نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مثبت انداز میں صلح کی دعوت اختیار کی ا س دعوت میں آپ نے اعلان کیا کہ میرا پیغام دین تم کو جنگوں کے عذاب سے نجات دلائے گا،آپ کی یہ دعوت مکہ میں پھیل گئی وہ مکہ جو جاھلیت کی طاقتوں کا مرکز تھا وہ طاقتیں جو قرشیوں کی شکل میں مجسم ھو ئی تھیںان قرشیوں کے نظریات جھالت ، خود غرضی اور انانیت پر مشتمل تھے نبی کے پیغام کی بنا پر ان کے غرور کا بھرم ٹوٹ گیااور ان کاجادو باطل ھوگیا، انھوں نے نبی سے مقابلہ کی ٹھان لی اور نبی پر ایمان لانے والے کوستانے کا فیصلہ کیا ان کو اذیت دینے لگے یھاں تک کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ماننے والے کو قرشیوں کی سختیوں اور ان کے قتل و غارت سے بچنے کےلئے مجبور ھو کر حبشہ ہجرت کر نا پڑی ،لیکن رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے چچا شیخ البطحاء اوران کے فرزند ارجمند امام امیر المومنین(ع) کی حمایت میں تھے اپنے چچا ابو طالب(ع)کی وفات کے بعد نبی کو کو ئی پناہ دینے والا نہ رھا اسی لئے قریش نے جمع ھوکر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کوقتل کرنا چاھا(جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں ) تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یثرب ہجرت فرماگئے ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اھل یثرب کو اپنے دین کی حمایت کرنے والااور اپنامددگار پایاتوآپ نے قرشیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے قیام کیااور ان کے سامنے بڑی سختی کے ساتھ ڈٹ گئے ،تو کفار قریش نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خلاف میدان جنگ گرم کرنے اور اقتصادی ناکہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔
امام امیر امو منین(ع) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی جانب سے ایک محکم و مضبوط طاقت بن کر سامنے آئے آپ(ع) نے قریش کی طرف سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر تھوپی جانے والی تمام جنگیں لڑیں اور رسول اسلام عام طور پر آپ(ع) ھی کوجنگ کی قیادت سونپتے تھے ،ھم ذیل میں امام(ع) کی طرف سے لڑی جانے والی بعض جنگوں کی طرف اشارہ کر رھے ھیں :
واقعہ بدر اسلام کی مدد ،مسلمانوں کی کھلم کھلا کا میابی اور شرک کی شکست فاش کے طورپر تاریخ میںدرج ھے ،جس میں اللہ نے اپنے بندے اور رسول کو عزت بخشی،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا ، اس معرکہ کو بھادری کے ساتھ لڑکر سر کرنے والے علی(ع) ھی تھے ،آپ(ع) کی تلوار موت کا پیغام تھی جس نے مشرکوں اور ملحدوں کے سروں کو کاٹ پھینکا ،آپ(ع) نے اتنی ثبات قدمی اور استقامت کے ساتھ جنگیں لڑیں کہ جبرئیل کو بھی آواز دیناپڑی :”لاسیف الَّاذوالفقارِ،وَلَافَتیٰ اَلَّاعَلِیْ “۔[1]
ھم اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ”حیاةالامام امیر المو منین(ع) “کے دوسرے حصہ میںبیان کرچکے ھیں۔
قریش جنگ بدر میں اپنی شکست فاش اور بہت زیادہ نقصان ھونے کی وجہ سے بڑے ھی رنج و الم میں تپیدہ تھے ،معاویہ کی ماں ھند بہت زیادہ آہ و فریاد کر رھی تھی ،اس نے قریش کے مردوں اور عورتوں پر جنگ بدر میں قتل ھوجانے والوں پررونا حرام قرار دیدیا تھاتاکہ حزن و اندوہ اُن کے دلوں میںچھپا رھے اوراپنے مقتولین کا انتقام لئے بغیر ختم نہ ھو ، جنگ احد میں قریش کا سردار ابو سفیان تھا، جس کو پھلی مرتبہ اس جنگ میں سرداری ملی تھی ،وہ لوگوں کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جنگ کرنے کے لئے ابھار رھا تھا ،جنگ کے لئے مال و دولت جمع کر کے اس سے اسلحہ خرید رھا تھا ، قریش رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جنگ کرنے کے لئے اس کی دعوت پر لبیک کہہ رھے تھے ،قریش نے ابوسفیان کے بھڑکانے کی بنا پرنبی کے افراد سے مقابلہ کا فیصلہ کیااور پوری تیاری کے ساتھ اپنی عورتوں کے ساتھ نکلے تا کہ جنگ میں کھرے اُتریں اُن کی قیادت ھند کر رھی تھی عورتیں دف بجا کر یہ شعر پڑھ رھی تھیں :
وَیْھاً بَنِيْ عَبْدِ الدَّارْ
وَیْھاً حُمَاةَ الْاَدْیَارْ
ضَرْباً بِکُلِّ بَتَّارْ
”اے آل عبد الدار آگے بڑھو ! اے وطن کے ساتھیوں آگے بڑھو پوری طاقت کے ساتھ حملہ کرو“۔
اس کے علاوہ ھندہ کا مخصوص ترانہ یہ تھا اور وہ کفارقریش سے بلند آواز سے خطاب کر کے کہہ رھی تھی :
اِنْ تُقْبِلُوْا تُعَانِقْ
وَنَفْرِ شِ النَّمَارِقْ
اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقْ
فِرَاقَ غَیْرِ وَامِقْ
”اگرتم آگے بڑھوگے تو ھم تم کو گلے لگا لیں گے اور تمھارے لئے بہترین بستر بچھا ئیں گے اور اگر پیچھے ہٹوگے تو ھمیشہ کے لئے تم سے جدا ھوجا ئیں گے “ ۔
مشرکین کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی اور مسلمانوں کے لشکر میں صرف سات سو آدمی تھے ، مشرکین کے لشکر کی قیادت طلحہ بن ابی طلحہ کررھاتھا جس کے ھاتھوں میں پرچم تھا اور وہ یہ نعرہ لگا رھا تھا : اے محمد کے اصحاب تم یہ گمان کر تے ھو کہ اللہ ھم کو تمھاری تلواروں کے ذریعہ بہت جلد جھنم میں بھیج دے گا ،اور تمھیں ھماری تلواروں کے ذریعہ بہت جلد جنت میں بھیج دے گا ،اب تم میں مجھ سے کون لڑے گا ؟
