لوگوں کو سیدھے راستے پر چلنے اور حق تک پھنچنے کا جو فقط ایک راستہ ھے اس کو مخدوش نہ ھونے دے ، پس امام کا گناھوں سے محفوظ رھنا اور جو کچھ کھے اس پر عمل پیرا ھونا ضروری ھے تاکہ اس کے قول کی اھمیت اور ، بات کا بھرم باقی رھے اور لوگوں کا اعتماد اس سے زائل نہ ھو اگر امام گناہ کا مرتکب ھوگا تو اس کی یہ سیرت لوگوں کے لئے سر مشق عمل ھوگی جس سے نبی اور امام کے بھیجنے کا مقصد فوت ھوجائے گا نیز ان کا یہ کردار لوگوں کو اللہ کی معصیت پر ابھارنے کا باعث بنے گا ، لہذا امام کے لئے ضروری ھے احکام اسلام پر سختی سے عمل کرے اپنے ظاھر و باطن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے تاکہ اس سے خطا اور غلطی کا امکان نہ رہ جائے ۔

          مختصر یہ کہ امام کا معصوم ھونا ضروری ھے نیز امام کا دین کے تمام احکام سے واقفیت اور ھر وہ مطالب جو لوگوں کی راھنمائی اور رھبری کے لئے سزاوار ھیں اس کا جاننا ضروری ھے تاکہ انسان کے لئے سعادت و ھدایت کی شاہ راہ ھمیشہ کھلی رھے ۔

کمال اور فضیلت

          پھلی بحث میں ذکر ھوا ، امام بھی نبی کی طرح دین کے تمام احکام پر عمل اور اس کے جملہ اصول پر چل کر ایک نمایاں فرد اور کامل انسان ھوتے ھیں ، لہذا وہ سیدھے راستے پر خود بھی چلتے اور دوسروں کو بھی ساتھ میں راھنمائی و ھدایت کرتے ھیں ،یہ الٰھی معارف و حقائق کی گھٹیوں کو بخوبی درک کرتے ھیں دین کا شاھکار اور کامل ترین نمونہ ھوتے ھیں ۔

معجزہ

           اخبار و احادیث سے استفادہ ھوتا ھے کہ ائمہ طاھرین (ع) بھی تمام انبیاء کی طرح صاحب اعجاز ھوتے ھیں، فرد بشر جس کام سے عاجز ھو اس کو یہ با آسانی انجام دے سکتے ھیں ،نبی کی طرح ان کے لئے بھی امکان پایا جاتا ھے کہ اپنی عصمت و امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ کو بروئے کار لائیں اور اپنی حجت لوگوں پر تمام کریں ۔

          ہاں اگر کوئی مزید تحقیق کرنا چاھے تو حدیث اور تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کرے، اس پر حقیقت کھل کر آشکار ھو جائے گی کہ ائمہ اطہار (ع) نے کتنے مقامات پر معجزہ سے کام لیا ھے ، البتہ جتنے معجزات و مطالب ائمہ (ع) کی طرف منسوب کئے گئے ھیں ھم ان سب کی حقیقت کا دعویٰ نھیں کرتے کیونکہ مجھول مطالب کا بھی امکان پایا جاتا ھے ۔

امام کی پہچان

           امام کو دو راستوں سے پہچانا جا سکتا ھے :

          پھلا راستہ : نبی یا امام خود اپنے بعد آنے والے امام کی پہچان بیان کرے اور لوگوں کے درمیان اپنے جانشین کے عنوان سے مشخص کرے ، اگر خود امام یا نبی اس فریضہ کو انجام نہ دیں تو لوگ امام کو معین نھیں کر سکتے اس لئے کہ عصمت اور اعلمیت کے مصداق کو فقط خدا یا اس کے نمائندے ھی جانتے ھیں اور دوسروں کو اس کی خبر نھیں دی گئی ھے ۔

          دوسرا راستہ : (معجزہ) اگر امام اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ اور (خارق عادت) چیزوں کی نشان دھی کرے تو اس کی امامت ثابت ھو جائے گی کیونکہ اگر وہ اپنے امامت کے دعوے میں جھوٹا ھے تو سوال یہ ھے کہ خدا نے معجزہ سے اس کی مدد کیوں فرمائی ؟

امام اور نبی میں فرق 

          امام اور نبی میں چند جہات سے فرق پایا جاتا ھے ۔

          پھلا : نبی دین اور اس کے احکام کو لانے والے ھوتے ھیں ، لیکن امام اس کا محافظ اور معاشرے میں اس کو اجرا کرنے والا ھوتا ھے ۔

          دوسرا : نبی یا پیغمبر(ص)شریعت،اور احکام کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ھیں نیز نبی کا رابطہ خدا سے براہ راست ھوتا ھے ، لیکن امام چونکہ شریعت لانے والے نھیںھوتے اس لئے احکام ان کے لئے وحی کی صورت میں نھیں آتے،بلکہ وہ احکام کو نبی سے دریافت کرتے ھیں اور نبی کے علم میں ھدایت و راھنمائی کے عنوان سے دخالت رکھتے ھیں ۔