اسلام کے بھادر امام(ع) نے اس کا مقابلہ کرنے کےلئے پھل کی اور ایسی تلوار ماری کہ اس کے دونوں پیرکٹ گئے جس سے وہ زمین پر گر کر اپنے ھی خون میں لوٹنے لگا ۔۔۔
امام(ع) نے اُسے اسی کی حالت پر چھوڑدیا،اس کے ٹکڑے ٹکڑے نھیں کئے یھاں تک کہ وہ کچھ دیر بعدخون نکل جانے کی وجہ سے ھلاک ھو گیا ،مسلمان اُ س کے مرنے سے اتنے ھی خوش ھو ئے جتنے مشرکین اُس کے مرنے سے محزون ھوئے اور سست پڑگئے ،اس کے پرچم کو قریش کے دوسرے افراد نے سنبھالا ،امام(ع) نے ان کا مقابلہ کیا ،اپنی تلوار سے اُن کے سروں کو کاٹ ڈالا ، معاویہ کی ماں ھند قریش کے جذبات ابھارکران کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکارھی تھی اور جب ان میں سے کو ئی پیچھے ہٹ جاتاتھا تو اس کوسرمہ اورسلائی دیکر کہتی تھی: توعورت ھے اور سرمہ لگالے ۔[2]
در حقیقت یہ بڑے ھی افسوس کی بات ھے کہ مسلمان شرمناک شکست اور عظیم نقصانات سے روبرو ھوئے جن کی وجہ سے اسلام کا فاتحہ پڑھا جانا قریب تھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ لشکر اسلام کی ایک جماعت نے نبی کی جنگی ھدایات پر عمل نھیں کیا،رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو عبداللہ بن جبیر[3] کی قیادت میں ایک پھاڑ پر تعینات کردیا تھا تاکہ وہ پیچھے سے مسلمانوں کی حمایت کرتے رھیں اور ان کو تاکید فر ما دی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ھلنا ،ان کے تیر اندازوں نے اپنے تیروں سے قریش کے لشکر کو بہت زیادہ نقصان پھنچایاجس سے قریش اپنا مال اور اسلحہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ھوئے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے جب تیر اندازوںنے یہ حالت دیکھی کہ مسلمان مال غنیمت اٹھارھے ھیں تو ان سے نہ رھا گیا اور اُن میں سے بعض افراد اپنی جگہ چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت اٹھانے میں مصروف ھو گئے انھوں نے نبی کے مقرر کردہ قانون کی مخالفت کی اور اپنی جگہ چھوڑ بیٹھے ،جب خالد بن ولید نے یہ دیکھا تو اُس نے پھاڑ پر باقی بیٹھے ھوئے تیر اندازوں کو قتل کرکے پیچھے سے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اصحاب پر حملہ کردیااور ان کے کچھ افراد کو قتل کر ڈالا اور مسلمانوں کے لشکر کے بڑے بڑے سرداروں کوپیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
مسلمانوں پر شکست کے بادل منڈلانے لگے وہ حیران و پریشان ھو کر بھاگ کھڑے ھوئے ، ان پر خوف طاری ھو گیا ،انھوں نے نبی کو اللہ کی دشمنوں میں گھراھوا چھوڑ دیا ،آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو کئی کاری زخم لگ گئے اورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک گڑھے میں گر گئے جو ابو عامر کی سازش سے اسی مقصد کے لئے تیار کرکے مخفی کر دیا گیا تھاتاکہ مسلمان نا دانستہ طور پراس میںگر جا ئیں ،امام(ع)رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دا ئیں طرف تھے ، آپ(ع) نے رسول کا دست مبارک پکڑا اور طلحہ بن عبداللہ نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اٹھایایھاں تک کہ آپ کھڑے ھوگئے [4]نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امام(ع) سے مخاطب ھو کر فرمایا :یاعلی(ع) مافعل الناس ؟“ اے علی(ع) لوگوں نے کیا کیا ؟“۔
آپ(ع) نے بڑی رنجیدگی کے ساتھ جواب دیا :”انھوں نے عھد توڑ دیا اور پیٹھ پھرا کر بھاگ کھڑے ھوئے “۔ قریش کے کچھ افراد نے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر حملہ کیا جس کی بناپر نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دل تنگ ھو گیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی سے فرمایا : ”اَکْفِنِیْ ھٰوُلَاءِ “،امام(ع) نے اُن پر حملہ کیا ،سفیان بن عوف کے چار بیٹوں اور اس کے گروہ کے چھ آدمیوں کو قتل کیا ،اور بہت جد و جھد کے ساتھ دشمن کی اس ٹولی کو نبی سے دور کیا،ھشام بن امیہ کے دستہ نے نبی پر حملہ کیا تو امام(ع) نے اس کو قتل کرڈالا اور اس کا گروہ بھاگ کھڑا ھوا ، ایک اور گروہ نے بشربن مالک کی قیادت میں نبی پر حملہ کیاامام(ع) نے اس کو قتل کرڈالا تو اس کا دستہ بھی بھاگ کھڑا ھوا ،اس وقت جبرئیل نے امام(ع) کے جھاد اور آپ(ع) کے محکم ھونے کے متعلق فرمایا:”علی(ع) کے اس جذبہ ایثار وقربانی اور مو اسات سے ملائکہ حیرت زدہ ھیں “نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جبرئیل سے فرمایا :’ ’علی(ع) کو کو ئی چیز نھیں رو ک سکتی کیونکہ علی(ع) مجھ سے ھیں اور میں علی(ع) سے ھوں “،اس وقت جبرئیل نے کھا :میں تم دونوں سے ھوں “۔[5]
امام(ع) بڑی طاقت و قدرت کے ساتھ نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دفاع کر تے رھے ،آپ کو سولہ ضربیں لگیں اور ھر ضرب زمیں بوس کر دینے والی تھی ،جبرئیل [6]کے علاوہ آپ(ع) کو کو ئی سھارا دینے والا نھیں تھا ، مولائے کائنات نے راہ اسلام میں جن مصائب کا سامنا کیاان کا علم صرف خدا کو ھے “۔
اس جنگ میں اسلام کے بھادر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے چچا جناب حمزہ شھید ھو گئے ،جب ھند کو یہ خبر ملی تو وہ خوش ھو کر آپ کے لاشہ کی تلاش میں نکلی جب اس کی نظر لاش پر پڑی تو وہ کتے کی طرح لاش پر جھپٹ پڑی اور اس نے آپ کی لاش کوبری طرح مثلہ کردیا، جناب حمزہ کا جگر نکالا اوردانتوں سے چباکر پھینک دیا ، آپ کاناک اور کان کاٹ کر ان کا ھار بناکر پھن لیا ۔۔یہ بات اس کے کینہ درندگی اوروحشی پن پر دلالت کرتی ھے ،اس کا شوھر جلدی سے جناب حمزہ کی لاش پر آیا اور بغض و کینہ سے بھرے دل سے بلند آواز میں کھنے لگا : ”یااباعمارة دارالدھروحال الامر،واشتفت منکم نفسي ۔۔۔
پھر اس نے اپنا نیزہ بلند کیا اور جناب حمزہ کے لاشہ میں چبھو کر اس جملہ کو اپنی زبان پر دُھرایا : ذق عنق،ذق عنق [7]اس کے بعد وہ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈاکرکے پلٹ گیا،روایت میں آیا ھے کہ اس کا دل جناب حمزہ شھیدسے بغض، کینہ ،کفروشرک اور رذائل سے مملو تھا ۔
لیکن جب نبی کریم اپنے چچا کی لاش پر آئے جس کو ھند نے مثلہ کر دیا تھا تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بہت زیادہ محزون و رنجیدہ ھوئے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا سے مخاطب ھو کر فرمایا : ”میرے اوپر آپ(ع) کے جیسی مصیبت کبھی نھیں پڑی اور میں ایسے حالات سے کبھی دو چار نھیں ھوا مجھے اس واقعہ سے غیظ آگیا ھے اگر صفیہ کے حزن و ملال اور میرے بعد سنت بن جانے کا خوف نہ ھوتا تو میں اس کو اسی طرح چھوڑ دیتا یھاں تک کہ وہ درندوں اور پرندوں کی غذا بن جاتا ،اور اگر خدا مجھے کبھی قریش پر غلبہ دیتا تو میں اُن میں سے کم سے کم تیس آدمیوں کو مثلہ کر دیتا “۔
جب مسلمان اس مقدس اور مثلہ لاش پر آئے تو کھنے لگے :اگر خدا نے ھمیں کسی دن اُن پر فتح عنایت کی تو ھم ان کو اسی طرح مثلہ کریں گے کہ کسی عرب نے ایسا نھیں کیا ھوگا ۔۔۔اس وقت جبرئیل یہ آیت لیکر نا زل ھوئے :< وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ ۔ وَاصْبِرْوَمَاصَبْرُکَ إِلاَّبِاللهِ وَلاَتَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلاَتَکُ فِي ضَیْقٍ مِمَّا یَمْکُرُونَ>۔[8]
”اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر جتنی انھوں نے تمھارے ساتھ سختی کی ھے اور اگر صبر کرو تو صبر بھر حال صبر کرنے والوں کےلئے بہترین ھے اور آپ صبر ھی کریں کہ آپ کا صبر بھی اللہ ھی کی مدد سے ھوگا اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ھوں اور ان کی مکاریوں کی وجہ سے تنگدلی کا بھی شکار نہ ھوں “۔
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ نے بخش دیا ،صبر کیا ،اور ان کو مثلہ کرنے سے منع کرتے ھوئے فرمایا :”اِنَّ المُثْلَةَ حَرَامُ وَلَوْ بِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ“”مثلہ کرنا حرام ھے اگر چہ وہ کاٹ کھانے والا کتّا ھی کیوں نہ ھو “۔
صرف جنگ احد ھی ایسی جنگ ھے جس میں مسلمانوں کو شکست فاش ھو ئی ۔ابن اسحاق کا کھنا ھے :یوم احد بلا و مصیبت کا دن تھا جس میں اللہ نے مو من اور منافق کا امتحان لیا اور منافق واضح طور پر سامنے آگئے ،منافق اس کو کہتے ھیں جو زبان سے ایمان کا اظھار کرے اور اس کے دل میں کفر ھو ،وہ ایسا دن تھا جس
دن اللہ نے ان افراد کوشھا دت کی کرامت عطا کی جنھوں نے شھا دت [9]کی کرامت طلب کی ھے ۔ اس معرکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی(ع) کو خبردار کیا کہ مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کو کبھی بھی اس طرح کا نقصان نھیں پھنچے گا اور خداوند عالم مسلمانوں کو فتح و کامیابی سے ھمکنار کرے گا۔[10]
جنگ خندق کو” واقعہ احزاب“ کھا جاتا ھے اس کو احزاب اس لئے کھا جاتا ھے کہ اس میں کئی قبیلوں نے مل کر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جنگ کی تھی ،جس سے مسلمان تنگ آگئے تھے اور ان پر رُعب و خوف طاری ھو گیا تھا جو مشرکین کے لشکر کی طاقت کا سبب بنا اور ان سے یھودی آکر مل گئے جن کی تعداد دس ہزار تھی ،اور مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی اس معرکہ میں مسلمانوں پرجو رعب طاری ھو گیا تھا اس کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ھے :< إِذْ جَاءُ وکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اٴَسْفَلَ مِنْکُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْاٴَبْصَارُ وَبَلَغَتْ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِر>۔[11]
”اس وقت جب کفار تمھارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دھشت سے نگاھیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منھ کو آنے لگے ۔۔۔“۔
اللہ نے اسلام کی فتح وکامیابی امام المتقین امیر المو منین حضرت علی(ع) کے ھاتھوں لکھ دی تھی ،علی(ع) ھی وہ تھے جنھوں نے مشرکین پر فتح مبین پا ئی اور ان کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