تشخیصِ امام اور امام کی تعداد

          جو شخص کسی قوم یا معاشرے میں نفوذ رکھتا ھو یعنی صاحب منصب و سرپرستی کے عنوان سے لوگوں کی راھنمائی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھتا ھو اگر وہ کچھ دنوں کے لئے جانا چاھے تو اس کے لئے ضروری ھے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرے اور اس نائب و جانشین میں ساری وھی ذمہ داریاں پائی جانی چاھیے جو اس سے پھلے اصل شخص میں موجود تھیں، یعنی پورے معاشرے کی سرپرستی اس کے ہاتھ میں ھو ، اس طرح کا کوئی بھی شخص بغیر کسی جانشین کے نھیں جاتا ھے، جس سے لوگوں کے تمام کام مفلوج ھو کر رہ جائیں چہ جائیکہ پیغمبر اسلام(ص) کہ آپ کو اس کا بخوبی علم تھا اور آپ اس کی اھمیت کے بھی زیادہ قائل تھے کیونکہ جب بھی کوئی دیہات یا شھر فتح ھوتا تو آپ فورا ً وہاں پر ایک گورنر معین فرماتے تھے ۔ اور جب بھی کھیں،جنگ کے لئے لشکر بھیجتے تو اس کے لئے کمانڈر اور یکے بعد دیگرے کئی فرد کو معین فرماتے تاکہ ایک شھید ھوجائے تو اس کی جگہ پر دوسرا رھے ، اور آپ بھی کھیں سفر کے لئے جاتے تو اپنا جانشین کسی کو معین فرماتے جس پر مدینہ کے تمام کاموں کی ذمہ داریاں ھوتی تھیں ۔

           کیا یہ ھوسکتا ھے کہ چھوٹے اور معمولی سفر کے لئے اپنا جانشین معین کرےں لیکن جب ھمیشہ کے لئے جا رھے ھوں تو کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ فرمائیں ؟ اور نئے مسلمان کہ جن کی بنیاد ابھی مضبوط بھی نھیں ھونے پائی تھی کہ آپ ان کو اس حالت پر چھوڑ کر چلے جائیں ، کیا یہ کوئی سونچ سکتا ھے کہ آں حضرت(ص)اپنی پوری زحمت کو بے سہارا چھوڑ کر چلے جائیں گے ؟ جب کہ آپ کو پھلے سے معلوم تھا کہ مسلمان بغیر معصوم راھنما کے زندہ اور اسلام تابندہ نھیں رہ سکتا ھے ۔

          اس لئے قطعی طور پر کھاجا سکتا ھے کہ حضرت رسول خدا(ص)نے اپنی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے میں ایک پَل کے لئے بھی فروگذاشت نھیں فرمائی اور جو بھی موقع آپ کو حاصل ھوا ، دامے درمے ، قدمے سخنے ھر طرح سے بخشش کرتے رھے ، جو رسول(ص) اپنی زندگی کے ایک لمحہ کو اسلام اور مسلمین کے لئے تشنہ نہ چھوڑے ھمیشہ کے لئے اتنا بڑا داغ اپنے سینہ پر رکھ کر کیسے سو سکتا ھے؟ ! ۔

          ھم نے اس سے پھلے ثابت کیا تھا رسول(ص) کے لئے امام کا معین کرنا نہایت ضروری ھے اس لئے کہ خدا اور رسول(ص) کے علاوہ عصمتِ باطنی سے کوئی واقفیت نھیں رکھتا ھے اگر ایسا نھیں کرتا تو گویا دین اسلام کو ناقص چھوڑ کر جارھاھے ، ھمارا عقیدہ ھے کہ رسول خدا(ص)نے مسلمانوں کے لئے اپنا جانشین معین فرمایا ھے ، حضرت نے نہ صرف اپنے بعد خلیفہٴ بلا فصل کو معین کیا ھے بلکہ اماموں کی تعداد( بارہ ھوں گی) اور بعض روایات میں ان کے اسمائے گرامی کا بھی تذکرہ کیا گیا ھے ۔

          حضور اکرم (ص)کا ارشاد گرامی ھے : میرے بعد قریش سے بارہ خلیفہ ھونگے ان کا پھلا شخص علی (ع)اور آخری مھدی (ع)موعود ھوگا ، اور جابر کی روایت میں نام بہ نام اماموں کی تصریح موجود ھے ۔[1]



[1] غایة المرام سید ہاشم بحرانی اثباة الھداة ۔ محمد بن حسن حر عاملی ۔ بحار الانوار علامہ مجلسی ۔ ینابیع المودة سلیمان حنفی شافعی ۔ صحیح ابی داؤ د۔ مسند احمد ۔ اور دیگر تمام حدیث کی کتابوں میں مذکور ھے ۔