جب نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو قریش اور غطفان کے قبیلوں کے جنگ کرنے کی غرض سے نکلنے کی خبر ملی تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب کو جمع کرکے اس بات کی خبر دی اور اُن سے دشمن کو روکنے کے لئے مشورہ طلب کیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جلیل القدر صحا بی سلمان فارسی نے مدینہ کے چاروں طرف خندق کھودنے کا مشورہ دیا ۔نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس مشورہ کو درست ٹھھرایا اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے اصحاب کے ساتھ خندق کھودنے کےلئے کھڑے ھوگئے یہ مسلمانوں کے لئے دشمنوں کے شر سے بچنے کے لئے اچھی حکمت تھی ، قریش وھاں پر آکر ٹھھر گئے ، اور اس سے آگے بڑھنے کےلئے ان کے پاس کو ئی چارہ نھیں تھا اور وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے کےلئے ان کے پاس نھیں پھنچ سکتے تھے ،اس جنگ میں بڑے بڑے افراد نے خد مت کی ،اور فریقین کے درمیان تیر اندازی کرنے کے علاوہ عام طریقہ سے جنگ کر نے کا کو ئی امکان نھیں تھا ۔
قریش کے قبیلوں کو ایک ساتھ مل کرحملہ کر کے کا میابی کا امکان نھیں تھا لہٰذا انھوں نے خندق کے پاس کی ایک تنگ جگہ تلاش کی اور اس میں گھوڑوں کو ڈال کر خندق پار گئے، ان میں عمرو بن عبد ود بھی تھا جوجاھلیت میں قریش اور کنانہ کا شھسوار شمار ھوتا تھا ،جو ہتھیاروں سے اس طرح لیس تھا گویا ایک قلعہ ھو وہ اپنی طاقت کی وجہ سے جھوم رھا تھا ،جب مسلمانوں نے اس کو دیکھا تو اُن پر خوف طاری ھو گیااور عمرو ان کے سامنے ٹھلنے لگا ،اُس نے مسلمانوں کوتحقیرسے بلند آواز میں کھا :اے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھیو!کیا تم میں کو ئی میرا مقابلہ کرنے والا ھے ؟
مسلمانوں کے دل دھل گئے ،اُن پر خوف طاری ھو گیا ،اس نے دوبارہ مبارز طلب کیا!کیا تم میں کو ئی میرا مقابلہ کر نے والا ھے ؟
کسی نے کو ئی جواب نھیں دیا،لیکن اسلام کے بھا در امام امیر المو منین(ع) نے عرض کیا :
”اَنَالَہُ یَارَسُوْ لَ اللّٰہ“ ۔
”یارسول اللہ میں اس کا مقابلہ کر وں گا “۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا زاد بھا ئی کے سلسلہ میں کچھ خوف کھا تے ھوئے فرمایا :”اِنَّہُ عَمْرُو!“ ”یہ عمرو ھے “۔
امام(ع) پیغمبر کے حکم کی تعمیل کر تے ھوئے بیٹھ گئے ،عمرو نے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ھوئے پھر اس طرح مبارز طلب کیا : اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اصحاب ،تمھاری وہ جنت کھاں ھے جس کے متعلق تم یہ گمان کرتے ھو کہ قتل ھونے کے بعد اس میں جا ؤ گے ؟کیا تم میں سے کو ئی اس میں جانا چا ہتا ھے ؟
مسلمانوں میں خاموشی چھا ئی ھو ئی تھی ،امام(ع) نبی سے اجازت لینے پرمصرتھے ، نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس بھی اذن دینے کے علاوہ اور کو ئی چارہ نھیں تھا ،آ نحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امام(ع) کو شرف و عظمت کاعظیم الشان تمغہ دیااور فرمایا : ”بَرَزَالْاِیْمَانُ کُلُّہُ الیٰ الشِّرْکِکُلِّہِ”کل ایمان، کل شرک کا مقابلہ کر نے کے لئے جا رھا ھے “ ۔
یہ خورشید کی مانند روشن و منورتمغہ ھے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حسین(ع) کے پدر بزرگوار کوکل اسلام کی شکل میں مجسم کیا اورعمرو کوکل شرک میں مجسم فرمایا ،اس کے بعد نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے ھاتھو ں کو آسمان کی جانب بلند کرکے گڑگڑاکریو ں اپنے چچا زاد بھا ئی کی حفاظت کے لئے دعا فر ما ئی :”خدایا تو نے مجھ سے حمزہ کو احد میں لے لیا ،بدر میں عبیدہ کو ، آج کے دن علی(ع) کی حفاظت فرما۔۔۔پروردگار !مجھے اکیلا نہ چھوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ھے “۔
امام(ع) عمرو بن عبد ود سے بغیر کو ئی خوف کھائے ھوئے اس سے جنگ کے لئے روانہ ھوئے آپ(ع) نے بے نظیر عزم و ثبات کا مظاھرہ کیا اور عمرو ،اُس جوان سے بہت ھی متعجب ھواجس کو اُس (عمرو )کی کو ئی پروا ھی نھیں تھی ۔عمرو نے کھا :تم کون ھو ؟
امام(ع) نے اس کا مذاق اڑاتے ھوئے جواب دیا :”میں علی بن ابی طالب ھوں “۔
عمرو نے امام(ع) سے شفقت و مھربا نی کا مظاھرہ کرتے ھوئے کھا:”تمھارا باپ میرادوست تھا۔
اما م کو اس کی صداقت کا یقین نہ ھوا اور اس سے فرمایا :اے عمرو !تونے اپنی قوم سے یہ عھد کیا ھے کہ اگر قریش کا کو ئی شخص تجھ سے تین شرطیں کر ے گا تو ،تو ان میں سے ایک شرط کو قبول کرلے گا ؟۔
عمرو بن عبد ود :ھاں یہ میرا عھد ھے ۔
امام(ع) :میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ھوں ۔
عمرو ھنسا اور اس نے امام(ع)کا مذاق اڑاتے ھوئے کھا :کیا میں اپنے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑدوں ؟ ان باتوں کو چھوڑ ئے ۔
امام(ع):میں تجھ سے ھاتھ اٹھا ئے لیتا ھوں ،تجھ کو قتل نھیں کرتا ،تو پلٹ جا؟۔۔۔
عمرو نے اس جوان کی اس جرات و ھمت پر غضبناک ھو کر کھا :اب آپ(ع) مجھ سے بھاگ جانے کی بات کر رھے ھیں !
امام(ع) نے اس کے اپنے نفس سے کئے ھوئے عھد کی تیسری بات بیان کرتے ھوئے فرمایا : اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آ؟“۔[12]
عمرو اس جوان کی اس ھمت و جرات اور اپنی شخصیت کےلئے اس چیلنج اور اپنی اھانت پر بہت زیادہ حیرت زدہ ھوا،وہ اپنی سواری سے نیچے اتر آیااور اس نے اپنی تلوار سے امام کے سر پر وار کیا امام(ع) نے اس کو اپنی ڈھال پر روکا تو وہ ڈھال کو کاٹ کر آپ کے سر تک پھنچی جس سے آپ کا سرشگافتہ ھو گیا ،مسلمانوں کو امام کے اپنے رب حقیقی کی بارگاہ میں جانے کا یقین ھو گیا ،لیکن اللہ نے امام(ع)کی نصرت و مدد کی آپ(ع) نے عمرو کو ایسی ضرب لگا ئی کہ قریش کا یہ بھادر تلملا کے رہ گیااور کفرو شرک کا یہ نمائندہ اپنے ھی خون میں ذبح کئے ھوئے حیوان کی طرح لوٹنے لگا ۔
امام اور مسلمانوں نے نعرئہ تکبیر بلند کیا ،شرک کی کمر ٹوٹ گئی ،اس کی طاقتیں سست ھو گئیں ، اسلام کو امام المتقین کے ھاتھوں یقینی کا میابی ملی ،نبی نے تاریخ میںھمیشہ کی خاطر امام(ع) کےلئے یہ جملہ ارشاد فرمایا :”خندق کے دن علی بن ابی طالب کی ضربت میری امت کے قیامت کے دن تک کے اعمال سے افضل ھے “۔[13]
جلیل القدر صحابی حذیفہ بن یمان کا کھنا ھے :جنگ خندق میںمولائے کا ئنات کے ھاتھوں عمرو کی ھلاکت اگر تمام مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دی جا ئے توسب کے شامل حال ھو گی ۔ [14]
اس وقت نبی اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر یہ آیت نازل ھو ئی :< وَکَفیٰ اللّٰہُ المُومِنِیْنَ الْقِتَالَ >۔[15]
”اور اللہ نے مو منین کو جنگ کی دشواری سے محفوظ رکھا“۔
ابن عباس اپنی تفسیر میں بیان کرتے ھیں : ”اللہ نے مو منین کوجنگ سے علی(ع) کے جھادکے ذریعہ بچالیا “[16]۔
امام(ع)نے قریش کے دوسرے بھادر نوفل بن عبد اللہ کو قتل کیا جس سے قریش کو شکست فاش ھو ئی اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا :”الآن نغزوھم ولایغزوننا“۔
”اب ھم ان سے جنگ کریں گے اور انھیں ھم سے جھاد کی اجازت نہ ھو گی“۔[17]
قریش گھاٹا اٹھاکر پلٹ گئے ،ان کو شکست فاش ھو ئی اور مسلمانوں کا اس جنگ میں کو ئی نقصان نھیں ھوا ۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عزت بخشی اور قریش ذلیل و رسوا ھوئے تو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے یہ مشاھدہ فرمایا کہ مسلمانوں کے ا مور اس وقت تک درست نھیں ھوں گے اورنہ ھی حکومت برقرارھوگی جب تک یھودیوں کا نظام مو جود ھے جو ھمیشہ سے اسلام کے سخت دشمن تھے اور ان (یھودیوں )کی پوری طاقت وقوت خیبر کے قلعہ میںمحصور تھی جو اس زمانہ کے رائج اسلحوں کا کا رخانہ تھا ،منجملہ وھاں ایسے ایسے ٹینک نماتوپ خانے تھے جو گرم پانی اور آگ میں تپا ھواسیسہ پھینکتے تھے اور یھود ی اسلام دشمن طاقتوں کو ھر طرح کی مسلح فوجی مدد پھنچاتے تھے ۔
نبی نے قلعہ خیبر پر حملہ کر نے کےلئے لشکر بھیجا اور لشکر کا سردار ابو بکر کو بنایا ،جب وہ قلعہ خیبر کے پاس پھنچے تو وہ شکست کھا کر اور مرعوب ھو کر واپس پلٹ آئے ،دوسرے دن عمر کو لشکر کا سردار بنا کر بھیجا وہ بھی پھلے سردار کی طرح واپس آگئے اور کچھ نہ کر سکے اور قلعہ کا دروازہ یوں ھی بند رھا اور کوئی بھی اس تک نہ پھنچ سکا ۔
جب لشکر قلعہ کا دروازہ نہ کھول سکا اور دونوں سردار وں کی سردار ی کچھ کام نہ آسکی تو نبی نے اعلان فرمایاکہ اب میں اس کو سردار بناؤں گا جس کے ھاتھ پر اللہ فتح عنایت فر مائے گا چناچہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: ”میں کل علم اس کو دوں گا جس کو اللہ اور اس کا رسول دوست رکھتے ھوں گے اور وہ اللہ اور رسول کو دوست رکھتا ھوگا اور وہ اس وقت تک واپس نھیں آئے گا جب تک اللہ اس کے ھاتھ پر فتح نہ دیدے ۔۔۔“۔[18]
لشکر انتھائی بے چینی کے عالم میںایسے سردار کوعلم دئے جانے سے آگاہ ھوا جس کے ھاتھ پر اللہ فتح عنایت کرے، اس کے گمان میں بھی نھیں تھا کہ اس عھدہ پرامام(ع)فائز ھوں گے، اس لئے کہ آپ آشوب چشم میں مبتلا تھے،جب صبح نمودار ھوئی تو نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کو بلایا جب آپ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ھوئے تو آپ کی آنکھوںمیں آشوب تھا آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنا لعاب دھن لگایا تو آنکھیں بالکل ٹھیک ھوگئیں اور آپ(ع) نے علی(ع) سے فرمایا:”خُذْ ھٰذِہِ الرّایَةَ حَتَیّٰ یَفْتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکَ ۔۔۔“۔”یہ علم لیجئے یھاں تک کہ خدا آپ کو فتح عنایت کرے گا۔۔۔“۔
شاعر مو ھوب یزدی نے اس واقعہ کو یوں نظم کیا ھے :
وَلَہُ یَوْمَ خَیْبَرفَتکاتُ
کَبُرَتْ مَنْظَراً علیٰ مَنْ رَآھا
یَوْمَ قَالَ النَّبِیْ اِنِّیْ لَاُعْطِي
رَاَیْتِیْ لَیْثَھَاوَحَامِي حِمَاھَا
فَاسْتَطَالَتْ اَعْنَاقُ کُلِّ فَرِیْق
لِیَرَوْا اَيَّ مَاجِدیُعْطَاھَا
فَدَعَا اَیْنَ وَارِثُ الْعِلْمِ وَالْحِدْمِ
مُجِیْرُ الایَّامِ مِنْ بَاسَاھَا؟
اَیْنَ ذُوْالنَّجْدَةِ الَّذِيْ لَوْ دَعَتْہُ
فِيْ الثُّرَیَّامَرَوْعَةً لَبَّاھَا
فَاتَاہُ الوَصِيُّ اَرْمَدَ عَیْن
فَسَقَاہُ مِنْ رِیْقِہِ فَشَفَاھَا
وَمَضیٰ یَطْلُبُ الصُّفُوْفَ فَوَلَّتْ
عَنْہُ عِلْماً بِاَنَّہُ اَمْضَاھَا[19]
”خیبر میں آپ(ع) نے ایسے حملے کئے جو ششدر کرنے والے تھے ۔
جس دن نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایاکہ میں پرچم بھادر اور محافظ شخص کو دوں گا ۔
اسی لئے ھر فریق یہ دیکھنے کا منتظر تھا کہ پرچم کس کو ملے گا ۔
اُن ھی لمحات میں نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آواز دی کہ علم و حلم کا وارث اور ایام کی قسمت پھیرنے والا کھاں ھے ؟
وہ مدد گار کھاں ھے جس کو اگر کو ئی ثریا میں مدد کے لئے پکارے تو وہ لبیک کہہ دے گا ۔
اس وقت علی(ع) آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس اس عالم میںآئے کہ آشوب چشم میں مبتلا تھے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے لعاب دھن کے ذریعہ اُن کو شفابخشی۔
اس وقت علی(ع) نے کفار کی صفوں پر حملہ کیایہ دیکھ کر کفار پیٹھ پھرا کر بھاگ گئے چونکہ وہ جانتے تھے کہ علی(ع) انھیں زندہ نھیں چھوڑیں گے “۔
اسلام کے بھادر نے بڑی طاقت عزم و ھمت و ثبات قد می کے ساتھ علم لیااور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ سے عرض کیا : ”اُقَاتِلُھُمْ حَتّیٰ یَکُوْنُوامِثْلَنَا؟“کیا میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ ھماری طرح مسلمان نہ ھو جا ئیں “رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ نے فرمایا:”انفُذْ عَلیٰ رَسْلِکَ حتّیٰ تَنْزِلَ بِسَاحَتِھِمْ ، ثُمَّ ادْعُھُمْ اِلیٰ الاِسْلَامِ ،وَاَخْبِرْھُمْ بِمَایَجِبُ اِلَیْھِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ ،فَوَاللّٰہِ لَاَنْ یَھْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاًوَاحِداًخَیْرٌلَّکَ مِنْ اَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمْر ُالنِّعَمِ“۔[20]
”اپنا پیغام لے کر جا ؤیھاں تک کہ ان کے علاقہ میں پھنچ جا ؤ،ان کو اسلام کی دعوت دو اوران کو خدا کے اس حق سے آگاہ کرو جو اُن کے ذمہ واجب ھے ،کیونکہ خدا کی قسم اگر تمھارے ذریعہ خدا ایک انسان کی ھدایت کر دے وہ تمھارے لئے سُرخ چو پایوں سے بہتر ھے “۔
آج لشکر کاسردار بڑے ھی اطمینان کے ساتھ بغیر کسی رعب و خوف کے تیزی سے چلا ،جبکہ اس کے ھاتھوں میں فتح کا پرچم لھرا رھا تھااُ س نے باب خیبر فتح کیااور اس کو اپنی ڈھال بنالیاجس کے ذریعہ اس نے یھودیوں سے اپنا بچاؤ کیا۔[21] خوف کی وجہ سے یھودیوں کے کلیجے منھ کو آگئے وہ بہت زیادہ سھم گئے ،کہ یہ کون بھادر ھے جس نے قلعہ کے اس دروازہ کوکھول کر اپنی ڈھال بنالیا ھے جسے چالیس آدمی کھولتے تھے[22] یہ بڑے تعجب کی بات ھے ۔
یھودیوں کے بھادر مرحب نے اپنا مبارز طلب کیاجس کے سر پر یمنی خود تھاجس میں ایک پتھر نے سوراخ کردیا تھا اور اُس نے یہ خود اپنے سر پر رکھ لیا تھااوریہ رجز پڑھ رھا تھا :
قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّي مَرْحَبُ
شَاکی السَّلاحِ بَطَلُ مُجَرَّب
اِذَا اللُّیُثُ اَقْبَلَتْ تَلْتَھِبُ
”خیبر والوں کو معلوم ھے کہ میں مرحب ھوں ہتھیاروں سے لیس ھوں بھادر ھوں تجربہ کا رھوں میرے سامنے اچھے اچھے بھادر کا نپتے ھیں “۔
اسلام کے حا می علی(ع) نے اس کا استقبال کیا،حالانکہ آپ سرخ جبّہ زیب تن کئے ھوئے تھے اور آپ(ع) نے یوں رجز پڑھا:
”انا الذی سَمَّتْنِ اُمِّیْ حَیْدَرَہُ
ضِرْغَامُ آجَامٍ وَلَیْثُ قَسْوَرَہْ[23]
عَبْلُ الذَّرَاعَیْنِ شَدیدُ قَسْوَرَہْ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ المَنْظَرَہ
اَضْرَبُ بِالسَّیْفِ رقَابَ الْکَفَرہ
اَ کَیْلُھُمْ بِالسَّیْفِ کَیْلَ السَنْدَرَہ“ [24]
”میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ھے میں شیر بیشہ ھوں اور اچانک حملہ کرنے والا ھوں ۔
طاقتور ھوں ،شیرِ جنگل کی مانند ھو ں جو دیکھنے میں بُرے معلوم ھوتے ھیں ۔
میں ذوالفقار کے ذریعہ کفار کو تہہ تیغ کرتا ھوں میں کفار میں سخت خو نریزی پھیلاتا ھوں “
راویوں کے درمیان اس سلسلہ میں کو ئی اختلاف نھیں ھے کہ یہ شعر امام(ع)[25] کا ھے اور یہ شعر امام(ع) کی کفار اور مارقین کے مقابلہ میں شجاعت اور ثبات قدمی کی ترجمانی کر رھا ھے ۔
امام(ع) نے آگے بڑھ کر شجاعت و بھا دری کے ساتھ مرحب پر حملہ کیا اور ایسی تلوار لگا ئی جواس کا خودکاٹ کر اس کے سر میں در آئی اور وہ زمین پر گر کر اپنے ھی خون میں لوٹنے لگا ،پھر آپ(ع) نے اس کے جسم کو وحشی و جنگلی جانوروں اور پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیا ،اس طرح خداوند عالم نے اسلام کی قاطعانہ مدد کی ،خیبر کا قلعہ فتح ھوگیا ،اللہ نے یھودیوں کو ذلیل و رسوا کیا ،اور امام(ع) نے ان کو ایسا درس دیا جس کو وہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے ۔[26]
اللہ نے اپنے بندے اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو فتح مبین عطا کی ،اور دشمن طاقتوں کو ذلیل کیا ،اور رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی مخالف طاقتوں کو گھاٹا اٹھانا پڑا ،جزیرة العرب کے اکثر علاقوں میں اسلامی حکومت پھیل گئی ،توحید کا پرچم بلند ھوا ،نبی نے یہ مشاھدہ کیا کہ جب تک مکہ فتح نہ ھوآپ کو مکمل فتح نصیب نہ ھوگی، مکہ جو شرک و الحاد کا گڑھ تھااور جب نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مکہ میں تھے تو مکہ والوں نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خلاف جنگ کا اعلان کیاتھااور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) دس ہزار یا اس سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس سپاھیوں کے ساتھ راھی مکہ ھوئے جبکہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی روانگی کا علم کسی کو نھیں تھا ،اس وقت آپ کے لشکر والوں کو اس بات کا خوف نھیں تھا کہ قریش آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خلاف مقابلہ کے لئے آمادہ ھوجا ئیں گے جس کے نتیجہ میں محترم شھر میں خون بھے گا ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی آما دگی کو چھپائے رکھاتاکہ مکہ والوں کو یکایک اپنی عسکری طاقت سے مرعوب کر یں ۔
اسلام کا لشکربہت تیزی کے ساتھ چلا یھاں تک کہ ان کو شھر مکہ نظر آنے لگا اور مکہ والوں کو اس کی خبر بھی نھیں تھی، نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے لشکر کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا اور انھوں نے کثیر تعداد میں لکڑیاں جمع کیں ، جب گُھپ اندھیرا ھو گیا تو لکڑیوں میں آگ لگانے کا حکم دیا ،آگ کے شعلے اتنے بلند تھے جو مکہ سے دکھا ئی دے رھے تھے ابو سفیان نالہ و فریاد کرنے لگا اور اس نے خوف کے مارے اپنے ایک طرف بیٹھے ھوئے بدیل بن ورقاء سے کھا :میں نے رات کے وقت کبھی ایسی آگ نھیں دیکھی ۔
بدیل نے کھا :خدا کی قسم یہ قبیلہ خزاعہ ھے جوجنگ کی آگ بھڑکارھا ھے ۔
ابو سفیان نے اس کا مذاق اڑاتے ھوئے کھا :قبیلہ خزاعہ میں اتنے لشکر اور نیزے نہ ھوتے ابوسفیان پر خوف طاری ھوگیا ،عباس اس کے پاس آئے گویا ان کو مکہ پر حملہ کرنے کی غرض سے آنے والے اسلامی لشکروں کا علم تھا ،عباس نے ابوسفیان سے رات کی تاریکی میں کھا :اے ابو حنظلہ ۔
ابو سفیان نے ان کو پہچان لیا اور کھا :کیایہ ابو الفضل ھے ؟
ھاں ۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوں ۔
اے ابو سفیان تجھ پر وائے ھو ، یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور قریش کے درخشندہ ستارے ھیں ۔
ابو سفیان کا خون جم گیا وہ اپنے اور اپنی قوم کے متعلق خوف کھا نے لگا ،اس نے حیران و پریشا ن ھوتے ھوئے کھا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوں میں اب کیا تدبیر کروں ؟
جناب عباس نے یہ کہتے ھوئے اس کی ایسے راستہ کی طرف ھدایت کی جس سے اس کا خون محفوظ رھے :خدا کی قسم اگر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تجھ پر فتح پا گئے تو وہ تیری گردن اڑادیں گے ،لہٰذا تم اس گدھے پر سوار ھو کر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں جاؤ اور ان کی پناہ مانگو ۔
وہ بہت ھی مضطرب و پریشان تھا اس نے پوری رات جاگ کر بسر کی ،وہ نھیں جانتا تھا کہ عنقریب اس پر کیا گذرنے والی ھے ،اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف بہت مظالم ڈھائے تھے ۔جب وہ نبی کے سامنے پھنچا تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے فرمایا :”کیا ابھی اس بات کا وقت نھیں آیاکہ تجھ کو معلوم ھوجائے کہ اللہ کے علاوہ اور کو ئی خدا نھیں ھے ؟“۔
پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس کی طرف سے ڈھا ئی جانے والی طرح طرح کی مشکلات کی طرف توجہ نھیں کی اور اُن کی پردہ پو شی کی تاکہ اسلام کی اصلی روح کی نشر و اشاعت کر سکیں جس میں دشمنوں سے انتقام کی بات نھیں ھو تی ھے ۔
ابو سفیان نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے گڑگڑانے لگا اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یوں معافی مانگنے لگا :”میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کتنے بردبار ،کریم اور صلہ رحم کرنے والے ھیں خدا کی قسم میں یہ گمان کرتا ھوں کہ اللہ کے علاوہ اگر کو ئی اور خدا ھوتاتو میں اس سے بے نیاز ھوتا “۔
نبی اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مھربانی سے یوںفرمایا: اے ابو سفیان تجھ پر وائے ھو ،کیا میں نے تیرے لئے یہ بیان نھیں کیا کہ تو جانتا ھے کہ میں اللہ کا رسول ھوں ؟“۔
ابوسفیان اپنے دل میں مخفی کفر وشرک و الحاد کو نہ چھپاسکا اور اس نے کھا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوجا ئیں ،آپ کتنے حلیم ،کریم اور صلہ رحم کرنے والے ھیں میرے دل میں اب بھی شرک کا شائبہ موجود ھے ۔
جناب عباس نے ایمان نہ لانے کی صورت میںاس کودرپیش خطرے سے آگاہ کرتے ھوئے یوں گویا ھوئے :تجھ پر وائے ھو مسلمان ھوجا !اس سے پھلے کہ تیری گردن اڑا ئی جائے کہہ دے: اشھد ان لا الٰہ الّااللّٰہ واَنَّ محمداًرسول اللّٰہ ۔
خبیث کبھی بھی پلیدگی و گندگی سے پاک نھیںھوسکتا ،لہٰذا اس نے بڑی کراہت کے ساتھ زبان سے اسلام کا اعلان کیا لیکن اس کے دل میں کفر و نفاق اسی طرح موجیں مارتا رھا ۔
نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا عباس سے ابو سفیان کو ایک تنگ وادی میں قید کرنے کے لئے کھا تاکہ اس کے پاس سے لشکر اسلام گذرے جس کو دیکھ کر قریش ڈرجا ئیںجناب عباس اس کو لیکر ایک تنگ وادی میں گئے اور اس کے پاس سے ہھتیاروں سے لیس لشکراسلام گذراتو جناب عباس نے اس سے سوال کیا :یہ کون ھے ؟
سلیم۔
میرے اور سلیم کے مابین کیا ھے ؟
اس کے پاس سے لشکر کی دوسری ٹکڑی گذری تو اس نے عباس سے کھا: یہ کون ھے ؟
مزینہ ۔
میرے اور مزینہ کے ما بین کیا ھے ؟
اس کے بعد اس کے پاس سے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کاھرے جھنڈوں والا گروہ گذرا جن کے ھاتھوں میںننگی تلواریں تھیں اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو بڑے بڑے اصحاب اپنے گھیرے میں لئے ھوئے تھے، ابو سفیان مبھوت ھو کر رہ گیا اور اس نے سوال کیا کہ :یہ کس کا گروہ ھے ؟
یہ مھاجرین اور انصار کے درمیان رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھیں ۔
آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھتیجے کا ملک بڑا ھو گیا اور ان کی حکومت وسیع ھو گئی ۔
جناب عباس نے کھا :اے ابو سفیان ،یہ نبوت ھے ۔
ابو سفیان نے اپنا سر اٹھاتے ھوئے مذاقیہ لہجہ میں کھا :ھاں تبھی تو ۔
یہ جا ھل شخص ایمان لانے والا نھیں تھا، وہ اس کو بادشاہت و سلطنت سمجھ رھا تھا ، پھر عباس نے اس کو آزاد کر دیا تو وہ جلدی سے مکہ واپس پلٹ گیا اور اس نے یہ کھا :اے معشر قریش یہ جو کچھ تمھارے پاس لیکر آئیں اس کو قبول نہ کرنا ،اور جو بھی ابو سفیان کے گھر میں داخل ھو جائے گا وہ امان میں رھے گا ۔۔۔۔
قریش نے اس سے کھا :ھمیں تمھارے دروازے کی ضرورت نھیں ھے ۔
جو اس کا ذروازہ بند کرے گا وہ امان میں ھے اور جو مسجد میں داخل ھوگا وہ بھی امان میں رھے گا۔
قریش کو کچھ سکون ھوا تو انھوں نے جلدی سے ابو سفیان کے گھر اور مسجد کا گھیرا ڈال دیا ۔ھند ابوسفیان کے پاس بڑے رنج و غم سے بھرے دل کے ساتھ گئی وہ چیخ چیخ کر ابو سفیان کے خلاف قوم کو ابھار رھی تھی کہ اس خبیث و پلید کو قتل کردو ۔۔۔
ابو سفیان اُن کو ایسی غلطی کرنے سے روک رھا تھا اور ان سے تسلیم ھونے کو کہہ رھاتھا ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے اسلامی لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ھوئے جس کے ذریعہ اللہ نے قریش کو ذلیل کیا ،کمزور مسلمانوں کو خو شبخت کیا ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کعبہ کی طرف متوجہ ھوئے ، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ان بتوں کا صفایاکیا جن کی قریش پرستش کیا کرتے تھے ،نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ھُبل کی آنکھ پر کمان مارتے ھوئے فرمایا :”جَا ءَ الحَقّ وَزَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا“”حق آیا باطل مٹ گیا بیشک باطل کو تو مٹنا ھی تھا “اس کے بعد نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کو حکم دیا کہ وہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کندھوں پر چڑھ کر بتوں کو توڑدیں ،اور بیت اللہ الحرام کو پاک کریں آپ(ع) اُن بتوں کو اٹھا اٹھا کر نیچے پھینکتے جا رھے تھے ،یھاں تک کہ آپ(ع) نے سب کا صفایا کر دیا، یوں اسلام کے بھادر کے ھاتھوں بتوں کا صفایا ھوا ،جس طرح آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جد خلیل نے بتوں کو تھس نھس کیا تھا۔
[1] کنز العمال ، جلد۳،صفحہ ۱۵۴ ،وغیرہ
[2] میزان ،جلد ۴،صفحہ ۱۲۔
[3] سیرئہ نبویہ ،جلد ۲،صفحہ۶۸۔
[4] سیرئہ نبویہ ،جلد۲،صفحہ ۷۴۔
[5] حیاةالامام امیر المو منین(ع) ،جلد ۲،صفحہ ۲۰۔
[6] اسدالغابہ، جلد ۴،صفحہ ۹۳۔
[7] امام علی بن ابی طالب، جلد۱،صفحہ ۸۲۔
[8] سورئہ نحل، آیت ۱۲۶۔۱۲۷۔
[9] سیرة النبویہ، جلد ۲،صفحہ ۱۰۵۔
[10] تاریخ ابن کثیر،جلد ۴،صفحہ ۴۷۔اس طرح معرکہ احد تمام ھوا ،ھم نے اس معرکہ سے متعلق بعض چیزوں کو(حیاة الامام امیر المومنین(ع) کے دوسرے حصہ میں بیان کیا ھے )۔
[11] سورئہ احزاب، آیت ۱۰۔
[12] مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۳۲۔
[13] تاریخ بغداد ،جلد ۱۳ ،صفحہ ۱۹۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۳۲۔
[14] رسائل الجاحظ، صفحہ ۶۰۔
[15] سورہ احزاب، آیت ۲۵۔
[16] حیاة الامام امیر المومنین(ع)، جلد ۲،صفحہ ۲۷۔
[17] اعیان الشیعہ، جلد ۳،صفحہ ۱۱۳۔
[18] حلیة الاولیاء، جلد ۱،صفحہ ۶۲۔صفوة الصفوة ،جلد ۱،صفحہ ۱۶۳۔مسند احمد،حدیث نمبر ۷۷۸۔
[19] شرح الارزیة، صفحہ ۱۴۱۔۱۴۲۔
[20] صفوة الصفوة ،جلد ۱،صفحہ ۱۶۴۔صحیح البخاری ،جلد ۷،صفحہ ۱۲۱۔
[21] حیاة الامام امیر المومنین(ع)، جلد۲،صفحہ ۳۰۔
[22] تاریخ بغداد ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۴۔میزان الاعتدال، جلد ۲،صفحہ ۲۱۸۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۳۶۸۔اورریاض النضرہ ،جلد ۲ ،صفحہ ۱۸۸میں آیا ھے کہ دروازہ کو ستر آدمیوں نے بڑی ھمت سے اس کی اصلی جگہ پر پھنچا یا۔
[23] آجام اجمّہ کی جمع ھے اور ان گھنی پتوں اور شاخوں دارجھاڑیوں کو کھا جا تا ھے جن کے پیچھے شیر بیٹھ کر اپنے شکار کی تلاش میں رہتا ھے ، یھاں پر امام(ع) کی طاقت و قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ھے اور آپ نے اجمہ واحد کی ھی حمایت نھیں کی بلکہ آجام کی مدد کی ھے ۔ قسورہ رات کے پھلے حصہ کو کھا جاتا ھے اور یہ شیر کے معنی میں استعمال ھوتا ھے ، قسورہ قسر سے مشتق ھے کیونکہ شیر اپنا شکار بہت زبر دست طریقہ سے حاصل کرتا ھے ۔
[24] کھا گیا ھے کہ یہ ایک پیمانہ ھے اس کا مطلب یہ ھے کہ میں تمھارے ساتھ بہت وسیع طریقہ سے جنگ کرونگااور اس کے علاوہ معنی بیان کئے گئے ھیں ۔
[25] خزانة الادب، جلد ۶،صفحہ ۵۶۔
[26] حیاة الامام امیر المومنین(ع)(ع) ، جلد ۲،صفحہ ۳۰۔